سید رضی

ویکی شیعہ سے
(سید شریف رضی سے رجوع مکرر)
سید رضی
کاظمین میں سید رضی کا مقبرہ
کوائف
مکمل ناممحمد بن حسین بن موسی
لقب/کنیتسید رضی، شریف رضی
نسبموسوی سادات
تاریخ ولادت359 ھ،
آبائی شہربغداد
تاریخ وفات406 ھ
مدفنکاظمین، دیگر قول کربلا
نامور اقرباءسید مرتضی
علمی معلومات
اساتذہشیخ مفید • ابو علی فارسی • قاضی سیرافی • قاضی عبدالجبار • ابن نباتہ • عثمان بن جنی • ہارون تلعکبری • سہل بن دیباجی
شاگردسید عبداللّه کبایکی حسینی جرجانی • محمد بن علی حلوانی • سید علی بن بندار بن محمد قاضی ہاشمی • ابوبکر نیشابوری • ابو الحسن مہیار دیلمی • محمد بن ابی‌ نصر عکبری
تالیفاتنہج البلاغہ • تلخیص البیان فی مجازات القرآن • حقائق التأویل • المجازات النبویہ • خصائص الائمہ • دیوان الشریف الرضی
خدمات
سماجیادیب • شاعر • نقیب


محمد بن حسین بن موسی (359۔406 ھ)، سید رضی کے نام سے معروف، شیعہ علماء میں سے ہیں۔ وہ نہج البلاغہ کے مولف اور سید مرتضی کے بھائی ہیں۔

سید رضی آل بویہ کے دور حکومت میں نقابت، قضاوت اور امارت حج جیسے اہم مناصب پر فائز تھے۔ وہ آل ابی طالب کے بزرگ ترین شعراء میں سے تھے۔ ان کے آثار میں شعری دیوان موجود ہے۔ علم کلام و تفسیر میں تالیفات کے علاوہ خصائص الائمہ اور تلخیص البیان جیسی تصنیفات کے مصنف ہیں۔ ان کی اہم ترین تالیف نہج البلاغہ کی جمع آوری ہے۔ انہوں نے ایک دار العلمی تاسیس کیا۔ جس کے بارے میں بعض کا ماننا ہے کہ وہ پہلا دینی مدرسہ تھا۔ محمد طبری، ابو علی فارسی، قاضی سیرافی، قاضی عبد الجبار معتزلی، ابن نباتہ، ابن جنی، شیخ مفید اور سہل بن دیباجی ان کے اساتید میں شامل ہیں۔

نسب اور خاندان

محمد بن حسین بن موسی بن محمد بن موسی بن ابراہیم بن امام موسی کاظم (ع)[1]، سید رضی و شریف رضی[2] کے نام سے مشہور سادات ہاشمی و آل ابی طالب سے تعلق رکھتے ہیں۔ اسی سبب سے انہیں شریف کہا جاتا تھا۔ والد کی طرف سے ان سلسلہ نسب 6 واسطوں سے ساتویں امام، حضرت موسی کاظم (ع) سے ملتا ہے۔ ان کی والدہ کا سلسلہ نسب چوتھے امام حضرت امام سجاد (ع) تک منتہی ہوتا ہے۔[3]

ان کے والد ابو احمد حسین بن موسی علوی، آل ابی طالب کے علماء اور نقباء میں سے تھے[4] اور قضاوت و امارت حج ان کے سپرد تھے۔[5] وہ عباسی خلٖفاء اور آل بویہ امراء کے نزدیک صاحب مرتبہ تھے۔[6]

سید رضی کے فرزند ابو احمد عدنان جو شریف مرتضی ثانی کے نام سے معروف تھے، وہ اپنے جد کے لقب طاہر ذا المناقب سے ملقب تھے۔ ان کے چچا سید مرتضی کے بعد بغداد میں آل ابی طالب کی نقابت ان کے سپرد ہوئی۔[7]

