مرتکب گناہ کبیرہ
خداشناسی | |
---|---|
توحید | توحید ذاتی • توحید صفاتی • توحید افعالی • توحید عبادی • صفات ذات و صفات فعل |
فروع | توسل • شفاعت • تبرک |
عدل (افعال الہی) | |
حُسن و قُبح • بداء • امر بین الامرین | |
نبوت | |
خاتمیت • پیامبر اسلام • اعجاز • عدم تحریف قرآن | |
امامت | |
اعتقادات | عصمت • ولایت تكوینی • علم غیب • خلیفۃ اللہ • غیبت • مہدویت • انتظار فرج • ظہور • رجعت |
ائمہ معصومینؑ | |
معاد | |
برزخ • معاد جسمانی • حشر • صراط • تطایر کتب • میزان | |
اہم موضوعات | |
اہل بیت • چودہ معصومین • تقیہ • مرجعیت |
مرتکب کبیرہ اس شخص کو کہا جاتا ہے جس نے گناہان کبیرہ میں سے کسی گناہ کا ارتکاب کیا ہو، مرتکبِ کبیرہ کے ایمان اور کفر کے بارے میں مسلمانوں کے مابین ہمیشہ سے اختلاف رائے رہا ہے۔ شیعہ علما کی اکثریت قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ نظریہ رکھتی ہے کہ مرتکب کبیرہ کا ایمان محفوظ رہتا ہے لیکن یہ کہ وہ گناہ انجام دینے کی وجہ سے فاسق ہوجاتا ہے لہذا اس کو ایمان کی وجہ سے عارضی طور پر عذاب ہوگا۔
اس سلسلے میں دیگر اسلامی فِرقوں میں سے خوارج کا نظریہ یہ ہے کہ مرتکب کبیرہ کافر ہے اور وہ ابدی عذاب کا مستحق ہوجاتا ہے اور فرقہ مُرجئہ کے مطابق مرتکب کبیرہ مومن ہے لہذا اس پر کوئی عذاب نہیں ہوگا۔ معتزلہ کی رائے کے مطابق مرتکب کبائر نہ مومن ہے اور نہ کافر بلکہ وہ ان دونوں کی ایک درمیانی حالت میں قرار پائے گا۔ مکتب اہل حدیث کے ماننے والے مرتکب کبیرہ کو ضعیف الایمان مومن قرار دیتے ہیں۔ اشاعرہ اور ماتریدیہ بھی گناہان کبیرہ کے ارتکاب کرنے والوں کو ایمان کے دائرے سے خارج نہیں سجھتے ہیں۔ یہ لوگ ایمان کو ایک قلبی چیز شمار کرتے ہیں۔
شیعہ فقہاء کی نظر میں ارتکاب گناہ کبیرہ کے فقہی آثار بھی ہیں؛ منجملہ یہ کہ مرتکب کبیرہ کی عدالت ختم ہوجاتی ہے اسی طرح حاکم شرع کی ذمہ داری ہے کہ گناہ کبیرہ کے مرتکب لوگوں پر اس کے گناہ کے حساب سے شرعی حد جاری کریں یا اسے تعزیر کریں۔
تعریف اور محل بحث
شیعہ متکلم جعفر سبحانی کے مطابق مرتکب کبیرہ کا مسئلہ مسلمانوں کے درمیان امامت کے بعد دوسرا پیش آنے والا اختلافی مسئلہ ہے جس کی بنیاد پر مسلمان چند فرقوں میں تقسیم ہوگئے۔[1] سبحانی کی نظر میں اس سلسلے میں تین بنیادی سوالات درپیش ہیں:
- مرتکب کبیرہ مومن ہے یا مشرک؟
- مرتکب کبیرہ مؤمن ہے یا کافر؟
- مرتکب کبیرہ کے لیے عذاب کا سلسلہ ہمیشہ(خلود) جاری رہے گا یا نہیں؟[2]
اس مسئلے کا تعلق عمل اور ایمان کے مابین رابطے سے ہے۔[3] اگر عمل کو ایمان کا ایک جزء سمجھا جائے تو اس صورت میں مرتکب کبیرہ ایمان سے خارج ہوگا؛ اور اگر عمل کو ایمان کا جزء قرار نہ دیا جائے تو وہ فسق کا شکار مومن ہوگا۔[4]
