رویت خدا

ویکی شیعہ سے
(رؤیت خدا سے رجوع مکرر)
شیعہ عقائد
‌خداشناسی
توحیدتوحید ذاتیتوحید صفاتیتوحید افعالیتوحید عبادیصفات ذات و صفات فعل
فروعتوسلشفاعتتبرک
عدل (افعال الہی)
حُسن و قُبحبداءامر بین الامرین
نبوت
خاتمیتپیامبر اسلام اعجازعدم تحریف قرآن
امامت
اعتقاداتعصمت ولایت تكوینیعلم غیبخلیفۃ اللہ غیبتمہدویتانتظار فرجظہور رجعت
ائمہ معصومینؑ
معاد
برزخمعاد جسمانی حشرصراطتطایر کتبمیزان
اہم موضوعات
اہل بیت چودہ معصومینتقیہ مرجعیت


رؤیت خدا علم کلام کے مباحث میں سے ایک ہے جس میں اس بات پر بحث کی جاتی ہے کہ آیا خدا کو ظاهری اور مادی آنکھوں کے ذریعے دیکھا جا سکتا ہے یا نہیں۔ امامیہ اور معتزلہ متکلمین کا کہنا ہے کہ اللہ تعالی ظاہری آنکھوں کے ذریعے نہ دنیا میں نظر آ سکتا ہے اور نہ ہی آخرت میں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ہم اس بات کو مانیں کہ اللہ تعالی ظاہری آنکھوں سے نظر آ سکتا ہے تو اس سے اللہ کے لئے جسم کا قائل ہونا پڑیگا۔ ان کے مقابلے میں اشاعرہ، اہل‌حدیث، مُجَسّمہ، کَرّامِیّہ اور سلفیہ جیسے اہل سنت کے دیگر کلامی مکاتب کا کہنا ہے کہ اللہ تعالی کا ظاہری آنکھوں سے نظر آنا ممکن ہے۔

رؤیت خدا کی بحث دوسری صدی ہجری سے شروع ہوئی ہے۔ بعض کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ اسلام نما یہودی اور عیسائیوں کی طرف سے اسلامی مباحث میں شامل ہوا ہے۔

رؤیت خدا کے بارے میں علم کلام کے علاوہ قرآن، روایات اور عرفان میں بھی بحث ہوتی ہے اور اس بارے میں بہت ساری کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں آیت اللہ جعفر سبحانی کی کتاب «رؤیّۃ۔ اللہ فی ضوء الکتاب و السنّّۃ۔ و العقل الصریح» کا نام لیا جا سکتا ہے۔

اہمیت اور معنی

اللہ تعالی کی رؤیت ایک کلامی مسئلہ ہے جس میں یہ بحث ہوتی ہے کہ اللہ تعالی کو ظاہری اور مادی آنکھوں کے ذریعے دیکھا جا سکتا ہے یا نہیں[1] شیعہ سنی احادیثی مآخذ میں رویت خدا کے امکان اور عدم امکان کے بارے میں بہت ساری احادیث نقل ہوئی ہیں۔[2]

قرآن مجید میں سورہ قیامت کی آیت 22 اور 23، سورہ مطففین کی آیت 15، سورہ یونس آیت 16، اور سورہ نجم کی 11 سے 13 تک کی آیات میں بھی اللہ تعالی کی رویت کے بارے میں تذکرہ ہوا ہے۔ جبکہ سورہ انعام کی 103ویں آیت سورہ اعراف کی 123ویں، سورہ بقرہ کی 55ویں، سورہ نساء کی 153ویں اور سورہ فرقان کی 21ویں آیت میں رویت الہی کو ناممکن قرار دیا گیا ہے۔[3]

رؤیت الہی کے امکان کے موافق اور مخالف مفسرین نے ان آیات کے ذیل میں اس پر سیر حاصل بحث کی ہے۔[4]

کہا گیا ہے کہ صوفی حضرات چونکہ ہمیشہ اللہ تعالی سے بلاواسطہ رابطے کے درپے رہتے ہیں اسی لئے عرفان اور تصوف میں بھی اس پر بہت بحث ہوئی ہے۔ اور ابراہیم ادہم جیسے صوفی مسلک کے درجہ اول کے تمام صوفیوں نے اس بارے میں بحث کی ہے۔[5]

