خطبہ متقین
حدیث کے کوائف | |
---|---|
دوسرے اسامی | خطبہ ہمام |
موضوع | توصیف پرهیزکاران، مؤمنان یا شیعیان |
صادر از | امام علیؑ |
اعتبارِ سند | معتبر |
شیعہ مآخذ | نہج البلاغہ، التمحیص، امالی شیخ صدوق اور کنز الفوائد وغیرہ |
مشہور احادیث | |
حدیث سلسلۃ الذہب . حدیث ثقلین . حدیث کساء . مقبولہ عمر بن حنظلہ . حدیث قرب نوافل . حدیث معراج . حدیث ولایت . حدیث وصایت . حدیث جنود عقل و جہل |
خُطبہ مُتّقین یا خطبہ ہَمّام، نہج البلاغہ کے مشہور خطبوں میں سے ہے جسے اخلاق اور تقوا کے موضوع پر ارشاد فرمایا ہے۔ امام علیؑ نے اس خطبے کو اپنے ایک صحابی کے درخواست پر ارشاد فرمایا جس کا نام ہَمّام تھا۔ اس خطبے کو سننے کے بعد ہمام کی حالیت غیر ہو گئی اور بے ہوش گیا اور اسی حالت میں اس دنیا سے رخصت ہوا۔ خطبہ متقین میں متقین کے فردی، اجتماعی اور عبادی خصوصیات بیان کی گئی ہے۔ من جملہ ان خصوصیات میں امانت داری، کَظْمِ غَیْظ، حِلْم اور عبادت میں حضوع و خشوع کا نام لیا جا سکتا ہے۔
یہ خطبہ نہج البلاغہ کے علاوہ اَلتَّمحیص، اَمالی شیخ صدوق اور کَنزُالْفَوائد جیسے منابع میں بھی ذکر ہوا ہے؛ اس بنا پر بعض محققین اس خطبے کو سند کے اعتبار سے متواتر قرار دیتے ہیں۔ بعض محققین اس بات کے معتقد ہیں کہ اس خطبے کا اصل متن مختصر تھا اور زمانہ گزرنے کے ساتھ اس میں مختلف جملات اضافہ کیا گیا ہے۔
نہج البلاغہ کی مکمل ترجموں اور شروحات کے ضمن میں اس خطبے کے ترجمے اور تشریح کے علاوہ خصوصی طور پر اس خطبے کے ترجمے اور شرحیں بھی لکھی گئی ہیں من جملہ ان میں "اخلاق اسلامی در نہج البلاغہ"، "راہ و رسم پرہیزکاران" اور "أشعۃٌ مِن خطبۃِ الْمتقین" کان نام لیا جا سکتا ہے۔
تعارف اور اہمیت
خطبہ مُتَّقین نہج البلاغہ کے مشہور[1] اور امام علیؑ کے عرفان و تربیت کے موضوع پر دیئے گئے اہم خطبوں میں سے ہے۔[2] شیعہ مراجع تقلید میں سے آیت اللہ مکارم شیرازی اس خطبہ کو اخلاق اور تقوا کے موضوع پر نہج البلاغہ کے جامع ترین خطبوں میں شمار کرتے ہیں۔[3] اس سلسلے میں کی گئی بعض تحقیقات میں اس خطبے کو اخلاق اور تہذیب نفس کے حوالے سے ایک مناسب منبع اور مآخذ قرار دیا گیا ہے۔[4]شیعہ مفسر قرآن آیت اللہ مصباح کے مطابق یہ خطبہ امام باقرؑ[5] اور امام صادقؑ[6] سے بھی نقل ہوا ہے، جو اس خطبے کی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔[7] اگرچہ سید رضی نے نہج البلاغہ میں اس خطبے کا کوئی نام ذکر نہیں کیا ہے،[8] لیکن اس خطبے کا متقی اور پرہیزگاروں کی توصیف پر مشتمل ہونے کی بنا پر یہ خطبہ اسی نام کے ساتھ مشہور ہوا ہے۔[9]
امام علیؑ نے اس خطبہ کو اپنے ایک صحابی کی درخواست پر دیا جس کا نام ہَمَّام تھا۔[10]یہ خطبہ نہج البلاغہ کے علاوہ دیگر منابع میں بھی ذکر ہوا ہے جسے امام علیؑ نے مُتَّقین[11] یا مؤمنین[12] یا شیعیان علی[13] کی توصیف میں بیان کیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ہمام اس خطبے کو سننے کے بعد اس کی حالت غیر ہو گئی اور بے ہوش ہو کر گر پڑے اور اسی حالت میں اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔[14] امام علیؑ نے اس خطبے میں متقی اور پرہیزگاروں کی توصیف کرتے ہوئے ان کی تقریبا 100 نشانیوں کو بیان کیا ہے۔[15] بعض محققین کے مطابق اس خطبے میں استعمال ہونے والی ادبی اصطلاحات نہایت برجستہ ہیں اور اس میں کلام کی موسیقی اور نشیب و فراز پر خاص توجہ دی گئی۔[16]
نام نسخہ | خطبہ نمبر[17] |
