قبر کی پہلی رات

ویکی شیعہ سے
(شب اول قبر سے رجوع مکرر)

لیلۃ الدفن یا قبر کی پہلی رات وہ پہلی رات ہے کہ جب میت کو دفن کرتے ہیں۔ اسلامی لغت میں اس رات کی خصوصیات اور حوادث کے بارے میں بہت بحث ہوئی ہے۔ روایات کے بقول، پہلی رات، میت کے لئے بہت مہم رات ہے اور اس کے مختلف مراحل ہیں۔ سب سے پہلے فرشتہ جس کا نام رومان ہے وہ اعمال نامہ دیکھنے کے لئے قبر میں داخل ہوگا اور اس کے بعد دو فرشتے نکیرومنکر یا بشیر و مبشر اس شخص کے عقائد اور اعمال کے بارے میں سوال کریں گے۔ بعض اعمال جیسے کہ نماز وحشت قبر میت کی ان سختیوں کو کم کرنے میں مدد کرے گی۔ قبر کی پہلی رات مومنوں کے لئے خوبصورت اور آرام دہ اور کافروں و بدکاروں کے لئے بہت سخت اور وحشت ناک ہے۔

اکثر محدثین و متکلمین کے مطابق قبر میں سوال و جواب اسی مادی بدن سے ہوں گے اور اکثر فلاسفہ کے مطابق برزخی بدن سے۔ فلاسفہ برزخ کے دن و رات کے لئے خاص تعبیر مدنظر رکھتے ہیں کہ جن کا سمجھنا عام لوگوں کی سمجھ سے بالاتر ہے اور قبر کی پہلی رات کو موت کا آغاز اور روح کے برزخ میں داخل ہونے کو کہتے ہیں۔

قبر میں داخل ہونا

دینی اصول اور روایات کے مطابق، احتضار اور موت کے آغاز کے وقت، انسان اپنے اعمال کا نتیجہ مشاہدہ کرتا ہے اور اس سے یا وہ خوش ہوتا ہے یا اپنے لئے رنج و عذاب دیکھتا ہے۔ موت کے پہلے کچھ گھنٹے اور پہلے دن، روح برزخ کے علاوہ، اس مادی بدن کے ساتھ ساتھ رہتی ہے۔ کیونکہ دنیا میں روح کو اس مادی بدن سے انس و محبت تھی، اس لئے اب وہ اس بدن پر خاص توجہ رکھتی ہے اور اس کے ساتھ رابطہ برقرار رہتا ہے۔ غسل اور دوسرے امور انجام دیتے وقت روح اس بدن کے ساتھ ساتھ رہتی ہے اور اس مادی بدن کو دفن کرتے وقت روح خود کو قبر میں دیکھتی ہے۔[1]

جونہی میت کو قبر میں رکھا جاتا ہے، اسی وقت قبر کی پہلی رات کا آغاز ہو جاتا ہے اور یہ بہت ہی سخت رات ہوتی ہے جسے میت تجربہ کرتی ہے اور اس سے کوئی چھٹکارا نہیں ہے۔ تمام اعمال اور یہ کہ اس شخص کی اس مادی دنیا سے کتنی محبت تھی یہ سب اس میت پر تاثیر گزار ہیں۔

امام صادق علیہ السلام کی روایت کو مدنظر رکھتے ہوئے مسلمان[2] حکماء کی نظر میں قبر اور وہاں پیش آنے والے سب حوادث عالم برزخ ہے۔ اس نظر کے مطابق، قبر میں داخل ہونا اور قبر کی پہلی رات موت کے آغاز سے شروع ہو جاتی ہے اور بدن کے دفن ہونے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

دفن کرنے کے وقت

مستحب ہے کہ جنازے کو قبر کے نزدیک دو بار زمین پر رکھا جائے اور کچھ منٹ صبر کیا جائے اور میت کو دفن کرنے میں جلدی نہ کی جائے، کیونکہ جب میت کے بدن کو قبر میں داخل کیا جاتا ہے تو اس وقت روح بہت بے تاب اور وحشت زدہ ہوتی ہے، آرام آرام سے لے جانے سے یہ فائدہ ہو گا کہ روح جو میت کے ہمراہ ہے وہ اس جدید ماحول سے آشنا ہو گی اور اس ترس و وحشت کو برداشت کر سکے گی۔

