عدلیہ

ویکی شیعہ سے

عدلیہ علم کلام کی ایک اصطلاح ہے جو شیعہ اور مُعتزلہ کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ شیعہ اور معتزلہ کو عدلیہ کہنے کی وجہ ان کا وہ عقیدہ ہے جس کے مطابق وہ عقلی اعتبار سے حُسن و قُبح یا اچھائی اور برائی کے قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ خدا کی طرف سے ثواب و عقاب بھی اسی اعتبار سے دیا جائے گا اسی لئے خدا کو عادل جانا جاتا ہے۔ اسی اعتبار سے عدل الہی شیعوں کے اصول دین اور معتزلہ کے اصول پنجگانہ میں شامل ہے۔

عدلیہ کے مقابلے میں اشاعرہ ہے جو حسن و قبح شرعی کے قائل ہیں؛ یعنی ان کا عقیدہ ہے کہ اچھائی اور برائی کی کوئی حقیقت نہیں ہے بلکہ اللہ جس چیز کی انجام دہی کا حکم دے وہ اچھا اور جس چیز سے منع کرے وہ برا ہے۔ شہید مطہری کا کہنا ہے کہ تمام اسلامی مذاہب اللہ تعالی کو عادل مانتے ہیں اور صرف عدالت کی تفسیر میں اختلاف رائے رکھتے ہیں۔

عدلیہ کا حسن و قبح عقلی پر عقیدہ رکھنے کی وجہ سے وہ لوگ قرآن، سنت اور اجماع کے ساتھ‌ عقل کو بھی حجت مانتے ہیں اور اسے شرعی احکام کے استنباط کے دلائل میں سے ایک سمجھتے ہیں۔

عدل الہی؛ کلام اسلامی کا ایک اہم مسئلہ

سانچہ:اصلی عدل کلام اسلامی کے اہم مسائل میں سے ایک ہے اور اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ مسلمان متکلمین اس موضوع کے اعتبار سے عدلیہ اور غیر عدلیہ میں تقسیم ہوتے ہیں۔[1] عدل شیعوں کے ہاں اصول دین میں سے ایک ہے۔[2] اسی طرح اہل سنت کے کلامی مذہب معتزلہ کے ہاں پانچوں اصول میں سے دوسرا اصل ہے۔[3]

عدل الہی کا اصل مسئلہ

مرتضی مطہری کا کہنا ہے کہ عدل الہی کے بارے میں سوال یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالی عادل ہے یا نہیں؛ کیونکہ عالم اسلام کے تمام علما اللہ سبحانہ و تعالی کے عادل ہونے پر عقیدہ رکھتے ہیں اور کوئی ایک مذہب بھی اللہ کی عدالت کے مخالف نہیں ہے۔ اصل مسئلہ اللہ تعالی کی عدالت کی تفسیر میں ہے۔[4] اصل بات یہ ہے کہ کیا اللہ کے عدل کا کوئی معیار ہے؟ اور اللہ کے قوانین اور شریعت یعنی آپ کے امر اور نہی عدالت کے مطابق ہیں؟ یا کوئی معیار نہیں ہے اور اللہ تعالی جو چاہے کرتا ہے اور وہی عدل ہے۔[5]

دوسرے لفظوں میں اچھائی اور برائی، مصلحت و مفسدہ اور حق و ناحق موجود ہے اور اللہ انہی کے مطابق احکام صادر کرتا ہے یا ایسا نہیں ہے بلکہ پہلے اللہ تعالی احکام صادر کرتا ہے اور ان احکام کے مطابق حق و ناحق اور اچھائی اور برائی وجود میں آتے ہیں۔[6]

مثال کے طور پر کیا ایسا ہے کہ اللہ تعالی امانتداری کا حکم کرتا ہے، کیونکہ درحقیقت اچھا ہے اور اس میں مصلحت پائی جاتی ہے اور خیانت سے منع کرتا ہے کیونکہ خیانت بری چیز ہے اور اس میں مفسدہ پایا جاتا ہے، یا ایسا نہیں ہے یعنی حقیقت میں کوئی مصلحت یا مفسدہ نہیں پایا جاتا ہے بلکہ اللہ تعالی بعض اعمال کا حکم دیتا ہے تو وہ اچھے ہوتے ہیں اور بعض کاموں سے منع کرتا ہے تو وہ برے ہوتے ہیں۔[7]

