سریہ

ویکی شیعہ سے
(سریات سے رجوع مکرر)

سَريَّہ یا بَعْث، پیغمبر اکرمؐ کی حیات مبارکہ میں لڑی گئی ان جنگوں کو کہا جاتا ہے جس میں حضورؐ نے بنفس نفیس شرکت نہیں فرمائی بلکہ اسلامی لشکر کی قیادت صحابہ میں سے کسی ایک کے سپرد کی گئی۔ ان جنگوں کا اصل مقصد مسلمانوں کی طاقت اور توانائی کا اظہار، دین اسلام کی تبلیغ اور دفاع ہے جبکہ دشمن سے معلومات اکھٹا کرنا وغیرہ‌ کو ان جنگوں کے جانبی مقاصد میں شمار کئے جاتے ہیں۔

امام ہادیؑ سے منقول ایک حدیث میں ان سریوں‌ کی تعداد 55 بتائی گئی ہے۔ لیکن تاریخی کتابوں‌ میں ان کی تعداد 35، 47 اور 66 تک ذکر کی گئی ہے۔ آیت اللہ جعفر سبحانی کے مطابق بعض سریوں میں شرکت کرنے والوں کی کم تعداد کی وجہ سے شمار نہیں کیا گیا ہے اسی وجہ سے ان کی تعداد میں اختلاف پایا جاتا ہے۔

بحر احمر کے ساحل میں‌ عَیص نامی مقام پر سریہ حَمزۃ بن عَبدالمُطَّلِب، صحرائے رابِغ میں سریہ عُبَیدَۃ بن حارث اور خَرّار نامی مقام پر سریہ سَعد بن ابی‌وَقّاص کو اولین سریوں‌ میں شمار کیا گیا ہے۔ ان سریوں‌ میں لشکر اسلام کی تعداد دشمن کی طاقت، سپاہیوں کی تعداد اور متعلقہ مشن کی نوعیت کو مد نظر رکھتے ہوئے مختلف ہوتی تھی یہاں تک کہ بعض سریوں میں انگشت شمار افراد جبکہ بعض سریوں میں 1000 یا اس سے زیادہ افراد بھیجے گئے‌ ہیں۔

تعریف اور وجہ تسمیہ

تاریخ اسلام سے مربوط منابع میں پیغمبر اکرمؐ کی جنگوں کو غَزْوہ اور سَرِیّہ میں تقسیم کئے جاتے ہیں۔[1] جن جنگوں میں پیغمبر اکرمؐ بنفس نفیس شرکت فرماتے اور جنگ کی قیادت خود سنبھالتے انہیں غزوہ جبکہ جن جنگوں میں خود شرکت نہیں کرتے بلکہ اصحاب میں سے کسی کو لشکر کی ذمہ داری سونپتے انہیں «سَرِیّہ» یا «بَعْث» کہا جاتا ہے۔[2] البتہ بعض محققین غزوہ اور سریہ کی مذکورہ‌ تعریف کو دقیق نہیں سمجھتے؛ ان کا کہنا ہے کہ غزوہ پیغمبر اکرمؐ کی ان جنگوں کو کہا جاتا ہے جنہیں علنا کثیر تعداد میں سپاہیوں کے ساتھ منظم انداز میں لڑی جاتی؛ جبکہ جن جنگوں کو مخفیانہ طور پر بعض سپاہیوں کے ساتھ غیر منظم انداز میں لڑی جاتی سریّہ کہا جاتا ہے۔[3] دو مختلف تعریفوں کے باوجود غزوات اور سریوں کی تعداد میں اختلاف نہیں پایا جاتا کیونکہ آخری تعریف کے مطابق پیغمبر اکرمؐ ان جنگوں میں شرکت ہی نہیں فرماتے تھے جنہیں تھوڑے سپاہیوں کے ساتھ غیر منظم انداز میں لڑی جاتی تھی۔[4] کتاب النہایۃ فی غریب الحدیث و الاثر کے مصنف ابن‌ اثیر کے مطابق چونکہ جنگوں میں منتخب افراد کو بھیجا جاتا تھا اس بنا پر ان جنگوں کو سریہ‌ کہا جاتا ہے کیونکہ لفظ «سریّ» کے معنی نفیس اور منتخب کے ہیں۔[5]

