وجوب دفع ضرر محتمل
وجوب دفع ضرر محتمل ایک عقلی قاعدہ ہے جو ممکنہ نقصانات سے بچنے کو واجب قرار دیتا ہے۔ علم کلام، اصول فقہ اور فقہ کے مختلف موضوعات میں اس قاعدے سے استفادہ کیا جاتا ہے۔ اس قاعدے کا ایک اہم نتیجہ خدا کے وجود پر ایمان ہے، کیونکہ اگر خدا موجود ہو تو اس کے انکار کی صورت میں انسان کو شدید نقصان اٹھانا پڑے گا۔ شیعہ ائمہ اور دہریوں کے درمیان ہونے والے مناظروں میں اس قاعدے کی بنیاد پر گفتگو کی گئی ہے۔
علماء کے مطابق اس قاعدے میں نقصان کا تعلق بنیادی طور پر آخرت سے ہے، تاہم کچھ علماء کا یہ بھی ماننا ہے کہ یہ قاعدہ دنیوی نقصانات پر بھی لاگو ہو سکتا ہے۔ اسی طرح یہ قاعدہ نہ صرف بڑے نقصانات بلکہ معمولی نقصانات کے لیے بھی قابلِ اطلاق ہے۔ اس کے علاوہ، اس قاعدے میں "احتمال" کا مطلب ہر وہ صورت حال ہے جہاں یقین نہ ہو، چاہے وہ ظن (50 فیصد سے زیادہ)، شک (50 فیصد) یا وہم (50 فیصد سے کم) کے درجے میں ہو۔
کہا گیا ہے کہ یہ قاعدہ عقلی احکام کی بنیاد پر ہے، اور اس کے لئے عقلی دلائل ذکر کئے گئے ہیں۔ تاہم بعض علماء اسے عُقَلائی حکم قرار دیتے ہیں، جو انسانی فطرت اور تجربات سے ماخوذ ہے۔ ان کے مطابق عاقل انسان ہمیشہ ممکنہ نقصان سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔
یہ قاعدہ علم کلام کے بنیادی اصولوں میں سے ہے اور توحید جیسے بعض بنیادی عقائد کا اثبات اس قاعدے پر موقوف ہے۔ مختلف اسلامی مذاہب کے متکلمین جیسے معتزلہ، اشاعرہ، ماتریدیہ اور امامیہ اعتقادی مسائل میں تحقیق کی ضرورت، توبہ، ائمہ کی عصمت اور آخرت کے انکار کی عدم معقولیت جیسے موضوعات میں اس قاعدے سے استفادہ کرتے ہیں۔
یہ قاعدہ علم اصول میں اصل احتیاط، حجیت خبر واحد، اصول عملیہ کی عدم حجیت، اور نظریہ حق الطاعہ جیسے موضوعات میں بھی مورد استفادہ واقع ہوتا ہے، اسی طرح شیعہ فقہاء مختلف مواقع پر اس قاعدے کو احکام شرعی پر دلیل یا عقلی تائیدیہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں منجملہ ان میں جان کو خطرہ لاحق ہونے کی صورت میں چور کو قتل کرنے کا جواز، خطرناک راستوں پر چلنے کی ممانعت اور پانی کے استعمال میں ضرر اور نقصان کا خوف ہو تو وضو کے بدلے تیمم کا واجب ہونا شامل ہیں۔ اسی طرح ایران کے مدنی قانون میں بھی اس قاعدے کی بنیاد پر بعض قوانین وضع کئے گئے ہیں۔
قاعدے کی اہمیت
ممکنہ نقصانات سے بچنے کی ضرورت ایک قاعدہ ہے جو عقل عملی (انسان کے عمل سے متعلق امور کا ادراک کرنے کی قوت) سے متعلق ہے۔ اس کے مطابق متوقع نقصانات جو ابھی پیش نہیں آئے سے بچنے کی کوشش کرنا واجب ہے۔[1] کہا گیا ہے کہ یہ قاعدہ فقہ، اصول اور کلام امامیہ کے اہم قواعد میں سے ایک ہے۔[2]