---|---|
المعجم المفہرس لالفاظ نہج البلاغہ و صبحی صالح، ذیشان حیدر جوادی (اردو) | 193 |
فیض الاسلام، ابن میثم | 184 |
خوئی، ملاصالح | 192 |
ابن ابی الحدید، عبدہ | 186 |
ملافتح اللہ | 221 |
فی ظلال، مفتی جعفر حسین (اردو) | 191 |
مضامین
خطبہ متقین میں پرہیزگاروں کی زندگی کے مختلف پہلوں (فردی اور سماجی اخلاق نیز خدا کے ساتھ ان کا رابطہ)[18] پر تقریبا 100 سے زیادہ صفات کے ضمن میں گفتگو کی گئی ہے۔[19] یہ خطبہ 7 حصوں پر مشتمل ہے: 1۔ ابتدائیہ اور خدا کی حمد و ثنا 2۔ مقدمہ 3۔ متقین کی کلی صفات 4۔ پرہیزگاروں کی راتیں 5۔ پرہیزگاروں کے ایام 6۔ متقین کی علامات 7۔ ہمام کی داستان کا اختام۔[20]
سماجی اوصاف:
- بد کلامی سے پرہیز
- امانت داری
- کَظْمِ غَیْظ
- ان پر ستم کرنے والوں کو معاف کرنا
- لوگ ان کے شر سے محفوظ رہتے ہیں
- لوگ ان سے نیکی کی امید رکھتے ہیں
فردی اوصاف :
- اپنے اوپر سوء ظن رکھنا
- دوسروں کی خشامد سے دوری
- نرم دلی کے ساتھ ساتھ دور اندیشی
- یقین کے ساتھ ایمان
- حِلْم
- کم خوری اور سادگی
خالق سے رابطہ:
- نماز شب اور قرآن کی تلاوت
- قرآن سے شفا لینا
- قرآن پر عمل پیرا ہونا
- عبادت میں حضوع و خشوع۔[21]
سند
شیعہ مرجع تقلید آیت اللہ مکارم شیرازی نے خطبہ متقین کو جو متعدد حدیثی منابع میں نقل ہوا ہے، سند کے اعتبار سے معتبر قرار دیا ہے۔[22] محمد تقی مصباح یزدی بھی اس خطبے کے متَواتر اور مورد اعتماد ہونے کے قائل ہیں۔[23] یہ خطبہ مختلف حدیثی منابع اور مآخذ میں ذکر ہوا ہے۔[24]من جملہ ان منابع میں یہ کتب قابل ذکر ہیں: شیخ کلینی کی کتاب اَلْکافی،[25] ابن ہمام اِسکافی کی کتاب اَلتَّمحیص،[26] ابن شُعبہ حَرّانی کی کتاب تُحَفُالْعُقول،[27] اَمالیِ شیخ صدوق،[28] کَراجَکی کی کتاب کَنزُالْفَوائد[29] اور فَتّال نیشابوری کی کتاب روضۃالواعظین۔[30] اس خطبے کے ابتدائی منابع سند، الفاظ اور حجم کے اعتبار سے یکساں نہیں ہیں۔[31] بعض مصنفین اس خطبے کے نسخوں میں موجود اختلاف اور بعض دیگر شواہد کی بنا پر کہتے ہیں کہ امام علیؑ کا یہ خطبہ اصل میں مختصر تھا[32] اور بتدریج اس میں بہت سارے جملے اضافہ کئے گئے ہیں۔[33]
تراجم اور شروحات
نہج البلاغہ کے ترجموں اور شروحات کے ضمن میں اس خطبے کا ترجمہ اور شرح کے علاوہ اس خطبے کا دسیوں علیحدہ اور مستقل ترجمے اور شروحات فارسی اور عربی زبان میں لکھی گئی ہیں۔[34] ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:
- اخلاق اسلامی در نہج البلاغہ، فارسی زبان میں آیت اللہ مکارم کی تحریر؛
- راہ و رسم پرہیزگاران، آیت اللہ مکارم شیرازی کی ایک اور تحریر؛
- شرح خطبہ متقین (شرح حدیث ہمام)، مصنف محمد تقی مجلسی؛
- از پارسایان برایم بگو، فارسی ترجمہ اور وضاحت، تصنیف جمال الدین دین پرور؛
- أشعۃٌ مِن خطبۃ المتقین، خطبہ متقین کی عربی شرح، مصنف: ام علی قَبانچی؛
- متقین، خطبہ متقین کی فارسی شرح، مصنف: سید مہدی شجاعی؛
- اوصاف پارسایان:خطبہ متقین کی فارسی شرح، تحریر: عبد الکریم سروش؛
- اوصاف متقین، ترجمہ، شرح و تفسیر فارسی، مصنف قادر فاضلی محمد تقی جعفری کے مقدمے کے ساتھ؛
- نغمہ الہی، شرح منظوم و ترجمہ فارسی خطبہ متقین، مصنف: مہدی الہی قمشہای؛
- صفات متقین (خطبہ ہمام) مولای متقیان امیرمؤمنان علیؑ، ترجمہ غلام رضا یاسی پور نثر اور نظم دونوں میں؛
- مثنوی پارسانامہ، خطبہ متقین اور امام حسنؑ کے نام امام علیؑ کے خط کا منظم ترجمہ، تحریر: عبد المہدی معرفزادہ؛