تاریخچہ

اسلام میں رؤیت خدا کے بارے میں بحث دوسری صدی ہجری سے شروع ہوئی ہے۔[6] اس صدی میں فرقہ جَہْمیّہ اور معتزلہ نے رؤیت خدا کا انکار کیا۔ تیسری صدی کے ابتدائی سالوں میں رؤیت الہی اہل سنت کے چار اماموں میں سے احمد بن حنبل اور ان کے ماننے والوں کے بنیادی عقائد میں شمار ہونے گا۔ اسی طرح ماتُریدیہ، اشاعرہ، مُجَسّمہ، مُشَبّہہ، کَرّامِیّہ و سلفیہ[7] جیسی دیگر کلامی فرقوں نے انسانی آنکھوں سے رؤیت الہی کو ممکن سمجھا۔[8]

جعفر سبحانی جیسے 14ویں صدی ہجری کے بعض شیعہ متکلمین کا کہنا ہے کہ اللہ تعالی کی رؤیت کا مسئلہ کَعْبُ الاَحْبار جیسے بعض مسلمان نما یہودی اور عیسائیوں نے احادیث اور اسلامی تعلیمات میں شامل کیا ہے۔[9] جعفر سبحانی کا کہنا ہے کہ رؤیت خدا کے بارے میں جتنی بھی احادیث ہیں انہیں مسلمان نما یہودی اور مسیحیوں نے اسلامی روایی مآخذ میں شامل کیا ہے۔[10]

رؤیت باری تعالی دوسرے ادیان میں

اسلام سے پہلے تورات اور انجیل میں بھی رؤیت باری تعالی کا مسئلہ ذکر ہوا ہے۔[11] یہودیوں کی مقدس کتاب، تورات میں اللہ تعالی حضرت موسی سے مخاطب ہوکر کہتا ہے: «تم میرے چہرے کو نہیں دیکھ سکتے ہو کیونکہ جو انسان مجھے دیکھے گا وہ پھر زندہ نہیں رہے گا»۔[12] ایک اور آیت میں حضرت موسی سے کہا گیا ہے: «میں اپنے ہاتھ کو اٹھاؤں گا تاکہ میرے پشت کو دیکھ سکو، لیکن میرا چہرہ نہیں دیکھ سکو گے»۔[13] انجیل کی ایک آیت میں کہا گیا ہے: پاک دل والے لوگ اللہ کو دیکھیں گے؛[14] لیکن کسی اور آیت میں کہا گیا ہے کہ اللہ تعالی کو کبھی کسی نے نہیں دیکھا ہے۔[15]

رؤیت باری تعالی مذاہب اسلامی کی نظر میں

رؤیت باری تعالی کے بارے میں تین نظریات بیان ہوئے ہیں: اہل سنت کے کلامی فرقے، مُجَسّمہ اور کَرّامیّہ، اللہ تعالی کی دیدار کو دنیا اور آخرت دونوں میں ممکن جانتے ہیں؛ کیونکہ اللہ تعالی کے لئے جسم اور مکان کے قائل ہیں۔[16]

اہل سنت کی دیگر کلامی فرقے، جیسے: اشاعرہ،[17]، اہل‌حدیث[18] کا کہنا ہے کہ اللہ تعالی کو صرف آخرت میں انسانی آنکھوں سے دیکھا جاسکتا ہے؛ اگرچہ یہ لوگ اللہ کے جسم کے قائل نہیں ہیں۔[19]

امامیہ،[20]، زیدیہ[21] اور معتزلہ[22] رؤیت باری تعالی کو دنیا اور آخرت دونوں میں ناممکن سمجھتے ہیں اور اس پر سب متفق ہیں۔[23]

آخریت میں باری تعالی کی رؤیت کے امکان پر دلایل

اللہ کی رؤیت ممکن سمجھنے والوں نے اپنی بات پر عقلی اور نقلی دلائل سے استناد کیا ہے[24] جن میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں:

عقلی دلایل

رؤیت ممکن سمجھنے والوں کی بعض عقلی دلیل مندرجہ ذیل ہیں:

