عبد الرحمان بن عبد اللہ ارحبی

ویکی شیعہ سے
عبدالرحمن بن عبداللہ ارحبی
حرم امام حسینؑ میں بعض شہدائے کربلا کی آرامگاہ
حرم امام حسینؑ میں بعض شہدائے کربلا کی آرامگاہ
کوائف
نام:عبدالرحمن بن عبداللہ ارحبی
مقام سکونتکوفہ
شہادتروز عاشورا، 61ھ
مقام دفنحرم امام حسین(ع)
اصحابامام حسینؑ


عبد الرحمان بن عبد اللہ ارحبی (شہادت سنہ 61 ھ) ان اصحاب امام حسین میں سے ہیں جنہوں نے امام کی رکاب میں جام شہادت نوش کیا۔ انہوں نے قیس بن مسہر کے ہمراہ کوفیوں کے خطوط امام حسین علیہ السلام تک پہنچائے تھے۔ امام حسین ؑ نے انہیں مسلم بن عقیل کے ساتھ کوفہ روانہ کیا تھا۔ حضرت مسلم بن عقیل کی شہادت کے بعد حضرت امام حسین ؑ کے ساتھ مل گئے۔ عاشورا کے روز پہلے حملے میں آپ کی شہادت ہوئی۔

نام و نسب

آپ کا نام عبدالرحمن کدری[1] و عبدالرحمن بن عبدالله ارْحَبی[2] اور عبدالرحمان بن عبید ارحبی بھی ذکر ہوا ہے۔[3] زیارت ناحیہ مقدسہ میں آپ کا نام عبدالرحمن بن عبدالله بن الکدر الارحبی[4] آیا ہے اور زیارت رجبیہ امام حسین(ع) میں عبدالرحمن بن عبدالله الاذری پر سلام بھیجا گیا ہے

عبدالرحمان عبدالله الارحبی کے بیٹے تھے۔ ارحب شیعہ قبیلے بنی‌ ہمدان کی ذیلی شاخ ہے۔[5]

خصوصیات اور اوصاف

عبدالرحمان اصحاب امام حسین[6] میں سے شجاع اور دلاور[7] مرد تھے۔ کوفے کی ایک مؤثر شخصیت اور امام علی (ع) کے تابعین میں گنے جاتے ہیں۔[8]

کوفیوں کی نامہ رسانی

کوفہ کے لوگ جب مدینے میں امام حسین کے بیعت نہ کرنے اور مکہ میں آنے سے باخبر ہوئے تو انہوں نے حضرت امام حسین کو خطوط لکھے۔ عبدالرحمان بن عبدالله و قیس بن مسہر تقریبا 53 خطوط لے کر مکہ میں امام حسین ع کے پاس آئے۔[9]اور ایک قول کی بنا پر 153 خطوط اور اخبار الطوال کے مطابق 50[10]تھے۔ان تمام خطوط میں امام کو کوفہ آنے کی دعوت دی گئی تھی ۔

یہ 10 رمضان یا 12 ماه رمضان سنہ 60 ہجری کو مکہ میں وارد ہوئے۔[11] عراق کے دیگر خطوط لانے والوں نے بھی مکہ میں امام سے ملاقات کی اور آپ کو وہ خطوط پہنچائے۔[12]

لیکن ایک اور نقل کے مطابق عبدالرحمان اور 150 افراد دیگر اپنے ہمراہ دو یا تین خطوط رکھتے تھے، مکہ آئے اور امام سے ملے.[13]

کوفے کا سفر

امام حسین نے کوفیوں کے ان خطوط کے جواب میں مسلم بن عقیل کو قیس بن مسہر صیداوی، عبدالرحمان بن عبدالله اور عمارۃ بن عبید سلولی کے ساتھ کوفہ روانہ کیا۔[14]

شہادت

عبدالرحمان مسلم بن عقیل کی شہادت کے بعد مخفیانہ طور پر کوفے سے نکلے اور امام حسین کے قافلے سے مل گئے [15] عبدالرحمن عاشورا کے روز امام حسین کی اجازت سے میدان کارزار میں گئے۔[16] چند لوگوں کو قتل اور زخمی کرنے کے بعد خود شہید ہو گئے۔ انہیں پہلے حملے میں شہید ہونے والوں میں شمار کیا جاتا ہے۔[17] بنی‌ اسد نے انکے جسد کو دیگر شہدا کے ساتھ ایک قبر میں دفنایا ۔