- صفات متقین در کلام مولای متقیان، خطبہ ہمام کا فارسی میں منظوم ترجمہ، شاعر: محمد علی محمدی۔
متن اور ترجمہ
متن | ترجمه |
رُوی أنّ صاحِباً لأَمیرالمُؤمنِینَ(علیہ السلام) یُقالَ لَہ ہمّامُ کانَ رَجُلاً عابِداً، فَقالَ لَہ: یا أَمیرالمُؤمنینَ، صِفْ لِی الْمُتَّقینَ حَتّى کَأَنى أَنظُرُ إِلَیْہمْ۔ فَتَثاقَلَ(علیہ السلام) عَنْ جَوابِہ ثُمَّ قالَ: یا ہمَّام ! اِتَّقِ اللہ وَ أَحْسِنْ: فَـ (ـإِنَّ اللہ مَعَ الَّذِینَ اتَّقَوْا وَّ الَّذینَ ہمْ مُّحْسِنُونَ)۔ فَلَمْ یَقْنَعْ ہمّامُ بِہذَا الْقَولُ حَتّى عَزَمَ عَلَیْہ، فَحَمِداللہ و أَثنى عَلَیہ، وَ صلّى عَلَى النَّبِىِّ(صلى اللہ علیہ وآلہ) ثُمَّ قالَ(علیہ السلام): | بیان کیا گیا ہے کہ امیرالمومنین (علیہ السلام) کے ایک صحابی نے کہ جنہیں ہمام کہا جاتا ہے اور جو بہت عبادت گذار شخص تھے حضرت سے عرض کیا کہ یا امیرالمومنین مجھ سے پرہیز گاروں کی حالت اس طرح بیان فرمائیں کہ ان کی تصویر میری نظروں میں پھرنے لگے۔حضرت نے جواب دینے میں کچھ تامل کیا۔پھر اتنا فرمایا کہ اے ہمام اللہ سے ڈرو اور اچھے عمل کرو،کیونکہ اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو متقی و نیک کردار ہوں۔ہمام نے آ پ کے اس جواب پر اکتفا نہ کیا اور آپ کو (مزید بیان فرمانے کے ليے) قسم دی جس پر حضرت نے خدا کی حمد و ثنا کی اور نبی پر درود بھیجا اور یہ فرمایا۔ |
أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّ اللّہ ـ سُبْحَانَہ وَ تَعَالَى ـ خَلَقَ الْخَلْقَ حِینَ خَلَقَہمْ غَنِیًّا عَنْ طَاعَتِہمْ، آمِناً مِنْ مَعْصِیَتِہمْ، لاَِنَّہ لاَ تَضُرُّہ مَعْصِیَۃُ مَنْ عَصَاہ، وَ لاَ تَنْفَعُہ طَاعَۃُ مَنْ أَطَاعَہ۔ فَقَسَمَ بَیْنَہمْ مَعَایِشَہمْ، وَ وَضَعَہمْ مِنَ الدُّنْیَا مَوَاضِعَہمْ۔ | اللہ سبحانہ، نے جب مخلوقات کو پیدا کیا تو ان کی اطاعت سے بے نیاز اور ان کے گناہوں سے بے خطر ہو کر کار گا ہ ہستی میں انہیں جگہ دی کیونکہ اسے نہ کسی معصیت کار کی معصیت سے نقصا ن ہے اور نہ کسی فرمانبردار کی اطاعت سے فائد ہ پہنچتا ہے۔اس نے زندگی کا سرو سامان ان میں بانٹ دیا ہے اور دنیا میں ہر ایک کو اس کے مناسب حال محل و مقام پہ رکھا ہے۔ |
فَالْمُتَّقُونَ فِیہا ہمْ أَہلُ الْفَضَائِلِ: مَنْطِقُہمُ الصَّوَابُ، وَ مَلْبَسُہمُ الاِقْتِصَادُ، وَ مَشْیُہمُ التَّوَاضُعُ۔ غَضُّوا أَبْصَارَہمْ عَمَّا حَرَّمَ اللّہ عَلَیْہمْ، وَ وَقَفَوا أَسْمَاعَہمْ عَلَى الْعِلْمِ النَّافِعِ لَہمْ۔ نُزِّلَتْ أَنْفُسُہمْ مِنْہمْ فِی الْبَلاَءِ کَالَّتِی نُزِّلَتْ فِی الرَّخَاءِ۔ | چنانچہ فضیلت ان کے ليے ہے جو پرہیزگار ہیں کیو نکہ ان کی گفتگو جچی تلی ہو ئی، پہناوا میانہ روی اور چال ڈھال عجز وفروتنی ہے۔اللہ کی حرام کردہ چیزوں سے انہوں نے آنکھیں بند کر لیں اور فائدہ مندعلم پر کا ن دھر ليے ہیں ان کے نفس زحمت و تکلیف میں بھی ویسے ہی رہتے ہیں جیسے آرام و آسائش میں۔ |
