مندرجات کا رخ کریں

"حدیث قرطاس" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی شیعہ سے
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
سطر 11: سطر 11:
[[شیعہ]] علماء کے مطابق، [[پیغمبر اکرمؐ]] اس موقع پر اپنے بعد [[حضرت علیؑ]] کی جانشینی سے متعلق تاکید کرنا چاہتے تھے۔ وہاں موجود بعض حاضرین کو بھی اس بات کا خدشہ تھا اس بنا پر وہ آپؐ کو اس کام سے روکنا چاہتا تھا۔ <ref> شرف الدین، المراجعات، المجمع العالمی لاہل البیت، ص۵۲۷.</ref> عمر ابن خطاب اور [[ابن عباس]] کے درمیان ہونے والی ایک گفتگو میں خود عمر اس بات کا اظہار یوں کرتا ہے: پیغمبر اکرمؐ بیماری کی حالت میں اپنے بعد علیؑ کی جانشینی اور [[خلیفہ|خلافت]] کے بارے میں کچھ لکھنا چاہتے تھے لیکن میں نے [[اسلام]] سے دلسوزی اور اس کی تحفظ کی خاصر پیغمبر اکرمؐ کو اس کام سے منع کیا۔<ref> ابن ابی‌الحدید، شرح نہج البلاغہ، ۱۳۷۸ق، ج۱۲، ص ۲۰-۲۱.</ref>
[[شیعہ]] علماء کے مطابق، [[پیغمبر اکرمؐ]] اس موقع پر اپنے بعد [[حضرت علیؑ]] کی جانشینی سے متعلق تاکید کرنا چاہتے تھے۔ وہاں موجود بعض حاضرین کو بھی اس بات کا خدشہ تھا اس بنا پر وہ آپؐ کو اس کام سے روکنا چاہتا تھا۔ <ref> شرف الدین، المراجعات، المجمع العالمی لاہل البیت، ص۵۲۷.</ref> عمر ابن خطاب اور [[ابن عباس]] کے درمیان ہونے والی ایک گفتگو میں خود عمر اس بات کا اظہار یوں کرتا ہے: پیغمبر اکرمؐ بیماری کی حالت میں اپنے بعد علیؑ کی جانشینی اور [[خلیفہ|خلافت]] کے بارے میں کچھ لکھنا چاہتے تھے لیکن میں نے [[اسلام]] سے دلسوزی اور اس کی تحفظ کی خاصر پیغمبر اکرمؐ کو اس کام سے منع کیا۔<ref> ابن ابی‌الحدید، شرح نہج البلاغہ، ۱۳۷۸ق، ج۱۲، ص ۲۰-۲۱.</ref>