اس قاعدے کو عقلی دلیل قرار دیا جاتا ہے؛ کیونکہ عقل اس سلسلے میں ممکنہ نقصان اور یقینی نقصان کے درمیان فرق کا قائل نہیں ہے۔ مزید یہ کہ اس قاعدے کی دلیل سیرہ عقلاء (عقلمند انسانوں کا رویہ) ہے؛ یعنی عقلمند افراد ہمیشہ ممکنہ نقصان کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔[3]
اگرچہ کہا گیا ہے کہ یہ قاعدہ یقینی طور پر آخرت کے عذاب اور نقصان سے متعلق ہے،[4] لیکن یہ احتمال بھی دیا جاتا ہے کہ یہ قاعدہ دنیوی نقصان کے بارے میں بھی ہو سکتا ہے۔ تاہم، کچھ شواہد پیش کیے گئے ہیں کہ عقل ہمیشہ دنیوی ممکنہ نقصان سے بچنے کی کوشش نہیں کرتی، بلکہ عقل اور شرع بعض اوقات اس کے بارے میں حکم دیتے ہیں۔[5]
"احتمال" سے مراد ہر قسم کی غیر یقینی صورتحال ہے؛ چاہے وہ زیادہ اور ظن کی حد میں (50 فیصد سے زیادہ) ہو یا کم؛ چاہے وہ شک کی حد میں (50 فیصد) ہو یا وہم کی حد میں (50 فیصد سے کم) ہو۔[6]
ایمان کی معقولیت
قاعدہ وجوب دفع ضرر محمتل کی بنیاد پر کہا جاتا ہے کہ خدا اور قیامت پر ایمان ان کے انکار سے زیادہ معقول ہے۔[7] امام جعفر صادقؑ سے منقول ہے کہ آپؑ نے ابن ابی العوجاء، ایک معروف دہریہ، سے کہا کہ اگر خدا اور قیامت نہ بھی ہو تو مومن کو کوئی خاص نقصان نہیں ہوگا، لیکن اگر خدا اور قیامت موجود ہوں تو کافر کو شدید نقصان پہنچے گا اور وہ ہلاک ہونگے۔[8] امام رضاؑ سے بھی ایسا ہی استدلال نقل کیا گیا ہے۔[9]
اسی طرح سترہویں صدی عیسوی کے فرانسیسی فلسفی اور ریاضی دان بلیز پاسکل(Blaise Pascal) نے بھی یہی اصول بیان کیا ہے، وہ کہتا ہے کہ انسان کو خدا کے وجود پر شرط لگانی چاہیے، کیونکہ اگر خدا موجود نہ بھی ہو تو خدا پر ایمان لانے والے کو کوئی خاص نقصان نہیں ہوگا، اور اگر خدا موجود ہو تو اس پر ایمان نہ رکھنے والوں کو بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑے گا۔[10]
علم کلام میں اس قاعدے کا استعمال
وجوب دفع ضرر کا قاعدہ علم کلام کے بنیادی اصولوں اور توحید کے ارکان میں شمار ہوتا ہے، جس کے بغیر اعتقادی نظام ممکن نہیں ہے۔[11] مختلف کلامی مکاتب جیسے معتزلہ[12]، اشاعرہ[13]، ماتریدیہ[14] اور امامیہ[15] نے اس قاعدے سے استفادہ کیا ہے۔ متکلمین نے اس قاعدے کی بنیاد پر مختلف مباحث میں استدلال کیا ہے، جن میں چند اہم موارد درج ذیل ہیں:
دین میں تحقیق کا واجب ہونا: شیعہ متکلمین کے مطابق عقلی طور پر اعتقادی اصولوں کو صرف تحقیق کے ذریعے حاصل کرنا ضروری اور واجب ہے، اور اس معاملے میں تقلید جائز نہیں ہے؛ کیونکہ کسی دلیل کے بغیر صرف تقلیدی طور پر حاصل ہونے والا عقیدہ ممکنہ طور پر سنگین اور ناقابل جبران نقصانات کا باعث بن سکتا ہے۔[16]