وَ لَوْلاَ الاَْجَلُ الَّذِی کَتَبَ اللّہ عَلَیْہمْ لَمْ تَسْتَقِرَّ أَرْوَاحُہمْ فِی أَجْسَادِہمْ طَرْفَۃَ عَیْن، شَوْقاً إِلَى الثَّوَابِ، وَ خَوْفاً مِنَ الْعِقَابِ۔ عَظُمَ الْخَالِقُ فِی أَنْفُسِہمْ فَصَغُرَ مَادُونَہ فِی أَعْیُنِہمْ، فَہمْ وَ الْجَنَّۃُ کَمَنْ قَدْ رَآہا، فَہمْ فِیہا مُنَعَّمُونَ، وَ ہمْ وَ النَّارُ کَمَنْ قَدْ رَآہا، فَہمْ فِیہا مُعَذَّبُونَ۔ | اگر (زندگی مقررہ) مدت نہ ہوتی جو اللہ نے ان کے ليےلکھ دی ہے توثواب کے شوق اور عتاب کے خوف سے ان کی روحیں ان کے جسموں میں چشم زدن کے ليے بھی نہ ٹھہرتیں۔ خالق کی عظمت ان کے دلوں میں بیٹھی ہوئی ہے۔اس ليےکہ اس کے ماسوا ہر چیز ان کی نظروں میں ذلیل و خوار ہے۔ان کو جنت کا ایسا ہی یقین ہے جیسے آنکھوں دیکھی چیز کا ہوتاہے تو گویا وہ اسی وقت جنت کی نعمتوں سے سر فراز ہیں اور دوزخ کا بھی ایسا ہی یقین ہے جیسے کہ وہ دیکھ رہے ہیں تو انہیں ایسا محسوس ہو تا ہے کہ جیسے وہاں کا عذاب ان کے گردو پیش موجود ہے۔ |
قُلُوبُہمْ مَحْزُونَۃٌ، وَ شُرُورُہمْ مَأْمُونَۃٌ، وَ أَجْسَادُہمْ نَحِیفَۃٌ، وَ حَاجَاتُہمْ خَفِیفَۃٌ، وَ أَنْفُسُہمْ عَفِیفَۃٌ۔ صَبَرُوا أَیَّاماً قَصِیرَۃً أَعْقَبَتْہمْ رَاحَۃً طَوِیلَۃً۔ تِجَارَۃٌ مُرْبِحَۃٌ یَسَّرَہا لَہمْ رَبُّہمْ۔ أَرَادَتْہمُ الدُّنْیَا فَلَمْ یُرِیدُوہا، وَ أَسَرَتْہمْ فَفَدَوْا أَنْفُسَہمْ مِنْہا۔ | ان کے دل غمزدہ، مخزون اور لوگ ان کے شر و ایذا سے محفوظ و مامون ہیں۔ ان کے بدن لاغر،ضروریا ت کم اور نفس نفسانی خواہشوں سے بری ہیں۔انہوں نے چند مختصر سے دلوں کی ( تکلیفوں پر) صبر کیا جس کے نتیجہ میں دائمی آسائش حاصل کی۔یہ ایک فائدہ مند تجارت ہے جو اللہ نے ان کے ليےمہیا کی،دنیا نے انہیں چاہا مگر انہوں نے دنیا کو نہ چاہا اس نے تمہیں قیدی بنایا تو انہوں نے اپنے نفسوں کا فدیہ دے کر اپنے کو چھڑا لیا۔ |
أَمَّا اللَّیْلُ فَصَافُّونَ أَقْدَامَہمْ، تَالِینَ لاَِجْزَاءِ الْقُرْآنِ یُرَتِّلُونَہا تَرْتِیلاً۔ یُحَزِّنُونَ بِہ أَنْفُسَہمْ وَ یَسْتَثِیرُونَ بِہ دَوَاءَ دَائِہمْ۔ فَإِذَا مَرُّوا بِآیَۃ فِیہا تَشْوِیقٌ رَکَنُوا إِلَیْہا طَمَعاً، وَ تَطَلَّعَتْ نُفُوسُہمْ إِلَیْہا شَوْقاً، وَ ظَنُّوا أَنَّہا نُصْبَ أَعْیُنِہمْ۔ | رات ہوتی ہے تو اپنے پیروں پر کھڑے ہو کر قرآن کی آیتوں کی ٹھہر ٹھہر کر تلاوت کرتے ہیں،جس سے اپنے دلوں میں غم و اندوہ تازہ کرتے ہیں اور اپنے مرض کا چارہ ڈھونڈتے ہیں۔جب کسی ایسی آیت پر ان کی نگاہ پڑتی ہے جس میں جنت کی ترغیب دلائی گئی ہو،تو ا س کے طمع میں ادھر جھک پڑتے ہیں اور اس کے اشتیاق میں ان کے دل بے تابانہ کھنچتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ (پر کیف ) منظر ان کی نظروں کے سامنے ہے۔ |
وَ إِذَا مَرُّوا بِآیَۃ فِیہا تَخْوِیفٌ أَصْغَوْا إِلَیْہا مَسَامِعَ قُلُوبِہمْ، وَ ظَنُّوا أَنَّ زَفِیرَ جَہنَّمَ وَ شَہیقَہا فِی أُصُولِ آذَانِہمْ، فَہمْ حَانُونَ عَلَى أَوْسَاطِہمْ، مُفْتَرِشُونَ لِجِبَاہہمْ وَ أَکُفِّہمْ وَ رُکَبِہمْ، وَ أَطْرَافِ أَقْدَامِہمْ، یَطْلُبُونَ إِلَى اللّہ تَعَالَى فِی فَکَاکِ رِقَابِہمْ۔ | اور جب کسی ایسی آیت پر ان کی نظر پڑتی ہے کہ جس میں (دوزخ سے )ڈرایا گیا ہو،تو اس کی جانب دل کے کانوں کو جھکا دیتے ہیں اور یہ گمان کرتے ہیں کہ جہنم کے شعلوں کی آواز اور وہاں کی چیخ و پکار ان کے کانوں کے اندر پہنچ رہی ہے،وہ (رکوع میں) اپنی کمریں جھکائے اور (سجدہ میں) اپنی پیشانیاں ہتھیلیاں گھٹنے اور پیروں کے کنارے (انگھوٹھے) زمین پر بچھائے ہوئے ہیں اور اللہ سے گلو خلاصی کے ليےالتجائیں کرتے ہیں۔ |
وَ أَمَّا النَّہارَ فَحُلَمَاءُ عُلَمَاءُ، أَبْرَارٌ أَتْقِیَاءُ۔ قَدْ بَرَاہمُ الْخَوْفُ بَرْیَ الْقِدَاحِ یَنْظُرُ إِلَیْہمُ النَّاظِرُ فَیَحْسَبُہمْ مَرْضَى، وَ مَا بِالْقَوْمِ مِنْ مَرَض; وَ یَقُولُ: لَقَدْ خُولِطُو!۔ | دن ہو تا ہے تو وہ دانشمند عالم،نیکو کار اور پرہیز گار نظر آتے ہیں۔خوف نے انہیں تیروں کی طرح لاغر کر چھوڑا ہے۔ دیکھنے والا انہیں دیکھ کر مریض سمجھتا ہے،حالانکہ انہیں کوئی مرض نہیں ہوتا اور جب ان کی باتوں کو سنتا ہے تو کہنے لگتا ہے کہ ا ن کی عقلوں میں فتو ر ہے |
