آیت وضو

ویکی شیعہ سے
(آیہ وضو سے رجوع مکرر)
آیت وضو
آیت کی خصوصیات
آیت کا نامآیت وضو
سورہمائدہ
آیت نمبر6
پارہ6
صفحہ نمبر108
محل نزولمدینہ
موضوعفقہ
مضمونوضو کی کیفیت


آیۂ وضو سورہ مائدہ کی چھٹی آیت اور آیات‌ الاحکام میں سے ہے۔ فقہاء اس آیت سے وضو کرنے کا طریقہ اور نماز کے لئے وضو کے واجب ہونے کا فتوا دیتے ہیں۔ اس آیت میں مسلمانوں‌ کو حکم دیا جا رہا ہے کہ جب بھی نماز پڑھنے لگو تو پہلے چہرے کو اس کے بعد ہاتھوں کو کلائیوں تک دھو لیں اس کے بعد سر اور پاؤں کا مسح کریں۔

شیعہ اور اہل سنت فقہاء کے درمیان وضو کے طریقے میں اختلاف ہے جس کا سرچشمہ ایک تو آیت وضو سے ان کا الگ الگ مفہوم اخذ کرنا ہے جب کہ دوسرب وجوہات میں وہ احادیث آتے ہیں جن سے دونوں فریق استناد کرتے ہیں۔

مثال کے‌ طور پر شیعہ فقہاء مذکوہ آیت اور پیغمبر اکرمؐ اور ائمہ معصومینؑ کی سنت سے استناد کرتے ہوئے اس بات کے معتقد ہیں کہ ہاتھوں کو کلائیوں سے انگلیوں کی طرف دھونا چاہئے لیکن اکثر اہل سنت فقہاء مذکورہ آیت، پیغمبر اکرمؐ اور صحابہ کی سنت سے استناد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہاتھوں کو انگلیوں سے کلائیوں کی طرف دھونا چاہئے۔

اسی طرح شیعہ امامیہ کہتے ہیں کہ آیت کے مطابق دونوں پاؤں پر مسح کرنا واجب ہے اور مسح کی جگہ ان کو دھونا وضو کے باطل ہونے کا سبب ہے جبکہ اہل سنت وضو میں پاؤں کو دھونا واجب سمجھتے ہیں۔

آیت اور ترجمہ

یا أَیہَا الَّذینَ آمَنُوا إِذا قُمْتُمْ إِلَی الصَّلاۃِ فَاغْسِلُوا وُجُوہَکُمْ وَ أَیدِیکُمْ إِلَی الْمَرافِقِ وَ امْسَحُوا بِرُؤُسِکُمْ وَ أَرْجُلَکُمْ إِلَی الْکَعْبَین


اے ایمان والو! جب نماز کے لیے کھڑے ہونے لگو تو اپنے چہروں اور کہنیوں سمیت اپنے ہاتھوں کو دھوؤ۔ اور سروں کے بعض حصہ کا اور ٹخنوں تک پاؤں کا مسح کرو۔



سورہ مائدہ: آیت 6


اہمیت اور مقام

آیت وضو سورہ مائدہ کی چھٹی آیت ہے جس سے مسلمان فقہا نماز پڑھنے کے لئے وضو کا واجب ہونا[1] اور وضو کرنے کا طریقہ بیان کرتے ہیں۔[2] اسی طرح اس آیت سے اس مسئلے کو بھی ثابت کیا جاتا ہے کہ پانی سے حدث اصغر کو رفع کیا جا سکتا ہے۔[3] یہ آیت آیات‌ الاحکام میں سے ہے اس بنا پر مفسرین[4] کے علاوہ فقہا نے بھی آیات‌ الاحکام سے مربوط کتابوں میں اس آیت سے بحث کی ہے۔[5]

نماز کے لئے وضو کے‌ واجب ہونے پر دلالت

اس آیت میں جملہ: إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاۃِ، فَاغْسِلُوا... (ترجمہ: جب نماز کے لیے کھڑے ہونے لگو تودھوؤ...)، میں وضو کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور فقہاء کی نظر میں یہ چیز نماز کے لئے وضو کے واجب ہونے پر دلالت کرتی ہے۔[6]