توبہ کا واجب ہونا: عقل کے حکم کے مطابق توبہ اور گناہ کی تلافی واجب ہے، کیونکہ گناہ کا ارتکاب ممکنہ طور پر بڑے نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔[17]
غیر معصوم کی بات پر یقین نہ ہونا: دینی مسائل میں غیر معصوم کی باتوں پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ ان کی باتیں غلط ہو سکتی ہیں اور اس سے بڑا نقصان ہو سکتا ہے۔[18]
امام کا معصوم ہونا واجب ہے: امام کو معصوم ہونا چاہیے، کیونکہ غیر معصوم پیشوا ممکن ہے لوگوں کو گمراہ کر دے۔[19]
آخرت کا انکار غیر معقول ہے: اگرچہ کسی کے پاس آخرت کے قبول کرنے کے لیے کوئی دلیل نہ ہو، پھر بھی اس کا انکار منطقی نہیں ہے؛ کیونکہ آخرت کے انکار سے ابدی زندگی میں بڑے نقصان کا احتمال موجود ہے۔[20]
علم اصول میں اس قاعدے کا استعمال
اصول فقہ میں قاعدہ دفع ضرر محتمل کو درج ذیل موضوعات میں استعمال کیا جاتا ہے:
احتیاط کا حکم: کسی بھی موضوع یا حکم میں شک کی صورت میں فقہا اس قاعدے کی بنیاد پر احتیاط کا حکم دیتے ہیں تاکہ ممکنہ نقصان سے بچ سکیں۔[21]
خبر واحد کی حجیت: خبر واحد کی حجیت کو ثابت کرنے والے دلائل میں سے ایک یہ ہے کہ خبر واحد کو قبول نہ کرنے سے نقصان اٹھانے کا امکان ہے، لھذا فقہا خبر واحد کو حجت سمجھتے ہیں۔[22] بعض شیعہ اور اہل سنت علمائے اصول اسی قاعدے کی بنا پر خبر واحد کے معتبر ہونے کو عقلی طور پر ضروری اور واجب سمجھتے ہیں۔[23] اس کے مقابلے میں، سید مرتضی اور شیخ طوسی اس بات کے قائل ہیں کہ دینی امور میں خدا کا حکم قطعی اور یقینی ہونا چاہئے، جبکہ خبر واحد سے یقینی علم حاصل نہیں ہوتا۔[24]
ظن کی حجیت: قاعدہ وجوب دفع ضرر محتمل سے تمسک کرتے ہوئے ہر وہ گمان جو 50 فیصد سے زیادہ ہو، اس پر عمل کرنا ضروری سمجھا گیا ہے۔ کیونکہ اس پر عمل نہ کرنے کی صورت میں ممکنہ نقصان کا احتمال دیا جا سکتا ہے۔[25] میرزای قمی (متوفی: 1231ھ) کے بقول یہ قاعدہ نہ صرف خبر واحد، بلکہ تمام ظنون اور احتمالات کی حجیت کو ثابت کرتا ہے۔[26]
اصول عملیہ کی عدم حجیت: اصول عملیہ (منجملہ اصل استصحاب) کی حجیت کے مخالفین کا کہنا ہے کہ ان اصولوں کی حجیت پر کوئی معتبر دلیل موجود نہیں ہے اس بنا پر ان اصول پر عمل کرنے کو ممکنہ نقصان کے پیش نظر قابل قبول نہیں سمجھتے ہیں۔[27]
نظریہ حق الطاعہ: سید محمد باقر صدر(متوفی: 1400ھ) نظریہ حق الطاعۃ کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص یہ احتمال دے کہ فلان عمل کے بارے میں خدا کا کوئی حکم موجود ہے تو عقلی طور پر اس حکم کا امتثال ضروری ہے، کیونکہ خدا کی بندگی کا حق اس قدر وسیع ہے کہ اس میں احتمالی احکام بھی شامل ہیں۔[28]
