سورہ رعد
یوسف | سورۂ رعد | ابراہیم | |||||||||||||||||||||||
|
سورہ رعد قرآن کی تیرہویں اور مدنی سورتوں میں سے ہے جو تیرہویں پارے میں واقع ہے۔ "رعد" بادل کی گرج کو کہا جاتا ہے یہ نام اس سورت کی تیرہویں آیت سے لیا گیا ہے۔ اس سورت میں خدا کی توحید اور قدرت، قرآن کی حقانیت، پیغمبر اسلامؐ کی نبوت و رسالت، قیامت کے حالات اور بہشت و جہنم کے بارے میں گفتگو ہوتی ہے۔
آیت نمبر 28 اس سورت کی مشہور آیات میں سے ہے جس میں خدا کی یاد کو دلوں کا سکون قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح آیت نمبر 43 میں "من عنده علم الکتاب" کے بارے میں بعض مفسرین کا خیال ہے کہ اس سے مراد امام علیؑ ہیں۔ نقل ہوا ہے کہ جو شخص سوره رعد کی تلاوت کرے گا خدا ماضی، حال اور مستقبل میں موجود میں بادلوں کے دس گنا حسنہ اس شخص کو عطا کرے گا۔
تعارف
- نام
اس سورہ کا نام "رعد" ہے جو بادلوں کی گرچ کے ضمن میں خدا کی تسبیح و تہلیل پڑھنے کی طرف اشارہ ہے جس کے بارے میں اس سورت کی آیت نمیر 13 میں گفتگو ہوئی ہے۔[1]
- محل اور ترتیب نزول
اس سورت کی مکی یا مدنی ہونے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض مفسرین جیسے علامہ طباطبایی اس سورت کے مضامین کو مد نظر رکھتے ہوئے اسے مکی سورتوں میں سے قرار دیتے ہیں؛[2] لیکن آیت اللہ معرفت اس کی مدنی ہونے کو ترجیح دیتے ہوئے کہتے ہیں که وہ تمام ااحادیث جو سورتوں کی ترتیب نزول کو بیان کرتی ہیں، ان میں اس سورت کے مدنی ہونے کا ذکر ملتا ہے۔[3] ایت اللہ معرفت کے مطابق سورہ رعد ترتیب نزول کے اعتبار سے 98ویں ہے۔[4] یہ سورت سورہ مُصحَف شریف کی موجودہ ترتیب کے اعتبار سے 13ویں سورت ہے اور 13ویں پارے میں واقع ہے۔
- آیات کی تعداد اور دوسری خصوصیات
سورہ رعد قرآن کے سور مثانی اور حجم کے اعتبار سے نسبتا طولانی صورتوں میں سے ہے۔ یہ سورت 43 آیات، 854 کلمات اور 3541 حروف پر مشتمل ہے۔ اس کا آغاز حروف مقطعہ سے ہوتا ہے اور اس کی آیت نمبر 15 میں قران کی مستحب سجدہ واقع ہے۔[5] یعنی ہنگام شنیدن یا قرائت آن، سجدہ کردن مستحب است۔
مضامین
اس سورت کے اصل مضامین میں توحید، معاد (قیامت) اور وحی جیسے بنیادی مسائل شامل ہیں۔ جبکہ اس کے فرعی موضوعات میں کائنات کے عجائبات اور نفس انسانی جیسے مسائل پر گفتگو کرتے ہوئے انسان کو گذشتہ اقوام کے حالات و واقعات اور خدا کی سنتوں میں غور و فکر کرنے کی دعوت دیتا ہے۔[6] اس سورت کا اصل مقصد قرآن کی حقانیت اور پیغمبر اکرمؐ کی رسالت پر معجزہ ہونے کو بیان کرنا ہے۔[7]
اعجاز قرآن کے منکرین کو جواب | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
خاتمہ؛ آیہ ۴۳ پیغمبر کی حقانیت پر اللہ کی گواہی | چوتھا گفتار؛ آیہ ۳۶-۴۲ قرآن مخالفوں کے مقابلے میں پیغمبر کی ذمہ داری | تیسرا گفتار؛ آیہ ۳۲-۳۵ قرآن مخالفوں کا کردار | دوسرا گفتار؛ آیہ ۷-۳۱ پیغمبر سے کوئی اور معجزہ مانگنے والوں کے لیے جواب | پہلا گفتار؛ آیہ ۱-۶ قرآنی تعلیمات کے انکار کا صحیح نہ ہونا | |||||||||||||||||||||||||||||||||||
پہلی ذمہ داری؛ آیہ ۳۶ اللہ کی عبادت اور بندگی کی تأکید | رفتار اول؛ آیہ ۳۲ پیغمبر کی تحقیر اور تمسخر | پہلا جواب؛ آیہ ۷-۱۶ معجزے کی نوعیت کا تعین صرف کائنات کے مدبر اللہ کے ہاتھ میں ہے | مقدمہ؛ آیہ ۱ بہت سارے لوگ قرآن کی حقانیت پر ایمان نہیں رکھتے | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||
دوسری ذمہ داری؛ آیہ ۳۷-۳۹ مخالفوں کی خواہشات کی پیروی کرنے سے ممانعت | رفتار دوم؛ آیہ ۳۳-۳۵ اللہ کا شریک ماننا | دوسرا جواب؛ آیہ ۱۷-۲۶ انسانی سعادت کے لیے قرآن کافی ہونا | پہلا مطلب؛ آیہ ۲-۴ اللہ کی ربوبیت سے انکار کا صحیح نہیں ہونا | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||
تیسری ذمہ داری؛ آیہ ۴۰-۴۲ کافروں کی سزا کو اللہ پر چھوڑنا | تیسرا جواب؛ آیہ ۲۷-۳۱ کوئی اور معجزہ کے نزول پر کافروں کا ایمان نہ لانا | دوسرا مطلب؛ آیہ ۵ معاد کا غلط انکار | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||
تیسرا مطلب؛ آیہ ۶ عذابِالہی میں جلدپنی کا صحیح نہ ہونا | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
مشہور آیتیں
- إِنَّ اللّهَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِهِمْ (ترجمہ: بے شک اللہ کسی قوم کی اس حالت کو نہیں بدلتا جو اس کی ہے جب تک قوم خود اپنی حالت کو نہ بدلے) (آیت 11)
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ خداوند متعال کسی قوم کو دی ہوئی نعمت سلب کرکے ان پر عذاب نازل نہیں کرتا مگر یہ کہ وہ قوم خدا کی نافرمانی پر اتر آئے۔ سنت الہی ہے کہ اگر انسان شُکر کی بجای ناسپاسی اور اطاعت کی بجای نافرمانی کرے تو ان کی سعادت بدبختی میں تبدیل ہو جائے گی۔[9] بعض مفسرین اس آیت کی ایک اور تفسیر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہر قوم کا انجام اس کے اپنے اعمال پر موقوف ہے یعنی وہ اپنے ارادے سے اپنی زندگی کو دگرگوں کرتی ہیں۔[10]
- أَلاَ بِذِكْرِ اللّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (ترجمہ: یاد رکھو ذکرِ الٰہی سے ہی دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے۔) (آیت 28)
