سورہ حاقہ قرآن کی 69ویں اور مکی سورتوں میں سے ہے جو قرآن کے انتیسویں پارے میں واقع ہے۔ اس سورت کا نام "حاقہ" ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لفظ اس سورت کی تین آیتوں میں تکرار ہوا ہے اور اس کے معنی روز قیامت کے ہیں۔ اس سورت کا اصل موضوع معاد اور روز قیامت کی توصیف ہے۔ اس میں قیامت کے وقوع کو حتمی قرار دیتے ہوئے اس کے منکروں کے برے انجام کی خبر دی گئی ہے۔ اس سورت کی آیت نمبر 44-46 تک تین آیتیں اس کی مشہور آیات میں شمار ہوتی ہیں جن میں پیغمبر اکرمؐ کے بارے میں آیا ہے کہ اگر انہوں نے خدا کی طرف کسی بات کی جھوٹی نسبت دی تو خدا ان سے انتقام کی خاطر ان کی شہ رگ کو کاٹ ڈالے گا۔ احادیث میں آیا ہے کہ جو شخص سورہ حاقہ کی تلاوت کرے گا، خدا قیامت کے دن اس کا حساب و کتاب آسانی سے لے گا اسی طرح اس سورت کو واجب اور مستحب نمازوں میں پڑھنا خدا اور پیغمبرؐ پر ایمان کی علامت قرار دی گئی ہے۔
قلم | سورۂ حاقہ | معارج | |||||||||||||||||||||||
|
تعارف
- نام
اس سورت کی پہلی تین آیتوں میں لفظ "حاقہ" تین بار تکرار ہوا ہے اسی مناسبت سے اس کا نام "حاقہ" رکھا گیا ہے اور یہاں پر اس سے روز قیامت مراد ہے۔ حاقہ حق سے لیا گیا ہے جس کے معنی ایک ایسی چیز کے ہیں جس کا وقوع حتمی ہو۔[1]
- ترتیب اور محل نزول
سورہ حاقہ مکی سورتوں میں سے ہے۔ ترتیب نزول کے اعتبار سے 78ویں جبکہ موجودہ ترتیب کے اعتبار سے 69ویں سورہ ہے۔[2] یہ سورت قرآن کے انتیسویں پارے میں واقع ہے۔
- آیات کی تعداد اور دوسری خصوصیات
سورہ حاقہ 52 آیات، 261 کلمات اور 1133 حروف پر مشتمل ہے اور اس کا شمار مُفَصِّلات میں ہوتا ہے۔[3]
مضامین
سورہ حاقہ کا اصل موضوع قیامت کی یاد آوری ہے۔ اس کے علاوہ درج ذیل موضوعات کی طرف بھی اس میں اشارہ کیا گیا ہے:
- گذشتہ امتوں کا اجمالی ذکر جو قیامت کے منکر تھے، خاص کر قوم عاد، قوم ثمود اور فرعون؛
- روز قیامت کے حالات اور لوگوں کا دو گروہوں اصحاب یمین اور اصحاب شمال میں تقسیم ہونا جن میں سے ایک نجات پانے والے اور دوسرا گروہ ہلاک ہونے والے ہیں؛
- قرآنی تعلمیات کی تصدیق اور ان کی عظمت ۔[4]
انسان کے انجام میں قیامت پر عقیدے کی تأثیر | |||||||||||||||||||||||
تیسرا گفتار؛ آیہ ۳۸-۵۲ قیامت کے بارے میں قرآنی تعلیمات کی حقانیت | دوسرا گفتار؛ آیہ ۱۳-۳۷ انسان کی اخروی زندگی میں قیامت پر عقیدے کی تأثیر | پہلا گفتار؛ آیہ ۱-۱۲ دنیوی زندگی میں قیامت سے انکار کی تأثیر | |||||||||||||||||||||
