سید ابوالحسن اصفہانی

ویکی شیعہ سے
سید ابوالحسن اصفہانی
مرجع تقلید، ماہر علم اصول
کوائف
مکمل نامسید ابوالحسن اصفہانی
لقب/کنیتاصفہانی
تاریخ ولادت1284ھ
آبائی شہراصفہان کے مَدیسہ نامی دیہات
رہائشاصفہان، نجف اشرف
تاریخ وفات9 ذی الحجہ 1365ھ
مدفنحرم امیر المومنینؑ
علمی معلومات
اساتذہمیرزا حبیب الله رشتیآخوند خراسانی، میرزا محمد حسن شیرازی
شاگردسید محسن حکیمسید محمدہادی میلانیسید محمد حسین طباطبایی
تالیفاتوسیلۃ النجاۃ، حاشیہ بر العروۃ الوثقی، تبصرۃ المتعلمین پر انکا حاشیہ
خدمات
سیاسیایران کی مشروطہ تحریک کے طرفدار • عراق پر قبضے کا مخالف
متفرقاتمرجع تقلید


سید ابوالحسن اصفہانی ( 1284۔ 1365 ھ)، نامی گرامی فقیہ امامیہ اور مرجع تقلیدِ شیعیان عالم اور وسیلۃ النجاۃ و صراط النجاۃ جیسی کتب کے مؤلف ہیں۔ وہ آخوند خراسانی کے شاگرد خاص تھے اور ان کے اپنے شاگردوں میں میرزا حسن بجنوردی، سید محمود شاہرودی، سید محسن حکیم، سید ہادی میلانی، سید محمد حسین طباطبائی اور محمد تقی بہجت فومنی جیسے اکابرین شامل ہیں۔

ان کے بعض مشہور اساتذہ میں ملا محمد کاشانی، سید محمد باقر دُرچہ ای، جہانگیرخان قشقائی، میرزا حبیب اللہ رشتی، سید محمد کاظم طباطبایی یزدی (صاحب عروۃ الوثقی)، فتح اللہ شریعت اصفہانی۔

سید اصفہانی آخوند خراسانی کی مانند آئینی حکومت کے اصولوں اور استبدادیت کی طاقت کو محدود کرنے کے قائل تھے۔ وہ اپنی زندگی میں ہمیشہ سیاسی معاملات ـ بالخصوص آئینی حکومت کی تحریک ـ میں موقف اپناتے تھے۔ علاوہ ازیں حتی کہ ان کی وفات بھی ایک سیاسی تحریک کی صورت میں بدل گئی اور نومبر 1946 میں ان کے جنازے کے مراسمات میں عوام کی بڑی شرکت آذربائیجان میں ڈموکریٹ فرقے کی شکست میں مؤثر رہی۔

سید ابوالحسن اصفہانی کی زندگی کے اہم واقعات و حادثات میں سے ایک ان کے بیٹے سید حسن کا قتل تھا۔ سید حسن جو لوگوں کی مالی امداد کی درخواستیں اپنے والد کو پہنچانے کا ذریعہ تھے، سنہ 1349 ہجری کو قتل کئے گئے۔ گوکہ سید ابوالحسن نے قاتل کو بخش دیا اور اس کے قصاص سے چشم پوشی کی۔

جائے ولادت

سید ابوالحسن اصفہانی سنہ 1284 ہجری میں، صوبہ اصفہان کے شہر لنجان کے نواحی گاؤں "مدیسہ" میں پیدا ہوئے؛۔[1] ان کے آباء و اجداد بہبہان کے موسوی سادات میں سے تھے جن کا سلسلۂ نسب 31 واسطوں سے موسی بن ابراہیم بن امام موسی کاظم(ع) تک پہنچتا ہے۔[2] وہ ضلع دنا، صوبہ کہگیلویہ و بویر احمد میں مدفون امام زادہ محمود طیار کی اولاد و احفاد میں سے ہیں۔ ان کے والد سید محمد (ولادت کربلا)۔[3] (مدفن: خوانسار)۔[4] ہیں جو لنجان میں رہائش پذیر تھے۔

ان کے جدّ سید عبدالحمید ـ جو بہبہان میں پیدا ہوئے تھے اور اصفہان میں مدفون ہیں ـ علمائے دین اور صاحب جواہر شیخ محمد حسن نجفی اور شیخ موسی کاشف الغطاء کے شاگرد تھے۔ انھوں نے نہ صرف اپنے استاد شیخ موسی کے فقہی دروس کی تقریرات کو تالیف کیا ہے بلکہ محقق حلی کی کتاب شرائع الاسلام پر شرح تحریر کی ہے۔[5]۔[6]

تعلیمی مراحل

سید ابوالحسن نے حصول علم کا آغاز اپنے گاؤں مدیسہ سے کیا اور نوجوانی کے آغاز میں ہی حوزہ علمیہ اصفہان چللے گئے۔ ان کے والد ان کی دینی تعلیم کے خلاف تھے کیونکہ ان کے خیال میں دینی تعلیم کے حصول میں طالب علم کو بہت سی دشواریوں _جیسے غربت اور خاندان سے دوری وغیرہ_ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔[7] [بالآخر والدین کا اعتماد حاصل کرنے کے بعد] وہ اصفہان کے مدرسۂ نیماورد میں داخل ہوئے اور اس حوزہ علمیہ کے اساتذہ سے علوم نقلی اور عقلی میں فیض کامل حاصل کیا۔