  • جو خود اور دیگر چیزوں کو دیکھ لیتا ہے، وہ خود بھی دوسروں کو نظر آنا ممکن ہے۔ اللہ تعالی اپنے آپ اور دیگر اشیا کو دیکھ لیتا ہے وہ ہمیں بھی یہ طاقت عطا کرسکتا ہے جس کے ذریعے ہم اسے دیکھ سکیں۔[25]
  • مختلف موجودات دیکھ سکنے کے قابل ہیں اور ان کا دیکھ سکنا ان کی ذات سے مربوط ہے۔ اللہ تعالی بھی موجود ہے پس وہ بھی دیکھ سکنے کے لائق ہونا چاہئے۔[26]

نقلی دلائل

نقلی دلائل میں قرآن کی آیات اور روایات شامل ہیں:

ان آیات میں سے ایک سورہ اعراف کی 143ویں آیت ہے جس میں حضرت موسیؑ اللہ تعالی سے اپنی دیدار کرانے کی درخواست کرتے ہیں اور ان کے جواب میں اللہ تعالی کہتا ہے کہ موسی تم ہرگز نہیں دیکھ سکتے ہو۔ اگر اللہ تعالی کا نظر آنا ناممکن ہوتا تو حضرت موسی ایسی درخواست نہیں کرتے۔[27]

اللہ تعالی کی رؤیت ممکن ہونے پر بعض دیگر آیات سے بھی استدلال کی گئی ہے جن میں سورہ احزاب کی 44ویں، سورہ قیامت کی 22 اور 23ویں، سورہ مطففین کی 15ویں آیت[28] اور سورہ انعام کی 103ویں آیت[29] شامل ہیں۔

آخرت میں اللہ کی رؤیت ثابت کرنے پر پیغمبر اکرم کی روایات سے استناد کیا ہے؛[30] جیسا کی حدیث نبوی میں[31] منقول ہے کہ «تم اپنے پروردگار کو چودہویں چاند کے مانند دیکھ لو گے۔»[32]

رؤیت خدا ناممکن ہونے کی دلیل

رؤیت خدا کو ناممکن سمجھنے والوں نے بھی عقلی اور نقلی دلائل سے استناد کیا ہے:

دلایل عقلی

جعفر سبحانی کا کہنا ہے کہ عقلی دلائل کی بنیاد اس بات پر ہے کہ اللہ نظر آنے کو ممکن سمجھنا اس کو جسم جیسی صفت ثابت کرنے کا باعث ہے۔[33] بعض عقلی دلائل مندرجہ ذیل ہیں:

  1. انسانی آنکھوں سے نظر آنے کا لازمہ یہ ہے کہ اللہ تعالی کے لئے زمان اور مکان ہو جبکہ وہ ان صفات سے پاک و پاکیزہ ہے۔[34] علامہ حلی کا کہنا ہے کہ اللہ تعالی کا واجب ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ وہ مجرد ہو اور سمت اور مکان سے وہ مبرا ہو۔ اور ان چیزوں سے مبرا ہونے کا لازمہ یہ ہے کہ وہ انسانی آنکھوں سے نظر نہ آئے۔[35]
  2. اللہ تعالی کی یا تو پوری ذات نظر آسکتی ہے یا ذات کا کوئی جز نظر آتا ہے۔ پہلی صورت میں اللہ کا محدود اور متناہی ہونا لازم آتا ہے اور دوسری صورت میں مرکب ہونا، مکان اور سمت کا محتاج ہونا لازم آتا ہے۔ اور دونوں صورتیں محال اور باطل ہیں۔ پس اللہ تعالی کا نظر آنا ناممکن ہے۔[36]
کتاب «رؤیّۃ۔ اللہ» تالیف آیت‌اللہ سبحانی.

دلایل نقلی

رؤیت کے مخالفوں نے نقلی دلائل سے بھی استدلال کیا ہے جن میں سورہ اعراف 123ویں آیت ہے جس سے موافقین نے بھی استناد کیا تھا، جس میں حضرت موسی سے کہا جاتا ہے کہ اے موسی تم مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکتے ہو: «لَنْ تَرانِی»۔ «لَنْ» کا لفظ ہمیشہ کی نفی پر دلالت کرتا ہے، «لَنْ تَرانِی» باری تعالی کی رؤیت کی ابدی نفی کرتی ہے اور رؤیت ناممکن ہے۔[37]

