لقمان حکیم

ویکی شیعہ سے

لُقْمان حکیم قرآن میں توصیف کی گئی شخصیات میں سے ایک ہے جو ظہور اسلام سے پہلے زندگی بسر کرتے تھے۔ لقمان حکمت، مواعظ اور اخلاقی داستانوں کے حوالے سے مشہور ہیں اور قرآن میں ان کے نام پر ایک سورہ بھی موجود ہے۔ کسی کو خدا کا شریک قرار نہ دینا، لوگوں کے ساتھ تواضع سے پیش آنا، زمین پر وقار کے ساتھ چلنا، زندگی میں میانہ روی سے کام لینا، بہترین دوست کی صفات سے متصف ہونا اور بے ادبوں سے ادب سیکھنا ان کی خصوصیات میں سے ہیں۔

بعض مورخین منقولہ داستانوں میں شباہت کی بنا پر لقمان کو بعض دوسری تاریخی شخصیات کے ساتھ ایک تصور کرتے ہیں۔ احادیث میں لقمان کے پیغمبر نہ ہونے پر تصریح کی گئی ہے۔

قرآن میں لقمان کی نصیحتیں

وَإِذْ قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهِ وَهُوَ يَعِظُهُ يَا بُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللَّـهِ ۖ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ ﴿١٣﴾ وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَىٰ وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ ﴿١٤﴾ وَإِن جَاهَدَاكَ عَلَىٰ أَن تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۖ وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا ۖ وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ ۚ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ﴿١٥﴾ يَا بُنَيَّ إِنَّهَا إِن تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَكُن فِي صَخْرَةٍ أَوْ فِي السَّمَاوَاتِ أَوْ فِي الْأَرْضِ يَأْتِ بِهَا اللَّـهُ ۚ إِنَّ اللَّـهَ لَطِيفٌ خَبِيرٌ ﴿١٦﴾ يَا بُنَيَّ أَقِمِ الصَّلَاةَ وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنكَرِ وَاصْبِرْ عَلَىٰ مَا أَصَابَكَ ۖ إِنَّ ذَٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ ﴿١٧﴾ وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا ۖ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ ﴿١٨﴾ وَاقْصِدْ فِي مَشْيِكَ وَاغْضُضْ مِن صَوْتِكَ ۚ إِنَّ أَنكَرَ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيرِ ﴿١٩﴾[؟؟] ترجمہ: اور (وہ وقت یاد کرو) جب لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ اے بیٹے! (خبردار کسی کو) اللہ کا شریک نہ بنانا۔ بے شک شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ (13) اور ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے بارے میں (حسنِ سلوک کرنے کا) تاکیدی حکم دیا (کیونکہ) اس کی ماں نے کمزوری پر کمزوری سہہ کر اسے (پیٹ میں) اٹھائے رکھا اور دو برس میں اس کا دودھ چھوٹا (وہ تاکیدی حکم یہ تھا کہ) میرا اور اپنے ماں باپ کا شکریہ ادا کر (آخرکار) میری ہی طرف (تمہاری) بازگشت ہے۔ (14) اور اگر وہ تجھ پر دباؤ ڈالیں کہ تو کسی ایسی چیز کو میرا شریک ٹھہرائے جس کا تجھے کوئی علم نہیں ہے تو پھر ان کی اطاعت نہ کر اور دنیا میں ان کے ساتھ نیک سلوک کر اور اس شخص کے راستہ کی پیروی کر جو (ہر معاملہ میں) میری طرف رجوع کرے پھر تم سب کی بازگشت میری ہی طرف ہے۔ تو (اس وقت) میں تمہیں بتاؤں گا کہ جو کچھ تم کیا کرتے تھے۔ (15) اے بیٹا! اگر کوئی (نیک یا بد) عمل رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو اور کسی پتھر کے نیچے ہو یا آسمانوں میں یا زمین میں تو اللہ اسے لے ہی آئے گا بے شک اللہ بڑا باریک بین اور بڑا باخبر ہے۔ (16) اے بیٹا! نماز قائم کر اور نیکی کا حکم دے اور برائی سے منع کر اور جو مصیبت پیش آئے اس پر صبر کر۔ بے شک یہ (صبر) عزم و ہمت کے کاموں میں سے ہے۔ (17) اور (تکبر سے) اپنا رخسار لوگوں سے نہ پھیر اور زمین پر ناز و انداز سے نہ چل۔ بے شک خدا تکبر کرنے والے (اور) بہت فخر کرنے والے کو دوست نہیں رکھتا۔ (18) اور اپنی رفتار (چال) میں میانہ روی اختیار کر اور اپنی آواز دھیمی رکھ۔ بے شک سب آوازوں میں سے زیادہ ناگوار آواز گدھوں کی ہوتی ہے۔ (19)

سورہ لقمان، آیت 12-19

اجمالی تعارف

لقمان حکیم ایک معروف اخلاقی اور دانا شخصیت کے عنوان سے مورخین کے درمیان مشہور ہے؛[1] اگرچہ بعض داستانوں میں موجود شباہتوں کی وجہ سے ان کو بعض تاریخی افسانوی شخصیات لقمان بن عاد اساطیری، ازوپ، بلعم باعورا، احقیار[2] اور لقمان معمر وغیره کے ساتھ ان کا اشتباہ ہوتا ہے۔[3]

