مندرجات کا رخ کریں

اسرائیلیات

ویکی شیعہ سے

"اسرائیلیات" اُن مضامین کو کہا جاتا ہے جو یہودی، عیسائی اور قدیم افسانوی منابع سے اسلامی متون میں شامل ہو گئے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اسلامی منابع میں اسرائیلیات زیادہ تر ابتدائی صدیوں کے نو مسلم یہودی داستان گو افراد کے ذریعے شامل ہوئی۔ پیغمبر اکرمؐ کی بعض احادیث میں مسلمانوں کو اسرائیلیات کی طرف رجوع کرنے سے منع کیا گیا ہے۔

اسلامی متون میں اسرائیلیات کی ترویج اور اشاعت میں مؤثر شخصیات میں کعب الاحبار، تمیم بن اوس داری، عبداللہ بن سلام، وہب بن منبہ، ابوہریرہ اور عبداللہ بن عباس کا نام مشہور ہے۔

دوسری صدی سے پانچویں صدی ہجری کے دوران، اگرچہ بعض علمائے دین جیسے فضل بن شاذان نے اسرائیلیات کو سند کے حوالے سے تنقید کا نشانہ بنایا ہے، تاہم بعض تفسیری کتب جیسے "جامع البیان طبری" میں اس قسم کے مضامین سرایت کر گئے ہیں۔ یہ احادیث خاص طور پر کائنات کی تخلیق، انبیائے ماسبق کی تاریخ اور غیبی واقعات جیسے موضوعات کے ضمن میں نقل ہوئی ہیں۔

تعریف

"اسرائیلیات" ان مضامین کو کہا جاتا ہے جو یہودی، عیسائی یا قدیم داستانوں سے اسلامی تفسیری اور حدیثی متون میں داخل ہوئے ہیں۔[1] جامعہ الازہر مصر کے استاد ذہبی کے مطابق بعض مفسرین نے اسرائیلیات کی اصطلاح کا دائرہ وسیع کر کے ہر اُس بے بنیاد مضامین (مثلاً افسانۂ غرانیق) کو اسرائیلیات میں شامل کیا ہے جو تفسیر اور حدیث کی کتابوں میں داخل ہوگئے ہیں۔[2] چوتھی صدی ہجری کے اہل سنت مورخ مسعودی کے مطابق اسرائیلیات میں وہ احادیث شامل ہیں جنہیں قطعی طور پر نہ قبول کیا جا سکتا ہے اور نہ رد۔[3]

"اسرائیلیات" کا لفظ "اسرائیلیہ" کی جمع اور حضرت یعقوب علیہ السلام کے لقب اسرائیل[4] سے منسوب ہے۔[5] اس اصطلاح کا اطلاق یہودی منابع سے نقل شدہ مواد کی کثرت کی بنا پر ہوا ہے۔[6] دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی میں مذکور ہے کہ اس اصطلاح کا ابتدائی استعمال یمنی مورخ وہب بن منبہ(متوفی: 114ھ) کی ایک کتاب کے نام کے طور پر ہوا، اگرچہ بعض مصادر میں اس کتاب کے مختلف نام بھی مذکور ہیں۔[7]

احادیث اور علمائے اسلام کی نظر میں

پیغمبر اکرمؐ سے منقول بعض احادیث میں اہل کتاب (یہود و نصاری) کے منابع کی طرف رجوع کرنے سے منع کیا گیا ہے؛ ایک حدیث میں ہے: "اہل کتاب سے سوال نہ کرو، کیونکہ وہ تمہاری ہدایت نہیں کرینگے بلکہ تمہیں گمراہی کی طرف لے جائیں گے۔"[8] ایک اور حدیث میں ہے: "جو کچھ اہل کتاب کہتے ہیں، اس کی نہ تصدیق کرو نہ تکذیب۔"[9] کہا جاتا ہے کہ ان احادیث کی وجہ سے صحابۂ کرام کے دور میں اہل کتاب سے منقول احادیث پر کم توجہ دی گئی۔[10]

