شکر منعم کا وجوب
شُکرِ مُنعِم کے وجُوب کا مطلب ہے منِعم(نعمت دینے والے) کا شکر ادا کرنا نعمت حاصل کرنے والے (منعم علیہ) پر واجب ہے۔ کہتے ہیں شکرِ منعم عقلی اور شرعی طور پر واجب ہے جس پر عقل، قرآن اور احادیث حکم کرتے ہیں۔ مسلم علماء اس بارے میں اختلاف کرتے ہیں کہ یہ وجوب قاعدہ عقل سے ماخوذ ہے یا محض شریعت کے مطابق ہے:
عدلیہ (معتزلہ اور امامیہ) کا کہنا ہے کہ یہ قاعدہ، عقلی ہے، اگرچہ قرآن اور احادیث میں بھی اس پر حکم ہوا ہے۔ اس لیے شریعت کے احکام اس سلسلے میں ارشادی ہیں۔ اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک واضح اور بدیہی امر ہے کہ جس نے کوئی نعمت دی ہے اس کا شکریہ ادا کرنا لازمی ہے۔ اسی طرح اس بارے میں سیرہ عقلاء سے بھی استناد کرتے ہیں۔ اس کے برعکس اشاعرہ، جو کہ اہل سنت کا ایک کلامی فرقہ ہے، نے قرآن کی آیات اور دیگر شواہد کا حوالہ دیتے ہوئے یہ کہا ہے کہ شریعت اور پیغمبروں کی بعثت سے پہلے مُنعم کا شکریہ لازم ہونے کے بارے میں حکم نہیں کر سکتے ہیں۔
شیعہ علماء نے اس قاعدہ کو اسلامی علوم کے مختلف شعبوں میں استعمال کیا ہے جن میں الہیات، اصول فقہ اور فقہ شامل ہیں، جس کی ایک مثال عقیدہ کے مسائل کی تحقیق اور اجتہاد، تقلید یا احتیاط کی ضرورت کو ثابت کرنا ہے۔
تعارف اور اہمیت
مُنعِم اور احسان کرنے والے کا شکریہ ادا کرنا واجب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جس نے کسی شخص پر احسان کیا ہے اس کا شکر گزار ہونا عقلی یا شرعی فریضہ ہے۔[1] اس قاعدے کا اصل مقام علم الٰہیات سمجھا جاتا ہے؛ لیکن فقہاء نے بھی اسے بعض احکام کو استنباط کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔[2]
مفسرین نے بعض آیات کو اس قاعدے کی دلیل قرار دیا ہے۔ مثال کے طور پر سورہ زخرف کی آیات 11 تا 15[3]، سورہ اعراف کی آیت 107[4]، سورہ انعام کی آیت 109[5]، سورہ بقرہ کی آیت نمبر 164[6] اور سورہ ابراہیم کی آیت 7[7] کے ذیل میں اس کا ذکر کیا ہے۔ احادیث میں بھی اللہ کی نعمتوں کے شکر گزار ہونے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر امام علیؑ کی ایک حدیث میں آیا ہے: "اگر اللہ تعالی گناہوں کی کوئی سزا نہ بھی رکھی ہوتی، تب بھی نعمتوں کی شکرگزاری میں گناہ نہ کرنا واجب ہوتا۔"[8]
نعمتوں کا شکر ادا کرنے کا حکم اشعار میں بھی بیان ہوا ہے۔ مثال کے طور پر رومی (وفات: 672ھ) نے یوں لکھا ہے:
|
|
سعدی شیرازی (وفات: 691ھ) نے بھی ایک شعر میں کہا ہے:
|
|
عقلی یا شرعی ایک اصول