لقمان حکیم کی اصلیت اور قومیت کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے بعض انہیں قوم عاد کی طرف نسبت دیتے ہیں تو بعض انہیں بنی اسرائیل میں سے قرار دیتے ہیں۔[4] بعض مورخین اس بات کے معتقد ہیں کہ لقمان حکیم بنی‌ اسرائیل کے ایک مالدار شخص کا حبشی غلام تھا جو حضرت داود کے زمانے میں زندگی گزارتے تھے[5] اور حکمت اور دانایی کی وجہ سے اس کے مالک نے اسے آزاد کر دیا تھا۔[6]

لقمان حکیم ظہور اسلام سے پہلے بھی عربوں میں مشہور تھے اور ان کے پاس لقمان حکیم کے بعض کلمات مکتوب شکل میں موجود تھے۔[7] کہا جاتا ہے کہ سوید بن صامت نے پیغمبر اسلامؐ کی اسلام کی طرف دعوت کے مقابلے میں لقمان حکیم کے بعض کلمات جو ان کے پاس تھے، سے استناد کرتے ہوئے اس بات کا دعوا کیا تھا کہ "جو چیز تمہارے پاس ہے وہ وہی چیز ہے جو میرے پاس ہے"۔[8]

قرآن میں لقمان کے نام سے ایک سورہ بھی ہے۔ اس سورت میں لقمان حکیم کی اپنے بیٹے کو کی گئی وصیت کے عنوان سے ان کی دس حکمتوں کا ذکر ہوا ہے۔[9] کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں کے درمیان لقمان حکیم کی شہرت کی وجہ قرآن میں ان کا نام اور وصیت کا آنا ہے۔[حوالہ درکار] لقمان کی اپنے بیٹے کو کی گئی وصیت[10] اور ان کی شخصیت[11] بہت ساری شیعہ اور اہل سنت احادیث میں مذکور ہے۔

احادیثْ میں عمیق فکر، ایمان و یقین کا اعلی مقام، سکوت، امانت‌ داری، سچائی اور لوگوں کے اختلافات کو حل کرنا ان کی خصوصیات میں شمار کیا گیا ہے۔ احادیث میں تصریح کی گئی ہے کہ لقمان حکیم نبوت کے مقام پر فائز نہیں ہوئے تھے لیکن قضاوت میں آپ حضرت داؤود کے کی مدد کرتے تھے۔[12]

لقمان کی حکمتیں

لقمان حکیم حکمتوں اور اخلاقی مواعظ کی بنا پر معروف تھے اور اپنے بیٹے کو کی گئی ان کی بعض حکمتیں ور وصیتیں قرآن اور احادیث میں نقل ہوئی ہیں۔

خدا کے ساتھ کسی کو شریک قرار نہ دینا،‌ نماز قائم کرنا، امر بہ معروف، نہی از منکر، مصیبتوں پر صبر، لوگوں کے ساتھ تواضع سے پیش آنا، چلنے میں وقار اور زندگی میں میانہ‌ روی اور دھیمی آواز سے بات کرنا لقمان حکیم کی اپنے بیٹے کو کی گئی وصیتوں میں سے ہے جن کی طرف سورہ لقمان میں اشارہ ہوا ہے۔[13] اسی طرح بعض حدیثی منابع میں لقمان حکیم کی اپنے بیٹے کو کی گئی بعض وصیتوں کی طرف اشارہ ہوا ہے:

  • سفر کے آداب: کاموں میں مشورت کرنا،‌ چہرے پر مسکراہٹ، زاد راہ میں بخشندگی، ہمسفروں کی مدد، دعوت کو قبول کرنا، حق کی گواہی اور ہمسفروں کو نیک مشورہ دینا من جملہ سفر کے آداب میں سے ہیں جن کو لقمان نے اپنے بیٹے کو وصیت کی ہیں۔[14]
  • نیک ہمنشین: لقمان کے مطابق نیک ہمنشین وہ ہے جو ہمیشہ خدا کی یاد میں رہتا ہو، چونکہ اس کا علم انسان کے لئے مفید اور خدا کی رحمت اس کے شامل حال ہوا کرتی ہے۔[15]
  • بات کرنے پر خاموشی کو وہی برتری حاصل ہے جو سونے کو چاندی پر حاصل ہے۔[16]
  • لقمان کے مطابق انسان کے لئے 1000 دوست بھی ہوں تو کم ہے لیکن ایک دشمن ہو تو یہ بھی زیادہ ہے۔[17]
  • علم، ایمان اور عمل لقمان کی نگاہ میں دین کی نشانی ہے۔[18]

علامہ مجلسی نے بحارالانوار میں ایک فصل کو لقمان کی وصیتوں اور حکمتوں کے ساتھ مختص کی ہیں۔[19]