مقاصد اور اہداف

کہا جاتا ہے کہ ان سریوں‌ میں پیغمبر اکرمؐ کا اصل مقصد مسلمانوں کی قدرت اور طاقت کا اظہار تھا۔[6] کتاب اَلصّحیح من سیرۃِ النبیّ الاعظم کے مصنف سید جعفر مرتضی عاملی کے مطابق پیغمبر اکرمؐ ان سریوں میں دو اہداف کا حصول چاہتے تھے: 1۔ دین اسلام کی تبلیغ اور ترویج؛ 2. مسلمانوں پر حملہ کرنے کی قصد سے جمع ہونے والے فتنہ انگیزوں کو متفرق کرنا۔[7] بعض محققین نے پیغمبر اکرمؐ کے سریوں کو مقصد کے اعتبار سے چار قسموں میں تقیسم کی ہیں:[8]

  1. تبلیغی سریے؛ جیسے سریہ رَجیع[9] شرائط اور زمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے مخفیانہ طور پر انجام پاتے تھے؛[10]
  2. دفاعی سریے؛ مسلمانوں کے مفادات کے دفاع یا دشمنوں‌ کے حملوں سے نمٹنے کے لئے انجام پاتے تھے؛[11]
  3. تہاجمی سریے؛ جیسے سریہ حمزۃ بن عبدالمطّلب[12] اس قسم کے سریے دشمن کی کارروائی سے پہلے اور عموماً دور دراز علاقوں میں پیشگی اقدامات کے طور پر انجام دئے جاتے تھے؛[13]
  4. معلوماتی سریے؛ جیسے سریہ عبداللہ بن جَحْش[14] جو خفیہ طور پر دشمن کے مقامات اور ان کے افراد کے حوالے سے معلومات اکھٹا کرنے کی غرض سے انجام پاتے تھے۔[15]

پیغمبر اکرمؐ نے یہ‌ حکم دے رکھا تھا کہ کسی بھی جنگ میں مسلمانوں کی فتح کے موقع پر فرار کرنے والے دشمن کا پیچھا نہ کیا جائے۔[16] ان سریوں کی نوعیت اور انتظامی امور کے بارے میں آخری فیصلہ پیغمبر اکرمؐ کی زیر نگرانی خاص اصحاب کرتے تھے۔[17] ان سریوں کے سپہ سالاروں کے انتخاب میں پیغمبراکرمؐ شجاعت اور جنگی فنون سے آشنایی جیسی خصوصیات کو اہمیت دیتے تھے۔[18]

اعداد و شمار

کتاب تَذکِرۃُ الخواص میں امام ہادیؑ سے منقول ایک حدیث کے مطابق پیغمبر اکرمؐ کے سریوں کی تعداد 55 تھی۔[19] مورخین نے ان سریوں کی تعداد مختلف ذکر کئے ہیں: محمد ابراہیم آیتی اپنی کتاب تاریخ پیامبر اسلام میں پیغمبر اکرمؐ کے سریوں کی تعداد 82 ذکر کرتے ہیں۔[20] مسعودی نے کتاب مُروج الذَّہَب میں بعض مورخین کا حوالہ دیتے ہوئے ان کی تعداد 35، محمد بن جریر طبری نے 48 اور بعض دوسرے مورخین نے 66 بیان کی ہیں۔[21] فضل بن حسن طبرسی نے اِعلامُ‌ الوَری میں 36 سریے تحریر کی ہیں۔[22] کتاب فروغ ابدیت کے مصنف آیت اللہ سبحانی کے مطابق بعض سریے شرکت کرنے والوں کی کمی کی وجہ سے شمار نہیں کئے گئے ہیں اسی بنا پر ان کی تعداد میں اختلاف پایا جاتا ہے۔[23] دوسری صدی ہجری کے مورخ محمد بن عمر واقدی کے مطابق سریہ‌ہای حمزۃ بن عبدالمطلب، عبیدہ بن حارث اور سریہ سعد بن ابی‌ وقاص وہ پہلے سریے ہیں جو ہجرت کے پہلے سال وقوع پذیر ہوئے ہیں۔[24]