ولادت اور وفات

سید رضی کی 359 ھ میں بغداد میں ولادت ہوئی[8] اور 6 محرم 406 ھ میں انہوں نے وفات پائی۔[9] بغداد کے محلہ کرخ میں انہیں ان کے گھر میں دفن کیا گیا۔ ان کے محل دفن کے سلسلہ میں دوسرے اقوال بھی ذکر ہوئے ہیں۔ ایک قول کے مطابق، ان کے گھر کے خراب ہونے کے بعد سید مرتضی نے انہیں امام موسی کاظم کے حرم کاظمین میں دفن کیا۔ ایک دوسرے قول کے مطابق جسے عبد الحسین حلی صحیح مانتے ہیں،[10] انہیں کربلا لے جا کر ان کے والد کے پہلو میں دفن کیا گیا۔ عمدۃ الطالب،[11] الدرجات الرفیعہ اور لولوۃ البحرین[12] جیسی کتابوں میں اس بات کی طرف تصریح کی گئی ہے۔[13] ابن میثم بحرانی (متوفی 679 ھ) نے بھی کہا ہے: سید رضی اپنے بھائی سید مرتضی کے ہمراہ اپنے جد امام حسین (ع) کے حرم میں دفن ہوئے۔[14]

کاظمین میں سید رضی سے منسوب ایک مقبرہ موجود ہے۔ لیکن کربلا میں ان سے منسوب کسی قبر کا نام و نشان مشاہدہ میں نہیں ہے۔[15]

علمی مقام و منزلت

سید رضی کو نابغہ دہر کہا گیا ہے۔ انہیں فقیہ، متکلم، مفسر اور شاعر کے طور پر متعارف کیا گیا ہے۔[16] انہوں نے بعض شیعہ و سنی علماء جن میں شیخ مفید بھی شامل ہیں، کے سامنے زانوئے ادب تہہ کیا ہے۔ فخار بن معد موسوی سے ابن ابی الحدید معتزلی کے نقل کے مطابق، شیخ مفید نے خواب دیکھا کہ حضرت زہرا (ع) ان کے پاس تشریف لائی ہیں جبکہ حسنین (ع) ان کے ہمراہ ہیں۔ آپ نے شیخ سے کہا کہ انہیں فقہ کی تعلیم دیں۔ اس نقل کے مطابق، شیخ مفید اگلی صبح اپنے محل درس میں بیٹھے ہوئے کہ فاطمہ بنت ناصر مسجد میں وارد ہوئیں۔ ان کے دونوں بیٹے سید رضی اور سید مرتضی ان کے ساتھ تھے۔ انہوں نے شیخ سے کہا میں اپنے ان دونوں بیٹوں کو آپ کے پاس لائی ہوں تا کہ آپ انہیں فقہ کی تعلیم دیں۔[17]

سید رضی نے علم نحو کی تعلیم ابو علی فارسی (متوفی 377 ھ)، قاضی سیرافی، ابن جنی (متوفی 392 ھ) اور علی بن عیسی ربعی شیرازی کے پاس حاصل کی۔[18] بلاغت ابن نباتہ کے پڑھی، فقہ میں ابو بکر خوارزمی (متوفی 403 ھ) کی شاگردی اختیار کی[19] اور قرائت قرآن و حدیث کے لئے ابو حفص کنانی کے سامنے زانوئے ادب تہہ کیا۔[20]

ان کے بعض اساتید نے ان کے علم و اطلاعات کی تعریف کی ہے۔ ابن جنی نے ابو طاہر ناصر الدولہ کے سلسلہ میں کہے گئے ان کے مرثیہ کی شرح کے ضمن میں سید رضی کے احاطہ علمی کی تعریف کی ہے۔[21] سید رضی نے ابو علی فارسی سے روایت نقل کی ہے اور ان سے کتاب الایضاح کے نقل کا اجازہ بھی حاصل کی تھا۔[22] سہل بن دیباجی (متوفی 380 ھ)[23]، ہارون تلعکبری (متوفی 385 ھ)[24]، رَبَعی بغدادی (متوفی 420 ھ)[25] اور ابن جوزی نے نقل کیا ہے کہ محمد طبری نے بغداد کے محلہ کرخ میں موجود اپنے گھر کو سید رضی کو عطا کر دیا تھا اور انہیں قرآن مجید حفظ کرایا تھا۔[26]

