فکری پسماندہ
فکری پسماندہ یا مستضعف اور ذہنی کمزور وہ شخص ہے جو حق کو باطل سے پہچانےکی صلاحیت نہیں رکھتا ہے یا دین اسلام تک اس کی رسائی نہیں ہے لیکن اگر حق اس کے سامنے پیش کیا جائے تو وہ اسے قبول کرتا ہے۔ فکری پسماندگی کے مقابلے میں عملی پسماندگی ہے جس کا مطلب ایک شخص اسلام سے تو واقف ہو چکا ہے لیکن ماحول اسے عمل کرنے کی اجازت نہیں دیتا ہے۔
قرآن میں مستضعف شخص کے بارے میں ایسے بیانات ہیں جن کے بارے میں مفسرین کا کہنا ہے کہ ان سے مراد فکری اور عقلی پسماندہ افراد ہیں۔ احادیث میں بھی فکری پسماندگی کا ذکر آیا ہے اور اس کے شرائط بیان کیے گئے ہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ فکری طور پر پسماندہ شخص وہی جاہل قاصر ہے۔
فکری طور پر پسماندہ شخص کے لئے آخرت میں سزا کے حوالے سے تین نظریات پائے جاتے ہیں: 1۔جہنم میں داخل ہونگے، 2۔عذاب نہیں ہوگا، اور 3۔ ثواب کے مستحق ہونگے۔
فکری پسماندگی کے موضوع پر کوئی مقالہ یا کتاب نہیں لکھی گئی ہے؛ لیکن اس مسئلے کو بعض تفسیری کتابوں اور بعض مقالوں میں بیان کیا گیا ہے۔
تعریف
دینی ادبیات مین فکری پسماندہ اس شخص کو کہا جاتا ہے جو فکری کمزوری کی وجہ سے، یا اسلام تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے، حق کو باطل سے پہچاننے اور دینی تعلیمات کو جاننے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے؛[1] لیکن اگر اس کے سامنے حقیقت پیش کی جائے تو اسے قبول کرنے سے انکاری نہیں ہے۔[2]
فکری پسماندگی عملی پسماندگی کے متضاد ہے؛ یعنی جس شخص نے حق کو پہچان لیا ہے لیکن ماحول کی گھٹن اسے اس پر عمل کرنے کی اجازت نہیں دیتی ہے۔[3] بعض محققین کے نزدیک بعض اوقات عقلی طور پر پسماندہ شخص اور جاہل قاصر ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں۔[4]
اہمیت
قرآن مجید کی بعض آیات میں "مستضعف" (پسماندہ) کا ذکر آیا ہے اور مفسرین نے اس کے بعض استعمالات کو عقلی پسماندہ کے معنی میں لیا ہے۔[5] احادیث میں زیادہ تر فکری مستضعف اور پسماندہ کی طرف اشارہ ہوا ہے۔ مثال کے طور پر امام کاظمؑ کی ایک روایت میں ہے کہ مستضعف وہ شخص ہے جس کے لئے دلائل و شواہد فراہم نہ کیے گئے ہوں اور اسے دینی اختلافات سے کوئی آشنائی نہ ہو؛ لیکن جب وہ اختلافات کے وجود سے آگاہ ہو جاتا ہے تو وہ مستضعف نہیں رہتا ہے۔[6] علامہ مجلسی نے اپنی کتاب بِحارُ الاَنوار میں «المستضعفین و المُرْجَونَ لِأمرِ اللہ» کے باب میں مستضعف کے بارے میں 37 احادیث نقل کیا ہے۔[7]
فکری کمزور کون لوگ ہیں؟
شیخ صدوق نے تین قسم کے لوگوں کو فکری مستضعف اور پسماندہ قرار دیا ہے:
- کچھ لوگ جو پیدائشی طور پر عقل کی نعمت سے محروم ہیں اور اسی حالت میں زندگی کرتے ہیں۔[8]
- وہ بچے جن کے پاس عقل تو ہے، لیکن وہ حق کو باطل سے تشخیص اور تمیز دینے سے پہلے ہی مر جاتے ہیں۔
- وہ لوگ جن کے پاس عقل کی نعمت تو تھی، لیکن نبی اکرمؐ کی آمد یا کسی اور کا اللہ کی طرف دعوت کے وقت بڑھاپے کی وجہ سے تشخیص کی صلاحت کھو بیٹھے ہیں۔[9]
بعض محققین کے مطابق جن لوگوں کے پاس عقل تو ہے لیکن ماحول اور پروپیگنڈے جیسے عوامل کی وجہ سے حق ان کے کانوں تک نہیں پہنچا ہے تو وہ بھی فکری طور پر مستضعف سمجھے جاتے ہیں۔[10]
شیعہ فقیہ اور متکلم جعفر سبحانی نے فکری پسماندہ اور مستضعف افراد کے چار مصداق بیان کئے ہیں:
- وہ شخص جو ایسی سرزمین میں پیدا ہوا ہے جہاں اس کے لیے دینی تعلیم میسر نہ ہو۔
- وہ شخص جو ایسی سرزمین میں رہتا ہو جہاں فقیہ نہ ہونے کی وجہ سے اس کے لیے فرض ادا کرنا ممکن نہ ہو۔
- کوئی ایسا شخص جس کی پرورش ایسے گھرانے میں ہوئی ہو جو اپنے وراثت میں ملے مذہب کو ٹھیک سمجھتا ہو۔
- کوئی شخص جو ذہنی طور پر معذور ہو۔[11]
قیامت میں مستضعف کی حالت
فکری پسماندہ لوگوں کے ساتھ قیامت کے دن اللہ تعالی کے سلوک اور برتاؤ کے بارے میں مفکرین کے درمیان اختلاف ہے۔ اس بارے میں تین آراء ہیں:
- بعض شیعہ متکلمین کا خیال ہے کہ فکری مستضعف لوگ قیامت کے دن جہنم میں داخل ہوں گے۔[12]
- بعض مفسرین اور متکلمین کا کہنا ہے کہ سورہ نساء کی آیات 98 اور 99 اور ائمہؑ کی روایتوں کے مطابق[13] فکری مستضعف لوگ نجات پائیں گے۔[14] وہ یہاں تک کہتے ہیں کہ اگر کوئی فکری مستضعف شخص اپنے فرائض کو خلوص نیت سے اپنے دین اور مذہب کے مطابق انجام دے تو وہ جہنم میں نہیں جاۓ گا اور ثواب کا بھی مستحق ٹھہرے گا۔[15]
- ایک گروہ کا خیال ہے کہ اللہ تعالی ذہنی مستضعف لوگوں کو سزا نہیں دیتا، لیکن وہ انہیں اجر اور ثواب بھی نہیں دیتا ہے۔ اس لیے کہ عمل کے بدلے کاموں میں اجر و ثواب ملتا ہے اور اس گروہ کا حکم خدا کے فضل و کرم پر ہے۔[16]
شیعہ متکلم، مرتضی مطہری نے فکری مستضعف کے حوالے سے دو انتہا پسندانہ اور تفریطی نظریات کی طرف اشارہ کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ دونوں قرآن کے نقطہ نظر کے خلاف ہیں:[17] تفریطی نقطہ نظر کے مطابق صرف شیعہ اعمال ہی قابل قبول ہیں اور اور فکری مستضعف کا عمل باطل ہے۔[18] امامت پر عقیدہ نہ ہونا ان تفریطی نظریہ کے طرفداروں کی اہم دلیل ہے جو فکری مستضعف کے اعمال قبول نہ ہونے کے لئے پیش کی گئی ہے؛ خواہ عمل انجام دینے والا مسلمان شیعہ مذہب کا ہو یا نہ ہو۔[19] مطہری کا کہنا ہے کہ فکری مستضعف میں انکار اور عناد و دشمنی کا عنصر نہ ہو تو اس کا عمل قبول ہوگا۔[20]
مطالعاتی مآخذ
بعض محققین کے مطابق فکری مستضعف کے موضوع پر کوئی مضمون یا کتاب نہیں لکھی گئی ہے اور تفسیری کتابوں میں جن آیات میں "مستضعف" یا اس کے مشتقات ذکر ہوئے ہیں ان کی تفسیر میں مختلف جگہوں پر اس کے بارے میں کچھ باتیں ذکر ہوئی ہیں۔[21] مثال کے طور پر کتاب عدل الہی میں "غیر مسلموں کے نیک اعمال" کی بحث میں مطہری نے اس حوالے سے کچھ باتیں بیان کیا ہے۔[22] فارسی زبان میں اس حوالے سے مختلف مقالے لکھے گئے ہیں جن میں فکری مستضعف کے بارے میں قلم فرسائی کی گئی ہے۔ فارسی زبان پر عبور رکھنے والے قارئین ان سے استفادہ کرسکتے ہیں۔[23]
متعلقہ مضامین
حوالہ جات
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ش، ج4، ص87
- ↑ طباطبایی، المیزان، 1363ش، ج5، ص51.
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374، ج16، ص20.
- ↑ سروش و حیدری، استکبار و استضعاف در قرآن، قم، ج1، ص33.
- ↑ طباطبایی، الميزان فی تفسير القرآن، 1363ش، ج5، ص 50-52
- ↑ کلینی، الکافی، 1407، ج2، ص406.
- ↑ مجلسی، بحارالانوار، 1403، ج69، ص157-171
- ↑ شیخ صدوق، التوحید، 1398ق، ص 393.
- ↑ شیخ صدوق، معانی الاخبار، 1403ق، ص 408.
- ↑ یوسفی زادہ، «وضعیت مستضعفان فکری در قیامت»، ص58.
