"کن فیکون" کے نسخوں کے درمیان فرق
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 6: | سطر 6: | ||
بعض عرفاء کہتے ہیں کہ اہل [[بہشت]] اور عرفاء خدا کی اذن سے مقام "کُنْ فَیکونُ" کے مالک ہوتے ہیں۔ | بعض عرفاء کہتے ہیں کہ اہل [[بہشت]] اور عرفاء خدا کی اذن سے مقام "کُنْ فَیکونُ" کے مالک ہوتے ہیں۔ | ||
==قرآن میں ==<!-- | ==قرآن میں تذکرہ ==<!-- | ||
عبارت | "کُنْ فَیکونُ" کی عبارت "ہو جاؤ پس ہو جاتا ہے" کے معنی میں ہے۔ یہ عبارت [[قرآن]] کی آٹھ(8) آیتوں میں مختلف موضوعات جسیے [[حضرت عیسیؑ]] کی پیدائش، [[قیامت]] کی خلقت اور اس کے وقوع کے بارے میں استعمال ہوئی ہے۔<ref> سوره بقره، آیه ۱۱۷؛ سوره آل عمران، آیات ۴۷و۵۹؛ سوره انعام، آیه ۷۳؛ سوره نحل، آیه ۴۰؛ سوره مریم، آیه ۳۵؛ سوره یس، آیه ۸۲؛ سوره غافر، آیه۶۸.</ref> مثلا [[سوره بقره]] آیت نمبر 117، [[سوره مریم]] آیت نمبر 35 اور [[سوره آل عمران]] آیت نمبر 37 میں حضرت عیسیؑ کی ولادت سے متعلق آیا ہے: «إِذا قَضی أَمْراً فَإِنَّما یقُولُ لَهُ کنْ فَیکونُ»؛ یعنی: «[خداوند] هنگامی که چیزی را مقرّر دارد (و فرمان هستی آن را صادر کند)، فقط به آن میگوید: موجود باش! آن نیز فوراً موجود میشود.»<ref>ترجمه فولادوند.</ref> | ||
در آیه ۶۸ [[سوره غافر]] نیز عبارت «کُنْ فَیکونُ» به کار رفته و بیان شده است: «او همان کسی است که زنده میکند و میمیراند. چون به کاری حکم کند، همینقدر به آن میگوید: «باش.» بیدرنگ موجود میشود.»<ref>ترجمه فولادوند.</ref> در آیات ۴۰ [[سوره نحل]] و ۸۲ [[سوره یس]] هم آمده است که خدا وقتی چیزی را اراده کند، همینکه به آن بگوید: باش، موجود میشود.<ref>ترجمه فولادوند.</ref> | در آیه ۶۸ [[سوره غافر]] نیز عبارت «کُنْ فَیکونُ» به کار رفته و بیان شده است: «او همان کسی است که زنده میکند و میمیراند. چون به کاری حکم کند، همینقدر به آن میگوید: «باش.» بیدرنگ موجود میشود.»<ref>ترجمه فولادوند.</ref> در آیات ۴۰ [[سوره نحل]] و ۸۲ [[سوره یس]] هم آمده است که خدا وقتی چیزی را اراده کند، همینکه به آن بگوید: باش، موجود میشود.<ref>ترجمه فولادوند.</ref> | ||
سطر 33: | سطر 33: | ||
{{شعر|زر}}{{ب|ای هرچه رمیده وارمیده|در کن فیکون تو آفریده}}{{پایان شعر}} | {{شعر|زر}}{{ب|ای هرچه رمیده وارمیده|در کن فیکون تو آفریده}}{{پایان شعر}} | ||
--> | --> | ||
==حوالہ جات== | ==حوالہ جات== | ||
{{حوالہ جات|2}} | {{حوالہ جات|2}} |
نسخہ بمطابق 11:00، 9 نومبر 2018ء