غیر شیعہ فقہ و اصول کی تعلیم

سید رضی نے شیعہ اساتذہ کے علاوہ غیر شیعہ اساتید سے بھی کسب فیض کیا۔[27] انہوں نے اہل سنت علماء میں سے محمد طبری مالکی، ابو عبد الله جرجانی (متوفی 397 ھ)، فقیہ حنفی مسلک،[28] قاضی عبد الجبار معتزلی[29] اور اکفانی قاضی (متوفی 405 ھ) کے سامنے زانوئے ادب تہہ کیا۔[30] ان کے غیر شیعہ امامیہ اساتید سے فقہ و اصول فقہ کی تعلیم حاصل کرنے کا تذکرہ بھی ہوا ہے۔ گذشتہ صدیوں میں علماء دونوں مذہب کی احادیث، فقہ و اصول کی تعلیم حاصل کرتے تھے تا کہ وہ اپنے علم و معرفت کو کمال تک پہچا سکیں۔ اس لئے کہ اس زمانہ میں امامت اور علم کلام کے سلسلہ میں مناظرہ و جدل کا رواج تھا۔ اسی طرح سے چونکہ سید رضی کے ذمہ قضاوت کا منصب بھی تھا۔ لہذا اس عہدہ کا تقاضا تھا کہ وہ تمام مذاہب و مسالک کی فقہ کی تعلیم حاصل کریں۔[31]

ان کے شاگرد

سید رضی کے بعض شاگرد درج ذیل ہیں:

  • ابو زید جرجانی۔[32]
  • ابو عبداللّه حلوانی۔[33]
  • شیخ جعفر عبسی (متوفی تقریبا 473 ھ)۔[34]
  • ابو الحسن قاضی۔[35]
  • مفید نیشابوری (متوفی 445 ھ)۔[36]
  • ابوبکر نیشابوری (متوفی 480 ھ)۔[37]
  • مہیار دیلمی (متوفی 428 ھ)۔[38]
  • قاضی ابو منصور (متوفی 472 ھ)۔[39]

نبوغ شعری

سید رضی شعر گوئی میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ سید محسن امین عاملی کے بقول ان کی شعر گوئی نے دوسری چیزوں پر غلبہ حاصل کر لیا تھا۔[40] انہوں نے اپنا پہلا قصیدہ دس سال کچھ زیادہ کی عمر میں کہا تھا۔[41] سید رضی، متنبی (303۔354 ھ) و ابو العلاء معری (363۔449 ھ) جیسے شعراء کے معاصر تھے۔[حوالہ درکار]

ابو حکیم المعلم عبداللّه خبری (متوفی 476 ھ) نے ان کے اشعار میں سے 6300 سے زائد ابیات ایک دیوان میں جمع کئے ہیں۔ 385 ھ میں ان کے کچھ اشعاد صاحب بن عباد کے ہاتھ لگے تو انہوں نے ایک شخص کو بغداد بھیجا تا کہ وہ ان کے دیوان سے ایک استنساخ کرکے ایک نسخہ انہیں بھیجے۔ جن سید رضی کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے اپنے دیوان کا ایک نسخہ ان کے لئے بھیجا۔[42]

سید رضی کی شعر گوئی کا مقصد علویوں اور آل ابی طالب کی زندگی کو بیان کرنا تھا جو حق اور قدرت سے محروم تھے۔ رثائیات، ان کے مراثی کا مجموعہ ہے جو انہوں نے اپنے زمانہ کے بزرگوں، دوستوں، رشتہ داروں اور شہدائے کربلا کے بارے میں نظم کئے ہیں۔ سید رضی نے مقام فخر میں اپنی قدیم عزت و شرف کو یاد کیا ہے اور ان پر افتخار کیا ہے۔[43]

رمت المعالی فامتنعن و لم یزل ابدا یمانع عاشقا معشوق
و صبرت حتی نلتهن و لم اقل ضجرا: وداک الفارک التطلیق[44]

