آفرین لاہوری
کوائف | |
---|---|
لقب/کنیت | شاہ فقیراللہ |
تاریخ پیدائش | تقریبا 1070ھ، لاہور |
ملک | پاکستان |
سکونت | لاہور |
وفات | 1154ھ |
آرامگاہ | لاہور - اپنے گھر میں |
علمی معلومات | |
شاگرد | حاکم لاہوری |
آثار | آفرین لاہوری کا شعری مجموعہ |
دیگر معلومات |
آفرین لاہوری، عرف شاہ فقیراللہ (تقریباً 1070-1154 ہجری)، بارہویں صدی ہجری کے ایک نامور شیعہ شاعر تھے، جو پاکستان کے شہر لاہور سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کی مشہور تصانیف میں تین مثنویاں: راز و نیاز (یا ہیر اور رانجھا)، انبان معرفت، ابجد فکر اور کئی قصیدے اور غزلیں شامل ہیں، جنہیں مجموعی طور پر "کلیاتِ آفرین" کے نام سے دو حصوں میں جمع کی گئی ہیں۔ انہوں نے اپنے اشعار میں نبی اکرمؐ، ائمہ اطہارؑ اور شہدائے کربلا کا ادب و احترام کے ساتھ ذکر کرتے ہوئے ان کی شأن میں مدح و سرائی کی ہے۔ امام حسنؑ اور امام حسینؑ کی شہادت پر انہوں نے ایک ترجیع بند بھی تحریر کیا ہے۔ آفرین لاہور صائب تبریزی سے متاثر تھے اور خود انہوں نے حاکم لاہوری جیسے شعرا پر اثر ڈالا ہے۔
نام و نسب
آفرین لاہوری کا تعلق قبیلہ جویہ اور لاہور کے شیعہ گوجر خاندان سے تھا۔[1] مورخین نے ان کی تاریخ پیدائش کا ذکر نہیں کیا ہے، لیکن چونکہ ان کے شاگرد حاکم لاہوری نے ان کی وفات کا سنہ 1154ھ تحریر کیا ہے[2] اور ان کی عمر تقریباً 80 سال بتائی گئی ہے، لہٰذا ان کی پیدائش 1074ھ یا اس سے کچھ پہلے کی بتائی جاتی ہے۔[3]
کتاب "الذریعہ" میں آقا بزرگ تہرانی اور کتاب "ریحانۃ الادب" میں مدرس تبریزی کے مطابق آفرین لاہوری شاہ فقیراللہ کے نام سے مشہور ایک زرتشتی عالم دین تھا، جو بعد میں اسلام لے آیا اور سنہ 1143یا 1153ھ میں اس دار فانی سے رخصت کر گئے۔[4] تاہم، بعض محققین کا خیال ہے کہ آقا بزرگ اور مدرس تبریزی نے آفرین نامی کسی دوسرے شخص کے ساتھ اشتباہ کیا ہے، کیونکہ انہوں نے قاموس الاعلام میں سامی کی عبارت کا بعینہ ترجمہ کیا ہے[5] اور سامی نے کسی معتبر حوالے کے بغیر انہیں مجوسیوں کے اکابرین میں سے قرار دیا ہے جو بعد میں اسلام لے آیا تھا۔ اسی طرح ان کی تاریخ وفات میں دو تاریخوں کے اندراج کو بھی اس اشتباہ پر گواہ قرار دی جاتی ہے۔[6] آفتاب رای لکھنوی دو اور شاعروں شمس الدین اور مرزا زین العابدین اصفہانی کو بھی آفرین کے تخلص کے ساتھ یاد کرتے ہیں۔[7] صبح گلشن نامی کتاب میں آفرین اللہ آبادی کے نام سے بھی ایک شاعر کا نام لیا گیا ہے۔[8] آقابزرگ تہرانی نے ان کے شعری مجموعے کو «دیوان آفرین اللہ آبادی» کے نام سے یاد کیا ہے۔ یہ چیزیں خود مجموعی طور پر مذکورہ اشتباہ کی تقویت پر گواہ بن سکتی ہیں۔[9]
سوانح حیات
آفرین لاہور میں پیدا ہوئے[10] اور محلہ بخاری میں رہائش پذیر تھے۔[11] حاکم لاہوری کے مطابق آفرین لاہوری نے بچپن میں ناصر علی سرہندی (1048-1108 ہجری) سے ملاقات کی تھی۔[12] 20 سال کی عمر میں، وہ صائب تبریزی کے شاگرد حاجی فریدون، عرف سابق سے ملاقات اور حفظہ اللہ خان کے دربار میں شعر و شاعری کرتے ہیں، وہ اپنے زمانے کے ادبی شخصیات کے ساتھ رابطے میں تھے اور خان آرزو ان کی مکتوبات کا ذکر کرتے ہیں۔[13]
آفرین نوجوانی میں فارسی اشعار میں دلچسپی رکھتے تھے اور انہیں فارسی زبان کے مشہور شعراء کے کلام زبانی یاد تھے اور بعد میں انہوں نے فارسی زبان کے مشہور عرفانی شاعر مولوی کے مثنوی کی تدریس کی۔[14]
آفرین سنہ 1154ھ میں وفات پا گئے اور انہیں اپنے گھر میں سپرد خاک کیا گیا۔ حاکم لاہوری نے ان کی وفات پر "رفت نقاد معنی از عالم" یعنی "معانی کی دنیا کا نقاد رخصت ہو گیا" کے عنوان سے اظہار عقیدت کی ہے۔ [15]
آفرین نے درویشانہ زندگی گزاری۔ وہ مغل سلطنت کے مقامی سپاہیوں کے ساتھ آشنائی رکھتے تھے لیکن مغل حکمرانوں کے دربار سے دور رہتے تھے، حالانکہ عبد الصمد خان نے انہیں کئی بار ملاقات کے لیے بلایا، لیکن وہ نہیں گئے، آخر کار بہت زیادہ اصرار پر ملاقات ہوئی، عبد الصمد خان اور ان کے فرزند زکریا خان آفرین لاہوری کی عزت و تکریم میں بہت زیادہ کوشاں تھے جس کے نتیجے میں انہیں ایک روپے روزانہ کا وظیفہ مقرر کیا گیا تھا۔[16] ان کا درویشانہ سلوک، اشعار میں عرفانی مضامین کا استعمال اور ایک غزل میں چِشت کے پیر کا تذکرہ اس کا تصوف کی طرف مائل ہونے کی نشانی قرار دی جاتی ہے۔[17] صوفیایہ طبیعت کا مالک ہونے کے باوجود وہ صوفیوں کے کسی سلسلے سے تعلق نہیں رکھتا ہے۔
انہوں نے مسجد وزیر خان لاہور میں ہونے والی ادبی نشستوں میں شرکت کی، جہاں انہیں بہت عزت دی جاتی تھی۔[18] مختلف تذکروں میں ان کے شعری مسائل کے جوابات دینے اور موزونیت کی مہارت کا ذکر موجود ہے۔[19] مشہور فارسی ادباء جیسے والہ داغستانی (1147 ہجری)[20] اور آزاد بلگرامی (1143 و 1147 ہجری)[21] نے سنہ 1143 اور 1147ھ میں لاہور میں ان سے ملاقات کی تھی۔
شاعری کا موضوع
آفرین کی شاعری عارفانہ تخیلات کا مجموعہ ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں پیغمبر اکرمؐ، ائمہ اطہارؑ اور شہدائے کربلا کا تذکرہ عقیدت و احترام کے ساتھ کیا ہے۔ اگرچہ ان کے اشعار عارضی عیوب سے خالی نہیں ہیں۔[22] آفرین نے اہل بیتؑ کے ساتھ عقیدت و مودت کا اظہار کرتے ہوئے ان کی شأن میں مدح سرائی کی ہے۔[23] انہوں نے امام حسنؑ اور امام حسینؑ کی شہادت پر ایک معروف ترجیع بند تحریر کیا، جس کا مطلع یہ ہے:
|
تصانیف