رجز خوانی

عبدالرحمان نے میدان جنگ میں درج ذیل رجز پڑھے:

انی لمن ینکرنی ابن الکدنانی علی دین حسین و حسن
جو مجھے نہیں جانتا میں اسے کہتا ہوں میں ابن کدن ہوں بے شک میں حسن اور امام حسین کے دین پر باقی ہوں [18]

سماوی نے ان اشعار کی نسبت اس کی طرف دی ہے :[19]

صبراً علی الاسیافِ وَالاسِنَّةصبراً علیها لدخول الجنّة

حوالہ جات

  1. فرسان الہیجاء ج۲، ص۲۳۴.
  2. تذکرة الخواص، ص۲۲۱. ارشاد، ج۲، صص۳۷ و ۳۹؛ مناقب، ج۳، صص۲۴۱و ۲۶۰؛ رجال طوسی، ص۱۰۳
  3. اخبار الطوال، ص۲۲۹. روضۃ الشہداء، ص۲۰۵.
  4. علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج۴۵، صص۷۳
  5. تسمیہ من قتل، ش۹۶. الانساب سمعانی ج۱، ص۱۰۶.
  6. رجال الطوسی، ص۱۰۳
  7. ابصار العین، ص۱۳۱؛ تنقیح المقال ج۲، ص۱۴۵.
  8. السماوی، پیشین، ص۱۳۱.
  9. تاریخ طبری ج۵، ص۳۵۲.
  10. اخبارالطوال، ص۲۲۹. انساب الاشراف ج۳، ص۱۵۸.
  11. ارشاد، ج۲، ص۳۷؛ مناقب، ج۳، ص۲۴۱
  12. الطبری، ص۳۵۲؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ج ۵،ص۲۹؛ شیخ مفید؛ الارشاد،ص۳۷؛ ابوالفداء اسماعیل بن عمر ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ج ۸،ص۱۵۱.
  13. ارشاد، ج۲، ص۳۷؛ مناقب، ج۳، ص۲۴۱
  14. الفتوح ج۵، ص۴۸؛ الطبری، پیشین، ص۳۵۴؛ شیخ مفید، الارشاد ص۳۹
  15. ارشاد، ج۲، ص۳۹؛ تاریخ طبری ج۵، ص۳۵۴؛ انساب الاشراف ج۳، ص۱۵۹.
  16. تنقیح المقال ج۲، ص۱۴۵؛ ابصار العین، ص۱۳۱-۱۳۲.
  17. مناقب، ج۳، ص۲۶۰
  18. البلاذری، انساب الاشراف ج۳، ص۴۰۴.
  19. ابصارالعین، ص۱۳۲.

مآخذ

  • ابن اعثم الکوفی، الفتوح، تحقیق علی شیری، بیروت، دار الأضواء، چاپ اول، ۱۹۹۱م، ج۵.
  • شیخ مفید؛ الارشاد، قم، کنگره شیخ مفید، ۱۴۱۳ق.
  • ابوالفداء اسماعیل بن عمر ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، بیروت، دارالفکر، ۱۹۸۶م، ج۸.
  • محمد السماوی، ابصار العین فی انصار الحسین (ع)، تحقیق محمد جعفر الطبسی، مرکز الدرسات الاسلامیہ لممثلی الولی الفقیہ فی حرس الثورة الاسلامیہ، چاپ اول.
  • محمد بن جریر الطبری، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم، بیروت، دار التراث، چاپ دوم، ۱۹۶۷م.
  • السید ابراہیم موسوی زنجانی، وسیلہ الدارین فی انصار الحسین (ع)، بی جا، چاپ سوم، ۱۴۱۰ق.
  • الامام احمد بن یحیی بن جابر البلادری، انساب الاشراف، ج۳، بیروت، دارالفکر، چ اول، ۱۴۱۷ق.
  • علامه محمد باقر مجلسی، بحار الانوار، ج۴۵، بیروت، مؤسسہ وفا، دار احیا التراث العربی، چ۳، ۱۴۰۳ق.
  • شیخ محمد بن طاہر السماوی، ابصار العین فی انصار الحسین، تحقیق شیخ محمد جعفر الطبسی، نشر مرکز الدراسات الاسلامیہ لمثلیہ الولی الفقیہ فی حرس الثوره الاسلامیہ، چ اول، ۱۳۷۷ش.
  • ابی حنیفہ احمد بن داود الدینوری، الاخبار الطول، تحقیق عبدالمنعم عامر، ایران، قم، شریف رضی، ۱۳۷۰ش.