وَ لَقَدْ خَالَطَہمْ أَمْرٌ عَظِیمٌ! لاَ یَرْضَوْنَ مِنْ أَعْمَالِہمُ الْقَلِیلَ، وَ لاَ یَسْتَکْثِرُونَ الْکَثِیرَ۔ فَہمْ لاَِنْفُسِہمْ مُتَّہمُونَ، وَ مِنْ أَعْمَالِہمْ مُشْفِقُونَ إِذَا زُکِّیَ أَحَدٌ مِنْہمْ خَافَ مِمَّا یُقَالُ لَہ، فَیَقُولُ: أَنَا أَعْلَمُ بِنَفْسِی مِنْ غَیْرِی، وَ رَبِّی أَعْلَمُ بِی مِنِّی بِنَفْسِی! اللَّہمَّ لاَ تُؤَاخِذْنِی بِما یَقُولُونَ، وَ اجْعَلْنِی أَفْضَلَ مِمَّا یَظُنُّونَ، وَاغْفِرْ لی مَا لاَ یَعْلَمُونَ! | (ایسا نہیں ) بلکہ انہیں تو ایک دوسرا ہی خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ وہ اپنے اعمال کی کم مقدار سے مطمئن نہیں ہوتے اور زیادہ کو زیادہ نہیں سمجھتے وہ اپنے ہی نفسوں پر (کو تا ہیوں ) کا الزام رکھتے ہیں اور اپنے اعمال سے خوف زدہ رہتے ہیں،جب ان میں سے کسی ایک کو (صلاح و تقویٰ کی بنا پر) سراہا جاتا ہے تو وہ اپنے حق میں کہی ہوئی باتوں سے لرز اٹھتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ میں دوسروں سے زیادہ اپنے نفس کو جانتا ہوں، اور یہ کہ میرا پروردگار مجھ سے بھی زیادہ میرے نفس کو جانتا ہے۔خدایا ان کی باتوں پر میری گرفت نہ کرنا اور میرے متعلق جو یہ حسن ظن رکھتے ہیں مجھے اس سے بہتر قرار دینا اور میرے ان گناہوں کو بخش دینا جو ان کے علم میں نہیں۔ |
فَمِنْ عَلاَمَۃِ أَحَدِہمْ أَنَّکَ تَرَى لَہ قُوَّۃً فِی دِین، وَ حَزْماً فِی لِین، وَ إِیماناً فِی یَقِین، وَ حِرْصاً فِی عِلْم، وَ عِلْماً فِی حِلْم، وَ قَصْداً فی غِنىً، وَ خُشُوعاً فِی عِبَادَۃ، وَ تَجَمُّلاً فِی فَاقَۃ، وَ صَبْراً فِی شِدَّۃ، وَ طَلَباً فِی حَلاَل، وَ نَشَاطاً فِی ہدًى، وَ تَحَرُّجاً عَنْ طَمَع۔ یَعْمَلُ الاَْعْمَالَ الصَّالِحَۃَ وَ ہوَ عَلَى وَجَل۔ یُمْسِی وَ ہمُّہ الشُّکْرُ، وَ یُصْبِحُ وَہمُّہ الذِّکْرُ۔ | ان میں سے ایک کی علامت یہ ہے کہ تم ا س کے دین میں استحکام،نرمی و خوش خلقی کے ساتھ دور اندیشی،ایمان میں یقین و استواری،بردباری کے ساتھ دانائی،خوش حالی میں میانہ روی،عبادت میں عجزو نیاز مندی، فقر و فاقہ میں آن بان،مصیبت میں صبر،طلب رزق میں حلال پرنظر، ہدایت میں کیف و سرور اور طمع سے نفرت و بے تعلقی دیکھو گے۔ وہ نیک اعمال بجالانے کے باوجود خائف رہتا ہے۔شام ہوتی ہے تو اس کے پیش نظر اللہ کا شکر اور صبح ہو تی ہے تو اس کا مقصد یا د خدا ہوتا ہے۔ |
یَبِیتُ حَذِراً وَ یُصْبِحُ فَرِحاً; حَذِراً لَمَّا حُذِّرَ مِنَ الْغَفْلَۃِ، وَ فَرِحاً بِمَا أَصَابَ مِنَ الْفَضْلِ وَ الرَّحْمَۃِ۔ إِنِ اسْتَصْعَبَتْ عَلَیْہ نَفْسُہ فِیما تَکْرَہ لَمْ یُعْطِہا سُؤْلَہا فِیمَا تُحِبُّ۔ قُرَّۃُ عَیْنِہ فِیمَا لاَ یَزُولُ، وَ زَہادَتُہ فِیمَا لاَ یَبْقَى، یَمْزُجُ الْحِلْمَ بِالْعِلْمِ، وَ الْقَوْلَ بِالْعَمَلِ۔ | رات خوف و خطر میں گزارتا ہے اور صبح کو خوش اٹھتا ہے۔ خطرہ اس کا کہ رات غفلت میں نہ گز ر جائے اور خوشی ا س فضل و رحمت کی دولت پر جو اسے نصیب ہوئی ہے۔اگر اس کا نفس کسی ناگوار صورت حال کے برداشت کرنے سے انکار کرتا ہے تو وہ ا س کی من مانی خواہش کو پورا نہیں کرتا،جاودانی نعمتوں میں ا س کے ليے آنکھو ں کا سرور ہے اور دار فانی کی چیزوں سے بے تعلقی و بیزاری ہے۔اس نے علم میں حلم اور قول میں عمل کو سمو دیا ہے |