پہلا مطلب؛ آیہ ۳۸-۴۷ قرآنی تعلیمات اللہ کا کلام ہے نہ کہ پیغمبر کا | پہلا مطلب؛ آیہ ۱۳-۱۶ دنیا کا وقتی نظام ختم ہوتے ہی قیامت برپا ہونا | پہلا مطلب؛ آیہ ۱-۳ قیامت کی عظمت اور حقانیت | |||||||||||||||||||||
دوسرا مطلب؛ آیہ ۴۸-۵۲ قرآنی تعلیمات کی تین خصوصیات | دوسرا مطلب؛ آیہ ۱۷-۱۸ انسانوں کا اللہ کے حضور حاضری | دوسرا مطلب؛ آیہ ۴-۱۰ قیامت کے منکروں کا آسمانی عذاب سے ہلاک ہونا | |||||||||||||||||||||
تیسرا مطلب؛ آیہ ۱۹-۲۴ قیامت کے ماننے والوں کے لیے آخروی اجر | تیسرا مطلب؛ آیہ ۱۱-۱۲ مومنین اور انبیاء کے پیروکاروں کی نجات | ||||||||||||||||||||||
چوتھا مطلب؛ آیہ ۲۵-۳۷ قیامت کے منکروں پر اخروی سزا | |||||||||||||||||||||||
بارہویں آیت حضرت علیؑ کی شأن میں
احادیث میں آیا ہے کہ جب سورہ حاقہ کی بارہویں آیت لِنَجْعَلَهَا لَكُمْ تَذْكِرَةً وَتَعِیهَا أُذُنٌ وَاعِیةٌ (ترجمہ: تاکہ ہم اس (وا قعہ) کو تمہارے لئے یادگار بنا دیں اور یاد رکھنے والے کان اسے محفوظ رکھیں۔) نازل ہوئی تو پیغمبر اکرمؐ نے امام علیؑ سے فرمایا اس آیت میں "اُذُن" سے مراد آپ کے کان ہیں۔[6] امیرالمؤمنین حضرت علیؑ سے بھی نقل ہوئی ہے کہ آپ نے فرمایا: میں وہ یاد رکھنے والا اور محفوظ رکھنے والا کان ہو"[7] اہل سنت بعض مفسرین نے بھی اس آیت کو حضرت علیؑ کی شان میں نازل ہونے کو قبول کیا ہے۔[8]
اسی طرح بہت ساری تفاسیر اور حدیثی منابع میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے اس آیت کے نزول کے وقت فرمایا: "میں نے خدا سے درخواست کی تھی کہ علی کے کانوں کو حقایق سنے اور اسے محفوظ رکھنے والے کان قرار دیں۔ امام علیؑ سے ایک اور حدیث میں نقل ہوئی ہے: "اس کے بعد کوئی ایسی بات نہیں جسے میں نے رسول خداؐ سے سنا ہو اور اسے فراموش کیا ہو؛ بلكہ جو کچھ میں نے حضور سے سنا انہیں ہمیشہ کیلئے ذہن نشین کیا ہوں"۔[9]
مشہور آیتیں
- وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ (آیات 44-46)
ترجمہ: اور اگر یہ پیغمبر ہماری طرف سے کوئی بات گڑھ لیتا تو ہم اس کے ہاتھ کو پکڑ لیتے اور پھر اس کی گردن اڑادیتے۔
ان آیتوں میں پیغمبر اکرمؐ کو دھمکی آمیز لہجے میں فرماتے ہیں کہ نے کسی بات کو ہماری طرف جھوٹی نسبت دی تو ہم ان سے انتقام لیں گے۔ یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ اصلا یہ چیز ممکن ہی نہیں ہے کہ خدا کے بھیجے ہوئے انبیاء سے ایسی کوئی حرکت سرزد ہو۔ پس اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پیغمبر اکرمؐ اپنی گفتار میں سچے ہیں اور آپ جو کچھ بھی زبان پر جاری کرتے ہیں وہ خدا کا کلام ہے۔