فقہ میں اس قاعدے کا استعمال
قاعدہ وجوب دفع ضرر محتمل کے استعمال کے موارد میں سے ایک فقہ ہے، قواعد فقہیہ سے مربوط بعض کتابوں میں اس قاعدے کا نام لیا گیا ہے۔[29] اس طرح تقلید، اجتہاد اور احتیاط جیسے فقہی مسائل کی ضرورت کو ثابت کرنے میں بھی اس قاعدے سے تمسک کیا جاتا ہے۔[30]
جن فقہاء نے مختلف فقہی مباحث میں اس قاعدہ سے استفادہ کیا ہے ان میں ابن ادریس حلی (متوفی: 598ھ) جان کو خطرہ لاحق ہونے کی صورت میں چور کے قتل کے جواز میں،[31] علامہ حلی خطرناک راستے پر چلنے کی ممانعت میں،[32] قاضی نوراللہ شوشتری (متوفی: 1019ھ) پانی کے استعمال میں خوف کی صورت میں وضو کے بدلے تیمم کے جواز میں،[33] محمدباقر بہبہانی (متوفی: 1205ھ) ادلہ سنن میں تسامح اور مکروہات کے باب میں،[34] ملا احمد نراقی (متوفی: 1245ھ) کتب ضالہ کی حفاظت اور سیکھنے کی حرمت کے مسئلے میں،[35] شیخ انصاری (متوفی: 1281ھ) اپنے آپ کو نقصان پہنچانے کی حرمت کے مسئلے میں،[36] محقق ہمدانی (متوفی: 1322ھ) ماہ رمضان میں صبح کی اذان تک بیدار نہ ہونے والے مجنب شخص کے روزے کے صحیح ہونے کے مسئلے میں،[37] محمد بحرالعلوم (متوفی: 1326ھ) وصیت پر عمل کرنے کے مسئلے میں،[38] ابوطالب اراکی (متوفی: 1329ھ) مشکوک بہ نجس پانی کے پاک ہونے کے حکم میں،[39] آیتاللہ سید محسن حکیم (متوفی: 1390ھ) حج کے فرعی مسائل میں[40] اور آیت اللہ خویی (متوفی: 1413ھ) تقلید [41] اور شکیات کے مباحث میں[42]، کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔
جمہوری اسلامی ایران کے مدنی قانون میں اس قاعدے کی بنیاد پر قوانین وضع کیے گئے ہیں۔[43] ان قوانین میں مالی نقصانات سے بچاؤ کے لیے مالی مقدمات میں ضمانت کی طلبی، غیر ملکی باشندوں سے ضمانت طلبی، غائبانہ فیصلوں کے نفاذ میں ضمانت طلبی اور کسی مقدمے پر دوبارہ جائزہ لینے میں ضمانت طلبی وغیرہ شامل ہیں۔[44]
حوالہ جات
- ↑ لطفی، «دفع ضرر محتمل»، ص845؛ برنجکار و نصرتیان اہور، «کاربست عقل عملی در استنباط آموزہ ہای کلامی با تکیہ بر متون کلامی»، ص17۔
- ↑ لطفی، «دفع ضرر محتمل»، ص845۔
- ↑ تسخیری، القواعد الأصولیۃ و الفقہیۃ، 1431ھ، ج1، 387۔
- ↑ تسخیری، القواعد الأصولیۃ و الفقہیۃ، 1431ھ، ج1، 387؛ مصطفوی، القواعد الفقہیۃ، 1421ھ، ص306۔
- ↑ زاہدی، خودآموز کفایہ، 1362شمسی، ج2، ص221۔
- ↑ نراقی، عوائد الایام، 1375شمسی، ص414-415؛ شیخ انصاری، الحاشیۃ علی استصحاب القوانین، 1430ھ، ص117۔
- ↑ پاکتچی و دیگران، مبانی و روش اندیشہ علمی امام صادق (ع)، 1391شمسی، ص89۔
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص78۔