حوالہ جات

  1. زرین‌کوب، «لقمان حکیم»، ۱۳۲۹ش، ص۲۴۵؛ موحدی، «بررسی شخصیت تاریخی لقمان حکیم»، ۱۳۸۰ش، ص۱۱۵
  2. موحدی، «بررسی شخصیت تاریخی لقمان حکیم»، ۱۳۸۰ش، ص۱۱۷-۱۴۲۔
  3. زرین کوب، «لقمان حکیم»، ۱۳۲۹ش، ص۲۴۵۔
  4. مسعودی، مروج الذہب، ۱۴۰۹ق، ص۷۰۔
  5. ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ۱۴۰۷ق، ص۱۲۴؛ سیوطی، الدرالمنثور،۱۴۰۴ق، ج۵، ص۱۶۰۔
  6. ابن قتیبہ، المعارف، ۱۹۹۲م، ص۵۵۔
  7. ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، دارالمعرفۃ، ص۴۲۷۔
  8. ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، دارالمعرفۃ، ص۴۲۷۔
  9. سورہ لقمان، آیات ۱۲-۱۹۔
  10. صدووق، من لا یحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۲۸۲؛ شیخ مفید، الامالی، ۱۴۱۳ق، ص۲۹۲؛ فیض کاشانی، وافی، ۱۴۰۶ق، ص۳۰۱؛ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ص۲۰۱۔
  11. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۱۶؛ سیوطی، الدرالمنثور، ۱۴۰۴ق، ج۵، ص۱۶۰-۱۶۵۔
  12. طبرسی، مجمع البیان، ج۸، ص۴۹۴؛ طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۶، ص۲۲۲۔
  13. سورہ لقمان، آیات ۱۲-۱۹۔
  14. برقی، المحاسن، ۱۳۷۱ق، ج۲، ص۳۷۴۔
  15. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۳۹۔
  16. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۱۱۴۔
  17. صدوق، الامالی، ۱۳۷۶ش، ص۶۶۹۔
  18. صدوق، الخصال، ۱۳۶۲ش، ج۱، ص۱۲۱۔
  19. مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۱۳، ص۴۰۸۔

مآخذ

  • ابن قتیبہ، عبداللہ بن مسلم، المعارف، قاہرہ، الہیئۃ المصریۃ العامۃ للکتاب، 1992ء۔
  • ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایۃ و النہایۃ، بیروت، دارالفکر، ۱۴۰۷ھ۔
  • ابن ہشام حمیری، عبدالملک، السیرۃ النبویۃ، بیروت، دارالمعرفۃ، بی‌تا۔
  • برقی، احمد بن محمد، المحاسن، مصحح جلال‌الدین محدث، قم، جامعہ مدرسین، ۱۳۷۱ھ۔
  • زرین کوب،عبدالحسین، «لقمان حکیم»، ماہنامہ یغما، ۱۳۲۹ ہجری شمسی، شمارہ۲۷۔
  • سعدی، مصلح‌الدین، بوستان سعدی، تہران، گنجینہ، ۱۳۸۱ہجری شمسی۔
  • سعدی، مصلح‌الدین، گلستان، تہران، انتشارات پدیدہ، ۱۳۶۱ہجری شمسی۔
  • سنایی غزنوی، ابوالمجد مجدود بن آدم، حدیقۃ الحقیقۃ، تہران، دانشگاہ تہران، ۱۳۹۴ہجری شمسی۔
  • سیوطی، عبدالرحمن، الدر المنثور فی التفسیر بالماثور، قم، کتابخانہ آیت‌اللہ مرعشی، ۱۴۰
  • صدوق، محمد بن علی، الامالی، تہران، کتابچی، ۱۳۷۶ہجری شمسی۔
  • صدوق، محمد بن علی، الخصال، مصحح علی‌اکبر غفاری، قم، جامعہ مدرسین، ۱۳۶۲ہجری شمسی۔
  • صدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، مصحح علی‌اکبر غفاری، قم، انتشارات اسلامی، ۱۴۱۳ھ۔
  • طباطبایی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، ۱۳۹۰ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن،‌ تہران، ناصر خسرو، ۱۳۷۲ہجری شمسی۔
  • فیض کاشانی، محمدمحسن، الوافی، اصفہان، کتابخانہ امام أمیر المؤمنین علی علیہ‌السلام، ۱۴۰۶ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، مصحح علی‌اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران،‌دار الکتب الإسلامیۃ، ۱۴۰۷ھ۔
  • مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، ‌دار إحیاء التراث العربی، ۱۴۰۳ھ۔
  • مسعودی، أبو الحسن علی بن الحسین، مروج الذہب، قم، دارالہجرۃ، ۱۴۰۹ھ۔
  • مفید، محمد بن محمد، الامالی، مصحح حسین استادولی، قم، کنگرہ شیخ مفید، ۱۴۱۳ھ۔
  • موحدی، عبداللہ، «بررسی شخصیت تاریخی لقمان حکیم»، فصلنامہ مطالعات اسلامی، ۱۳۸۰ہجری شمسی، شمارہ۵۳و۵۴۔
  • مولوی، جلال‌الدین، مثنوی معنوی، تہران، امیرکبیر، ۱۳۶۳ہجری شمسی۔