ایک اور آیت: «لَّا تُدْرِ‌کہُ الْأَبْصَارُ‌ وَہُوَ یدْرِ‌ک الْأَبْصَارَ‌[؟؟]؛ آنکھیں اسے نہیں دیکھ سکتی ہیں اور وہ آنکھوں کو دیکھ لیتا ہے»۔[38] امامیہ اور معتزلہ متکلمین کے مطابق یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ اللہ انسانی آنکھ سے نظر نہیں آسکتا ہے؛[39]

شیعہ ائمہ سے منقول روایات بھی اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تعالی ظاہری آنکھوں سے نظر نہیں آتے ہیں۔[40] ایک روایت میں کوئی شخص امام علیؑ سے پوچھتا ہے کہ کیا اللہ کو دیکھ چکے ہیں؟ اس کے جواب میں آپ فرماتے ہیں جس خدا کو نہیں دیکھتا ہوں اس کی عبادت نہیں کرتا ہوں؛ لیکن اسے سر کی آنکھوں سے نہیں بلکہ ایمان کی حقیقت سے دیکھ سکتے ہیں۔[41]

مخالفوں کی نظر میں جس حدیث نبوی سے موافقوں نے استدلال کیا ہے اگر وہ روایت صحیح بھی ہو تو وہ اللہ تعالی کے علم پر دلالت کرتی ہے ظاہری آنکھ سے نظر آنے پر دلالت نہیں کرتی؛ کیونکہ اگر ظاہری آنکھ سے نظر آنا مراد ہو تو اس سے خدا کے لئے جہت ہونا لازم آئے گا جو کہ محال ہے۔[42]

کتابیات

رؤیت باری تعالی پر کلامی، تفسیری مختلف کتابوں نیز بعض عرفانی اور روائی کتابوں میں بحث ہوئی ہے۔ ان کے علاوہ اس موضوع پر بعض مستقل کتابیں بھی لکھی گئی ہیں جن میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں:

کتاب «رؤیّۃ۔ اللہ جل و علا» تالیف دارقطنی
  • کلمّۃ۔ٌ حَولَ الرّؤیّۃ۔،‌ تالیف عبدالحسین شرف‌الدین عاملی۔ یہ کتاب شیعہ نقطہ نظر سے رؤیت ناممکن ہونے کے بارے میں لکھی گئی ہے۔[43] یہ کتاب «موسوعّۃ۔ الإمام السید عبدالحسین شرف‌الدین» کی چوتھی جلد میں شامل ہے۔ جسے مرکز العلوم و الثقافّۃ۔ الاسلامیّۃ۔، انتشارات دارالمورخ العربی نے نشر کیا ہے اس کے علاوہ «رؤیّۃ۔ اللہ و فلسفہ المیثاق و الولایّۃ۔» کے عنوان سے انتشارات لوح محفوظ نے منتشر کیا ہے۔
  • رؤیّۃ۔ اللہ فی ضوء الکتاب و السنّّۃ۔ و العقل الصریح، تالیف جعفر سبحانی. آیت اللہ سبحانی اس کتاب میں رؤیت باری تعالی کی رؤیت کو یہودیوں سے وارد شدہ نظریہ قرار دیتے ہیں جسے باطل قرار دیتے ہوئے عقلی، نقلی اور روائی دلائل کے ذریعے شیعہ نظرئے کی دفاع کرتے ہیں۔
  • رؤیّۃ۔ اللہ جل و جلا، علی بن عمر دارقُطنی. دارقُطنی، اہل حدیث اور چوتھی صدی کے مشہور محدث۔ اس کتاب میں رؤیت باری تعالی کے امکان پر آیات اور روایات جمع آوری کی گئی ہے۔[44] اس کتاب میں دو ضمیمے («رؤیّۃ۔ اللہ تبارک و تعالی» تألیف ابن‌نحاس اور «ضوء الساری إلی معرفّۃ۔ رؤیّۃ۔ الباری» تالیف ابی‌شامہ مقدسی) کے ساتھ دارالکتب العلمیہ نے منتشر کیا ہے۔ نیز «المصباح المنیر فی رؤیّۃ۔ الرب الخبیر» و «المحلق الضّافی إلی ما فی کتاب الرؤیّۃ۔ الوافی» نامی ضمیمے شامل کر کے اَبواُویس الکردی کی قلم سے ابن تیمیہ نامی ناشر نے چھاپا ہے۔

