سورہ حجر
ابراہیم | سورۂ حجر | نحل | |||||||||||||||||||||||
|
سوره حِجر قرآن کی پندرھویں سورت ہے جو ۱۴ویں پارے میں واقع ہے۔ اسے مکی سورتوں میں شمار کرتے ہیں۔اس سورے کی وجہ تسمیہ سورے کی آیات ۸۰ تا ۸۴ میں مذکور داستان قوم حضرت صالح یعنی قوم ثمود میں حجر نام کے علاقے اور اصحاب حجر کا ذکر ہوا ہے۔ خدا پر ایمان لانا، کائنات، علامات معاد، بدکرداروں کا انجام اور قرآن کی اہمیت اور عظمت اس سورت کے مضامین ہیں نیز داستان خلقت حضرت آدم، ابلیس کے سوا سجدہ ملائکہ، حضرت ابراہیم کے حضور ملائکہ آنا اور انہیں بشارت دینا نیز عذاب قوم لوط اور داستان قوم ثمود کی طرف اشارہ بھی کیا گیا ہے۔
سورت کی مشہور آیات میں سے نویں(9) آیت ہے جس میں خداوند کریم نزول ذکر (قرآن) اور اس کی حفاظت کی تاکید کرتا ہے۔ بہت سے مفسرین اس آیت کو عدم تحریف قرآن کی دلیل سمجھتے ہیں۔ اس سورت کی تلاوت کرنے والے کو خدا مہاجرین و انصار کی تعداد کے برابر اجر عطا کرے گا۔
تعارف
- وجہ تسمیہ
یہ وہ تنہا سورہ ہے جس میں حضرت صالح کی قوم یعنی قوم ثَمود کو اصحاب حجر کہا گیا اور اسی وجہ سے اسے سورہ حجر نام دیا گیا۔[1] حجر اس زمین کام ہے جہاں یہ قوم آباد تھی۔[2]
- ترتیب اور مقام نزول
سوره حجر مکی سورتوں کا حصہ ہے اورترتیب نزول کے مطابق چونویں(54ویں) سورہ ہے کہ جو رسول خدا پر نازل ہوا۔ قرآن کی موجودہ ترتیب میں یہ سورت پندرھویں(15ویں) نمبر پر ہے[3] اور ۱۴ ویں سیپارے میں واقع ہے۔
- تعداد آیات اور دیگر خصوصیات
سوره حجر ۹۹ آیات، ۶۵۸ کلمات ارو ۲۸۸۱ حروف پر مشتمل ہے۔ یہ سورت حجم کے لحاظ سے قرآن کی مثانی سورتوں کا حصہ اور ایک حِزب پر مشتمل ہے۔حروف مقطعہ سے شروع ہونے والی نویں(9) سورت ہے۔[4]
مضامین
تفسیر نمونہ نے اس سورت مضامین کو درج ذیل حصوں میں خلاصہ کیا ہے:
- عالم ہستى اور خلقت میں فکر کرنے کے ذریعے خدا پر ایمان لانے سے متعلق آیات۔
- معاد اور بدکرداروں کی سزا سے متعلق آیات۔
- قرآن کی خصوصیات،اہمیت اور عظمت سے متعلق آیات۔
- مختلف قصص کا بیان جیسے داستان خلقت حضرت آدم، ابلیس کے علاوہ سجدہ ملائکہ، حضرت ابراہیم کے پاس فرشتوں آنا اور انہیں بشارت دینا، عذاب قوم لوط اور داستان قوم ثمود۔
- انذار، بشارت و تہدید و تشویق کے ساتھ مؤثر وعظ و نصیحت.
- مکہ کے خطرناک حالات میں مخالفین کے سخت اقدامات کے مقابلے میں رسول خدا کو جرات اور بہادری سے مقابلہ کی نصیحت اور ان کی دلجوئی۔[5]
چند آیات کا شأن نزول
نماز کی صف اول
سورت کی چوبیسویں آیت کے دو شأن نزول ذکر ہوئے ہیں. اس آیت میں خدا نے مستقدمین: یعنی سبقت کرنے والوں اور مستأخرین: یعنی دیر کرنے والوں سے آگاہی کی خبر دی۔
- پیامبر(ص) نے کہا: «نماز کی پہلی صف میں کھڑے ہونے والوں پر خداوند اور ملائکہ درود بھیجتے ہیں»۔ اسی وجہ سے لوگ پہلی صف میں کھڑے ہونے کی کوششش کرتے۔ اسی بنا پر قبیلہ بنی عذره کے لوگوں نے مسجد سے دور گھر ہونے کی وجہ سے گھر بیچنے اور مسجد کے نزدیک گھر خریدنے کا ارادہ کیا تا کہ جلد نماز کی صف اول میں پہنچ سکیں۔ یہ آیت ان افراد کے بارے میں نازل ہوئی۔[6]
- بعض نے کہا:ایک خوبصورت خاتون رسول خدا کے پیچھے نماز جماعت ادا کرتی تھی۔ کچھ لوگ اس عورت سے اپنی نگاہوں کو بچانے کی خاطر پہلی صف میں کھڑے ہوتے اور کچھ لوگ اسے دیکھنے کی خاطر آخری صف میں کھڑے ہوتے۔مذکورہ آیت کا شان نزول اس واقعے سے مربوط ہے۔[7]
دلوں سے کینوں کو دور کرنا
سورہ حجر کی ۴۷ ویں آیت کے متعلق امام باقر(ع) سے مروی ہے: امام سجاد(ع) سے سوال ہوا کہ یہ آیت: «اور ہم ان کے سینوں سے ہر قسم کی کدورت نکال دیں گے اور وہ بھائیوں کی طرح تختوں پر آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے۔» ابوبکر، عمر و علی(ع) کے بارے میں نازل ہوئی؟ امام نے جواب دیا: ہاں یہ ان کی توصیف میں نازل ہوئی۔ کیونکہ زمانۂ جاہلیت میں تَیْم، عَدِی اور بنی ہاشم کے قبیلوں کے درمیان دشمنی تھی لیکن اسلام قبول کرنے کے بعد بھائی چارے کو قبول کیا۔ ایسا ہی ہوا ایک روز ابوبکر درد حاضره میں مبتلا ہوا تو علی نے اسے مساج کیا تا کہ اسے اس درد س نجات حاصل ہو۔ اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی۔[8]
سات قافلے اور سات قرآنی آیات
