عرش

ویکی شیعہ سے

عَرش، تخت اور کرسی کے معنی میں ایک قرآنی اصطلاح ہے جس کی نسبت خدا کی طرف دی گئی ہے۔ قرآن کی مختلف آیات میں خداوندعالم کا عرش پر مستقر ہونے کا بیان آیا ہے جس کی تفسیر میں مسلمان مفسرین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ اہل‌ سنت کے بعض فرقے جیسے اشاعرہ اور اہل‌ حدیث اس بات کے معتقد ہیں کہ ان آیات کے بارے میں زیادہ غور فکر نہیں کرنا چاہئے بلکہ ان پر صرف ایمان اور اعتقاد رکھنا کافی ہے۔

ظاہریت اور حشویہ کے مطابق "عرش" وہی مادی تخت ہے اور خدا کا ایک بہت بڑا تخت ہے جس پر بیٹھ کر خدا کائنات کا نظم و نسق چلاتا ہے۔ شیعہ اور معتزلہ کا عقیدہ ہے کہ یہ آیات تمیثلی اور کنائی ہیں جس کے مطابق عرش سے مراد خدا کا بے انتہاء علم ہے۔

علامہ طباطبایی عرش سے مراد عالم وجود کا تکامل یافتہ مرحلہ اور الہی احکام صادر ہونے کا مقام قرار دیتے ہیں اور خدا کا عرش پر بیٹھنے کو کائنات کی تدبیر اور ہر شئ پر محیط خدا کے علم سے تفسیر کرتے ہیں۔

مفہوم‌ شناسی اور قرآنی استعمال

عرش لغت میں "بادشاہ کے تخت" یا "چھت والی چیز" کو کہا جاتا ہے۔[1]عرش کا لفظ قرآن میں 21 مرتبہ آیا ہے اور اس کی نسبت خدا کی طرف دی گئی ہے۔[2] سورۂ توبہ کی آیت نمبر 129 میں عرش الہی کی عظمت کی طرف اشارہ ہوا ہے۔[3]اسی طرح قرآن کی چند آیتوں میں خدا کا عرش پر مستقر ہونے کا بیان آیا ہے۔[4]بعض دوسری آیات میں بعض فرشتوں کا ذکر آیا ہے جو عرش الہی کے اطراف میں خدا کی تسبیح میں مشغول[5] یا حاملان عرش ہیں۔[6] سورۂ ہود کی آیت نمبر 7 میں عرش الہی کو پانی پر مستقر قرار دیا گیا ہے۔[7]

احادیث میں عرش کی خصوصیات

عرش کے بارے میں مختلف احادیث نقل ہوئی ہیں؛ من جملہ یہ کہ خدا کے مقرب فرشتے عرش کو حمل کرتے ہیں اور کائنات کی تمام موجودات کی تصویر عرش پر موجود ہے[8] یا یہ کہ "لا الہ الّا اللّہ، مُحَمَّدٌ رَسول‌اللّہ، علیٌ امیرالمؤمنین" کا جملہ[9] عرش پر لکھا ہوا ہے۔[10] پیغمبر اکرمؐ سے منقول ایک در حدیث میں آیا ہے کہ معراج کے سفر میں جب میں نے عرش کی طرف نگاہ کیا تو دیکھا کہ تمام چودہ معصومین عرش الہی کے دائیں طرف بیٹھے ہیں۔[11] بعض دیگر احادیث میں آیا ہے کہ عرش خدا کا بے انتہا علم ہے۔[12]

احادیث کی روشنی میں عرش بہت باعظمت ہے اور کائنات کی تمام موجودات عرش کے مقابلے میں ریگستان میں انگوٹھی کے مترادف ہے۔[13] اسی طرح عرش کے ہر ستون کا دوسرے ستون سے فاصلہ اتنا زیادہ ہے کہ ایک تیز پرندہ اگر ایک ستون سے پرواز کریں تو دوسرے ستون تک پہنچنے میں اسے ہزار سال لگے گا۔[14] عرش کرسی سے بڑا ہے۔[15] خداوندعالم نے عرش کو نور سے خلق کیا ہے اور کوئی بھی مخلوق اس کی طرف نہیں دیکھ سکتا۔[16]

عرش کے بارے میں مختلف نظریات

عرش اور کرسی سے متعلق آیات، قرآن کی متشابہ آیات میں سے ہیں اور مسلمان علماء ان کے بارے میں مختلف نظریات کے حامل ہیں۔[17] ان میں سے بعض نظریات درج ذیل ہیں:

