اصول خمسہ
اُصولِ خَمْسہ، مذہب معتزلہ کے پانچ بنیادی اعتقادات کو کہتے ہیں جن میں توحید، عدل، وعد (ثواب کا وعدہ) و وعید (عذاب کی دھمکی)، منزلۃ بین المنزلتین، امر بالمعروف و نہی عن المنکر شامل ہیں۔ معتزلہ اہل سنّت کے کلامی مکاتب میں سے ایک ہے جو نقل کے مقابلے میں عقل کی اصالت کے قائل ہیں۔
معتزلہ
مُعتَزِلَہ، اہل سنّت کے کلامی مکاتب میں سے ایک ہے جو نقل کے مقابلے میں عقل کی اصالت کے قائل ہیں۔ معتزلہ اس بات کے معتقد ہیں کہ جو چیز وحی کے ذریعے ہم تک پہنچتی ہے عقل نظری کے ذریعے اس کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ اس اصول نے ان کے پورے فکری نظام اور مذہبی اعتقادات پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں اور اسی اصول کی بنا پر معتزلہ توحید اور عدل الٰہی کی ایک خاص تفسیر کرتے ہوئے دینی متون میں سے ان مواد کی تأویل کرتے ہیں جو ظاہرا عقل سے مطابقت نہیں رکھتی۔ مثال کے طور پر رؤیت خدا کا مسئلہ جس کی وضاحت بعض نصوص میں کی گئی ہے، کا انکار کرتے ہوئے اس کی تأویل کرتے ہیں کیونکہ عقلی طور پر جگہ اور سمت کے بغیر کسی چیز کو دیکھا جانا ممکن نہیں ہے اور چونکہ اللہ تعالیٰ جگہ اور سمت سے منزہ ہے اس لیے اسے نہ دنیا میں دیکھا جا سکتا ہے اور نہ آخرت میں۔
معتزلہ کے بعض عقائد اہل سنت کے اجماع سے صریحاً متصادم ہے، اور ان کے نظریات امامیہ مکتب فکر کے نزدیک ہے یہاں تک کہ بعض نظریاتی اصولوں جیسے توحید اور عدل میں وہ امامیہ کے ساتھ شریک ہیں۔ بعض تاریخی ادوار میں شیعوں اور معتزلیوں کے درمیان قریبی تعلق زیادہ تھا اور بعض شیعہ عقلیت پسند علماء جیسے شیخ مفید اور سید مرتضی معتزلہ کے قریب تھے۔ تاہم شیعوں اور معتزلیوں کے درمیان ہمیشہ اہم اختلافات رہے ہیں اور شیعہ اور معتزلی علماء کے درمیان مذہبی عقائد پر بہت سے تنازعات رہے ہیں۔ مثال کے طور پر شیعوں کا معتزلہ سے امامت، ایمان اور کبیرہ گناہ کے درمیان تعلق، نیکی کے حکم اور برائی سے منع کرنے میں اختلاف ہیں۔
توحید
توحید کے مراتب و اقسام میں جس چیز پر معتزلہ کے ہاں سب سے زیادہ تاکید ہوئی ہے، وہ صفاتی توحید ہے۔ یعنی انھوں نے ان صفات کی نفی کی ہے جو ذات پر زائد ہیں۔ چنانچہ کبھی انہیں صفات کی نفی کرنے والوں اور صفات کی طرف سے ذات کی نیابت کے قائلین کے عنوان سے بھی یاد کیا جاتا ہے [یعنی یہ کہ ذات صفات کی نیابت رکھتی ہے]۔ لیکن لگتا ہے کہ زیادہ صحیح نظر یہ ہے کہ انھوں نے اللہ کی ذات سے صفات کمال کی نفی نہیں کی ہے بلکہ ان کا عقیدہ ہے کہ صفات ذات کے ساتھ عینیت رکھتی ہیں (یا صفات عینِ ذات ہیں) اور اس لحاظ سے امامیہ کے ساتھ ہم عقیدہ ہیں۔ یہ مسئلہ شیخ مفید کی کتاب اوائل المقالات میں[1] اور شہرستانی کی کتاب ملل و نحل میں[2] میں وضوح کے ساتھ بیان ہوا ہے اور کتاب عالم اسلام میں فلسفہ کی تاریخ کے مؤلفین نے بھی اس پر تصریح کی ہے۔
عدل
معتزلہ نے امامیہ کی طرح عدل الہی کو عقلی حسن و قبح کی بنیاد پر تفسیر کیا ہے اور ان کا عقیدہ ہے کہ انسان کی عقل اس طرح سے خلق ہوئی ہے کہ وہ شرعی روایت کے محتاج ہوئے بغیر بعض افعال کے حُسن (اچھائی) اور قُبح (برائی) کا ادراک کر لیتی ہے؛ عقل کے ادراکات میں سے ایک یہ ہے کہ خداوند متعال ظلم اور فعل قبیح کا ارتکاب نہیں کرتا۔
