مسجد ذو الحلیفہ

ویکی شیعہ سے
مسجد ذوالحلیفہ
ابتدائی معلومات
استعمالمسجدمیقات
محل وقوعمدینہ
دیگر اسامیمسجد شجرہ • مسجد الاحرام • مسجد المیقات • مسجد آبار علی
مشخصات
معماری
ویب سائٹشبکه جهانی الکفیل


مدینے کے نزدیک مسجد ذوالحلیفہ

مسجد ذوالحلیفہ مدینہ کی ان تاریخی مساجد میں سے ہے جو آبارعلی کے قریب واقع ہے اور مسجدالنبی سے جنوب غرب میں 8کلومیٹر کے فاصلے پر مکہ کے راستے پر موجود ہے ۔ ذوالحلیفہ ان لوگوں کیلئے میقات ہے جو عمره تمتّع اور عمره مفرده کیلئے مدینہ سے مکہ آتے ہیں۔اس مقام کے دیگر اسما مسجد شجره اور مسجد الاحرام ہیں۔ پیغمبر اکرم بھی اپنے عمره اور حج تمتع کے سفر میں اسی میقات پر محرم ہوئے تھے۔

جغرافیائی حدود

تفصیلی مضمون: آبار علی

آبار علی، علی کے کنوؤں کے معنا میں ہے جو باغات سے پوشیدہ ہیں ۔یہ مدینہ شہر سے 8کلومیٹر جنوب میں واقع ہے جہاں پانی کے منویں موجود ہیں ۔کہا جاتا ہے کہ حضرت علی نے ان کنوؤں کو کھودا تھا۔یہ حج کے میقات میں سے ایک ہے۔ آجکل یہ الفاظ :آبارعلی ، ذوالحلیفہ اور مسجد شجره سے اس علاقے کی طرف اشارہ کرنے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔

دیگر اسما

یہ جگہ مختلف اسما سے مشہور ہے:

  • مسجد شجرہ:اسکی وجہ تسمیہ میں آیا ہے کہ ہجرت کے چھٹے سال صلح حدیبیہ پر منتہی ہونے والے سفر میں رسول خدا نے اسی جگہ سمرہ نام کے درخت کے نیچے احرام باندھا تھا ۔اسی طرح ہجرت کے ساتویں سال عمرۃ القضاء کی نیت سے اور دسویں سال حجۃ الوداع کی غرض سے یہیں احرام باندھا تھا۔[1]
  • مسجد الاحرام: حاجیوں کے احرام باندھنے کے مقام کی وجہ سے کہتے ہیں ۔
  • مسجد المیقات:اس نام کی وجہ یہ ہے کہ یہ مقام حج و عمرہ کے میقات میں سے ہے ۔
  • مسجد آبار علی(ع): یہ نام زیادہ مشہور ہے ۔کہا جاتا ہے :رسول اللہ کے وصال اور غصب خلافت کے بعد حضرت علی نے اس علاقے میں اپنے باغات کیلئے ہہت سے کنؤیں کھودے اور ان سے ان باغات کی آبیاری کرتے تھے۔[2]

امام صادق(ع) کی روایت کے مطابق یہ علاقہ اقطاع (حاکم کی طرف سے کسی کو محدود یا غیر محدود وقت کیلئے زمین یااس جگہ کو منفعت و محصول حاصل کرنے یا کام کرنے کیلئے دینا اقطاع کہلاتا ہے) کی صورت میں حضرت علی کے حوالے کیا گیا تھا ۔ اسی جہت سے یہاں کے کنویں حضرت علی سے متعلق تھے اور آبار علی کے نام سے پہچانے جانے تھے ۔

مسجد ذو الحلیفہ کا ایک منظر

مسجد میں رسول اللہ کا احرام

پیغمبر اکرم مختلف سالوں میں اس مقام پر محرم ہوئے :

نبی اکرم(ص) نے مسجد شجرہ میں دورکعت ادا کرنے کے بعد احرام باندھا اور فرمایا: لبیک،اللهم لبیک، لبیک لا شریک لک لبیک، ان الحمد و النعمة لک و الملک، لاشریک لک لبیک مروی ہے کہ پہلی مرتبہ حج بجا لانے کیلئے درخت کے نیچے احرام باندھا بعد والے سالوں میں اسی جگہ مسدی تعمیر ہوئی ۔

مسجد کی تعمیرات

اگرچہ آٹھوین صدی میں مسجد تعمیراتی خستہ حالی سے دو چار ہوئی لیکن اسوقت بھی استعمال میں تھی ۔گویا اولین تعمیر میں مسجد صحن اور ہال پر مشتمل تھی لیکن آٹھویں اور نویں صدی میں اسکے اردگرد دیوار بنائی گئی ۔

