مندرجات کا رخ کریں

آیت الرجال قوامون علی النساء

ویکی شیعہ سے
(سورہ نساء کی 34ویں سے رجوع مکرر)
آیہ الرجال قوامون علی النساء
آیت کی خصوصیات
آیت کا نامآیہ الرجال قوامون علی النساء
سورہنساء
آیت نمبر34
پارہ4
محل نزولمدینہ
موضوعفقہی
مضمونمسائل سرپرستی خانوادہ
مرتبط موضوعاتاحکام نشوز
مربوط آیاتآیہ 128 سورہ نساء


آیت الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَی النِّسَاءِ، سورہ نساء کی 34ویں آیت ہے جس میں عورتوں پر مردوں کی سرپرستی اور قیادت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اس آیت میں میاں بیوی کی ایک دوسرے سے متعلق ذمہ داریوں کا بھی ذکر ہوا ہے، مثلا یہ کہ شوہر کی طرف سے زندگی کے اخراجات کی فراہمی اور بیوی کی طرف سے شوہر کے اموال اور ناموس کی حفاظت۔ اہل سنت کے بعض منابع میں اس آیت کے مختلف اسباب نزول کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جن پر شیعہ مفسرین نے تنقید کی ہے۔

شیعہ مفسرین کے مطابق اس آیت میں تین بنیادی مطالب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے: اوّل، خاندان میں شوہر کے کردار کی وضاحت جس میں قیمومیت کو نظم و ضبط، کفالت اور نگہداشت کے معنی میں لیا گیا ہے؛ دوّم، میاں بیوی کے ایک دوسرے سے متعلق وظائف اور حقوق کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے جیسے نفقہ کی ادائیگی اور خاندان کی حرمت کا تحفظ؛ سوّم، ناشزہ یعنی نافرمانی کرنے والی بیوی کے ساتھ برتاؤ کا مرحلہ وار طریقہ ، جن میں سب سے پہلے نصیحت کرنا، اس کے بعد بستر پر منھ پھیر لینا اور آخر میں ہلکی جسمانی تنبیہ شامل ہے، اس شرط کے ساتھ کہ عدل کا دامن نہ چھوٹنے پائے اور نقصان دہ تشدد سے اجتناب کیا جائے۔

شیعہ مفسرین میں سے محمد صادقی تہرانی اور سید حسن مصطفوی اس بات کے معتقد ہیں کہ یہ آیت مردوں کی عورتوں پر سرپرستی اور ولایت کو بیان نہیں کرتی، بلکہ عورتوں کے امور کی انجام دہی اور خدمت گزاری کو مردوں پر لازم قرار دیتی ہے۔ سید محمد حسین طہرانی کی مستقل تصنیف "رسالہ بدیعہ" میں اس آیت کا فلسفی اور فقہی تجزیہ کیا گیا ہے۔

متن، ترجمہ اور تعارف

الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّہُ بَعْضَہُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا أَنْفَقُوا مِنْ أَمْوَالِہِمْ فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللَّہُ وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَہُنَّ فَعِظُوہُنَّ وَاہْجُرُوہُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوہُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْہِنَّ سَبِيلًا إِنَّ اللَّہَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا
مرد عورتوں کے سرپرست ہیں کیونکہ اللہ نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور کیونکہ وہ اپنے مال سے خرچ کرتے ہیں۔ پس نیک عورتیں فرمانبردار ہوتی ہیں اور (شوہر کی غیر موجودگی میں) اللہ کی حفاظت کے مطابق رازوں کی حفاظت کرتی ہیں۔ اور جن عورتوں سے تم نافرمانی کا خدشہ رکھتے ہو، تو پہلے انہیں نصیحت کرو، پھر انہیں بستروں میں تنہا چھوڑ دو، اور پھر (ضرورت پڑے تو) ہلکا سا مارو، اور اگر وہ تمہاری اطاعت کریں تو ان پر (مزید) الزام لگانے کا کوئی راستہ تلاش نہ کرو، بے شک اللہ بلند و برتر ہے۔



سورہ نساء: آیت 34

آیت "الرجال قوامون علی النساء"، سورہ نساء کی چونتیسویں آیت ہے جو خاندان میں مردوں کی عورتوں پر سرپرستی[1] اور قیادت[2] کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ کہا گیا ہے کہ خداوند نے اس آیت میں مرد کے مقام، ذمہ داریوں اور خاندان میں اس کے کردار کا جائزہ لیا ہے اور ساتھ ہی عورت کی متقابل ذمہ داریوں اور خاندان کو بکھیرنے سے بچانے کے لیے راہ حل بھی بیان کیے ہیں۔[3]