==مآخذ حدیث==
==اس حدیث کے منابع==
 
یہ واقعہ اپنی تمام تر جزئیات لیکن مختلف عبارات کے ساتھ شیعہ سنی منابع میں نقل ہوا ہے۔ اہل سنت منابع میں سے [[صحیح بخاری]]،<ref>بخاری، صحیح البخاری، ۱۴۰۱ق، ج۱، ص۳۷، ج۴، ص۶۶، ج۵، ص۱۳۷-۱۳۸، ج۷، ص۹.</ref> [[صحیح مسلم]]،<ref>مسلم، صحیح مسلم، دارالفکر، ج۵، ص۷۵-۷۶.</ref> [[مسند احمد حنبل|مسند احمد]]،<ref> ابن حنبل، مسند الامام احمد بن حنبل، ۲۰۰۸م، ج۲، ص۴۵. </ref> سنن بیہقی<ref>بیہقی، السنن الکبری، دارالفکر، ج۹، ص۲۰۷.</ref> اور طبقات ابن سعد<ref>ابن سعد، الطبقات الکبری، دارالصادر، ج۲، ص۲۴۲-۲۴۵.</ref> میں اس واقعے کی تفصیل موجود ہے۔ اسی طرح شیعہ منابع میں [[الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد (کتاب)|الارشاد]]<ref>شیخ مفید، الإرشاد، ۱۳۷۲ش، ج۱، ص۱۸۴.</ref>، [[اوائل المقالات (کتاب)|اوائل المقالات]]<ref>شیخ مفید، اوائل المقالات، الموتمر العالمی، ص۴۰۶.</ref>، [[الغیبۃ نعمانی]]<ref>نعمانی، الغیبۃ، ۱۳۹۹ق، ص۸۱-۸۲.</ref> اور [[المناقب ابن شہر آشوب]]<ref>ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی‌طالب، علامہ، ج۱، ص۲۳۶.</ref> کا نام اس حوالے سے قابل ذکر ہیں۔
=== مآخذ اہل سنت ===
یہ [[حدیث]]  [[اہل سنت]]  کے بہت سے معتبر مآخذوں میں مذکور ہوئی ہے مثلا:
{{ستون آ|2}}
* [[صحیح بخاری]] کےاب میں پانچ مقامات پر آئی جن میں سے دو مقام پر  [[عمر بن خطاب |عمر]] کا نام آیا ہے ۔<ref>صحیح البخاری، ج۱، ص۳۷.</ref> <ref>صحیح البخاری، ج۴، ص۳۱.</ref> <ref>صحیح البخاری، ج۴، ص۶۶.</ref> <ref>صحیح البخاری، ج۵، صص۱۳۷-۱۳۸.</ref> <ref>صحیح البخاری، ج۷، ص۹.</ref>
* [[صحیح مسلم]] میں تین جگہ پر : ایک مقام پر حضرت عمر کا نام آیا ہے <ref>صحیح مسلم، ج۵، ص۷۵.</ref> <ref>صحیح مسلم، ج۵، ص۷۶.</ref> <ref>صحیح مسلم، ج۵، ص۷۶.</ref>
* [[مسند احمد]] میں ایک مقام پر :کہنے والے کے نام کی طرف اشارہ نہیں ہوا ۔<ref>مسند الامام احمد بن حنبل، ج۲، ح۱۹۶۳، ص۴۵. </ref>
* [[سنن بیہقی]] میں ایک جگہ نقل ہوا ہے :کہنے والے کے نام نہیں آیا ۔<ref>بیہقی، السنن الکبری، ج۹، ص۲۰۷.</ref>
* [[الطبقات الکبری|طبقات ابن سعد]] میں آٹھ جگہ آیا ہے : تین جگہ حضرت عمر کا  نام آیا ہے <ref>ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۲، ص۲۴۲.</ref> <ref>ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۲، ص۲۴۲.</ref> <ref>ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۲، ص۲۴۳.</ref> <ref>ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۲، ص۲۴۳.</ref> <ref>ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۲، صص۲۴۴-۲۴۳.</ref> <ref>ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۲، ص۲۴۴.</ref> <ref>ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۲، ص۲۴۴.</ref> <ref>ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۲، صص۲۴۴-۲۴۵.</ref>
{{ستون خ}}
 
===شیعہ مآخذ===
*[[شیخ مفید]] کی  [[الارشاد]]<ref>شیخ مفيد، الإرشاد، ج۱، ص۱۸۴</ref> و [[اوائل المقالات]]<ref>شیخ مفید، اوائل المقالات، ص۴۰۶</ref>
* [[محمد بن ابراہیم نعمانی|نعمانی]] کی کتاب [[کتاب الغیبت (نعمانی)|الغیبت]]<ref>نعماني الغيبت، ص ۸۱-۸۲</ref>
*[[ابن شہر آشوب]] کی [[مناقب آل ابی طالب (کتاب)|المناقب]]<ref>ابن [[شہر]]آشوب، المناقب، ج۱، ص۲۳۶</ref>


== مختلف مؤقف ==
== مختلف مؤقف ==

نسخہ بمطابق 17:43، 1 مارچ 2018ء

حدیث قرطاس یا حدیث قلم و کاغذ، رسول خدا کےآخری ایام کے اس واقعہ کی طرف اشارہ ہے جس میں آپ نے اپنے بعد مسلمانوں کو گمراہی سے محفوظ رکھنے کا نسخہ لکھنے کیلئے صحابہ سے قلم اور دوات مانگی جسے حضرت عمر نے یہ کہہ کر رد کیا کہ "یہ شخص بیماری کی وجہ سے ہذیان کہہ رہا ہے"۔ یوں رسول اللہ امت کو گمراہی سے محفوظ رکھنے کے حوالے سے اپنی وصیت نہ لکھ سکے۔