دسویں صدی

زین الدین استدار نے ۹۶۱ق میں اسے دوبارہ تعمیر کیا اور اسکے اطراف میں بڑی دیوار بنائی جو عثمانیہ دور حکومت تک باقی رہی ۔ اس نے شمال غربی کونے میں گلدستۂ اذان کی بھی دوبارہ تعمیر کی ۔محراب کی اصلی جگہ مشخص نہ ہونے کی وجہ سے دیوار کے وسط میں ایک محراب بنائی گئی کہ شاید یہی محراب اصلی کا مقام ہو ۔اسی وجہ سے تین اطراف میں سیڑھیاں بنائی گئیں تا کہ چاروں طرف سے مسجد میں آنے کے راستے کو روکا جائے ۔[4]

عثمانی دور حکومت

عثمانی دور کے سال ۱۰۵۸ ق.، میں مسجد شجرہ کی ایک ہندی مسلمان معمار کے ہاتھوں دوبارہ تعمیر ہوئی اور اس میں مینار بھی بنائے گئے ۔[5]

موجودہ دور

اس مسجد کی مساحت شمال سے جنوب کی طرف ۲۵ میٹر اور مشرق سے مغرب بھی اسی قدر ۔بعد کے سالوں میں اس مسجد کی تعمیر اس قدر خوبصورتی سے انجام پائی کہ اس کی مساحت ۸۸۰۰۰ میٹر تک پہنچ گئی۔[6]

فقہی احکام

مسجد ذوالحلیفہ حاجیوں کا مقام احرام

فقہائے امامیہ نے اپنی فقہی کتب میں اس مسجد سے متعلق احکام فقہی ذکر کرتے ہوئے اسے احرام باندھنے کا ایک میقات کہا ہے۔اس مسجد کے بعض احکام :

  • ذوالحلیفہ اختیاری حالت میں عمره تمتّع اور عمره مفرده کیلئے ان لوگوں کیلئے میقات ہے جو مدینہ کے رہنے والے ہوں یا جو مدینہ سے مکہ جا رہے ہوں ۔[7] صرف اس جگہ پر واقع مسجد شجرہ یا مسجداور اسکے اطراف میں بھی احرام باندھا جا سکتا ہے اس میں فقہا کا اختلاف ہے ۔[8]
  • پہلے قول کی بنا پر جنب و حائض اور فقہا میں سے ایک گروہ کی تصریح کے مطابق مسجد سے گزرتے ہوئے محرم ہوں.... ۔احوط یہ ہے کہ مسجد سے باہر محرم ہوں اور پھر جحفہ یا محاذات کے مقام پر اسکی تجدید کریں۔[9][10]
  • بیماری یا ناتوانی کی صورت میں مدینے کے لوگوں کیلئے جحفہ میقات ہے ۔[11]

مربوط لنکس

حوالہ جات

  1. رسول جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ص۲۷۵
  2. اصغر قائدان، تاریخ و آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ص۴۰۹.
  3. رسول جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ص۲۷۵
  4. محمد باقر نجفی، مدینہ شناسی، ج۱، ص ۱۶۷و۱۶۸؛ اصغر قائدان، تاریخ و آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ص۴۱۰
  5. محمد باقر نجفی، مدینہ شناسی، ج۱، ص۲۶۸؛ رسول جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ص۲۷۶
  6. اصغر قائدان، تاریخ و آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ص۴۱۰
  7. محمد کاظم طباطبائی یزدی، عروة الوثقی، ج۲، ص۵۵۱؛ خمینی، روح الله، تحریر الوسیلہ، ج۱، ص۱۰۹
  8. محمد کاظم طباطبائی یزدی، عروة الوثقی، ج۲، ص۵۵۱
  9. خمینی، روح الله، تحریر الوسیلہ، ج۱، ص۱۰۹
  10. مناسک حج (محشی)، ص۱۵۸
  11. محمد کاظم طباطبائی یزدی، عروة الوثقی، ج۲، ص۵۵۲

مآخذ

  • خمینی، روح الله، تحریر الوسیلہ، قم، موسسہ مطبوعات‌ دار العلم، اول، بی‌تا.
  • جعفریان، رسول، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، تہران، نشر مشعر، سوم، ۱۳۸۴ش.
  • قائدان،اصغر،تاریخ و آثار اسلامی مکہ و مدینہ، نشر مشعر، چہارم، ۱۳۸۱ش.
  • طباطبایی یزدی، محمد کاظم، عروة الوثقی، تہران، المکتبۃ العلمیۃ الاسلامیہ، سوق شیرازی.
  • نجفی، محمد باقر، مدینہ شناسی، تہران، نشر مشعر، دوم، ۱۳۸۷ش.
  • محمودی، محمدرضا، مناسک حج (محشی)، تہران، مشعر، ۱۴۲۹ق.