- کلیات آفرین لاہوری: آفرین لاہوری کا پہلا شعری مجموعہ سنہ 1967ء کو غلام ربانی عزیر کی کوششوں سے پنجاب ادبی اکیڈمی لاہور سے شایع ہوا، جو 869 غزلوں، 14 رباعیات اور صائب تبریزی، طالب آملی، امیرخسرو دہلوی، سعدی، فغانی، نظیری، حافظ اور فصیحی ہروی کے 13 تضمین پر مشتمل ہے۔ ان کے علاوہ اس کے ایک مستقل حصے میں ایک مخمس، پیغمبر اکرمؐ کی مدحت میں ایک ترکیبی بند، امام حسنؑ اور امام حسینؑ کی شہادت پر ترجیعی بند، مستزاد، تاریخ کے دو مادے اور ایک مذہبی شخصیت کی وفات پر ایک قطعہ شامل ہے۔ اس کی دوسری جلد میں 38 قصیدے، ہیر و رانجا کے 3 مثنوی، انبان معرفت اور ابجد فکر پر مشتمل ہے جو سنہ 1390شمسی کو شایع ہوئی۔ [24] ذبیح اللہ صفا نے آفرین لاہوری کے شعری مجموعے کا ایک نسخہ جسے سنہ 1147ھ میں تحریر کی گئی ہے، کو برطانیہ کے عجائب کے کتابخانہ میں دیکھا ہے جو 40 ہزار بیت سے زیادہ پر مشتمل تھا۔[25]، لیکن والہ داغستانی نے آفرین کے شعری مجموعے کو تقریبا 10 سے 12 ہزار ابیات پر مشتمل قرار دیا ہے[26]، جبکہ حاکم لاہوری اسے 5 سے 6 ہزار ابیات پر مشتمل قرار دیتے ہیں[27]۔ پاکستان میں ان کے خطی نسخوں کی مشترکہ فہرست میں اس مجموعے کے 4 نسخے درج ہے، ان میں سے ایک نسخہ آغاز اور انجام کے بغیر 7300 ابیات پر مشتمل ہے۔[28] آقا بزرگ تہرانی نے «دیوان آفرین اللہ آبادی» کو جس میں اس کے فارسی اشعار کو جمع کیا گیا ہے، آفرین لاہوری کے تصانیف میں شمار کرتے ہیں۔[29] ممکن ہے یہاں پر انہوں نے کچھ اشتباہ کیا ہے۔
- مثنوی ابجد فکر: ایک عرفانی مثنوی ہے جس میں مناجات، عشھ، رضا، صبر، توکل اور حضرت ابراہیم ادہم کی حکایت شامل ہے۔ اس مثنوی کے دو نسخے کراچی میوزیم کی لائبریری میں موجود ہے۔[30]
- مثنوی مہتاب و کتان(جان و دل): یہ مثنوی دل نامی کسی شہزادے اور جان نامی کسی شہزادی کی عاشقی کی داستان پر مشتمل ہے۔ اس مثنوی کا ایک ناتمام نسخہ پنجاب یونیورسٹی میں موجود ہے۔[31]
- ہیر اور رانجہا: یہ 2132 اشعار پر مشتمل ہندی لوک کہانی پر مبنی ایک مثنوی ہے جو رانجہا اور ہیر نامی لڑکی کی عشق کی داستان پر مشتمل ہے۔ آزاد بلگرامی سنہ 1143ھ میں اپنی پہلی ملاقات میں آفرین لاہوری کو اس مثنوی کی تحریر میں مصروف پایا ہے۔ یہ مثنوی فرخ سیر(1125-1131ھ) کو پیش کیا گیا اور دو دفعہ امر تسر(1319ھ) اور کراچی (1957ء) میں شایع ہوئی ہے۔
- انبان معرفت: بحر رمل مسدس مخبون محذوف میں لکھی گئی مثنوی ہے۔[32] جو بہاد ر شاہ کے زمانے میں لکھی گئی ہے۔[33] اور اب تک اس کا کوئی نسخہ معرفی نہیں ہوئی ہے۔
|
شاگرد
آفرین کے شاگردوں میں نمایاں نام درج ذیل ہیں:
- حاکم لاہوری: آفرین لاہوری کی شاگردی پر فخر کرتا تھا۔[34]
- میر محمد زمان لاہوری (مفتون)
- حاجی بیگ لاہوری (ہنر)
- میرزا نصراللہ بیگ لاہوری (یتیم)
- نورالعین بتالوی (واقف)
- ابوالحسن قابل خان لاہوری (میرزا)
- صوفی مشتاق احمد لاہوری (مشتاق)
- کشمیری ثم لاہوری (سرآمد)
- محمد احسن لاہوری (خبرت)
- عبدالعزیز لاہوری (تحسین)[35]
حاکم لاہوری میراحمد فائھ، خواجہ عبداللہ سامی اور میر محمد علی رائج سیالکوتی کو آفرین لاہوری کے ہم مشق اور ہم طرح کے طور پر نام لیتے ہیں۔[36]
