سورہ فلق

ویکی شیعہ سے
(113 ویں سورت سے رجوع مکرر)
اخلاص سورۂ فلق ناس
ترتیب کتابت: 113
پارہ : 30
نزول
ترتیب نزول: 20
مکی/ مدنی: مکی
اعداد و شمار
آیات: 5
الفاظ: 23
حروف: 73

سورہ فلق قرآن کریم کی 113ویں اور مکی سورتوں میں سے ہے جو 30ویں پارے میں واقع ہے۔ سورہ فلق چار قل میں سے ہے۔ خداوندعالم اس سورت میں پیغمبر اکرمؐ کو ہر چیز خاص کر رات کی تاریکی، گِرہوں میں پھونکیں مارنے والوں اور حسد کرنے والوں کے شر سے خدا کی پناہ مانگنے کا حکم دے رہا ہے۔ اہل سنت بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ سورت اس وقت نازل ہوئی جب ایک یہودی نے پیغمبر اکرمؐ پر جادو کیا جس کی وجہ سے حضورؐ بیمار ہوئے۔ جبرئیل کے توسط سے سورہ فلق اور سورہ ناس کے نزول کے بعد ان آیات کو پیغمبر اکرمؐ پر پڑھا گیا جس کے بعد آپ بستر بیماری سے بلند ہوئے۔ لیکن بعض شیعہ علماء اس بات پر اعتراض کرتے ہیں کیونکہ پیغمبر اکرمؐ پر سحر اور جادو اثر ہی نہیں کرتا۔

سورہ فلق اور سورہ ناس کو مُعَوِّذتین بھی کہا جاتا ہے؛ کیونکہ انہیں تعویذ کیلئے پڑھی جاتی ہیں۔ اس کی تلاوت کے بارے میں آیا ہے کہ جو شخص سورہ فلق اور سورہ ناس کی تلاوت کرے وہ اس شخص کی مانند ہے جس نے تمام انبیاء کی کتابوں کا مطالعہ کیا ہو۔اسی طرح ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ سورہ فلق اور سورہ ناس کو خدا کے یہاں سب سے محبوب سورتیں قرار دیتے ہیں۔

تعارف

  • نام

اس سورت کو فَلَق کہا جاتا ہے جسے اس کی پہلی آیت سے لیا گیا ہے۔[1] فلق صبح اور اس کی روشنی کو کہا جاتا ہے۔[2] اس سورت کے دیگر اسامی میں "مُعَوِّذَۃ" (پناہ لینا) ہے جو "عوذ: پناہ لینا" سے مشتق ہے۔[3] سورہ فلق اور سورہ ناس کو مُعَوِّذَتین بھی کہا جاتا ہے۔ اسی طرح ان دو سورتوں کو احساس خطر کے مواقع پر پڑھی جانے کی وجہ سے "مُشَقشَقَتَین" بھی کہا جاتا ہے۔[4]

  • محل اور ترتیب نزول

سورہ فلق مکی سورتوں میں سے ہے۔ ترتیب نزول کے اعتبار سے 20ویں جبکہ مُصحَف شریف کی موجودہ ترتیب کے اعتبار سے 113ویں سورت ہے[5] جو قرآن کے آخری پارے میں واقع ہے۔

  • آیات کی تعداد اور دوسری خصوصیات

سورہ فلق 5 آیات، 23 کلمات 73 حروف پر مشتمل ہے۔ حجم اور آیات کے اختصار کے اعتبار سے اس کا شمار مُفصَّلات میں ہوتا ہے۔ سورہ فلق چار قل یعنی ان چار سورتوں میں سے ایک ہے جن کا آغاز لفظ "قُل" سے ہوتا ہے۔[6]

مضامین

خداوندعالم اس سورت میں پیغمبر اکرمؐ کو ہر چیز خاص کر رات کی تاریکی، گِرہوں میں پھونکیں مارنے والوں اور حسد کرنے والوں کے شر سے خدا کی پناہ مانگنے کا حکم دے رہا ہے۔ تفسیر المیزان کے مطابق "النَّفَّاثَاتِ فِي الْعُقَدِ" سے مراد صرف جادو گر عورتیں نہیں بلکہ اس سے مراد جادو کرنے والا ہر شخص ہے۔[7] تفسیر نمونہ کے مطابق سورہ فلق پیغمبر اکرمؐ اور مسلمانوں کو ہر چیز کی برائی اور شر سے خدا کی پناہ لینے کی تعلیم دیتی ہے۔[8]