دوسری طرف حدیث؛ "بنی اسرائیل کے بارے میں بیان کرو، اس میں کوئی حرج نہیں۔"[11] کو مد نظر رکھتے ہوئے یہودیوں سے احادیث نقل کرنے کو بلا اشکال قرار دیا گیا ہے۔[12] علوم قرآن کے محقق محمد ہادی معرفت (متوفی: 1385ہجری شمسی) کے مطابق یہ حدیث حقیقت میں یہودیوں کی رسوائی کی انتہا کی طرف اشارہ ہے یعنی ہر ناپسند عمل جس کا تصور کیا جا سکتا ہے وہ ان سے سرزد ہونے کا امکان ہے، پس ان سے متعلق جو کچھ بھی کہا جائے، سچ تصور ہوگا۔[13]

آٹھویں صدی ہجری کے اہل سنت علماء ابن تیمیہ اور ابن کثیر نے اسرائیلیات کو تین اقسام میں تقسیم کیا:

  1. وہ مضامین جو قرآن و سنت کے مطابق اور قابلِ قبول ہیں؛
  2. وہ مضامین جو اسلامی اصولوں سے متصادم اور مردود ہیں؛
  3. وہ مضامین جن کے بارے میں قرآن و سنت میں کچھ وارد نہیں ہوا، ان کی صحت یا بطلان کا فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔[14]

محمد ہادی معرفت نے بھی اس تقسیم کو قبول کرتے ہیں ان میں سے ہر ایک کے لئے مثالیں بھی ذکر کرتے ہیں[15] تاہم تیسرے قسم کے مضامین کے بارے میں کہتے ہیں کہ ان سے متعلق احتیاط اور انہیں نقل کرنے سے احتراز کرنے کی ضرورت ہے۔[16]

اسلامی متون میں اسرائیلیات کی ترویج کی وجوہات

اسلامی منابع میں اسرائیلیات کے داخل ہونے کی ایک وجہ، دور جاہلیت میں جزیرۃ العرب کے عربوں کا یہودی تہذیب و تمدن سے متأثر ہونا قرار دیا گیا ہے۔[17] علوم حدیث کے محقق عبدالہادی مسعودی کے مطابق بعض یہودیوں اور نصرانیوں کے اسلام قبول کرنے کے بعد اس تأثیر پذیری کو مزید تقویت ملی[18] یوں یہودی اور عیسائی منابع سے بعض احادیث اسلامی منابع میں شامل ہو گئے۔[19]

اس کے علاوہ قرآن کریم اور تورات و انجیل میں بعض انبیاء کے قصوں کی مشابہت اور بعض مقامات پر قرآن کا اختصار،[20] سبب بنا کہ لوگ تفصیل جاننے کے لیے اہل کتاب کی طرف رجوع کریں۔[21] شیعہ فقیہ محمد تقی سبحانی کے مطابق، ایک صدی تک احادیث کی تدوین پر لگائی گئی پابندی کی وجہ سے، یہودی و نصرانی احادیث کو اسلامی منابع منجملہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم جیسے اہل سنت حدیثی کتابوں میں شامل ہونے کا موقع ملا۔[22]

یہ بھی کہا گیا ہے کہ بعض یہودیوں نے تلمود(یہودیوں کی دوسری کتاب مقدس) اور دیگر افسانوں سے جعلی احادیث کو رسول اکرمؐ سے منسوب کر کے، اسلامی تہذیب و تمدن کو مجروح کرنے اور پیغمبر اکرمؐ کی احادیث کو تحریف کرنے کی کوشش کی۔[23]

مؤثر شخصیات

اسلامی منابع میں اسرائیلیات کے رواج میں اصحاب و تابعین کے درمیان جو افراد مشہور ہیں ان میں کعب الاحبار، تمیم داری، عبداللہ بن سلام، وہب بن منبہ، ابوہریرہ، عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن عمرو بن عاص اور محمد بن کعب قرظی کے نام آتے ہیں۔[24] ان میں سے پہلے چار افراد اسرائیلیات کی ترویج میں نمایاں تر سمجھے جاتے ہیں۔[25]