انھوں نے فقہ اور اصول میں اعلی مدارج طے کئے اور اس درس خارج کی مجالس میں مصروف بہ حصول علم ہوئے۔

اصفہانی اساتذہ

انھوں نے حوزہ علمیہ اصفہان میں آیات عظام کلباسی، آیت اللہ سید ابوالقاسم خوانساری المعروف بہ "میر کبیر" کے پوتے سید ہاشم چہار سوقی، سید محمد باقر دُرچه‌ای، آخوند ملا محمد کاشانی اور جہانگیر خان قشقائی کے حلقۂ درس سے استفادہ کیا۔[8]۔[9]۔[10]۔[11]۔[12]

تاہم سید ابوالحسن نے حوزہ علمیہ اصفہان میں اپنے تمام اساتذہ میں سے جس شخصیت کو نام و نشان کے ساتھ یاد کیا ہے وہ آخوند ملا محمد کاشانی ہیں جن سے وہ علوم عقلیہ اور ریاضیات میں مستفیض ہوئے ہیں۔[13]

ہجرت نجف

سید ابوالحسن 13 ربیع الاول سنہ 1308 (و بقولے 1307۔[14]) کے دن اصفہان کو ترک کرکے نجف اشرف کی طرف عزیمت کی اور اسی سال 11 جمادی الاول کو نجف اشرف پہنچے۔ وہاں مدرسۂ صدر ـ جو حوزہ علمیہ نجف کے نمایاں مراکز میں سے تھا ـ میں مقیم ہوئے اور فقہ و اصول کے نامی گرامی اساتذہ سے فیض حاصل کرنا شروع کیا۔

کچھ عرصہ گذرنے کے بعد، سید ابوالحسن کے والد سید محمد انہیں اصفہان لوٹانے کی غرض سے عتبات عالیہ روانہ ہوئے اور نجف پہنچے مگر سید ابوالحسن نجف چھوڑنے پر آمادہ نہ ہوئے حتی کہ سید محمد نے ان کے استاد آیت اللہ العظمی محمد کاظم آخوند خراسانی سے رجوع کیا۔ آخوند خراسانی نے ان کے والد سے کہا: آپ کے دوسرے بیٹے آپ کے ہوں اور سید ابوالحسن میرا ہو! ان کا معاملہ مجھ پر چھوڑیں۔[15]

نجفی اساتذہ

سید ابوالحسن نے نجف میں اپنے اساتذہ میں سے دو میرزا حبیب اللہ رشتی اور آخوند خراسانی کے نام واضح طور پر بیان کئے ہیں۔[16]۔[17]

ان کے دوسرے اساتذہ میں از دیگر استادان او میرزا محمد حسن شیرازی، سید محمد کاظم طباطبائی یزدی، میرزا محمد تقی شیرازی، فتح الله شریعت اصفہانی معرف بہ شیخ الشریعہ و مولی عبد الکریم ایروانی،۔[18]۔[19]۔[20] میرزا حبیب اللہ رشتی، فاضل شربیانی، محمد حسن مامقانی، جیسے اکابر و مشاہیر سے فیض علم و معرفت پایا۔[21]

وہ صرف تین سال تک میرزا حبیب اللہ رشتی کی مجلس میں حاضر ہو سکے اور اس کے بعد 17 سال تک آخوند خراسانی کے شاگر رہے اور مسلسل ان کے درس سے استفادہ کیا چنانچہ سید ابو الحسن آخوند خراسانی کے قریب ترین شاگردوں اور اصحاب میں شمار ہوتے تھے۔

تدریس

انھوں نے آخوند خراسانی میں شرکت کے ساتھ ساتھ خود بھی شیخ مرتضی انصاری کی کتاب رسائل اور اپنے استاد کی کتاب کفایۃ الاصول کی تدریس بھی جاری رکھی۔[22]۔[23]

کتاب "حیات جاودانی" کے مؤلف آیت اللہ بہجت کے حوالے سے لکھتے ہیں: بیٹے کے قتل کے بعد سید ابوالحسن نے کئی مہینوں تک حلقہ درس کو معطل رکھا۔ چند ماہ بعد جب انھوں نے حلقہ درس بحال کیا تو شاگردوں سے پوچھا: اچھا ہمیں کہاں سے پڑھانا ہے؟ کسی کو یاد نہ تھا کہ سید کہاں تک پڑھا چکے تھے؛ میرزا حسن بجنوردی جواہر (بحث حج) کو لے کر آئے لیکن پھر بھی معلوم نہ ہوسکا کہ درس کہاں سے رکا تھا اور کہاں سے شروع کرنا چاہئے۔ سید ابوالحسن نے نے یہ صورت حال دیکھ کر کہا: "ٹھیک آج نئے موضوع پر بحث کرتے ہیں اگلے دن اپنی پرانی بحث جاری رکھیں گے: اور بالبداہہ ایک ذیلی فقہی موضوع پر بحث کو شروع کرکے مقررہ وقت کے آخر تک مکمل کرلیا۔[24]