تَرَاہ قَرِیباً أَمَلُہ، قَلِیلاً زَلَلُہ، خَاشِعاً قَلْبُہ، قَانِعَۃً نَفْسُہ، مَنْزُوراً أَکْلُہ، سَہلاً أَمْرُہ، حَرِیزاً دِینُہ، مَیِّتَۃً شَہوَتُہ، مَکْظُوماً غَیْظُہ۔ اَلْخَیرُ مِنْہ مَأْمُولٌ، وَ الشَّرُّ مِنْہ مَأْمُونٌ، إِنْ کَانَ فِی الْغَافِلِینَ کُتِبَ فِی الذَّاکِرِینَ، وَ إِنْ کانَ فی الذَّاکِرِینَ لَمْ یُکْتَبْ مِنَ الْغَافِلِینَ۔ | تم دیکھو گے اس کی امیدوں کا دامن کوتاہ، لغزشیں کم، دل متواضع اور نفس قانع،غذا قلیل، رویہ بے زحمت، دین محفوظ، خواہشیں مردہ اور غصہ نا پید ہے اس سے بھلائی ہی کی توقع ہو سکتی ہے اور اس سے گزند کا کوئی اندیشہ نہیں ہو تا۔جس وقت ذکر خدا سے غافل ہو نے والوں میں نظر آتا ہے جب بھی ذکر کرنے والوں میں لکھا جا تا ہے چونکہ اس کا دل غافل نہیں ہوتا او ر جب ذکر کرنے والوں میں ہوتا ہے تو ظاہر ہی ہے کہ اسے غفلت شعاروں میں شمار نہیں کیا جاتا۔ |
یَعْفُو عَمَّنْ ظَلَمَہ، وَ یُعْطِی مَنْ حَرَمَہ، وَ یَصِلُ مَنْ قَطَعَہ، بَعِیداً فُحْشُہ، لَیِّناً قَوْلُہ، غَائِباً مُنْکَرُہ، حَاضِراً مَعْرُوفُہ، مُقْبِلاً خَیْرُہ، مُدْبِراً شَرُّہ۔ فِی الزَّلاَزِلِ وَ قُورٌ، وَ فِی الْمَکَارِہ صَبُورٌ، وَ فِی الرَّخَاءِ شَکُورٌ۔ لاَ یَحِیفُ عَلَى مَنْ یُبْغِضُ، وَ لاَ یَأْثَمُ فِیمَنْ یُحِبُّ۔ یَعْتَرِفُ بِالْحَقِّ قَبْلَ أَنْ یُشْہدَ عَلَیْہ، لاَ یُضِیعُ مَا اسْتُحْفِظَ، وَ لاَ یَنْسَى مَا ذُکِّرَ، وَ لاَ یُنَابِزُ بِالاَْلْقَابِ، وَ لاَ یُضَارُّ بِالْجَارِ، وَ لاَ یَشْمَتُ بِالْمَصَائِبِ، وَ لاَ یَدْخُلُ فِی الْبَاطِلِ، وَ لاَ یَخْرُجُ مِنَ الْحَقِّ۔ | جو اس پر ظلم کرتا ہے اس سے درگزر کر جاتا ہے جو اسے محروم کرتا ہے اس کا دامن اپنی عطا سے بھر دیتاہے جو اس سے بگاڑتا ہے یہ اس سے بناتا ہے بیہودہ بکواس اس کے قریب نہیں پھٹکتی اس کی باتیں نرم، برائیاں ناپید اور اچھائیاں نمایا ں ہیں۔خوبیاں ابھر کر سامنے آتی ہیں۔یہ مصیبت کے جھٹکوں میں کوہ حلم و وقار سختیوں پر صابر اور خوش حالی میں شاکر رہتاہے جس کا دشمن بھی ہو اس کے خلاف بے جا زیادتی نہیں کرتا اور جس کا دوست ہو تا ہے اس کی خاطر بھی کوئی گناہ نہیں کرتا۔قبل اس کے کہ اس کی کسی بات کے خلاف گواہی کی ضرورت پڑے وہ خود ہی اعتراف کر لیتا ہے۔ امانت کو ضائع و برباد نہیں کرتا جو اسے یا د دلایا گیا ہے اسے فراموش نہیں کرتا۔نہ دوسرو ں کو برے ناموں سے یا د کرتا ہے نہ ہمسایوں کو گزند پہنچاتا ہے،نہ دوسرو ں کی مصیبتو ں پر خوش ہوتا ہے،نہ باطل کی سرحد میں داخل ہوتا ہے اور نہ جادہ حق سے قدم با ہر نکالتا ہے۔ |
إِنْ صَمَتَ لَمْ یَغُمَّہ صَمْتُہ، وَ إِنْ ضَحِکَ لَمْ یَعْلُ صَوْتُہ، وَ إِنْ بُغِیَ عَلَیْہ صَبَرَ حَتَّى یَکُونَ اللّہ ہوَ الَّذِی یَنْتَقِمُ لَہ۔ نَفْسُہ مِنْہ فِی عَنَاء۔ وَ النَّاسُ مِنْہ فِی رَاحَۃ۔ أَتْعَبَ نَفْسَہ لاِخِرَتِہ، وَ أَرَاحَ النَّاسَ مِنْ نَفْسِہ۔ بُعْدُہ عَمَّنْ تَبَاعَدَ عَنْہ زُہدٌ وَ نَزَاہۃٌ، وَ دُنُوُّہ مِمَّنْ دَنَا مِنْہ لِینٌ وَ رَحْمَۃٌ۔ لَیْسَ تَبَاعُدُہ بِکِبْر وَ عَظَمَۃ، وَلاَ دُنُوُّہ بِمَکْر وَ خَدِیعَۃ۔ | اگر چپ سادھ لیتا ہے تو اس کی خاموشی سے اس کا دل نہیں بجھتا،اور اگر ہنستا ہے تو آواز بلند نہیں ہوتی۔اگر اس پر زیادتی کی جائے تو سہہ لیتا ہے تاکہ اللہ ہی ا س کا انتقام لے۔اس کا نفس اس کے ہاتھوں مشقت میں مبتلا ہے اور دوسرے لوگ اس سے امن و راحت میں ہیں۔اس نے آخرت کی خاطر اپنے نفس کو زحمت میں اور خلق خدا کو اپنے نفس (کے شر) سے راحت میں رکھا ہے جن سے دوری اختیار کرتا ہے تو یہ زہد و پاکیزگی کے ليےہو تی ہے اور جن سے قریب ہوتا ہے تو یہ خوش خلقی و رحم دلی کی بنا پر ہے نہ اس کی دوری غرور و کبرکی وجہ سے نہ اس کا میل جول کسی فریب اور مکر کی بنا پر ہوتا ہے۔ |