رومان فرشتے کا حاضر ہونا

میت کو دفن کرنے کے بعد، سب سے پہلا فرشتہ جو قبر میں داخل ہوگا وہ ملک رومان ہے۔ امام سجاد علیہ السلام نے صحیفہ سجادیہ کی تیسری دعا میں اس فرشتے پر درود بھیجا ہے.[3]اس فرشتے کا کام، اعمال کی شمارش و جمع بندی کر کے ریکارڈ تیار کرنا ہے یہ وہی نامہ اعمال ہے۔ اس نامہ اعمال کی کیفیت اور جنس ہماری سمجھ سے باہر ہے اور یہ قیامت تک اس کے ساتھ ہو گی۔ اور قیامت کے دن ہر شخص کے اعمال کا حساب اسی اعمال نامہ اور ریکارڈ کے مطابق ہوگا۔[4]

یہی فرشتہ اس شخص کے اعمال کے مطابق، بعد میں آنے والے فرشتوں کو اس میت کے ساتھ سلوک کرنے کے بارے میں بتائے گا کہ اس شخص کے ساتھ کس طریقے سے پیش آیا جائے۔[5]

سوال قبر

منکر و نکیر کے سوال، قبر کی پہلی رات کے اہم کاروائی ہے۔ یہ فرشتے، فرشتہ رومان کے بعد قبر میں داخل ہوں گے۔ ایک میت کے دائیں طرف اور دوسرا بائیں طرف کھڑا ہوگا اور اس سے سوال پوچھیں گے۔ اگر شخص کافر یا گناہ گار ہوگا تو یہ دونوں فرشتے وحشت ناک چہروں کے ساتھ اس کے سامنے آئیں گے اور اس پر عذاب کریں گے اور اس کی قبر آگ سے بھر جائے گی ان دونوں فرشتوں کو نکیر و منکر کہا جاتا ہے۔ اگر شخص مومن ہوگا، اور اولیاء خدا کی مدد کے ساتھ سوالوں کے جواب دے گا اور وہ دونوں فرشتے خوبصورت چہرے کے ساتھ اس کو بہشت کی خوش خبری دیں گے اور اس کی قبر کو نعمات الہیٰ سے بھر دیں گے۔ اس صورت میں ان دو فرشتوں کے نام بشیر و مبشر ہیں۔

روایات کے مطابق، اس رات، اس شخص کے ایمان کے بارے میں پوچھا جائے گا اور یہ کہ آیا خدا اور اس کے پیغمبر(ص) پر ایمان رکھتا ہے اور کس کو اپنی امامت اور پیشوائی کے لئے انتخاب کیا ہے اور ایک دوسری روایت میں، اس سے زیادہ سوال بیان کئے گئے ہیں۔

بعض روایات کے مطابق، پہلی رات کے سوال و جواب عمومی ہیں اور تمام انسانوں سے پوچھے جائیں گے۔ بعض علماء نے اس عموم سے دو مورد کو استثناء کیا ہے: جیسے کہ انبیاء (ع) اور آئمہ معصومین(ع)، اور وہ افراد کہ جو سوال کرنے کی شرائط نہیں رکھتے جیسے کہ بچے اور دیوانے۔ کیونکہ اس بارے میں کوئی صریح روایت موجود نہیں ہے اس لئے علامہ مجلسی کا عقیدہ ہے کہ اس بارے میں کسی خاص نظر کا اظہار نہ کیا جائے۔[6]

شب اول قبر کو آسان کرنے والے اسباب

میت کے رشتہ داروں کو سفارش کی گئی ہے کہ میت کو دفن کرنے کے بعد، اسے تنہا نہ چھوڑیں اور تلقین پڑھنے سے منکر و نکیر کے سوالوں کے جواب دینے میں اس کی مدد کریں۔[7] خود اس شخص کے اعمال، صدقات اور نماز و روزے کے علاوہ، بعض دوسرے اعمال جیسے نماز ہدیہ، نماز وحشت قبر وغیرہ میت کے لئے مفید ہے اور اسکی قبر کی سختی ختم یا کم ہو سکتی ہے۔