مونوگرافی
فارسی زبان میں آفرین لاہوری کے زندگی پر کم ہی توجہ دی گئی ہے، سوائے چند سطروں کے جو دائرۃالمعارف بزرگ اسلامی میں موجود ہیں اور یہاں پر بھی اس مضمون کو جس مقالے سے لیا گیا ہے اس کے علاوہ کسی اور مقالے کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ آفرین لاہوری کے شعری مجموعے کی تصحیح کرنے والے نے اردو زبان میں چار صفحات پر مشتمل ایک مقدمہ لکھ کر آفرین کا تعارف پیش کیا ہے۔ "پاکستان میں فارسی اور ادب" نامی کتاب کی تیسری جلد جو پاکستان میں شایع ہوئی ہے، کی ایک مضمون میں اردو میں آفرین لاہوری کی زندگی اور تصنیفات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔[37] مزید برآں، احوال و افکار و آثارِ شاہ فقیراللہ آفرین لاہوری کے عنوان سے ایک کتاب محمد عرفان نے 1986ء میں اردو زبان میں شائع کی تھی۔ یہ کتاب سنگی طباعت میں شائع ہوئی تھی اور اس کے کاتب انصار احمد عمری تھے۔[38]
حوالہ جات
- ↑ آزاد بلگرامی، خزانہ عامر، 1900م، ص30؛ صدیق حسن، شمع انجمن، 1292ھ، ص34۔
- ↑ حاکم لاہوری، تذکرہ مردم دیدہ، دانشگاہ پنجاب، ص22۔
- ↑ بزرگ بیگدلی، «بررسی و تحلیل جایگاہ آفرین لاہوری۔۔۔»، ص37۔
- ↑ مدرس تبریزی، ج1، ص51؛ آقا بزرگ، الذریعہ، ج9، ص10۔
- ↑ قاموس الاعلام، ج1، ص245۔
- ↑ بزرگ بیگدلی، «بررسی و تحلیل جایگاہ آفرین لاہوری۔۔۔»، ص49۔
- ↑ لکنہوی، تذکرہ ریاض العارفین، اسلام آباد، ص13-14۔
- ↑ حسن خان، صبح گلشن، 1295ھ، ص7۔
- ↑ آقا بزرگ، الذریعہ، ج9، ص10۔
- ↑ آزاد بلگرامی، خزانہ عامر، 1900م، ص30؛ صدیق حسن، شمع انجمن، 1292ھ، ص34۔
- ↑ آزاد بلگرامی، آزاد بلگرامی، مآثر الکلام، 1328ھ، ص205۔
- ↑ حاکم لاہوری، تذکرہ مردم دیدہ، دانشگاہ پنجاب، ص19۔
- ↑ خان آرزو، مجمع النفایس، 1385شمسی، ص43۔
- ↑ مولوی، «آفرین لاہوری»، ج1، ص449۔
- ↑ حاکم لاہوری، تذکرہ مردم دیدہ، دانشگاہ پنجاب، ص23۔
- ↑ حاکم لاہوری، تذکرہ مردم دیدہ، دانشگاہ پنجاب، ص30۔
- ↑ کلیات، ص92؛ بزرگ بیگدلی، «بررسی و تحلیل جایگاہ آفرین لاہوری۔۔۔»، ص39۔
- ↑ حاکم لاہوری، تذکرہ مردم دیدہ، دانشگاہ پنجاب، ص20۔
- ↑ مظفر، روز روشن، 1297ھ، ص794؛ آزاد بلگرامی، خزانہ عامر، ص29؛ حاکم لاہوری، تذکرہ مردم دیدہ، دانشگاہ پنجاب، ص19-21۔
- ↑ والہ داغستانی، تذکرۃ ریاض الشعراء، 1384شمسی، ج1، ص309۔
- ↑ آزاد بلگرامی، خزانہ عامر، 1900م، ص29؛ آزاد بلگرامی، مآثر الکلام، 1328ھ، ص206۔
- ↑ خوشگو، سفینہ، 1959م، ج3، ص240۔
- ↑ آفرین لاہوری، کلیات، غزلہای ص33، 170،187، 472، 539۔
- ↑ بزرگ بیگدلی، «بررسی و تحلیل جایگاہ آفرین لاہوری۔۔۔»، ص39۔
- ↑ صفا، ج5، بخش2: 1402۔
- ↑ والہ داغستانی، تذکرۃ ریاض الشعراء، 1384شمسی، ج1، ص309۔
- ↑ حاکم لاہوری، تذکرہ مردم دیدہ، دانشگاہ پنجاب، ص18۔
- ↑ منزوی، ج8، ص1093۔،کتابخانہ و مرکز اسناد مجلس شورای اسلامی۔