کعب الاحبار

ابو اسحاق کعب بن ماتع حِمْیَری(متوفی: 32ھ[26] جو کہ کعب الاحبار کے لقب سے معروف ہیں، یمن کے بڑے یہودی عالم تھے۔[27] انہوں نے ابوبکر کی خلافت کے زمانے میں اسلام قبول کیا۔[28] علمائے رجال انہیں تابعین کے پہلے طبقے میں شمار کرتے ہیں اور ابن عباس، ابوہریرہ، مالک بن ابی‌عامر اور عطاء بن ابی‌رباح جیسے صحابہ و تابعین نے ان سے احادیث نقل کیں ہیں۔[29]

تاریخی اسناد کے مطابق کعب الاحبار کو یہودی منابع پر عبور حاصل تھا اور مسلمان ہونے کے بعد بعض اسلامی محافل ان کے سوالات کا جواب دیتے تھے۔[30] کہا جاتا ہے کہ کعب الاحبار کے قصے کہانیوں کے ساتھ عمر اور معاویہ وغیرہ کی دلچسپی اسلامی منابع میں ان داستانوں کے راہ پیدا کرنے میں نمایاں طور پر مؤثر تھی،[31] یہاں تک کہ بعض اوقات کعب قرآنی آیات کی تفسیر بھی بیان کرتے تھے۔[32]

تمیم بن اوس داری

تمیم بن اوس داری (وفات: 40 ہجری)، نصرانی تھے جو سنۃ الوفود میں مسلمان ہوئے۔[33] شیعہ محققین نے اسلامی منابع میں اسرائیلیات کو رواج دینے والے افراد میں ان کا نام لیا ہے۔[34] اہل سنت کے مطابق وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے مسجد نبوی میں قصہ گوئی کا آغاز کیا۔[35] عمر کے دور میں ہفتے میں ایک دن اور عثمان کے زمانے میں ہفتے میں دو دن وہ مسلمانوں کو کہانیاں سنایا کرتا تھا۔[36]

عبداللہ بن سلام

تاریخی منابع کے مطابق عبداللہ بن سلام (وفات: 43 ہجری)[37] یہودی تھے، جو رسول اکرمؐ کے عہد میں اسلام لائے۔[38] تاریخی منابع کے مطابق رسول اکرمؐ سے مختلف سوالات پوچھے کے بعد بعد وہ مسلمان ہوئے۔[39]

اہل سنت کے مشہور عالم ذہبی بخاری کا ان سے حدیث نقل کرنے کی بنا پر ان کی عدالت کے قائل ہیں،[40] لیکن شیعہ علوم قرآن کے ماہر محمد ہادی معرفت انہیں جھوٹی احادیث جعل کرنے والوں میں شمار کرتے ہیں۔[41]

وہب بن منبہ

وہب بن منبہ (وفات: 114 ہجری) کو اسرائیلیات کے نشر و اشاعت میں کلیدی حیثیت حاصل ہے۔[42] ان کا خاندان اصالتا خراسانی تھے لیکن وہ خود یمن میں پیدا ہوئے۔[43] عبری اور سریانی زبانوں سے واقف تھے اور قدیم کتابوں کے مضامین کو پیش کرتے تھے۔[44]

شیعہ مورخ رسول جعفریان کے مطابق ان کے قصے بعد والے ادوار میں مختلف علاقوں میں پھیل گئے، جو مختلف اسلامی محافل اور مجالس میں بعض کم علم قصہ گو افراد کے لئے نت نئے قصے کہانیوں کی ایجاد کا زمینہ قرار پایا۔[45]