ان سریوں میں لشکر اسلام کے سپاہیوں کی تعداد دشمن کی طاقت اور توانائی نیز مشن کی نوعیت کو مد نظر رکھتے ہوئے مختلف ہوتی تھی۔ بعض سریوں کے لئے چند انگشت شمار افراد کو بھیجے جاتے جبکہ بعض سریوں کے لئے 3 ہزار نفر تک ( مثلاً سریہ اُسامۃ بن زید) بھیجے گئے ہیں۔[25] کتاب فَنُّ الحَربِ الاسلامی فی عہدِ الرَّسولؐ کے مصنف وَتر کے مطابق پیغمبر اکرمؐ کے سریوں میں لشکر اسلام کو ہونے والے نقصانات دوسری جنگوں کی بنسبت زیادہ تھے۔[26] اس کی وجہ بعض سپہ سالاروں کی بے احتیاطی، طاقت کے توازن میں دشمن کی برتری اور اصل غافلگیری جیسے اہداف کا متحقق نہ ہونا، قرار دیا گیا ہے۔[27] اسی طرح بعض سریے جو اسلام کی تبلیغ اور ترویج کے مقصد کے لئے انجام دئے جاتے تھے، بے احتیاطی کی وجہ سے کافی نقصانات کا متحمل ہوتے یہاں تک کہ بعض سریوں میں لشکر اسلام کے تمام سپاہی شہید ہوگئے۔[28] اکثر سریے ہجرت کے ابتدائی سالوں میں مدینہ کے نزدیک انجام پائے ہیں۔[29] برخی از سریہ‌ہا بہ شرح ذیل است:

سریہ کا نام لشکر اسلام مقصد دشمن کا لشکر محل وقوع تاریخ نتیجہ
1 سریہ حَمْزہ حَمْزۃ بن عبد المُطَّلب کی سربراہی میں 30 مہاجرین دشمن کو اقتصادی نقصان پہنچانا ابوجَہل کی سربراہی میں 300 سوار عیص (بحر احمر کا ساحل) رمضان، ہجرت کے پہلے سال بغیر تصادم کے جنگ کا خاتمہ[30]
2 سریہ عبیدۃ بن حارث عُبَیدَۃ بن حارث کی سربراہی میں 60 مہاجرین گشت‌ اور ممکنہ خطرے کا سدباب ابوسفیان کی سربراہی میں 200 نفر صحرائے رابغ شوال، ہجرت کے پہلے سال دشمن فرار اختیار کر گئے[31]
3 سریہ سعد بن ابی‌ وقاص سَعْد بن اَبی‌ وَقّاص کی سربراہی میں 8 یا 20 مہاجرین دشمن کو اقتصادی نقصان پہنچانا قریش کا تجارتی قافلہ خَرّار ذی‌ القعدہ، ہجرت کے پہلے سال مسلمانوں کا قریش کے تجارتی قافلے تک نہ پہنچنا[32]
4 سریہ عبد اللہ بن جحش عبد اللہ بن جَحْش کی سربراہی میں 8 یا 20 مہاجرین آشنائی اور معلومات اکھٹا کرنا عمرو بن الحَضْرَمی کی سربراہی میں 4 یا 92 نفر نَخْلہ بین مکہ و طائف رجب، ہجرت کے دوسرے سال مسلمانوں کو پہلی بار مال غنیمت ملناـ[33]
5 سریہ زید بن حارثہ (سریہ قَرَدہ) زید بن حارثہ کی سربراہی میں 100 نفر دشمن کو اقتصادی نقصان پہنچانا اور عراق اور شام کے لئے تجارتی راستوں کو ناامن بنانا صفوان بن اُمیّہ کی سربراہی میں قریش کا تجارتی قافلہ قَرَدہ (مدینہ سے 150 کیلومیٹر کے فاصلے پر) جمادی‌ الثانی، ہجرت کے تیسرے سال 1 لاکھ درہم مال غنیمت[34]
6 سریہ ابی‌ سَلَمہ ابوسَلَمہ کی سربراہی میں 150 سوار یا پیادہ دشمن کی عسکری سازش کو قبل از وقت دفع کرنا طُلَیْحہ کی سربراہی میں بنی‌ اَسَد قَطَن (مدینہ سے 230 کیلومیٹر کے فاصلے پر) محرم، ہجرت کے چوتھے سال بنی‌ اسد کا فرار ہونا اور مسلمانوں کا بہت زیادہ مال غنیمت کے ساتھ مدینہ واپس آناـ[35]
7 سریہ بِئر مَعُونَہ 40 معلم قرآن نَجْد میں اسلام کی تبلیغ عامر بن طفیل کی سربراہی میں اہل نجد بئر معونہ صفر، ہجرت کے چوتھے سال ایک کے علاوہ تمام معلمین کی شہادت۔[36]
8 سریہ رَجیع مرثد بن ابی‌ مرثد غنوی کی سربراہی میں 6 معلم قرآن قبیلہ عضل و قارہ میں اسلام کی تبلیغ قبیلہ عضل و قارہ کا ایک گروہ رَجیع (مدینہ سے 280 کیلو میٹر کے فاصلے پر) صفر، َہجرت کے چوتھے سال 4 معلمین کی شہادت اور 2 معلمین کی اسیری[37]
9 سریہ ابوعُبَیدہ جَرّاح ابن‌ عبیدہ کی سربراہی میں 40 نفر مدینہ پر حملہ کرنے کے منصوبے کی بنا پر بنی‌ ثَعْلَبہ، بنی‌ مُحارب اور بنی‌ اَنمار قبائل کی تنبیہ قبائل بنی‌ ثعلبہ، بنی‌ اَنمار اور بنی‌ مُحارب ذوالقصہ ربیع الثانی،ہجرت کے چھٹے سال دشمن کا پہاڑوں کی طرف فرار کرنا اور کچھ گوسفند غنیمت ملنا[38]
10 سریہ عبدالرحمن بن عوف عبدالرحمن بن عوف کی سربراہی میں 700 نفر قبیلہ بنی‌ کلب کو اسلام کی دعوت بنی‌کَلْب دومَۃ‌ُ الجَنْدَل شعبان، ہجرت کے چھٹے سال قبیلہ بنی‌ کَلْب کا بغیر جنگ اسلام لانا۔[39]
11 سریہ عبداللہ بن رَواحَہ عبد اللہ بن رواحہ کی سربراہی میں 30 نفر دشمن سے معلومات اکھٹا کرنا اسیر بن زارم کی سربراہی میں قبیلہ غَطفان کے 30 نفر وادی القُری شوال، ہجرت کے چھٹے سال پیغمبر اکرمؐ کی خدمت میں رپورٹ پیش کرنا۔[40]
12 جنگ موتہ جعفر بن ابی طالب پھر زید بن حارثہ پھر عبداللہ بن رواحہ کی سربراہی میں 3 ہزار کا لشکر موتہ کے حکمران کی تنبیہ روم کے ایک لاکھ سے زیادہ سپاہی موتہ جمادی الاول، ہجرت کے آٹھویں سال مسلمانوں کی عقب نشینی۔[41]
13 سریہ علی بن ابی‌ طالب علی بن ابی‌ طالبؑ کی قیادت میں 150 نفر مشرکین کے بت خانے کی تخریب قبیلہ طَيِّئ خاندان حاتم طائی کا منطقہ ربیع‌الثانی، ہجرت کے نویں سال بُت فُلْس کی نابودی اور مسلمانوں کو بہت زیادہ مال غنیمت ملنا۔[42]
14 یمن میں سریہ امام علی امام علیؑ کی قیادت میں 300 نفر یمن میں اسلامی کی ترویج یمن کے باسی یمن رمضان،ہجرت کے دسویں سال ہَمْدان اور مَذْحِج قبائل کا اسلام لانا۔[43]