سید عبدالحسین دستغیب کی نظر میں گناہ کبیرہ، ایسا گناہ ہے جسے قرآن و حدیث میں بڑا گناہ کہا گیا ہے اور اس کے ارتکاب کرنے والے کو جہنم کے عذاب کا وعدہ دیا گیا ہے۔[5]
علمائے شیعہ کا نظریہ
جب کوئی بندہ گناہ کبیرہ یا ایسا گناہ صغیرہ جس سے اللہ نے نہی کی ہے؛ کا ارتکاب کرے گا تو وہ ایمان کے دائرے سے خارج ہوجاتا ہے صرف اسلام کے دائرے میں باقی رہ جاتا ہے۔ اگر وہ توبہ اور اللہ تعالیٰ سے طلب مغفرت کرے تو وہ دوبارہ دائرہ ایمان میں واپس آجاتا ہے، مگر یہ کہ وہ منکر ہوجائے اور حلال و حرام کو تبدیل کردے؛ اس طرح کہ اللہ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام اور اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال سمجھے اور اسی پر عقیدہ رکھے تو وہ اسلام اور ایمان دونوں سے خارج ہو کر وادی کفر میں پہنچ جاتا ہے۔
شیعہ علما ایمان کی مختلف تعریفیں بیان کرنے کے باوجود اس بات پر اتفاق نظر رکھتے ہیں کہ گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرنے والا کافر یا مشرک نہیں ہوتا بلکہ وہ مسلمان ہی رہتا ہے۔ اسی طرح ان کا عقیدہ ہے کہ ممکن ہے اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو بخش دے۔
شیخ صدوق نے احادیث کی روشنی میں ایمان کے 3 ارکان بیان کیے ہیں، پہلا رکن؛ زبان سے اقرار کرنا ہے، دوسرا رکن دل سے ماننا ہے اور تیسرا رکن عمل کے ذریعے اس کا اظہار کرنا ہے۔[6] شیخ صدوق اسلام اور ایمان میں فرق کے قائل ہیں اور عمل کو ایمان کے متحقق ہونے کی شرط مانتے ہیں۔[7] ان کی نظر میں سورہ نساء کی آیت نمبر49 کے مطابق اللہ تعالیٰ گنہگار بندے کو عذاب کرنے کے حوالے سے اختیار رکھتا ہے اگر وہ چاہے تو اپنے فضل و کرم سے اسے بخش دیتا ہے۔[8]
شیخ مفید کا بھی یہی عقیدہ ہے کہ اسلام اور ایمان میں فرق ہے؛ اسلام کا دائرہ ایمان کے دائرے سے زیادہ وسیع ہے۔[9] وہ مرتکب کبیرہ کو نہ مطلق طور مومن سمجھتے ہیں اور نہ مطلق طور پر فاسق، اس کی طرف صرف اسلام کی نسبت دی جاسکتی ہے۔[10] شیخ مفید اس بات کا دعوا کرتے ہیں کہ تمام شیعہ علما کا یہی عقیدہ ہے کہ مرتکب کبیرہ کی شفاعت ممکن ہے اور عذاب الہی سے بچ سکتا ہے۔[11]
سید مرتضی کے مطابق ایمان ذاتا ایک ایسی چیز ہے جس کے حصول سے انسان ابدی اور دائمی اجر و ثواب کا مستحق قرار پاتا ہے لہذا کسی گناہ کبیرہ (جس کا عذاب عارضی ہے) کے انجام دینے سے ایمان بالکل ختم نہیں ہوتا۔[12] سید مرتضیٰ صرف اس صورت میں گناہ کبیرہ کو باعث کفر سمجھتے ہیں جب وہ اس گناہ کی حرمت کا انکار کرے؛ بصورت دیگر صرف گناہ کے انجام دینے سے وہ ایمان سے خارج نہیں ہوتا۔[13]