اسرائیلیات کی تألیف اور تنقید

دوسری اور تیسری صدی ہجری میں اسلامی علوم کی تدوین اور تألیف کے دوران بہت سارے اسرائیلیات اسلامی منابع میں شامل ہوگئیں۔[46] لیکن بعض متکلمین جیسے فضل بن شاذان نے ان کو سندی اعتبار سے تنقید کا نشانہ بنایا،[47] تاہم بعض مواقع پر ان جیسے موضوعات سے استناد کا سلسلہ جاری رہا۔[48] شیعہ تفاسیر میں سے تفسیر قمی[49] اور اہل سنت تفاسیر میں سے خاص کر تفسیر طبری[50] کو منجملہ ان موارد میں شمار کیا جاتا ہے۔

چوتھی اور پانچویں صدی ہجری میں بھی وعظ و نصیحت اور قصہ گوئی کے بڑھتے ہوئے رجحان کے سبب اسناد و مدارک کے اندراج میں تقیّد اور تدیّن کا لحاظ نہ رکھنے والے بعض مصنفین کی کتابوں میں بھی اسرائیلیات شامل ہوئی ہی۔ منجملہ ان آثار میں بستان العارفین؛ ابولیث سمرقندی، قصص الانبیاء؛ کسائی اور ثعلبی و ربغوزی کی متشابہ تصانیف کا نام لیا گیا ہے۔[51]

پانچویں صدی ہجری کے شیعہ متکلم اور فقیہ سید مرتضی نے اسرائیلیات اور قصے کہانیوں پر مشتمل احادیث کے خلاف مقابلہ کرنے کوششیں کی۔[52] دستیاب اسناد و منابع کے مطابق سید مرتضی کی ان کوششوں کے ساتھ ساتھ مطہر مقدسی[53]، [ابن‌ندیم|ابن‌ نَدیم]]،[54] اور بیرونی[55] جیسے علما نے یہودی افکار کا مطالعہ اور ان کا اسلامی اصولوں سے تقابلی جائزہ لیا۔

اسلامی منابع میں اسرائیلیات کی مثالیں

اسلامی منابع میں مختلف موضوعات خاص کر کائنات کی تخلیق، انبیاء کی تاریخ اور غیبی واقعات جیسے امور میں احادیث اسرائیلیات کی متعدد مثالین تفسیری، حدیثی اور تاریخی متون میں نقل ہوئی ہیں۔[56] کہا جاتا ہے کہ اسرائیلیات زیادہ تر اہل سنت منابع میں ذکر ہوئی ہیں لیکن کبھی کبھار شیعہ منابع میں بھی ان کی مثالیں دیکھی جا سکتی ہیں۔[57] علوم قرآن کے شیعہ عالم دین محمد ہادی معرفت کے مطابق چوتھی صدی ہجری کی تفسیر طبری اور دسویں صدی ہجری کی درّ المنثور سیوطی جیسی تفاسیر کو اسرائیلیات سے متأثرہ متأخر تفسیری منابع میں شمار کئے جا سکتے ہیں۔[58] احادیث میں اسرائیلیات کی چند مثالیں درج ذیل ہیں:

کائنات کی تخلیق

چنانچہ کتاب التفسیر والمفسرون میں ذکر ہوا ہے کہ،[59] فخر رازی کی تفسیر میں ایک حدیث پیغمبر اکرمؐ سے منسوب ہے جس کے مطابق چاند ابتدا میں سورج کی طرح روشن تھا، لیکن جبرئیل کے ایک ضرب کی وجہ سے اس پر سیاہی چھا گئی۔[60]

ایک اور نمونہ کتاب مجمع الزوائد میں منقول ایک حدیث ہے جس کے مطابق روزانہ نو فرشتے سورج پر برف ڈالتے ہیں تاکہ سورج جلا نہ سکے۔[61] اسی طرح نقل ہوا ہے کہ زمین پانی پر، پانی چٹان پر اور چٹان ایک عظیم مچھلی کی پشت پر ہے جو عرش الٰہی سے متصل ہے۔[62]