شأن نزول

اہل سنت مفسرین نے اس آیت کے لیے دو اسباب نزول بیان کیے ہیں:

  • سعد بن ربیع انصار کے بزرگوں میں سے تھے، انہوں نے نافرمانی کی بنیاد پر اپنی بیوی حبیبہ کو تھپڑ مارا۔ حبیبہ اپنے والد کے ساتھ رسول اکرمؐ کے پاس شکایت لے کر آئی۔ رسول خداؐ نے فرمایا: عورت کو قصاص کا حق ہے۔ حبیبہ جب واپس جا رہی تھی، تو یہ آیت نازل ہوئی اور رسول خداؐ نے فرمایا: واپس آجاؤ، ہم کچھ چاہتے تھے، لیکن اللہ نے کچھ اور ارادہ کیا ہے اور اللہ کا ارادہ بہتر ہے۔[4]
  • فخر رازی کے مطابق اس آیت کا سبب نزول خواتین کے وہ سوالات اور گفتگو ہیں جو وہ مردوں کے زیادہ میراث لینے کے حوالے سے بطور اعتراض رسول خدا سے پوچھتی تھیں۔ اس آیت میں ان سوالات کا جواب یوں دیا جا رہا ہے کہ مردوں پر عورتوں کے مہر اور نفقہ کی ادائیگی واجب ہے، اس بنا پر میراث میں ان کا حق زیادہ معین کیا گیا ہے۔[5]

علامہ طباطبائی اس بات کے معتقد ہیں کہ مذکورہ اسباب نزول میں سے پہلا سبب قابل اشکال ہے، کیونکہ اگر یہ احادیث صحیح ہوں تو: اولاً، رسول اکرمؐ نے اس واقعے میں کوئی حکم نہیں دیا بلکہ صرف سوال کا جواب دیا، کیونکہ فیصلہ اور حکم دینے کے لیے دونوں فریق کا حاضر ہونا ضروری ہے؛ ثانیاً، اس شأن نزول سے رسول خداؐ سے خطا اور غلطی سرزد ہونا لازم آتا ہے جو عصمت نبوی کے منافی ہے، لہٰذا یہ شأن نزول قابل قبول نہیں۔[6]

آیت کا مضمون

کہا گیا ہے کہ آیت "الرجال قوامون علی النساء" میں مردوں کی عورتوں پر سرپرستی، زندگی کے اخراجات کی فراہمی، میاں بیوی کی ایک دوسرے سے متعلق ذمہ داریاں اور بیوی کے ناشزہ یعنی نافرمان ہونے کی صورت میں خاندان کو بچانے کا راہ حل بیان کیا گیا ہے۔

خاندان سرپرستی و قیادت

مفسرین نےسورہ نساء کی آیت نمبر 34 میں "الرجال قوامون علی النساء" کی تفسیر میں تین عمومی نظریات بیان کئے ہیں:

  • اکثر شیعہ مفکرین اور مفسرین چونکہ خاندان میں مرد کے کردار ایک مدیر کی مانند قرار دیتے ہیں اس بنا پر وہ "قوامون" سے "سرپرستی، قیمومت،[7] ولایت[8] اور سلطنت"[9] کا مفہوم اخذ کرتے ہیں۔
  • شیعہ معاصر مفسیر صادقی تہرانی نے قوامیت سے "خواتین کے امور کی دیکھ بھال، نگرانی، کفالت اور خدمت" مراد لیتے ہیں۔[10] سید حسن مصطفوی کا بھی یہی ماننا ہے کہ آیت میں قوامیت سے مراد مردوں کی جانب سے عورتوں کے امور کی انجام دہی ہے، نہ کہ ان پر سلطنت اور بادشاہی۔[11]
  • بعض دیگر مفسرین نے دونوں نظریات کو جمع کرنے کی کوشش کی ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ قوامیت فقط امر و نہی پر مبنی سرپرستی نہیں، بلکہ عورت کے مقام کا لحاظ رکھتے ہوئے ان کے امور کی نگرانی بھی اس میں شامل ہے۔[12]

