دومۃ الجندل

ویکی شیعہ سے
دومۃ الجندل
محل وقوع
محل وقوع
عمومی معلومات
ملکسعودی عرب
صوبہجوف
آبادی49646 (2010ء)
تاریخی خصوصیات
تاریخپیش از اسلام
اہم واقعاتغزوہ دومۃ الجندل و حکمیت کا واقعہ


دُومَۃُ الجَنْدَل‏ سنہ 5 ہجری قمری میں غزوہ دومۃ الجندل کے واقع ہونے کی جگہ کا نام ہے۔ صدر اسلام میں یہ شہر شام کا حصہ تھا۔ لوگوں کو اسلام کی دعوت دینے کیلئے سنہ 6 ہجری میں سریہ عبدالرحمن بن عوف جبکہ سنہ 9 ہجری میں سریہ خالد بن ولید اسی مقام پر وقوع پذیر ہوئی جو وہاں کے حاکم "اکیدر بن عبدالملک" کا پیغمبر اسلامؐ کے ساتھ صلح اور جزیہ دینے کے عہد نامے کے ساتھ انجام کو پہنچا۔ بعض تاریخی مآخذ کے مطابق جنگ صفین میں حکمیت کا واقعہ بھی دومۃ الجندل میں ہی وقوع پذیر ہوا تھا۔

موجودہ دور میں دومۃ الجندل سعودی عرب کے شمال مغرب میں اردن کے باڈر سے 100 کیلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس شہر کے بانی حضرت اسماعیل کے فرزند دوماء کو قرار دیتے ہیں جنہوں نے اس شہر میں پتھروں کا ایک قلعہ‌ تعمیر کروایا تھا۔

محل وقوع

دومۃ الجندل صدر اسلام میں تبوک کے نزدیک[1] مدینہ اور دمشق کے درمیان واقع تھا[2] اور شام کا حصہ شمار ہوتا تھا۔[3] موجودہ دور میں دومۃ الجندل سعودی عرب کے شمال مغرب میں اردن کے باڈر سے 100 کیلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔[4]

نام اور تاریخچہ

قلعہ مارد، دومۃ الجندل کا تاریخی مقام

معجم البلدان کے مطابق "دومہ" حضرت اسماعیل کے فرزند "دوماء‌" کے نام سے لیا گیا ہے جنہوں نے اس شہر میں پتھروں سے ایک قلعہ تعمیر کروایا تھا۔[5] جندل اینٹ اور پتھر کے معنی میں ہے یوں دومۃ الجندل کے معنی اس قلعہ‌ کے ہیں جسے دوماء نے پتھر سے بنایا ہے۔[6] یاقوت حموی نے دومۃ الجندل میں "قلعہ مارد" کا نام لیا ہے [7] جو اس شہر کے تاریخی مقامات میں شمار ہوتا ہے۔[8]

اسی طرح کہا جاتا ہے اس جگہے کو "دومۃ الحیرہ" کے ساتھ اشبتاہ سے بچنے کی خاطر دومۃ الجندل کہا گیا ہے۔ یہاں کے حاکم "اکیدر بن عبدالملک" دومۃ الحیرہ کا رہنے والا تھا ایک دن شکار کے دوران پتھر سے بنے ہوئے شہر کے کھنڈرات سے روبرو ہوا یوں انہوں نے اس شہر کی تعمیر کے بعد اسے دومۃ الجندل کا نام دیا۔[9]

دومۃ الجندل کو "جوف" پستی کے معنی میں یا "جوف آل‌عمرو" نیز کہا جاتا ہے۔ آل عمرو جو بنی عمرو سے منسوب ہیں قبیلہ طی سے ان کا تعلق ہے اور پانچویں ہجری قمری میں یہاں آباد تھے۔[10]

تاریخی واقعات

دومۃ الجندل اور اس کے آس پاس کے علاقے میں ظہور اسلام کے وقت قبیلہ کلب سے تعلق رکھنے والے بنوکنانہ آباد تھے۔[11] اس منطقہ کا حاکم اکیدر بن عبدالملک کندی مسیحی[12] تھا جو پادشاہ روم کے تحت فرمان تھے۔[13] اسی طرح عربوں کا مشہور و معروف بت "ود" بھی اسی علاقے میں موجود تھا۔[14]

دومۃ الجندل میں بعض تاریخی واقعات رونما ہوئے ہیں جس کی وجہ سے تاریخ اسلام میں اس منطقے کو نہایت اہمیت حاصل ہے ان واقعات میں سے بعض درج ذیل ہیں:

غزوہ دومۃ الجندل

تفصیلی مضمون: غزوہ دومۃ الجندل

25 ربیع الاول سنہ 5 ہجری قمری کو پیغمبر اکرمؐ 1000 مسلمانوں کے ساتھ دومۃ الجندل کی طرف تشریف لے گئے؛[15] کیونکہ آپ کو خبر دی گئی تھی کہ دومۃ الجندل والے تاجروں کے گزرنے کی جگہ کمین لگائے بیٹھے ہیں اور مدینہ سے آنے والے تاجروں کیلئے مزاحمت ایجاد کر رہے ہیں اور یہ لوگ مدینہ پر بھی حملہ کرنے کا قصد رکھتے ہیں۔[16] جب اسلامی افواج کی دومۃ الجندل پہنچنے کی خبر ان تک پہنچی تو وہ وہاں سے متفرق ہو گئے، پیغمبر اکرمؐ نے بعض افراد کو اس علاقے کے اطراف میں بھیجا لیکن کسی کو نہیں پایا صرف محمد بن مسلمہ نے ایک شخص کو پیغمبر اکرمؐ کی خدمت میں لے آئے اور اس نے بھی اسلام قبول کیا۔ لشکر اسلام 20 ربیع الثانی کو بغیر کسی جنگ کے مدینہ واپس لوٹ آئے۔[17]

چونکہ دومۃ الجندل سلطنت روم کے تحت فرمان تھا، غزوہ دومۃ الجندل کو مسلمانوں کا رومیوں کے ساتھ پہلا تصادم تصور کیا جاتا ہے۔[18] اسی طرح اس غزوہ کے اہداف کے متعلق کہا جاتا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ شام کے باڈر کی طرف تشریف لے جانا چاہتے تھے کیونکہ آپ کا وہاں تشریف لے جانا قیصر روم کی ترس اور وحشت کا سبب بن سکتا تھا۔[19]

سریہ عبدالرحمن بن عوف

پیغمبر اسلام نے لوگوں کو اسلامی کی دعوت دینے کے لئے سنہ 6 ہجری قمری کو شعبان کے مہینے میں عبدالرحمن بن عوف کو دومۃ الجندل بھیجا۔[20] یہ واقعہ اس منطقے کے سردار اصبغ بن عمرو کلبی کے اسلام لانے اور عبدالرحمن بن عوف کا اس کی بیٹی سے شادی پر اختتام ہوا۔[21]

سریہ خالد بن ولید

سنہ 9 ہجری قمری کو حضرت محمدؐ نے خالد بن ولید کو تبوک سے دومۃ الجندل بھیجا[22] خالد نے دومۃ الجندل کے حاکم اکیدر بن عبدالملک کو گرفتار کر کے مدینہ لے آیا۔[23]تاریخی مآخذ کے مطابق پیغمبر اکرمؐ نے ان کے ساتھ معاہدہ کیا اور وہ جزیہ دینے پر راضی ہو گئے۔[24] اگرچہ بعض مآخذ میں ان کے اسلام لانے کا بھی تذکرہ موجود ہے،[25] لیکن بعض دوسرے مآخذ میں اس بات کو رد کیا گیا ہے۔[26] دونوں قسم کے مآخذ اس بات پر متفق ہیں کہ پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد اکیدر نے زکات یا جزیہ دینے سے انکار کیا اس بنا پر سنہ 12 ہجری قمری کو ابوبکر بن ابی‌قحافہ نے خالد کو ان کی سرکوبی کیلئے بھیجا یوں خالد نے اسے قتل کر دیا۔[27]

جنگ صفین میں حکمیت کا واقعہ

تاریخی مآخذ کے مطابق جنگ صفین میں دومۃ الجندل کے مقام پر امام علیؑ اور معاویہ کے درمیان حکمیت کا واقعہ پیش آیا جس میں امام علیؑ کی طرف سے ابوموسی اشعری اور معاویہ کی طرف سے عمرو بن عاص باہمی مذاکرات کے بعد دونوں میں سے کسی ایک کے حق میں فیصلہ دینے پر مأمور ہوئے۔[28]