جن کی قبر نہ ہو

قبر کی پہلی رات صرف ان افراد کے لئے نہیں جن کو دفن کیا جاتا ہے بلکہ جن کے بدن دفن نہیں ہوتے یا آگ میں جل جاتے ہیں وہ بھی قبر کی پہلی رات، سوال قبر، اور فشار قبر کو تجربہ کرتے ہیں۔ ایک نظر کے مطابق یہ تمام حساب اسی مادی بدن سے ہوں گے اور خداوند ان جلے اور کٹے ہوئے جسموں کو بھی ان سوالوں کے جواب دینے کی توانائی دے گا اور پانی یا ہوا یا جو کچھ بھی اس عالم میں ہے اس کو یہ توانائی دے گا کہ اس کے بدن یا اجزاء پر عذاب وارد کریں، اس لئے اگر کوئی بدن فضا میں متلاشی ہو جائے تو وہ بھی اس حکم سے استثناء نہیں ہے۔ کلینی روایت کرتے ہیں:

یونس بن عمار نے امام صادق(ع) سے اس شخص کے بارے میں سوال کیا جس کو لٹکایا گیا ہے کہ آیا اس کو بھی عذاب قبر ہو گا؟ امام(ع) نے فرمایا: جی ہاں! خداوند عز و جل ہوا کو حکم کرے گا کہ اسے اپنے فشار میں لے۔

فلاسفہ کے مطابق، جب قبر کا معنی عالم برزخ ہے، تو وہاں کی رات بھی وہاں کے مطابق ہی ہوگی نہ یہ کہ میت کو دفن کریں اور رات ہو تو قبر کی پہلی رات ہوگی۔[8]

مادی قبر کا روح اور عالم برزخ سے رابطہ

برزخی قبر اور خاکی قبر کے درمیان خاص رابطہ ہے، یعنی انسان کی برزخ میں موجود روح اور اس کے قبر خاکی میں موجود بدن کا آپس میں رابطہ ہے اور یہ رابطہ در اصل اس وجہ سے ہے کہ اس دنیوی اور مادی زندگی میں روح اور بدن کا رابطہ رہا ہے۔ موت کے ساتھ روح اور جسم کا رابطہ بالکل ختم نہیں ہوگا، بلکہ روح برزخی اور مادی و خاکی بدن کا کچھ حد تک ایک دوسرے سے رابطہ ہوگا۔ اسی لئے خاکی قبر کا برزخی قبر اور عالم برزخ سے رابطہ ہے اور اس لئے روح کی اس مادی بدن اور جس جگہ پر وہ خاکی بدن موجود ہے ایک خاص نظر ہے اور اسی وجہ سے خاکی قبر اور برزخی قبر کا آپس میں رابطہ ہے اور اسلامی شریعت میں خاکی قبر کے بارے میں خاص احکام و دستورات بیان ہوئے ہیں جو درج ذیل ہیں: تشیع جنازہ، کفن، دفن، قبور کی حرمت، زیارت قبور کا مستحب ہونا، دعا، اہل قبور کے لئے طلب رحمت و مغفرت وغیرہ۔

موت کے پہلے دن اور پہلے کچھ گھنٹے انسان کی روح اور اس کے بدن مادی کا آپس میں رابطہ بعد والے دنوں کی نسبت بہت زیادہ ہے اور اس کی دلیل روح اور مادی بدن کی اس دنیا میں شدید الفت و محبت ہے لیکن آہستہ آہستہ روح کی وابستگی برزخی بدن سے ہو جائے گی اور اس خاکی بدن اور روح کا رابطہ بہت کم ہو جائے گا۔[9]

فشار قبر

قبر میں ایک اور واقعہ جو ضرور پیش آئے گا وہ فشار قبر ہے جسے روایت میں ضغطۃ القبر کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے۔ آئمہ معصومین(ع) کے اصحاب ہمیشہ اس بارے میں آپ (ع) سے سوال کرتے اور باقی بھی بہت افراد تھے جو اس بارے میں سوال کرتے تھے۔

ابو بصیر نے امام صادق(ع) سے سوال کیا: آیا کوئی فشار قبر سے نجات پا سکے گا؟ آپ(ع) نے فرمایا: فشار قبر سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں، کیونکہ بہت کم افراد ہوں گے جو فشار قبر سے نجات پائیں گے۔[10]

نماز شب اول قبر

روایات میں کہا گیا ہے کہ جس رات میت کو دفن کیا جاتا ہے اسی رات اس کے لئے نماز لیلۃ الدفن پڑھی جائے. یہ نماز جو لوگوں کے درمیان نماز وحشت قبر کے نام سے مشہور ہے اس کے دو طریقے ہیں اور ہر دو طریقوں سے پڑھی جا سکتی ہے:

  1. دو رکعات نماز، پہلی رکعات میں سورہ حمد کے بعد ایک بار آیت الکرسی اور دوسری رکعت میں حمد کے بعد، دس مرتبہ سورہ قدر پڑھی جائے اور نماز کے سلام کے بعد کہیں: "أللهُمَّ صَلِّ عَلی مُحمّدٍ و ‌آلِ مُحمّدٍ وَ ابعَث ثَوابَها إلی قبرِ فلان" اور فلان کی جگہ میت کا نام لیا جائے۔[11]
  2. دوسرا طریقہ: پہلی رکعات میں سورہ حمد کے بعد دس مرتبہ سورہ توحید اور دوسری رکعات میں حمد کے بعد دس بار سورہ تکاثر پڑھیں اور نماز کے بعد یہ کہیں:"أللهُمَّ صَلِّ عَلی مُحمّدٍ و ‌آلِ مُحمّدٍ وَ ابعَث ثَوابَها إلی قبرِ فلان" اور فلان کی جگہ میت کا نام کہیں۔[12]

یہ نماز میت کو دفن کرنے کے بعد پڑھی جاتی ہے حتی کہ اگر فوت ہونے اور دفن کرنے کے درمیان کچھ دن کا فاصلہ ہو اور اس کا وقت رات کے شروع سے طلوع فجر تک ہے، اگرچہ بہتر یہی ہے کہ رات کی ابتداء میں نماز عشاء کے بعد بجا لائی جائے۔[13]

برزخ میں دن و رات کے معنی

عالم برزخ کے وقت اور اس کی جزئیات کے بارے میں ہمیں کوئی خاص معلومات نہیں ہیں، لیکن بعض آیات اور روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ برزخ میں زمان اور وقت ہوتا ہے۔

لیکن یہ کہ برزخ میں صبح و شام سے مراد کونسا وقت ہے، یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ اس کی جزئیات کو آسانی سے نہیں سمجھا جا سکتا، کیونکہ صبح و شام سورج کے طلوع و غروب ہونے سے معلوم ہوتی ہیں اور عالم برزخ میں یہ دن رات نہیں ہیں، اور انکے عذاب کے بارے میں جو صبح و شام ہم استعمال کرتے ہیں وہ اس عالم دنیا کے مطابق ہے ورنہ وہاں تو طلوع اور غروب ہی نہیں ہیں کہ دن اور رات ہوں۔

اس لئے جس طرح کہ عالم برزخ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ مادہ اور جسم نہیں ہے، لیکن اس کا شکل اور حجم و اندازہ، عالم مادہ کی طرح ہے، اس کے زمان و مکان کے بارے میں بھی یہی کہا جائے گا اور یہ تعبیر جو ہم شب اول قبر کے بارے میں استعمال کرتے ہیں یہ باب مسامحہ سے ہے۔[14]

حوالہ جات

  1. معاد،ج ۲،ص ۲۴۹
  2. بحار الأنوار، ج ۶، ص ۲۱۸
  3. وَ رُومَانَ فَتَّانِ الْقُبُورِ
  4. عالم پس از مرگ، ص۲۷۴
  5. عالم پس از مرگ، ص۲۷۴
  6. بحار الانوار، ج۶، ص۲۷۸
  7. اصول کافی،‌ باب المسألہ فی القبر ۲/ ۶۳۴ و ۳/۲۰۱
  8. جوادی آملی، عبدالله، معاد شناسی، ج ۲۱، ص۲۲۲
  9. http://maaref.porsemani.ir/node/1257
  10. کافی، ج۳، ص۲۳۶
  11. http://portal.anhar.ir/node/1328#gsc.tab=0
  12. http://www.islamquest.net/fa/archive/question/fa3624#
  13. http://portal.anhar.ir/node/1328#gsc.tab=0
  14. http://www.pasokhgoo.ir/node/27281


مآخذ

  • قرآن کریم
  • عالم برزخ در چند قدمی ما: محمد محمدی اشتہاردی،
  • جوادی آملی، عبدالله، معاد شناسی، انتشارات اسراء، قم
  • علامہ مجلسی محمد باقر، بحار الانوار، دارالکتب اسلامیۃ، تہران، ۱۳۶۲ ش.
  • کلینی، محمد بن یعقوب، کافی،‌دار الکتب الإسلامیۃ، ۱۴۰۷ق
  • محمد شجاعی، معاد، نشر امیرکبیر، تہران، ۱۳۶۲ ش
  • حبیب الله طاہری، عالم پس از مرگ، دفتر انتشارات اسلامی، قم