میاں بیوی کی ایک دوسرے سے متعلق ذمہ داریاں

شیعہ مفسرین کے مطابقسورہ نساء کی آیت نمبر 34 میں "وَبِمَا أَنْفَقُوا مِنْ أَمْوَالِہِمْ" کے فقرے میں خداوند عالم نے میاں بیوی کی ایک دوسرے سے متعلق ذمہ داریوں کو بیان کیا ہے۔ مفسرین کے مطابق، اس آیت کا مقصود یہ ہے کہ مرد کے اوپر اپنی بیوی اور بچوں کے نان و نفقہ، مہر اور خاندان کی حفاظت اور نگرانی کی ذمہ داری عاید ہوتی ہے۔[13]

اسی طرح معاصر تفاسیر کے مطابق ان ذمہ داریوں کے مقابلے میں عورت کو بھی چاہیے کہ وہ شوہر کے سامنے مطیع، سازگار اور خاندان کے نظام میں وفادار رہے، شوہر کی موجودگی اور غیر موجودگی میں اس کی عزت و اموال کی حفاظت کرے اور خیانت سے دور رہے۔[14]

خاندان کی حفاظت کے طریقے

آیت کے آخری حصے میں ان ناشزہ عورتوں کے ساتھ برتاؤ کے طریقے بیان کیے گئے ہیں۔ مفسرین کے مطابق ایسے مواقع پر مردوں کو چاہیے کہ آیت میں ذکر کردہ مراحل (موعظہ، بستر سے علیحدگی، ہلکی جسمانی سزا) کو ترتیب اور عدل و انصاف کے ساتھ انجام دیں۔[15]

تفسیر نمونہ میں آیت اللہ مکارم شیرازی کے مطابق ناشزہ عورتوں کے ساتھ برتاؤ کے مراحل درج ذیل ہیں:

  • موعظہ و نصیحت: پہلے مرحلے میں عورت کو نصیحت کی جائے (فَعِظُوہُنَّ) اور اس کے کاموں کے برے انجام سے آگاہ کیا جائے۔
  • بستر سے کنارہ کشی: اگر نصیحت مؤثر نہ ہو تو دوسرا مرحلہ عورت سے بستر میں جدائی ہے (وَاہْجُرُوہُنَّ فِی الْمَضَاجِعِعلامہ طباطبائی کے مطابق اس تعبیر کا مطلب صرف الگ سونا نہیں بلکہ بیوی سے احتجاجاً رویہ تبدیل کرنا ہے، جیسے پشت پھیرنا یا ملاعبہ چھوڑ دینا۔[16]
  • تنبیہ بدنی: علامہ طباطبائی کے بقول، اگر عورت حد سے زیادہ سرکشی کرے اور خاندان کو نقصان پہنچانے لگے، تو آخری مرحلہ یعنی ہلکی مار (وَاضْرِبُوہُنَّ) کی اجازت دی گئی ہے۔ لیکن تنبیہ ایسی ہونی چاہیے جو چوٹ، زخم یا کبودی کا باعث نہ بنے، جیسا کہ احادیث[17] اور فقہی کتابوں[18] میں آیا ہے۔

پارلیمنٹ میں عورتوں کی رکنیت کی ممانعت

سید محمدحسین حسینی طہرانی نے مذکورہ آیت اور بعض احادیث کی روشنی میں یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ عورتوں کا کسی بھی ملک کی پارلیمنٹ میں شرکت کرنا حتیٰ کہ اگر وہ مجتہد بھی ہوں، جائز نہیں ہے۔ ان کے مطابق، مجلس شورا آج کے دور میں فقط مشورتی حیثیت نہیں رکھتی بلکہ عوام پر ولایت عامہ رکھتی ہے اور تمام حکومتی امور (سیاسی، سماجی، ثقافتی، دفاعی اور اجرائیہ) پر نظارت کرتی ہے، جو کہ اس سطح کی قیادت اور عمومی ولایت عورت کے ساتھ سازگار نہیں ہے۔[19]

مستقل تصانیف

  • "رسالہ بدیعہ"، سید محمدحسین طہرانی کی تألیف ہے جو آیت "الرجال قوامون علی النساء" کی تفسیر میں لکھی گئی ہے۔ یہ کتاب دو کلی محوروں پر مشتمل ہے:
  1. مرد و زن کے حقوق کی فلسفی بنیاد
  2. فقہی بحث جیسے جہاد، قضا اور حکومت میں عورت کا مقام۔