مرجعیت

آخوند خراسانی کی وفات کے بعد تدریس میں مصروف ہوئے اور ایک مجتہد مسلم اور لائق مرجعیت دینی، کی حیثیت سے زبانزد عام و خاص ہوئے اور سید ابو الحسن کے بقول خراسان کے لوگوں نے تقلید کے لئے ان سے رجوع کیا۔[25]

تاہم مرجعیت عامہ آخوند خراسانی کے انتقال کے بعد سید محمد کاظم یزدی اور میرزا محمد تقی شیرازی المعروف بہ میرزائے دوم کو منتقل ہوئی۔ میرزا پہلے مرجع تقلید تھے جنہوں نے اپنی احتیاطات۔[26] سید ابوالحسن کو پلٹا دیں۔[27]۔۔[28] نیز کہا گیا ہے کہ میرزائے دوم نے سید ابو الحسن اور شیخ الشریعہ کو اپنے بعد مرتبۂ مرجعیت کے لائق قرار دیا تھا۔[29]

میرزا حسین نائینی اور آقاء ضیاء الدین عراقی کے دور میں بھی بہت سے فقہاء نے ان کی علمی اور فقہی محفل کو برتر قرار دیا۔ حتی کہ میرزا محمد تقی شیرازی (میرزائے دوم) کی وفات کے بعد دینی مرجعیت ان پر مرکوز ہوئی اور مرجعیت عامہ کا ان کے وجود میں انحصار دس سال تک جاری رہا۔

سنہ 1355 ہجری میں محمد حسین نائینی اور شیخ عبد الکریم حائری (مؤسس حوزہ علمیہ قم) اور سنہ 1361 ہجری میں آقا ضیاء عراقی کی وفات کے بعد شیعیان عالم کی مرجعیت دنیائے تشیع کے بڑے حصے میں، سید اصفہانی کی ذات میں منحصر ہو گئی۔[30]۔[31]

ان کی ذاتی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ تھی کہ وہ تمام موصولہ مکاتیب و مراسلات اور استفتائات کا ذاتی طور پر جواب دیتے تھے اور انہوں نے کتاب رکھنے کی درخواستیں رد کردی تھیں۔ انھوں نے کاتب رکھنے کی درخواست رد کرنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ "کچھ لوگ مجھے خطوط لکھ کر برا بھلا کہتے ہیں اور اگر میں کاتب رکھوں تو ان لوگوں کا نام و نشان فاش ہوجائے گیا اور ان کی عزت و آبرو محفوظ نہ رہ سکے گی۔[32]

سید ابو الحسن پر عالم تشیع کا انحصار اس حد تک تھا کہ جب تبریز سے کچھ لوگوں نے _ سید ابوالحسن اصفہانی کی حیات_ آیت اللہ العظمی سید حسین بروجردی سے درخواست کی کہ وہ رسالۂ عملیہ شائع کریں تاکہ لوگ ان کی تقلید کر سکیں تو انھوں نے جواب دیا: رسالۂ عملیہ شائع کرنا میرے لئے مشکل نہیں ہے لیکن یہ "شقِّ عصائے مسلمین" (مسلمانوں کی عصا توڑنے اور مسلمانوں میں اختلاف ڈالنے) کے مترادف ہے۔ فی الحال اسلام کا پرچم سید ابو الحسن اصفہانی کے ہاتھ میں ہے؛ وہ مسلمانوں کے مرجع عام ہیں۔[33]

کسی نے سید ابو الحسن سے کہا: آپ کے پاس اجازات اجتہاد کم ہیں تو انھوں نے کہا: میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو اس قسم کی چیزیں حاصل کرنے کے لئے اپنا وقت ضائع کرتے ہیں۔[34]

سید ابوالحسن کے شاگرد

سید ابوالحسن نے حوزہ علمیہ نجف میں مسلسل اور طویل عرصے تک تدریس کے دوران بہت سے بڑے مجتہدین اور فقہ اور اصول کے بڑے محققین کی تربیت کی جن میں سے بعض کے نام حسب ذیل ہیں۔

سید ابوالحسن کے فرزند کا قتل

سید حسن عام طور پر لوگوں کی مالی امداد کی درخواستیں اپنے والد تک پہنچانے کا ذریعہ تھے، 16 صفر سنہ 1349 کو شیخ علی قمی نامی شخص (شدید غربت اور اس تصور کی بنا پر کہ (فرزند سید ابوالحسن) سید حسن، اس کی امداد میں قصور و کوتاہی کر رہے ہیں) نے نماز مغرب و نماز عشاء کے درمیانی وقفے میں خنجر گھونپ کر قتل کردیا اور پھر خود پولیس تھانے پہنچا۔ سید ابو الحسن نماز مغرب و عشاء حرم امام علی (ع) میں نماز پڑھاتے تھے اور سید حسن آخری صف میں کھڑے ہوجاتے تھے؛ تاکہ لوگوں کے ان کے پاس آنے کی وجہ سے نماز گزاروں کے لئے مسائل پیدا نہ ہوں۔[39]