فقہاء کے مطابق یہ آیت واضح اور آشکار طور پر نماز کے صحیح ہونے کے لئے وضو کے شرط ہونے پر دلالت کرتی ہے[7] اس سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ وضو یا طہارت واجب نفسی نہیں بلکہ واجب غیری ہے؛[8] یعنی جو شخص نماز پڑھنا نہیں چاہتا اس پر وضو واجب نہیں ہے لھذا وضو کے ترک کرنے پر اس پر عذاب نہیں ہوگا۔[9]

چہرہ اور ہاتھوں کو دھونا

شیعہ اور اہل سنت فقہاء اس آیت سے استناد کرتے ہوئے اس بات پر متفق ہیں کہ وضو میں سب سے پہلے چہرے اور اس کے بعد ہاتھوں کو دھونا واجب ہے کیونکہ آیت میں سب سے پہلے فَاغْسِلُوا وُجُوہَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ (ترجمہ: اپنے چہرے کو اور ہاتھوں کو کہنیوں تک دھو لو) آیا ہے۔[10] «وُجُوہ» لفظ «وَجہ» کا جمع ہے جس کے معنی چہرہ کے ہیں۔[11] البتہ ہاتھوں کو کہاں سے کہاں تک اور کس طرح دھونا ہے اس بارے میں دونوں فریق کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے:[12]

  • امامیہ فقہاء کا اس بات پر اجماع ہے کہ وضو میں کہنیوں کو بھی دھونا واجب ہے اسی طرح ہاتھوں کو کہنیوں سے انگلیوں کی طرف دھونا واجب ہے؛[13] کیونکہ پہلی بات یہ کہ «اِلی المرافق» میں لفظ «إلی» «مع» یعنی ساتھ کے معنی میں آیا ہے یعنی آیت کا مفہوم یہ ہے کہ وضو میں‌ کلائیوں کو بھی دھونا واجب ہے۔[14] دوسری بات یہ کہ وضو میں ہو یا وضو کے علاوہ ویسے دھونا ہو ہر صورت میں فطری طور پر ہاتھوں کو اوپر سے نیچے دھویا جاتا ہے۔[15] تیسری بات یہ کہ پیغمبر اکرمؐ اور ائمہ معصومینؑ کی سنت اور سیرت میں بھی یہی مشاہدہ کیا گیا ہے کہ یہ حضرات بھی ہاتوں کو کہنیوں سے انگلیوں کی طرف دھویا کرتے تھے۔[16]
  • اکثر اہل‌ سنت فقہاء کے مطابق بھی وضو میں کہنیوں کو دھونا واجب ہے۔[17] بعض اہل سنت فقہاء کہتے ہیں کہ آیت سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ ہاتھوں کو انگلیوں سے کہنیوں کی طرف دھونا واجب ہے۔[18] فخر رازی کے مطابق اکثر اہل‌ سنت فقہاء کے مطابق ہاتھوں کو کہنیوں سے انگلیوں کی طرف دھونے سے وضو میں کوئی خلل پیدا نہیں ہوتا لیکن بہتر ہے انگلیوں سے کہنیوں کی طرف دھویا جائے۔[19]

مسح

تمام مسلمان فقہاء آیت وضو کے اس حصے: «وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ؛ (ترجمہ: اور اپنے سر اور پاؤں کو ٹخنوں تک مسح کرو)، سے سر اور پاؤں پر مسح کرنے کو وضو میں واجب سمجھتے ہیں؛[20] لیکن مسح کی نوعیت اور اس کے محدودے میں شیعہ اور اہل سنت فقہاء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔[21]

سر کا مسح

امامیہ اور شافعیہ فقہاء اس بات کے معتقد ہیں کہ سر کے ایک حصے کا مسح کرنا اتنا حصہ کہ جس پر مسح کرنا صدق آئے کافی ہے۔[22] ان کے نزدیک «بِرُءُوسِكُمْ» میں «باء» «بعض» کے معنی میں ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ سر کے کچھ حصے پر مسح کرنا ہے نہ یہ کہ پورے سر کا مسح مراد ہو۔[23] البتہ امامیہ بعض روایات[24] اور اجماع[25] سے استناد کرتے ہوئے اس بات کے قائل ہیں کہ یہ حصہ سر کے اگلے حصے میں سے ہونا چاہئے[26] لیکن شافعی کہتے ہیں کہ آیت میں سر کے کس حصے پر مسح کرنا ہے تعیین نہیں ہوا اس بنا پر سر کے کسی بھی حصے پر مسح کیا جا سکتا ہے۔[27] اسی طرح شافعی فقہاء کے مطابق مسح کے بدلے سر کو دھونا یا اس پر پانی چھڑکنا بھی جائز ہے؛ لیکن امامیہ فقہاء اسے جائز نہیں سمجھتے ہیں۔[28]