رؤیت باری تعالی کے بارے میں دیگر آثار درج ذیل ہیں: رؤیّۃ۔ اللہ بین التنزیہ و التشبیہ،‌ عبدالکریم بہبہانی،‌ مجمع جہانی اہل بیت؛ رویت ماہ در آسمان: بررسی تاریخی مسئلہ لقاءاللہ در کلام و تصوف، نصراللہ پورجوادی، مرکز نشر دانشگاہی؛ رویت خداوند؟ در این جہان و جہان دیگر، سید عبدالمہدی توکل، زیرنظر ناصر مکارم شیرازی۔

حوالہ جات

  1. سبحانی،‌ رؤیّۃ۔ اللہ فی ضوء الکتاب و السنّۃ۔ و العقل الصریح، ص۲۶و۲۷؛ سبحانی، الالہیات، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۱۲۷؛ بہبہانی، رؤیّۃ۔ اللہ بین التنزیہ و التشبیہ، ۱۴۲۶ق، ص۱۶.
  2. شیعہ روایات کے لئے مراجعہ کریں: کلینی، الکافی، اسلامیہ، ۱۴۰۷ق، باب ابطال الرؤیّۃ۔، ج۱، ص۹۵-۱۱۰؛ شیخ صدوق، التوحید، ۱۳۹۸ق، باب ما جاء فی الرؤیّۃ۔، ص۱۰۷-۱۲۲؛ نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، خطبہ ۹۱، ص۱۲۴، خطبہ ۱۸۵، ص۲۶۹ و خطبہ ۱۸۶، ص۲۷۳؛ شرف‌الدین، رؤیّۃ۔ اللہ و فلسفّۃ۔ المیثاق و الولایّۃ۔، ۱۴۲۳ق، ص۵۳-۸۱. اہل سنت کی روایات کے بارے میں مراجعہ کریں: بخاری، صحیح بخاری، ۱۴۲۲ق، ج۱، ص۱۱۵، ج۶، ص۱۳۹، ج۹، ص۱۲۷-۱۲۹؛ دارقطنی، رؤیّۃ۔ اللہ جل و علا، ۱۴۲۶ق، ص۷-۹۴.
  3. ذاکری و دیگران، «رؤیت»، ص۷۹۹-۸۰۲.
  4. رؤیت الہی کے مخالف مفسروں کے بارے میں ملاحظہ کریں: طوسی، التبیان، داراحیاء التراث العربی، ج۱، ص۲۴۹-۲۵۳، ج۱۰، ص۱۹۷-۱۹۹؛ طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۸، ص‌۲۳۷-۲۴۳؛ زمخشری، الکشاف، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۱۴۱؛ ج۲، ص۱۵۱-۱۵۷؛ موافق تفاسیر کے لئے مراجعہ کریں: فخر رازی، تفسیر کبیر، ۱۴۲۰ق، ج۳، ص۵۱۹-۵۲۰، ج۱۴، ص۳۵۴-۳۵۸، ج۳۰، ص۷۳۰-۷۳۳.
  5. ملاحظہ کریں: ذاکری و دیگران، «رؤیت»، ص۸۱۰.
  6. سبحانی، رؤیّۃ۔ اللہ فی ضوء الکتاب و السنّۃ۔ و العقل الصریح، ص۲۴و۲۵؛ ذاکری و دیگران، «رؤیت»، ص۸۰۴.
  7. ابن‌تیمیہ،‌ منہاج السنّۃ۔ النبویّۃ۔، ۱۴۰۶ق، ج۲، ص۳۱۶، ۳۲۹-۳۴۹، ج۳، ص۳۴۱، ۳۴۴و۳۴۷۔