شیخ طوسی ایمان کو قلبی تصدیق کا نام دیتے ہیں اور اسے زبان پر جاری کرنے کو ضروری نہیں سمجھتے۔[14] شیخ طوسی اسلامی فرقوں کے اس مسئلے میں مختلف نظریات کو بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ کسی گناہ کا بڑاپن یا گناہوں کی تعداد کا زیادہ ہونا قلبی عقیدہ کے ختم ہونے کا سبب نہیں بنتا، البتہ گناہ کبیرہ فسق کا سبب ضرور ہے۔[15] خواجہ نصیر الدین طوسی کا عقیدہ بھی یہی ہے کہ صرف کافر، دائمی عذاب میں مبتلا ہوجاتا ہے اور مرتکب کبیرہ کو اس کے ایمان کی وجہ سے ثواب عطا ہوتا ہے اور گناہ کی وجہ سے اس کا عذاب میں مبتلا ہونا عارضی ہے۔[16]
علامہ حلی بھی خواجہ نصیر الدین کی تائید کرتے ہوئے گناہ اور فسق کو ایمان کے دائرے سے خارج ہونے کا سبب نہیں مانتے ہیں۔[17] علامہ حلی کے نزدیک دو دلائل کی بنیاد پر مرتکب کبیرہ کو عارضی عذاب میں مبتلا کیا جائے گا:
- مرتکب کبیرہ کو اس کے ایمان کی وجہ سے ثواب ملے گا اور اس کے گناہ کی وجہ سے عذاب میں مبتلا ہوگا۔ دوسری طرف سے تمام مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ آخرت میں عذاب دینے کا مرحلہ اجر و ثواب دینے سے پہلے ہے، لہذا اگر اسے ثواب ملنے سے پہلے دائمی عذاب میں مبتلا کی جائے تو یہ ایک قبیح عمل ہوگا۔[18]
- اگر مرتکب کبیرہ کا عذاب دائمی ہو تو اس کا لازمہ یہ ہوگا کہ ایک انسان نے اپنی پوری زندگی ایمان کے ساتھ گزاری اب اس کے گناہ کی وجہ سے اسے دائمی عذاب میں مبتلا کیا جائے تو ایسی صورت حال قبیح ہونے کی وجہ سے عُقلا کے نزدیک اسے دائمی عذاب دینا محال ہوگا۔[19]
اہل سنت گروہوں کے مختلف نظریات
خوارج
مرتکب کبیرہ کا کافر ہونا خوارج کا پہلا اتفاقی مسئلہ ہے۔[20] ان کے اَزارَقہ نامی ایک گروہ کا عقیدہ ہے کہ مرتکب کبیرہ مرتد ہے اور ہمیشہ کے لیے جہنم کی آگ رہے گا؛ دوبارہ سے ایمان کی طرف پلٹنا ممکن نہیں اسے اپنی اولاد کے ساتھ جہنم کی آگ میں عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔[21]
معتزلہ
معتزلہ کے عقیدے کے مطابق مرتکب کبیرہ ایمان کے دائرے سے خارج ہوجاتا ہے لیکن وہ کافر نہیں ہوگا۔[22] ایسا آدمی نہ مومن ہے نہ کافر بلکہ وہ فاسق ہے اور فسق ایمان اور کفر کی درمیانی حالت ہے۔[23] قاضی عبدالجبار معتزلی کے استدلال کے مطابق مرتکب کبیرہ مومن نہیں رہتا کیونکہ مومن وہ ہے جس کے ایمان کی وجہ سے اس کی تعریف کی جاتی ہے لیکن فاسق کو اس کے گناہ کی وجہ سے ذلت و خواری کا سامنا ہوتا ہے۔[24] دوسری طرف سے وہ کافر بھی نہیں ہے کیونکہ کفار کے لیے فقہ میں خاص احکام ہیں جو فاسق پر لاگو نہیں ہوتے۔[25]
مُرجئہ