- ↑ سبحانی، مدخل مسائل جدید در علم کلام، 1382ش، ج2، ص320.
- ↑ عزیزان، «پلورالیسم نجات در اندیشہ اسلامی»، ص4؛ خمینی، انوار الہدایہ، 1372ش، ج2، ص412.
- ↑ ملاحظہ کریں: کلینی، الکافی، 1407ق، ج2، ص404-407.
- ↑ ملاحظہ کریں: علامہ مجلسی، مرآة العقول، 1363ش، ج11، ص203؛ طباطبایی، المیزان، 1363ش، ج5، ص50-51؛ مطہری، عدل الہی، 1391ش، ص289.
- ↑ دادجو، «معذوریت یا استحقاق پاداش پیروان جاہل قاصر ادیان دیگر»، ص110.
- ↑ شیخ طوسی، التبیان فی تفسیر القرآن، احیاء التراث العربی، ج3، ص303؛ طباطبایی، المیزان، 1363ش، ج5، ص52؛ جوادی آملی، تفسیر تسنیم، 1389ش، ج20، ص241.
- ↑ مطہری، عدل الہی، 1391، ص243-316.
- ↑ مطہری، عدل الہی، 1391، ص243-316.
- ↑ مطہری، عدل الہی، 1391، ص243-316.
- ↑ مطہری، عدل الہی، 1391، ص243-316
- ↑ یوسفی زادہ و جوادی، «وضـعیت مستضعفان فکری در قیامت»، ص56.
- ↑ مطہری، عدل الہی، 1391، ص243-316
- ↑ ملاحظہ کیجئے؛ توفیقی، «دیدگاہ امام خمینی (رہ) دربارہ پیروان ادیان» در نشریہ ہفت آسمان؛ عزیزان، «پلورالیسم نجات در اندیشہ اسلامی» در نشریہ معرفت؛ اسماعیل زادہ، «بررسی پلورالیسم نجات از نگاہ قرآن»، در نشریہ بینات؛یوسفی زادہ و جوادی، «وضـعیت مستضعفان فکری در قیامت»، در نشریہ اندیشہ نوین دینی؛ نقی زادہ و عبداللہی عابد، «بررسی ماہیت و عاقبت اخروی مستضعفان دینی با تکیہ بر آیات و روایات»، در نشریہ الہیات قرآنی.
مآخذ
- اسماعیل زادہ، ایلقار، «بررسی پلورالیسم نجات از نگاہ قرآن»، در مجلہ بینات، شمارہ 1، 1390ہجری شمسی۔
- امام خمینی، سید روحاللہ، انوار الہدایہ، تہران، موسسہ تنظیم و نشر آثار امام، 1372ہجری شمسی۔
- توفیقی، حسین، «دیدگاہ امام خمینی (رہ) دربارہ پیروان ادیان»، در مجلہ ہفت آسمان، شمارہ 15، 1381ہجری شمسی۔
- جوادی آملی، عبداللہ، تفسیر تسنیم، قم، مؤسسہ اسراء، 1389ہجری شمسی۔
- دادجو، یداللہ، «معذوریت یا استحقاق پاداش پیروان جاہل قاصر ادیان دیگر»، در مجلہ اندیشہ نوین دینی، شمارہ 43، 1394ہجری شمسی۔
- سروش، محمد و احمد حیدری، استکبار و استضعاف در قرآن، قم، سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی، بیتا.
- شیخ صدوق، محمد بن علی، التوحید، قم، جامعہ مدرسین، 1398ھ۔
- شیخ صدوق، محمد بن علی، معانی الاخبار، قم، جامعہ مدرسین.1403ھ۔
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، احیاء التراث العربی، بیتا.
- طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی التفسیر القرآن، قم، انتشارات اسماعیلیان، 1363ہجری شمسی۔
- عزیزان، مہدی، «پلورالیزم نجات در اندیشہ اسلامی»، در مجلہ معرفت، شمارہ 121، دی ماہ 1386ہجری شمسی۔
- کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تحقیق علیاکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، چاپ چہارم، 1407ھ۔
- مجلسی، محمدباقر، مرآہ العقول، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، 1363ہجری شمسی۔
- مطہری، مرتضی، عدل الہی، تہران، انتشارات صدرا، 1391ہجری شمسی۔
- مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، 1374ہجری شمسی۔
- نقیزادہ، محمدحسین و صمد عبداللہی عابد، «بررسی ماہیت و عاقبت اخروی مستضعفان دینی با تکیہ بر آیات و روایات»، در مجلہ الہیات قرآنی، شمارہ 14، 1399ہجری شمسی۔
- یوسفی زادہ، محمدعلی و قاسم جوادی. «وضـعیت مستضعفان فکری در قیامت»، در مجلہ معرفت، شمارہ217، دی 1394ہجری شمسی۔