سید ابوالحسن نے اپنے بیٹے کے قاتل کو بخش دیا اور وہ کچھ عرصہ بعد جیل سے بھی معافی پاکر رہا ہوگیا۔ شیخ علی قمی رہائی کے بعد ایک خط لکھ کر سید ابوالحسن سے نجف میں رہنے اور تعلیم جاری رکھنے کی اجازت مانگی۔ سید ابوالحسن نے خط لانے والے شخص سے کہا: "میری طرف سے کوئی رکاوٹ نہیں ہے لیکن نجف کا ماحول اس کے لئے پر امن نہیں ہے؛ بہتر یہی ہے کہ وہ ایران جاکر کسی شہر میں گمنامی کی زندگی گذارے"۔[40] سید ابوالحسن نے کچھ رقم بھی بیٹے کے قاتل کے سفر خرچ کے لئے بھجوائی ۔

سید حسن کے قتل کے بعد لوگوں نے بعض طلباء کی بےاحترامی کی اور کبھی بعض لوگ بعض طلباء کو اذیت و آزار پہنچاتے تھے۔ سید ابوالحسن نے اپنے بیٹے کی مجلس فاتحہ میں واعظ شیخ محمد علی یعقوبی کو ہدایت کی کہ منبر پر جاکر ان کی طرف سے اعلان کریں کہ "میرے ایک بیٹے نے میرے دوسرے بیٹے کو قتل کیا ہے، تم میرے دوسرے بیٹوں کو کیوں اذیت و آزار پہنچاتے ہو؟!! سارے طلباء میرے فرزند ہیں۔[41]

سیاسی کردار

سید ابوالحسن اصفہانی علمی مصروفیات کے ساتھ ساتھ سیاسی مسائل سے بھی دور نہ تھے اور معاصر تاریخ کے تمام واقعات میں کردار کرتے رہے ہیں۔

آخوند خراسانی سید محمد کاظم طباطبائی یزدی کے برعکس آئینی حکومت کے اصولوں اور استبدادیت کی طاقت محدود کرنے کے قائل تھے اور سید اصفہانی ان افکار کے سلسلے میں اپنے استاد آخوند خراسانی کے تابع و پیرو تھے۔[42] اسی پس منظر کی بنیاد پر آخوند خراسانی اور شیخ عبداللہ مازندرانی نے 3 جمادی الاول سنہ 1328 ہجری کے دن سید ابوالحسن کو سنہ 1325 ہجری کی آئینی ترمیم کے مطابق ان عصری تقاضوں سے آگاہ 20 فقہاء و مجتہدین کے زمرے میں قرار دے کا نام ایرانی پارلیمان کو پیش کیا۔ ان مجتہدین کا فریضہ مجلس شورائے ملی (National Consultative Assembly) کے منظور شدہ قوانین کی فقہ شیعہ کے ساتھ مطابقت کو یقینی بنانا تھا۔[43] تاہم سید ابوالحسن نے آخر کار نجف اشرف میں قیام جاری رکھنے کا فیصلہ کیا اور ذوالقعدہ سنہ 1328 ہجری کے دن مجلس شورائے ملی کو ٹیلی گرام بھیج کر اس کام میں حصہ لینے سے معذرت کرلی۔[44]

انقلاب عراق اور سید کا جہاد

سید ابوالحسن اصفہانی نے راہ خدا میں جہاد کے سلسلے میں اپنی استقامت کرتے ہوئے اپنے سلف صالح کی راہ پر گامزن رہے۔ چنانچہ انھوں نے 1920 کے انقلاب عراق میں اسلحہ اٹھایا اور مجاہدین کے ساتھ مل کر انگریز کے خلاف محاذ جنگ میں پہنچے لیکن انقلاب کے راہنماؤں کے اصرار پر نجف اشرف واپس آئے۔

انھوں نے عراقی عوام کی حمایت میں فتوی دیا جس کا متن مندرجہ ذیل ہے:

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم


سلام ہو سب ـ بطور خاص عراقی برادران پر، دینی فرض کی بنا پر سارے مسلمانوں پر لازم ہے کہ اپنی قوت کی حد تک اسلام کے قلمرو اور اسلامی بلاد کے تحفظ کی کوشش کریں اور ہم سب پر واجب اور لازم ہے کہ سرزمین عراق کو ـ جو ائمۂ ہُدٰی علیہم السلام کے مشاہد کی سرزمین ہے اور ہمارے دینی مراکز وہاں ہیں ـ کفار کے تسلط سے محفوظ بنائیں اور اپنی دینی نوامیس کا دفاع و تحفظ کریں۔ میں آپ سب (مسلمانوں کو) اس موضوع کی دعوت دیتا اور ترغیب دلاتا ہوں۔ خداوند متعال ہمیں اور آپ کو اسلام اور مسلمین کی خدمت کی توفیق عطا فرمائے۔
(ابوالحسن الموسوی الاصفہانی)۔[45]۔