  8. ذاکری و دیگران، «رؤیت خدا»،‌ ص۸۰۴.
  9. ملاحظہ کریں: سبحانی، الہیات، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۱۳۸و۱۳۹؛ سبحانی، رؤیّۃ۔ اللہ فی ضوء الکتاب و السنّۃ۔ و العقل الصریح، ص۱۵-۲۴؛ بہبہانی، رؤیّۃ۔ اللہ بین التنزیہ و التشبیہ، ۱۴۲۶ق، ص۹۹ و ۱۰۰.
  10. نگاہ کنید بہ سبحانی، رؤیّۃ۔ اللہ فی ضوء الکتاب و السنّۃ۔ و العقل الصریح، ص۱۶.
  11. ذاکری و دیگران، «رؤیت»، ص۷۹۹.
  12. کتاب مقدس، سفرخروج، باب ۳۳،‌ آیہ ۲۰.
  13. کتاب مقدس، سفرخروج، باب ۳۳،‌ آیہ ۲۳.
  14. کتاب مقدس، انجیل مَتّی، باب۵، آیہ۸.
  15. کتاب مقدس، انجیل یوحنا، باب‌۱، آیہ ۱۸.
  16. سبحانی، الالہیات، مؤسسہ امام صادق(ع)، ج۲، ص۱۲۵؛‌ فخر رازی، الاربعین فی اصول الدین، ۱۹۸۶م، ج۱، ص۲۶۶و۲۶۷؛ بہبہانی، رؤیّۃ۔ اللہ بین التنزیہ و التشبیہ، ۱۴۲۶ق، ص۱۵۔
  17. اشعری، الإبانّۃ۔ عن اصول الدّیانّۃ۔، ۱۳۹۷ق، ص۲۵و۵۱؛‌ آمدی، غایّۃ۔ المرام، ۱۴۱۳ق، ص۱۴۲۔
  18. سبحانی،‌ رؤیّۃ۔ اللہ فی ضوء الکتاب و السنّۃ۔ و العقل الصریح، ص۲۷.
  19. سبحانی، الالہیات، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۱۲۵.
  20. علامہ حلی، کشف المراد،‌ ۱۳۸۲ش، ص۴۶؛ سبحانی،‌ رؤیّۃ۔ اللہ فی ضوء الکتاب و السنّۃ۔ و العقل الصریح، ص۲۷؛ جوادی آملی، توحید در قرآن، ۱۳۹۵ش، ص۲۵۶و۲۵۷.
  21. سبحانی،‌ رؤیّۃ۔‌اللہ فی ضوء الکتاب و السنّۃ۔ و العقل الصریح، ص۲۷؛ اشعری، مقالات الاسلامیین، ۱۴۲۶ق، ج۱، ص۱۷۲.
  22. قاضی عبدالجبار، المختصر فی اصول الدین، ۱۹۷۱م، ص۱۹۰؛ شہرستانی، الملل و النحل، ۱۳۶۴ش، ج۱، ص۵۷ و ۱۱۴.
  23. اشعری، مقالات الاسلامیین، ۱۴۲۶ق، ج۱، ص۱۳۱و۱۷۲؛ آمدی، غایّۃ۔ المرام، ۱۴۱۳ق، ص۱۴۲؛ شہرستانی، الملل و النحل، ۱۳۶۴ش، ج۱، ص۵؛ سبحانی، الالہیات، مؤسسہ امام صادق(ع)، ج۲، ص۱۲۵.
  24. ملاحظہ کریں: اشعری، الإبانّۃ۔ عن اصول الدیانّۃ۔، ۱۳۹۷ق، ص۳۵-۵۵.
  25. اشعری، الإبانّۃ۔ عن اصول الدیانّۃ۔، ۱۳۹۷ق، ص۵۳.