مرتکب کبیرہ کے حوالے سے مرجئہ کا نظریہ خوارج کے نظریے کے برخلاف ہے۔[26] جعفر سبحانی کے قول کے مطابق گروہ مرجئہ ایمان اور عمل کی حقیقت کے مسئلے میں دوسرے مسلمانوں سے مختلف نظریے کا حامل ہے؛ اس طرح سے کہ ان کے نزدیک ایمان کا عمل سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اس سےخارج ہے۔[27] ان کے عقیدے کے مطابق ایمان قلبی یا زبانی تصدیق کا نام ہے جس میں کمی بیشی نہیں ہوتی۔[28] مرتکب کبیرہ بھی قلبی ایمان کا حامل ہوتا ہے اس لحاظ سے وہ مومن کہلاتا ہے۔[29] مرتکب کبیرہ اگر توبہ نہیں کرتا، تب بھی وہ دائمی عذاب میں مبتلا نہیں ہوگا۔[30]
اہل حدیث
مرجئہ اور خوارج کے برخلاف مکتب اہل حدیث اس بات کے معتقد ہیں کہ ایمان میں شدت و ضعف پایا جاتا ہے۔[31] نیز ان کے نزدیک ایمان و عمل کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔[32] مکتب اہل حدیث کے مطابق مرتکب کبیرہ مؤمنِ فاسق ہے اور اس نے اپنے ایمان کے کمال کو ضائع کیا ہے۔[33]
اشاعرہ اور ماتُریدیہ
اشاعرہ کے مطابق ایمان ایک قلبی اور باطنی چیز ہے اور عمل سے اس کا کوئی تعلق نہیں؛ اگرچہ عمل صالح کے متحقق ہونے کی شرط ضرور ہے۔[34] اس بنا پر اشاعرہ کے نزدیک مرتکب کبیرہ مومن ہے اور اسے گناہ کی وجہ سے عارضی طور پر عذاب ہوگا لیکن عذاب کی نوعیت کا علم صرف اللہ کے پاس ہے ہم اس سلسلے میں کچھ نہیں کہہ سکتے۔[35] ماتریدیہ(اہل سنت کا ایک کلامی مکتب فکر) کے نزدیک بھی مرتکب کبیرہ کافر نہیں ہے؛ لیکن اسے اپنے گناہ کے حساب سے عذاب ہوگا۔[36] ابو منصور ماتریدی کے مطابق ایمان قلبی تصدیق کا نام ہے اور کفر انکار سے عبارت ہے۔[37]
شیعہ مکتب فکر کا نظریہ
شیعہ فقہاء کے مطابق گناہ کبیرہ سے پرہیز کرنا مومن کی انفرادی عدالت کے تحقق کے لیے شرط ہے اور گناہ کبیرہ کے مرتکب ہونے سے اس کی عدالت ٹوٹ جاتی ہے۔[38] اسی طرح مرتکب گناہان کبیرہ کے بارے میں یہ حکم ہے کہ اگر اس گناہ کے لیے شریعت میں کوئی حد بیان ہوئی ہے تو متعلقہ شخص پر وہ حد جاری ہوگی اور اگر اس کے لیے شریعت میں کوئی سزا متعین نہیں ہے تو حاکم شرع اس شخص کو تعزیر کرے گا۔[39]
حوالہ جات
- ↑ سبحانی تبریزی، بحوث فی الملل و النحل، 1427ھ، ج5، ص443.
- ↑ سبحانی تبریزی، بحوث فی الملل و النحل، 1427ھ، ج5، ص443.
- ↑ سبحانی تبریزی، بحوث فی الملل و النحل، 1427ھ، ج5، ص443.
- ↑ سبحانی تبریزی، بحوث فی الملل و النحل، 1427ھ، ج5، ص443.
- ↑ دستغیب، گناہان کبیرہ، 1388ہجری شمسی، ج1، ص31-32.
- ↑ شیخ صدوق، الہدایة فی الأصول و الفروع، 1418ھ، ج2، ص54.
- ↑ شیخ صدوق، الہدایة، 1418ھ، ج2، ص54-55.
- ↑ شیخ صدوق، إعتقادات الإمامیة، 1414ھ، ص67.
- ↑ شیخ مفید، سلسلة مؤلفات الشیخ المفید، 1414ھ، ج4 (أوائل المقالات)، ص48.
- ↑ شیخ مفید، سلسلة مؤلفات الشیخ المفید، 1414ھ، ج4 (أوائل المقالات)، ص84.