1920 کے انقلاب کے بعد ابوالحسن اصفہانی اور میرزا حسین نائینی نے عراق پر برطانوی سرپرستی کے خلاف اپنی مخالفانہ روش جاری رکھی اور ملک فیصل کے ساتھ بیعت کو مسترد کردیا جس کو برطانیہ نے اپنے تسلط کے لئے جواز فراہم کرنے کی نیت سے عراق کا بادشاہ مقرر کیا تھا۔ ملک فیصل نے اپنی بادشاہت کو قانونی شکل دینے کے لئے ملک میں انتخابات کا اعلان کیا اور علماء نے ملک فیصل کے نمائشی انتخابات کی مخالفت کردی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ فیصل انگریزوں کا کٹھ پتلی ہے۔ سید ابوالحسن اور میرزا حسین نائینی نے فتوی دے کر پارلیمانی انتخابات میں شرکت کو حرام قرار دیا۔[46] کئی برس بعد سنہ 1341 ہجری میں عراق کے حالات کچھ اس طر سے بدل گئے کہ سید ابوالحسن اصفہانی کو ایک بار پھر سیاسی معاملات میں مداخلت کرنا پڑی اور اس بار اس کی مخالفت کا رخ بیرونی استعمار کی جانب تھی۔

اسی سال، علمائے نجف میں سے ایک عالم دین شیخ مہدی خالصی کاظمینی نے عراق کی مجلس مؤسسین کے انتخابات کا مقاطعہ (Boycott) کیا چنانچہ انہیں انگریزوں نے حجاز جلا وطن کیا؛ جس پر سید ابوالحسن، میرزا حسین نائینی اور سید علی شہرستانی نے احتجاج کیا اور اور انگریز ان کی بات نہ مانے چنانچہ انھوں نے مل کر عراق چھوڑ کر ایران ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا۔[47]۔[48]۔[49]۔[50] عراق کی برطانیہ نواز حکومت نے علماء کے ساتھ بدسلوکی کی اور لوگوں کو یوں جتایا کہ گویا انہیں عراق سے نکال باہر کیا گیا ہے، لیکن چونکہ علماء کی جلاوطنی انگریزوں اور ان کی حمایت یافتہ حکومت کے لئے نقصان دہ تھی چنانچہ انھوں نے اس مسئلے کے حل کے لئے سفارتکاری کا سہارا لیا اور علماء کو عراق واپس لوٹایا۔[51] بروایت دیگر: علماء کے فتوی کی وجہ سے انتخابات کی چال ناکام ہوئی چنانچہ نجف اور کوفہ میں ان کا امن و سکون سلب کیا گیا اور انہیں ایران جلاوطن کیا گیا۔ شہر قم کے علماء اور عوام کے مختلف طبقوں نے ابوالحسن اصفہانی اور میرزا حسین نائینی کا شایان شان استقبال کیا ان دو بزرگ علماء نے قم میں درس و تدریس اور نماز جماعت قائم کرنے کا اہتمام کیا۔ کچھ عرصہ بعد ملک فیصل نے عوامی دباؤ سے مجبور ہوکر مراجع تقلید سے معافی طلب کی اور یوں ان کی واپسی کا امکان فراہم ہوا۔[52]

وفات

عمر کے آخری برسوں میں سید ابوالحسن مسلسل علیل رہتے تھے۔ انہیں آرام کرنے کے لئے لبنان جانے کا مشورہ دیا گیا اور کچھ عرصہ لبنان میں رہے اور صحت کسی حد تک بہتر ہوئی لیکن ایک دن وہ گر گئے جس کی وجہ سے ان کے ران کی ہڈی ٹوٹ گئی جس کا فوری طور پر علاج ہوا اور وہ عراق لوٹ آئے اور عید الضحی کی رات 9 ذوالحجہ 1365 (بمطابق سنہ 1945 عیسوی) کو وفات پاگئے جب کہ ان کی عمر 80 برس سے کچھ زیادہ تھی۔ ان کے جنازے ہزاروں افراد نے شرکت کی۔[53]

علاوہ ازیں کہ سید ابوالحسن اصفہانی اپنے ایام حیات میں مختلف سیاسی معاملات میں اپنا موقف واضح کردیتے تھے، ان کی وفات بھی ایک سیاسی تحریک کی صورت میں بدل گئی اور نومبر 1946 میں ان کے جنازے کے مراسمات میں عوام کی بڑی شرکت اور مجالس عزاداری کا انعقاد آذر بائی جان میں ڈموکریٹ فرقے کی شکست میں مؤثر رہی۔[54]۔[55]

سید ابوالحسن کے جنازے میں مذکورہ فرقے کے خلاف [جو معاشرے کو دین سے دور کرنے کے لئے ریشہ دوانیوں میں مصروف تھا] عوام کے مذہبی جذبات ابھرے؛ حتی کہ سید کے سوگ میں خوشدل تہرانی کے مرثیے میں بھی اس مسئلے کی عکاسی ہوئی ہے۔[56]۔[57]

تالیفات

ابوالحسن اصفہانی کے علمی آثار و تالیفات کو پانچ زمروں میں قرار دیا جاسکتا ہے:

1۔ اہم ترین آثار وہ ہیں جو ان کے فقہی اور اصولی تقریرات[58] پر مشتمل ہیں جو ان کے شاگردوں نے تحریر کی ہیں۔

میرزا حسن سیادتی سبزواری نے سنہ 1338 سے 1345 تک ان کے دروس کے ایک مکمل سلسلے (Course of Lectures) کو بصورت تقریرات تحریر کی صورت دی ہے جو کئی مجلدات پر مشتمل ہیں؛ اور ان کی تقریرات کا دوسرا نسخہ شیخ محمدرضا طبسی نے مرتب کیا ہے۔