عرش کا معنا کسی کو معلوم نہیں

اہل‌ سنت کے بعض فرقے جیسے اشاعرہ اور اہل‌ حدیث کے مطابق عرش اور کرسی جیسے بعض مفاہیم پر صرف ایمان لانا چاہئے ان کے بارے میں زیادہ غور و فکر سے پرہیز کرنا چاہئے۔[18] ان کا کہنا ہے کہ قرآن میں آیا ہے کہ خدا عرش پر مستقر ہے لیکن اس کی کیفیت کے بارے میں ہمیں کوئی علم نہیں۔[19] مثال کے طور پر مالک بن اَنَس خداوندعالم کا عرش پر بیٹھنے کے بارے میں کہتے ہیں: "بیٹھنے کا معنا معلوم ہے؛ لیکن اس کی کیفیت ہمارے لئے قابل‌ فہم نہیں ہے اور اس کے بارے میں سوال‌ کرنا بدعت ہے اور اس پر ایمان لانا واجب ہے۔»[20]

عرش کا مادی اور مکانی ہونا

ظاہریت اور حشویہ "عرش" سے اس کے ظاهری معنی مراد لیتے ہیں اور اسے وہی مادی تخت قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق خدا کا ایک بہت بڑا تخت ہے جس پر بیٹھ کر وہ کائنات کا نظم و نسق چلاتا ہے۔[21]

بعض مسلمان فلاسفر من جملہ ملا ہادی سبزواری بھی "ہیئت بطلمیوسی" سے استناد کرتے ہوئے عرش الہی کو "فلک‌ الافلاک" قرار دیتے ہیں جو نظام فلسفہ یونان میں فلک نُہم ہے ۔[22] خدا کے لئے جسمیت کے بعض قائلین کا کہنا ہے کہ عرش اور کرسی دو وسیع کیہانی اور افلاکی جسم ہیں۔[23] اسی طرح بعض کہتے ہیں کہ عرش اور کرسی وہی سیارہ زُحَل اور مشتری ہیں۔[24]

عرش کا تمثیلی ہونا

معتزلہ اور شیعہ مفسرین کی ایک جماعت اس بات کے معتقد ہیں کہ عرش کے نام سے خارج میں کوئی چیز موجود نہیں بلکہ یہ ایک مثال ہے جو کسی اور چیز کی طرف اشارہ اور کنایہ ہے۔[25] اب اس سے مراد کیا ہے اس بارے میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں: بعض کے مطابق کرسی مادی دنیا اور عرش ماورائے مادہ کی طرف اشارہ ہے۔[26] شیخ صدوق عرش کی تفسیر خداوندعالم کے بے انتہاء علم سے کرتے ہیں۔[27] بعض اس سے خدا کی فرمانروایی، حاکمیت اور مالکیت کی طرف اشارہ و کنایہ سمجھتے ہیں۔[28]

علامہ طباطبایی کے مطابق عرش عالم وجود کا تکامل یافتہ مرحلہ ہے جو کائنات کا کنٹرول روم اور احکام خداوندی صادر ہونے کا مقام ہے اور خدا کا عرش پر جلوہ افروز ہونے سے مراد کائنات کے نظم و نسق کی مدیرت اور تمام موجودات پر محیط خدا کا بے انتہاء علم ہے۔[29]

دوسرے ادیان میں عرش کا تصور

عرش الہی کا تصور دوسرے ادیان میں بھی پایا جاتا ہے۔ مثلاً کتاب مقدس میں آیا ہے کہ آسمان کی قسم مت کھاؤ؛ کیونکہ آسمان وہی عرش الہی ہے۔[30] اسی طرح کتاب مقدس میں عرش سے مراد ایک ایسی تختی لیتے ہیں جس کے پہیے ہیں اور خدا اس پر سوار ہوتے ہیں[31] اور عرش اور اس کے پہیئے آگ سے بنائے گئے ہیں۔[32] کتاب مقدس کے ایک اور مقام پر ایسے فرشتوں کا ذکر آیا ہے جو عرش الہی پر بیٹھے ہوئے ہیں۔[33] اسی طرح آیا ہے کہ ملائکۂ سَرّافین تخت پروردگار کے اطراف میں اس کی تسبیح و تقدیس میں مشغول‌ ہیں۔[34]