- ↑ شیخ مفید، سلسلة مؤلفات الشیخ المفید، 1414ھ، ج4 (أوائل المقالات)، ص47.
- ↑ سید مرتضی، رسائل الشریف المرتضی، 1405ھ، ج1، ص147-148.
- ↑ سید مرتضی، رسائل الشریف المرتضی، 1405ھ، ج1، ص155.
- ↑ شیخ طوسی، الاقتصاد، 1406ھ، ص227.
- ↑ شیخ طوسی، الاقتصاد، 1406ھ، ص227-235.
- ↑ خواجہ نصیرالدین طوسی، تجرید الاعتقاد، 1407ھ، ص304.
- ↑ علامہ حلی، کشف المراد، 1413ھ، ص427.
- ↑ علامہ حلی، کشف المراد، 1413ھ، ص414-415.
- ↑ علامہ حلی، کشف المراد، 1413ھ، ص415.
- ↑ ابوحاتم رازی، کتاب الزینة فی الکلمات الاسلامیة العربیة، 1988م، قسم 3، ص282؛ بغدادی، اصول الدین، 1346ھ، ص332؛ بغدادی، الفرق بین الفرھ، 1367ھ، ص73؛ ابن حزم اندلسی، الفصل، 1317-1320ھ، ج2، ص113؛ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغة، 1385-1387ھ، ج8، ص113.
- ↑ اشعری، المقالات و الفرھ، 1341ہجری شمسی، ص85-86؛ بغدادی، الفرق بین الفرھ، 1367ھ، ص82-83؛ شہرستانی، الملل والنحل، 1415ھ، ج1، ص140-141.
- ↑ قاضی عبدالجبار، شرح الأصول الخمسة، 1422ھ، ص471.
- ↑ قاضی عبدالجبار، شرح الأصول الخمسة، 1422ھ، ص471.
- ↑ قاضی عبدالجبار، شرح الأصول الخمسة، 1422ھ، ص474.
- ↑ قاضی عبدالجبار، شرح الأصول الخمسة، 1422ھ، ص481.
- ↑ گروہی از پژوہشگران، «المرجئہ»، موسوعہ الفرق المنتسبہ للاسلام، ج3، ص16.
- ↑ سبحانی، بحوث فی الملل و النحل، 1427ھ، ج3، ص110.
- ↑ سبحانی، بحوث فی الملل و النحل، 1427ھ، ج3، ص110؛ الوردانی، فرق اہل السنہ، 1424ھ، ص51.
- ↑ سبحانی، بحوث فی الملل و النحل، 1427ھ، ج3، ص110-11؛ العثیمین، شرح العقیدہ الواسطیہ، 1421ھ، ج2، ص69.
- ↑ سبحانی، بحوث فی الملل و النحل، 1427ھ، ج3، ص111؛ العثیمین، شرح العقیدہ الواسطیہ، 1421ھ، ج2، ص69.
- ↑ سبحانی تبریزی، بحوث فی الملل و النحل، النشر الاسلامی، ج1، ص164.
- ↑ سبحانی تبریزی، بحوث فی الملل و النحل، النشر الاسلامی، ج1، ص164.
- ↑ تفتازانی، شرح المقاصد، 1422ھ، ج3، ص463.
- ↑ جرجانی، شرح المواقف، 1325ھ، ج8، ص324-325.
- ↑ جرجانی، شرح المواقف، 1325ھ، ج8، ص309 و 312 و 334.
- ↑ ابو منصور الماتریدی، التوحید، دارالجامعات المصریة، ص364.
- ↑ ابو منصور الماتریدی، التوحید، دارالجامعات المصریة، ص380.
- ↑ شیخ انصاری، رسائل فقہیہ، 1412ھ، ص6-8؛ نجفی، جواہر الکلام، 1362ہجری شمسی، ج41، ص26.
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، 1362ہجری شمسی، ج41، ص448.
مآخذ
- ابن ابی الحدید، عبدالحمید بن ہبة اللہ، شرح نہج البلاغة، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم، قاہرہ، 1385-1387ھ/1965-1967ء (افست، بیروت، بیتا).