  26. آمدی، غایّۃ۔ المرام، ۱۴۱۳ق، ص۱۴۲و۱۴۳؛ شہرستانی، الملل و النحل، ۱۳۶۴ش، ج۱، ص۱۱۳.
  27. اشعری، الإبانّۃ۔ عن اصول الدیانّۃ۔، ۱۳۹۷ق، ص۴۱؛ رازی،‌ الاربعین فی اصول الدین، ۱۹۸۶م، ج۱، ص۲۷۸.
  28. نگاہ کنید بہ: اشعری، الإبانّۃ۔ عن اصول الدیانّۃ۔، ۱۳۹۷ق، ص۳۵، ۴۵ و ۴۶؛ فخر رازی، الاربعین فی اصول الدین، ۱۹۸۶م، ج۱، ص۲۹۲-۲۹۵.
  29. فخر رازی، تفسیر کبیر، ۱۴۲۰ق، ج۱۳، ص۹۷.
  30. ملاحظہ کریں: دارقطنی، رؤیّۃ۔ اللہ جل و علا، ۱۴۲۶ق، ص۷-۹۴.
  31. بخاری، صحیح بخاری، ۱۴۲۲ق، ج۱، ص۱۱۵، ج۶، ص۱۳۹، ج۹، ص۱۲۷-۱۲۹.
  32. اشعری، الإبانّۃ۔ عن اصول الدّیانّۃ۔، ۱۳۹۷ق، ص۴۹؛ ابن‌تیمیہ،‌ منہاج السنّۃ۔ النبویّۃ۔، ۱۴۰۶ق، ج۲، ص۳۳۲، ج۳، ص۳۴۱.
  33. سبحانی، الالہیات، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۱۲۸.
  34. جوادی آملی، توحید در قرآن، ۱۳۹۵ش، ص۲۵۷.
  35. علامہ حلی، کشف المراد، ۱۳۸۲ش، ص۴۶و۴۷.
  36. سبحانی، الالہیات، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۱۲۷.
  37. سبحانی، رؤیّۃ۔ اللہ فی ضوء الکتاب و السنّۃ۔ و العقل الصریح، ص۶۴-۶۶.
  38. سورہ انعام، آیہ ۱۰۳.
  39. جوادی آملی، توحید در قرآن، ۱۳۹۵ش، ص۲۵۸؛ سبحانی، رؤیّۃ۔ اللہ فی ضوء الکتاب و السنّۃ۔ و العقل الصریح، ص۵۵؛ قاضی عبدالجبار، شرح اصول الخمسّۃ۔،‌ ۱۴۲۲ق، ص۱۵۶.
  40. ملاحظہ کریں: کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، باب ابطال الرؤیّۃ۔، ج۱، ص۹۵-۱۱۰؛ شیخ صدوق، التوحید، ۱۳۹۸ق، باب ما جاء فی الرؤیّۃ۔، ص۱۰۷-۱۲۲.
  41. نہج البلاغّۃ۔، چاپ دار الكتاب اللبناني، ج۱، ص۲۵۸، خطبہ ۱۷۹.
  42. قاضی عبدالجبار، المختصر فی اصول الدین، ۱۹۷۱م، ص۱۹۱و۱۹۲.
  43. امینی‌پور،‌ «نیم نگاہی بہ عنوان‌ہای موسوعّۃ۔ الإمام السید عبدالحسین شرف الدین»، ص۲۵ و ۲۶.
  44. ملاحظہ کریں: دارقطنی، رؤیّۃ۔ اللہ جل و علا، ۱۴۲۶ق، ص۷؛ نفیسی، «دارقطنی، ابوالحسن علی بن عمر»، ص۷۵۵.