اس سورت کی ۸۷ ویں آیت کے شان نزول میں آیا ہے: بنی قُریظہ اور بنینضیر کے یہودیوں کیلئے سات قافلے کپڑے، عطر، جواہر اور دیگر اجناس لے کر مدینہ میں آئے۔ مسلمانوں نے انہیں دیکھ کر کہا :اگر یہ مال و اسباب ہمارے لئے ہوتا تو ہم اس کے وسیلے سے قوی اور ثروتمند ہو جاتے اور ہم راہ خدا میں انفاق کرتے۔ اس موقع پر یہ آیت «وَ لَقَدْ آتَیناكَ سَبْعاً مِنَ الْمَثانی وَ الْقُرْآنَ الْعَظیمَ؛ اور بلاشبہ ہم نے آپ کو دہرائی جانے والی سات آیتیں عطا کی ہیں اور قرآنِ عظیم بھی۔» نازل ہوئی اور پیامبر(ص) نے فرمایا: میں نے تمہیں سات آیتیں دیں جو ان سات قافلوں سے بہتر ہیں۔[9] «سبع مثانی»[10] سے کیا مراد ہے اس کے متعلق مفسرین میں اختلاف نظر ہے جبکہ بہت سی روایات میں آیا ہے کہ اس سے مراد سوره حمد ہے۔[11]
مشہور آیات
آیت محافظت قرآن
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ﴿٩﴾
بے شک یہ (کتاب) نصیحت ہمیں نے اُتاری ہے اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں
اکثر مفسرین اس آیت کو قرآن میں عدم تحریف سے متعلق آیات میں شمار کرتے ہیں۔[12] تفاسیر میں «ذکر» سے قرآن مراد لیا گیا ہے۔[13] اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہا گیا کہ کس طرح قرآن میں تحریف کے نہ ہونے پر قرآن سے استدلال کیا جا سکتا ہے کیونکہ عین ممکن ہے کہ یہی آیت تحریف کا شکار ہوئی ہو۔ اس کا جواب دیا گیا: تحریف قرآن کے قائلین معتقد ہیں کہ اس قرآن میں کسی چیز کا اضافہ نہیں ہوا بلکہ کمی واقع ہوئی ہے۔ اس بنا پر یہ آیت ان کے اس دعوے کا مقابلہ کر سکتی ہے۔[14] [یادداشت 1]
آیت تواضع
لَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَىٰ مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِّنْهُمْ وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِينَ﴿٨٨﴾
آپ اپنی آنکھ اٹھا کر بھی ان چیزوں کی طرف نہ دیکھیں جن سے ہم نے مختلف قسم کے لوگوں (کافروں) کو بہرہ مند کیا ہے اور نہ ہی ان کے بارے میں غمگین ہوں اور اہلِ ایمان کے لئے اپنے بازو پھیلا دیں (ان کے ساتھ شفقت سے پیش آئیں)۔
مفسرین نے «وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِينَ» کی تواضع اورنرم خوئی کے ساتھ وضاحت کی ہے جیسے مرغی اپنے بچوں کو آغوش میں کیلئے اپنے پروں کو پھیلاتی ہے۔[15] علامہ طباطبائی معتقد ہیں کہ خفض جناج صبر، صلۂ رحمی اور مؤمنین کے ساتھ سازگاری کے معنا میں ہے اور اس بات سے کنایہ ہے کہ تمام مسلمانوں کا ھم و غم مسلمانوں کی تربیت اور معاشرت میں منحصر ہونا چاہئے اور وہ باہمی ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں۔[16]
آیت تسبیح
فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَكُن مِّنَ السَّاجِدِينَ﴿٩٨﴾
آپ اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ تسبیح کریں اور سجدہ کرنے والوں میں سے ہو جائیں۔
تسبیح اور خدا کی حمد کو اثر مصیبت کم کرنے، بے حوصلگی،زبان کے زخم سینہ کی کشادگی کے راستوں میں شمار کرتے ہیں۔[17] خداوند کریم اس آیت میں پیامبرش کو توصیہ کرتا ہے کہ کفار کی طرف سے آپ لگائے گئے زبان کے زخموں کے ناپسندیدہ آثار کے خاتمے کیلئے عبادت اور تسبیح خداوند بجا لائیں کیونکہ یہ عمل آپ کی قوت کو زیادہ اپ کی قوت برداشت کو بڑھائیں گے۔ابن عباس سے مروی روایت کے مطابق رسول خدا جب نماز پڑھنے کا ارادہ کرتے تو آپ غمگین ہوتے تو تو آپ نماز کیلئے اٹھ کھڑے ہوتے تو آپ کے چہرے سے حزن و اندوہ کے آثار زائل ہو جاتے۔[18]
آیت عبادت
وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّىٰ يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ﴿٩٩﴾
مفسرین روایات کی روشنی میں اس آیت میں لفظ یقین سے موت سمجھتے ہیں اور موت کے قطعی اور یقینی ہونے کی بنا پر موت کو یقین کا نام دیا گیا ہے۔ اس آیت میں عبادت کو اگر موت کی قید کے بغیر ذکر کیا جاتا تو انسان ایک مرتبہ خدا کی عبادت کرنے کی وجہ سے اس کا مطیع کہلاتا لیکن اس آیت میں عبادت کو موت کی قید کے ساتھ ذکر کرنے کی بنا پر یہ آیت عبادت کو انسان کیلئے موت تک ضروری قرار دیتی ہے[19] اور یہ آیت صوفیوں کی جانب سے عبادت کے ترک کرنے کے نظریے کو رد کرتی ہے۔[20]
فضیلت اور خواص
مروی ہے کہ اگر کوئی سوره حجر قرائت کرے گا تو خداوند مہاجرین، انصار اور رسول سے مسخرہ کرنے والوں کی تعداد کے دس برابر اجر و حسنات عطا کرے گا۔[21] بعض تفاسیر میں اس کے خواص ذکر ہوئے ہیں ان میں سے یہ ہے کہ اگر کوئی اسے لکھ کر اپنے پاس رکھے گا تو اس کے رزق میں وسعت پیدا ہوگی۔[22]
پیغمبر اکرم کا مذاق اڑانے والوں سے مقابلہ | |||||||||||||||||||||||||||||||
