نہج البلاغہ خطبہ 115

ویکی شیعہ سے
نہج البلاغہ خطبہ 115
نہج البلاغہ خطبہ 115
حدیث کے کوائف
دوسرے اسامیخطبہ استسقاء
موضوعطلب باران
صادر ازامام علیؑ
شیعہ مآخذنہج البلاغہ، من لا یحضرہ الفقیہ، تہذیب، مصباح المتہجد
اہل سنت مآخذربيع الأبرار و نصوص الأخبار، النہايہ في غريب الحديث والاثر
مشہور احادیث
حدیث سلسلۃ الذہب . حدیث ثقلین . حدیث کساء . مقبولہ عمر بن حنظلہ . حدیث قرب نوافل . حدیث معراج . حدیث ولایت . حدیث وصایت . حدیث جنود عقل و جہل

نہج البلاغہ کا خطبہ 115 یا خطبہ اِستِسقاء طلبِ باران کی دعا ہے جسے امام علیؑ نے اپنی حکومت کے دوران کوفہ کی کسی ایک خشک سالی کے ایام میں نماز استسقاء کے بعد پڑھا تھا۔ اس خطبہ کو مختلف عبارتوں کے ساتھ شیخ صدوق اور شیخ طوسی نے بھی نقل کیا ہے۔ اسی بنا پر یہ احتمال دیا جاتا ہے کہ ممکن ہے محدثین میں سے ہر ایک تک اس خطبہ کے مختلف نسخے پہنچے ہوں۔ اسی طرح یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ممکن ہے سید رضی نے شیخ صدوق کے نقل کردہ نسخے سے کچھ منتخب نقل کیا ہو۔ خطبہ استسقاء کے مختلف حصے اہل سنت حدیثی منابع میں بھی نقل ہوئے ہیں۔

خطبہ استسقاء کے دو اصلی حصے ہیں۔ پہلے حصے میں امام علیؑ نے انسانوں، نباتات اور حیوانات پر خشک سالی کے اثرات کی طرف اشارہ کیا ہے اور اس مسئلے کے علل و اسباب میں سے ایک لوگوں کی طرف سے اللہ کی نافرمانی ہے۔ دوسرے حصے میں خدا سے بارش کی درخواست کے ساتھ بارش کی بعض خصوصیات کا ذکر کرتے ہیں تاکہ یہ سب انسانوں اور دیگر مخلوقات کے لئے ہر حوالے سے مفید واقع ہوں اور ہر اس چیز سے جو باران رحمت کی راہ میں رکاوت اور مانع ہے سے دور رہ سکیں۔ نماز استسقاء کے بعد اس خطبے تاکید ہوئی ہے۔

تاریخچہ اور سند

نہج البلاغہ کا خطبہ 115 یا خطبہ استسقاء نزول باران کی دعا ہے۔ اس خطبہ کو امام علیؑ نے کوفہ میں خشک سالی کے دوران نماز استسقاء کے بعد ارشاد فرمایا ہے۔[1] آیت اللہ مکارم شیرازی کے مطابق بہتر ہے نماز استسقاء کے بعد اس خطبے کو پڑھا جائے۔[2]

خطبہ استسقاء کو مختلف اختلاف کے ساتھ شیخ صدوق (305-381ھ) نے کتاب من لایحضرہ الفقیہ[3] اور شیخ طوسی (385-460ھ) نے کتاب تہذیب[4] اور مصباح المتہجد[5] میں نقل کیا ہے۔ عبدالزہرا حسینی (1338-1414ھ) اپنی کتاب مصادر نہج البلاغہ میں کہتے ہیں کہ اس خطبہ کو مختلف نسخوں کے ساتھ نقل کرنا اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ شیخ صدوق، سید رضی (359-406ھ) و شیخ طوسی میں سے ہر ایک نے اس خطبے کو مختلف مآخذ سے نقل کیا ہے۔[6] حبیب‌اللہ خویی (1265-1324ھ) کے مطابق سید رضی نے اس خطبہ کو شیخ صدوق کی عبارت سے انتخاب کر کے نقل کیا ہے۔[7] اہل‌ سنت منابع میں زمخشری (467-538ھ)‌ نے ربیع الابرار[8] اور ابن‌ اثیر (555-630ھ) نے نہایہ[9] میں سا خطبے کے بعض حصوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔

متن و ترجمہ

خطبہ 115 نہج‌البلاغہ
متن ترجمہ مفتی جعفر حسین
اللَّہُمَّ قَدِ انْصَاحَتْ جِبَالُنَا وَ اغْبَرَّتْ أَرْضُنَا وَ ہَامَتْ دَوَابُّنَا وَ تَحَيَّرَتْ فِي مَرَابِضِہَا وَ عَجَّتْ عَجِيجَ الثَّكَالَى عَلَى أَوْلَادِہَا وَ مَلَّتِ التَّرَدُّدَ فِي مَرَاتِعِہَا وَ الْحَنِينَ إِلَى مَوَارِدِہَا،

اللَّہُمَّ فَارْحَمْ أَنِينَ الْآنَّۃِ وَ حَنِينَ الْحَانَّۃِ، اللَّہُمَّ فَارْحَمْ حَيْرَتَہَا فِي مَذَاہِبِہَا وَ أَنِينَہَا فِي مَوَالِجِہَا۔ اللَّہُمَّ خَرَجْنَا إِلَيْكَ حِينَ اعْتَكَرَتْ عَلَيْنَا حَدَابِيرُ السِّنِينَ وَ أَخْلَفَتْنَا مَخَايِلُ الْجُودِ فَكُنْتَ الرَّجَاءَ لِلْمُبْتَئِسِ وَ الْبَلَاغَ لِلْمُلْتَمِسِ، نَدْعُوكَ حِينَ قَنَطَ الْأَنَامُ وَ مُنِعَ الْغَمَامُ وَ ہَلَكَ السَّوَامُ أَلَّا تُؤَاخِذَنَا بِأَعْمَالِنَا وَ لَا تَأْخُذَنَا بِذُنُوبِنَا، وَ انْشُرْ عَلَيْنَا رَحْمَتَكَ بِالسَّحَابِ الْمُنْبَعِقِ وَ الرَّبِيعِ الْمُغْدِقِ وَ النَّبَاتِ الْمُونِقِ سَحّاً وَابِلًا تُحْيِي بِہِ مَا قَدْ مَاتَ وَ تَرُدُّ بِہِ مَا قَدْ فَاتَ۔

بار الٰہا! (خشک سالی سے) ہمارے پہاڑوں کا سبزہ بالکل سوکھ گیا ہے اور زمین پر خاک اُڑ رہی ہے، ہمارے چوپائے پیاسے ہیں اور اپنے چوپالوں میں بوکھلائے ہوئے پھرتے ہیں اور اس طرح چلّا رہے ہیں جس طرح رونے والیاں اپنے بچوں پر بین کرتی ہیں اور اپنی چراگاہوں کے پھیرے کرنے اور تالابوں کی طرف بصد شوق بڑھنے سے عاجز آ گئے ہیں۔

پروردگارا! ان چیخنے والی بکریوں اور ان شوق بھرے لہجے میں پکارنے والے اونٹوں پر رحم کر۔ خدایا! تو راستوں میں ان کی پریشانی اور گھروں میں ان کی چیخ و پکار پر ترس کھا۔ بار خدایا! جب کہ قحط سالی کے لاغر اور نڈھال اونٹ ہماری طرف پلٹ پڑے ہیں اور بظاہر برسنے والی گھٹائیں آ آ کے بِن برسے گزر گئیں تو ہم تیری طرف نکل پڑے ہیں۔ تو ہی دکھ درد کے ماروں کی آس ہے اور تو ہی التجا کرنے والوں کا سہارا ہے۔ جب کہ لوگ بے آس ہو گئے اور بادلوں کا اٹھنا بند ہو گیا اور مویشی بے جان ہو گئے تو ہم تجھ سے دُعا کرتے ہیں کہ ہمارے اعمال کی وجہ سے ہماری گرفت نہ کر اور ہمارے گناہوں کے سبب سے ہمیں (اپنے عذاب میں) نہ دھر لے۔ اے اللہ! تو دھواں دھار بارشوں والے ابر اور چھاجوں پانی برسانے والی برکھا رُت اور نظروں میں کھب جانے والے ہریاول سے اپنے دامانِ رحمت کو ہم پر پھیلا دے۔ وہ موسلا دھار اور لگاتار اس طرح برسیں کہ ان سے مَری ہوئی چیزوں کو تو زندہ کر دے اور گزری ہوئی بہاروں کو پلٹا دے۔