گذشتہ انبیاء اور امتوں کی تاریخ

مختلف احادیث اسرائیلیات میں حضرت نوح کی کشتی کی مختلف ابعاد ذکر ہوئی ہیں؛[63] مثلا یہ کہ اس کی لمبائی 600 یا 1200 ہاتھ اور چوڑائی 333 یا 600 ہاتھ اور اسے تین منزلہ حیوانات، انسان اور پرندوں کے لئے بنایا گیا تھا۔[64] اسی طرح کشتی نوح کا خانۂ کعبہ کے گرد سات طواف، عاشورا کے دن کوہ جودی پر لنگر ڈالنا اور حضرت نوح کا شکرانہ کے طور پر روزہ رکھنا اور اس میں موجود حیوانات اور حشرات تک کو روزے کی کی تلقین کرنا۔[65]

اسی طرح بعض اسرائیلیات میں انبیاء کی شأن اور مقام کے برخلاف ان کی طرف بعض گناہوں کی نسبت دی گئی ہے؛[66] مثلا تفسیر قمی میں حضرت داؤد کے متعلق آیا ہے کہ آپ "اوریا" نامی سپاہی کی خوبصورت بیوی کی عشق میں گرفتار ہو جاتے ہیں اور مختلف بہانوں کے ذریعے اوریا کے قتل کا باعث بنتے ہیں۔ اس واقعے کے بعد فرشتوں کی توبیخ پر حضرت داؤد نے چالیس دن توبہ کیا اور آخرکار اس عورت سے شادی کی، جس سے حضرت سلیمانؑ پیدا ہوئے۔[67]

مستقل تألیفات

کتاب «اسرائیلیات و تأثیر آن بر داستان‌ہای انبیا در تفاسیر قرآن» کی جلد
  • تفاسیر میں انبیاء کی داستانوں پر اسرائیلیات کا اثر(حمید محمدقاسمی) یہ کتاب مصنف کے پی ایچ ڈی تھیسس ہے، اس میں مصنف نے انبیاء کی داستانوں میں موجود اسرائیلیات کا جائزہ لے کر ان پر تنقید کیا ہے۔ اسی طرح پیغمبروں کے قصوں پر اسرائیلیات کے اثرات اس تحقیق کے دیگر اہداف میں سے ہیں۔[68]
  • نقد و بررسی اسرائیلیات (فہیمہ کلباسی): تفاسیر الدر المنثور اور نور الثقلین میں چار انبیاء (شعیب، موسی، یوشع، یونس) کے قصوں پر اسرائیلیات کا تنقیدی جائزہ۔[69]
  • اسرائیلیات، تخریب‌ہا و تحریف‌ہای یہود (سیف‌اللہ مدبر): قرآن کی تفسیر اور تفسیری احادیث میں اسرائیلیات کا تحقیقی مطالعہ۔[70]
  • الإسرائیلیات فی التفسیر و الحدیث (محمدحسین الذہبی): اسرائیلیات کی اقسام، اسبابِ نفوذ، نمونے اور متعلقہ تفاسیر کا جائزہ۔[71]