گفتارچہارم: آیہ ۸۵-۹۹ مذاق اڑانے والوں سے مقابلے کے اصول | گفتار سوم: آیہ ۴۹-۸۴ منکرین پیغمبر کی سزا | گفتار دوم: آیہ ۱۰-۴۸ پیغمبر کا مذاق اڑانے کے عوامل | گفتار اول: آیہ ۱-۹ پیغمبر کا مذاق اڑانے والوں کا صحیح رویہ نہ ہونا | ||||||||||||||||||||||||||||
پہلی اصل: آیہ ۸۵-۸۷ مذاق اڑانے والوں کی حرکتوں سے چشم پوشی کرنا | پہلا مطلب: آیہ ۴۹-۵۱ بندوں پر اللہ کی رحمت اور عذاب کی سنت | پہلا عامل: آیہ ۱۰-۱۵ حق ماننے میں گناہگاری اور ضد | پہلا مطلب: آیہ ۱-۵ عذاب دیکھنے پر کافروں کا اپنے اعمال پر نادم ہونا | ||||||||||||||||||||||||||||
دوسری اصل: آیہ ۸۸ کافروں کے مال کی طرف لالچ نہ ہونا | دوسرا مطلب: آیہ ۵۲-۶۰ فرشتوں کے نزول کے ذریعے حضرت ابراہیم پر رحمت نازل کرنا | دوسرا عامل: آیہ ۱۶-۲۵ اللہ کی ربوبیت کی نشانی پر توجہ نہ کرنا | دوسرا مطلب؛ آیہ ۶-۹ پیغمبر پر جنون کا جھوٹا الزام | ||||||||||||||||||||||||||||
تیسری اصل: آیہ ۸۹-۹۳ مذاق اڑانے والوں کو انتباہ | تیسرا مطلب: آیہ ۶۱-۷۷ قومِ لوط پر عذاب | تیسرا عامل: آیہ ۲۶-۶۸ انسان میں حق کا مقابلہ کرنے کا عنصر ہونا | |||||||||||||||||||||||||||||
چوتھی اصل: آیہ ۹۴-۹۶ حقگوئی اور اللہ کی مدد پر یقین | چوتھا مطلب: آیہ ۷۸-۷۹ قومِ شعیب کے جنگل نشینوں پر عذاب | ||||||||||||||||||||||||||||||
پانچویں اصل: آیہ ۹۷-۹۹ اللہ کی عبادت اور بندگی انجام دینا | پانچواں مطلب: آیہ ۸۰-۸۴ قوم ثمود کے پہاڑوں پر رہنے والوں پر عذاب | ||||||||||||||||||||||||||||||
متن اور ترجمہ
سورہ حجر
|
ترجمہ
|
---|---|
الَرَ تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ وَقُرْآنٍ مُّبِينٍ ﴿1﴾ رُّبَمَا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُواْ لَوْ كَانُواْ مُسْلِمِينَ ﴿2﴾ ذَرْهُمْ يَأْكُلُواْ وَيَتَمَتَّعُواْ وَيُلْهِهِمُ الأَمَلُ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ ﴿3﴾ وَمَا أَهْلَكْنَا مِن قَرْيَةٍ إِلاَّ وَلَهَا كِتَابٌ مَّعْلُومٌ ﴿4﴾ مَّا تَسْبِقُ مِنْ أُمَّةٍ أَجَلَهَا وَمَا يَسْتَأْخِرُونَ ﴿5﴾ وَقَالُواْ يَا أَيُّهَا الَّذِي نُزِّلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ إِنَّكَ لَمَجْنُونٌ ﴿6﴾ لَّوْ مَا تَأْتِينَا بِالْمَلائِكَةِ إِن كُنتَ مِنَ الصَّادِقِينَ ﴿7﴾ مَا نُنَزِّلُ الْمَلائِكَةَ إِلاَّ بِالحَقِّ وَمَا كَانُواْ إِذًا مُّنظَرِينَ ﴿8﴾ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ﴿9﴾ وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ فِي شِيَعِ الأَوَّلِينَ ﴿10﴾ وَمَا يَأْتِيهِم مِّن رَّسُولٍ إِلاَّ كَانُواْ بِهِ يَسْتَهْزِؤُونَ ﴿11﴾ كَذَلِكَ نَسْلُكُهُ فِي قُلُوبِ الْمُجْرِمِينَ ﴿12﴾ لاَ يُؤْمِنُونَ بِهِ وَقَدْ خَلَتْ سُنَّةُ الأَوَّلِينَ ﴿13﴾ وَلَوْ فَتَحْنَا عَلَيْهِم بَابًا مِّنَ السَّمَاء فَظَلُّواْ فِيهِ يَعْرُجُونَ ﴿14﴾ لَقَالُواْ إِنَّمَا سُكِّرَتْ أَبْصَارُنَا بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَّسْحُورُونَ ﴿15﴾ وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِي السَّمَاء بُرُوجًا وَزَيَّنَّاهَا لِلنَّاظِرِينَ ﴿16﴾ وَحَفِظْنَاهَا مِن كُلِّ شَيْطَانٍ رَّجِيمٍ ﴿17﴾ إِلاَّ مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَأَتْبَعَهُ شِهَابٌ مُّبِينٌ ﴿18﴾ وَالأَرْضَ مَدَدْنَاهَا وَأَلْقَيْنَا فِيهَا رَوَاسِيَ وَأَنبَتْنَا فِيهَا مِن كُلِّ شَيْءٍ مَّوْزُونٍ ﴿19﴾ وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِيهَا مَعَايِشَ وَمَن لَّسْتُمْ لَهُ بِرَازِقِينَ ﴿20﴾ وَإِن مِّن شَيْءٍ إِلاَّ عِندَنَا خَزَائِنُهُ وَمَا نُنَزِّلُهُ إِلاَّ بِقَدَرٍ مَّعْلُومٍ ﴿21﴾ وَأَرْسَلْنَا الرِّيَاحَ لَوَاقِحَ فَأَنزَلْنَا مِنَ السَّمَاء مَاء فَأَسْقَيْنَاكُمُوهُ وَمَا أَنتُمْ لَهُ بِخَازِنِينَ ﴿22﴾ وَإنَّا لَنَحْنُ نُحْيِي وَنُمِيتُ وَنَحْنُ الْوَارِثُونَ ﴿23﴾ وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَقْدِمِينَ مِنكُمْ وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَأْخِرِينَ ﴿24﴾ وَإِنَّ رَبَّكَ هُوَ يَحْشُرُهُمْ إِنَّهُ حَكِيمٌ عَلِيمٌ ﴿25﴾ وَلَقَدْ خَلَقْنَا الإِنسَانَ مِن صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ ﴿26﴾ وَالْجَآنَّ خَلَقْنَاهُ مِن قَبْلُ مِن نَّارِ السَّمُومِ ﴿27﴾ وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلاَئِكَةِ إِنِّي خَالِقٌ بَشَرًا مِّن صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ ﴿28﴾ فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِن رُّوحِي فَقَعُواْ لَهُ سَاجِدِينَ ﴿29﴾ فَسَجَدَ الْمَلآئِكَةُ كُلُّهُمْ أَجْمَعُونَ ﴿30﴾ إِلاَّ إِبْلِيسَ أَبَى أَن يَكُونَ مَعَ السَّاجِدِينَ ﴿31﴾ قَالَ يَا إِبْلِيسُ مَا لَكَ أَلاَّ تَكُونَ مَعَ السَّاجِدِينَ ﴿32﴾ قَالَ لَمْ أَكُن لِّأَسْجُدَ لِبَشَرٍ خَلَقْتَهُ مِن صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ ﴿33﴾ قَالَ فَاخْرُجْ مِنْهَا فَإِنَّكَ رَجِيمٌ ﴿34﴾ وَإِنَّ عَلَيْكَ اللَّعْنَةَ إِلَى يَوْمِ الدِّينِ ﴿35﴾ قَالَ رَبِّ فَأَنظِرْنِي إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ ﴿36﴾ قَالَ فَإِنَّكَ مِنَ الْمُنظَرِينَ ﴿37﴾ إِلَى يَومِ الْوَقْتِ الْمَعْلُومِ ﴿38﴾ قَالَ رَبِّ بِمَآ أَغْوَيْتَنِي لأُزَيِّنَنَّ لَهُمْ فِي الأَرْضِ وَلأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ ﴿39﴾ إِلاَّ عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ ﴿40﴾ قَالَ هَذَا صِرَاطٌ عَلَيَّ مُسْتَقِيمٌ ﴿41﴾ إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ إِلاَّ مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْغَاوِينَ ﴿42﴾ وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمَوْعِدُهُمْ أَجْمَعِينَ ﴿43﴾ لَهَا سَبْعَةُ أَبْوَابٍ لِّكُلِّ بَابٍ مِّنْهُمْ جُزْءٌ مَّقْسُومٌ ﴿44﴾ إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ ﴿45﴾ ادْخُلُوهَا بِسَلاَمٍ آمِنِينَ ﴿46﴾ وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِم مِّنْ غِلٍّ إِخْوَانًا عَلَى سُرُرٍ مُّتَقَابِلِينَ ﴿47﴾ لاَ يَمَسُّهُمْ فِيهَا نَصَبٌ وَمَا هُم مِّنْهَا بِمُخْرَجِينَ ﴿48﴾ نَبِّىءْ عِبَادِي أَنِّي أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ﴿49﴾ وَ أَنَّ عَذَابِي هُوَ الْعَذَابُ الأَلِيمَ ﴿50﴾ وَنَبِّئْهُمْ عَن ضَيْفِ إِبْراَهِيمَ ﴿51﴾ إِذْ دَخَلُواْ عَلَيْهِ فَقَالُواْ سَلامًا قَالَ إِنَّا مِنكُمْ وَجِلُونَ ﴿52﴾ قَالُواْ لاَ تَوْجَلْ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ عَلِيمٍ ﴿53﴾ قَالَ أَبَشَّرْتُمُونِي عَلَى أَن مَّسَّنِيَ الْكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُونَ ﴿54﴾ قَالُواْ بَشَّرْنَاكَ بِالْحَقِّ فَلاَ تَكُن مِّنَ الْقَانِطِينَ ﴿55﴾ قَالَ وَمَن يَقْنَطُ مِن رَّحْمَةِ رَبِّهِ إِلاَّ الضَّآلُّونَ ﴿56﴾ قَالَ فَمَا خَطْبُكُمْ أَيُّهَا الْمُرْسَلُونَ ﴿57﴾ قَالُواْ إِنَّا أُرْسِلْنَا إِلَى قَوْمٍ مُّجْرِمِينَ ﴿58﴾ إِلاَّ آلَ لُوطٍ إِنَّا لَمُنَجُّوهُمْ أَجْمَعِينَ ﴿59﴾ إِلاَّ امْرَأَتَهُ قَدَّرْنَا إِنَّهَا لَمِنَ الْغَابِرِينَ ﴿60﴾ فَلَمَّا جَاء آلَ لُوطٍ الْمُرْسَلُونَ ﴿61﴾ قَالَ إِنَّكُمْ قَوْمٌ مُّنكَرُونَ ﴿62﴾ قَالُواْ بَلْ جِئْنَاكَ بِمَا كَانُواْ فِيهِ يَمْتَرُونَ ﴿63﴾ وَأَتَيْنَاكَ بَالْحَقِّ وَإِنَّا لَصَادِقُونَ ﴿64﴾ فَأَسْرِ بِأَهْلِكَ بِقِطْعٍ مِّنَ اللَّيْلِ وَاتَّبِعْ أَدْبَارَهُمْ وَلاَ يَلْتَفِتْ مِنكُمْ أَحَدٌ وَامْضُواْ حَيْثُ تُؤْمَرُونَ ﴿65﴾ وَقَضَيْنَا إِلَيْهِ ذَلِكَ الأَمْرَ أَنَّ دَابِرَ هَؤُلاء مَقْطُوعٌ مُّصْبِحِينَ ﴿66﴾ وَجَاء أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ ﴿67﴾ قَالَ إِنَّ هَؤُلاء ضَيْفِي فَلاَ تَفْضَحُونِ ﴿68﴾ وَاتَّقُوا اللّهَ وَلاَ تُخْزُونِ ﴿69﴾ قَالُوا أَوَلَمْ نَنْهَكَ عَنِ الْعَالَمِينَ ﴿70﴾ قَالَ هَؤُلاء بَنَاتِي إِن كُنتُمْ فَاعِلِينَ ﴿71﴾ لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُونَ ﴿72﴾ فَأَخَذَتْهُمُ الصَّيْحَةُ مُشْرِقِينَ ﴿73﴾ فَجَعَلْنَا عَالِيَهَا سَافِلَهَا وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهِمْ حِجَارَةً مِّن سِجِّيلٍ ﴿74﴾ إِنَّ فِي ذَلِكَ لآيَاتٍ لِّلْمُتَوَسِّمِينَ ﴿75﴾ وَإِنَّهَا لَبِسَبِيلٍ مُّقيمٍ ﴿76﴾ إِنَّ فِي ذَلِكَ لآيَةً لِّلْمُؤمِنِينَ ﴿77﴾ وَإِن كَانَ أَصْحَابُ الأَيْكَةِ لَظَالِمِينَ ﴿78﴾ فَانتَقَمْنَا مِنْهُمْ وَإِنَّهُمَا لَبِإِمَامٍ مُّبِينٍ ﴿79﴾ وَلَقَدْ كَذَّبَ أَصْحَابُ الحِجْرِ الْمُرْسَلِينَ ﴿80﴾ وَآتَيْنَاهُمْ آيَاتِنَا فَكَانُواْ عَنْهَا مُعْرِضِينَ ﴿81﴾ وَكَانُواْ يَنْحِتُونَ مِنَ الْجِبَالِ بُيُوتًا آمِنِينَ ﴿82﴾ فَأَخَذَتْهُمُ الصَّيْحَةُ مُصْبِحِينَ ﴿83﴾ فَمَا أَغْنَى عَنْهُم مَّا كَانُواْ يَكْسِبُونَ ﴿84﴾ وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا إِلاَّ بِالْحَقِّ وَإِنَّ السَّاعَةَ لآتِيَةٌ فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ ﴿85﴾ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ الْخَلاَّقُ الْعَلِيمُ ﴿86﴾ وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ ﴿87﴾ لاَ تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَى مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِّنْهُمْ وَلاَ تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِينَ ﴿88﴾ وَقُلْ إِنِّي أَنَا النَّذِيرُ الْمُبِينُ ﴿89﴾ كَمَا أَنزَلْنَا عَلَى المُقْتَسِمِينَ ﴿90﴾ الَّذِينَ جَعَلُوا الْقُرْآنَ عِضِينَ ﴿91﴾ فَوَرَبِّكَ لَنَسْأَلَنَّهُمْ أَجْمَعِيْنَ ﴿92﴾ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿93﴾ فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ ﴿94﴾ إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ ﴿95﴾ الَّذِينَ يَجْعَلُونَ مَعَ اللّهِ إِلهًا آخَرَ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ ﴿96﴾ وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّكَ يَضِيقُ صَدْرُكَ بِمَا يَقُولُونَ ﴿97﴾ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَكُن مِّنَ السَّاجِدِينَ ﴿98﴾ وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّى يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ ﴿99﴾۔ |
الف، لام، را۔ یہ کتاب (الٰہی) یعنی روشن قرآن کی آیتیں ہیں۔ (1) جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ہے وہ بہت تمنا کریں گے کہ کاش وہ مسلمان ہوتے۔ (2) (اے رسول(ص)) انہیں چھوڑ دو کہ وہ کھائیں (پئیں) اور عیش و آرام کریں اور (بے شک جھوٹی) امید انہیں غفلت میں رکھے عنقریب انہیں (سب کچھ) معلوم ہو جائے گا۔ (3) اور ہم نے کبھی کوئی بستی ہلاک نہیں کی مگر یہ کہ اس کے لئے وقتِ معلوم لکھا ہوا تھا۔ (4) کوئی قوم اپنے مقررہ وقت سے نہ آگے بڑھ سکتی ہے اور نہ پیچھے ہٹ سکتی ہے۔ (5) اور وہ (کفار) کہتے ہیں: اے وہ جس پر ذکر (قرآن) اتارا گیا ہے یقینا تم دیوانہ ہو۔ (6) اگر تم سچے ہو تو پھر ہمارے پاس فرشتوں کو کیوں نہیں لے آتے؟ (7) ہم فرشتوں کو نہیں اتارتے مگر (صحیح موقع پر فیصلہ) حق کے ساتھ اور پھر لوگوں کو مہلت نہیں دی جاتی۔ (8) بے شک ہم نے ہی ذکر (قرآن) اتارا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔ (9) اور ہم نے آپ سے پہلے مختلف جماعتوں میں رسول بھیجے۔ (10) اور ان کے پاس کوئی ایسا رسول نہیں آیا جس کے ساتھ انہوں نے مذاق نہ کیا ہو۔ (11) اسی طرح ہم اس (ذکر) کو مجرموں کے دلوں میں ڈال دیتے ہیں۔ (12) (مگر) وہ اس (ذکر) پر ایمان نہیں لاتے اور جو پہلے گزر چکے ہیں ان کا طریقہ بھی یہی رہ چکا ہے۔ (13) اور اگر ہم ان پر آسمان کا ایک دروازہ کھول دیں جس سے وہ دن دہاڑے چڑھنے لگیں۔ (14) تو پھر بھی وہ یہی کہیں گے کہ ہماری آنکھوں کو مدہوش کر دیا گیا ہے بلکہ ہم پر جادو کر دیا گیا ہے۔ (15) اور بے شک ہم نے آسمان میں بہت سے برج بنا دیئے اور اس (آسمان) کو دیکھنے والوں کے لئے آراستہ کر دیا ہے۔ (16) اور ہم نے اسے ہر مردود شیطان سے محفوظ کر دیا۔ (17) مگر یہ کہ کوئی (شیطان) چوری چھپے کچھ سن لے تو (اس صورت میں) ایک چمکتا ہوا شعلہ اس کا پیچھا کرتا ہے۔ (18) اور ہم نے زمین کو پھیلا دیا اور اس میں پہاڑ گاڑ دیے اور اس میں ہر قسم کی چیزیں نپی تلی اگائیں۔ (19) اور ہم نے اس میں تمہارے لئے بھی معاش کے وسائل بنائے اور ان کیلئے بھی جن کے روزی رساں تم نہیں ہو۔ (20) اور کوئی چیز ایسی نہیں ہے جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں اور ہم اسے نہیں اتارتے مگر ایک معیّن مقدار میں۔ (21) اور ہم ہواؤں کو باردار بنا کر بھیجتے ہیں پھر آسمان سے پانی برساتے ہیں پھر وہ پانی ہم تمہیں پلاتے ہیں حالانکہ تم اسکے خزانہ دار نہیں ہو۔ (22) اور بلاشبہ ہم ہی زندہ کرتے ہیں اور ہم ہی مارتے ہیں اور ہم ہی (سب کے) وارث ہیں۔ (23) اور یقیناً ہم ان کو بھی جانتے ہیں جو تم سے پہلے ہو گزرے اور ان کو بھی جانتے ہیں جو بعد میں آنے والے ہیں۔ (24) بے شک تمہارا پروردگار (بروزِ قیامت) سب کو جمع کرے گا وہ بڑا حکمت والا، بڑا علم والا ہے۔ (25) اور بلاشبہ ہم نے انسان کو سڑے ہوئے گارے کی کھنکھناتی مٹی سے پیدا کیا ہے۔ (26) اور اس سے پہلے ہم نے جان کو بے دھواں تیز گرم آگ سے پیدا کیا۔ (27) (وہ وقت یاد کرو) جب آپ کے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں سڑے ہوئے گارے کی کھنکھناتی ہوئی مٹی سے ایک بشر پیدا کرنے والا ہوں۔ (28) پس جب میں اسے مکمل کر لوں اور اس میں اپنی (خاص) روح پھونک دوں تو تم اس کے سامنے سجدہ میں گر جاؤ۔ (29) چنانچہ سب فرشتوں نے سجدہ کیا۔ (30) سوائے ابلیس کے کہ اس نے سجدہ کرنے والوں کے ساتھ ہونے سے انکار کیا۔ (31) ارشاد ہوا: اے ابلیس! تجھے کیا ہوا کہ تو نے سجدہ کرنے والوں کا ساتھ نہ دیا؟ (32) اس نے کہا میں ایسا نہیں ہوں کہ ایسے بشر کو سجدہ کروں جسے تو نے سڑے ہوئے گارے کی کھنکھناتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا ہے۔ (33) ارشاد ہوا (یہاں سے) نکل جا کہ تو مردود (راندہ ہوا) ہے۔ (34) اور روزِ جزا (قیامت) تک تجھ پر لعنت ہے۔ (35) اس نے کہا کہ اے میرے رب! مجھے اس دن تک مہلت دے جب لوگ دوبارہ اٹھائے جائیں گے۔ (36) فرمایا بے شک تو مہلت پانے والوں میں سے ہے۔ (37) (جنہیں) وقتِ معلوم تک مہلت دی گئی ہے۔ (38) اس نے کہا اے میرے رب! چونکہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے تو میں بھی زمین میں ان (بندوں) کے لئے گناہوں کو خوشنما بناؤں گا اور سب کو گمراہ کروں گا۔ (39) سوائے تیرے مخلص بندوں کے۔ (40) فرمایا یہ سیدھا راستہ ہے مجھ تک پہنچنے والا۔ (41) جو میرے خاص بندے ہیں ان پر تیرا کوئی قابو نہ ہوگا سوائے ان گمراہوں کے جو تیری پیروی کریں گے۔ (42) اور بے شک جہنم ان سب کی وعدہ گاہ ہے۔ (43) اس کے سات دروازے ہیں (اور) ہر دروازے کے لئے ان (لوگوں) میں سے ایک حصہ ہے۔ (44) بے شک پرہیزگار لوگ بہشتوں اور چشموں میں ہوں گے۔ (45) (ان سے کہا جائے گا) کہ تم سلامتی اور امن و امان کے ساتھ ان میں داخل ہو جاؤ۔ (46) اور ہم ان کے سینوں سے ہر قسم کی کدورت نکال دیں گے اور وہ بھائیوں کی طرح تختوں پر آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے۔ (47) ان کے اندر انہیں کوئی تکلیف و زحمت چھوئے گی بھی نہیں اور نہ ہی وہ وہاں سے نکالے جائیں گے۔ (48) (اے رسول) میرے بندوں کو آگاہ کر دو کہ میں بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہوں۔ (49) اور یہ بھی (بتا دو) کہ میرا عذاب بھی بڑا دردناک عذاب ہے۔ (50) اور انہیں ابراہیم(ع) کے مہمانوں کا واقعہ بھی سنا دو۔ (51) جبکہ وہ ان کے پاس آئے اور سلام کیا اور انہوں نے (جوابِ سلام کے بعد) کہا ہم کو تم سے ڈر لگ رہا ہے۔ (52) (مہمانوں) نے کہا کہ ڈرئیے نہیں ہم آپ کو ایک صاحبِ علم بچہ کی (ولادت کی) بشارت دیتے ہیں۔ (53) ابراہیم(ع) نے کہا تم مجھے اس حال میں بشارت دیتے ہو کہ مجھ پر بڑھاپا آچکا ہے یہ کس چیز کی بشارت ہے جو تم مجھے دیتے ہو؟ (54) انہوں نے کہا ہم آپ کو بالکل سچی بشارت دے رہے ہیں تو آپ ناامید ہونے والوں میں سے نہ ہوں۔ (55) ابراہیم(ع) نے کہا اپنے پروردگار کی رحمت سے تو گمراہوں کے سوا کون مایوس ہوتا ہے؟ (56) (پھر) کہا اے اللہ کے فرستادو آخر تمہیں کیا مہم درپیش ہے؟ (57) انہوں نے کہا کہ ہم ایک مجرم قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں۔ (58) سوا لوط(ع) کے گھر والوں کے کہ ہم ان سب کو بچا لیں گے۔ (59) بجز اس کی بیوی کے اس کی نسبت ہم نے یہ طے کیا ہے کہ وہ پیچھے رہ جانے والوں میں سے ہوگی۔ (60) پس جب اللہ کے فرستادہ خاندانِ لوط (ع) کے پاس آئے۔ (61) تو لوط نے کہا کہ تم تو اجنبی لوگ معلوم ہوتے ہو۔ (62) انہوں نے کہا (نہیں) بلکہ ہم تمہارے پاس وہ چیز (عذاب) لے کر آئے ہیں جس میں (یہ) لوگ شک کیا کرتے تھے۔ (63) اور ہم آپ کے پاس حق (عذاب) لے کر آئے ہیں اور بلاشبہ ہم بالکل سچے ہیں۔ (64) تو آپ رات کے کسی حصہ میں اپنے اہل و عیال کو لے کر نکل جائیں اور خود آپ ان کے پیچھے پیچھے چلیں اور آپ میں سے کوئی پیچھے مڑ کر نہ دیکھے اور جدھر جانے کا آپ کو حکم دیا گیا ہے ادھر ہی چلے جائیں۔ (65) اور ہم نے ان (لوط(ع)) کو بذریعۂ وحی اس فیصلہ سے آگاہ کر دیا کہ صبح ہوتے ہوتے ان کی جڑ بالکل کاٹ دی جائے گی۔ (66) اور شہر والے (نوجوان اور خوبصورت مہمانوں کو دیکھ کر) خوشیاں مناتے ہوئے آگئے۔ (67) (لوط(ع) نے) کہا یہ لوگ میرے مہمان ہیں تم میری فضیحت نہ کرو۔ (68) اور اللہ سے ڈرو اور مجھے رسوا نہ کرو۔ (69) انہوں نے کہا کہ کیا ہم نے آپ کو دنیا بھر کے لوگوں (کو مہمان کرنے) سے منع نہیں کر دیا تھا۔ (70) آپ نے کہا اگر تم نے کچھ کرنا ہے تو پھر یہ میری (قوم کی) بیٹیاں موجود ہیں۔ (71) آپ کی جان کی قسم! یہ لوگ اپنے نشہ میں بالکل اندھے ہو رہے تھے۔ (72) آخرکار سورج نکلتے نکلتے انہیں ایک ہولناک آواز (چیخ) نے آلیا۔ (73) پس ہم نے اس (بستی) کو تہہ و بالا کر دیا (اوپر کا طبقہ نیچے کر دیا)۔ اور ان پر پکی ہوئی مٹی کے پتھروں کی بارش کر دی۔ (74) بے شک اس (واقعہ) میں حقیقت کی پہچان رکھنے والوں کے لئے بڑی نشانیاں ہیں۔ (75) اور وہ (بستی) ایک عام گزرگاہ پر واقع ہے جو اب تک قائم ہے۔ (76) بے شک اس (واقعہ) میں اہلِ ایمان کے لئے بڑی نشانی ہے۔ (77) اور بے شک ایک (گھنے جنگل) والے بڑے ظالم تھے۔ (78) ہم نے ان سے انتقام لیا اور یہ دونوں (بستیاں) شارعِ عام پر واقع ہیں۔ (79) اور بے شک حجر کے لوگوں نے رسولوں کو جھٹلایا۔ (80) اور ہم نے انہیں نشانیاں عطا کیں مگر وہ ان سے روگردانی ہی کرتے رہے۔ (81) اور وہ پہاڑوں کو تراش کر گھر بناتے تھے تاکہ امن و اطمینان سے رہیں۔ (82) پس صبح کے وقت انہیں ایک ہولناک آواز نے آپکڑا۔ (83) سو جو کچھ انہوں نے کمایا تھا وہ ان کے کام نہ آیا۔ (84) اور ہم نے آسمانوں اور زمین کو نیز جو کچھ ان کے درمیان ہے اس کو پیدا نہیں کیا مگر حق و حکمت کے ساتھ اور قیامت یقینا آنے والی ہے پس (اے رسول) آپ شائستہ طریقہ سے درگزر کریں۔ (85) بے شک آپ کا پروردگار ہی بڑا پیدا کرنے والا (اور) بڑا جاننے والا ہے۔ (86) اور بلاشبہ ہم نے آپ کو دہرائی جانے والی سات آیتیں عطا کی ہیں اور قرآنِ عظیم بھی۔ (87) آپ اپنی آنکھ اٹھا کر بھی ان چیزوں کی طرف نہ دیکھیں جن سے ہم نے مختلف قسم کے لوگوں (کافروں) کو بہرہ مند کیا ہے اور نہ ہی ان کے بارے میں غمگین ہوں اور اہلِ ایمان کے لئے اپنے بازو پھیلا دیں (ان کے ساتھ شفقت سے پیش آئیں)۔ (88) اور کہہ دیجیے کہ میں تو عذاب سے کھلا ہوا ڈرانے والا ہوں۔ (89) (اے رسول) جس طرح ہم نے تقسیم کرنے والوں پر اپنا کلام نازل کیا تھا۔ (اسی طرح) آپ پر بھی نازل کیا ہے۔ (90) (لیکن یہ وہ لوگ تھے) جنہوں نے قرآن کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے۔ (91) آپ کے پروردگار کی قسم ہم ان سے اس کی بابت ضرور سوال کریں گے۔ (92) جو کچھ وہ کیا کرتے تھے۔ (93) پس جس چیز کا آپ کو حکم دیا گیا ہے اس کا واضح اعلان کر دیں اور مشرکوں سے اعراض کریں (ان کی کچھ پروا نہ کریں)۔ (94) جو آپ کا مذاق اڑاتے ہیں ہم ان کے لئے کافی ہیں۔ (95) جو خدا کے ساتھ دوسرا الٰہ قرار دیتے ہیں انہیں عنقریب (اپنا انجام) معلوم ہو جائے گا۔ (96) اور بے شک ہم جانتے ہیں کہ جو کچھ (یہ لوگ) کہتے رہتے ہیں اس سے آپ کا دل تنگ ہوتا ہے۔ (97) تو اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کریں اور سجدہ کرنے والوں میں سے ہو جائیں۔ (98) اور اس وقت تک برابر اپنے پروردگار کی عبادت کرتے رہیں جب تک کہ تمہارے پاس موت نہ آجائے۔ (99) |
پچھلی سورت: سورہ ابراہیم | سورہ حجر | اگلی سورت:سورہ نحل |
1.فاتحہ 2.بقرہ 3.آلعمران 4.نساء 5.مائدہ 6.انعام 7.اعراف 8.انفال 9.توبہ 10.یونس 11.ہود 12.یوسف 13.رعد 14.ابراہیم 15.حجر 16.نحل 17.اسراء 18.کہف 19.مریم 20.طہ 21.انبیاء 22.حج 23.مؤمنون 24.نور 25.فرقان 26.شعراء 27.نمل 28.قصص 29.عنکبوت 30.روم 31.لقمان 32.سجدہ 33.احزاب 34.سبأ 35.فاطر 36.یس 37.صافات 38.ص 39.زمر 40.غافر 41.فصلت 42.شوری 43.زخرف 44.دخان 45.جاثیہ 46.احقاف 47.محمد 48.فتح 49.حجرات 50.ق 51.ذاریات 52.طور 53.نجم 54.قمر 55.رحمن 56.واقعہ 57.حدید 58.مجادلہ 59.حشر 60.ممتحنہ 61.صف 62.جمعہ 63.منافقون 64.تغابن 65.طلاق 66.تحریم 67.ملک 68.قلم 69.حاقہ 70.معارج 71.نوح 72.جن 73.مزمل 74.مدثر 75.قیامہ 76.انسان 77.مرسلات 78.نبأ 79.نازعات 80.عبس 81.تکویر 82.انفطار 83.مطففین 84.انشقاق 85.بروج 86.طارق 87.اعلی 88.غاشیہ 89.فجر 90.بلد 91.شمس 92.لیل 93.ضحی 94.شرح 95.تین 96.علق 97.قدر 98.بینہ 99.زلزلہ 100.عادیات 101.قارعہ 102.تکاثر 103.عصر 104.ہمزہ 105.فیل 106.قریش 107.ماعون 108.کوثر 109.کافرون 110.نصر 111.مسد 112.اخلاص 113.فلق 114.ناس |
حوالہ جات
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۱۱، ص۴
- ↑ طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۲، ص۱۸۵-۱۸۶.