اللَّہُمَّ سُقْيَا مِنْكَ مُحْيِيَۃً مُرْوِيَۃً تَامَّۃً عَامَّۃً طَيِّبَۃً مُبَارَكَۃً ہَنِيئَۃً [مَريِئَۃً] مَرِيعَۃً زَاكِياً نَبْتُہَا ثَامِراً فَرْعُہَا نَاضِراً وَرَقُہَا تُنْعِشُ بِہَا الضَّعِيفَ مِنْ عِبَادِكَ وَ تُحْيِي بِہَا الْمَيِّتَ مِنْ بِلَادِكَ۔

اللَّہُمَّ سُقْيَا مِنْكَ تُعْشِبُ بِہَا نِجَادُنَا وَ تَجْرِي بِہَا وِہَادُنَا وَ يُخْصِبُ بِہَا جَنَابُنَا وَ تُقْبِلُ بِہَا ثِمَارُنَا وَ تَعِيشُ بِہَا مَوَاشِينَا وَ تَنْدَى بِہَا أَقَاصِينَا وَ تَسْتَعِينُ بِہَا ضَوَاحِينَا مِنْ بَرَكَاتِكَ الْوَاسِعَۃِ وَ عَطَايَاكَ الْجَزِيلَۃِ عَلَى بَرِيَّتِكَ الْمُرْمِلَۃِ وَ وَحْشِكَ الْمُہْمَلَۃِ وَ أَنْزِلْ عَلَيْنَا سَمَاءً مُخْضِلَۃً مِدْرَاراً ہَاطِلَۃً يُدَافِعُ الْوَدْقُ مِنْہَا الْوَدْقَ وَ يَحْفِزُ الْقَطْرُ مِنْہَا الْقَطْرَ غَيْرَ خُلَّبٍ بَرْقُہَا وَ لَا جَہَامٍ عَارِضُہَا وَ لَا قَزَعٍ رَبَابُہَا وَ لَا شَفَّانٍ ذِہَابُہَا حَتَّى يُخْصِبَ لِإِمْرَاعِہَا الْمُجْدِبُونَ وَ يَحْيَا بِبَرَكَتِہَا الْمُسْنِتُونَ، فَإِنَّكَ تُنْزِلُ الْغَيْثَ مِنْ بَعْدِ ما قَنَطُوا وَ تَنْشُرُ رَحْمَتَكَ وَ أَنْتَ الْوَلِيُّ الْحَمِيدُ۔

خدایا! ایسی سیرابی ہو کہ جو (مردہ زمینوں کو) زندہ کرنے والی، سیراب بنانے والی اور بھرپور برسنے والی اور سب جگہ پھیل جانے والی اور پاکیزہ و با برکت اور خوشگوار و شاداب ہو، جس سے نباتات پھلنے پھولنے لگیں، شاخیں بار آور اور پتے ہرے بھرے ہو جائیں اور جس سے تو اپنے عاجز و زمین گیر بندوں کو سہارا دے کر اوپر اٹھائے اور اپنے مردہ شہروں کو زندگی بخش دے۔

اے اللہ! ایسی سیرابی کہ جس سے ہمارے ٹیلے سبزہ پوش ہو جائیں اور ندی نالے بہہ نکلیں اور آس پاس کے اطراف سر سبز و شاداب ہو جائیں اور پھل نکل آئیں اور چوپائے جی اٹھیں اور دور کی زمینیں بھی تر بتر ہو جائیں اور کھلے میدان بھی اس سے مدد پا سکیں۔ اپنی پھیلنے والی برکتوں اور بڑی بڑی بخششوں سے جو تیری تباہ حال مخلوق اور بغیر چرواہے کے کھلے پھرنے والے حیوانوں پر ہیں۔ ہم پر ایسی بارش ہو جو پانی سے شرابور کر دینے والی اور موسلا دھار اور لگاتار برسنے والی ہو۔ اس طرح کہ بارشیں بارشوں سے ٹکرائیں اور بوندیں بوندوں کو تیزی سے دھکیلیں (کہ تار بندھ جائے)، اس کی بجلی دھوکہ دینے والی نہ ہو اور نہ اُفق پر چھا جانے والی گھٹا پانی سے خالی ہو اور نہ سفید ابر کے ٹکڑے بکھرے بکھرے سے ہوں اور نہ صرف ہوا کے ٹھنڈے جھونکوں والی بوندا باندی ہو کر رہ جائے، (یوں برسا) کہ قحط کے مارے ہوئے اس کی سر سبزیوں سے خوشحال ہو جائیں اور خشک سالی کی سختیاں جھیلنے والے اس کی برکتوں سے جی اٹھیں اور تو ہی وہ ہے جو لوگوں کے ناامید ہو جانے کے بعد مینہ برساتا ہے اور اپنی رحمت کے دامن پھیلا دیتا ہے اور تو ہی والی و وارث اور (اچھی)صفتوں والا ہے۔