فقہائے حنابلہ کے مطابق پورے سر حتی کانوں تک کا مسح کرنا واجب ہے۔[29] مالکیہ فقہاء کے مطابق کانوں کے بغیر پورے سر کا مسح کرنا واجب ہے۔ حنفی فقہاء کے مطابق سر کے ایک چوتھائی حصے پر مسح کرنا ضروری ہے اور مسح کے بدلے سر کو پانی میں ڈبونا یا اس پر پانی ڈالنا بھی کافی ہے۔[30]

پاؤں کا مسح

پاؤں پر مسح کرنے یا انہیں دھونے کے باری میں شیعہ اور اہل سنت فقہاء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔[31] امامیہ فقہاء پیغمبر اکرمؐ اور ائمہ معصومینؑ کی سنت[32] اور اجماع [33] سے استناد کرتے ہوئے اس بات کے قائل ہیں کہ پاؤں کو انگلیوں کے سرے سے ٹخنوں تک مسح کرنا واجب ہے اور مسح کے بدلے انہیں دھونا وضو کے باطل ہونے کاسبب ہے؛ حالانکہ اکثر اہل‌ سنت فقہاء پیغمبر اکرمؐ کی سنت[34] اور اجماع صحابہ [35] سے استناد کرتے ہوئے پاؤں کو ٹخنوں تک دھونا واجب سمجھتے ہیں۔[36]

آیت میں قرأت کا اختلاف

آیت وضو میں کی دو طرح سے قرأت کی جاتی ہے:

  1. ابن‌ کثیر، حمزۃ بن حبیب، ابو عمر اور ابوبکر بن عیاش کی عاصم سے قرأت میں کلمہ «أَرْجُلِكُمْ» کو «بِرُءُوسِكُمْ» پر عطف کر کے «مجرور» (زیر کے ساتھ) پڑھا گیا ہے۔[37]
  2. جبکہ نافع، ابن‌ عامر اور حَفْص کی عاصم سے قرأت میں کلمہ «أَرْجُلَكُمْ» کو «منصوب» (زبر کے ساتھ) پڑھا گیا ہے۔[38] اسی بنا پر بعض اہل‌ سنت علماء کہتے ہیں کہ کلمہ «أَرْجُلَكُمْ» کلمہ «وُجُوہَكُمْ» پر عطف اور منصوب ہے۔ اس بنا پر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ پاؤں کو چہرے کی طرح دھونا واجب ہے اور ان کا مسح کرنا کافی نہیں ہے؛[39] لیکن شیعہ علماء کہتے ہیں کہ «أَرْجُلَكُمْ» یہاں کلمہ «بِرُءُوسِكُمْ» کے محل پر عطف ہے اور «بِرُءُوسِكُمْ» کا ظاہری اعراب اگر چہ «مجرور» (زیر کے ساتھ) ہے لیکن حقیقت میں یہ نصب کی جگہ اور منصوب ہے کیونکہ مفعول ہے یہ ظاہری اعراب عربی قواعد کی وجہ سے ہے۔[40]