ان کے درس اصول کی تقریرات کے اقتباسات ان کی علمی شان و منزلت کی عکاسی کرتے ہیں اور ان کی یہ منزلت آخوند خراسانی سے مسلسل فیض یابی کا ثمرہ ہے؛ اور شاید اس کا اہم ترین سید اصفہانی کے درس استصحاب کی تقریرات ہیں جو ان کے شاگرد شیخ محمد تقی آملی نے تحریر کی ہیں۔

2۔ دوسرے زمرے میں شامل آثار درحقیقت سید اصفہانی کے اساتذہ کے دروس ہیں جو انھوں نے اپنے قلم سے تحریر کئے ہیں۔

اس سلسلے میں سید کی اہم ترین کاوش وہی ہے جس کو ابوالحسن اصفہانی کے حالات زندگی لکھنے والوں نے آخوند خراسانی کی کتاب کفایۃ الاصول کی شرح کا نام دیا ہے،[59]۔[60] اور غالب امکان یہی ہے کہ یہ آخوند خراسانی کی تقریرات ہیں۔

3۔ ابوالحسن اصفہانی کے علمی آثار کا تیسرا زمرہ ان کے رسائل عملیہ اور ان کے فتاوی پر مشتمل کتب پر مشتمل ہے، جن میں اہم ترین کتاب کا عنوان وسیلۃ النجاۃ ہے جو فقہ کا ایک مکمل نصاب ہے اور طہارت سے ارث تک سید محمد کاظم یزدی طباطبائی کی مشہور کتاب عروۃ الوثقی کی ترتیب کے مطابق مرتب کیا گیا۔

اس کتاب کا مکمل نسخہ سنہ 1355 میں زیور طبع سے آراستہ ہوا ہے اور ان کے مختصر اور منتخب نسخے ـ جو مقلدین کی ضروریات کے شرعی مسائل پر مشتمل ہیں، ان کی حیات میں ہی 16 مرتبہ اور ہر مرتبہ 44000 کی تعداد میں شائع ہوئے ہیں۔[61]

وسیلۃ النجاۃ ایک فقہی متن کے لحاظ سے بعد کی نسل کے بزرگ فقہاء کی توجہ کا مرکز رہی ہے اور امام خمینی کی کتاب تحریر الوسیلہ اس مدعا کی بہترین مثال ہے۔

سید اصفہانی کی دیگر تالیفات میں رسالۂ عملیہ بعنوان صراط النجاۃ ہے جو سید نے فارسی میں وسیلۃ النجاۃ کی بنیاد پر مرتب کیا تھا جس کو ایک بار سنہ 1334 ہجری میں اور دوسری بار سنہ 1345 ہجری میں زیور طبع سے آراستہ کیا گیا ہے۔

نیز فارسی میں ان کا ایک رسالۂ عملیہ ذخیرۃ الصالحین کے عنوان سے ان کی زندگی میں ہی تین مرتبہ شائع کیا گیا ہے۔[62]

نیز ان کے فتاوی ایک مجموعہ مناسک حج کے عنوان سے سنہ 1342 ہجری میں نجف اشرف سے شائع ہوا۔ اور ان کے رسائل عملیہ کے منتخب حصوں کو منتخب الرسائل[63] کے عنوان سے یکجا کرکے 42 مرتبہ طبع کیا گیا ہے۔[64]

4۔ ان کے علمی آثار کے چوتھے زمرے میں وہ حاشیے ہیں جو انھوں نے دوسرے علماء کی کتب پر تحریر کئے ہیں، جیسے: علامہ حلی کی کتاب تبصرۃ المتعلمین سید کا حاشیہ۔[65] جو متعد بار نجف، ایران اور ہندوستان میں زیور طبع سے آراستہ کیا گیا ہے۔

نیز سید ابوالحسن نے سید محمد کاظم یزدی طباطبائی کی کتاب عروۃ الوثقی، فاضل شربیانی کی کتاب ذخیرۃ العباد اور شیخ مرتضی انصاری کی مناسک الحج پر حواشی لکھے ہیں۔ واضح رہے کہ صاحب جواہر کی تالیف نجات العباد پر سید کا حاشیہ متعدد بار نجف میں زیور طبع سے آراستہ ہوا ہے۔

5۔ سید ابوالحسن اصفہانی کی علمی کاوشوں کے پانچویں زمرے میں میں ان فتاوی کا مجموعہ ہے جو ان کے اپنے قلم سے تحریر نہیں ہوا بلکہ دوسروں نے ان کے فتاوی کی بنیاد پر مرتب کیا ہے،[66] جیسے:

  1. انیس المقلدین، جس کو سید ابوالقاسم صفوی موسوی اصفہانی نے سنہ 1370 ہجری میں تالیف کیا ہے۔[67]۔خطا در حوالہ: Closing </ref> missing for <ref> tag تحفۃ العوام متعدد بار ہند و پاک میں شائع ہوا ہے۔
  2. احکام عبادات پر مشتمل رسالہ جس کی زبان ترکی ہے اور یہ عراق کے شہر کرکوک کی شیعہ آبادی کے لئے ترکی میں تحریر کیا گیا ہے۔ اس کتاب کی تاریخ اشاعت اور مقام اشاعت نامعلوم ہے۔[68] سید حسن امین لکھتے ہیں کہ یہ رسالہ عراقی کردستان کے ترکمن شیعوں کے لئے ترکمنی زبان میں لکھا گیا تھا۔[69]