حوالہ جات

  1. سبحانی، فرازہایی از تاریخ پیامبر اسلام، 1386ہجری شمسی، ص216.
  2. سبحانی، فرازہایی از تاریخ پیامبر اسلام، 1386ہجری شمسی، ص216.
  3. قائدان، «سازماندہی جنگی در غزوات عصر پیامبر»، ص79-80.
  4. قائدان، «سازماندہی جنگی در غزوات عصر پیامبر»، ص80.
  5. ابن‌اثیر، النہایہ، 1399ھ، ج2، ص363.
  6. وتر، فن الحرب الاسلامی فی عہد الرسولؐ، دار الفکر، ص187۔
  7. عاملی، الصحیح من سیرۃ النبی الاعظمؐ 1426ھ،، ج26، ص192.
  8. رضایی و دیگران، «گونہ‌شناسی سریہ‌ہای دورہ پیامبرؐ تا سال پنجم ہجری»، ص24.
  9. رضایی و دیگران، «گونہ‌شناسی سریہ‌ہای دورہ پیامبرؐ تا سال پنجم ہجری»، ص34.
  10. رضایی و دیگران، «گونہ‌شناسی سریہ‌ہای دورہ پیامبرؐ تا سال پنجم ہجری»، ص24.
  11. رضایی و دیگران، «گونہ‌شناسی سریہ‌ہای دورہ پیامبرؐ تا سال پنجم ہجری»، ص24.
  12. رضایی و دیگران، «گونہ‌شناسی سریہ‌ہای دورہ پیامبرؐ تا سال پنجم ہجری»، ص29.
  13. رضایی و دیگران، «گونہ‌شناسی سریہ‌ہای دورہ پیامبرؐ تا سال پنجم ہجری»، ص24.
  14. رضایی و دیگران، «گونہ‌شناسی سریہ‌ہای دورہ پیامبرؐ تا سال پنجم ہجری»، ص25.
  15. رضایی و دیگران، «گونہ‌شناسی سریہ‌ہای دورہ پیامبرؐ تا سال پنجم ہجری»، ص24.
  16. وتر، فن الحرب الاسلامی فی عہد الرسولؐ، دار الفکر، ص80.
  17. رضایی و دیگران، «تبیین و تحلیل رویکرد پیامبرؐ در انتخاب فرماندہان سریہ‌ہای عصر نبوی»، ص60.
  18. رضایی و دیگران، «تبیین و تحلیل رویکرد پیامبرؐ در انتخاب فرماندہان سریہ‌ہای عصر نبوی»، ص61.
  19. ابن‌جوزی، تذکرۃ الخواص، 1418ھ، ص322.
  20. آیتی، تاریخ پیامبر اسلام، 1369ہجری شمسی، ص240-247.
  21. مسعودی، مروج الذہب، 1409ھ، ج2، ص282.
  22. طبرسی، اعلام الوری، 1399ھ، ص 69- 70.
  23. سبحانی، فروغ ابدیت، 1385ہجری شمسی، ص460.
  24. واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص2.
  25. وتر، فن الحرب الاسلامی فی عہد الرسولؐ، دار الفکر، ص237.
  26. وتر، فن الحرب الاسلامی فی عہد الرسولؐ، دار الفکر، ص296.
  27. وتر، فن الحرب الاسلامی فی عہد الرسولؐ، دار الفکر، ص296.
  28. وتر، فن الحرب الاسلامی فی عہد الرسولؐ، دار الفکر، ص296.
  29. رضایی و دیگران، «گونہ‌شناسی سریہ‌ہای دورہ پیامبرؐ تا سال پنجم ہجری»، ص23.
  30. ملاحظہ کریں: واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص9؛ ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج2، ص3-4.
  31. ملاحظہ کریں: واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص10-11؛ ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج2، ص4.
  32. ملاحظہ کریں: واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص10-11؛ ابن‌ہشام، السیرۃ النبویہ، دار المعرفہ، ج1، ص591-592.
  33. ملاحظہ کریں: ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج2، ص7؛ ابن‌ہشام، السیرۃ النبویہ، دار المعرفہ، ج1، ص601-604.
  34. ملاحظہ کریں: واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص197-198؛ ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج2، ص27.
  35. ملاحظہ کریں: واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص340-343؛ ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج2، ص38-39.
  36. ملاحظہ کریں: واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص346-349؛ ابن‌ہشام، السیرۃ النبویہ، دار المعرفہ، ج1، ص183-185.
  37. ملاحظہ کریں: ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج2، ص42-43؛ طبری، تاریخ الطبری، 1387ھ، ج2، ص538.
  38. ملاحظہ کریں: واقدی، المغازی، 1409ھ، ج2، ص552؛ ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج2، ص66.
  39. واقدی، المغازی، 1409ھ، ج2، ص560-562.
  40. واقدی، المغازی، 1409ھ، ج2، ص566-568.
  41. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج2، ص97-99.
  42. ملاحظہ کریں: واقدی، المغازی، 1409ھ، ج3، ص984؛ ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج2، ص124.
  43. ملاحظہ کریں: ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج2، ص128-129؛ طبری، تاریخ الطبری، 1387ھ، ج3، ص131-132.