مسلمانوں کے دو کلامی مذاہب عدلیہ اور اشاعرہ کے درمیان پائے جانے والے اختلافات میں سے ایک یہ ہے کہ مُنعِم کی شکرگزاری کا وجوب، عقلی ہے یا شرعی؟۔[11] عدلیہ یعنی معتزلہ[12] اور امامیہ[13] کے نزدیک یہ ایک عقلی قاعدہ ہے اور اس سلسلے میں شرعی امر اور نہی محض ہدایت اور ارشادی ہیں۔[14] شیعہ فقیہ اور علم اصول کے ماہر عالم شیخ انصاری (متوفی 1281ھ) کا کہنا ہے کہ اس مسئلے میں عدلیہ اور اشاعرہ کے درمیان اختلاف کا سرچشمہ حسن و قبح میں اختلاف ہونا ہے؛ یعنی اگر کوئی عقل کو اچھائی اور برائی کی تمیز کا ذریعہ سمجھے تو وہ احسان کرنے والے کا شکر ادا کرنے کی عقلی ضرورت کو قبول کرے گا؛ لیکن اگر اشاعرہ کی طرح حسن و قبح (اچھائی اور برائی) کو خالص شرعی سمجھے تو اس مسئلے کے وجوب کو بھی خالص شرعی ہونا سمجھیں گے۔[15]
عقلی ہونے کے دلائل
بعض متکلمین نے احسان کرنے والے کا شکریہ ادا کرنے کے وجوب کے اثبات کے لئے اس کا بدیہی ہونے کو بیان کیا ہے اور کہتے ہیں کہ نعمت کے مقابلے میں عقل کا عکس العمل بدیہی طور پر واجب ہے۔[16] شیعہ متکلم کَراجَکی (متوفی 449ھ) نے کہا ہے کہ مُنعِم کا شکر ادا کرنا واجب ہونے میں تمام عقلاء کا اتفاق ہے اور اس بارے میں عقلاء کے مابین کوئی اختلافِ رائے نہیں ہے۔[17] اس اصول کو ثابت کرنے کے لیے دلائل بھی پیش کیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر شیعہ فقیہ اور متکلم علامہ حلی (متوفی 726ھ) نے یوں استدلال کیا ہے کہ اگر منعم کا شکر ادا کرنا ضروری نہیں ہو تو اس کی معرفت حاصل کرنا بھی ضروری نہیں ہوگا۔ معرفت ضروری نہ ہونے کا مطلب انبیاء کی بعثت کا بےفائدہ ہونا ہے۔ لہذا نتیجے کے طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ مُنعِم کا شکریہ ادا کرنا ضروری ہے۔[18]
شرعی ہونے کے دلائل
عدلیہ کے برعکس، اشاعرہ کا عقیدہ ہے کہ منعم کا شکریہ ادا کرنے کا لزوم شرع سے استنباط ہوتا ہے، نہ کہ عقل سے۔ اس دعوے کو ثابت کرنے کے لیے اس گروہ نے درج ذیل دلائل پیش کیے ہیں:
- سورہ اسراء کی آیت نمبر 15 اور سورہ نساء آیت نمبر 165 جیسی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء اور شریعت کے بھیجنے سے پہلے انسان سزا کا مستحق نہیں تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عقل شکر کے وجوب پر آزادانہ طور پر حکم نہیں کر سکتی۔[19] اس کے جواب میں کہا گیا ہے کہ یہ آیات دنیاوی عذاب کے بارے میں ہیں، آخرت کے نہیں۔ مزید برآں، سزا کا سبب وہ باطنی مخالفت ہے جو انسان کی خدا کے ساتھ ہوتی ہے، اور اگر کوئی اس ضرورت کو عقل کے ذریعے سمجھ لے اور اس پر عمل نہ کرے تو وہ سزا کا مستحق ہے۔[20]
- وجوب کا معنی، اللہ تعالی کے حکم سے سمجھ میں آتا ہے اور خدا کے حکم سے پہلے وجوب کا کوئی معنی نہیں بنتا ہے؛ کیونکہ جزا جو اطاعت کا نتیجہ ہے اور سزا جو نافرمانی کا نتیجہ ہے، خدا کے حکم کے بعد معنی اختیار کرتی ہیں۔[21] جواب میں کہا گیا ہے کہ اس مقام پر وجوب اور ضرورت عقلی مراد ہے نہ کہ کوئی شرعی وجوب جو حکم الٰہی کی اطاعت کا تقاضا کرے۔[22]
دینی علوم میں اصول کے استعمال کی مثالیں