- ↑ طبرسی، الاحتجاج، 1386ھ، ج2، ص171؛ شریف شیرازی، الكشف الوافي في شرح أصول الكافي، 1430ھ، 397-398۔
- ↑ Pascal, Pensées,1900, p9
- ↑ برنجکار و نصرتیان اہور، «کاربست عقل عملی در استنباط آموزہ ہای کلامی با تکیہ بر متون کلامی»، ص17۔
- ↑ ملاحظہ کریں: قاضی عبدالجبار، المختصر فی أصول الدین، 1971م، ص172۔
- ↑ ملاحظہ کریں: تفتازانی، شرح المقاصد، 1409ھ، ج5، ص240۔
- ↑ ملاحظہ کریں: ماتریدی، التوحید، 1427ھ، ص101۔
- ↑ ملاحظہ کریں: سید مرتضی، الذخیرہ فی علم الکلام، 1411ھ، ص167؛ ابوالصلاح حلبی، تقریب المعارف، 1375شمسی، ص65؛ حمصی رازی، المنقذ من التقلید، 1412ھ، ج2، ص86۔
- ↑ ملاحظہ کریں: سید مرتضی، الذخیرہ فی علم الکلام، 1411ھ، ص167؛ ابوالصلاح حلبی، تقریب المعارف، 1375شمسی، ص65؛ ابنمیثم بحرانی، قواعد المرام فی علم الکلام، 1406ھ، ص28؛ آلکاشف الغطاء، مبادی الایمان، داراضواء، ص72۔
- ↑ ملاحظہ کریں: حمصی رازی، المنقذ من التقلید، 1412ھ، ج2، ص86؛ علامہ حلی، انوار الملکوت فی شرح الیاقوت، 1363شمسی، ص177؛ اعرجی، إشراق اللاہوت في نقد شرح الیاقوت، 1381شمسی، ص426۔
- ↑ علامہ حلی، الالفین، 1409ھ، ص70 و 90 و 103 و 107 و 132۔
- ↑ علامہ حلی، الالفین، 1409ھ، ص233 و 265۔
- ↑ غزالی، کیمیای سعادت، 1380شمسی، ج1، ص113-115۔
- ↑ ملاحظہ کریں: شیخ انصاری، فرائد الاصول، جامعہ مدرسین، ج2، ص453 و 462 و 512؛ حائری، درر الفوائد، 1418ھ، ج2، ص427؛ نایینی، فوائد الاصول، 1376شمسی، ج3، ص215-216۔
- ↑ شیخ انصاری، الفوائد الاصولیۃ، 1384شمسی، ص612۔
- ↑ علامہ حلی، نہایۃ الوصول الی علم الاصول، 1425ھ، ج3، ص405؛ علامہ حلی، مبادی الوصول الی علم الاصول، 1404ھ، ص207؛ علامہ حلی، تہذیب الوصول الی علم الاصول، 1380شمسی، ص229-230؛ طباطبایی مجاہد، مفاتیح الاصول، 1296ھ، ص484؛ بصری، المعتمد فی اصول الفقہ، 1403ھ، ج2، ص106-107؛ کلوذانی، التمہید فی اصول الفقہ، 1406ھ، ج3، ص70؛ ابنعقیل، الواضح فی اصول الفقہ، 1420ھ، ج4، ص380؛ آمدی، الإحکام فی اصول الأحکام، 1402ھ، ج2، ص51۔
- ↑ سید مرتضی، الذریعۃ الی اصول الشریعۃ، 1376شمسی، ج2، ص549-550؛ شیخ طوسی، العدۃ فی اصول الفقہ، 1417ھ، ج1، ص107۔
- ↑ قزوینی، تعلیقۃ علی معالم الاصول، 1422ھ، ج5، ص275؛ شیخ انصاری، فرائد الاصول، جامعہ مدرسین، ج1، ص175۔
- ↑ میرزای قمی، القوانین المحکمۃ فی الاصول، 1430ھ، ج2، ص436-437۔
- ↑ حر عاملی، الفوائد الطوسیۃ، 1403ھ، ص217۔
- ↑ صدر، دروس فی علم الاصول، 1419ھ، ج2، ص50۔
- ↑ ملاحظہ کریں: تسخیری، القواعد الأصولیۃ و الفقہیۃ، 1431ھ، ج1، 387؛ مصطفوی، القواعد الفقہیۃ، 1421ھ، ص306۔
- ↑ حسینی شاہرودی، الاجتہاد و التقلید، قم، فقہ، 1439ھ۔