سماجی اقدامات

نقابت

اصلی مضمون:نقابت

سید رضی کے زمانے میں خلافت بنی عباس کا دور حکومت تھا۔ جبکہ عراق پر آل بویہ حکمرانی کرتے تھے۔[45] سید رضی سیاست مداروں، حکمرانوں، بزرگان دین اور اہل قضاوت سے قریبی رابطہ رکھتے تھے۔[46]

سن 367 ھ میں بغداد پر عضد الدولہ کے تسلط کے بعد اس نے شیعہ سنی تنازعات کو کم کرنے کے لئے ابو احمد (سید رضی کے والد) اور چند دوسرے شیعہ بزرگان کو 369 ھ میں حراست میں لے لیا اور انہیں قلعہ اصطخر (فارس) میں بھیج کر قید کر دیا۔[47] 379 ھ میں حاکم وقت نے ابو احمد کو ان کے تمام مناصب واپس کر دیئے، لیکن انہوں نے پیری کی وجہ سے سارے مناصب اپنے بیٹے سید رضی کے حوالے کر دیئے۔[48] سید رضی 21 برس کی عمر میں بغداد میں علویوں کے نقیب بن گئے۔[49]

مدرسہ دارالعلم کی تاسیس

سید رضی نے طلاب اور اپنے شاگردوں کے لئے ایک مکان مہیا کیا اور اسے مدرسہ کی شکل عطا کرکے اس کا نام دارالعلم رکھا۔ انہوں نے دار العلم کے لئے ایک کتاب خانہ اور تمام وسائل کے ساتھ ایک مخزن فراہم کیا اور اس میں طلاب کی ضروریات کی اشیاء جمع کر دیں۔[50] انہوں نے دار العلم کے مخزن کو عبد السلام بن حسین بصری کے سپرد کیا[51] اور طلاب کی تعداد کے حساب سے کلید بنوا کر انہیں دے دیں تا کہ انہیں جب بھی ضرورت ہو وہ وہاں سے خود لے لیں۔[52]

البتہ اکثر مورخین اور سیرت نگار خواجہ نظام الملک طوسی (متوفی 485 ھ)، (سلجوقی دور کے دو بادشاہوں کے وزیر) کو جو مدرسہ نظامیہ بغداد کے موسس تھے، پہلا شخص سمجھتے ہیں جس نے اسلام میں علوم اسلامی و دینی کی تعلیم کے لئے مدرسہ قائم کیا۔[53]

علمی آثار

اصلی مقالہ: فہرست آثار سید رضی

نہج البلاغہ سید رضی کی تالیف

سید رضی فقہ، کلام، تفسیر، حدیث اور شاعری میں صاحب تصنیف ہیں۔ ان میں سے بعض کا دوسری زبانوں منجملہ فارسی زبان میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ نجاشی اور آقا بزرگ تہرانی دونوں نے ان کی طرف منسوب 12 کتابوں کا تذکرہ کیا ہے۔

نہج البلاغہ؛ حضرت علی (ع) کے خطبات، خطوط اور مختصر اقوال کا مجموعہ ہے۔ سید رضی نے اسے سن 400 ھ میں مکمل کیا۔ وہ اسے اپنے لئے قابل فخر سمجھتے تھے۔ اس کے انتخاب کا معیار انہوں نے ادبی فصاحت و بلاغت کو قرار دیا تھا۔

2۔ خصائص الأئمہ

3۔ حقائق التنزیل

4۔ مجاز القرآن

5۔ الزیادات فی شعر أبی‌ تمام

6۔ تعلیق خلاف الفقہاء

7۔ مجازات الآثار النبویہ

8۔ تعلیقہ فی الإیضاح لأبی‌ علی

9۔ الجید من شعر ابن الحجاج

10۔ الزیادات فی شعر ابن الحجاج

11۔ مختار شعر أبی‌ إسحاق الصابی۔[54]