- ابن حزم اندلسی، علی بن احمد، الفصل فی الملل والاہواء والنحل، مصر، 1317-1320ھ (افست، بیروت، بیتا).
- ابو منصور الماتریدی، محمد بن محمد بن محمود، التوحید، الاسکندریة، دارالجامعات المصریة، بیتا.
- ابوحاتم رازی، احمد بن حمدان، کتاب الزینة فی الکلمات الاسلامیة العربیة، تحقیق عبداللّہ سلوم سامرائی، بغداد، 1988ء۔
- اشعری، سعد بن عبداللہ، المقالات و الفرق، تحقیق محمدجواد مشکور، تہران، مرکز انتشارات علمی فرہنگی، 1341ہجری شمسی۔
- العثیمین، محمد بن صالح، شرح العقیدہ الواسطیہ، عربستان،دار ابن الجوزی للنشر والتوزیع، چاپ ششم، 1421ھ۔
- الوردانی، صالح، فرق اہل السنہ جماعات الماضی و جماعات الحاضر، قم، مرکز الابحاث العقائدیہ، چاپ اول، 1424ھ۔
- بغدادی، عبدالقاہر بن طاہر، اصول الدین، استانبول، 1346ھ/1928ء (افست، بیروت، 1401ھ/1981ء).
- بغدادی، عبدالقاہر بن طاہر، الفرق بین الفرق، تحقیق محمد زاہد کوثری، قاہرہ، 1367ھ/1948ء۔
- جرجانی، علی بن محمد، شرح المواقف، تحقیق محمد بدرالدین نعسانی حلبی، قاہرہ، مطبعة السعادة، 1325ھ/1907ء (افست قم، 1370ہجری شمسی).
- خواجہ نصیرالدین طوسی، محمد بنمحمد، تجرید الاعتقاد، تہران، مکتب الاعلام الاسلامی، 1407ھ۔
- دستغیب، عبدالحسین، گناہان کبیرہ، قم، جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم. دفتر انتشارات اسلامی، 1388ہجری شمسی۔
- سبحانی تبریزی، جعفر، بحوث فی الملل و النحل، قم، موسسہ النشر الاسلامی، بیتا.
- سبحانی تبریزی، جعفر، بحوث فی الملل و النحل، قم، مؤسسة الإمام الصادق(ع)، 1427ھ۔
- سید مرتضی علم الہدی، علی بنالحسین، رسائل الشریف المرتضی، قم، دارالقرآن الکریم، 1405ھ۔
- شہرستانی، محمد بن عبدالکریم، الملل والنحل، تحقیق امیرعلی مہنا و علی حسن فاعور، بیروت،دار المعرفة، 1415ھ/1995ء۔
- شیخ انصاری، مرتضی، رسائل فقہیہ، قم، مجمع الفکر الاسلامی، 1412ھ۔
- شیخ صدوق، محمد بنعلی، إعتقادات الإمامیة، قم، کنگرہ شیخ مفید، 1414ھ۔
- شیخ صدوق، محمد بنعلی، الہدایة فی الأصول و الفروع، قم، مؤسسة الإمام الہادی(ع)، 1418ھ۔
- شیخ طوسی، محمد بنحسن، الاقتصاد فیما یتعلق بالاعتقاد، بیروت، دارالاضواء، 1406ھ۔
- شیخ مفید، محمد بنمحمد، سلسلة مؤلفات الشیخ المفید، بیروت، دارالمفید، 1414ھ۔
- علامہ حلی، حسن بنیوسف، کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد، قم، جماعة المدرسین فی الحوزة العلمیة بقم. مؤسسة النشر الإسلامی، 1413ھ۔
- قاضی عبدالجبار، عبدالجبار ابناحمد، شرح الأصول الخمسة، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1422ھ۔
- کلینی، محمد بنیعقوب، الکافی، تہران، دارالکتب الاسلامیة، 1407ھ۔
- گروہی از پژوہشگران، «المرجئہ»، موسوعة الفرق المنتسبہ للاسلام، بیجا، بینا، بیتا.
- نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام فی شرح شرائع الإسلام، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، 1362ہجری شمسی۔