کتاب الغیبۃ (نعمانی)
مشخصات | |
---|---|
مصنف | ابو عبداللہ محمد بن ابراہیم نعمانی |
موضوع | امام زمانہؑ کی غیبت اور ظہور |
زبان | عربی |
مذہب | شیعہ |
طباعت اور اشاعت | |
سنہ اشاعت | 342ھ |
کتاب الغَیْبَۃ عربی زبان میں شیعوں کے بارھویں امام حضرت مہدی علیہ السلام کے متعلق لکھی گئی کتابوں میں کلامی اور حدیثی کتاب سمجھی جاتی ہے۔ اس کتاب کے مؤلف ابو عبداللہ محمد بن ابراہیم نُعمانی ہیں۔ اس کتاب میں مذکور روایات کی تعداد 478 ہے جنہیں 26 ابواب میں ذکر کیا گیا ہے۔ یہ کتاب امام زمانہ کے متعلق لکھی جانے والی کتابوں کے مصادر میں سے جانی جاتی ہے۔
مؤلف
ابو عبد اللہ محمد بن ابراہیم بن جعفر کاتب نُعْمانی جو ابن ابی زینب کے نام سے مشہور چوتھی صدی ہجری کے اوائل کی شخصیت ہیں۔ وہ احادیث ائمہ پر وسیع نظر رکھتے تھے۔ یہ ثقۃ الاسلام کلینی کے شاگرد تھے جنہوں نے بیشتر علم کا حصہ کلینی سے اخذ کیا۔ نیز نعمانی کو کلینی کا کاتب بھی شمار کیا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے علما کے نزدیک خاص احترام اور شہرت کے حامل ہیں۔[1]
کتاب
نعمانی نے کتاب کے 26 ابواب کو تین حصوں: غیبت، دوران ظہور اور علامات ظہور میں تقسیم کیا ہے۔ انہوں نے پہلے روائی مجموعوں اور خاص طور پر غیبت سے پہلے کی کتب کی روایات سے اپنی کتاب کو تالیف کیا ہے۔ نعمانی نے کتاب الغیبہ کو 342 ھ میں تالیف کیا۔ اس دوران وہ شام کے شہر حلب میں زندگی گزار رہے تھے۔[2] فہرست نویسوں نے کتاب الغیبہ نعمانی کا ذکر کیا ہے مثلا آقا بزرگ تہرانی نے اس کتاب کا نام ملاء العیبہ فی طول الغیبہ ذکر کیا ہے۔[3] بعض معتقد ہیں: بزرگ تہرانی کا کسی مآخذ کے بغیر اس کتاب کے مذکورہ نام کو ذکر کرنے کی وجہ سے اسے نہیں جانچا جا سکتا ہے۔[4] شیخ مفید حضرت مہدی(ع) کی امامت کے متعلق مطلب نقل کرنے کے بعد کہتا ہیں: اس کے بارے میں کثیر روایات ہیں کہ جنہیں احادیث کے شیعہ علما نے جمع کیا اور انہیں اپنی تالیفات میں ذکر کیا جیسے ابو عبد اللَّــہ محمد بن ابراہیم نعمانی نے غیبت سے متعلق روایات کو اکٹھا کیا اور ان کی شرح کی ہے۔[5]
سبب تالیف
چوتھی صدی ہجری کے ابتدائی پچاس سالوں تک غیبت کا زمانہ طول کھینچ گیا۔ نواب اربعہ میں سے آخری نائب ابوالحسن صیمری (329 ھ، 940 ء) کی وفات کے ساتھ غیبت صغرا کا زمانہ اپنا اختتام کو پہنچ گیا لیکن اس زمانے میں شیعوں کے درمیان فکری اور اعتقادی تزلزلی ظاہر ہوئی اور بہت سے قلوب شک و تردید کا شکار ہوئے یہانتک کہ بعض نے صرف اعتراض ہی نہیں کئے بلکہ امام کا انکار کرنا شروع کر دیا۔ نعمانی جو اس زمانے میں زندگی گزار رہے تھے انہوں نے مذہب تشیع کی فکر کو استحکام بخشنے اور امامت، غیبت امام اور غرض امامت سے متعلق سوالات کے جواب دینے کیلئے الغیبۃ نامی کتاب کی تالیف کی۔ یہ کتاب پیامبر(ص) و ائمہ(ع) سے غیبت سے متعلق مروی احادیث اور اس سے متعلق ابحاث کی جمع آوری کی۔ نعمانی کتاب کے مقدمے میں اس زمانے کے حالات کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں۔[6]
مؤلف کتاب کے مقدمے میں اس کتاب کی تالیف کا سبب غیبت امام زمان کی وجہ سے شیعہ گروہوں میں پیش آنے والے انحرافات کو قرار دیتے ہیں۔ نیز ضعف ایمان اور غیبت سے متعلق مروی احادیث کی طرف توجہ نہ کرنے کو ان انحرافات کے اسباب میں سے سمجھتے ہیں۔ اس بنا پر ان موضوعات سے متعلق روایات کو انہوں نے کتابی صورت میں جمع کیا ہے۔[7]
راویان
