الواح موسی
موسی کی تختیاں، طور سیناء پر موسیؑ کے لئے دو تختیاں نازل ہوئیں اور اس میں 10 احکامات لکھے ہوئے تھے۔ جب موسیؑ نے سامری کا گوسالہ دیکھا اور بنی اسرائیل کی گوسالہ پرستی کا مشاہدہ کیا تو آپ بہت سخت ناراض ہوئے اور آپ نے ان تختیوں کو زمین پر پٹک دیا۔ اسلامی مصادر اور منابع میں یوں نقل ہوا ہے کہ تختیوں کے ٹوٹے ہوئے ٹکڑے بنی اسرائیل کے درمیان باقی تھے اور انہیں تابوت عھد میں رکھا گیا تھا۔ لیکن توریت میں نقل کیا گیا ہے کہ جناب موسی جب دوبارہ کوہ طور پر گئے تو وہاں ان کے لئے دوسری تختیاں نازل ہوئیں تھیں۔
وحی الہی
وحی الہی جوپتھرکے ٹکڑوں پر لکھی ہوئی تھی، اس کا نزول جناب موسی پر ہوا تھا۔ اور توریت نے اس واقعہ کو کچھ اس طرح سے نقل کیا ہے: مشہ یعنی موسی جب کوہ طور سے واپس ٓئے تو دو تختیاں آپ کے پاس موجود تھیں اور پروردگارعالم کی جانب سے بنی اسرائیل کے لئے اس تختی کے دونوں جانب یعنی اِس طرف بھی اور اُس طرف بھی، دس احکامات لکھے ہوئے تھے۔ یہ تختی اللہ کی تھی اور اس پر لکھی ہوئی تحریر بھی اللہ کی تحریر تھی».[1]
اگر چہ واضح طور پر قرآن مجید نے میقات میں تختیوں کے نازل ہونے کا ذکر نہیں کیا ہے لیکن اس کے باوجود اس بات کی طرف اشارہ ہوا ہے کہ جب حضرت موسی میقات سے واپس آئے اور سامری کے گوسالہ کو دیکھا، قوم کو گوسالہ پرستی میں مشغول پایا تو غضبناک ہو کر آپ نے تختی کو زمین پر پٹک دیا۔[2] اور جب غصہ ٹھنڈا ہو گیا تو دوبارہ اس تختی کو زمین سے اٹھا لیا۔[3] بعض مفسرین جیسے علامہ طباطبائی نے ان تختیوں کو توریت کی تختیاں جانا ہے۔[4] اسی طرح اور دوسرے مفسرین کا خیال ہے کہ یہ تختیاں توریت کے نازل ہونے سے پہلے کی ہیں۔[5]
تفسیر المنار کے مصنف رشید رضا تختی اور توریت کے درمیان ارتباط کے سلسلے میں یوں رقمطراز ہیں: پہلے حصّہ کی تختیاں شریعت کے سلسلے میں تھیں۔ در حقیقت یہ گولیاں ایک طرح کے اجمالی تورات تھیں اور اس کے بعد عبادات و معاملات وغیرہ سے متعلق تفصیلی احکام مختلف اوقات میں بتدریج نازل ہوئے۔ نزول کا یہ طریقہ قرآن کے سلسلے میں بھی موجود ہے»۔[6]
یہ تختیاں تابوت عہد میں معبد (ہیکل) سلیمان میں تھیں۔ آخر کار یروشلم پر بخت النصر کے حملے اور ہیکل کی تباہی کے بعد عہد کا صندوق اور اس کے اندر کی تختیاں غائب ہوگئیں۔[7]
بعض روایات کی بنیاد پر امام زمانہؑ ظہور کے بعد، تابوت عہد اور اس کے اندر کی تختیوں کو انطاکیہ کی غار سے باہر نکال لائیں گے۔[8]
تختیوں کی تعداد
کتاب توریت میں بطور واضح تختیوں کی تعداد کو دو بتایا گیا ہے: «دو تختیاں اور دس قانون»۔[9] جبکہ قرآن میں فقط تختیوں کا ذکر ہے لیکن ان تعداد کی جانب اشارہ نہیں ہوا ہے۔ تختیوں کی تعداد کے بارے میں مفسرین نے متعدد اقوال نقل کئے ہیں اور بعض مفسرین معتقد ہیں کہ کلمہ الواح (تختیاں) کا دو تختیوں پر دلالت کرنا جائز ہے۔[10]
پہلی تختی
حضرت موسی چالیس دن تک طور سیناء پر تھے۔[11] اور جب وہاں سے واپس آئے تو اپنے ہمراہ تختیاں لئے ہوئے آئے جس پر وحی الہی مکتوب تھی۔ سامری کا گوسالہ اور قوم بنی اسرائیل کی گوسالہ کو دیکھنے کے بعد آپ نے غضبناک ہو کر تختی کو زمین پر پٹک دیا۔[12] بعض مفسرین کا عقیدہ یہ ہے کہ تختیوں کے ٹوٹنے کا سبب جناب موسی کا وہ غصہ تھا جو بنی اسرائیل کی گوسالہ پرستی کو دیکھنے پر آیا تھا۔[13] توریت نے یہ واقعہ اس طرح سے بیان کیا ہے: « جب جناب موسی اپنی قوم کی طرف واپس آئے تو عجیب منظر دیکھا، قوم گوسالہ پرستی میں ناچنے اور گانے میں مشغول ہے۔ یہ منظر دیکھ کر جناب موسی غضبناک ہو گئے اور تختیوں کو زمین پر پٹک دیا اور وہ تختیاں ٹوٹ کر پہاڑ کے اطراف میں بکھر گئیں»۔[14]