وجوبِ شکرِ منعِم کا قاعدہ مختلف دینی علوم میں اس علم کے موضوع اور مسائل کے مطابق استعمال کیا گیا ہے۔ اس کے چند استعمالات درج ذیل ہیں:
عقائد کی تحقیق کی ضرورت
خدا کے وجود اور عقائد سے متعلق مسائل کی تحقیق کی ضرورت کو ثابت کرنے کے لیے، ماہرینِ الہٰیات نے وجوب دفع ضرر محتمل کے قاعدے[23] کے ساتھ ساتھ منعم کی شکر گزاری کے وجوب کے قاعدے سے بھی ایک عقلی قانون کے طور پر استناد کیا ہے۔[24] اس قاعدے سے یوں استناد کیا ہے: احسان کرنے والے کا شکریہ ادا کرنا عقل کی رو سے واجب ہے۔ منعم کی معرفت کے بغیر اس کی شکر گزاری نہیں کی جا سکتی ہے۔ شناخت، تحقیق کے نتیجے میں حاصل ہوتی ہے۔ پس نتیجہ یہ نکلا کہ منعم کے بارے میں تحقیق ضروری ہے۔[25]
اصول فقہ کے کلامی مبانی
بعض علم اصول کے ماہرین نے مُنعِم کا شکر ادا کرنے کو علم اصول کے کلامی مبانی میں سے قرار دیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ علامہ حلی نے اس قاعدہ کو علم اصول کے کلامی مبانی میں سے قرار دیتے ہوئے اس پر مستقل طور پر بحث کی ہے۔[26] علم اصول کے ایک اور ماہر شیخ بہائی نے بھی اس اصول کو اصول فقہ کے کلامی مبانی میں سے ایک کے طور پر اس کی جانچ پڑتال کی ہے۔[27]
اجتہاد، احتیاط اور تقلید تینوں کا مستند
اس قاعدے سے استناد کئے جانے والے مسائل میں سے ایک اجتہاد، احتیاط یا تقلید کی ضرورت پر بحث ہے۔ اس قاعدہ کی بناء پر کہا گیا ہے کہ عقل منعم کا شکریہ ادا کرنے کو واجب سمجھتی ہے۔ منعم کی شکر گزاری بھی اس صورت میں ہوتی ہے جب منعم کے احکام و قوانین کو جانیں اور اس کے مطابق عمل کریں۔ نتیجے کے طور پر، یا تو خود دینی احکام استنباط کرنے کی صلاحیت حاصل کریں، جو کہ اجتہاد ہے، یا اس طرح سے عمل کریں جس سے ہمیں یقین ہو کہ اللہ کے حکم پر عمل ہو چکا ہے، جو کہ احتیاط ہے۔ یا ہم کسی مجتہد جامع الشرائط کی تقلید کریں۔[28]
حوالہ جات
- ↑ ہاشمی شاہرودی، فرہنگ فقہ، 1382شمسی، ج6، ص447؛ سانو، معجم مصطلحات أصول الفقہ، 1427ھ، ص250۔
- ↑ ہاشمی شاہرودی، فرہنگ فقہ، 1382شمسی، ج6، ص447۔
- ↑ حاکم جشمی، التہذیب فی التفسیر، 1440ھ، ج9، ص6287۔
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، 1408ھ، ج4، ص701۔
- ↑ ابو الفتوح رازی، روض الجنان، 1371شمسی، ج7، ص410۔
- ↑ فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج4، ص173۔
- ↑ طباطبایی، المیزان، 1352شمسی، ج12، ص23۔
- ↑ نہج البلاغہ، حکمت 290۔
- ↑ مولوی، مثنوی معنوی، 1376شمسی، ج1، ص448۔
- ↑ سعدی، کلیات سعدی، 1320شمسی، ص208۔
- ↑ شہرستانی، الملل و النحل، 1415ھ، ج1، ص55–56؛ عثمان، القاموس المبین، 1423ھ، ص192۔
- ↑ برای نمونہ نگاہ کنید بہ: قاضی عبدالجبار، المغنی، بی تا، ج15، ص27۔