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. رضایی اصفہانی، تفسیر قرآن مہر، 1387ش، ج4، ص117۔
  2. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ش، ج3، ص369۔
  3. مصطفوی‌فرد و ایماندار، «رویکرد اندیشوران شیعہ بہ مفہوم قوامیت مرد در آیہ 34 سورہ نسا»، ص82۔
  4. واحدی، اسباب نزول القرآن، 1411ھ، ص155؛ بیضاوی، انوار النتزیل، 1418ھ، ج2، ص72۔
  5. فخر رازی، تفسیر الکبیر، 1420ھ، ج10، ص70۔
  6. طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج4، ص349۔
  7. طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج4، ص343؛ قرشی بنایی، احسن الحدیث، 1375ش، ج2، ص354؛ مدرسی، من ہدی القرآن، 1419ھ، ج2، ص73۔
  8. مغنیہ، الکاشف، 1424ھ، ج2، ص315؛ فاضل مقداد، کنز العرفان، 1373ش، ج2، ص211۔
  9. طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج3، 68۔
  10. صادقی تہرانی، الفرقان، 1365ش، ج7، ص38۔
  11. مصطفوی، تفسیر روشن، 1380ش، ج5، ص360۔
  12. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ش، ج3، ص370؛ بلاغی، حجۃ التفاسیر، 1386ش، ج2، ص39؛ فضل‌اللہ، من وحی القرآن، 1419ھ، ج7، ص229-230۔
  13. طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج3، ص69؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ش، ج3، ص370؛ صادقی تہرانی، الفرقان، 1365ش، ج7، ص38۔
  14. طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج3، ص69؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ش، ج3، ص37؛ مغنیہ، الکاشف، 1424ھ، ج2، ص316-317۔
  15. طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج4، ص345۔
  16. طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج4، ص345۔
  17. حر عاملی، وسائل الشیعہ، 1409ھ، ج21، ص517۔
  18. صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، 1413ھ، ج3، ص521؛ طوسی، المبسوط، 1387ھ، ج4، ص338۔
  19. حسینی طہرانی، رسالہ بدیعہ، ص216و217۔

مآخذ

  • بلاغی، عبدالحجہ، حجۃ التفاسیر، قم، حکمت، 1386ہجری شمسی۔
  • بیضاوی، عبداللہ بن عمر، انوار التنزیل و اسرار التأویل، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1418ھ۔
  • حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، قم، موسسہ آل البیت، 1409ھ۔
  • حسینی تہرانی، سید محمدحسین، «رسالہ بدیعہ»، وبگاہ مکتب وحی، تاریخ بازدید: 17 تیر 1402ہجری شمسی۔
  • رضایی اصفہانی، محمدعلی، تفسیر قرآن مہر، قم، پژوہش‌ہای تفسیر و علوم قرآن، 1387ہجری شمسی۔
  • صادقی تہرانی، محمد، الفرقان فی تفسیر القرآن، قم، فرہنگ اسلامی، 1406ھ۔
  • صدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، قم، انتشارات اسلامی، 1413ھ۔
  • طباطبایی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، موسسہ الاعلمی للمطبوعات، 1390ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تہران، ناصر خسرو، 1372ہجری شمسی۔
  • طوسی، محمد بن حسن، المبسوط فی الفقہ الامامیہ، تہران، مکتبۃ المرتضویۃ، 1387ھ۔
  • فاضل مقداد، مقداد بن عبداللہ، کنز العرفان فی فقہ القرآن، تہران، مرتضوی، 1373ہجری شمسی۔
  • فخر رازی، محمد بن عمر، تفسیر الکبیر (مفاتیح الغیب)، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1420ھ۔
  • فضل‌اللہ، محمد حسین، من وحی القرآن، بیروت، دار الملاک، 1419ھ۔
  • فیض کاشانی، محمد بن شاہ مرتضی، الاصفی فی تفسیر القرآن، قم، مرکز النشر التابع لمکتب الإعلام الإسلامی، 1418ھ۔
  • قرشی بنابی، علی اکبر، تفسیر احسن الحدیث، تہران، بعثت، 1375.
  • مدرسی، سید محمدتقی، من ہدی القرآن، تہران، دار محبی الحسین، 1419ھ۔
  • مصطفوی، حسن، تفسیر روشن، تہران، مرکز نشر کتاب، 1380ہجری شمسی۔
  • مصطفوی‌فرد، حامد و حمید ایماندار، «رویکرد اندیشوران شیعہ بہ مفہوم قوامیت مرد در آیہ 34 سورہ نساء»، در مجلہ آموزہ‌ہای قرآنی، شمارہ 26، 1396ہجری شمسی۔
  • مغنیہ، محمدجواد، الکاشف فی تفسیر القرآن، قم، دار الکتاب الاسلامی، 1424ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، 1371ہجری شمسی۔
  • واحدی نیشابوری، علی بن احمد، اسباب نزول القرآن، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1411ھ۔