مآخذ

  • نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، قم،‌ ہجرت، چاپ اول، ۱۴۱۴ہجری۔
  • ابن‌تیمیہ،‌ احمد بن عبدالحلیم، منہاج السنّۃ۔ النبویّۃ۔ فی نقض کلام الشیعّۃ۔ القدریّۃ۔، تحقیق محمد رشاد سالم، جامعّۃ۔ الامام محمد بن سعود الاسلامیّۃ۔، چاپ اول، ۱۴۰۶ق۔۱۹۸۶ء۔
  • اشعری، ابوالحسن علی بن اسماعیل، الإبانّۃ۔ عن اصول الدّیانّۃ۔، تحقیق د فوقیہ حسین محمود، قاہرہ، دارالانصار، چاپ اول، ۱۳۹۷ہجری۔
  • اشعری، ابوالحسن علی بن اسماعیل، مقالات الاسلامیین و اختلاف المصلین، تحقیق نعیم زرزور، مکتبہ العصریہ، چاپ اول، ۱۴۲۶ق-۲۰۰۵ء۔
  • امینی‌پور،‌ عبداللہ، «نیم نگاہی بہ عنوان‌ہای موسوعّۃ۔ الإمام السید عبدالحسین شرف الدین»،‌ در مجلہ کتاب‌ہای اسلامی، ش۲۲ و ۲۳، پاییز و زمستان ۱۳۸۴.
  • آمدی، سیف‌الدین، غایّۃ۔ المرام فی علم الکلام، بیروت، دار الکتب العلمیّۃ۔، چاپ اول، ۱۴۱۳ہجری۔
  • بخاری،‌ محمد بن اسماعیل، صحیح بخاری، تحقیق محمد زہیر بن ناصر الناصر، دار طوق النجاّۃ۔، چاپ اول، ۱۴۲۲ہجری۔
  • بہبہانی،‌ عبدالکریم، فی رحاب اہل البیت(ع): رؤیّۃ۔ اللہ بین التنزیہ و التشبیہ،‌ قم، مجمع جہانی اہل بیت، چاپ دوم، ۱۴۲۶ہجری۔
  • جوادی آملی، عبداللہ، توحید در قرآن(تفسیر موضوعی قرآن کریم)، قم، نشر اسراء، چاپ ہشتم، ۱۳۹۵ہجری شمسی۔
  • دارقطنی، علی بن عمر،‌ رؤیّۃ۔ اللہ جل و علا و یلیہ رؤیّۃ۔ اللہ تبارک و تعالی و ضوء الساری إلی معرفّۃ۔ رؤیّۃ۔ الباری، تحقیق احمدفرید مزیدی، بیروت،‌ دارالکتب العلمیّۃ۔،‌ چاپ اول، ۱۴۲۶ق-۲۰۰۵ء۔
  • ذاکری، مصطفی، محمد زارع شیرین کندی و بابک عباسی، «رؤیت»، در دانشنامہ جہان اسلام، ج۲۰، تہران، بنیاد دایرہ المعارف اسلامی، ۱۳۹۴ہجری شمسی۔
  • زمخشری، محمود بن عمر، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل و عیون الاقاویل فی وجوہ التأویل، تصحیح مصطفی حسین احمد، بیروت، دارالکتب العربی، چاپ سوم، ۱۴۰۷ہجری۔
  • سبحانی،‌ جعفر، الہیات علی ہدی الکتاب و السنّۃ۔ و العقل،‌ قم،‌ المرکز العالمی للدراسات الاسلامیّۃ۔، چاپ سوم، ۱۴۱۲ہجری۔
  • سبحانی،‌ جعفر، رؤیّۃ۔ اللہ فی ضوء الکتاب و السنّۃ۔ و العقل الصریح، بی‌جا، بی‌نا،‌ بی‌تا.
  • شرف‌الدین، عبدالحسین، رؤیّۃ۔ اللہ و فلسفّۃ۔ المیثاق و الولایّۃ۔، تحقیق مہدی انصاری قمی، قم، لوح محفوظ، ۱۴۲۳ہجری۔
  • شہرستانی، محمد بن عبدالکریم، الملل و النحل، تحقیق محمد بدران، قم، شریف رضی، چاپ سوم، ۱۳۶۴ہجری شمسی۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی ابن‌بابویہ، التوحید، قم، جامعہ مدرسین، چاپ اول، ۱۳۹۸ہجری۔
  • طباطبایی، سیدمحمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسہ اعلمی، چاپ دوم، ۱۳۹۰ہجری۔
  • علامہ حلی، کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد قسم الالہیات، مقدمہ و تعلیقہ جعفر سبحانی، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، چاپ دوم، ۱۳۸۲ہجری شمسی۔
  • فخر رازی، محمد بن عمر، الاربعین فی اصول الدین، قاہرہ، مکتبّۃ۔ الکلیات الأزہریّۃ۔، چاپ اول، ۱۹۸۶ء۔
  • فخر رازی، محمد بن عمر، تفسیر کبیر، بیروت، داراحیاء التراق العربی، چاپ سوم، ۱۴۲۰ہجری۔
  • قاضی عبدالجبار، المختصر فی اصول الدین، تحقیق محمد عمارہ، بیروت، درالہلال، ۱۹۷۱ّء۔
  • قاضی عبدالجبار، شرح اصول الخمسّۃ۔،‌ بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ اول، ۱۴۲۲ہجری۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تحقیق و تصحیح علی اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، چاپ چہارم، ۱۴۰۷ہجری۔
  • محمدی، علی، شرح کشف المراد، قم، دارالفکر، چاپ چہارم، ۱۳۷۸ہجری شمسی۔
  • نفیسی، شادی، «دارقطنی، ابوالحسن علی بن عمر»، در دانشنامہ جہان اسلام، ج۱۶، تہران، بنیاد دایرہ المعارف اسلامی، ۱۳۹۳ہجری شمسی۔