نعمان بن عجلان زرقی

ویکی شیعہ سے
نعمان بن عجلان زرقی
کوائف
مکمل نامنعمان بن عجلان زرقی انصاری
مہاجر/انصارانصار
نسب/قبیلہبنی زریق
دینی معلومات
جنگوں میں شرکتجنگ جمل اور جنگ صفین
وجہ شہرتامام علیؑ کو چھوڑ کر معاویہ کے ساتھ ملحق ہونا
نمایاں کارنامےسقیفہ میں امام علیؑ کی حمایت
دیگر فعالیتیںامام علیؑ کی طرف سے بحرین اور عمان میں گورنر


نُعْمان بن عَجْلان زُرَقی انصاری بحرین اور عُمّان میں امام علیؑ کا گورنر تھا اور بعد میں امامؑ کو چھوڑ کر معاویہ کے ساتھ ملحق ہوا۔

نعمان صحابی پیغمبر، حدیث غدیر کے راوی اور جنگ جَمَل اور صِفّین میں امام علیؑ کا سپاہی تھا جس نے ان جنگوں میں اپنے اشعار کے ذریعے امام کی حمایت کی۔ بحرین میں تعینات کے دروان بنی‌ زُرَیق کو بیت‌ المال میں سے بے جا عطیہ دینے پر امام علیؑ کی طرف سے خط دریافت کیا جس میں امامؑ نے انہیں اس کام سے منع فرمایا۔ امام علیؑ کی طرف سے خط دریافت ہونے نیز اپنی گمراہی کا راز فاش ہونے کے بعد موصوف امام کو چھوڑ کر معاویہ کے ساتھ ملحق ہو گیا۔

تعارف اور مقام

نعمان بن عجلان کے نام امام علیؑ کا خط

جو شخص امانت میں کوتاہی کرے اور خیانت کرنے کی طرف راغب ہو اور اپنے نفس اور دین کو پاک کرنے کی کوشش نہ کرے اس نے دنیا میں اپنا نقصان کیا ہے اور قیامت کے دن اس کام کا انجام اس سے بھی برا، دائمی اور طولانی ہو گا۔ پس خدا کا خوف کرو۔ تم ایک ایک شائستہ قوم سے تعلق رکھتے ہو ایسا کردار اپناؤ کہ میں تمہارے بارے میں حس ظن رکھ سکوں اور جو چیز تمہارے بارے میں مجھ تک پہنچی ہے اگر وہ سچ ہو تو واپس آجاؤ اور اپنے بارے میں میری رائ کو تبدیل مت کرو۔ اپنے علاقے کے مالیات کی چھان بین کر کے مجھ خط لکھو تاکہ میں تمہارے بارے میں اپنی رائ سے آگاہ کروں ان شاءاللّہ۔

یعقوبی، تاریخ یعقوبی، دار صادر، ج2، ص201

نعمان بن عجلان زُرَقی انصار اور قبیلہ بنی‌‌‌ زریق[1] میں سے پیغمبر اکرمؐ [2] اور امام علیؑ کا صحابی تھا[3] اور کچھ مدت تک بحرین اور عمان میں امام علیؑ کا گورنر رہا ہے۔[4] انصار کے یہاں وہ ہمیشہ قابل احترام تھا۔[5] نعمان نے حمزۃ بن عبد المطلب کی شہادت کے بعد ان کی بیوی خولہ بنت قيس سے شادی کی۔[6] پیغمبر اکرمؑ کے زمانے میں جب نعمان بیمار ہوا تو آنحضرتؐ ان کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے اور ان کے حق میں دعا فرمائی۔[7] کتاب اَنساب الاَشراف (تألیف تیسری صدی ہجری) میں نعمان کو معاویہ کے مقابلے میں اہل‌ بیتؑ کے مدافعین میں شمار کیا گیا ہے۔[8] اسی طرح علامہ امینی نے انہیں حدیث غدیر کے راویوں میں ذکر کیا ہے۔[9] نعمان در جنگ جمَل[10] اور صِفّین[11] میں امام علی کے سپاہیوں میں سے تھا۔ مِنقری نے کتاب وَقعۃ صفین میں ان کا نام حَکَمیت کے واقعے کے گواہوں میں ذکر کیا ہے۔[12]

امام علی سے جدائی

امام علیؑ نے جنگ صفین کے بعد نعمان کو بحرین اور عمان کا گورنر منصوب کیا۔[13] بحرین میں گورنری کے دوران انہوں نے بیت‌ المال میں سے بنی زریق کو بے جا عطیہ دیا۔[14] تیسری صدی ہجری کے مورخ یعقوبی کے مطابق امام علیؑ نے ان کے نام ایک خط لکھا جس میں ان کو ان کے حرکات سے باز آنے کی وصیت کی۔ امامؑ سے خط دریافت ہونے نیز اپنے کرتوت کا راز فاش ہونے کے بعد اس نے امامؑ کو چھوڑ کر معاویہ کا ساتھ دیا۔[15]