عدلیہ کون لوگ ہیں؟

اسلامی کلامی مذاہب میں شیعہ اور معتزلہ کو عدلیہ کہا جاتا ہے۔[8] شیعہ اور معتزلہ متکلمین عقلی اعتبار سے حسن و قبح کے قائل ہیں؛ یعنی ان کا کہنا ہے کہ اللہ تعالی کی طرف سے کسی کام کا حکم یا اس سے ممانعت سے پہلے ہی عقلی اعتبار سے انسانی اعمال حَسَن اور قبیح میں تقسیم ہوتے ہیں؛ یعنی انسانی عقل بعض امور کی اچھائی اور برائی کے بارے میں حکم کرتی ہے اور اللہ تعالی چونکہ عادل ہے اس لئے کسی چیز کے حسن و قبح کے بارے میں عقل کی تشخیص کے برخلاف عمل نہیں کرتا ہے۔[9]

عدلیہ کے مخالف

شیعہ اور معتزلہ کے مقابلے میں اشاعرہ حسن و قبح عقلی کو نہیں مانتے ہیں اور وہ حسن و قبحِ شرعی کے قائل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عقل کسی چیز کی اچھائی یا برائی کو نہیں سمجھ سکتی؛ دوسرے لفظوں میں کوئی چیز بذات خود اچھی یا بری نہیں بلکہ ہر چیز کی اچھائی اور برائی خدا کے حکم پر موقوف ہے۔ یعنی خدا جس چیز کی انجام دہی کا حکم دے وہ اچھی ہے اور جس چیز سے ممانعت کرے وہ بری ہے۔ یہاں تک کہ اگر شریعت نہ ہوتی تو کوئی چیز بذات خود نہ اچھی ہوتی اور نہ بری ہوتی۔[10]

عدلیہ کے ہاں عقل کی حجیت

شہید مطہری کے مطابق چونکہ عدلیہ حسن و قبح عقلی کے قائل ہونے کی بنا پر قرآن، سنت اور اجماع جنہیں سب مسلمان مانتے ہیں، کے ساتھ عقل کو بھی حجت مانتے ہیں؛ یعنی عقل کو بھی شرعی ادلہ میں سے ایک سمجھتے ہیں اور شرعی احکام کے استنباط اور اجتہاد میں اس سے استناد کرتے ہیں۔[11] جبکہ غیر عدلیہ کا کہنا ہے کہ ہماری عقل شریعت کے قوانین تک پہنچنے میں ہمارا مددگار نہیں‌ بن سکتی ہے۔[12]

حوالہ جات

  1. مطہری، مجموعہ‌آثار، 1384شمسی، ج4، ص811.
  2. محمدی ری‌شہری، دانشنامہ عقاید اسلامی، 1385شمسی، ج8، ص99.
  3. سبحانی، فرہنگ عقاید و مذاہب اسلامی، 1373شمسی، ج4، ص51.
  4. مطہری، مجموعہ‌آثار، 1384شمسی، ج3، ص73.
  5. مطہری، مجموعہ‌آثار، 1384شمسی، ج4، ص811-812.
  6. مطہری، مجموعہ‌آثار، 1384شمسی، ج4، ص813.
  7. مطہری، مجموعہ‌آثار، 1384شمسی، ج4، ص811-812.
  8. نگاہ کنید بہ علامہ حلی، استقصاء النظر فی القضاء و القدر، 1418ق، ص34؛ مشکور، فرہنگ فرق اسلامی، 1375شمسی، ص333.
  9. حلی، کشف‌المراد، 1413ق، ص302-303.
  10. حلی، کشف‌المراد، 1413ق، ص302.
  11. مطہری، مجموعہ‌آثار، 1384شمسی، ج4، ص815.
  12. مطہری، مجموعہ‌آثار، 1384شمسی، ج4، ص814.

مآخذ

  • حلی، حسن بن یوسف‏، إستقصاء النظر فی القضاء و القدر، تحقیق محمد حسینی نیشابوری، مشہد، دار انباء الغیب، چاپ اول، 1418ھ۔
  • حلی، حسن بن یوسف‏، کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد، تصحیح حسن حسن‌زادہ آملی، قم، جماعة المدرسین فی الحوزة ، العلمیة بقم، مؤسسة النشر الاسلامی‏، چاپ چہارم، 1413ھ۔
  • سبحانی، جعفر، فرہنگ عقاید و مذاہب اسلامی، قم، توحید، چاپ اول، 1373ہجری شمسی۔
  • محمدی ری‌شہری، محمد، دانشنامہ عقاید اسلامی، قم، دارالحدیث، 1385ہجری شمسی۔
  • مشکور، محمدجواد، فرہنگ فرق اسلامی، مشہد، آستان قدس رضوی، 1375ہجری شمسی۔
  • مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار، تہران، انتشارات صدرا، 1384ہجری شمسی۔