اس کتاب کے اکلوتے راوی ان کے شاگرد ابو الحسین محمد بن علی بجلی یا شجاعی ہیں، اگرچہ وہ ایک جانی پہچانی شخصیت نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود دیگر افراد نے اس کے پاس کتاب کی قرائت کی پھر ان کے بیٹے: حسین بن محمد شجاعی نے اس نسخے کی مؤلف کے پاس قرائت کی اور اپنے باپ کی تالیفات کو نجاشی کے اختیار میں دیا۔ اس ذریعے سے یہ کتاب ہم تک پہنچی ہے۔[8]
روایات
مجموع روایات کتاب غیبت، 478 کی تعداد میں ہے جو 26 ابواب میں بیان ہوئی ہیں۔ مؤلف کی روش روایات کے بیان کرنے ہے نادر مقامات پر روایات کی توضیح بیان ہوئی ہے نیز روایات کی تکرار نہیں ہوئی ہے۔[9]
اہمیت
اس کتاب کے مطالب چوتھی صدی کے بعد علما کے درمیان قابل اعتماد رہے ہیں۔ شیخ مفید الارشاد، اربلی نے کشف الغمہ، علامہ حلی نے المستجاد، اور متأخرین جیسے مجلسی نے بحار اور حر عاملی نے اثبات الہدی بالنصوس و المعجزات میں اس کتاب سے روایات نقل کرتے ہیں۔[10]
ابواب
کتاب کے ابواب تین حصوں: مقدماتی ابواب (غیبت سے مربوط) اصلی ابواب، دوران غیبت، عصر ظہور سے متعلق اصلی ابواب اور آخر میں علامات مذکور ہیں جو مجموعی طور پر 26 ابواب بنیں گے:
- نا اہل لوگوں سے آل محمد کے اسرار کی حفاظت
- اعتصام حبل اللہ کی روایات
- بحث امامت
- قرآن، انجیل اور تورات میں ائمہ اثنا عشر
- مدعیان امامت
- اہل سنت کے طریق سے مروی احادیٹ
- ائمہ میں شک کرنے والے
- زمین میں امام کا ضروری ہونا
- چنانچہ دو افراد میں سے بھی ایک کا امام ہونا
- آئمہ کے طریق سے غیبت کے بارے میں روایات
- انتظار فرج اور مشقتیں جھیلنا
- غیبت میں شیعہ کیلئے سختیاں اور نا مساعد احوال
- حضرت مہدی (عج) صفات و سیرت
- ظہور سے پہلے کی علامات
- ظہور سے پہلے معاشرے کی دگرگونی
- ظہور کیلئے وقت کی تعیین سے منع
- ظہور کے وقت جاہلوں کی طرف سے پیش آنے والی سختیاں اور مشکلات
- خروج سفیانی
- پرچم امام زمان(ع) پرچم رسول خدا ہے
- جیش الغیب
- خروج قائم کے وقت شیعوں کے حالات
- دعوت جدید
- ظہور کے وقت امام کا سن اور امام کی مدت
- اسماعیل بن امام صادق کے متعلق روایات
- شناخت امام قائم
- قیام کے بعد حکومت کی مدت[11]
مخطوطات
مؤلف کے زمانے کے قریب اس کتاب کے متعدد اور بعض خطی نسخے اس کتاب کی اہمیت اور قدر کو بڑھاتے ہیں۔ قدیمی ترین نسخہ کتاب آستان قدس رضوی کی لائبریری میں ہے۔ اس کے علاوہ دیگر نسخے:
- کتب خانہ آیت اللہ گلپایگانی قم ایران
- کتب خانہ مجلس شورای اسلامی
- دو نسخہ در کتاب خانہ آیت اللہ مرعشی نجفی قم
- کتب خانہ ملک تہران
- کتب خانہ دانشگاہ تہران
- کتب خانہ دانشکدہ ادبیات مشہد[12]
حوالہ جات
- ↑ نعمانی، ترجمہ غیبت نعمانی، ۱۳۶۳ش، ص۴–۸
- ↑ نعمانی، کتاب الغیبہ، ص۱۳.
- ↑ تہرانی، الذریعہ، ج۱۶، ص۷۹.
- ↑ شبیری، فصل نامہ انتظار، ج8، ص359.
- ↑ نعمانی، کتاب الغیبہ، ص۱۳.
- ↑ نعمانی، کتاب الغیبہ، ص۳۰-۳۴.
- ↑ نعمانی، مقدمہ کتاب.
- ↑ نعمانی، کتاب الغیبہ، ص۹ و ۱۰.
- ↑ کتابخانہ دیجیتال نور.
- ↑ کتابخانہ دیجیتال نور.
- ↑ مہدی حسینعلی، کتاب الغیبہ نعمانی، ۱۳۸۸ش.
- ↑ نعمانی، کتاب الغیبہ، ص۱۴ و ۱۵. مہدی حسین علی، کتاب الغیبہ نعمانی، ۱۳۸۸ش.
مآخذ
- نعمانی، محمد بن ابراہیم، الغیبہ، تہران، صدوق، ۱۳۹۷ق.
- نعمانی، محمد بن ابراہیم، الغیبہ، قم، انوار الہدی، ۱۴۲۲ق.
- نعمانی، محمد بن ابراہیم، الغیبہ، ترجمہ سید احمد فہری زنجانی، تہران، اسلامیہ، ۱۳۶۳ش.
- تہرانی، آقا بزرگ، الذریعہ، بیروت، دار الاضواء.
- حسین علی، مہدی، کتاب الغیبہ، کتاب ماہ دین، فروردین ۱۳۸۸ - شمارہ ۱۳۸.
- کتاب شناخت سیرہ معصومان، مرکز تحقیقات رایانہای علوم اسلامی نور.