کہا جاتا ہے کہ یہ آیت انحصاریت پر دلالت کرتی ہے یعنی فقط خدا ہے جو دلوں کو سکون بخشتا ہے۔[11] یہاں پر "ذکر" سے مراد ہر قسم کی ذکر ہے چاہے لفظی ہو یا غیر لفظی، قرآن کی صورت میں ہو یا غیر قرآن کی صورت میں۔[12] امام صادقؑ فرماتے ہیں: "لفظ محمدؐ کے ذریعے دلوں کو سکون ملتی ہے کیونکہ یہ اسماء الہی میں سے ہے"[13] اسی طرح نقل ہوا ہے کہ رسول خداؐ نے امام علیؑ سے فرمایا: کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ آیت کس کے بارے میں نازل ہوئی ہے؟ پھر فرمایا: یہ آیت اس شخص کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو میری تصدیق کرے، مجھ پر ایمان لے آئے اور آپ اور آپ کے بعد آپ کی عترت سے محبت رکھے اور میرے بعد تیری اور تیری ذریہ میں امامت و ولایت کو قبول کرے"۔[14]
- وَيَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُواْ لَسْتَ مُرْسَلاً قُلْ كَفَى بِاللّهِ شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ وَمَنْ عِندَهُ عِلْمُ الْكِتَابِ (ترجمہ: اور کافر لوگ کہتے ہیں کہ آپ رسول نہیں ہیں کہہ دیجیے کہ میرے اور تمہارے درمیان بطور گواہ اللہ کافی ہے اور وہ شخص جس کے پاس کتاب کا علم ہے۔) (آیت 43)
اس آیت میں موجود عبارت "من عنده علم الکتاب" کی شأن نزول، تفسیر اور قرائت کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔۔[15] اس آیت کے مصداق کے بارے میں سات اقوال نقل ہوئے ہیں[16] مفسرین نے اس آیت میں لفظ "کتاب" سے تورات،[17] قرآن یا لوح محفوظ[18] مراد لئے ہیں۔ علامہ طباطبایی "کتاب" سے مراد قرآن اور احادیث سے استناد کرتے ہوئے "من عندہ" کو امام علیؑ مراد لیتے ہیں۔[19]
رعد کی تسبیح سے مراد
اس سورت کی تیرہوں آیت میں رعد کی تسبیح سے متعلق گفتگو ہوتی ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں کئی اقوال ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ "رعد" خدا کی نشانیوں میں سے ہے جو خدا کی بزرگی پر دلالت کرتا ہے اسی لئے یہ دوسری مخلوقات کو خدا کی تسبیح کرنے کی دعوت دیتا ہے یا خود خدا کی تسبیح پڑھتا ہے۔ اس سلسلے میں دوسرا قول یہ ہے کہ یہاں تسبیح سے مراد خود "رعد" کی تسبیح نہیں بلکہ رعد اور گرچ کو سننے کے بعد دوسرے مخلوقات کی طرف سے پڑھی جانے والے تسبیح مراد ہے۔[20] رعد اور گرچ کے سنتے وقت پڑھی جانے والی دعاؤوں کا بھی تذکرہ متعلقہ منابع میں ملتا ہے۔[21]
فضیلت اور خواص
اُبَیبن کَعب پیغمبر اکرمؐ سے نقل کرتے ہیں: جو شصخ سورہ رعد کی تلاوت کرے خدا اسے ماضی، حال اور مستقل میں موجود بادلوں کا دس گنا ثواب عطا کرے گا اور قیامت کے دن یہ اس شخص کا شمار خدا کے عہد و پیمان پر عمل کرنے والوں میں ہو گا۔[22] اسی طرح امام صادقؑ سے منقول ہے: "جو شخص سورہ رعد کی زیادہ تلاوت کرے خدا اسے دنیا میں آسمانی بجلی کی ذریعے موت نہیں دے گا اگرچہ وہ شخص اہل بیتؑ کے دشمنوں میں سے کیوں نہ ہو لیکن قاری گر شیعہ ہو تو خدا اسے حساب و کتاب کی پریشانی کے بغیر بہشت میں داخل کرے گا اور اپنے خاندان اور جاننے والے ایمانی برادران کے حق میں اس کی شفاعت بھی قبول کی جائے گی۔[23]
آیات الاحکام
اس سورت کی آیت نمبر 25 آیات الاحکام میں سے ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس آیت کے مطابق عہد و پیمان پر عمل کرنا واجب ہے۔[24] فقہا عہد کی تعریف میں کہتے ہیں: عہد یعنی انسان خدا سے کسی کام کو انجام دینے یا ترک کرنے کا عہد کرے۔ عہد کے مخصوص شرایط ہیں؛ من جملہ یہ کہ اس کا صیغہ یعنی: "عٰاہَدْتُ اللّٰہَ انْ أَفْعَلَ كَذٰا أَو أَتْرُكَ كَذٰا" يا "عَلَىَّ عَہْدُ اللّٰہ أَنْ أَفْعَلَ كَذٰا أَوْ أَتْرُكَ كَذٰا" پڑھنا ضروری ہے۔ "أَفْعَلَ كَذٰا" کی جگہ جس کام کو کرنے یا ترک کرنے کا قصد رکھتا ہو اسے ذکر کیا جائے۔[25][یادداشت 1]
مونوگراف
بعض آثار جو مستقل طور پر سورہ رعد کی تفسیر میں لکھی گئی ہیں:
- حسینی نجومی، سید مرتضی، آیات سبحانی: تفسیر سورہ رعد، بہ تحقیق و تنظیم ناصرالدین انصاری قمی، قم، بوستان کتاب، ۱۳۹۰ش۔
- سبحانی تبریزی، جعفر (آیتاللہ)، قرآن و اسرار آفرینش: تفسیر سورہ رعد، قم، نشر توحید، ۱۳۶۲ش۔
متن اور ترجمہ
سورہ رعد
|
ترجمہ
|
---|---|
المر تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ وَالَّذِيَ أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ الْحَقُّ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لاَ يُؤْمِنُونَ ﴿1﴾ اللّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّمَاوَاتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ يَجْرِي لأَجَلٍ مُّسَمًّى يُدَبِّرُ الأَمْرَ يُفَصِّلُ الآيَاتِ لَعَلَّكُم بِلِقَاء رَبِّكُمْ تُوقِنُونَ ﴿2﴾ وَهُوَ الَّذِي مَدَّ الأَرْضَ وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ وَأَنْهَارًا وَمِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ جَعَلَ فِيهَا زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ ﴿3﴾ وَفِي الأَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجَاوِرَاتٌ وَجَنَّاتٌ مِّنْ أَعْنَابٍ وَزَرْعٌ وَنَخِيلٌ صِنْوَانٌ وَغَيْرُ صِنْوَانٍ يُسْقَى بِمَاء وَاحِدٍ وَنُفَضِّلُ بَعْضَهَا عَلَى بَعْضٍ فِي الأُكُلِ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ ﴿4﴾ وَإِن تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ أَئِذَا كُنَّا تُرَابًا أَئِنَّا لَفِي خَلْقٍ جَدِيدٍ أُوْلَئِكَ الَّذِينَ كَفَرُواْ بِرَبِّهِمْ وَأُوْلَئِكَ الأَغْلاَلُ فِي أَعْنَاقِهِمْ وَأُوْلَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدونَ ﴿5﴾ وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالسَّيِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِ وَقَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِمُ الْمَثُلاَتُ وَإِنَّ رَبَّكَ لَذُو مَغْفِرَةٍ لِّلنَّاسِ عَلَى ظُلْمِهِمْ وَإِنَّ رَبَّكَ لَشَدِيدُ الْعِقَابِ ﴿6﴾ وَيَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُواْ لَوْلآ أُنزِلَ عَلَيْهِ آيَةٌ مِّن رَّبِّهِ إِنَّمَا أَنتَ مُنذِرٌ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ ﴿7﴾ اللّهُ يَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُلُّ أُنثَى وَمَا تَغِيضُ الأَرْحَامُ وَمَا تَزْدَادُ وَكُلُّ شَيْءٍ عِندَهُ بِمِقْدَارٍ ﴿8﴾ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ الْكَبِيرُ الْمُتَعَالِ ﴿9﴾ سَوَاء مِّنكُم مَّنْ أَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَن جَهَرَ بِهِ وَمَنْ هُوَ مُسْتَخْفٍ بِاللَّيْلِ وَسَارِبٌ بِالنَّهَارِ ﴿10﴾ لَهُ مُعَقِّبَاتٌ مِّن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ اللّهِ إِنَّ اللّهَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِهِمْ وَإِذَا أَرَادَ اللّهُ بِقَوْمٍ سُوءًا فَلاَ مَرَدَّ لَهُ وَمَا لَهُم مِّن دُونِهِ مِن وَالٍ ﴿11﴾ هُوَ الَّذِي يُرِيكُمُ الْبَرْقَ خَوْفًا وَطَمَعًا وَيُنْشِىءُ السَّحَابَ الثِّقَالَ ﴿12﴾ وَيُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِهِ وَالْمَلاَئِكَةُ مِنْ خِيفَتِهِ وَيُرْسِلُ الصَّوَاعِقَ فَيُصِيبُ بِهَا مَن يَشَاء وَهُمْ يُجَادِلُونَ فِي اللّهِ وَهُوَ شَدِيدُ الْمِحَالِ ﴿13﴾ لَهُ دَعْوَةُ الْحَقِّ وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِهِ لاَ يَسْتَجِيبُونَ لَهُم بِشَيْءٍ إِلاَّ كَبَاسِطِ كَفَّيْهِ إِلَى الْمَاء لِيَبْلُغَ فَاهُ وَمَا هُوَ بِبَالِغِهِ وَمَا دُعَاء الْكَافِرِينَ إِلاَّ فِي ضَلاَلٍ ﴿14﴾ وَلِلّهِ يَسْجُدُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ طَوْعًا وَكَرْهًا وَظِلالُهُم بِالْغُدُوِّ وَالآصَالِ ﴿15﴾ قُلْ مَن رَّبُّ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ قُلِ اللّهُ قُلْ أَفَاتَّخَذْتُم مِّن دُونِهِ أَوْلِيَاء لاَ يَمْلِكُونَ لِأَنفُسِهِمْ نَفْعًا وَلاَ ضَرًّا قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الأَعْمَى وَالْبَصِيرُ أَمْ هَلْ تَسْتَوِي الظُّلُمَاتُ وَالنُّورُ أَمْ جَعَلُواْ لِلّهِ شُرَكَاء خَلَقُواْ كَخَلْقِهِ فَتَشَابَهَ الْخَلْقُ عَلَيْهِمْ قُلِ اللّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ ﴿16﴾ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاء مَاء فَسَالَتْ أَوْدِيَةٌ بِقَدَرِهَا فَاحْتَمَلَ السَّيْلُ زَبَدًا رَّابِيًا وَمِمَّا يُوقِدُونَ عَلَيْهِ فِي النَّارِ ابْتِغَاء حِلْيَةٍ أَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِّثْلُهُ كَذَلِكَ يَضْرِبُ اللّهُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ فَأَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفَاء وَأَمَّا مَا يَنفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الأَرْضِ كَذَلِكَ يَضْرِبُ اللّهُ الأَمْثَالَ ﴿17﴾ لِلَّذِينَ اسْتَجَابُواْ لِرَبِّهِمُ الْحُسْنَى وَالَّذِينَ لَمْ يَسْتَجِيبُواْ لَهُ لَوْ أَنَّ لَهُم مَّا فِي الأَرْضِ جَمِيعًا وَمِثْلَهُ مَعَهُ لاَفْتَدَوْاْ بِهِ أُوْلَئِكَ لَهُمْ سُوءُ الْحِسَابِ وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمِهَادُ ﴿18﴾ أَفَمَن يَعْلَمُ أَنَّمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَبِّكَ الْحَقُّ كَمَنْ هُوَ أَعْمَى إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُوْلُواْ الأَلْبَابِ ﴿19﴾ الَّذِينَ يُوفُونَ بِعَهْدِ اللّهِ وَلاَ يِنقُضُونَ الْمِيثَاقَ ﴿20﴾ وَالَّذِينَ يَصِلُونَ مَا أَمَرَ اللّهُ بِهِ أَن يُوصَلَ وَيَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ وَيَخَافُونَ سُوءَ الحِسَابِ ﴿21﴾ وَالَّذِينَ صَبَرُواْ ابْتِغَاء وَجْهِ رَبِّهِمْ وَأَقَامُواْ الصَّلاَةَ وَأَنفَقُواْ مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلاَنِيَةً وَيَدْرَؤُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ أُوْلَئِكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِ ﴿22﴾ جَنَّاتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا وَمَنْ صَلَحَ مِنْ آبَائِهِمْ وَأَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ وَالمَلاَئِكَةُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِم مِّن كُلِّ بَابٍ ﴿23﴾ سَلاَمٌ عَلَيْكُم بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ ﴿24﴾ وَالَّذِينَ يَنقُضُونَ عَهْدَ اللّهِ مِن بَعْدِ مِيثَاقِهِ وَيَقْطَعُونَ مَآ أَمَرَ اللّهُ بِهِ أَن يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الأَرْضِ أُوْلَئِكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ ﴿25﴾ اللّهُ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاء وَيَقَدِرُ وَفَرِحُواْ بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا فِي الآخِرَةِ إِلاَّ مَتَاعٌ ﴿26﴾ وَيَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُواْ لَوْلاَ أُنزِلَ عَلَيْهِ آيَةٌ مِّن رَّبِّهِ قُلْ إِنَّ اللّهَ يُضِلُّ مَن يَشَاء وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَنْ أَنَابَ ﴿27﴾ الَّذِينَ آمَنُواْ وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُم بِذِكْرِ اللّهِ أَلاَ بِذِكْرِ اللّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ ﴿28﴾ الَّذِينَ آمَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ طُوبَى لَهُمْ وَحُسْنُ مَآبٍ ﴿29﴾ كَذَلِكَ أَرْسَلْنَاكَ فِي أُمَّةٍ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهَا أُمَمٌ لِّتَتْلُوَ عَلَيْهِمُ الَّذِيَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَهُمْ يَكْفُرُونَ بِالرَّحْمَنِ قُلْ هُوَ رَبِّي لا إِلَهَ إِلاَّ هُوَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ مَتَابِ ﴿30﴾ وَلَوْ أَنَّ قُرْآنًا سُيِّرَتْ بِهِ الْجِبَالُ أَوْ قُطِّعَتْ بِهِ الأَرْضُ أَوْ كُلِّمَ بِهِ الْمَوْتَى بَل لِّلّهِ الأَمْرُ جَمِيعًا أَفَلَمْ يَيْأَسِ الَّذِينَ آمَنُواْ أَن لَّوْ يَشَاء اللّهُ لَهَدَى النَّاسَ جَمِيعًا وَلاَ يَزَالُ الَّذِينَ كَفَرُواْ تُصِيبُهُم بِمَا صَنَعُواْ قَارِعَةٌ أَوْ تَحُلُّ قَرِيبًا مِّن دَارِهِمْ حَتَّى يَأْتِيَ وَعْدُ اللّهِ إِنَّ اللّهَ لاَ يُخْلِفُ الْمِيعَادَ ﴿31﴾ وَلَقَدِ اسْتُهْزِىءَ بِرُسُلٍ مِّن قَبْلِكَ فَأَمْلَيْتُ لِلَّذِينَ كَفَرُواْ ثُمَّ أَخَذْتُهُمْ فَكَيْفَ كَانَ عِقَابِ ﴿32﴾ أَفَمَنْ هُوَ قَآئِمٌ عَلَى كُلِّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ وَجَعَلُواْ لِلّهِ شُرَكَاء قُلْ سَمُّوهُمْ أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِمَا لاَ يَعْلَمُ فِي الأَرْضِ أَم بِظَاهِرٍ مِّنَ الْقَوْلِ بَلْ زُيِّنَ لِلَّذِينَ كَفَرُواْ مَكْرُهُمْ وَصُدُّواْ عَنِ السَّبِيلِ وَمَن يُضْلِلِ اللّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ ﴿33﴾ لَّهُمْ عَذَابٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَلَعَذَابُ الآخِرَةِ أَشَقُّ وَمَا لَهُم مِّنَ اللّهِ مِن وَاقٍ ﴿34﴾ مَّثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِي وُعِدَ الْمُتَّقُونَ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الأَنْهَارُ أُكُلُهَا دَآئِمٌ وِظِلُّهَا تِلْكَ عُقْبَى الَّذِينَ اتَّقَواْ وَّعُقْبَى الْكَافِرِينَ النَّارُ ﴿35﴾ وَالَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَفْرَحُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمِنَ الأَحْزَابِ مَن يُنكِرُ بَعْضَهُ قُلْ إِنَّمَا أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ اللّهَ وَلا أُشْرِكَ بِهِ إِلَيْهِ أَدْعُو وَإِلَيْهِ مَآبِ ﴿36﴾ وَكَذَلِكَ أَنزَلْنَاهُ حُكْمًا عَرَبِيًّا وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءهُم بَعْدَ مَا جَاءكَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَكَ مِنَ اللّهِ مِن وَلِيٍّ وَلاَ وَاقٍ ﴿37﴾ وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلاً مِّن قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ أَزْوَاجًا وَذُرِّيَّةً وَمَا كَانَ لِرَسُولٍ أَن يَأْتِيَ بِآيَةٍ إِلاَّ بِإِذْنِ اللّهِ لِكُلِّ أَجَلٍ كِتَابٌ ﴿38﴾ يَمْحُو اللّهُ مَا يَشَاء وَيُثْبِتُ وَعِندَهُ أُمُّ الْكِتَابِ ﴿39﴾ وَإِن مَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلاَغُ وَعَلَيْنَا الْحِسَابُ ﴿40﴾ أَوَلَمْ يَرَوْاْ أَنَّا نَأْتِي الأَرْضَ نَنقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا وَاللّهُ يَحْكُمُ لاَ مُعَقِّبَ لِحُكْمِهِ وَهُوَ سَرِيعُ الْحِسَابِ ﴿41﴾ وَقَدْ مَكَرَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ فَلِلّهِ الْمَكْرُ جَمِيعًا يَعْلَمُ مَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ وَسَيَعْلَمُ الْكُفَّارُ لِمَنْ عُقْبَى الدَّارِ ﴿42﴾ وَيَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُواْ لَسْتَ مُرْسَلاً قُلْ كَفَى بِاللّهِ شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ وَمَنْ عِندَهُ عِلْمُ الْكِتَابِ ﴿43﴾ |