- ↑ برای نمونہ نگاہ کنید بہ: آل کاشف الغطاء، اصل الشیعۃ و اصولہا، 1413ھ، ص76؛ سبحانی تبریزی، الإنصاف، 1381شمسی، ج3، 37۔
- ↑ آل طالقانی، الشیخیۃ نشأتہا و تطورہا و مصادر دراستہا، 1420ھ، ص299۔
- ↑ شیخ انصاری، مطارح الانظار، 1404ھ، ص231۔
- ↑ برای نمونہ رجوع کنید بہ: کراجکی، کنزالفوائد، 1410ھ، ج1، ص221؛ شیخ طوسی، التبیان، دار احیاء الترث العربی، ج7، ص340؛ علامہ حلی، حسن بن یوسف، مبادی الوصول، 1404ھ، ص93۔
- ↑ برای نمونہ رجوع کنید بہ: کراجکی، کنزالفوائد، 1410ھ، ج1، ص221۔
- ↑ علامہ حلی، تہذیب الوصول، 1380شمسی، ص54۔
- ↑ فخر رازی، المحصول فی علم اصول الفقہ، 1420ھ، ج1، ص67۔
- ↑ کاشف الغطاء، غایۃ المأمول، بی تا، ص199۔
- ↑ غزالی، المستصفی، 1413ھ، ص49۔
- ↑ مظفر، دلائل الصدق، 1422ھ، ج2، ص159۔
- ↑ برای نمونہ نگاہ کنید بہ: ابن میثم، قواعد المرام، 1406ھ، ص28–29۔
- ↑ ہاشمی شاہرودی، فرہنگ فقہ، 1382شمسی، ج6، ص447۔
- ↑ ابن نوبخت، الیاقوت، 1413ھ، ص27؛ شیخ طوسی، تمہید الأصول، 1362شمسی، ص206؛ ابن میثم، قواعد المرام، 1406ھ، ص29؛ فاضل مقداد، الاعتماد، 1412ھ، ص48۔
- ↑ ضمیری، دانشنامہ اصولیان شیعہ، 1387شمسی، ص323۔
- ↑ ضمیری، دانشنامہ اصولیان شیعہ، 1387شمسی، ص518۔
- ↑ حکیم، مستمسک العروۃ الوثقی، 1374شمسی، ج1، ص6؛ موحدی نجفی، البرہان السدید فی الاجتہاد و التقلید، 1387شمسی، ص34–36؛ سیفی مازندرانی، دلیل تحریر الوسیلۃ، 1436ھ، ص3؛ سند، سند العروۃ الوثقی (الاجتہاد و التقلید)، 1394شمسی، ج1، ص23–24۔
مآخذ
- آل طالقانی، محمد حسن، الشیخیۃ نشأتہا و تطورہا و مصادر دراستہا، بیروت، الآمال للمطبوعات، 1420ھ۔
- آل کاشف الغطاء، محمد حسین بن علی، اصل الشیعۃ و اصولہا، بیروت، الاعلمی للمطبوعات، 1413ھ۔
- ابن نوبخت، ابراہیم بن نوبخت، الیاقوت فی علم الکلام، قم، مکتبۃ آیۃ اللہ العظمی المرعشی النجفی(رہ)، 1413ھ۔
- ابو الفتوح رازی، حسین بن علی، روض الجنان و روح الجنان فی تفسیر القرآن، مشہد، آستان قدس رضوی. بنیاد پژوہش ہای اسلامی، 1371ہجری شمسی۔
- ابن فہد حلی، احمد بن محمد، عدۃ الداعی، قم، دارالکتاب الاسلامی، 1407ھ۔
- ابن میثم، میثم بن علی، قواعد المرام فی علم الکلام، قم، مکتبۃ آیۃاللہ العظمی المرعشی النجفی(رہ)، 1406ھ۔
- اشتہاردی، علی پناہ، مدارک العروۃ، تہران، منظمۃ الاوقاف و الشؤون الخیریۃ، دار الأسوۃ للطباعۃ و النشر، 1417ھ۔
- حاکم جشمی، محسن بن محمد، التہذیب فی التفسیر، قاہرہ، دارالکتاب المصری، 1440ھ۔
- حکیم، سید محسن، مستمسک العروۃ الوثقی، قم، دار التفسیر، 1374ہجری شمسی۔
- سانو، قطب مصطفی، معجم مصطلحات أصول الفقہ، دمشق، دارالفکر، 1427ھ۔
- سبحانی تبریزی، جعفر، الإنصاف فی مسائل دام فیہا الخلاف، قم، موسسۃ الامام الصادق(ع)، 1381ہجری شمسی۔
- سعدی، مصلح الدین، کلیات سعدی، تصحیح محمد علی فروغی، تہران، چاپخانہ بروخیم، 1320ہجری شمسی۔