متعلقہ صفحات

حوالہ جات

  1. ذہبی، الاسرائیلیات فی التفسیر و الحدیث، مکتبۃ الوہبہ، ص13-14۔
  2. ذہبی، الاسرائیلیات فی التفسیر و الحدیث، مکتبۃ الوہبہ، ص13-14۔
  3. مسعودی، مروج الذہب، 1409ھ، ج2، ص216۔
  4. معرفت، ‏التفسیر والمفسرون، 1418ھ، ج2، ص79۔
  5. شیخ صدوق، علل الشرائع، 1385ھ، ج1، ص44۔
  6. ذہبی، الاسرائیلیات فی التفسیر و الحدیث، مکتبۃ الوہبہ، ص15۔
  7. حاج‌منوچہری، «اسرائیلیات»، ص290۔
  8. عبد الرزاق، المصنف، 1403ھ، ج10، ص311۔
  9. بخاری، صحیح البخاری، 1422ھ، ج9، ص111۔
  10. ابن‌تیمیہ، مقدمۃ فی أصول التفسیر، 1980ء، ص21-22۔
  11. بخاری، صحیح البخاری، 1422ھ، ج4، ص170۔
  12. حاج‌منوچہری، «اسرائیلیات»، ص291۔
  13. معرفت، ‏التفسیر والمفسرون، 1418ھ، ج2، ص93۔
  14. ابن‌تیمیہ، مقدمۃ فی أصول التفسیر، 1980ء، ص42؛ ابن‌کثیر، البدایۃ و النہایۃ، 1407ھ، ج1، ص6-7۔
  15. معرفت، ‏التفسیر والمفسرون، 1418ھ، ج2، ص138-140۔
  16. معرفت، ‏التفسیر والمفسرون، 1418ھ، ج2، ص141۔
  17. مسعودی، وضع و نقد حدیث، 1388ش، ص118۔
  18. مسعودی، وضع و نقد حدیث، 1388ش، ص63۔
  19. جعفری، «اسرائیلیات در کتاب ہای تفسیری و تاریخی»، ص43-44۔
  20. ایزدی مبارکہ، «بررسی و نقد اسرائیلیات در تفسیر قرآن و احادیث اسلامی»، ص11۔
  21. ایزدی مبارکہ، «بررسی و نقد اسرائیلیات در تفسیر قرآن و احادیث اسلامی»، ص11۔
  22. «مشکل اسرائیلیات در حدیث بخاطر بدعت‌ہای صدر اسلام است»، خبرگزاری رسا۔
  23. ابوریہ، اضواء علی السنۃ المحمدیہ، نشر بطحاء، ص145۔
  24. معرفت، ‏التفسیر والمفسرون، 1418ھ، ج2، ص94؛ مسعودی، وضع و نقد حدیث، 1388ش، ص119-120؛ ذہبی، الاسرائیلیات فی التفسیر و الحدیث، مکتبۃ الوہبہ، ص55-83۔
  25. جعفری، «اسرائیلیات در کتاب ہای تفسیری و تاریخی»، ص51۔
  26. ذہبی، تاریخ الإسلام، 1413ھ، ج3، ص397۔
  27. زرکلی، الأعلام، 1989ء، ج5، ص228۔
  28. ذہبی، تاریخ الإسلام، 1409ھ، ج3، ص397۔
  29. ابن‌حجر، تہذیب التہذیب، ج8، 1326ھ، ص438-439۔
  30. ابن‌قتیبہ، المعارف، 1992ء، ص25؛ مسعودی، مروج الذہب، 1409ھ، ج2، ص38 و 250۔
  31. ابن‌قتیبہ، المعارف، 1992ء، ص25؛ مسعودی، مروج الذہب، 1409ھ، ج2، ص38 و 250۔
  32. سمرقندی، تنبیہ الغافلین، 1421ھ، ص64 و 148؛ ثعلبی، قصص الانبیاء، المکتبۃ الثقافیہ، ص4 و 13-15 و 20-21۔
  33. بلاذری، فتوح البلدان، 1988ء، ص437۔
