کوفہ میں امام زین العابدین کا خطبہ اس تقریر کو کہا جاتا ہے جو امامؑ نے واقعہ کربلا کے بعد اسیری کے دوران کوفہ میں بیان کیا ہے۔ جب کربلا کے اسیر کوفہ پہنچے تو حضرت زینب، حضرت فاطمہ صغری، اور حضرت ام کلثوم[یادداشت 1]کے خطبوں کے بعد امام سجادؑ نے بھی کوفیوں کی مذمت میں ایک خطبہ دیا۔
کہا جاتا ہے کہ لوگ امامؑ کی باتوں سے متاثر ہوکر رونے لگے اور امام کو انتقام لینے کی تجویز دی؛ لیکن امام نے ان کو ان کی وعدہ خلافی یاد دلاتے ہوئے فرمایا: «میں تم سے بس یہ چاہتا ہوں کہ نہ ہماری مدد کریں اور نہ ہی ہم سے جنگ کریں۔»
بعض کا کہنا ہے کہ اسوقت کے کوفہ کی حالات، کوفیوں کو حکومتی افراد کا خوف اور حکومتی کارندوں کی سختیوں کے پیش نظر کوفہ میں دئے ہوئے خطبوں کا ماننا مشکل نظر آتا ہے اس کے علاوہ یہ اس خطبے کے جملے اور دمشق کی مسجد میں دیے ہوئے خطبے کے جملوں سے زیادہ مشابہت رکھتا ہے۔ اس لئے احتمال دیا گیا ہے کہ شاید یہ وہی خطبہ ہے لیکن وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ راویوں نے ان دونوں کو آپس میں ملایا ہے۔[1]
حزیم ابن شریک اسدی کہتا ہے: اس وقت امام سجاد علیہ السلام لوگوں کی طرف گئے اور ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے خاموش ہونے کا کہا اور لوگ خاموش ہوئے اور حمد و ثنائے الہی کو بجا لانے کے بعد، رسول خدا صلی اللہ و علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجا اور لوگوں سے مخاطب ہو کر فرمایا:
( اے لوگو! جو کوئی ہمیں جانتا، پہچانتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ میں کون ہوں اور جو ہمیں نہیں پہچانتا وہ جان لے کہ میں علی ابن حسین(علیھما السلام) ہوں کہ جن کو لب فرات پر بغیر کسی جرم و خطا اور بنا کسی خون بہا کے، ذبح کردیا گیا۔ میں اس کا فرزند ہوں جن کی حرمت کو پامال کیا گیا اور ان کے مال و اسباب کو لوٹا گیا اور ان کے خاندان کو اسیر کیا اور میں اس کا فرزند ہوں جس کو صبر کی حالت میں قتل کیا گیا اور یہی افتخار ہمارے لئے کافی ہے۔
اے لوگو! تمہیں خدا کی قسم ہے؛ کیا تمہیں یاد ہے کہ تم نے ہی میرے والد کو خطوط لکھے اور ان کودعوت دی بعد میں انھیں دھوکہ دیا؟ ان کے ساتھ وفاداری کا عہد کیا اور ان کے نمایندہ کے ساتھ بیعت کی اور پھر اہم وقت و حالات میں انہیں اکیلا چھوڑ دیا اور ان سے جنگ کرنے لگے اور ان کو رسوا کیا۔ واے ہو تم پر، نابودی ہو تمہارے لئے، تم نے کتنا برا توشہ آخرت فراہم کیا، تمہارا عقیدہ اور کردار کتنا برا تھا۔ کس آنکھ سے پیغمبر کو دیکھوگے جب وہ یہ کہیں گے کہ تم نے میری عترت کو قتل کیا اور میری حرمت کو پامال کیا تو اب تم ہماری امت میں سے نہیں ہو۔
حزیم کہتا ہے: جب امامؑ کی گفتگو اس مقام تک پہنچی تو لوگوں کے رونے کی آوازیں بلند ہونے لگیں، اور سب ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے کہ ہم سب ہلاک ہو گئے اور ہمیں معلوم بھی نہیں ہوا! پھر علی ابن الحسینؑ نے فرمایا: اللہ تعالی کی رحمت ہو اس شخص پر جو نصیحت کو مانتا ہے اور میری وصیت کو صرف اللہ، اس کے رسولؐ اور آل رسولؑ کی خشنودی کی خاطر مان لے!«فان لنا فی رسول الله (ص) اسوة حسنة». کیونکہ ہمارے لئے رسول اللہؐ کی زندگی میں اسوہ حسنہ ہے۔
سب نے کہا یابن رسول اللہ ہم آپ کے تابعدار ہیں اور آپ سے کئے ہوئے وعدے پر پابند رہیں گے۔ہمارا دل آپ کی طرف راغب ہے اللہ آپ پر رحمت کرے! آپ حکم دیں تو ہم ہر اس شخص کے ساتھ جنگ کریں گے جو آپ سے جنگ کرے اور ہر اس شخص کے ساتھ صلح کریں گے جس کے ساتھ آپ صلح کریں گے اور آپ کے خون کا قصاص اس شخص سے لینگے جس نے آپ اور ہم پر ستم ڈھایا ہے۔
علی بن الحسینؑ نے فرمایا: وای اے مکار بےوفا لوگ! تم اور تمہاری خواہشات نفس کے درمیان تمہاری مکاریاں حائل ہوئی ہیں جس طرح میرے والد کی مدد کی ہے کیا اسی طرح میری بھی مدد کرو گے؟ ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ اللہ کی قسم «راقصات» [یادداشت 2] کل جو زخم میرے والد اور ان کے اہل بیت کے قتل سے میرے دل پر لگی ہے ابھی تک ٹھیک نہیں ہوئی ہے، ابھی تک پیغمبر اکرمؐ کی یاد نہیں بھولے ہیں میرے والد، اور ان کے اولاد کی داغ نے میرے بال سفید کیا ہے اور اس کی کڑواہٹ ابھی تک میرے حلق اور حلقوم کے مابین ہے اور اس کا غم میرے سینے میں ہے، لہذا تم لوگوں سے میری درخواست یہی ہے کہ میری نہ مدد کرو اور نہ ہم سے جنگ کرو!
پھر فرمایا:
حسینؑ اگر قتل ہوئے تو اس پر تعجب نہیں ہے کیونکہ ان کے والد گرامی علیؑ ان سے بہتر تھے اور وہ بھی قتل ہوئے؛
اے کوفہ والو! حسینؑ پر آنے والی مصیبت پر خوش نہ ہونا یہ بہت بڑی مصیبت ہے؛
میری جان اس پر قربان جو نہر فرات کے کنارے شہید ہوئے اور اس کے قتل کی سزا جہنم ہے۔
↑ام کلثوم سے مراد (سیدہ نفیسہ)ام کلثوم صغری ہیں کیونکہ ام کلثوم کبری کربلا کے سانحے سے کئی سال پہلے وفات پائی تھیں۔(شہیدی، زندگانی علی ابن الحسین(ع)، ۱۳۸۵ش، ص۵۶.)
↑راقصات، ان انٹوں کو کہا جاتا ہے جو حاجیوں کو مکہ سے منی کی طرف لے جاتے ہیں۔(بابایی آملی، پیام آوران کربلا، ۱۳۸۴ش، ص۳۹.)