12۔ ما‌ دار بینہ و بین أبی‌ إسحاق من الرسائل شعر

13۔ تلخیص البیان

14۔ اخبار قضات بغداد

15۔ دیوان شعر

16۔ الرسائل

17۔ الزیادات فی شعر الصابی و ابی‌ تمام

18۔ طیف الخیال

19۔ الحسن من شعر الحسین

20۔ المتشابہ فی القرآن۔[55]

حوالہ جات

  1. آقا بزرگ، طبقات اعلام الشیعہ، اسماعیلیان، ج۲، ص۱۶۴.
  2. آقا بزرگ، طبقات اعلام الشیعہ، اسماعلیان، ج۲، ص۱۶۴.
  3. جعفری، سید رضی، ۱۳۷۵، ص۲۲.
  4. محامی، ترجمۃ الشریف المرتضی، ص۹.
  5. ثعالبی، یتیمة الدہر، ج۳، ص۱۵۵؛ جعفری، سید رضی، ۱۳۷۵، ص۲۲.
  6. جعفری، سید رضی، ۱۳۷۵، ص۲۳.
  7. جعفری، سید رضی، ۱۳۷۵، ص۳۳.
  8. ابن میثم بحرانی، شرح نہج البلاغہ، ۱۳۶۲ش، ج۱، ص۸۹؛ آقا بزرگ، طبقات اعلام الشیعہ، اسماعیلیان، ج۲، ص۱۶۴.
  9. آقا بزرگ، طبقات اعلام الشیعہ، اسماعیلیان، ج۲، ص۱۶۴.
  10. سید رضی، حقائق التاویل، مقدمہ حلی، ص۱۱۱، به نقل جعفری، سید رضی، ۱۳۷۵، ص۱۵۰.
  11. داودی، عمدة الطالب، ص۲۰۰.
  12. بحرانی، لؤلؤة البحرین، ص۹۷۱.
  13. جعفری، سید رضی، ۱۳۷۵، ص۱۵۰-۱۴۹.
  14. ابن میثم بحرانی، شرح نہج البلاغہ، ۱۳۶۲ش، ج۱، ص۸۹.
  15. قزوینی، المزار، ۱۴۲۶ق، ص۲۵۴.
  16. امین، أعیان الشیعة، ۱۴۰۳ق، ج۹، ص۲۱۸.
  17. رجوع کریں: ابن ابی‌ الحدید، شرح نہج البلاغہ، ۱۳۳۷ش، ج ۱، ص۴۱؛ جعفری، سید رضی، ۱۳۷۵، ص۲۸.
  18. جعفری، سید رضی، ۱۳۷۵، ص۳۸-۳۵.
  19. جعفری، سید رضی، ۱۳۷۵، ص۴۱-۳۷.
  20. جعفری، سید رضی، ۱۳۷۵، ص۳۹.
  21. جعفری، سید رضی، ۱۳۷۵، ص۳۸-۳۷.
  22. جعفری، سید رضی، ص۳۶-۳۵.
  23. جعفری، سید رضی، ۱۳۷۵، ص۴۲-۴۱.
  24. جعفری، سید رضی، ۱۳۷۵، ص۴۱.
  25. جعفری، سید رضی، ۱۳۷۵، ص۳۸-۳۹.
  26. جعفری، سید رضی، ۱۳۷۵، ص۳۵.
  27. جعفری، سید رضی، ۱۳۷۵، ص۴۳-۴۲.
  28. جعفری، سید رضی، ۱۳۷۵، ص۴۲.
  29. جعفری، سید رضی، ۱۳۷۵، ص۳۷.
  30. جعفری، سید رضی، ۱۳۷۵، ص۳۷.
  31. جعفری، سید رضی، ۱۳۷۵، ص۴۳-۴۲.
  32. جعفری، سید رضی، ۱۳۷۵، ص۴۴.
  33. جعفری، سید رضی، ۱۳۷۵، ص۴۵.
  34. جعفری، سید رضی، ۱۳۷۵، ص۴۵.
  35. جعفری، سید رضی، ۱۳۷۵، ص۴۵.
  36. جعفری، سید رضی، ۱۳۷۵، ص۴۵-۴۶.
  37. جعفری، سید رضی، ۱۳۷۵، ص۴۶.
  38. جعفری، سید رضی، ۱۳۷۵، ص۴۷-۴۶.
  39. جعفری، سید رضی، ۱۳۷۵، ص۴۷.
  40. امین، أعیان الشیعہ، ۱۴۰۳ق، ج۹، ص۲۱۸.
  41. ابن خلکان، وفیات الاعیان، ۱۹۷۱م، ج۴، ص۴۱۴.
  42. جعفری، سید رضی، ۱۳۷۵، ص۵۴-۵۳.
  43. آیتی، مقدمہ ترجمہ نہج البلاغہ، ۱۳۷۷ش، ص۱۳.
  44. ابن خلکان، وفیات الاعیان، ۱۹۷۱م، ص۴۱۵.
  45. جعفری، سید رضی، ۱۳۷۵، ص۱۱.
  46. شریف الرضی، ص۷؛ بہ نقل جعفری، سید رضی، ۱۳۷۵، ص۲۱.
  47. جعفری، سید رضی، ۱۳۷۵، ص۲۴.
  48. ثعالبی، یتیمة الدهر، ج۳، ص۱۵۵؛ جعفری، سید رضی، ۱۳۷۵، ص۲۲.
  49. آقا بزرگ، طبقات اعلام الشیعه، اسماعیلیان، ج۲،ص۱۶۴.
  50. عمدة الطالب، ص۱۷۱؛ بہ نقل دوانی، سید رضی مؤلف نہج البلاغه، ۱۳۵۹، ص۹۳-۹۴.
  51. کاخ دلاویز، ص۵۸؛ بہ نقل دوانی، سید رضی مؤلف نہج البلاغه، ۱۳۵۹، ص۹۴.
  52. رجوع کریں: ۵۲٫۰ ۵۲٫۱ دوانی، سید رضی مؤلف نهج البلاغه، ۱۳۵۹، ص۹۴.
  53. رجوع کریں: ۵۲٫۰ ۵۲٫۱ دوانی، سید رضی مؤلف نهج البلاغه، ۱۳۵۹، ص۹۴.
  54. النجاشی، رجال النجاشی، ۱۴۰۷ق، ص۳۹۸.
  55. آقا بزرگ، طبقات اعلام الشیعہ، اسماعیلیان، ج۲، ص۱۶۴-۱۶۵.