الف، لام، میم، را۔ یہ الکتاب (قرآن) کی آیتیں ہیں اور جو کچھ آپ پر آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے وہ سب بالکل حق ہے لیکن اکثر لوگ (اس پر) ایمان نہیں لاتے۔ (1) اللہ وہی تو ہے جس نے آسمانوں کو بلند کیا ہے بغیر ایسے ستونوں کے جو تم کو نظر آتے ہوں پھر وہ عرش (اقتدار) پر متمکن ہوا۔ اور سورج و چاند کو (اپنے قانون قدرت کا) پابند بنایا (چنانچہ) ہر ایک معینہ مدت تک رواں دواں ہے وہی (اس کارخانۂ قدرت کے) ہر کام کا انتظام کر رہا ہے اور اپنی قدرت کی نشانیاں کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم اپنے پروردگار کی بارگاہ میں حاضر ہونے کا یقین کرو۔ (2) اور وہی ہے جس نے زمین کو پھیلایا اور اس میں مضبوط پہاڑ بنا دیے اور نہریں جاری کر دیں اور اس میں ہر ایک پھل کے جوڑے دو قسم کے پیدا کر دیئے وہ رات (کی تاریکی) سے دن (کی روشنی) کو ڈھانپ دیتا ہے بے شک ان سب چیزوں میں غور و فکر کرنے والوں کے لئے بڑی نشانیاں ہیں۔ (3) اور خود زمین میں مختلف ٹکڑے آس پاس واقع ہیں (پھر ان میں) انگوروں کے باغ ہیں (غلہ کی) کھیتیاں ہیں اور کھجور کے درخت ہیں کچھ ایسے جو ایک ہی جڑ سے کئی درخت نکلے ہیں اور کچھ وہ جو ایسے نہیں ہیں سب ایک ہی پانی سے سیراب کئے جاتے ہیں مگر ہم (ذائقہ میں) بعض کو بعض پر برتری دیتے ہیں۔ یقیناً ان امور میں ان لوگوں کیلئے بڑی نشانیاں ہیں جو عقل سے کام لیتے ہیں۔ (4) (اے مخاطب) اگر تمہیں تعجب کرنا ہے تو تعجب کے قابل ان (کفار) کا یہ قول ہے کہ جب ہم (مر کر) خاک ہو جائیں گے تو کیا ہم از سر نو پیدا ہوں گے؟ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار کا انکار کیا اور یہ ہیں جن کی گردنوں میں طوق پڑے ہوں گے اور یہی جہنمی ہیں جو ہمیشہ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔ (5) اور (اے رسول(ص)) یہ لوگ آپ سے نیکی (مغفرت) سے پہلے برائی (عذاب) کے لئے جلدی کرتے ہیں حالانکہ ان سے پہلے (ایسے لوگوں پر) خدائی سزاؤں کے نمونے گزر چکے ہیں اور آپ کا پروردگار لوگوں کو ان کے ظلم و زیادتی کے باوجود بڑا بخشنے والا ہے اور یقیناً آپ کا پروردگار سخت سزا دینے والا بھی ہے۔ (6) اور کافر لوگ کہتے ہیں ان (پیغمبر اسلام(ص)) پر ان کے پروردگار کی طرف سے کوئی نشانی (ہماری مرضی کے مطابق) کیوں نہیں اتاری جاتی؟ حالانکہ تم تو بس (اللہ کے عذاب سے) ڈرانے والے ہو اور ہر قوم کے لئے ایک راہنما ہوتا ہے۔ (7) اللہ ہی جانتا ہے کہ ہر عورت (اپنے پیٹ میں) کیا اٹھائے پھرتی ہے؟ اور اس کو بھی (جانتا ہے) جو کچھ رحموں میں کمی یا بیشی ہوتی رہتی ہے اور اس کے نزدیک ہر چیز کی ایک مقدار مقرر ہے۔ (8) وہ ہر پوشیدہ اور ظاہر سب چیزوں کا جاننے والا ہے وہ بزرگ ہے (اور) عالی شان ہے۔ (9) تم میں سے کوئی چپکے سے کوئی بات کرے یا اونچی آواز میں کرے اور جو رات کے وقت چھپا رہتا ہے یا دن کے وقت (صاف ظاہر) چلتا ہے اس کے علم میں سب یکساں (برابر) ہیں۔ (10) انسان کے آگے اور پیچھے (خدا کے مقرر کردہ) نگہبان ہیں جو اللہ کے حکم سے باری باری اس کی حفاظت کرتے ہیں بے شک اللہ کسی قوم کی اس حالت کو نہیں بدلتا جو اس کی ہے جب تک قوم خود اپنی حالت کو نہ بدلے اور جب خدا کسی قوم کو (اس کے عمل کی پاداش میں) کوئی تکلیف پہنچانا چاہتا ہے تو وہ ٹل نہیں سکتی (پہنچ کر ہی رہتی ہے)۔ اور نہ ہی اللہ کے سوا ان کا کوئی حامی و مددگار ہے۔ (11) وہ وہی (خدا) ہے جو ڈرانے اور امید دلانے کے لئے بجلی (کی چمک) دکھاتا ہے اور (دوش ہوا پر) بوجھل بادل پیدا کرتا ہے۔ (12) بادل کی گرج اور فرشتے بھی اس کے خوف سے اس کی حمد و ثنا کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے ہیں اور وہ آسمانی بجلیاں گراتا ہے اور جسے چاہتا ہے ان کی زد میں لاتا ہے درآنحالیکہ وہ لوگ اللہ کے بارے میں جھگڑ رہے ہوتے ہیں جبکہ وہ بڑا زبردست قوت والا ہے۔ (13) (تکلیف کے وقت) اسی کو پکارنا برحق ہے اور اسے چھوڑ کر جنہیں یہ لوگ پکارتے ہیں وہ انہیں کچھ بھی جواب نہیں دے سکتے ان کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی (پیاسا) اپنے دونوں ہاتھ پانی کی طرف پھیلائے کہ وہ (پانی) اس کے منہ تک پہنچ جائے حالانکہ وہ اس تک پہنچنے والا نہیں ہے اور کافروں کی دعا و پکار گمراہی میں بھٹکتی پھرتی ہے۔ (14) اور جو آسمانوں اور زمینوں میں ہیں وہ سب خوشی یا ناخوشی سے اللہ کو ہی سجدہ کر رہے ہیں اور ان کے سائے بھی صبح و شام (اسی کو سجدہ کناں ہیں)۔ (15) (اے رسول) ان سے کہو (پوچھو) آسمانوں اور زمین کا پروردگار کون ہے؟ (خود ہی) بتائیے کہ اللہ (نیز) ان سے کہو۔ کیا تم نے اللہ کو چھوڑ کر کچھ کارساز بنا لئے ہیں؟ جو اپنے نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتے کہہ دیجئے کہ کیا اندھا اور آنکھوں والا دونوں برابر ہیں اور کیا نور و ظلمت (اندھیرا اور اجالا) یکساں ہیں؟ کیا ان لوگوں نے اللہ کے کچھ ایسے شریک بنائے ہیں جنہوں نے اللہ کی طرح کچھ مخلوق خلق کی ہے؟ جس کی وجہ سے تخلیق کا یہ معاملہ ان پر مشتبہ ہوگیا ہے؟ کہہ دیجیئے کہ ہر چیز کا خالق اللہ ہی ہے وہ یگانہ ہے اور سب پر غالب ہے۔ (16) اسی (اللہ) نے آسمان سے پانی برسایا جس سے ندی نالے اپنی مقدار کے مطابق بہنے لگے اور (میل کچیل سے جھاگ اٹھا تو) سیلاب کی رو نے اس ابھرے ہوئے جھاگ کو اٹھا لیا اور جن چیزوں (دھاتوں) کو لوگ زیور یا کوئی اور چیز (برتن وغیرہ) بنانے کے لیے آگ کے اندر تپاتے ہیں ان سے بھی ایسا ہی جھاگ اٹھتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ حق و باطل کی مثال بیان کرتا ہے پس جو جھاگ ہے وہ تو رائیگاں چلا جاتا ہے اور جو چیز (پانی اور دھات) لوگوں کو فائدہ پہنچاتی ہے وہ زمین میں باقی رہ جاتی ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ سمجھانے کے لیے مثالیں بیان کرتا ہے۔ (17) جن لوگوں نے اپنے پروردگار کی دعوت پر لبیک کہا (اسے قبول کیا) ان کے لئے بھلائی (ہی بھلائی) ہے اور جنہوں نے اسے قبول نہیں کیا۔ تو اگر ان کو روئے زمین کی سب دولت مل جائے اور اس کے ساتھ اتنی ہی اور ان کے اختیار میں آجائے تو یہ لوگ اسے اپنے بدلے (عذاب سے بچنے کے لیے) بطور فدیہ دے دیں۔ یہی لوگ ہیں جن کا سخت حساب ہوگا۔ اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور (وہ) کیا ہی برا ٹھکانا ہے۔ (18) اے (رسول(ص)) کیا جو شخص یہ جانتا ہے کہ جو کچھ آپ پر آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے وہ حق ہے وہ اس شخص کی مانند ہو سکتا ہے جو بالکل اندھا ہے؟ نصیحت تو بس وہی قبول کرتے ہیں جو دانشمند ہوتے ہیں (اور وہی اس بات کو سمجھ سکتے ہیں)۔ (19) وہ جو اللہ سے کئے ہوئے عہد وپیمان کو پورا کرتے ہیں اور عہد شکنی نہیں کرتے۔ (20) اور جو ان رشتوں کو جوڑے رکھتے ہیں جن کے جوڑنے کا خدا نے حکم دیا ہے (صلہ رحمی کرتے ہیں) اور اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں اور سخت حساب سے خائف و ترساں رہتے ہیں۔ (21) اور جو اپنے پروردگار کی خوشنودی کی طلب میں صبر کرتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے اعلانیہ اور پوشیدہ طور پر( ہماری راہ میں) خرچ کرتے ہیں اور جو برائی کو بھلائی سے دور کرتے ہیں عاقبت کا گھر انہی کیلئے ہے۔ (22) یعنی ہمیشگی کے باغ ہیں۔ جن میں وہ خود بھی داخل ہوں گے۔ اور ان کے آباء و اجداد، بیویوں اور اولاد میں سے جو صالح اور نیکوکار ہوں گے۔ وہ بھی (ان کے ہمراہ داخل ہوں گے) اور فرشتے ہر دروازہ سے ان کے پاس آئیں گے۔ (23) (اور کہیں گے) سلام علیکم اس دار آخرت کا انجام کیسا اچھا ہے؟ (24) اور جو لوگ اللہ کے عہد و پیمان کو مضبوط باندھ لینے کے بعد توڑتے ہیں اور جن رشتوں کے جوڑنے کا خدا نے حکم دیا ہے ان کو توڑتے ہیں اور جو زمین میں فساد پھیلاتے ہیں یہ وہ ہیں جن کے لئے لعنت ہے اور ان کے لئے برا گھر (جہنم) ہے۔ (25) اللہ جس کے رزق کو چاہتا ہے کشادہ کر دیتا ہے اور (جس کے لئے چاہتا ہے) تنگ کر دیتا ہے اور یہ (کافر) لوگ دنیوی زندگی سے خوش ہیں حالانکہ دنیا کی زندگی آخرت کی زندگی کے مقابلہ میں صرف ناپائیدار فائدہ ہے۔ (26) اور کافر لوگ کہتے ہیں کہ (اگر یہ نبی برحق ہیں) تو ان کے پروردگار کی طرف سے ان پر (ہماری پسند کی) کوئی نشانی کیوں نہیں اتاری گئی؟ کہہ دیجیئے! اللہ جسے چاہتا ہے گمراہی میں چھوڑتا ہے اور جو اس کی طرف رجوع کرتا ہے اسے ہدایت کرتا ہے۔ (27) یعنی یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے ہیں اور جن کے دل یادِ خدا سے مطمئن ہوتے ہیں یاد رکھو ذکرِ الٰہی سے ہی دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ (28) جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کئے ان کے لئے خوش حالی اور خوش انجامی ہے۔ (29) اسی طرح ہم نے آپ کو ایک ایسی قوم میں رسول بنا کر بھیجا جس سے پہلے بہت سی قومیں گزر چکی ہیں تاکہ آپ انہیں وہ (کلام و پیغام) پڑھ کر سنائیں جو ہم نے بطور وحی آپ پر اتارا ہے حالانکہ وہ لوگ اپنے مہربان خدا کا انکار کر رہے ہیں۔ آپ کہہ دیجئے! وہی میرا پروردگار ہے اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے۔ اسی پر میرا بھروسہ ہے اور اسی کی طرف بازگشت ہے۔ (30) اور اگر کوئی ایسا قرآن ہوتا جس کے ذریعہ سے پہاڑ چلنے لگتے، یا زمین (کی مسافتیں) جلدی طے ہو جاتیں یا مردوں سے کلام کیا جا سکتا (تو وہ یہی قرآن ہوتا مگر وہ پھر بھی ایمان نہ لاتے) بلکہ یہ سب کام اللہ کے اختیار میں ہیں۔ کیا ایمان لانے والے اس بات سے مایوس نہیں ہوگئے اگر خدا (زبردستی) چاہتا تو سب لوگوں کو ہدایت کر دیتا! اور کافروں پر ان کے کرتوتوں کی پاداش میں کوئی نہ کوئی آفت آتی ہی رہے گی۔ یا ان کے گھروں کے آس پاس آتی رہے گی۔ یہاں تک کہ اللہ کے وعدہ کے (ظہور) کا وقت آجائے بے شک اللہ کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتا۔ (31) (اے رسول(ص)) آپ سے پہلے بھی بہت سے پیغمبروں کا مذاق اڑایا گیا ہے مگر میں نے کافروں کو (کچھ مدت تک) ڈھیل دی پھر میں نے انہیں پکڑ لیا۔ تو (دیکھو) میرا عذاب کیسا تھا؟ (32) کیا وہ ذات جو ہر نفس کے (نیک و بد) اعمال پر نگران ہے کہ اس نے کیا کمایا ہے؟ (وہ ان کے خود ساختہ معبودوں جیسا ہے؟) ان لوگوں نے اللہ کے کچھ شریک بنا لئے ہیں؟ اے رسول ان سے کہو کہ آخر ان کے نام تو بتاؤ یا تم اس (اللہ) کو ایسی چیز کی خبر دیتے ہو جسے وہ (ہمہ دان ہو کر بھی) زمین میں نہیں جانتا کہ کہاں ہے؟ یا یونہی یہ ظاہری الفاظ ہیں (جن کا کوئی مصداق نہیں ہے) بلکہ کافروں کے لئے ان کا مکر و فریب خوشنما بنا دیا گیا ہے اور وہ راہ (راست) سے روک دیئے گئے ہیں اور جسے اللہ گمراہی میں چھوڑ دے (اور اسے ہدایت نہ دے) تو اسے کوئی ہدایت کرنے والا نہیں ہے۔ (33) ان کے لئے دنیا کی زندگی میں بھی عذاب ہے اور آخرت کا عذاب تو اور بھی زیادہ سخت ہے اور کوئی نہیں ہے جو انہیں اللہ (کی گرفت) سے بچائے۔ (34) جس جنت کا پرہیزگاروں سے وعدہ کیا گیا ہے اس کی صفت یہ ہے کہ اس کے نیچے سے نہریں جاری ہیں اس کے پھل دائمی ہیں اور اس کا سایہ بھی (لازوال) ہے یہ پرہیزگاروں کا انجام ہے اور کافروں کا انجام آتشِ دوزخ ہے۔ (35) اور (اے رسول) جن کو ہم نے (پہلے) کتاب دی ہے وہ اس (کتاب) سے خوش ہوتے ہیں جو ہم نے آپ پر نازل کی ہے اور ان جماعتوں میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو اس کتاب کے بعض حصوں کا انکار کرتے ہیں آپ کہہ دیجئے کہ مجھے تو صرف یہی حکم دیا گیا ہے کہ میں اللہ کی عبادت کروں اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤں میں اسی کی طرف دعوت دیتا ہوں اور اسی کی طرف میری بازگشت ہے۔ (36) اسی طرح ہم نے اس قرآن کو عربی فرمان کی شکل میں نازل کیا ہے اور اگر آپ اپنے پاس علم (قرآن) کے آجانے کے بعد بھی انکی خواہشات کی پیروی کریں گے تو اللہ کے مقابلہ میں آپ کا نہ کوئی سرپرست و کارساز ہوگا اور نہ کوئی بچانے والا۔ (37) اور بے شک ہم نے آپ سے پہلے بہت سے رسول بھیجے ہیں اور ان کے لئے بیوی بچے قرار دیئے اور کسی رسول کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اللہ کے حکم کے بغیر کوئی معجزہ پیش کرے ہر وقت کے لیے ایک کتاب (نوشتہ) ہے۔ (38) اللہ جو چاہتا ہے وہ (لکھا ہوا) مٹا دیتا ہے اور (جو چاہتا ہے) برقرار رکھتا ہے اور اس کے پاس ام الکتاب (اصل کتاب یعنی لوح محفوظ) ہے۔ (39) اور اگر ہم آپ کو کچھ وہ باتیں آنکھوں سے دکھا دیں جن کا ہم ان (کفار) سے وعدہ وعید کر رہے ہیں یا ہم (ان کے ظاہر ہونے سے پہلے) آپ کو اٹھا لیں بہرحال (ہمارا پیغام) پہنچانا آپ کا کام ہے اور حساب لینا ہمارا کام ہے۔ (40) کیا یہ لوگ نہیں دیکھتے کہ ہم زمین کو اس کے اطراف و جوانب سے برابر گھٹاتے چلے آتے ہیں اللہ ہی حکم دینے والا (اور فیصلہ کرنے والا) ہے اس کے حکم کو کوئی ٹالنے والا نہیں ہے اور وہ بہت جلد حساب لینے والا ہے۔ (41) جو لوگ ان سے پہلے گزر چکے ہیں انہوں نے بڑی مخفی تدبیریں کیں سو ہر قسم کی تدبیریں اور ترکیبیں اللہ ہی کے قبضۂ قدرت میں ہیں وہی جانتا ہے کہ ہر شخص کیا کمائی کر رہا ہے اور بہت جلد کافروں کو معلوم ہو جائے گا کہ اس گھر کا انجام (بخیر) کس کا ہے؟ (42) اور کافر لوگ کہتے ہیں کہ آپ رسول نہیں ہیں کہہ دیجیے کہ میرے اور تمہارے درمیان بطور گواہ اللہ کافی ہے اور وہ شخص جس کے پاس کتاب کا علم ہے۔ (43) |
پچھلی سورت: سورہ یوسف | سورہ رعد | اگلی سورت:سورہ ابراہیم |
1.فاتحہ 2.بقرہ 3.آلعمران 4.نساء 5.مائدہ 6.انعام 7.اعراف 8.انفال 9.توبہ 10.یونس 11.ہود 12.یوسف 13.رعد 14.ابراہیم 15.حجر 16.نحل 17.اسراء 18.کہف 19.مریم 20.طہ 21.انبیاء 22.حج 23.مؤمنون 24.نور 25.فرقان 26.شعراء 27.نمل 28.قصص 29.عنکبوت 30.روم 31.لقمان 32.سجدہ 33.احزاب 34.سبأ 35.فاطر 36.یس 37.صافات 38.ص 39.زمر 40.غافر 41.فصلت 42.شوری 43.زخرف 44.دخان 45.جاثیہ 46.احقاف 47.محمد 48.فتح 49.حجرات 50.ق 51.ذاریات 52.طور 53.نجم 54.قمر 55.رحمن 56.واقعہ 57.حدید 58.مجادلہ 59.حشر 60.ممتحنہ 61.صف 62.جمعہ 63.منافقون 64.تغابن 65.طلاق 66.تحریم 67.ملک 68.قلم 69.حاقہ 70.معارج 71.نوح 72.جن 73.مزمل 74.مدثر 75.قیامہ 76.انسان 77.مرسلات 78.نبأ 79.نازعات 80.عبس 81.تکویر 82.انفطار 83.مطففین 84.انشقاق 85.بروج 86.طارق 87.اعلی 88.غاشیہ 89.فجر 90.بلد 91.شمس 92.لیل 93.ضحی 94.شرح 95.تین 96.علق 97.قدر 98.بینہ 99.زلزلہ 100.عادیات 101.قارعہ 102.تکاثر 103.عصر 104.ہمزہ 105.فیل 106.قریش 107.ماعون 108.کوثر 109.کافرون 110.نصر 111.مسد 112.اخلاص 113.فلق 114.ناس |
نوٹ
حوالہ جات
- ↑ ابنعاشور، تفسیر التحریر و التنویر، ۱۹۸۴م، ج۱۳، ص۷۵۔
- ↑ طباطبائی، المیزان، ج۱۱، ص ۲۵۸؛ ابن عاشور، تفسیر التحریر و التنویر، ۱۹۸۴م، ج۱۳، ص ۷۶؛ سید قطب، فی ظلال القرآن، ۱۹۷۶، ج۵، جزء ۱۳، ص ۶۳۔
- ↑ معرفت، آموزش علوم قرآن، ج۱، ص۱۷۷۔ دیگر کسانی کہ این سورہ را مدنی خواندہاند: زرکشی، البرہان فی علوم القرآن، ۱۴۰۸ق، ج۱، ص۱۹۵۔ ابن جوزی، زاد المسیر فی علم التفسیر، ۱۴۰۴ق، ج۴، ص۲۹۹۔
- ↑ معرفت، آموزش علوم قرآن، ج۱، ص۱۶۸۔ رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۲ش، ص۵۸۴۔ البتہ بعض اسے 95ویں (زرکشی، البرہان فی علوم القرآن، ۱۴۰۸ق، ج۱، ص۱۹۴) اور بعض 73ویں سورت شمار کرتے ہیں۔(مقدمتان فی علوم القرآن، ص ۹)۔
- ↑ دانشنامہ قرآن و قرآنپژوہی، ۱۳۷۷ش، ج۲، ص۱۲۴۰۔
- ↑ دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، ج2، ص1240۔
- ↑ طباطبایی، المیزان، ج۱۱، ص۳۸۷۔
- ↑ خامہگر، محمد، ساختار سورہہای قرآن کریم، تہیہ مؤسسہ فرہنگی قرآن و عترت نورالثقلین، قم، نشر نشرا، چ۱، ۱۳۹۲ش.