لیکن عدل الہی کے بعض فروعات اور تفاصیل میں انسان کے اختیار وغیرہ سے متعلق مباحث میں ان کی رائے امامیہ کی رائے سے مختلف ہے اور وہ تفویض کے قائل ہوئے ہیں۔
امامیہ اور معتزلہ کو "عدلیہ" کہا گیا ہے کیونکہ ان دونوں نے عقلی حسن و قبح کی بنیاد پر "عدل" کی تفسیر کی ہے اور اس کو اپنے مذہب کے اصول کے زمرے میں شمار کیا ہے۔
معتزلہ اس امر کو افعالی توحید کا لازمہ سمجھتے ہیں کہ انسان خود اپنے افعال کا خالق نہیں ہے بلکہ خدا اس کے افعال کا خالق ہے اور اگر خداوند متعال انسان کے افعال کا خالق ہو اور اسی حال میں اگر وہ اس کو ان افعال کا اجر و ثواب یا سزا و عِقاب دے جو اس کے اپنے افعال نہیں ہیں تو یہ عین ظلم ہے اور عدل الہی کے منافی ہے۔ چنانچہ وہ اس "تفویض" کے قائل ہوئے ہیں اور ان کا عقیدہ ہے کہ انسان کے اختیاری امور انسان ہی کو تفویض (یا واگذار) کئے گئے ہیں اور خداوند متعال ان امور میں مداخلت نہیں کرتا؛ اشاعرہ کے برعکس، جن کے عقیدے کا لازمہ یہ ہے کہ انسان مجبور ہے۔
وعد و وعید
اس بات میں امامیہ اور معتزلہ کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے کہ وعد (= ثواب کا وعدہ) اور وعید (= عِقاب کا وعدہ) کلامی قاعدۂ لطف کے مصادیق میں سے ہے۔ نیز دونوں مذاہب نے قبول کیا ہے کہ حکم عقل کے مطابق وعدہ وفا کرنا واجب ہے لیکن امامیہ کے برعکس، معتزلہ کی اکثریت کا عقیدہ ہے کہ وعید پر عمل کو بھی واجب ہے؛ اسی بنا پر انہیں وعیدیہ بھی کہا گیا ہے لیکن وہ معتزلی علماء جو امامیہ کی طرح، وعید پر عمل کو واجب نہیں سمجھتے، تفضیلیہ کہلائے ہیں۔
ایک منزلت دو منزلتوں کے درمیان
یہ اصول مذہب معتزلہ کا پہلا اصول ہے جو ان کے پیشوا واصل بن عطا نے پیش کیا: جس نے گناہ کبیرہ کا ارتکاب کیا وہ نہ تو مؤمن کہلاتا ہے اور نہ ہی کافر، اور اگر وہ توبہ کئے بغیر دنیا سے اٹھ جائے، اس کی عقوبت قطعی اور دائمی ہوگی۔ شیخ مفید کہتے ہیں کہ جو بھی اس مسئلے میں معتزلہ کے ساتھ ہم عقیدہ ہو، اگرچہ دوسرے مسائل میں ان کے ساتھ اختلاف رائے رکھتا ہو، وہ معتزلی ہوگا۔[3]
امر بالمعروف و نہی عن المنکر
یہ اصول اسلام کے احکام ضروریہ میں سے ایک ہے اور اسلامی مذاہب میں سے کوئی بھی اس کا منکر نہیں اور اسی وجہ سے یہ مذہب معتزلہ یا کسی بھی دوسرے مذہب کی خصوصیت نہیں ہے۔ لیکن معتزلہ نے اس کو اصولوں کے زمرے میں قرار دے کر اس کی نسبت اپنے اہتمام کا اظہار کیا ہے۔ زمخشری کے مطابق، اس مسئلے کے بارے میں معتزلہ کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ (امر بالمعروف و نہی عن المنکر) واجب کفائی ہے اور بعض خاص شروط سے مشرط ہے اور اس کا شدید ترین رتبہ (قتال) [= جنگ] ہے جو حکومت کے معاملات اور اسلامی قیادت کے فرائض میں سے ہے۔[4]
حوالہ جات
مآخذ
- مفید، محمد بن محمد، اوایل المقالات فی المذاهب و المختارات، به اهتمام دکتر مهدی محقق، تهران، مؤسسة مطالعات اسلامی دانشگاه تهران، مک گیل، 1372هجری شمسی۔
- شهرستانی، محمد، الملل و النحل، به کوشش محمد بدران، قاهره، 1375هجری قمری /1956عیسوی۔
- زمخشری محمود الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل، دار الکتاب العربی، بیروت، 1407 هجری قمری۔