امام علیؑ کی حمایت میں اشعار

نعمان شاعر تھا۔[16] واقعہ سقیفہ بنی ساعدہ[17] اور جنگ صِفّین[18] کے بارے میں انہوں نے امام علیؑ کی حمایت میں اشعار بھی لکھے ہیں:

وَ كانَ ہَوانا في عَليّ وَ إنَّہُلَاَہْلٌ لَہا مِنْ حَيْثُ تَدْري وَ لا تَدْري
وَصيُّ النَّبيِّ الْمُصْطَفى وَ ابْنُ عَمِّہِوَ قاتِلُ فُرْسانِ الضَّلالَۃِ وَ الْكُفْرِ[19]
ہم علی کو چاہتے تھے اور وہ خلافت کے لئے سزاوار تھے۔ جس چیز کے بارے میں اطّلاع رکھتے ہو اور جس چیز کے بارے میں اطلاع نہیں رکھتے وہ خدا کے برگزیدہ نبی کے جانشین اور ان کا چچا زاد بھائی تھا انہوں نے کفر و ضلالت کے سپاہیوں کے ساتھ مقابلہ کیا اور ان کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا

ابن‌ابی‌الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں نعمان کے اس شعر کو عمرو عاص کے شعر کا جواب قرار دیا ہے جو اس نے سقیفہ کے واقعے کے بارے میں لکھا تھا اور درج ذیل بیت کو بھی اس پر اضافہ کیا ہے:

فذاک بعون اللہ یدعو إلی الہدی و ینہی عن الفحشاء و البغی و النکر[20]

حوالہ جات

  1. طوسی، رجال، 1373ہجری شمسی، ص83.
  2. ابن‌اثیر، اسدالغابۃ، 1970م، ج5، ص334.
  3. طوسی، رجال، 1373ہجری شمسی، ص83.
  4. طوسی، رجال، 1373ہجری شمسی، ص83.
  5. ابن‌اثیر، اسدالغابۃ، 1970م، ج5، ص334.
  6. ابن‌حجر عسقلانی، الاصابۃ، 1415ھ، ج6، ص351.
  7. ابن‌حجر عسقلانی، الاصابۃ، 1415ھ،‌ ج6، ص351.
  8. بلاذری، انساب الاشراف، 1417ھ، ج5، ص30.
  9. امینی، الغدیر، 1416ھ، ج1، ص142.
  10. مفید، الجمل و النصرۃ، 1413ھ، ص101-105.
  11. منقری، وقعۃ صفین، 1404ھ، ج1، ص380.
  12. منقری، وقعۃ صفین، 1404ھ، ص507.
  13. طوسی، رجال، 1373ہجری شمسی، ص83.
  14. ابن‌حجر عسقلانی، الاصابۃ، 1415ھ،‌ ج6، ص352.
  15. یعقوبی، تاریخ یعقوبی، دار صادر، ج2، ص201.
  16. ابن‌حجر عسقلانی، الاصابۃ، 1415ھ، ج6، ص351.
  17. حسینی، مصادر نہج‌ البلاغہ، ج3، ص334.
  18. منقری، وقعۃ صفین، 1404ھ، ص380.
  19. منقری، وقعۃ صفین، 1404ھ، ص380.
  20. ابن‌ابی‌الحدید، شرح نہج‌البلاغہ، 1404ھ، ج6، ص30-31.

مآخذ

  • ابن‌ابی‌الحدید، عبدالحمید بن ہبۃ‌اللہ، شرح نہج‌البلاغہ، قم، مکتبۃ آیۃ اللہ العظمی المرعشی النجفی، 1404ھ۔
  • ابن‌اثیر، علی بن محمد، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، بیروت، دار الاحیاء التراث العربی، 1970ء۔
  • ابن‌حجر عسقلانی،‌ احمد بن علی، الاصابۃ فی تمييز الصحابۃ، بیروت، دار کتب العلمیۃ، چاپ اول، 1415ھ۔
  • امینی، عبدالحسین، الغدیر فی الکتاب و السنۃ و الادب، قم، مرکز الغدیر للدراسات الاسلامیۃ، 1416ھ۔
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، بیروت، دارالفکر، 1417ھ۔
  • حسینی، عبد‌الزہراء، مصادر نہج البلاغۃ و اَسانیدہ، بیروت، دارالزہراء، 1409ھ۔
  • طوسی، محمد بن حسن، رجال الطوسی، قم، دفتر نشر اسلامی (جامعہ مدرسین)، چاپ سوم، 1373ہجری شمسی۔
  • مفید، محمد بن محمد، الجمل و النصرۃ لسيد العترۃ فی حرب البصرۃ، قم، كنگرہ شيخ مفيد، 1413ھ۔
  • منقری، نصر بن مزاحم‌، وقعۃ صفين‌، قم، مكتبۃ آيۃ اللہ المرعشی النجفی، چاپ دوم، 1404ھ۔
  • یعقوبی، احمد بن ابی‌یعقوب، تاریخ یعقوبی، بیروت، دار صادر، بی‌تا.