- ↑ طبرسی، مجمع البیان؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر؛ قرطبی، الجامع لاحکام القرآن؛ طباطبائی، المیزان، ذیل آیہ ۱۳ رعد۔
- ↑ سید قطب، فی ظلال القرآن، ۱۹۷۶، ذیل آیہ؛ محمدجواد مغنیہ، التفسیر الکاشف، ذیل آیہ؛ زحیلی، التفسیر المنیر، ۱۴۱۸ق، ذیل آیہ۔ برای بحث و نقد این دیدگاہ: خرمشاہی، تفسیر و تفاسیر جدید، ص۱۲۴-۱۳۱۔
- ↑ طباطبائی، المیزان، ذیل آیہ
- ↑ طباطبایی، المیزان، ج۱۱، ص۳۵۵۔
- ↑ عیاشی، تفسیر عیاشی، ج۲، ص۲۱۱، ح۴۴۔
- ↑ کوفی، تفسیر فرات، ص۲۰۷۔
- ↑ طبری، الجامع، ذیل آیہ؛ طبرسی، مجمع البیان، ذیل آیہ۔
- ↑ ابن جوزی، زاد المسیر فی علم التفسیر، ۱۴۰۴ق، ذیل آیہ۔
- ↑ ابن عاشور، تفسیر التحریر و التنویر، ۱۹۸۴م، ج۱۳، ص ۷۶
- ↑ زمخشری، الکشاف، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۵۳۶
- ↑ طباطبائی، المیزان، ذیل آیہ؛ نیز: طبرسی، مجمع البیان؛ قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، ذیل آیہ؛ مجلسی، بحار الانوار، ج۳۵، ص۴۲۹-۴۳۶
- ↑ طوسی، التبیان، ذیل آیہ ۱۳ ؛ سورآبادی، تفسیر التفاسیر، ۱۳۸۱، ذیل آیہ ۱۳ ؛ طبرسی، مجمع البیان، ذیل آیہ ۱۳ ؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، ذیل آیہ ۱۳؛ نظام اعرج، تفسیر غرائب القرآن، ذیل آیہ ۱۳
- ↑ نظام اعرج، تفسیر غرائب القرآن، ذیل آیہ ۱۳ رعد؛ مجلسی، بحارالانوار، ج۵۶، ص ۳۵۷؛ اسماعیل حقی بروسوی، تفسیر روح البیان، ۱۴۰۵ق، ذیل آیہ
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، ج۶، ص ۴۱۹؛ محدث نوری، مستدرک الوسائل، ج۴، ص۳۴۳؛
- ↑ صدوق، ثواب الاعمال و عقاب الاعمال، ص ۱۰۷
- ↑ ایروانی، دروس تمہیدیہ، ج۱، ص۴۶۲۔
- ↑ امام خمینی، توضیح المسائل (محشی)، ج۲، ص۶۲۲.
مآخذ
- قرآن کریم، ترجمہ محمد حسین نجفی (سرگودھا)۔
- ابن جوزی، زاد المسیر فی علم التفسیر، بیروت، ۱۴۰۴ق۔
- ابن عاشور، محمد طاہر بن محمد، تفسیر التحریر و التنویر، تونس، ۱۹۸۴م۔
- امام خمینی، توضیح المسائل (محشی)، محقق و مصحح: سیدمحمدحسین بنیہاشمی خمینی، قم، دفتر انتشارات اسلامی، ۱۴۲۴ق۔
- ایروانی، باقر، دروس تمہیدیہ فی تفسیر آیات الاحکام، قم، دار الفقہ، ۱۳۸۱ش۔
- حقی بروسوی، اسماعیل، تفسیر روح البیان، بیروت، ۱۴۰۵ق۔
- خرمشاہی، بہاءالدین، تفسیر و تفاسیر جدید، تہران، ۱۳۶۴ش۔
- دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، ج۲، بہ کوشش بہاءالدین خرمشاہی، تہران، دوستان-ناہید، ۱۳۷۷ش۔
- رامیار، محمود، تاریخ قرآن، تہران، ۱۳۶۲ش۔
- زحیلی، وہبہ مصطفی، التفسیر المنیر فی العقیدۃ و الشریعۃ و المنہج، بیروت، ۱۴۱۸ق۔
- زرکشی، محمد بن بہادر، البرہان فی علوم القرآن، چاپ محمد ابوالفضل ابراہیم، بیروت، ۱۴۰۸ق۔
- زمخشری، محمود، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل، بیروت، دار الکتاب العربی، ۱۴۰۷ق
- سورآبادی، عتیق بن محمد، تفسیر التفاسیر، چاپ علیاکبر سعیدی سیرجانی، تہران، ۱۳۸۱۔
- سید قطب، فی ظلال القرآن، بیروت، ۱۳۸۶/۱۹۷۶ق۔
- طباطبایی، سیدمحمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات، چاپ دوم، ۱۳۹۰ق۔
- طبرانی، سلیمان بن احمد، المعجم الکبیر، چاپ حمدی عبدالمجید سلفی، چاپ افست، بیروت، ۱۴۰۴-؟۔
- طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان، بہ تصحیح فضلاللہ یزدی طباطبایی و ہاشم رسولی، تہران، ناصر خسرو، چاپ سوم، ۱۳۷۲ش۔
- طبری، جامع البیان عن تأویل آی القرآن، مصر ۱۳۷۳/۱۹۵۴
- طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، چاپ احمد حبیب قصیر عاملی، بیروت، [بیتا]
- طیب، عبدالحسین، اطیب البیان، فی تفسیر القرآن، تہران، ۱۳۶۶ش۔
- عیاشی، محمد بن مسعود، تفسیر عیاشی، بہ تحقیق ہشام رسولی، چاپ اول، تہران، مکتبۃ العلمیۃ الاسلامیۃ، ۱۳۸۰ق۔
- فخر رازی، التفسیر الکبیر، قاہرہ، [بیتا]، چاپ افست تہران [بیتا]۔
- قرطبی، محمدبن احمد، الجامع لاحکام القرآن، ج۵، جزء۹، قاہرہ ۱۳۸۷/۱۹۶، چاپ افست تہران، ۱۳۶۴ش
- قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، چاپ طیب موسوی جزایری، قم، ۱۴۰۴
- کوفی، فرات بن ابراہیم، تفسیر فرات، تہران، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، چاپ اول، ۱۴۱۰ق۔
- مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، ۱۴۰۳/۱۹۸۳
- مراغی، احمد مصطفی، تفسیر المراغی، بیروت، [۱۳۶۵]
- معرفت، محمدہادی، آموزش علوم قرآن، [بیجا]، مرکز چاپ و نشر سازمان تبلیغات اسلامی، چ۱، ۱۳۷۱ش۔
- مغنیہ، محمدجواد، التفسیر الکاشف، بیروت، ۱۹۸۰-۱۹۸۱
- مقدمتان فی علوم القرآن، چاپ آرتور جفری و عبداللہ اسماعیل صاوی، قاہرہ، مکتبۃ الخانجی، ۱۳۹۲/۱۹۷۲
- نظام اعرج، حسن بن محمد، تفسیر غرائب القرآن و رغائب الفرقان، چاپ زکریا عمیرات، بیروت، ۱۴۱۶/۱۹۹۶ق۔