- ↑ معرفت، آموزش علوم قرآن، ۱۳۷۱ش، ج۲، ص۱۶۶.
- ↑ خرمشاهی، «سوره حجر»، ج۲، ص۱۲۴۰.
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، ۱۳۷۴ش، ج۱۱، ص۳.
- ↑ طبرسی، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، ۱۳۷۲ش، ج۶، ص۵۱۴.
- ↑ کوفی، الجعفریات (الأشعثیات)، ص۱۷۸.
- ↑ واحدی، اسباب نزول القرآن، ۱۴۱۱ق، ص۲۸۲.
- ↑ واحدی نیشابوری، اسباب النزول، ۱۳۸۳ش، ص۱۴۷.
- ↑ جس کا لفظی ترجمہ دو دہرائی جانے والیں ہے
- ↑ طباطبائی، المیزان، ج۱۲، ص۱۹۱.
- ↑ طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۲، ص۱۰۱. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۱۱، ص۱۸؛ انواری، انگاره تحریف قرآن، ۱۳۹۰ش، ص۵۶؛ شریفی، اسطورة التحریف، ص۲۹؛ محمدی (نجارزادگان)، سلامۃ القران من التحریف، ۱۴۲۴ق، ص۱۹.
- ↑ رک: ابن ابی حاتم، تفسیر القرآن العظیم، ۱۴۱۹ق، ج۷، ص۲۲۵۸.
- ↑ رک: جوادی آملی، نزاہت قرآن از تحریف، ۱۳۸۳ش، ص۸۹ـ۹۲.
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۶، ص۵۳۱؛ آلوسی، روح المعانی، ۱۴۱۵ق، ج۷، ص۳۲۳.
- ↑ طباطبائی، المیزان، ۱۳۹۰ق،ج۱۲، ص۱۹۲-۱۹۳.
- ↑ طباطبائی، المیزان، ۱۳۹۰ق،ج۱۲، ص۱۹۲-۱۹۵.
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، ۱۳۷۱ش، ج۱۱، ص۱۴۲.
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۶، ص۵۳۴.
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۱۱، ص۱۴۳.
- ↑ طبرسی، مجمع البیان،۱۳۷۲ش، ج۶، ص۵۰۱کفعمی، المصباح، ۱۴۰۵ق، ص۴۴۱.
- ↑ بحرانی، البرہان، ۱۴۱۵ق، ج۳، ص۳۲۹.
- ↑ خامہگر، محمد، ساختار سورہہای قرآن کریم، تہیہ مؤسسہ فرہنگی قرآن و عترت نورالثقلین، قم، نشر نشرا، چ۱، ۱۳۹۲ش.
نوٹ
- ↑ اس کے علاوہ دیگر جوابات کی تفصیل جاننے کیلئے دیکھیں: انواری، انگاره تحریف قرآن، ص۷۷.
مآخذ
- قرآن کریم، ترجمہ محمد حسین نجفی (سرگودھا)۔
- ابن ابی حاتم، عبدالرحمن بن محمد، تفسیر القرآن العظیم، تحقیق، الطیب، اسعد محمد، مکتبۃ نزار مصطفی الباز، عربستان سعودی، چاپ سوم، ۱۴۱۹ق.
- انواری، جعفر، انگارہ تحریف قرآن، قم، انتشارات مؤسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی، چاپ اول، ۱۳۹۰ش.
- جوادی آملی، عبد اللہ، نزاہت قرآن از تحریف، قم، نشر اسراء، ۱۳۸۳ش.
- شریفی، محمود، اسطورۃ التحریف، با اشراف آیت اللہ محمدہادی معرفت، [تہران]، نشر مشعر، ۱۴۲۹ق.
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، مقدمہ، شیخ آقابزرگ تہرانی، تحقیق، قصیرعاملی، احمد، داراحیاء التراث العربی، بیروت، بیتا.
- طباطبائى سید محمد حسین، المیزان فى تفسیر القرآن، قم، جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ، چاپ پنجم، ۱۴۱۷ق.
- طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، مقدمہ: بلاغی، محمد جواد، تہران، ناصر خسرو، چاپ سوم، ۱۳۷۲ش.
- طبری، ابو جعفر محمد بن جریر، جامع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار المعرفۃ، چاپ اول، ۱۴۱۲ق.
- کفعمی، ابراہیم بن علی، المصباح (جنۃ الأمان الواقیۃ و جنۃ الإیمان الباقیۃ)، دار الرضی (زاہدی)، قم، چاپ دوم، ۱۴۰۵ق.
- کوفی، محمد بن محمد اشعث، الجعفریات (الأشعثیات)، تہران، مکتبۃ نینوی الحدیثۃ، چاپ اول، بی تا.
- محمدی (نجارزادگان)، فتح اللہ، سلامۃ القران من التحریف، تہران، نشر مشعر، ۱۴۲۴ق.
- مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الإسلامیۃ، چاپ اول، ۱۳۷۴ش.
- معرفت، محمدہادی، آموزش علوم قرآن، [بیجا]، مرکز چاپ و نشر سازمان تبلیغات اسلامی، چ۱، ۱۳۷۱ش.
- واحدی نیشابوری، اسباب النزول، ترجمہ: ذکاوتی قراگزلو، علیرضا، نشر نی، تہران، چاپ اول، ۱۳۸۳ش.