مضامین

خطبہ استسقاء خشک سالی سے وجود میں آنے والی مشکلات کے بیان کے ساتھ شروع ہوتا ہے اور اس خشک سالی کے علل و اسباب میں سے ایک اہم سبب کو لوگوں کی نافرمانی قرار دیتے ہیں۔ آگے چل کر خدا سے خاص خصوصیات کے حامل بارش کی دعا کرتے ہیں۔[10]

نسخہ خطبہ نمبر
المعجم المفہرس و صبحی صالح 115
فیض الاسلام 114
خوئی، ملاصالح 114
ابن ابی الحدید 114
محمد عبدہ 109
ملافتح اللہ 136
فی ظلال 113
ابن میثم 112[11]

گناہوں سے توبہ، رحمت خدا کی امید کی کرن

خطبہ کے پہلے حصے میں حضرت علیؑ نے اس زمانے کی شدید خشكسالی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پہاڑوں، زمين‌، چراگاہوں اور حيوانات کی حالات بیان کرتے ہیں،[12] ان حالات کو لوگوں کی ناامیدی اور غم و غصے کا سبب قرار دیتے ہوئے خدا سے ان کی گناہوں کی وجہ سے ان پر عذاب نہ کرنے کی درخواست کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ امام علیہ السلام کی یہ تعبیر اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ بہت ساری مشکلات اور گرفتاریاں لوگوں کی گناہوں کی وجہ سے پیش آتی ہیں اور جب تک لوگ خدا کی بارگاہ میں جا کر بخشش اور مغفرت کی دعا نہیں کرتے یہ مشکلات حل نہیں ہونگی۔[13] ابن‌میثم بحرانی (636-679 یا 699ھ) اس خطبہ کی شرح میں لوگوں پر آنے والی مشکلات اور لوگوں کا خدا کی رحمت سے محروم ہونے کی سب سے اہم علت لوگوں کی نافرمانی قرار دیتے ہیں۔[14]

اس کے بعد امام علیؑ اپنی اصلى درخواست کو خدا کے حضور پیش کرتے ہیں تاکہ خدا بارشوں سے پر بادلوں، سرسبز اور پانی سے پر بہار کے ذریعے اپنی رحمت مرحمت فرمائے، موسلہ دار بارش نازل فرمائے تاکہ مردہ زمین اس سے زندہ ہو اور جو کچھ کھویا ہے اسے دوبارہ پا سکیں۔[15]

خیر و برکت سے پر اور ہر شر سے عاری بارش

امام علیؑ اس خطبہ کے دوسرے حصے میں خدا سے بارش کی درخواست کرتے ہیں اور اس کے کچھ خصوصیات بیان کرتے ہیں۔ آیت اللہ مکارم شیرازی کے مطابق ان میں سے ہر ایک صفت ایک دقيق اور حیرت آور نکتے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ یہ اوصاف انسان کو خالق لم یزل کی عظمت کے مقابلے میں خاضع قرار دیتے ہیں اور سننے والا سمجھ جاتا ہے کہ بارش کے یہ قطرات کس قدر بركات اور آثار کا حامل ہے۔[16]

کہا جاتا ہے کہ خدا سے بارش کی درخواست کے ساتھ مذکورہ صفات کے بیان کا مقصد شاید یہ ہو کہ کہیں بارش کی وجہ سے سیلاب آکر سب کچھ بہا کر نہ لے جائے، یا بارش کسی خاص علاقے میں آئے جس سے سب مستفید نہ ہو۔ يا ممکن ہے بارش کے ساتھ ہوا سرد اور يخبندان ہو جائے جس کے خود منفی آثار ہیں۔ يا گرم ہوا، شدید طوفان‌، قدرتی آفات، موذی حشرات وغیرہ بارش کے نیک آثار کو ختم نہ کر دے۔ امام علیؑ نے یہ دعا ان تمام جوانب کو مد نظر رکھ کر کی ہے تاکہ تمام شرائط کا حامل ہو اور ہر قسم کے موانع کا سد باب ہو۔[17]