سورہ فلق کے مضامین[9]
 
 
 
 
 
موجوات کی شر سے اللہ کی پناہ مانگنا
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
دوسرا نکتہ: آیہ ۲-۵
وہ شرور جن سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہئے
 
 
 
پہلا نکتہ: آیہ ۱
اس خدا کا تعارف جس کی پناہ مانگنی چاہئے
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
دوسرا گروہ: آیہ ۴-۵
انسانی شر
 
پہلا گروہ: آیہ ۲-۳
قدرتی آفات
 
اس خدا کی پناہ مانگنی چاہئے جو موجودات کو عدم سے وجود میں لے آتا ہے
 
 
 
 
 
 
 
 
پہلا نمونہ: آیہ ۴
شریر افراد اور دم کرنے والی عورتیں
 
پہلا نمونہ: آیہ ۲
وہ موجودات جو انسان کو نقصان پہنچاتی ہیں
 
 
 
 
 
 
 
 
 
دوسرا نمونہ: آیہ ۵
حیلہ کرنے والے حاسد
 
دوسرا نمونہ: آیہ ۳
تاریکی اور ظلمتِ شب
 


شأن نزول

کتابخانہ آستان قدس رضوی میں سنہ 1279 ہجری سے متعلق قرآن کا ایک حصہ خط نسخ میں

اس سورت کی شأن نزول کے بارے میں اہل سنت منابع میں نقل شدہ ایک حدیث نقل ہوئی ہے جسے شیعہ علماء قبول نہیں کرتے۔[10] کتاب "الدر المَنثور" جو اہل سنت کے تفاسیر میں سے ہے میں آیا ہے کہ ایک يہودى نے پیغمبر اسلامؐ پر جادو کیا تو جبرئیل نازل ہوا اور پيغمبر اکرمؐ کیلئے مُعَوِّذتین (سورہ فلق اور سورہ ناس) کی تعلیم دی اور کہا کہ ایک یہودی نے آپ پر جادو کیا ہے اور اس کا جادو فلان کنویں میں ہے۔ پیغمبر اکرمؐ نے علی بن ابی‌ طالب کو بھیجا تاکہ آپ وہ جادو حضورؐ کےپاس لے آئیں؛ جب حضرت علیؑ اسے لے آئے تو حضورؐ نے اس کے گرہیں کھولنے کا کہا اور ہر گرہ کے بدلے مُعَوِّذتين کی ایک آیت پڑھنے کا کہا۔ جب اس کے گرہیں کھل گئی اور معوذتین کی تلاوت بھی ختم ہو گئی تو پيغمبر اسلامؐ ٹھیک ہو گئے۔[11]

علامہ طباطبایی تفسیر المیزان میں لکھتے ہیں کہ کوئی ایسی دلیل موجود نہیں جو یہ ثابت کرے کہ پیغمبر اکرمؐ کے بدن پر جادو اور سحر اثرانداز نہیں ہو سکتا ہو؛ بلکہ قرآن کریم کی آیات جس چیز پر دلالت کرتی ہیں وہ یہ ہے کہ آپؐ کا دل، روح، عقل اور فکر جادو اور شياطين کے نفوذ سے محفوظ ہیں۔[12]

سحر اور جادو سے متعلق مفسرین کا نظریہ

سید رضی (متوفی سنہ 406 ہجری قمری) سورہ فلق کی آیت نمبر 4 کی تفسیر میں لکھتے ہیں: یہ آیت بطور استعارہ[13] استعمال ہوئی ہے اور اس سے مراد ان عورتوں کے شر سے خدا کی پناہ لینا ہے جو مردوں کے پکے ارادوں [کہ جس کی پختگی کو گرہ سے تشبیہ دی گئی ہے] کو اپنے مکر و فریب کے ساتھ ختم کر دیتی ہیں اور وہ مردوں کی قدرت و توانائی کو سست کرتی ہیں۔[14] اہل سنت بعض مفسرین[15] بھی سحر اور نظر بد کو قبول نہیس کرتے۔[16] ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے علامہ طباطبایی لکھتے ہیں کہ یہ آیت اور سورہ بقرہ کی آیت نمبر 102 سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم سحر اور جادو کے اصل وجود کو قبول کرتے ہیں۔[17]

فضیلت اور خواص

اس کی تلاوت کے بارے میں پیغمبر اکرمؐ سے منقول ہے کہ جو شخص سورہ فلق اور سورہ ناس کی تلاوت کرے وہ اس شخص کی مانند ہے جس نے تمام انبیاء کی کتابوں کا مطالعہ کیا ہو۔[18]