- ↑ آقا بزرگ، الذریعہ، ج9، ص10۔
- ↑ منزوی، ج8، ص1093۔
- ↑ منزوی، ج8، ص1093۔
- ↑ آزاد بلگرامی، خزانہ عامر، 1900م، ص29 و آزاد بلگرامی، مآثر الکلام، 1328ھ، ص205۔
- ↑ حاکم لاہوری، تذکرہ مردم دیدہ، دانشگاہ پنجاب، ص18۔
- ↑ حاکم لاہوری، تذکرہ مردم دیدہ، دانشگاہ پنجاب، ص192۔
- ↑ بزرگ بیگدلی، «بررسی و تحلیل جایگاہ آفرین لاہوری۔۔۔»، ص38-39۔
- ↑ حاکم لاہوری، تذکرہ مردم دیدہ، دانشگاہ پنجاب، ص19۔
- ↑ منزوی، ج8، ص1093؛ بزرگ بیگدلی، «بررسی و تحلیل جایگاہ آفرین لاہوری۔۔۔»، ص36۔
- ↑ پایگاہ اطلاع رسانی کتابخانہہای ایران، کتابخانہ و اسناد دیجیتال۔
مآخذ
- آزاد بلگرامی، میرغلام علی، خزانہ عامر، کانپور، لونکشور، 1900ء۔
- آزاد بلگرامی، میرغلام علی، مآثر الکلام: موسوم بہ سرو آزاد، بہ اہتمام محمد قادر علیخان صوفی، حیدرآباد دکن، 1328ھ۔
- لکنہوی، آفتاب رای، تذکرۃ ریاض العارفین، تصحیح سید حسام الدین راشدی، انتشارات مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان، اسلام آباد۔
- آفرین لاہوری، فقیر اللہ، کلیات آفرین لاہوری، ج1، بہ اہتمام غلام ربانی عزیر، لاہور، پنجابی ادبی آکادمی، 1967ء۔
- بزرگ بیگدلی، سعید و احسان پورابریشم، «بررسی و تحلیل جایگاہ آفرین لاہوری در شعر فارسی شبہ قارہ»، در فصلنامہ سبکشناسی نظم و نثر فارسی، شمارہ 12، سال 1390شمسی۔
- حاکم لاہوری، عبدالحکیم، تذکرہ مردم دیدہ، بہ اہتمام سید عبداللہ لاہور، دانشگاہ پنجاب۔
- حسن خان، علی، صبح گلشن، بہوپال، مطبع شاہجہانی، 1295ھ۔
- خان آرزو، سراج الدین علی، مجمع النفایس (بخش معاصران)، تصحیح میرہاشم محدث، تہران، انجمن آثار و مفاخر فرہنگی، 1385شمسی۔
- خوشگو، بنْدر ابن داس، سفینہ، بہ کوشش محمد عطاء الرحمن عطا کاکوی، ج3، پتنہ، ادارہ تحقیقات عربی و فارسی، 1959ء۔
- سامی، شمس الدین، قاموس الاعلام، ج1، استانبول، مطبعہ مہران، 1306ھ۔
- آقا بزرگ تہرانی، محمدمحسن، الذریعۃ إلی تصانیف الشیعۃ، قم و تہران، اسماعیلیان و کتابخانہ اسلامیہ، 1408ھ۔
- صدیق حسن، محمد، شمع انجمن، بہوپال، مطبع شاہجہانی، 1292ھ۔
- صفا، ذبیح اللہ، تاریخ ادبیات در ایران، تہران، انتشارات فردوس، 1371شمسی۔
- مدرس تبریزی، میرزا محمدعلی، ریحانۃ الادب در شرح احوال و آثار علما، عرفا، فقہا، فلاسفہ، شعرا و خطاطین بزرگ اسلامی از آغاز تا عصر حاضر، انتشارت خیام، 1369شمسی۔
- مظفر، محمدحسین، روز روشن، بہوپال، مطبع شاہجہانی، 1297ھ۔
- منزوی، احمد، فہرست مشترک نسخہہای خطی فارسی پاکستان، ج8، اسلامآباد، انتشارات مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان، 1366شمسی۔
- والہ دغستانی، علینقی بن محمدعلی، تذکرۃ ریاض الشعراء، تصحیحمحسن ناجی نصرآبادی، تہران، انتشارات اساطیر، 1384ھ۔
- مولوی، محمدعلی، «آفرین لاہوری»، در دایرۃ المعارف بزرگ اسلامی، ج1۔
بیرونی روابط