دوسری تختی
توریت نے تختیوں کی دوسری داستان کو اس طرح سے نقل کیا ہے: اللہ نے مشہ (جناب موسیؑ) سے کہا: پہلے جیسے ہی پتھر کی دو تختیاں تیار کرو تاکہ اس پر وہ مطالب جو پرانی تختیوں پر لکھے ہوئے تھے جسے تم نے توڑ دیا تھا ان تختیوں پر لکھوں۔ سحر کے وقت تیار رہنا اور طور سیناء کی چوٹی پر آکے میرے نزدیک کھڑے ہو جانا۔ مشہ (جناب موسی) نے دو تختیاں بنائی اور حکم پروردگار کے عین مطابق سحر کے وقت طور سیناء پر پہونچ گئے۔[15] قرآن مجید میں دوسری تختیوں کے بارے میں کوئی تذکرہ نہیں ہوا ہے لیکن اس کے باوجود بہت سے مفسرین معتقد ہیں کہ پہلی تختیوں کے ٹوٹے ہوئے ٹکڑے آخری وقت تک بنی اسرائیل کے پاس تھے اور ان ٹکڑوں کو تابوت عھد میں رکھا گیا تھا۔[16]
مضمون
قرآن مجید نے تختیوں کے مضامین کو بغیر مصداق کے ذکر کرتے ہوئے اس کی توصیف کچھ اس طرح سے کی ہے:
- وَ کتَبْنا لَہ فِی الْأَلْواحِ مِنْ کلِّ شَیءٍ مَوْعِظَةً وَ تَفْصیلاً لِکلِّ شَیءٍ[؟–؟]؛ اور ہم نے توریت کی تختیوں میں ہر شئی میں سے نصیحت کا حصہ اور ہر چیز کی تفصیل لکھ دی ہے»۔[17]
- «اور اس کے نسخہ میں ہدایت اور رحمت کی باتیں تھیں ان لوگوں کے لئے ہے جو اپنے پرورگار سے ڈرنے والے تھے »۔[18]
توریت نے ان دو تختیوں کے مضامین کو بہت تفصیل سے بیان کیا ہے جو بعنوان دس دستور مشہور ہے۔ [19]
حوالہ جات
- ↑ تورات، سِفر خروج باب ۳۲، آیات ۱۵-۱۶۔
- ↑ سورہ اعراف، آیہ ۱۵۰۔
- ↑ سورہ اعراف، آیہ ۱۵۴۔
- ↑ طباطبائی، المیزان، ۱۴۱۷ھ، ج۸، ص۲۵۰۔
- ↑ قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، ۱۳۶۴ش، ج۷، ص۲۸۹۔
- ↑ رشید رضا، تفسیر المنار، ۱۹۹۰م، ج ۹، ص۔۱۶۴۔
- ↑ رشید رضا، تفسیر المنار، ۱۹۹۰م، ج۳، ص۱۳۱۔
- ↑ سید بن طاووس، التشریف بالمنن، ۱۴۱۶ھ، ص۱۴۲۔
- ↑ تورات، سِفر خروج، باب ۳۲، آیہ ۱۵۔
- ↑ رشید رضا، تفسیر المنار، ۱۹۹۰م، ج ۹، ص۱۶۴۔
- ↑ سورہ بقرہ، آیہ۵۱۔
- ↑ سورہ اعراف، آیہ۱۵۰۔
- ↑ طبری، جامع البیان، ۱۴۱۲ھ، ج۹، ص۴۴۔
- ↑ تورات، سِفر خروج، باب ۳۲، آیہ۱۹۔
- ↑ تورات، سِفر خروج، باب۳۴ آیات:۱-۴۔
- ↑ ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، ۱۴۱۹ھ، ج۱، ص۵۰۸؛ طبرسی، جوامع الجامع، ۱۳۷۷ش، ج۱، ص۱۳۶۔
- ↑ سورہ اعراف، آیہ ۱۴۵۔
- ↑ سورہ اعراف، آیہ ۱۵۴۔
- ↑ تورات، سِفر خروج، باب۲۰، آیہ ۱ تا ۱۸۔
مآخذ
- ابن طاووس، علی بن موسی، التشریف بالمنن فی التعریف بالفتن المعروف بالملاحم و الفتن، مؤسسۃ صاحب الأمر (عج)، قم، چاپ اول، ۱۴۱۶ھ۔
- ابن کثیر دمشقی، اسماعیل بن عمرو، تفسیر القرآن العظیم، تحقیق: شمس الدین، محمد حسین،دار الکتب العلمیۃ، منشورات محمدعلی بیضون، بیروت، چاپ اول، ۱۴۱۹ھ۔
- رشید رضا، تفسیر المنار، مصر، الہیئۃ المصریۃ العامۃ للكتاب، ۱۹۹۰م۔
- طباطبائی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ پنجم، ۱۴۱۷ھ۔
- طبرسی، فضل بن حسن، تفسیر جوامع الجامع، انتشارات دانشگاہ تہران، مدیریت حوزہ علمیہ قم، تہران، چاپ اول، ۱۳۷۷ہجری شمسی۔
- طبری، محمد بن جریر، جامع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت،دار المعرفۃ، چاپ اول، ۱۴۱۲ھ۔
- قرطبی، محمد بن احمد، الجامع لأحکام القرآن، انتشارات ناصر خسرو، تہران، چاپ اول، ۱۳۶۴ہجری شمسی۔
- محمد رشید بن علی رضا (رشید رضا)، تفسیر القرآن الحکیم(المنار)، الہیئۃ المصریۃ العامۃ للکتاب، مصر،۱۹۹۰م۔