اسی طرح امام باقرؑ سے بھی منقول ہے کہ جو شخص نماز شب کی وَتْر میں مُعَوِّذَتین (ناس و فلق) اور سورہ اخلاص کی تلاوت کرے اس شخص کو سے مخاطب ہو کر کہا جاتا ہے کہ اے بندہ خدا تمہارے لئے خوشخبری ہے کہ خدا نے نمہاری نماز وتر کو قبول کیا ہے۔[19] اسی طرح ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ سورہ فلق اور سورہ ناس کو خدا کے یہاں سب سے محبوب سورتیں قرار دیتے ہیں۔[20] ایک اور حدیث میں پیغمبر اکرمؐ سے نقل ہوئی ہے کہ جو شخص سورہ اخلاص، سورہ ناس اور سورہ فلق کو ہر رات دس مرتبہ پڑھے تو گویا ایسا ہے کہ اس نے پوری قرآن کی تلاوت کی ہو اور یہ شخص اپنی گناہوں سے اس طرح باہر آئے گا گویا اس کی ماں نے اسے تازہ جنم دی ہے ارو یہ شخص اگر اسی دن یا رات مر جائے تو یہ شہادت کی موت مرا ہے۔[21] سورہ فلق کے خواص کے بارے میں نقل ہوا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ مُعَوِّذَتین پڑھ کر امام حسنؑ اور امام حسینؑ کے لئے تعویذ باندھتے تھے۔[22]

متن اور ترجمہ

سوره فلق
ترجمہ
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّ‌حْمَـٰنِ الرَّ‌حِيمِ

قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ ﴿1﴾ مِن شَرِّ مَا خَلَقَ ﴿2﴾ وَمِن شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ ﴿3﴾ وَمِن شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِي الْعُقَدِ ﴿4﴾ وَمِن شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ ﴿5﴾

(شروع کرتا ہوں) اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

(اے رسول(ص)) آپ(ص) کہہ دیجئے کہ میں پناہ لیتا ہوں صبح کے پروردگار کی۔ (1) ہر اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی ہے۔ (2) اور رات کی تاریکی کے شر سے جبکہ وہ چھا جائے۔ (3) اوران کے شر سے جو گِرہوں میں پھونکے مارتی ہیں۔ (4) اورحاسد کے شر سے جب وہ حسد کرے۔ (5)


پچھلی سورت: سورہ اخلاص سورہ فلق اگلی سورت:سورہ ناس

1.فاتحہ 2.بقرہ 3.آل‌عمران 4.نساء 5.مائدہ 6.انعام 7.اعراف 8.انفال 9.توبہ 10.یونس 11.ہود 12.یوسف 13.رعد 14.ابراہیم 15.حجر 16.نحل 17.اسراء 18.کہف 19.مریم 20.طہ 21.انبیاء 22.حج 23.مؤمنون 24.نور 25.فرقان 26.شعراء 27.نمل 28.قصص 29.عنکبوت 30.روم 31.لقمان 32.سجدہ 33.احزاب 34.سبأ 35.فاطر 36.یس 37.صافات 38.ص 39.زمر 40.غافر 41.فصلت 42.شوری 43.زخرف 44.دخان 45.جاثیہ 46.احقاف 47.محمد 48.فتح 49.حجرات 50.ق 51.ذاریات 52.طور 53.نجم 54.قمر 55.رحمن 56.واقعہ 57.حدید 58.مجادلہ 59.حشر 60.ممتحنہ 61.صف 62.جمعہ 63.منافقون 64.تغابن 65.طلاق 66.تحریم 67.ملک 68.قلم 69.حاقہ 70.معارج 71.نوح 72.جن 73.مزمل 74.مدثر 75.قیامہ 76.انسان 77.مرسلات 78.نبأ 79.نازعات 80.عبس 81.تکویر 82.انفطار 83.مطففین 84.انشقاق 85.بروج 86.طارق 87.اعلی 88.غاشیہ 89.فجر 90.بلد 91.شمس 92.لیل 93.ضحی 94.شرح 95.تین 96.علق 97.قدر 98.بینہ 99.زلزلہ 100.عادیات 101.قارعہ 102.تکاثر 103.عصر 104.ہمزہ 105.فیل 106.قریش 107.ماعون 108.کوثر 109.کافرون 110.نصر 111.مسد 112.اخلاص 113.فلق 114.ناس