یہ تحریر توسیع یا بہتری کے مراحل سے گزر رہی ہے۔تکمیل کے بعد آپ بھی اس میں ہاتھ بٹا سکتے ہیں۔ اگر اس صفحے میں پچھلے کئی دنوں سے ترمیم نہیں کی گئی تو یہ سانچہ ہٹا دیں۔اس میں آخری ترمیم Waziri (حصہ · شراکت) نے 6 سال قبل کی۔ |
"کُنْ فَیَکونُ" "ہو جاؤ پس ہو جاتا ہے" کے معنی میں ہے۔ یہ عبارت قرآن کی مختلف آیتوں میں آئی ہے؛ من جملہ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 117 میں ارشاد رب العزت ہے: إِذا قَضی أَمْراً فَإِنَّما یقُولُ لَهُ کنْ فَیکونُ (ترجمہ: جب وہ(خدا) کسی کام کے کرنے کا فیصلہ کر لیتا ہے۔ تو اسے بس اتنا ہی کہتا ہے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتا ہے۔)
اہل سنت اکثر مفسرین کہتے ہیں: خدا موجودات میں سے ہر ایک کی خلقت میں خود لفظ "کُن" (ہوجاؤ) کا استعمال کرتا ہے؛ لیکن شیعہ مفسرین اس عبارت کی تفسیر میں ائمہ معصومین سے منقول احادیث کی روشنی میں اس بات کے متعقد ہیں کہ "کُنْ فَیکونُ" ایک حقیت کی تمثیلی بیان ہے اور وہ یہ کہ "کسی چیز کی خلقت میں خدا کا ارادہ اس چیز کی ایجاد کے مساوی ہے"۔ اس بنا پر ایسا نہیں ہے کہ خدا موجودات کی خلقت میں خود لفظ "کن" کا استعمال کرتا ہو۔ بلکہ اس لفظ کے ادا کرنے ضرورت ہی نہیں کیونکہ جونہی خدا کسی چیز کی خلقت کا ارادہ کرتا ہے تو وہ چیز خلق ہو جاتی ہے۔
بعض عرفاء کہتے ہیں کہ اہل بہشت اور عرفاء خدا کی اذن سے مقام "کُنْ فَیکونُ" کے مالک ہوتے ہیں۔
قرآن میں تذکرہ
حوالہ جات
منابع
- قرآن کریم، ترجمه محمدمهدی فولادوند.
- آلوسی، سیدمحمود، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم، بیروت، دارالکتب العلمیة، ۱۴۱۵ق.
- آشتیانی، جلالالدین، شرح بر زادالمسافر، قم، بوستان کتاب، ۱۳۸۱ش.
- سعدی، مواعظ، غزل ۲۵.
- صدرالمتالهین، الحکمة المتعالیة فی الاسفار العقلیة الاربعة، بیروت، دار احیاء التراث، ۱۹۸۱م.
- صدرالمتالهین، تفسیر القرآن الکریم، قم، انتشارات بیدار، ۱۳۶۶ش.
- صمدی آملی، داوود، شرح دفتر دل علامه حسنزاده آملی، بیجا، ناشر چاپی: نبوغ؛ ناشر دیجیتالی: مرکز تحقیقات رایانهای قائمیه اصفهان، بیتا.
- طباطبائی، سیدمحمدحسین، المیزان، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ پنجم، ۱۴۱۷ق.
- طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تهران، ناصرخسرو، چاپ سوم، ۱۳۷۲ش.
- عطار نیشابوری، دیوان اشعار، قصیده ۵.
- فیض کاشانی، محمد بن شاه مرتضی، علم الیقین، قم، انتشارات بیدار، ۱۴۱۸ق.
- مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، انتشارات موسسه الوفاء، ۱۴۰۴ق.
- مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونه، تهران، دارالکتب الإسلامیة، ۱۳۷۴ش.
- مولوی، دیوان شمس، غزل ۱۳۴۴.
- نظامی، خمسه، لیلی و مجنون، بخش ۱.