حوالہ جات

  1. مکارم شیرازی، پيام امام امير المومنينؑ، 1386ہجری شمسی، ج5، ص125 و ص13-131۔
  2. مکارم شیرازی، پيام امام امير المومنينؑ، 1386ہجری شمسی، ج5، ص126۔
  3. شیخ صدوق، من لایحضرہ الفقیہ، 1413ھ، ج1، ص527-535۔
  4. شیخ طوسی، تہذیب الاحکام، 1407ھ، ج3، ص151-154۔
  5. شیخ طوسی، مصباح المتہجّد و سلاح المتعبّد، 1411ھ، ج2، ص227-230۔
  6. حسینی، مصادر نہج البلاغۃ و أسانیدہ، 1409ھ، ج2، ص252۔
  7. ہاشمی خویی، منہاج البراعۃ في شرح نہج البلاغۃ، 1400ھ، ج8، ص72۔
  8. زمخشری، ربيع الأبرار و نصوص الأخبار، 1412ھ، ج1، ص128-129۔
  9. ابن‌اثیر، النہايہ في غريب الحديث والاثر، 1399ھ، ج1، ص350 و ج2، ص173 و ج2، ص448۔
  10. مکارم شیرازی، پيام امام امير المومنينؑ، 1386ہجری شمسی، ج5، ص126۔
  11. دشتی و محمدی، المعجم المفہرس لألفاظ نہج البلاغہ، 1375ہجری شمسی، ص510۔
  12. مکارم شیرازی، پيام امام امير المومنينؑ، 1386ہجری شمسی، ج5، ص129۔
  13. مکارم شیرازی، پيام امام امير المومنينؑ، 1386ہجری شمسی، ج5، ص131۔
  14. ابن‌میثم بحرانی، شرح نہج‌البلاغہ، 1404ھ، ج3، ص105-106۔
  15. مکارم شیرازی، پيام امام امير المومنينؑ، 1386ہجری شمسی، ج5، ص132۔
  16. مکارم شیرازی، پيام امام امير المومنينؑ، 1386ہجری شمسی، ج5، ص134۔
  17. مکارم شیرازی، پيام امام امير المومنينؑ، 1386ہجری شمسی، ج5، ص135۔

مآخذ

  • ابن‌اثیر، مبارک بن محمد، النہايہ في غريب الحديث والاثر، بیروت، المكتبۃ العلميۃ، 1399ھ۔
  • ابن‌میثم بحرانی، میثم بن علی، شرح نہج‌البلاغہ، تہران، دفتر نشر کتاب، 1404ھ۔
  • دشتی، محمد و کاظم محمدی، المعجم المفہرس لألفاظ نہج البلاغہ، قم، موسسہ تحقیقاتی امیرالمومنینؑ، 1375ہجری شمسی۔
  • حسینی، عبد الزہراء، مصادر نہج البلاغۃ و أسانیدہ، بیروت،‌ دار الزہراء، 1409ھ۔
  • زمخشری، محمود بن عمر، ربيع الأبرار و نصوص الأخبار، بیروت، مؤسسۃ الأعلمي للمطبوعات، 1412ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، من لایحضرہ الفقیہ، بہ‌تحقیق: علی‌اکبر غفاری، قم، دفتر انتشارات اسلامى وابستہ بہ جامعہ مدرسين حوزہ علميہ قم‏، چاپ دوم، 1413ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، تہذیب الاحکام، بہ‌تحقیق: حسن خرسان، تہران، دارالکتب الاسلامیۃ، چاپ چہارم، 1407ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، مصباح المتہجّد و سلاح المتعبّد، بیروت، موسسہ فقہ الشیعۃ، چاپ اول، 1411ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، پيام امام امير المومنينؑ، تہران، دارالکتب الاسلامیۃ، 1386ہجری شمسی۔
  • ہاشمی خویی، حبیب‌اللہ، منہاج البراعۃ في شرح نہج البلاغۃ، بہ‌تحقیق: ابراہیم میانجی، تہران، مكتبۃ الإسلاميۃ، چاپ چہارم، 1400ھ۔