اس واقعے میں خلیفہ دوم کی جانب سے رسول اللہؐ کے حکم کی تعمیل نہ کرنا، خاص کر آپ کی طرف ہذیان کی نسبت دینے کو قرآن کریم اور اسلامی تعلیمات کی منافی سمجھتے ہوئے بعض مسلمان مصنفین نے خلیفہ دوم کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اس واقعے کو شیعہ سنی تاریخی اور حدیثی منابع میں مصیبت عظمی سے یاد کیا گیا ہے۔

اہل تشیع کے مطابق اس موقع پر پیغمبر اکرمؐ اپنے بعد حضرت علیؑ کی جانشینی سے متعلق کچھ لکھنا چاہتے تھے۔

واقعے کی تفصیل

تاریخی اور حدیثی کتابوں کے مطابق یہ 25 صفر سنہ 11 ہجری کا واقعہ ہے کہ پیغمبر اکرمؐ اپنی زندگی کے آخری ایام میں بستر بیماری پر تھے اور اصحاب آپ کے اردگرد جمع تھے اس وقت آپؐ نے حاضرین سے فرمایا: مجھے قلم اور دوات دو تا کہ میں تمہیں ایک ایسی چیز لکھ دوں، جس کے بعد تم کبھی گمراہ نہیں ہو نگے۔ حاضرین میں سے ایک شخص نے کہا: پیغمبرؐ بے ہوشی کے عالم میں ہیں اور بیماری کی شدت کی وجہ سے آپؐ ہذیان گوئی کر رہے ہیں، ہمارے لئے خدا کی کتاب کافی ہے۔ اس شخص کی باتوں سے صحابہ کے درمیان نزاع شروع ہو گئی۔ پیغمبر نے جب یہ صورت حال دیکھی تو فرمایا میرے پاس سے اٹھ کر چلے جاؤ۔ اکثر مآخذ کے مطابق پیغمبرؐ کی مخالفت کرنے والا شخص عمر ابن خطاب تھا۔[1] لیکن بعض مآخذ میں اس کی طرف اشارہ نہیں کیا گیا. [2]

شیعہ علماء کے مطابق، پیغمبر اکرمؐ اس موقع پر اپنے بعد حضرت علیؑ کی جانشینی سے متعلق تاکید کرنا چاہتے تھے۔ وہاں موجود بعض حاضرین کو بھی اس بات کا خدشہ تھا اس بنا پر وہ آپؐ کو اس کام سے روکنا چاہتا تھا۔ [3] عمر ابن خطاب اور ابن عباس کے درمیان ہونے والی ایک گفتگو میں خود عمر اس بات کا اظہار یوں کرتا ہے: پیغمبر اکرمؐ بیماری کی حالت میں اپنے بعد علیؑ کی جانشینی اور خلافت کے بارے میں کچھ لکھنا چاہتے تھے لیکن میں نے اسلام سے دلسوزی اور اس کی تحفظ کی خاصر پیغمبر اکرمؐ کو اس کام سے منع کیا۔[4]

اس حدیث کے منابع

یہ واقعہ اپنی تمام تر جزئیات لیکن مختلف عبارات کے ساتھ شیعہ سنی منابع میں نقل ہوا ہے۔ اہل سنت منابع میں سے صحیح بخاری،[5] صحیح مسلم،[6] مسند احمد،[7] سنن بیہقی[8] اور طبقات ابن سعد[9] میں اس واقعے کی تفصیل موجود ہے۔ اسی طرح شیعہ منابع میں الارشاد[10]، اوائل المقالات[11]، الغیبۃ نعمانی[12] اور المناقب ابن شہر آشوب[13] کا نام اس حوالے سے قابل ذکر ہیں۔

مختلف مؤقف

شیعہ کا مؤقف

علمائے شیعہ اس واقعہ کو بہت بڑی مصیبت سمجھتے ہیں کیونکہ یہ واقعہ مسلمانوں کو گمراہی سے بچانے سے کیلئے رسول اللہ کے وصیت لکھنے میں رکاوٹ بنا۔ [14] اہل سنت کے بعض مآخذوں میں بھی آیا ہے کہ عبد اللہ بن عباس رسول اللہ کی وصیت میں رکاوٹ کو ایک عظیم مصیبت سمجھتے اور گریہ کرتے تھے۔[15]