حوالہ جات

  1. عاملی، الصحیح من سیرۃ النبی الاعظم، دار الحدیث، ج۱۰، ص۱۰۵۔
  2. یاقوت حموی، معجم البلدان، ۱۹۹۵م، ج‏۲، ص۴۸۷۔
  3. عسکری، یکصد و پنجاہ صحابی ساختگی، ۱۳۸۷ش، ص۲۸۱۔
  4. لاہوتی، «جوف»، ج۱۱، ص۳۷۳۔
  5. یاقوت حموی، معجم البلدان، ۱۹۹۵م، ج‏۲، ص۴۸۷۔
  6. یاقوت حموی، معجم البلدان، ۱۹۹۵م، ج‏۲، ص۴۸۸۔
  7. یاقوت حموی، معجم البلدان، ۱۹۹۵م، ج‏۲، ص۴۸۸۔
  8. «قلعۃ مارد»۔
  9. یاقوت حموی، معجم البلدان، ۱۹۹۵م، ج‏۲، ص۴۸۷۔
  10. لاہوتی، «جوف»، ج۱۱، ص۳۷۳۔
  11. یاقوت حموی، معجم البلدان، ۱۹۹۵م، ج‏۲، ص۴۸۷۔
  12. ابن اثیر، أسد الغابۃ، ۱۴۰۹ق، ج‏۱، ص۱۳۵۔
  13. مسعودی، التنبیہ و الاشراف، دار الصاوی، ص۲۱۵۔
  14. آلوسی، بلوغ الارب، دار الکتب العلمیہ، ج۲، ص۲۱۳-۲۱۴۔
  15. واقدی، المغازی، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۴۰۳؛ مقریزی، إمتاع ‏الأسماع، ۱۴۲۰ق، ج‏۸، ص۳۶۷۔
  16. واقدی، المغازی، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۴۰۳؛ مقدسی، البَدْء و التاریخ، قاہرہ، ج۴، ص۹۲۔
  17. واقدی، المغازی، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۴۰۲۔
  18. مقدسی، البَدْء و التاریخ، قاہرہ، ج‏۴، ص۲۱۴؛ مسعودی، التنبیہ و الاشراف، دار الصاوی، ص۲۱۴۔
  19. واقدی، المغازی، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۴۰۳۔
  20. واقدی، المغازی، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۵۶۰-۵۶۲؛ بلاذری، انساب الاشراف، ۱۹۵۹م، ج۱، ص۳۷۸۔
  21. واقدی، المغازی، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۵۶۰-۵۶۲؛ بلاذری، انساب الاشراف، ۱۹۵۹م، ج۱، ص۳۷۸۔
  22. بلاذری، انساب الاشراف، ۱۹۵۹م، ج۱، ص۳۸۲۔
  23. بلاذری، انساب الاشراف، ۱۹۵۹م، ج۱، ص۳۸۲۔
  24. ابن عبد البر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۴۲۸؛ ابن اثیر، أسد الغابۃ، ۱۴۰۹ق، ج‏۱، ص۱۳۵۔
  25. رجوع کریں:‌ابن اثیر، أسد الغابۃ، ۱۴۰۹ق، ج‏۱، ص۱۳۵۔
  26. ابن حجر، الاصابہ، ۱۴۱۵ق، ج۱، ص۳۸۱؛ ابن اثیر، أسد الغابۃ، ۱۴۰۹ق، ج‏۱، ۱۳۵۔
  27. ابن اثیر، أسد الغابۃ، ۱۴۰۹ق، ج‏۱، ۱۳۵؛ مقریزی، إمتاع ‏الأسماع، ۱۴۲۰ق، ج‏۲، ص۱۳۔
  28. دینوری، اخبار الطوال، ۱۳۷۱ش، ص۲۴۲؛ یاقوت حموی، معجم البلدان، ۱۹۹۵م، ج‏۲، ص۴۸۹؛ مسعودی، التنبیہ و الاشراف، قاہرہ، ص۲۵۶۔

مآخذ

  • آلوسی، محمود، بلوغ الارب فی معرفۃ احوال العرب، تصحیح محمد بہجہ اثری، بیروت، دار الکتب العلمیہ، بی‌تا۔
  • ابن اثیر، علی بن محمد، أسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، بیروت، دار الفکر، ۱۴۰۹ق/۱۹۸۹م۔
  • ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، الإصابۃ فی تمییز الصحابہ، تحقیق ‌عادل احمد عبدالموجود و علی محمد معوض، بیروت، دار الکتب العلمیہ، ۱۴۱۵ق/۱۹۹۵م۔
  • ابن عبدالبر، یوسف بن عبداللہ، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، تحقیق علی محمد بجاوی، بیروت، دار الجیل، ۱۹۹۲م/۱۴۱۲ق۔
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، تحقیق محمد حمیداللہ، مصر، دار المعارف، ۱۹۵۹م۔
  • دینوری، احمد بن داود، اخبار الطوال، ترجمہ محمود مہدوی دامغانی، تہران، نشر نی، چاپ چہارم، ۱۳۷۱ش۔
  • عاملی، جعفر مرتضی، الصحيح من سيرۃ النبي الأعظم، قم، موسسہ فرہنگی دار الحدیث، بی‌تا۔
  • عسکری، سید مرتضی، یکصد و پنجاہ صحابی ساختگی، ترجمہ عطا محمد سردارنیا، قم، دانشکدہ اصول دین، ۱۳۷۸ش۔
  • «قلعۃ مارد»، سایت السعودیۃ، تاریخ بازدید: ۶ دی ۱۳۹۷ش۔
  • لاہوتی، بہزاد، «جوف»، در دانشنامہ جہان اسلام، ج۱۱۔
  • مسعودی، علی بن حسین، التنبیہ و الاشراف، تصحیح عبداللہ اسماعیل صاوی، قاہرہ، دار الصاوی، بی‌تا۔
  • مقدسی، مطہر بن طاہر، البَدْء و التاریخ، قاہرہ، مکتبۃ الثقافۃ الدینیۃ، بی‌تا۔
  • مقریزی، احمد بن علی، امتاع الاسماع بما للنبی من الاحوال و الاموال و الحفدۃ و المتاع، تحقیق محمد عبدالحمید النمیسی، بیروت، دار الکتب العلمیہ، ۱۴۲۰ق/۱۹۹۹م۔
  • واقدی، محمد بن عمر، المغازی، تحقیق مارسدن جونس، بیروت، مؤسسۃ الاعلمی، ۱۴۰۹ق/۱۹۸۹م۔
  • یاقوت حموی، معجم البلدان، بیروت، دار صادر، چاپ دوم، ۱۹۹۵م۔