حوالہ جات

  1. نمونہ‌ کے لئے ملاحظہ کریں:خویی، التنقیح فی شرح العروۃ الوثقی، 1410ق، ج7، ص231۔
  2. نمونہ‌ کے لئے ملاحظہ کریں: محقق اردبیلی، زبدۃ البیان فی احکام القرآن، المکتبۃ المرتضویۃ لاِحیاء الآثار الجعفریہ، ص15-18۔
  3. ایروانی، دروس تمہیدیۃ فی تفسیر آیات الاحکام، 1428ق، ج1، ص48۔
  4. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: شیخ طوسی، التبیان فی تفسیر القرآن، دار احیاء التراث العربی، ج3، ص447۔
  5. نمونہ‌ کے لئے ملاحظہ کریں: محقق اردبیلی، زبدۃ البیان فی احکام القرآن، المکتبۃ المرتضویۃ لاحیاء الآثار الجعفریۃ، ص14؛ فاضل مقداد، کنز العرفان فی فقہ القرآن، 1373ش، ج1، ص6۔
  6. فاضل مقداد، کنز العرفان فی فقہ القرآن، 1373ش، ج1، ص8۔
  7. فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ق، ج11، ص298؛ نجفی، جواہر الکلام، 1362ش، ج2، ص91؛ ایروانی، دروس تمہیدیۃ فی تفسیر آیات الأحکام، 1428ق، ج1، ص56۔
  8. فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ق، ج11، ص297؛ ایروانی، دروس تمہیدیۃ فی تفسیر آیات الأحکام، 1428ق، ج1، ص56۔
  9. ایروانی، دروس تمہیدیۃ فی تفسیر آیات الأحکام، 1428ق، ج1، ص56۔
  10. محقق اردبیلی، زبدۃ البیان، المکتبۃ المرتضویۃ لإحیاء الآثار الجعفریۃ، ص16۔
  11. دہخدا، فرہنگ‌لغت دہخدا، 1377ش، ذیل واژہ «وجہ»، محقق اردبیلی، زبدۃ البیان، المکتبۃ المرتضویۃ لإحیاء الآثار الجعفریۃ، ص16؛ مغنیۃ، الفقہ علی المذاہب الخمسۃ، 1421ق، ص36۔
  12. فاضل جواد، مسالک الافہام الی آیات الاحکام، 1365ش، ج1، ص42-43۔
  13. شیخ طوسی، التبیان فی تفسیر القرآن، دار احیاء التراث العربی، ج3، ص450-451؛ سبزواری، مہذب الاحکام، دار التفسیر، ج2، ص333۔
  14. شیخ طوسی، الخلاف، 1407ق، ج1، ص78؛ ہمدانی، مصباح الفقیہ، 1418ق، ج2، ص321۔
  15. طباطبایی، المیزان، 1363ش، ج5، ص221۔
  16. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں:حر عاملی، وسائل الشیعہ، 1416ق، ج1، ص387 و 393؛ فاضل مقداد، کنز العرفان فی فقہ القرآن، 1373ش، ج1، ص10؛ خویی، التنقیح فی شرح العروۃ الوثقی، 1410ق، ج5، ص81۔
  17. فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ق، ج11، ص303؛ جمعی از نویسندگان، الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ، 1427ق، ج37، ص30۔
  18. فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ق، ج11، ص304؛ جزیری، الفقہ علی المذاہب الاربعۃ، 1424ق، ج1، ص63۔
  19. فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ق، ج11، ص304۔
  20. ابن‌قدامہ، المغنی، 1388ق، ج1، ص92؛ خویی، التنقیح فی شرح العروۃ الوثقی، 1410ق، ج5، ص108۔
  21. ابن‌قدامہ، المغنی، 1388ق، ج1، ص93؛ خویی، التنقیح فی شرح العروۃ الوثقی، 1410ق، ج5، ص108۔
  22. فاضل مقداد، کنزل العرفان فی فقہ القرآن، 1373ش، ج1، ص10؛ جزیری، الفقہ علی المذاہب الاربعۃ، 1424ق، ج1، ص62۔
  23. کلینی، الکافی، 1430ق، ج5، ص96؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ق، ج11، ص304؛ فاضل جواد، مسالک الافہام إلی آیات الاحکام، 1365ش، ج1، ص44۔
  24. شیخ طوسی، تہذیب الاحکام، 1364ش، ج1، ص62۔
  25. محقق اردبیلی، زبدۃ البیان فی احکام القرآن، المکتبۃ المرتضویۃ لإحیاء الآثار الجعفریۃ، ص17۔
  26. فاضل جواد، مسالک الافہام إلی آیات الاحکام، 1365ش، ج1، ص44۔
  27. فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ق، ج11، ص304-405۔
  28. مغنیۃ، الفقہ علی المذاہب الخمسۃ، 1421ق، ص36؛ جزیری، الفقہ علی المذاہب الاربعۃ، 1424ق، ج1، ص62۔
  29. مغنیۃ، الفقہ علی المذاہب الخمسۃ، 1421ق، ص36۔
  30. مغنیۃ، الفقہ علی المذاہب الخمسۃ، 1421ق، ص36۔
  31. فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ق، ج11، ص305۔
  32. حر عاملی، وسائل الشیعہ، 1416ق، ج1، ص418-423۔
  33. محقق اردبیلی، زبدۃ البیان، المکتبۃ المرتضویۃ لإحیاء الآثار الجعفریۃ، ص18۔
  34. مسلم، صحیح مسلم، دار إحیاء التراث العربی، ج1، ص215۔
  35. جمعی از نویسندگان، الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ، 1427ق، ج43، ص353۔
  36. جمعی از نویسندگان، الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ، 1427ق، ج22، ص121 و ج43، ص352۔
  37. فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ق، ج11، ص305؛ طباطبایی، المیزان، 1363ش، ج5، ص222۔
  38. فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ق، ج11، ص305؛ طباطبایی، المیزان، 1363ش، ج5، ص222۔
  39. جمعی از نویسندگان، الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ، 1427ق، ج43، ص352۔
  40. طباطبایی، المیزان، 1363ش، ج5، ص222؛ صفایی بوشہری، بدایۃ النحو، 1396ش، ص81 و ص94-95۔

