مندرجات کا رخ کریں

ذعلب یمانی

ویکی شیعہ سے

ذِعْلِب یَمانی، حضرت علیؑ کے اصحاب میں شمار ہوتے ہیں۔ عبد اللہ مامقانی اور سید محسن امین جیسے علم رجال کے ماہرین کے مطابق جب حضرت علیؑ خلافت پر فائز ہوئے تو ذعلب نے آپ سے ایک سوال کیا، جو اللہ کے دیدار سے متعلق تھا۔[1] یہ گفتگو نہج البلاغہ کے خطبہ نمبر 179 سمیت معتبر حدیثی منابع جیسے الکافی، الارشاد اور الاحتجاج میں بھی نقل ہوئی ہے۔[2]

جب امام علیؑ نے "سلونی قبل أن تفقدونی" (ترجمہ: مجھ سے پوچھو اس سے پہلے کہ مجھے کھو دو) کا جملہ اپنی زبان پر جاری کیا تو ذعلب نے آپ سے سوالِ کیا: کیا آپ نے اپنے پروردگار کو دیکھا ہے؟ امامؑ نے جواب دیا "میں اُس ذات کی عبادت نہیں کرتا جسے میں نے نہ دیکھا ہو!"۔ یہ سن کر ذعلب نے روئیت خدا کی نوعیت کے بارے میں سوال کیا تو امام نے فرمایا: "ظاہری آنکھوں سے وہ دکھائی نہیں دیتا، مگر دل کی بینائی سے اُس کا مشاہدہ کیا جا ہے۔"[3] اسی سلسلے میں امامؑ نے خدا کی ایسی توصیف کی جسے سن کر ذعلب بے ہوش ہو گیا۔ اس کے بعد اس نے قسم کھائی کہ اس نے آج تک ایسا جواب نہیں سنا تھا اور اس کے بعد وہ یہ سوال کبھی نہیں اٹھائے گا۔[4]

اس واقعے سے پہلے، چونکہ امام علیؑ نے تورات و انجیل اور قرآن کے معانی اور حقائق پر اپنی علمی تسلط کے بارے میں گفتگو کی تھی تو ذعلب نے اپنے دوستوں سے کہا تھا کہ میں آج علیؑ کو لاجواب کر دونگا!"[5] بعض علماء ذعلب کے اس عمل کو اس کی بے ادبی اور جہالت کی علامت قرار دیتے ہیں،[6] لیکن امام کے جواب کے بعد اس کا بے ہوش ہونا اور توبہ کرنا اس کے فکری اور ایمانی انقلاب کی نشانی قرار دی جاتی ہے۔[7]

اگرچہ قدیم رجالی کتابوں میں ذعلب کا ذکر نہیں ملتا،[8] لیکن شیخ صدوق (متوفی 381ھ) نے اپنی حدیثی کتابوں الامالی اور التوحید میں اصبغ بن نباتہ کے توسط سے ذعلب کو ایک فصیح و بلیغ اور جرأت مند شخصیت کے طور پر پیش کیا ہے۔[9] سید محسن امین اور محمدتقی شوشتری جیسے ماہرینِ رجال نے واضح کیا ہے کہ ذعلب کے نام کے ساتھ "یمانی" کا لقب صرف سید رضی (متوفی 406ھ) کی تحریروں میں پایا جاتا ہے[10]۔

مامَقانی نے اپنی رجالی کتاب تنقیح المَقال میں ذعلب کو شیعہ امامیہ مکتب فکر کا پیروکار اور قابلِ مدح شخصیت قرار دیا ہے۔[11] اسی طرح تفسیر نمونہ میں انہیں حضرت علیؑ کے فاضل اور باوفا اصحاب میں شمار کیا ہے۔[12]

حوالہ جات

  1. مامقانی، تنقیح المقال، مؤسسہ آل البیت، ج26، ص378؛ امین، اعیان الشیعہ، 1403ھ، ج6، ص431۔
  2. ہاشمی خویی، منہاج البراعہ، 1400ھ، ج10، ص257۔
  3. شیخ صدوق، الامالی، 1362ش/1400ھ، ص342؛ امین، اعیان الشیعہ، 1403ھ، ج6، ص431۔
  4. شیخ صدوق، الامالی، 1362ش/1400ھ، ص342 ـ 343۔
  5. شیخ صدوق، الامالی، 1362ش/1400ھ، ص342 ـ 341۔
  6. شوشتری، قاموس الرجال، 1412ھ، ج4، ص307؛ امین، اعیان الشیعہ، 1403ھ، ج6، ص431۔
  7. امین، اعیان الشیعہ، 1403ھ، ج6، ص431۔
  8. جمعی از نویسندگان، دانشنامہ نہج البلاغہ، 1394ش، ج1، ص409؛ مامقانی، تنقیح المقال، مؤسسہ آل البیت، ج26، ص378
  9. شیخ صدوق، الامالی، 1362ش/1400ھ، ص342؛ شیخ صدوق، التوحید، 1398ھ، ص305۔
  10. امین، اعیان الشیعہ، 1403ھ، ج6، ص431؛ شوشتری، قاموس الرجال، 1412ھ، ج4، ص307۔
  11. مامقانی، تنقیح المقال، مؤسسہ آل البیت، ج26، ص380
  12. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ش، ج1، ص217۔

مآخذ

  • امین، سید محسن، اعیان الشیعہ، لبنان، دار التعارف، 1403ھ۔
  • جمعی از نویسندگان، دانشنامہ نہج البلاغہ، زیر نظر: سید جمال الدین دین‌پرور، تہران، مؤسسہ فرہنگی مدرسہ برہان، 1394ہجری شمسی۔
  • شوشتری، محمدتقی، قاموس الرجال، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ دوم، 1412ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، الأمالی، بیروت، أعلمی، چاپ پنجم، 1362ش/1400ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، التوحید، تحقیق: ہاشم حسینی، قم، جامعہ مدرسین، چاپ اول، 1398ھ۔
  • مامقانی، عبداللہ، تنقیح المقال فی علم الرجال، ج26، حاشیہ: محی الدین مامقانی، قم، مؤسسہ آل البیت، بی‌تا.
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، 1374ہجری شمسی۔
  • نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، قم، مؤسسہ دار الہجرہ، 1414ھ۔
  • ہاشمی خویی، حبیب اللہ، منہاج البراعۃ فی شرح نہج البلاغۃ، ترجمہ: حسن حسن‌زادہ آملی و محمدباقر کمرہ‌ای، تحقیق: ابراہیم میانجی، تہران، مکتبۃ الاسلامیہ، چاپ چہارم، 1400ھ۔