- سند، محمد، سند العروۃ الوثقی (الاجتہاد و التقلید)، بیروت، دار الکوخ، 1394ہجری شمسی۔
- سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، قم، ہجرت، 1414ھ۔
- سیفی مازندرانی، علی اکبر، دلیل تحریر الوسیلۃ (الاجتہاد و التقلید)، قم، مؤسسۃ تنظیم و نشر آثار الإمام الخمینی(قدس سرہ)، 1436ھ۔
- شہرستانی، محمد بن عبدالکریم، الملل و النحل، بیروت، دارالمعرفۃ، 1415ھ۔
- شیخ انصاری، مرتضی بن محمدامین، مطارح الانظار، قم، مؤسسۃ آل البیت(علیہم السلام) لإحیاء التراث، 1404ھ۔
- شیخ بہایی، محمد بن حسین، زبدۃ الأصول مع حواشی المصنف علیہا، قم، دارالبشیر، 1383ہجری شمسی۔
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار احیاء الترث العربی، بی تا۔
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، تمہید الأصول فی علم الکلام، تہران، انتشارات دانشگاہ تہران، 1362ہجری شمسی۔
- ضمیری، محمد رضا، دانشنامہ اصولیان شیعہ، قم، بوستان کتاب، 1387ہجری شمسی۔
- طباطبایی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، الاعلمی فی المطبوعات، 1352ہجری شمسی۔
- طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دارالمعرفۃ، 1408ھ۔
- عثمان، محمود حامد، القاموس المبین فی إصطلاحات الأصولیین، ریاض، دار الزاحم، 1423ھ۔
- علامہ حلی، حسن بن یوسف، مبادی الوصول الی علم الاصول، قم، مطبعۃ العلمیۃ، 1404ھ۔
- غزالی، محمد بن محمد، المستصفی فی علم الاصول، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، 1413ھ۔
- فاضل مقداد، مقداد بن عبد اللہ، الاعتماد فی شرح واجب الاعتقاد، مشہد، آستانۃ الرضویۃ المقدسۃ. مجمع البحوث الإسلامیۃ، 1412ھ۔
- فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، 1420ھ۔
- قاضی عبد الجبار، عبد الجبار بن احمد، المغنی فی أبواب التوحید و العدل، تحقیق قاسم محمود محمد، بی جا، بی نا، بی تا۔
- کاشف الغطاء، جعفر بن خضر، غایۃ المأمول، بی جا، بی نا، بی تا۔
- کراجکی، محمد بن علی، کنز الفوائد، قم، دارالذخائر، 1410ھ۔
- مازندرانی، محمد صالح، شرح اصول الکافی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1429ھ۔
- مظفر، محمد حسن، دلائل الصدق لنہج الحق، قم، مؤسسۃ آل البیت(علیہم السلام) لإحیاء التراث، 1422ھ۔
- موحدی نجفی، محمد باقر، البرہان السدید فی الاجتہاد و التقلید، قم، دارالتفسیر، 1387ہجری شمسی۔
- مولوی، محمد بن محمد، مثنوی معنوی، تصحیح عبدالکریم سوش، تہران، انتشارات علمی فرہنگی، 1376ہجری شمسی۔
- ہاشمی شاہرودی، محمود، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت(علیہم السلام)، قم، مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی بر مذہب اہل بیت (علیہم السلام)، 1382ہجری شمسی۔