[10] تفسیر البرہان میں ایک حدیث آئی ہے کہ جب پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا: "مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاه" (حدیث غدیر) تو دشمنوں میں سے ایک نے کہا: اسے خدا نے نہیں کہا ہے بلکہ پیغمبرؐ نے خدا کی طرف چھوٹی نسبت دی ہے۔ اسی وقت یہ آیت وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا... نازل ہوئی۔[11]
فضیلت اور خصوصیات
پیغمبر اکرمؐ سے منقول ہے کہ جو شخص سورہ حاقہ کی تلاوت کرے گا قیامت کے دن خدا اس کے حساب کتاب میں آسانی پیدا کرے گا۔[12] امام باقرؑ سے نقل ہوئی ہے کہ آپ نے فرمایا: سورہ حاقّہ کو بہت زیادہ پڑھو کیونکہ واجب اور مستحب نمازوں میں اس کا پڑھنا خدا اور اس کے رسول پر ایمان کی نشانی ہے۔ اور چونکہ یہ سورت امیر مؤمنین ححضرت علیؑ اور معاویہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے اس بنا پر جو بھی اسے خدا سے ملاقات کرنے تک پڑھتا رہے تو اس کا دین محفوظ رہے گا۔[13] اس کی خصوصیات کے بارے میں حدیث میں آیا ہے کہ اگر کوئی حاملہ عورت اسے لکھ اپنے ساتھ رکھے تو خدا کے اذن سے اس کے پیٹ میں موجود بچہ [خطرات سے] محفوظ رہے گا اور اگر اس سورت کو لکھ کر اسے پانی میں گھول کر بچے کو پلایا جائے تو بچہ ذہین ہو گا۔[14]
متن اور ترجمہ
سوره حاقہ
|
ترجمہ
|
---|---|
الْحَاقَّةُ ﴿1﴾ مَا الْحَاقَّةُ ﴿2﴾ وَمَا أَدْرَاكَ مَا الْحَاقَّةُ ﴿3﴾ كَذَّبَتْ ثَمُودُ وَعَادٌ بِالْقَارِعَةِ ﴿4﴾ فَأَمَّا ثَمُودُ فَأُهْلِكُوا بِالطَّاغِيَةِ ﴿5﴾ وَأَمَّا عَادٌ فَأُهْلِكُوا بِرِيحٍ صَرْصَرٍ عَاتِيَةٍ ﴿6﴾ سَخَّرَهَا عَلَيْهِمْ سَبْعَ لَيَالٍ وَثَمَانِيَةَ أَيَّامٍ حُسُومًا فَتَرَى الْقَوْمَ فِيهَا صَرْعَى كَأَنَّهُمْ أَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِيَةٍ ﴿7﴾ فَهَلْ تَرَى لَهُم مِّن بَاقِيَةٍ ﴿8﴾ وَجَاء فِرْعَوْنُ وَمَن قَبْلَهُ وَالْمُؤْتَفِكَاتُ بِالْخَاطِئَةِ ﴿9﴾ فَعَصَوْا رَسُولَ رَبِّهِمْ فَأَخَذَهُمْ أَخْذَةً رَّابِيَةً ﴿10﴾ إِنَّا لَمَّا طَغَى الْمَاء حَمَلْنَاكُمْ فِي الْجَارِيَةِ ﴿11﴾ لِنَجْعَلَهَا لَكُمْ تَذْكِرَةً وَتَعِيَهَا أُذُنٌ وَاعِيَةٌ ﴿12﴾ فَإِذَا نُفِخَ فِي الصُّورِ نَفْخَةٌ وَاحِدَةٌ ﴿13﴾ وَحُمِلَتِ الْأَرْضُ وَالْجِبَالُ فَدُكَّتَا دَكَّةً وَاحِدَةً ﴿14﴾ فَيَوْمَئِذٍ وَقَعَتِ الْوَاقِعَةُ ﴿15﴾ وَانشَقَّتِ السَّمَاء فَهِيَ يَوْمَئِذٍ وَاهِيَةٌ ﴿16﴾ وَالْمَلَكُ عَلَى أَرْجَائِهَا وَيَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّكَ فَوْقَهُمْ يَوْمَئِذٍ ثَمَانِيَةٌ ﴿17﴾ يَوْمَئِذٍ تُعْرَضُونَ لَا تَخْفَى مِنكُمْ خَافِيَةٌ ﴿18﴾ فَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ فَيَقُولُ هَاؤُمُ اقْرَؤُوا كِتَابِيهْ ﴿19﴾ إِنِّي ظَنَنتُ أَنِّي مُلَاقٍ حِسَابِيهْ ﴿20﴾ فَهُوَ فِي عِيشَةٍ رَّاضِيَةٍ ﴿21﴾ فِي جَنَّةٍ عَالِيَةٍ ﴿22﴾ قُطُوفُهَا دَانِيَةٌ ﴿23﴾ كُلُوا وَاشْرَبُوا هَنِيئًا بِمَا أَسْلَفْتُمْ فِي الْأَيَّامِ الْخَالِيَةِ ﴿24﴾ وَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِشِمَالِهِ فَيَقُولُ يَا لَيْتَنِي لَمْ أُوتَ كِتَابِيهْ ﴿25﴾ وَلَمْ أَدْرِ مَا حِسَابِيهْ ﴿26﴾ يَا لَيْتَهَا كَانَتِ الْقَاضِيَةَ ﴿27﴾ مَا أَغْنَى عَنِّي مَالِيهْ ﴿28﴾ هَلَكَ عَنِّي سُلْطَانِيهْ ﴿29﴾ خُذُوهُ فَغُلُّوهُ ﴿30﴾ ثُمَّ الْجَحِيمَ صَلُّوهُ ﴿31﴾ ثُمَّ فِي سِلْسِلَةٍ ذَرْعُهَا سَبْعُونَ ذِرَاعًا فَاسْلُكُوهُ ﴿32﴾ إِنَّهُ كَانَ لَا يُؤْمِنُ بِاللَّهِ الْعَظِيمِ ﴿33﴾ وَلَا يَحُضُّ عَلَى طَعَامِ الْمِسْكِينِ ﴿34﴾ فَلَيْسَ لَهُ الْيَوْمَ هَاهُنَا حَمِيمٌ ﴿35﴾ وَلَا طَعَامٌ إِلَّا مِنْ غِسْلِينٍ ﴿36﴾ لَا يَأْكُلُهُ إِلَّا الْخَاطِؤُونَ ﴿37﴾ فَلَا أُقْسِمُ بِمَا تُبْصِرُونَ ﴿38﴾ وَمَا لَا تُبْصِرُونَ ﴿39﴾ إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ ﴿40﴾ وَمَا هُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ قَلِيلًا مَا تُؤْمِنُونَ ﴿41﴾ وَلَا بِقَوْلِ كَاهِنٍ قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَ ﴿42﴾ تَنزِيلٌ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِينَ ﴿43﴾ وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ ﴿44﴾ لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ﴿45﴾ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ ﴿46﴾ فَمَا مِنكُم مِّنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِينَ ﴿47﴾ وَإِنَّهُ لَتَذْكِرَةٌ لِّلْمُتَّقِينَ ﴿48﴾ وَإِنَّا لَنَعْلَمُ أَنَّ مِنكُم مُّكَذِّبِينَ ﴿49﴾ وَإِنَّهُ لَحَسْرَةٌ عَلَى الْكَافِرِينَ ﴿50﴾ وَإِنَّهُ لَحَقُّ الْيَقِينِ ﴿51﴾ فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيمِ ﴿52﴾ |