شرف الدین عاملی المراجعات میں قرآنی آیات کے تناظر میں حضرت عمر پر چند اعتراض کرتے ہیں ان میں سے:[16]

  1. رسول خداؐ کے حکم کی نافرمانی اور رسول کی مخالفت ۔
  2. اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ گویا حضرت عمر رسول اللہ سے زیادہ دانا تر ہے۔
  3. رسول کی نسبت ہذیان گوئی کا الزام لگانا۔

شیعوں کے نزدیک حضرت عمر کا یہ رویہ قرآن کی بہت سی آیات کے مخالف تھا مثلا:

  • وَمَا آتَاکمُ الرَّ‌سُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاکمْ عَنْهُ فَانتَهُواآیت ۷سورہ حشر

جو کچھ رسول تمہیں دے اسے لے لو اور جس سے منع کرے اس سے رک جاؤ۔

  • مَا ضَلَّ صَاحِبُکمْ وَمَا غَوَیٰ ﴿۲﴾ وَمَا ینطِقُ عَنِ الْهَوَیٰ ﴿۳﴾ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْی یوحَیٰ ﴿۴﴾ عَلَّمَهُ شَدِیدُ الْقُوَیٰ ﴿۵﴾سورہ نجم
کہ تمہارا یہ ساتھی پیغمبرِ اسلامؐ نہ گمراہ ہوا ہے اور نہ بہکا ہے۔ (2) اور وہ (اپنی) خواہشِ نفس سے بات نہیں کرتا۔ (3) وہ تو بس وحی (بات کرتا) ہے جو ان کی طرف کی جاتی ہے۔ (4)

اہل سنت کا مؤقف

اہل سنت علما اس واقعے کی توجیہ کے در پے ہوئے ہیں مثلا:

  • بعض اس واقعے کو متون اصلی میں مذکور ہونے کے باوجود اسے ضعیف اورغیر معتبر سمجھتے ہیں ۔
  • بعض اس حدیث کا ایک اور معنا ذکر کرتے ہیں ۔ مثلا: «ہجر» کا مادہ چھوڑنے اور ترک کرنے کے معنا میں ہے اور اس سے حضرت عمر کی مراد یہ تھی کہ پیغمبر ہمیں چھوڑ رہے ہیں یا حضرت عمر کی گفتگو استفہام انکاری ہے یعنی پیغمبر ہذیان نہیں کہتا ہے ؟
  • عمر کا قرآن کو کافی سمجھنا اسکی قوت فقہ اور دقت نظر کا بیان گر ہے ۔
  • بعض مآخذوں کے مطابق ایک شخص نہیں کئی افراد مراد ہیں۔

حضورؐ نے کیوں لکھنے کا ارادہ ترک کیا

بعض شیعہ علماء کے مطابق، پیغمبرؐ کے لکھنے کا ارادہ ترک کرنے کی دلیل، وہی گفتگو تھی جو اس کے مقابلے میں کہی گئی، کیونکہ حضور اکرمؐ کی وفات کے بعد، اب اس لکھے ہوئے کا کوئی اثر باقی نہیں رہنا تھا، سوائے اختلاف کے. اس لئے اگر پیغمبر اکرمؐ لکھنے کا حکم بھی دیتے تو ممکن ہے کہا جاتا کہ یہ لکھا ہوا بے ہوشی کے عالم میں تھا. [17]