- ↑ ابن ادریس حلی، السرائر الحاوي لتحرير الفتاوي، 1410ھ، ج2، ص19۔
- ↑ علامہ حلی، نہایۃ الإحکام في معرفۃ الأحکام، 1410ھ، ج2، ص530۔
- ↑ تستری، نہايۃ الإقدام في وجوب المسح على الأقدام، 1408ھ، ص403۔
- ↑ بہبہانی، مصابیح الظلام في شرح مفاتیح الشرائع، 1424ھ، ج2، ص123۔
- ↑ نراقی، مستند الشیعۃ في أحکام الشریعۃ، 1415ھ، ج14، ص157۔
- ↑ شیخ انصاری، رسائل فقہیہ، 1414ھ، ص116۔
- ↑ ہمدانی، مصباح الفقیہ، 1376شمسی، ج14، ص434۔
- ↑ بحرالعلوم، بلغۃ الفقیہ، 1362شمسی، ج4، ص98۔
- ↑ اراکی، شرح نجاۃ العباد، 1378ھ، ص122۔
- ↑ حکیم، مستمسک العروۃ الوثقی، 1374شمسی، ج10، ص12۔
- ↑ خویی، موسوعۃ الامام الخویی، 1418ھ، ج1، ص107 و 133۔
- ↑ خویی، موسوعۃ الامام الخویی، 1418ھ، ج1، ص251-252۔
- ↑ لطفی، «قاعدۀ وجوب دفع ضرر محتمل و کاربرد آن در قانون آئین دادرسی مدنی»، ص217۔
- ↑ لطفی، «قاعدۀ وجوب دفع ضرر محتمل و کاربرد آن در قانون آئین دادرسی مدنی»، ص217-228۔
مآخذ
- آلکاشف الغطاء، محمدحسین، مبادی الایمان، بیروت، داراضواء، بیتا۔
- آمدی، علی بن محمد، الإحکام فی اصول الأحکام، دمشق، المکتب الاسلامی، 1402ھ۔
- ابنادریس حلی، محمد بن احمد، السرائر الحاوي لتحرير الفتاوي، قم، جماعۃ المدرسين في الحوزۃ العلمیۃ بقم۔ مؤسسۃ النشر الإسلامي، 1410ھ۔
- ابوالصلاح حلبی، تقی بن نجم، تقریب المعارف، تحقیق فارس تبریزیان، بیجا، ناشر: محقق، 1375ش۔
- ابنعقیل، علی بن عقیل، الواضح فی اصول الفقہ، بیروت، موسسۃ الرسالۃ، 1420ھ۔
- ابنمیثم بحرانی، میثم بن علی، قواعد المرام فی علم الکلام، قم، مکتبۃ آیۃ اللہ العظمی المرعشی النجفی، 1406ھ۔
- اراکی، ابوطالب، شرح نجاۃ العباد، قم، جماعۃ المدرسين فی الحوزۃ العلمیۃ بقم۔ مؤسسۃ النشر الإسلامی، 1378ھ۔
- اعرجی، عبدالمطلب بن محمد، إشراق اللاہوت فی نقد شرح الیاقوت، تہران، مرکز پژوہشی میراث مکتوب، 1381ہجری شمسی۔
- بحرالعلوم، محمد بن محمدتقی، بلغۃ الفقیہ، قم، مکتبۃ الصادق(ع)، 1362ہجری شمسی۔
- برنجکار، رضا و مہدی نصرتیان اہور، «کاربست عقل عملی در استنباط آموزہ ہای کلامی با تکیہ بر متون کلامی»، در مجلہ تحقیقات کلامی، شمارہ 5، تابستان 1393ہجری شمسی۔
- بصری، محمد بن علی، المعتمد فی اصول الفقہ، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، 1403ھ۔
- بہبہانی، محمدباقر بن محمداکمل، مصابیح الظلام في شرح مفاتیح الشرائع، قم، مؤسسہ علامہ مجدد وحيد بہبہانی، 1424ھ۔
- پاکتچی، احمد و دیگران، مبانی و روش اندیشہ علمی امام صادق(ع)، تہران، دانشگاہ امام صادق(ع)، 1391ہجری شمسی۔
- تستری، نوراللہ، نہايۃ الإقدام فی وجوب المسح على الأقدام، قم، بینا، 1408ھ۔
