حمزہ شنواری
![]() | |
کوائف | |
---|---|
پورا نام | امیر حمزہ خان شنواری |
لقب/کنیت | حمزہبابا، امیر المتغزلین، ابو المراد، بابائے غزل |
مذہب | حنفیہ |
تاریخ پیدائش | سنہ 1907ء |
جائے پیدائش | لنڈی کوتل پاکستان |
سکونت | پاکستان اور ہندوستان |
وفات | 18 فروری سنہ 1994 ء حیدر آباد ہندوستان |
آرامگاہ | لنڈی کوتل |
علمی معلومات | |
آثار | ترجمہ نہج البلاغہ زبان پشتو |
دیگر معلومات | |
تخصص | شعر اور تالیف |
امیر حمزہ خان شنواری (1907-1994) جو حمزہ بابا کے نام سے جانا جاتا ہے، ایک پاکستانی شاعر اور ادیب تھے جنہیں اہل بیتؑ سے خاص عقیدت تھی۔ وہ فقہ حنفی کے پیروکار تھے اور سلسلہ طریقت چَشْتیہ کے صوفی تھے۔ تاہم، اہل بیتؑ سے ان کی عقیدت کی وجہ سے کچھ لوگ انہیں شیعہ سمجھتے تھے۔ ان کی تصانیف میں پشتو میں نہج البلاغہ کا ترجمہ اور امام حسنؑ اور امام حسینؑ کی شان میں مرثئے اور مہدویت کے موضوع پر اشعار شامل ہیں۔
اہمیت
حمزہ خان شنواری پشتو اور اردو زبان کے مشہور شاعر تھے جنہوں نے ان زبانوں کے شاعروں کی تین نسلوں پر اپنا اثر چھوڑا۔ انہوں نے پشتو زبان میں ایک ادبی تنظیم بھی قائم کی اور ناول نگاری، ڈرامہ نگاری، شاعری، ادبی تنقید اور مختصر کہانی لکھنے کے شعبوں میں سرگرم رہے۔ حمزہ بابا شروع میں بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھتے تھے لیکن بعد میں تصوف کی طرف جذب ہو گئے[1] اور کہا جاتا ہے کہ وہ چشتیہ طریقت کے صوفی مسلک کی پیروی کرتے تھے۔ وہ پیغمبر اکرمؐ کے اہل بیتؑ سے عقیدت رکھتے تھے اور اپنے اشعار میں ان کا تذکرہ کرتے تھے۔ بعض انہیں شیعہ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ تقیہ[2] کی وجہ سے اہل سنت کی فقہ حنفی کی پیروی کرتے تھے۔ سنہ 2009 ءتک نہج البلاغہ کا پشتو ترجمہ صرف انہی کا ہی تھا۔[3]
سوانح عمری
حمزہ شنواری کا پورا نام امیر حمزہ خان شنواری اور اسٹیج نام حمزہ بابا تھا،[4] جبکہ عرفی طور پر "امیر المتغزلین" اور "ابو المُراد" کے نام سے جانے جاتے تھے۔ وہ سنہ 1907ء میں پاکستان کے شہر لنڈی کوتل میں پیدا ہوئے اور بچپن ہی سے شاعری میں دلچسپی رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنی پہلی نظم اردو میں لکھی، لیکن اپنے استاد سید عبدالستار کی رہنمائی سے، انہوں نے پشتو (اپنی مادری زبان) میں شاعری کی طرف رخ کیا۔[5]
حمزہ شنواری 18 فروری 1994ء کو حیدرآباد میں 86 سال کی عمر میں وفات پاگئے۔[6] اور ابتدائی طور پر ان کی تدفین ان کے آبائی قبرستان اشرف خیل لورگی میں ہوئی۔ دو سال بعد انہیں نبش قبر کر کے ان کے جسد خاکی کو نکالا گیا اور لاش کو اس کے آبائی شہر منتقل کیا گیا۔ ان کی قبر پر ایک مقبرہ تعمیر ہوا جو سنہ 2010ء میں تباہ ہو گیا اور کچھ عرصے بعد اسے دوبارہ تعمیر کیا گیا۔[7]
نظمیں اور تالیفات
حمزہ بابا کی مشہور نظموں میں سے ایک امام حسن مجتبیٰ ؑ کی شان میں لکھا ہوا مرثیہ تھا، جس میں انہوں نے امام حسنؑ کی امامت و عصمت اور امام حسن اور امام حسینؑ کی شہادت کے درمیان تعلق کا ذکر کیا ہے۔ انہوں نے امام حسینؑ اور واقعہ کربلا پر بھی مرثیے لکھے ہیں۔ اسی طرح مہدویت کے موضوع پر بھی حمزہ بابا کے اشعار ہیں۔ حمزہ بابا نے اپنی نظموں میں عصمت اور امامت جیسے موضوعات کا کثرت سے حوالہ دیا ہے جس کی وجہ سے کچھ لوگ انہیں شیعہ مانتے ہیں۔[8]
ان کی تالیفات میں نہج البلاغہ کا پشتو میں ترجمہ ہے جو "مقدس کلام" کے عنوان سے 1962ء میں شائع ہوا ہے۔ یہ ترجمہ حمزہ بابا کے حاشیہ کے ساتھ ہے اور بنیادی طور پر رئیس احمد جعفری کے نہج البلاغہ کے اردو ترجمہ سے اخذ کیا ہے۔[9]
حوالہ جات
- ↑ POETRY: Celebrating the father of Pashto ghazal, dawn.com۔
- ↑ «حمزہ شینواری، شاعر ولایی»، سایت آندیال۔
- ↑ «آشنایی با مشاہیر و نخبگان فرہنگی پاکستان»، خبرگزاری ایرنا۔
- ↑ POETRY: Celebrating the father of Pashto ghazal, dawn.com۔
- ↑ POETRY: Celebrating the father of Pashto ghazal, dawn.com۔
- ↑ «حمزہ شینواری، شاعر ولایی»، سایت آندیال۔
- ↑ «حمزہ شینواری، شاعر ولایی»، سایت آندیال۔
- ↑ «حمزہ شینواری، شاعر ولایی»، سایت آندیال۔
- ↑ «آشنایی با مشاہیر و نخبگان فرہنگی پاکستان»، ایرنا نیوز ایجنسی۔
مآخذ
- «آشنایی با مشاہیر و نخبگان فرہنگی پاکستان»، خبرگزاری ایرنا، تاریخ اشاعت: 21 بہمن 1388شمسی، تاریخ مشاہدہ: 3 مہر 1403ہجری شمسی۔
- «حمزہ شینواری، شاعر ولایی»، سایت آندیال، تاریخ اشاعت: 30 بہمن 1400شمسی، تاریخ مشاہدہ: 3 مہر 1403ہجری شمسی۔
- «امیر حمزہ شینواری، شاعر عارف»، رادیو نوروز، تاریخ اشاعت: 23 فروردین 1400شمسی، تاریخ مشاہدہ: 3 مہر 1403ہجری شمسی۔
- «Profile: Ameer Hamza Shinwari", thepeshawar, data: 30 March 2013, Visited in 26 september 2024
- POETRY: Celebrating the father of Pashto ghazal, dawn.com, data: 6 March 2011, Visited in 26 september 2024