فَقَالَ أَمِیرُالْمُؤْمِنِینَؑ: أَمَا وَ اللّہ لَقَدْ کُنْتُ أَخَافُہا عَلَیْہ۔ ثُمَّ قَالَ: ہکَذَا تَصْنَعُ الْمَوَاعِظُ الْبَالِغَۃُ بِأَہلِہا | (راوی کا بیان ہے کہ ا ن کلمات کو سنتے سنتے ہمام پر غشی طاری ہوئی اور اسی عالم میں اس کی روح پر واز کر گئی۔)امیرالمومنین نے فرمایا،کہ خدا کی قسم مجھے اس کے متعلق یہی خطرہ تھا۔پھر فرمایا کہ موثر نصیحتیں نصیحت پذیر طبیعتوں پر یہی اثر کیا کر تی ہیں۔ |
وَیْحَکَ، إِنَّ لِکُلِّ أَجَلٍ وَقْتاً لاَیَعْدُوہ، وَ سَبَباً لاَ یَتَجَاوَزُہ۔ فَمَہلاً ! لاَ تَعُدْ لِمِثْلِہا، فَإِنَّمَا نَفَثَ الشَّیْطَانُ عَلَى لِسَانِکَ! | (اس وقت ایک کہنے والے نے کہا کہ یا امیرالمومنین علیہ السّلام! پھر کیا بات ہے کہ خود آپ پر ایسا اثر نہیں ہو تا؟)حضرت نے فرمایا کہ بلاشبہ موت کے ليےایک وقت مقرر ہوتا ہے کہ وہ اس سے آگے بڑھ ہی نہیں سکتا اور ا س کا ایک سبب ہوتا ہے جو کبھی ٹل نہیں سکتا۔ایسی (بے معنی ) گفتگو سے جو شیطان نے تمہاری زبان پر جاری کی ہے۔باز آؤ اور ایسی بات پھر زبا ن پر نہ لانا |
حوالہ جات
- ↑ مکارم شیرازی، پیام امامؑ، 1386ہجری شمسی، ج7، ص527۔
- ↑ ہوشیار، و جلیل تجلیل، «بررسی تطبیقی سیمانی انسان کامل در خطبۀ متقین نہج البلاغہ و آثار عزیزالدین نسفی»، ص20۔
- ↑ مکارم شیرازی، اخلاق اسلامی در نہج البلاغہ، 1385ہجری شمسی، ج1، ص8۔
- ↑ شفیعی، امام شناسی، 1397ہجری شمسی، ص145۔
- ↑ شیخ صدوق، الأمالی، 1376ہجری شمسی، ص570-574۔
- ↑ کلینی، کافی، 1407ھ، ج2، 226-230۔
- ↑ مصباح یزدی، «سیمای پرہیزکاران در خطبہ متقین امیرالمؤمنینؑ»، ص6۔
- ↑ نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، خطبہ 193، ص303۔
- ↑ سلیمانی رحیمی، «نامگذاری خطبہہای نہج البلاغہ؛ یک پیشنہاد»، ص206۔
- ↑ نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، 1414ھ، خطبہ 193، ص303۔
- ↑ ملاحظہ کریں: ابن شعبہ حرّانی، تحف العقول، 1404ھ، ص159؛ نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، 1414ھ، خطبہ 193، ص303۔
- ↑ ملاحظہ کریں: کلینی، کافی، 1407ھ، ج2، 226۔
- ↑ ملاحظہ کریں: کراجکی، کنز الفوائد، 1410ھ، ج1، ص89۔
- ↑ نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، 1414ھ، خطبہ 193، ص306۔
- ↑ مطہری، مجموعہ آثار شہید مطہری، 1372ہجری شمسی، ج16، ص360۔
- ↑ اقبالی، و مہوش حسنپور، «نگاہی سبکشناسانہ بہ خطبۀ متقین»، ص125-126۔
- ↑ محمدی، دشتی، المعجم المفہرس لالفاظ نہج البلاغہ، جدول اختلاف نسخ انتہای کتاب، 1369ہجری شمسی، ص 235۔
- ↑ مکارم شیرازی، پیام امامؑ، 1386ہجری شمسی، ج7، ص528-529؛ شفیعی، امام شناسی، 1397ہجری شمسی، ص144۔
- ↑ ملاحظہ کریں: نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، 1414ھ، خطبہ 193، ص303-306۔
- ↑ استادی، «بررسی تطبیقی متن خطبۀ متقین (ہمام) در منابع متقدم»، ص117۔
- ↑ شفیعی، امام شناسی، 1397ہجری شمسی، ص145۔