مآخذ

  • قرآن کریم ترجمہ محمد حسین نجفی۔
  • الفقہ علی المذاہب الاربعہ، عبدالرحمان جزیری، دارالثقلین، بیروت
  • الفقہ علی المذاہب الخمسہ، محمد جواد مغنیہ، دار التیار الجدید، بیروت
  • چرا چرا، علی عطایی اصفہانی، امیر العلم
  • وسائل الشیعہ، شیخ حر عاملی، محمد بن حسن‏، مؤسسۃ آل البیت علیہم السلام‏، قم، 1409ھ۔
  • سید محمد حسین؛ المیزان فی تفسیر القرآن، موسسہ النشر الاسلامی
  • کلینی، محمد بن یعقوب‏، کافی، دار الکتب الإسلامیۃ، 1407ھ۔
  • مفاتیح الغیب، رازی، فخر الدین محمد بن عمر، دار احیاء التراث العربی، چاپ سوم، بیروت، 1420ھ۔
  • تفسیر المنار، رشید رضا، محمد، دار المعرفہ، چاپ دوم، بیروت
  • الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل، زمخشری، محمود، دار الکتاب العربی، چاپ سوم، بیروت، 1407ھ۔
  • تفسیر نمونہ، مکارم شیرازی، ناصر، دار الکتب الإسلامیہ، تہران، چاپ اول، 1374ہجری شمسی۔
  • فرہنگ ابجدی، بستانی، فؤاد افرام، مہیار، رضا، فرہنگ ابجدی عربی- فارسی، اسلامی، تہران، چاپ دوم، 1375ہجری شمسی۔
  • فتح القدیر، شوکانی، محمد بن علی، دار ابن کثیر، دار الکلم الطیب، دمشق، بیروت، چاپ اول، 1414ھ۔
  • المقنعہ، شیخ مفید، محمّد بن محمد بن نعمان، المقنعہ، کنگرہ جہانی ہزارہ شیخ مفید، قم، چاپ اول، 1413ھ۔
  • غنیۃ النزوع إلی علمی الأصول و الفروع، ابن زہرہ حلبی، حمزۃ بن علی، مؤسسہ امام صادق(ع)، قم، چاپ اول، 1417ھ۔
  • قاموس قرآن، سید علی اکبر قرشی، دار الکتب الإسلامیۃ، تہران، 1371ہجری شمسی۔
  • تفسیر شاہی، جرجانی، سید امیر ابو الفتح حسینی، نوید، تہران، چاپ اول، 1404ھ۔
  • تفسیر تسنیم، جوادی آملی، عبداللہ، اسراء، قم
  • الانتصار فی انفرادات الإمامیۃ، سید مرتضی، علی بن حسین، دفتر انتشارات اسلامی، قم، چاپ اول، 1415ھ۔