- تسخیری، محمدعلی، القواعد الأصولیۃ و الفقہیۃ، تہران، المجمع العالمي للتقريب بين المذاہب الاسلامیۃ۔ المعاونیۃ الثقافیۃ، 1431ھ۔
- تفتازانی، سعدالدین، شرح المقاصد، قم، الشریف الرضی، 1409ھ۔
- جہامی، جیرار، الموسوعۃ الجامعۃ لمصطلحات الفکر العربی و الإسلامی، بیروت، مکتبۃ لبنان ناشرون، 2006ء۔
- حائری، عبدالکریم، درر الفوائد، قم، جماعۃ المدرسين في الحوزۃ العلمیۃ بقم۔ مؤسسۃ النشر الإسلامی، 1418ھ۔
- حر عاملی، محمد بن حسن، الفوائد الطوسیۃ، قم، مطبعۃ العلمیۃ، 1403ھ۔
- حسینی شاہرودی، حسین، الاجتہاد و التقلید، قم، فقہ، 1439ھ۔
- حکیم، سید محسن، مستمسک العروۃ الوثقی، قم، دار التفسیر، 1374ہجری شمسی۔
- حمصی رازی، محمود بن علی، المنقذ من التقلید، قم، جماعۃ المدرسين فی الحوزۃ العلمیۃ بقم۔ مؤسسۃ النشر الإسلامی، 1412ھ۔
- خواجویی، اسماعیل بن محمد حسین، جامع الشتات، بیجا، بینا، 1418ھ۔
- خویی، سید ابوالقاسم، موسوعۃ الامام الخویی، قم، مؤسسۃ إحياء آثار الامام الخوئي، 1418ھ۔
- زاہدی، جعفر، خودآموز کفایہ، مشہد، کتابفروشی جعفری، 1362ش۔
- سید مرتضی، علی بن الحسین، الذریعۃ الی اصول الشریعۃ، تہران، انتشارات دانشگاہ تہران، 1376ہجری شمسی۔
- سید مرتضی، علی بن حسین، الذخیرہ فی علم الکلام، قم، جماعۃ المدرسين في الحوزۃ العلمیۃ بقم۔ مؤسسۃ النشر الإسلامی، 1411ھ۔
- شریف شیرازی، محمدہادى بن معين الدين محمد، الكشف الوافی في شرح أصول الكافی، قم، دارالحدیث، 1430ھ۔
- شیخ انصاری، مرتضی،، الفوائد الاصولیۃ، تہران، شمس تبریزی، 1384ہجری شمسی۔
- شیخ انصاری، مرتضی، رسائل فقہیہ، قم، مجمع الفکر الاسلامی، 1414ھ۔
- شیخ انصاری، مرتضی، فرائد الاصول، جامعہ مدرسین، قم، جماعۃ المدرسين في الحوزۃ العلمیۃ بقم۔ مؤسسۃ النشر الإسلامي، بیتا۔
- شیخ انصاری، مرتضی، الحاشیۃ علی استصحاب القوانین، قم، مجمع الفکر الإسلامي، 1430ھ۔
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، العدۃ فی اصول الفقہ، قم، بینا، 1417ھ۔
- صدر، محمدباقر، دروس فی علم الاصول، قم، مجمع الفکر الاسلامی، 1419ھ۔
- طباطبایی مجاہد، محمد بن علی، مفاتیح الاصول، قم، موسسۃ آلالبیت(ع) لاحیاء التراث، افست از چاپ سنگی، 1296ھ۔
- طبرسی، احمد بن علی، الإحتجاج على أہل اللجاج، نجف، مطابع النعمان، 1386ھ۔
- علامہ حلی، حسن بن یوسف، الالفین فی امامۃ مولانا امیرالمومنین(ع)، قم، دارالہجرۃ، 1409ھ۔
- علامہ حلی، حسن بن یوسف، انوار الملکوت فی شرح الیاقوت، قم، نشر الشریف الرضی، 1363ہجری شمسی۔
- علامہ حلی، حسن بن یوسف، تہذیب الوصول الی علم الاصول، لندن، موسسۃ الامام علی(ع)، 1380ہجری شمسی۔