- ↑ مکارم شیرازی، پیام امامؑ، 1386ہجری شمسی، ج7، ص527۔
- ↑ مصباح یزدی، «سیمای پرہیزکاران در خطبہ متقین امیرالمؤمنینؑ»، ص6۔
- ↑ ان منابع سے آشنائی کے لئے ملاحظہ کریں: دشتی، اسناد و مدارک نہج البلاغہ، 1378ہجری شمسی، ص251-253؛ استادی، «شناسایی گویندہ خطبہ مشہور بہ متقین»، ص118-120۔
- ↑ کلینی، کافی، 1407ھ، ج2، 226-230۔
- ↑ ابنہمام اسکافی، التمحیص، 1404ھ، ص70-73۔
- ↑ ابن شعبہ حرّانی، تحف العقول، 1404ھ، ص159-162۔
- ↑ شیخ صدوق، الأمالی، 1376ہجری شمسی، ص570-574۔
- ↑ کراجکی، کنز الفوائد، 1410ھ، ج1، ص89-92۔
- ↑ فتال نیشابوری، روضۃ الواعظین، 1375ہجری شمسی، ج2، ص438-439۔
- ↑ استادی، «بررسی تطبیقی متن خطبۀ متقین (ہمام) در منابع متقدم»، ص140۔
- ↑ استادی، «بررسی تطبیقی متن خطبۀ متقین (ہمام) در منابع متقدم»، ص141۔
- ↑ استادی، «شناسایی گویندہ خطبہ مشہور بہ متقین»، ص44-48۔
- ↑ علوی، شرح خطبہ متقین در نہج البلاغہ، 1371ہجری شمسی، ص21۔
مآخذ
- ابن شعبہ حرّانی، حسن بن علی، تحف العقول عن آلالرسول(ص)، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1404ھ۔
- ابنہمام اسکافی، محمد، التمحیص، قم، مدرسہ امام مہدی(ع)، 1404ھ۔
- استادی، کاظم، «بررسی تطبیقی متن خطبۀ متقین (ہمام) در منابع متقدم»، در مجلہ معارف اہلبیت(ع)، شمارہ 2، تابستان 1401ہجری شمسی۔
- استادی، کاظم، «شناسایی گویندہ خطبہ مشہور بہ متقین»، در مجلہ مطالعات ادبیات شیعی، شمارہ 2، بہار 1401ہجری شمسی۔
- اقبالی، و مہوش حسنپور، «نگاہی سبکشناسانہ بہ خطبۀ متقین»، در مجلہ پژوہشہای نہج البلاغہ، شمارہ 14، تابستان 1395ہجری شمسی۔
- دشتی، محمد، اسناد و مدارک نہج البلاغہ، قم، مؤسسہ فرہنگی تحقیقاتی امیرالمؤمنین(ع)، 1378ہجری شمسی۔
- دشتی، محمد، و کاظم محمدی، المعجم المفہرس لالفاظ نہج البلاغہ، قم، موسسہ فرہنگی تحقیقاتی امیرالمؤمنین(ع)، 1375ہجری شمسی۔
- سلیمانی رحیمی، امیر، «نامگذاری خطبہہای نہج البلاغہ؛ یک پیشنہاد»، در مجلہ مشکات، شمارہ 68 و 69، پاییز و زمستان 1379ہجری شمسی۔
- سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، قم، ہجرت، 1414ھ۔
- شفیعی، محمدحسن، امامشناسی، قم، میراث نبوت، 1397ہجری شمسی۔
- شیخ صدوق، محمد بن علی، الأمالی، تہران، کتابچی، 1376ہجری شمسی۔
- علوی، سید مجتبی، شرح خطبہ متقین در نہج البلاغہ، قم، ہجرت، 1371ہجری شمسی۔
- فتال نیشابوری، محمد بن احمد، روضۃ الواعظین و بصیرۃ المتعظین، قم، انتشارات رضی، 1375ہجری شمسی۔
- کراجکی، محمد بن علی، کنز الفوائد، قم، دار الذخائر، 1410ھ۔
- کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، 1407ھ۔
- مجلسی، محمدتقی، شرح خطبہ متقین (شرح حدیث ہمام)، مصحح: جویا جہانبخہجری شمسی، تہران، اساطیر، 1385ہجری شمسی۔
- مصباح یزدی، محمدتقی، «سیمای پرہیزکاران در خطبہ متقین امیرالمؤمنین(ع)»، در مجلہ معرفت، شمارہ 217، دی ماہ 1394ہجری شمسی۔
- مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار شہید مطہری، تہران، صدرا، 1372ہجری شمسی۔
- مکارم شیرازی، ناصر، اخلاق اسلامی در نہج البلاغہ، قم، نسل جوان، 1385ہجری شمسی۔
- مکارم شیرازی، ناصر، پیام امام امیرالمؤمنین(ع)، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، 1386ہجری شمسی۔
- ہوشیار، یاسر، و جلیل تجلیل، «بررسی تطبیقی سیمانی انسان کامل در خطبۀ متقین نہج البلاغہ و آثار عزیزالدین نسفی»، در مجلہ پژوہشہای نہج البلاغہ، شمارہ 46، پاییز 1394ہجری شمسی۔