مآخذ

  • آیتی، محمدابراہیم، تاریخ پیامبر اسلام، تہران، دانشگاہ تہران، 1369ہجری شمسی۔
  • ابن‌اثیر، مبارک بن محمد، النہایہ فی غریب الحدیث و الاَثر، بیروت، المکتبۃ العلمیہ، 1399ھ۔
  • ابن‌جوزی، یوسف بن قزاوغلی، تذکرۃ الخواص من الامۃ فی ذکر خصائص الائمۃ، قم، منشورات الشریف الرضی، 1418ھ۔
  • ابن‌سعد، محمد بن سعد، الطبقات الکبری، طائف، مکتبۃ الصدیق، 1414ھ۔
  • ابن‌ہشام، عبدالملک، السیرۃ النبویہ، بیروت، دار المعرفۃ، بی‌تا.
  • رضایی، مینا و دیگران، «تبیین و تحلیل رویکرد پیامبرؐ در انتخاب فرماندہان سریہ‌ہای عصر نبوی»، در مجلہ مطالعات تاریخی جنگ، شمارہ 12، تابستان 1399ہجری شمسی۔
  • رضایی، مینا و دیگران، «گونہ‌شناسی سریہ‌ہای دورہ پیامبرؐ تا سال پنجم ہجری»، در مجلہ تاریخ ایران اسلامی، شمارہ 6، بہار و تابستان 1398ہجری شمسی۔
  • سبحانی، جعفر، فروغ ابدیت، قم، بوستان کتاب، 1385ہجری شمسی،
  • سبحانی، جعفر، فرازہایی از تاریخ پیامبر اسلام، تہران، مشعر، 1386ہجری شمسی۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، اعلام الوری باعلام الہدی، تحقیق علی اکبر غفاری، بیروت، دارالمعرفہ، 1399 ھ۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، بیروت، دار التراث، 1387ھ۔
  • عاملی، سید جعفر مرتضی، الصحیح من سیرۃ النبی الاعظم، قم، دار الحدیث، 1426ھ۔
  • قائدان، اصغر، «سازماندہی جنگی در غزوات عصر پیامبر»، در مجلہ مطالعات تاریخی جنگ، شمارہ 3، بہار 1397ہجری شمسی۔
  • مسعودی، علی بن حسین، مروج الذہب و معادن الجوہر، قم، دار الہجرہ، 1409ھ۔
  • واقدی، محمد بن عمر، المغازی، بیروت، مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات، 1409ھ۔
  • وَتَر، محمد ضاہر، فن الحرب الاسلامی فی عہد الرسولؐ، دمشق، دار الفکر، بی‌تا.