ان کے بارے میں تالیف شدہ کتابیں

کتاب "حیات جاودانی"، سید ابوالحسن اصفہانی کے حالات زندگی کے بارے میں _ان کے پوتوں_ سید جعفر موسوی اصفہانی اور سید ہادی میر آقائی نے تالیف کی ہے۔

نگارخانہ

بیرونی روابط

حوالہ جات

  1. سید محسن امین عاملی، اعیان الشیعہ، ج۲، ص۲۳۱.
  2. وجیزه در زندگانی آیة الله اصفهانی، ص12-13۔
  3. اعیان الشیعہ، ج2، ص332۔
  4. وجیزه در زندگانی آیةالله اصفہانی، ص13-14۔
  5. الذریعہ، ج13، ص325۔
  6. تذکرة القبور یا دانشمندان و بزرگان اصفہان، ص38۔
  7. حیات جاودان، ص25۔
  8. مجلہ نور علم، دوره سوم، شماره چهارم، ص95۔
  9. اعیان الشیعہ، ج2، ص332۔
  10. معارف الرجال فی تراجم العلماء و الادباء، ج1، ص46-47۔
  11. احمد خلیل، الامام السید ابوالحسن، ص33-36۔
  12. نجوم امت: آیت الله العظمی سید ابوالحسن موسوی اصفہانی»، ص95، 96۔
  13. اعیان الشیعة، ج2، ص332۔
  14. دائرةالمعارف تشیع، ج2، ص220۔
  15. موسوی اصفهانی، جعفر، حیات جاودانی، ص-20-21۔
  16. اعیان الشیعة، ج2، ص332۔
  17. آقا بزرگ، طبقات اعلام الشیعہ، ج1، ص41۔
  18. مشاهیردانشمندان اسلام، ج4، ص375۔
  19. تذکرة القبور یا دانشمندان و بزرگان اصفہان، ص38۔
  20. وجیزه در زندگانی آیةالله اصفہانی، ص17- 18۔
  21. دائرةالمعارف تشیع، ج2، ص220۔
  22. موسوی اصفهانی، احسن الودیعة فی تراجم اشهر مشاهیر مجتهدی الشیعة، ج2، ص109۔
  23. طبسی نجفی، الشیعة و الرجعة، ج1، ص279۔
  24. حیات جاودانی، ص52۔
  25. الشیعہ و الرجعہ، ج1، ص279۔
  26. | شرعی احکام میں احتیاطات۔
  27. الامام السید ابوالحسن، ص46۔
  28. نجوم امت: آیت الله العظمی سید ابوالحسن موسوی اصفہانی «، ص95-96۔
  29. الشیعہ و الرجعہ، ج1، ص279۔
  30. اعیان الشیعہ، ج2، ص333۔
  31. الشیعہ و الرجعہ، ج1، ص279۔
  32. حیات جاودانی، ص53 و 60۔
  33. حیات جاودانی، ص75 و 78۔
  34. همان، ص54۔
  35. اصفهانی،سید موسی، نجوم امت،(25) ص110 تا 112۔
  36. محمد رازی، آثار الحجہ و ج2 ص51 و 67۔
  37. آل محبوبہ، جعفر، ماضی النجف و حاضرہا، ج3 ص237، 534، 558۔
  38. ارشاد حسین ناصر، مفتی جعفر حسین مرحوم، ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے، تقریب خبررساں ایجنسی۔
  39. حیات جاودانی، ص106-117۔
  40. وہی ماخذ، ص111۔
  41. وہی ماخذ، ص116۔
  42. الامام السید ابوالحسن، ص42-43۔
  43. حائری، عبدالحسین، اسناد روحانیت و مجلس، ج1، ص13-14۔
  44. اسناد روحانیت و مجلس، ج1، ص39-40۔
  45. (مجلة) الثورة العراقيہ و رسالة الاسلام، شماره 1، سال 6۔
  46. رسول جعفریان، تشیع در عراق مرجعیت و ایران ص71-73، 1386
  47. الامام السید ابوالحسن، 47- 48۔
  48. شریف رازی، محمد، گنجینہ دانشمندان، ج1، ص216۔
  49. بلاغی، عبدالحجت، تاریخ نائین، ص102۔
  50. نجوم امت: آیت الله العظمی سید ابوالحسن موسوی اصفہانی، ص98۔
  51. نایینی، مہدی، گذری بر شخصیت ۔۔۔ میرزای نائینی ص375 تا 394۔
  52. جمعی از پژوہشگران حوزه علمیہ قم، گلشن ابرار، ج دوم، ص60۔
  53. احمد خلیل، الامام السید ابوالحسن الأصفهانی، صص128 و 129۔
  54. هاشمی رفسنجانی، دوران مبارزه، خاطرات، تصویرها، اسناد، ج1، ص118۔
  55. هدایت، مهدیقلی، خاطرات و خطرات، ص455۔
  56. گنجینه دانشمندان، ج1، ص223۔
  57. سید ابوالحسن اصفہانی کی وفات پر عراق میں وسیع عوامی رد عمل کے لئے رجوع کریں: الامام السید ابوالحسن، ص77 به بعد۔
  58. تقریرات نویسی یا تقریر نویسی یعنی جو کچھ استاد پڑھائے شاگرد اس کو رشتہ تحریر میں لائے۔ تقریر نویسی کی چار قسمیں ہیں:
    1۔ پورا درس من و عن کلاس میں ہی لکھ لیا جائے،
    2۔ پورا درس ذہن نشین کرکے کلاس کے بعد لکھ لیا جائے،
    3۔ کلاس میں صرف اہم نکات لکھ لئے جائیں اور،
    4۔ کلاس ختم ہونے کے بعد درس کا خلاصہ تحریر کیا جائے۔ ان میں سے ہر روش کی اپنی خصوصیات ہیں۔ رجوع کریں: | تقریر نویسی۔
  59. تذکرة القبور یا دانشمندان و بزرگان اصفهان، ص40۔
  60. وجیزه در زندگانی آیةالله اصفهانی، ص27۔
  61. احمد خلیل، الامام السید ابوالحسن، ص65-66۔
  62. آقا بزرگ تہرانی، الذریعہ، ج10، ص16۔
  63. تذکرة القبور یا دانشمندان و بزرگان اصفهان، ص40۔
  64. الامام السید ابوالحسن، ص66۔
  65. «نجوم امت: آیت الله العظمی سید ابوالحسن موسوی اصفهانی، ص110۔
  66. سید حسن امین، ایران شناسی مرجعیت و سیاست، مجلہ حافظ شمارہ 30، 1385 ہجری شمسی۔
  67. نجف، 1345ق، نیز 1357ق۔
  68. اعیان الشیعہ، ج2، ص332۔
  69. | ایران شناسی مرجعیت و سیاست: کارنامہ ی سید ابوالحسن اصفہانی مرجع تقلید۔