حوالہ جات

  1. بخاری، صحیح البخاری، ۱۴۰۱ق، ج۱، ص۳۷، ج۴، ص۶۶، ج۵، ص۱۳۷-۱۳۸، ج۷، ص۹؛ مسلم، صحیح مسلم، دارالفکر، ج۵، ص۷۵-۷۶؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، دارالصادر، ج۲، ص۲۴۲-۲۴۵.
  2. ابن حنبل، مسند الامام احمد بن حنبل، ۲۰۰۸م، ج۲، ص۴۵؛ بیہقی، السنن الکبری، دارالفکر، ج۹، ص۲۰۷.
  3. شرف الدین، المراجعات، المجمع العالمی لاہل البیت، ص۵۲۷.
  4. ابن ابی‌الحدید، شرح نہج البلاغہ، ۱۳۷۸ق، ج۱۲، ص ۲۰-۲۱.
  5. بخاری، صحیح البخاری، ۱۴۰۱ق، ج۱، ص۳۷، ج۴، ص۶۶، ج۵، ص۱۳۷-۱۳۸، ج۷، ص۹.
  6. مسلم، صحیح مسلم، دارالفکر، ج۵، ص۷۵-۷۶.
  7. ابن حنبل، مسند الامام احمد بن حنبل، ۲۰۰۸م، ج۲، ص۴۵.
  8. بیہقی، السنن الکبری، دارالفکر، ج۹، ص۲۰۷.
  9. ابن سعد، الطبقات الکبری، دارالصادر، ج۲، ص۲۴۲-۲۴۵.
  10. شیخ مفید، الإرشاد، ۱۳۷۲ش، ج۱، ص۱۸۴.
  11. شیخ مفید، اوائل المقالات، الموتمر العالمی، ص۴۰۶.
  12. نعمانی، الغیبۃ، ۱۳۹۹ق، ص۸۱-۸۲.
  13. ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی‌طالب، علامہ، ج۱، ص۲۳۶.
  14. جوہري، مقتضب الأثر، ص1
  15. صحیح البخاری، ج۵، صص۱۳۷-۱۳۸؛ صحیح مسلم، ج۵، ص۷۶.
  16. شرف الدین، المراجعات، ص۲۴۴؛ ترجمہ فارسی: مناظرات، ص۴۳۵.
  17. شرف الدین، المراجعات، المجمع العالمی لاہل البیت، ص۵۲۷.

مآخذ

  • ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، تحقیق: محمد ابوالفضل ابراہیم،‌دار احیاء الکتب العربیہ، ۱۳۷۸ق.-۱۹۵۹م.
  • ابن سعد، الطبقات الکبری، بیروت:‌دار صادر، بی‌تا.
  • بخاری، صحیح البخاری، ج۱، بیروت: دارالفکر، ۱۴۰۱ق/۱۹۸۱م.
  • بیہقی، احمد بن الحسین، السنن الکبری، بیروت: دارالفکر، بی‌تا.
  • احمد بن حنبل، مسند الامام احمد بن حنبل، حققه ووضع حواشیہ ورقم احادیثہ: محمد عبدالقادر عطا، ج۲، بیروت:‌دار الکتب العلمیہ، ۲۰۰۸م.
  • شرف الدین العاملی، المراجعات، قدم لہ: حامد حفنی داود، محمد فکری عثمان ابوالنصر، الطبعہ العشرون، مصر: قاہرہ، ۱۳۹۹ق-۱۹۷۹م. ترجمہ فارسی: مناظرات، مترجم: حیدرقلی بن نور محمدخان سردار کابلی، با مقدمہ کیوان سمیعی، تہران: نشر سایہ، ۱۳۸۰ش.
  • الصنعانی، عبدالرزاق، المصنف، تحقیق وتخریج وتعلیق: حبیب الرحمن الاعظمی، بی‌جا: منشورات المجلس العلمی، بی‌تا.
  • القاضی عیاض، الشفا بتعریف حقوق المصطفی، ج۲، مذیلاً بالحاشیة المسماة مزیل الخفاء عن ألفاظ الشفاء للعلامہ أحمد بن محمد بن محمد الشمنی (۸۷۳ هـ)، بیروت:‌دار الفکر، ۱۴۰۹ - ۱۹۸۸ م.
  • نیسابوری، مسلم بن حجاج، الجامع الصحیح (صحیح مسلم)، بیروت: دارالفکر، بی‌تا.
  • متقی ہندی، کنز العمال، تحقیق، ضبط و تفسیر: بکری حیانی، تصحیح وفہرسہ: صفوة السقا، بیروت: مؤسسہ الرسالہ، ۱۴۰۹ق-۱۹۸۹م.