  34. احمدی میانجی، مکاتیب الرسول، 1419ھ، ج1، ص659؛ عاملی، الصحیح من سیرۃ النبی الاعظم، 1426ھ، ج1، ص127؛ مسعودی، وضع و نقد حدیث، 1388ش، ص31 و 119۔
  35. ابن‌شبہ، تاریخ المدینۃ المنورۃ، 1410ھ، ج1، ص11؛ ابن‌ابی‌عاصم، المذکر والتذکیر والذکر، 1413ھ، ص62۔
  36. ابن‌شبہ، تاریخ مدینہ المنورہ، 1410ھ، ج1، ص11۔
  37. معرفت، ‏التفسیر والمفسرون، 1418ھ، ج2، ص96۔
  38. ابن‌اثیر، اسد الغابۃ، 1409ھ، ج3، ص160۔
  39. مجلسی، بحار الانوار، 1403ق ج57، ص241-261۔
  40. ذہبی، الاسرائیلیات فی التفسیر و الحدیث، مکتبۃ الوہبہ، ص70۔
  41. معرفت، ‏التفسیر والمفسرون، 1418ھ، ج2، ص96۔
  42. حاج‌منوچہری، «اسرائیلیات»، ص291۔
  43. ذہبی، سیر اعلام النبلاء، 1405ھ، ج4، ص544-545۔
  44. دوری، نشأۃ علم التاریخ عند العرب، 2005ء، ص92۔
  45. جعفریان، «نقش قصہ‌پردازان در تاریخ اسلام»، ص136-137۔
  46. حاج‌منوچہری، «اسرائیلیات»، ص292۔
  47. ابن‌شاذان، الایضاح، 1402ھ، ص13-17۔
  48. ابن‌سعد، الطبقات الکبری‏، 1410ھ، ج1، ص270۔
  49. دلبری، آسیب‌شناسی فہم حدیث، 1391ش، ص513۔
  50. معرفت، ‏التفسیر والمفسرون، 1418ھ، ج2، ص142۔
  51. حاج‌منوچہری، «اسرائیلیات»، ص292۔
  52. مسعودی، وضع و نقد حدیث، 1388ش، ص206۔
  53. مقدسی، البدء و التاریخ، مکتبۃ الثقافۃ الدینیۃ، ج2، صص116۔
  54. ابن‌ندیم، الفہرست، 1417ھ، ص34۔
  55. بیرونی، الآثار الباقیۃ، 1380ش، ص342۔
  56. جعفری، «اسرائیلیات در کتاب ہای تفسیری و تاریخی»، ص69۔
  57. دلبری، آسیب‌شناسی فہم حدیث، 1391ش، ص513؛ جعفری، «اسرائیلیات در کتاب ہای تفسیری و تاریخی»، ص69۔
  58. معرفت، ‏التفسیر والمفسرون، 1418ھ، ج2، ص142۔
  59. معرفت، ‏التفسیر والمفسرون، 1418ھ، ج2، ص293۔
  60. فخر رازی، مفاتیح الغیب، 1420ھ، ج20، ص 306۔
  61. ہیثمی، مجمع الزوائد، 1414ھ، ج8، ص131۔
  62. ہیثمی، مجمع الزوائد، 1414ھ، ج8، ص131۔
  63. معرفت، ‏التفسیر والمفسرون، 1418ھ، ج2، ص209-210۔
  64. طبری، جامع البیان، 1422ھ، ج12، ص394-395۔
  65. طبری، جامع البیان، 1422ھ، ج12، ص419-420۔
  66. دلبری، آسیب‌شناسی فہم حدیث، 1391ش، ص514
  67. قمی، تفسیر القمی، 1404ھ، ج2، ص230۔
  68. «اسرائیلیات و تأثیر آن بر داستان‌ہای انبیا در تفاسیر قرآن»، حدیث نت۔
  69. «نقد و بررسی اسرائیلیات»، کتاب‌خانہ قائمیہ۔
  70. «اسرائیلیات، تخریب‌ہا و تحریف‌ہای یہود»، کتابخانہ دیجیتالی نور۔
  71. مؤذن‌جامی، «بررسی اسرائیلیات در تفسیر و حدیث»، ص152۔