مآخذ

  • آقا بزرگ، الذریعہ؛ آقا بزرگ، طبقات اعلام الشیعہ (نقباء البشر)، نجف، 1373ق / 1954ع
  • آل محبوبہ، جعفر، ماضی النجف و حاضرہا، بیروت، 1406ق /1986ع
  • خلیل، احمد، الإمام السيد ابوالحسن الأصفہاني، نجف، 1366ق.
  • امین، محسن، اعیان الشیعہ، بہ کوشش حسن امین، بیروت، 1403ق /1983ع
  • باقری بیدہندی، ناصر، «نجوم امت: آیت الله العظمی سید ابوالحسن موسوی اصفہانی»، نور علم، قم، 1367ش، دوره 3، شم 4.
  • بلاغی، عبدالحجت، تاریخ نائین، تہران، مظاہری.
  • حائری، عبدالحسین، اسناد روحانیت و مجلس، تہران، 1374ش.
  • حرزالدین، محمد، معارف الرجال فی تراجم العلماء و الادباء، نجف، 1383ق /1964ع
  • شریف رازی، محمد، آثار الحجہ، قم، کتاب فروشی برقعی.
  • وہی مؤلف، گنجینہ دانشمندان، تہران، 1352ش.
  • وہی مؤلف، مشاہیر دانشمندان اسلام (ترجمہ و تکمیل الکنی و الالقاب شیخ عباس قمی)، تہران، 1351ش.
  • طبسی نجفی، محمد رضا، الشیعہ و الرجعہ، نجف، 1385ق /1966ع
  • موسوی اصفہانی، جعفر، حیات جاودانی؛ زندگانی آیة الله العظمی سیدابوالحسن موسوی اصفہانی (قدس سره)، با ہمکاری سید ہادی میر آقایی، انتشارات رستگار، مشہد، 1385.
  • موسوی اصفہانی، محمد مہدی، احسن الودیعہ فی تراجم اشهر مشاہیر مجتهدی الشیعہ، بغداد، مطبعة الایتام.
  • مہدوی، مصلح الدین، تذکرة القبور یا دانشمندان و بزرگان اصفہان، اصفہان، 1348ش.
  • میبدی، ناصر، وجیزه در زندگانی آیةالله اصفہانی، مشہد، 1368ش.
  • ہاشمی رفسنجانی، علی اکبر، دوران مبارزه، خاطرات، تصویرها، اسناد، تہران، 1376ش.
  • ہدایت، مہدی قلی، خاطرات و خطرات، تہران، 1344ش.
  • الثورة العراقيہ و رسالة الاسلام، شماره 1، سال 6.
  • جعفریان، رسول، تشیع در عراق، مرجعیت و ایران، چاپ اول، پاییز 1386۔
  • نایینی، مہدی، گذری بر شخصیت علمی، اخلاقی و سیاسی میرزای نائینی و مجلہ آموزه، پاییز 1383 - شماره 5۔
  • جمعی از پژوہشگران حوزه علمیہ قم، گلشن ابرار۔
  • ایران شناسی مرجعیت و سیاست، سید حسن امین، مجلہ حافظ شماره 30 (تیر ماه 85 شمسی)۔

بیرونی روابط