حوالہ جات

  1. دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، ۱۳۷۷ش، ج۲، ص۱۲۷۱۔
  2. راغب اصفہانی، المفردات، ۱۴۱۲ق، ذیل واژہ فلق۔
  3. دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، ۱۳۷۷ش، ج۲، ص۱۲۷۱۔
  4. دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، ۱۳۷۷ش، ج۲، ص۱۲۷۱، ذیل معرفی سورہ ناس۔
  5. معرفت، آموزش علوم قرآن، ۱۳۷۱ش، ج۲، ص۱۶۶۔
  6. دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، ۱۳۷۷ش، ج۲، ص۱۲۷۱۔
  7. طباطبایی، الميزان، ۱۳۸۲ش، ج۲۰، ص۳۹۲ـ۳۹۴۔
  8. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۲۷، ص۴۵۴۔
  9. خامہ‌گر، محمد، ساختار سورہ‌ہای قرآن کریم، تہیہ مؤسسہ فرہنگی قرآن و عترت نورالثقلین، قم، نشر نشرا، چ۱، ۱۳۹۲ش.
  10. طباطبایی، الميزان، ۱۳۸۲ش، ج۲۰، ص۳۹۴۔
  11. سیوطی، الدر المنثور، ۱۴۰۴ق، ج۶، ص۴۱۷۔
  12. طباطبایی، الميزان، ۱۳۸۲ش، ج۲۰، ص۳۹۴۔
  13. یہاں پر استعارہ سے مراد عام ہے جس میں استعارہ کی تمام اقسام، کنایہ، مجاز عقلی اور تشبیہ کے تمام اقسام تشبیہ شامل ہیں کیونکہ اس کتاب کی تدوین علم معانی و بیان کی تدوین سے کئی دہائیاں پہلے ہوئی ہے۔ ( سید رضی، تلخیص البیان فی مجازات القرآن، ۱۴۰۷ق، مقدمہ محمد الحسینی المشکوۃ، ص ۱۱۔
  14. سید رضی، تلخیص البیان فی مجازات القرآن، ۱۴۰۷ق، ص۲۸۰۔
  15. مثل زمخشری۔
  16. قرآن کریم، ترجمہ، توضیحات و واژہ نامہ: بہاءالدین خرمشاہی، ذیل سورہ فلق۔
  17. طباطبایی، الميزان، ۱۳۸۲ش، ج۲۰، ص۳۹۳۔
  18. طبرسی، مجمع البیان،۱۳۳۸ ق، ج۱۰، ص ۴۹۱
  19. طبرسی، مجمع البيان، ۱۳۳۸ ق، جلد ۱۰ ص ۴۹۱۔
  20. مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳‌ق ،ج۹۲،ص ۳۶۸۔
  21. طبرسی، مجمع البیان،۱۳۳۸ ق، ج۱۰، ص ۴۹۱
  22. دانشنامہ قرآن و قرآن‌پژوہی، ۱۳۷۷ش، ج ۲، ص ۱۲۷۱-۱۲۷۲۔

مآخذ

  • قرآن کریم، ترجمہ محمد حسین نجفی (سرگودھا)۔
  • دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، بہ کوشش بہاءالدین خرمشاہی، ج۲، تہران، دوستان-ناہید، ۱۳۷۷ش۔
  • راغب اصفہانی، حسین بن محمد، المفردات فی غریب القرآن، بہ تحقیق صفوان عدنان داودی، بیروت، دارالعلم الدار الشامیہ، چاپ اول، ۱۴۱۲ق۔
  • سید رضی، محمد بن حسین، تلخیص البیان فی مجازات القرآن، تہران، مؤسسۃ الطبع والنشر وزارۃ الثقافۃ والارشاد الاسلامی، ۱۴۰۷ق۔
  • سیوطی، الدرالمنثور، قم، کتابخانہ عمومی آیت اللہ مرعشی نجفی، ۱۴۰۴ق۔
  • طباطبایی، الميزان، قم، دفتر انتشارات اسلامی، ۱۳۸۲ش۔
  • طبرسی، مجمع البیان، تہران، مکتبۃ العلمیۃ، چاپ اول، ۱۳۳۸ق۔
  • مجلسی، بحارالانوار، قم، دفتر انتشارات اسلامی، ۱۴۰۳‌ق۔
  • معرفت، محمدہادی، آموزش علوم قرآن، [بی‌جا]، مرکز چاپ و نشر سازمان تبلیغات اسلامی، چ۱، ۱۳۷۱ش۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، چاپ اول، ۱۳۷۴ش۔

بیرونی روابط