حوالہ جات

  1. دہخدا، لغتنامہ دہخدا، 1377ہجری شمسی، ج10، ذیل واژہ «عرش»۔
  2. جمعی از محققان، «آیات عرش و کرسی»، ص91۔
  3. «ہُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ؛ وہ عظیم عرش کا مالک ہے۔»
  4. سورہ اعراف، آیہ 54؛ سورہ طہ، آیہ 5؛ سورہ یونس، آیہ 3۔
  5. سورہ زمر، آیہ 57۔
  6. سورہ حاقہ، آیہ 17۔
  7. «كانَ عَرْشُہُ عَلَى الْماءِ؛ خدا کا عرش پانی پر مستقر ہے۔»
  8. طباطبایی، المیزان، 1417ق، ج8، ص170۔
  9. «خدای یکتا کے سوائے کوئی معبود نہیں۔ محمدؐ خدا کے رسول اور علیؑ مؤمنین کے امیرہیں۔»
  10. مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج 27، ص1۔
  11. مجلس، بحارالانوار، 1403ق، ج36، ص217۔
  12. بیات مختاری، «عرش خدا و تفاوت آن با کرسی»، ص58۔
  13. رستمی و آل‌بویہ، سیری در اسرار فرشتگان، 1393ہجری شمسی، ص198۔
  14. رستمی و آل‌بویہ، 1393ہجری شمسی، سیری در اسرار فرشتگان، ص198۔
  15. بیات مختاری، «عرش خدا و تفاوت آن با کرسی»، ص59۔
  16. جعفری، «معارف قرآنی دیدگاہ‌ہا در بارہ عرش خدا»، ص41۔
  17. بیات مختاری، «عرش خدا و تفاوت آن با کرسی»، ص71۔
  18. بیات مختاری، «عرش خدا و تفاوت آن با کرسی»، ص53۔
  19. خرمشاہی، «عرش»، ص1446۔
  20. احمدی و دیگران، «اندیشہ کلامی سنایی دربارہ عرش»، ص7۔
  21. بیات مختاری، «عرش خدا و تفاوت آن با کرسی»، ص68۔
  22. بیات مختاری، «عرش خدا و تفاوت آن با کرسی»، ص69۔
  23. بیات مختاری، «عرش خدا و تفاوت آن با کرسی»، ص71۔
  24. بیات مختاری، «عرش خدا و تفاوت آن با کرسی»، ص69-70۔
  25. جمعی از محققان، «آیات عرش و کرسی»، ص92۔
  26. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1369ہجری شمسی، ج 20، ص38۔
  27. صدوق، معانی‌الاخبار، 1377ہجری شمسی، ص67۔
  28. معرفت، التمہید فی علوم القرآن،1416ھ، ج3، ص125۔
  29. طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج17، ص298۔
  30. کتاب مقدس، کتاب متی، باب 5، آیہ 35۔
  31. کتاب مقدس، کتاب حزقیال، باب 1، آیہ 26۔
  32. کتاب مقدس، کتاب دانیال، باب7، آیہ 9۔
  33. کتاب مقدس، کتاب اول پادشاہان، باب22، آیہ 19۔
  34. کتاب مقدس، کتاب اشعیای نبى، باب6، آیہ3۔

مآخذ

  • احمدی، جمال و دیگران، «اندیشہ کلامی سنایی دربارہ عرش»، در نشریہ دانشکدہ باہنر کرمان، شمارہ 22، زمستان 1386ہجری شمسی۔
  • بیات مختاری، مہدی، «عرش خدا و تفاوت آن با کرسی»، در مجلہ تحقیقات علوم قرآن و حدیث دانشگاہ الزہرا، شمارہ 2، 1390ہجری شمسی۔
  • جعفری، یعقوب، «معارف قرآنی دیدگاہ‌ہا دربارہ عرش خدا» در مجلہ درس‌ہایی از مکتب اسلام، مرداد 1391، شمارہ 615۔
  • جمعی از محققان، «آیات عرش و کرسی»، در فرہنگ‌نامہ علوم قرآنی، قم، پژوہشگاہ علوم و فرہنگ اسلامی، وابستہ بہ دفتر تبلیغات اسلامی حوزہ علمیہ قم، چاپ اول، 1394ہجری شمسی۔
  • خرمشاہی، بہاءالدین، «عرش» در دانشنامہ قرآن و قرآن‌پژوہی، تہران، نشر دوستان‌ـ‌ناہید، چاپ اول، 1377ہجری شمسی۔
  • دہخدا، علی‌اکبر، لغتنامہ دہخدا، تہران، مؤسسہ لغتنامہ دہخدا، 1341ہجری شمسی۔
  • رستمی، محمدزمان و طاہرہ آل‌بویہ، سیری در اسرار فرشتگان با رویکردی قرآنی و عرفانی، قم، پژوہشگاہ علوم و فرہنگ اسلامی،1393ہجری شمسی۔
  • صدوق، محمد بن علی، معانی‌الاخبار، ترجمہ عبدالعلی محمدی شاہرودی، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، 1377ہجری شمسی۔
  • طباطبایی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، انتشارات جامعہ مدرسین، 1417ھ۔
  • مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار الجامعۃ لدرر اخبار الائمۃ الاطہار، بیروت، موسسہ الوفاء، 1403ھ۔
  • معرفت، محمدہادی، التمہید فی علوم القرآن، ج3، قم، مؤسسہ نشر اسلامی، 1416ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، 1369ہجری شمسی۔