- علامہ حلی، حسن بن یوسف، مبادی الوصول الی علم الاصول، قم، مطبعۃ العلمیۃ، 1404ھ۔
- علامہ حلی، حسن بن یوسف، نہایۃ الإحکام في معرفۃ الأحکام، قم، اسماعیلیان، 1410ھ۔
- علامہ حلی، حسن بن یوسف، نہایۃ الوصول الی علم الاصول، قم، موسسہ الامام الصادق(ع)، 1425ھ۔
- غزالی، محمد بن محمد، کیمیای سعادت، تہران، انتشارات علمی و فرہنگی، 1380ش۔
- فخر رازی، محمد بن عمر، المحصول فی علم اصول الفقہ، بیروت، المکتبۃ العصریۃ، 1420ھ۔
- قاضی عبدالجبار، عبدالجبار بن احمد، المختصر فی أصول الدین، بیروت، دارالہلال، 1971ء۔
- قزوینی، علی بن اسماعیل، تعلیقۃ علی معالم الاصول، قم، جماعۃ المدرسين في الحوزۃ العلمیۃ بقم۔ مؤسسۃ النشر الإسلامي، 1422ھ۔
- کلوذانی، محفوظ بن احمد، التمہید فی اصول الفقہ، مکہ، جامعۃ أم القری۔ کلیۃ الشریعۃ و الدراسات الاسلامیۃ۔ مرکز البحث العلمی و إحیاء التراث الاسلامی، 1406ھ۔
- کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران، دارالکتب الاسلامیۃ، 1407ھ۔
- لطفی، اسداللہ، «دفع ضرر محتمل»، دانشنامہ جہان اسلام، ج17، 1391ہجری شمسی۔
- لطفی، اسداللہ، «قاعدۀ وجوب دفع ضرر محتمل و کاربرد آن در قانون آئین دادرسی مدنی»، در مجلہ دیدگاہہای حقوقی قضایی، شمارہ 59، پیاپی 59، آبان 1391ہجری شمسی۔
- ماتریدی، محمد بن محمد، التوحید، بیروت، دارالکتب العلمیہ، 1427ھ۔
- مروارید، جعفر و وحید مہدویمہر، «بررسی تمایز ماہوی «برہان شرطبندی پاسکال» و «حدیث محاجّۀ امام علیہالسلام و ابن أبیالعوجاء» و نتایج فلسفی و کلامی آن»، در مجلہ پژوہشہای فلسفیکلامی، شمارہ2، پیاپی 76، تیر 1397ہجری شمسی۔
- مشکینی اردبیلی، علی، الأصول، موسسہ علمی فرہنگی دارالحدیث، 1396ہجری شمسی۔
- مصطفوی، سید محمدکاظم، القواعد الفقہیۃ، قم، جماعۃ المدرسين في الحوزۃ العلمیۃ بقم۔ مؤسسۃ النشر الإسلامی، 1421ھ۔
- میرزای قمی، ابوالقاسم بن محمد حسن، القوانین المحکمۃ فی الاصول، قم، احیاء الکتب الاسلامیۃ، 1430ھ۔
- نایینی، محمدحسین، فوائد الاصول، قم، جماعۃ المدرسين في الحوزۃ العلمیۃ بقم۔ مؤسسۃ النشر الإسلامی، 1376ہجری شمسی۔
- نراقی، احمد بن محمدمہدی، عوائد الایام، قم، انتشارات دفتر تبلیغات حوزہ علمیہ قم، 1375ہجری شمسی۔
- نراقی، احمد بن محمدمہدی، مستند الشیعۃ في أحکام الشریعۃ، قم، مؤسسۃ آل البیت علیہم السلام لاحیاء التراث، 1415ھ۔
- ہمدانی، رضا، مصباح الفقیہ، قم، الموسسۃ الجعفریۃ لاحیاء التراث، 1376ہجری شمسی۔
- Pascal, Blaise, Pascals Pensées or Thoughts on religion, translated and edited by G. B. Rawlings, Mount Vernon, New York, Peter Pauper Press, 1900۔
بیرونی روابط
- دفع ضرر محتمل، دانشنامہ جہان اسلام۔