مآخذ

  • ابن خلکان، احمد بن محمد، وفیات الاعیان و انباء ابناء الزمان، تحقیق: احسان عباس، بیروت، دار الثقافہ، ۱۹۷۱ ء
  • آیتی، عبد المحمد، مقدمہ ترجمہ نہج البلاغہ، دفتر نشر فرہنگ اسلامی، ۱۳۷۷ش
  • امین، سید محسن، أعیان الشیعہ، تحقیق: حسن امین، بیروت، دار التعارف للمطبوعات، ۱۴۰۳ق/۱۹۸۳مء
  • ابن ابی ‌الحدید، شرح نہج البلاغہ، تصحح: محمد ابو الفضل ابراہیم، قم: کتابخانہ عمومی آیة الله مرعشی نجفی، ۱۳۳۷ش
  • ابن میثم بحرانی، شرح نہج البلاغہ، قم: مرکز النشر مکتب الاعلام الاسلامی، ۱۳۶۲ش
  • جعفری، سید محمد مہدی، سید رضی، تہران: طرح نو، ۱۳۷۵
  • دوانی، علی، سید رضی مؤلف نہج البلاغہ، تہران، بنیاد نہج البلاغہ، ۱۳۵۹
  • طہرانی، آقا بزرگ، طبقات اعلام الشیعہ، قم، اسماعیلیان، بی‌ تا
  • قزوینی، مہدی، کتاب المزار، تحقیق: جودت قزوینی، بیروت، دار الرافدین، ۱۴۲۶ق
  • نجاشی، احمد بن علی، رجال النجاشی (فہرست أسماء مصنفی الشیعہ)، تصحح: سید موسی شبیری زنجانی، قم: دفتر انتشارات اسلامی، ۱۴۰۷ق