برحق واقع ہو نے والی۔ (1) کیا ہے وہ برحق واقع ہو نے والی۔ (2) اور (اے مخاطب) تم کیا جانو کہ کیا ہے وہ برحق واقع ہو نے والی۔ (3) قبیلۂ ثمود اور عاد نے کھڑکھڑانے والی (قیامت) کو جھٹلایا۔ (4) پس ثمود تو ایک حد سے بڑھے ہوئے حادثہ سے ہلاک کئے گئے۔ (5) اور بنی عاد ایک حد سے زیادہ تیز و تند (اور سرد) آندھی سے ہلاک کئے گئے۔ (6) اللہ نے اسے مسلسل سات رات اور آٹھ دن تک ان پر مسلط رکھا تم (اگر وہاں ہوتے تو) دیکھتے کہ وہ اس طرح گرے پڑے ہیں کہ گویا وہ کھجور کے کھوکھلے تنے ہیں۔ (7) تو تمہیں ان کا کوئی باقی بچ جانے والا نظر آتا ہے؟ (8) اور فرعون اور اس سے پہلے والوں اور الٹی ہوئی بسیتوں (والوں) نے (یہی) خطا کی۔ (9) (یعنی) اپنے پروردگار کے رسول(ع) کی نافرمانی کی تو اس (اللہ) نے ان کو حد سے بڑھی ہوئی گرفت میں لے لیا۔ (10) اور پانی جب حد سے بڑھ گیا تو ہم نے تم کو (یعنی تمہارے آباء و اجداد کو) کشتی میں سوار کیا۔ (11) تاکہ ہم اس (وا قعہ) کو تمہارے لئے یادگار بنا دیں اور یاد رکھنے والے کان اسے محفوظ رکھیں۔ (12) سو جب ایک بار صور پھونکا جائے گا۔ (13) اور زمین اور پہاڑوں کو ایک ہی دفعہ پاش پاش کر دیا جائے گا۔ (14) تو اس دن واقع ہو نے والی (قیامت) واقع ہو جائے گی۔ (15) اور آسمان پھٹ جائے گا اور وہ اس دن بالکل کمزور ہو جائے گا۔ (16) اور فرشتے اس کے کناروں پر ہوں گے اور آپ(ص) کے پرورگار کے عرش کو اس دن آٹھ (فرشتے) اٹھائے ہوں گے۔ (17) اس دن تم (اپنے پروردگار کی بارگاہ میں) پیش کئے جاؤ گے اور تمہاری کوئی بات پوشیدہ نہ رہے گی۔ (18) پس جس کا نامۂ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا وہ کہے گا آؤ پڑھو میرانامۂ اعمال۔ (19) میں سمجھتا تھا کہ میں اپنے حساب کتاب سے دو چار ہو نے والا ہوں۔ (20) وہ ایک پسندیدہ زندگی میں ہوگا۔ (21) (یعنی) اس عالیشان بہشت میں ہوگا۔ (22) جس کے تیار پھلوں کے خوشے جھکے ہوئے ہوں گے۔ (23) (ان سے کہاجائے گا) کھاؤ اور پیو مزے اور خوشگواری کے ساتھ ان اعمال کے صلے میں جو تم نے گزرے ہوئے دنوں میں کئے ہیں۔ (24) اور جس کا نامۂ اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا وہ کہے گا کہ کاش میرا نامۂ اعمال مجھے نہ دیا جاتا۔ (25) اور میں نہ جانتا کہ میرا حساب کتاب کیا ہے؟ (26) اے کاش وہی موت (جو مجھے آئی تھی) فیصلہ کُن ہوتی۔ (27) (ہا ئے) میرے مال نے مجھے کوئی فائدہ نہ دیا۔ (28) (آہ) میرا اقتدار ختم ہوگیا۔ (29) (پھر حکم ہوگا) اسے پکڑو اور اسے طوق پہناؤ۔ (30) پھر اسے جہنم میں جھونک دو۔ (31) پھر اسے ایک ایسی زنجیر میں جس کی لمبائی ستر ہاتھ ہے جکڑ دو۔ (32) (کیونکہ) یہ بزر گ و برتر خدا پر ایمان نہیں رکھتا تھا۔ (33) اور غریب کو کھانا کھلانے پر آمادہ نہیں کرتا تھا۔ (34) پس آج یہاں اس کا کوئی ہمدرد نہیں ہے۔ (35) اور نہ ہی اس کے لئے پیپ کے سوا کوئی کھانا ہے۔ (36) جسے خطا کاروں کے سوا اور کوئی نہیں کھاتا۔ (37) پس نہیں! میں قَسم کھاتا ہوں ان چیزوں کی جن کو تم دیکھتے ہو۔ (38) اور ان کی جن کو تم نہیں دیکھتے۔ (39) بےشک یہ (قرآن) ایک معزز رسول(ص) کا کلام ہے۔ (40) یہ کسی شاعر کا کلام نہیں ہے (مگر) تم لوگ بہت کم ایمان لاتے ہو۔ (41) اور نہ ہی یہ کسی کاہن کا کلام ہے (مگر) تم لوگ بہت کم نصیحت حاصل کرتے ہو۔ (42) (بلکہ) یہ تو تمام جہانوں کے پروردگار کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ (43) اگر وہ (نبی(ص)) اپنی طرف سے کوئی بات گھڑ کر ہماری طرف منسوب کرتا۔ (44) تو ہم اس کا دایاں ہاتھ پکڑ لیتے۔ (45) اور پھر ہم اس کی رگِ حیات کاٹ دیتے۔ (46) پھر تم میں سے کوئی بھی ہمیں اس سے روکنے والا نہ ہوتا۔ (47) بےشک یہ(قرآن) پرہیزگاروں کیلئے ایک نصیحت ہے۔ (48) اور ہم خوب جانتے ہیں کہ تم میں سے کچھ لوگ (اس کے) جھٹلانے والے ہیں۔ (49) اور یہ کافروں کیلئے با عثِ حسرت ہے۔ (50) اور بےشک وہ یقینی حق ہے۔ (51) پس آپ(ص) اپنے عظمت والے پروردگار کے نام کی تسبیح کریں۔ (52) |
پچھلی سورت: سورہ قلم | سورہ حاقہ | اگلی سورت:سورہ معارج |
1.فاتحہ 2.بقرہ 3.آلعمران 4.نساء 5.مائدہ 6.انعام 7.اعراف 8.انفال 9.توبہ 10.یونس 11.ہود 12.یوسف 13.رعد 14.ابراہیم 15.حجر 16.نحل 17.اسراء 18.کہف 19.مریم 20.طہ 21.انبیاء 22.حج 23.مؤمنون 24.نور 25.فرقان 26.شعراء 27.نمل 28.قصص 29.عنکبوت 30.روم 31.لقمان 32.سجدہ 33.احزاب 34.سبأ 35.فاطر 36.یس 37.صافات 38.ص 39.زمر 40.غافر 41.فصلت 42.شوری 43.زخرف 44.دخان 45.جاثیہ 46.احقاف 47.محمد 48.فتح 49.حجرات 50.ق 51.ذاریات 52.طور 53.نجم 54.قمر 55.رحمن 56.واقعہ 57.حدید 58.مجادلہ 59.حشر 60.ممتحنہ 61.صف 62.جمعہ 63.منافقون 64.تغابن 65.طلاق 66.تحریم 67.ملک 68.قلم 69.حاقہ 70.معارج 71.نوح 72.جن 73.مزمل 74.مدثر 75.قیامہ 76.انسان 77.مرسلات 78.نبأ 79.نازعات 80.عبس 81.تکویر 82.انفطار 83.مطففین 84.انشقاق 85.بروج 86.طارق 87.اعلی 88.غاشیہ 89.فجر 90.بلد 91.شمس 92.لیل 93.ضحی 94.شرح 95.تین 96.علق 97.قدر 98.بینہ 99.زلزلہ 100.عادیات 101.قارعہ 102.تکاثر 103.عصر 104.ہمزہ 105.فیل 106.قریش 107.ماعون 108.کوثر 109.کافرون 110.نصر 111.مسد 112.اخلاص 113.فلق 114.ناس |
حوالہ جات
- ↑ طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۳ق، ج۱۹، ص۳۹۲.
- ↑ معرفت، آموزش علوم قرآن، ۱۳۷۱ش، ج۱، ص۱۶۷.
- ↑ دانشنامہ قرآن و قرآنپژوہی، ۱۳۷۷ش، ج۲، ص۱۲۵۸.
- ↑ طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۳ق، ج۱۹، ص۳۹۱ و ۳۹۲.
- ↑ خامہگر، محمد، ساختار سورہہای قرآن کریم، تہیہ مؤسسہ فرہنگی قرآن و عترت نورالثقلین، قم، نشر نشرا، چ۱، ۱۳۹۲ش.
- ↑ کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۴۲۳.
- ↑ بحرانی، البرہان، ۱۳۸۹ش، ج۵، ص۴۷۱، بہ نقل از معانیالاخبار، ج۱، ص۶۰.
- ↑ سیوطی، الدر المنثور، ۱۴۰۴ق، ج۶، ص۲۶۰؛ ثعلبی، الکشف و البیان، ۱۴۲۲ق، ج۱۰، ص۲۸.
- ↑ مکارم شیرازی، برگزیدہ تفسیر نمونہ، ۱۳۸۲ش، ج۵، ص۲۶۲.
- ↑ طباطبایی، المیزان، ترجمہ، ج۱۹، ص۶۷۵ـ۶۷۶.
- ↑ بحرانی، البرہان، ۱۳۸۹ض، ج۵، ص۴۸۰.
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱۰، ص۵۱۴.
- ↑ شیخ صدوق، ثواب الاعمال، ۱۳۶۸ش، ص۱۱۹.
- ↑ بحرانی، البرہان، ۱۳۸۹ش، ج۵، ص۴۶۷.
مآخذ
- قرآن کریم، ترجمہ محمد حسین نجفی (سرگودھا)۔
- بحرانی، ہاشم بن سلیمان، البرہان فی تفسیر القرآن، قم، مؤسسہ البعثہ، قسم الدراسات الاسلامیہ، ۱۳۸۹ش۔
- ثعلبی، احمد بن محمد، الکشف و البیان عن تفسیر القرآن، بیروت، داراحیاء التراث العربی، ۱۴۲۲ق۔
- خرمشاہی، بہاءالدین، دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، تہران، انتشارات دوستان، ۱۳۷۷ش۔
- سیوطی، عبدالرحمن بن ابیبکر، الدر المنثور فی التفسیر بالماثور، قم، کتابخانہ آیتاللہ مرعشی نجفی(رہ)، ۱۴۰۴ق۔
- شیخ صدوق، محمد بن علی، ثواب الأعمال و عقاب الأعمال، قم، انتشارات أمیر، چاپ دوم، ۱۳۶۸ش۔
- طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسہ الاعلمی للمطبوعات، ۱۳۹۳ق۔
- طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، بہ تصحیح فضلاللہ یزدی طباطبایی و ہاشم رسولی، تہران، ناصر خسرو، چاپ سوم، ۱۳۷۲ش۔
- کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، ۱۴۰۷ق۔
- معرفت، محمدہادی، آموزش علوم قرآن، [بیجا]، مرکز چاپ و نشر سازمان تبلیغات اسلامی، چاپ اول، ۱۳۷۱ش۔
- مکارم شیرازی، ناصر، برگزیدہ تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، ۱۳۸۲ش۔