مآخذ

  • قرآن کریء۔
  • ابن‌ابی‌عاصم، احمد بن عمرو، المذکر والتذکیر والذکر، بہ کوشش خالد بن قاسم رداوی، ریاض، دار المنار، 1413ھ۔
  • ابن‌اثیر جزری، علی بن محمد، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، بیروت، دار الفکر، 1409ھ۔
  • ابن‌تیمیہ، احمد بن عبدالحلیم، مقدمۃ فی أصول التفسیر، بیروت، دار مکتبۃ الحیاۃ، 1980ء۔
  • ابن‌حجر عسقلانی، احمد، تہذیب التہذیب، ہند، مطبعۃ دائرۃ المعارف النظامیۃ، چاپ اول، 1326ھ۔
  • ابن‌سعد، محمد بن سعد‏، الطبقات الکبری‏، تحقیق محمد عبد القادر عطا، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، چاپ اول، 1410ھ۔
  • ابن‌شاذان، فضل، الایضاح، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، 1402ھ۔
  • ابن‌شبہ، عمر، تاریخ المدینۃ المنورۃ، بہ کوشش فہیم محمد شلتوت، بیروت، دار الفکر، 1410ھ۔
  • ابن‌قتیبہ دینوری، عبداللہ بن مسلم،‏ المعارف، قاہرہ، الہیئۃ المصریۃ العامۃ للکتاب، چاپ دوم، 1992ء۔
  • ابن‌کثیر دمشقی‏، اسماعیل بن عمر، البدایۃ و النہایۃ، بیروت، دار الفکر، 1407ھ۔
  • ابن‌ندیم بغدادی، محمد بن إسحاق، الفہرست، بیروت، دار المعرفۃ، چاپ دوم، 1417ھ۔
  • ابوریہ، محمود، اضواء علی السنۃ المحمدیہ، قاہرہ، نشر بطحاء، چاپ پنجم، بی‌تا.
  • احمدی میانجی، علی، مکاتیب الرسول(ص)، قم، دارالحدیث، 1419ھ۔
  • «اسرائیلیات، تخریب‌ہا و تحریف‌ہای یہود»، کتابخانہ دیجیتالی نور، تاریخ اخذ: 4 خرداد 1404ہجری شمسی۔
  • «اسرائیلیات و تأثیر آن بر داستان‌ہاى انبیا در تفاسیر قرآن»، پایگاہ حدیث‌نت، تاریخ اخذ: 1 مرداد 1404ہجری شمسی۔
  • ایزدی مبارکہ، مہدی، «بررسی و نقد اسرائیلیات در تفسیر قرآن و احادیث اسلامی»، در مجلہ اندیشہ‌ہای اسلامی، پاییز و زمستان 1386ہجری شمسی۔
  • بخاری، محمد بن إسماعیل، صحیح البخاری، تحقیق محمد زہیر بن ناصر الناصر، دمشق، دار طوق النجاۃ، چاپ اول، 1422ھ۔
  • بلاذری، احمد، فتوح البلدان، بیروت، مکتبۃ الہلال، 1988ء۔
  • بیرونی، أبوریحان، الآثار الباقیۃ عن القرون الخالیۃ، تحقیق و تصحیح پرویز اذکایی، تہران، مرکز نشر میراث مکتوب‏، چاپ اول، 1380ہجری شمسی۔
  • ثعلبی، احمد بن محمد، قصص الانبیاء، بیروت، المکتبۃ الثقافیہ، چاپ اول، بی‌تا.
  • جعفری، یعقوب، «اسرائیلیات در کتاب‌ہای تفسیری و تاریخی»، در نشریہ تاریخ اسلام در آینہ پژوہش، شمارۂ 14، تابستان 1386ہجری شمسی۔
  • جعفریان، رسول، «نقش قصہ‌پردازان در تاریخ اسلام»، در کیہان اندیشہ، شمارۂ 30، خرداد 1369ہجری شمسی۔
  • حاج‌منوچہری، فرامرز، «اسرائیلیات»، در دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی، تہران، مرکز دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی، چاپ اول، 1377ہجری شمسی۔
  • دلبری، سید علی، آسیب‌شناسی فہم حدیث، مشہد، دانشگاہ علوم اسلامی رضوی، چاپ اول، 1391ہجری شمسی۔
  • دوری، عبد العزیز، نشأۃ علم التاریخ عند العرب، بیروت، مرکز الدراسات الوحدۃ العربیۃ، 2005ء۔
  • ذہبی، شمس الدین، تاریخ الاسلام، تحقیق عمر عبد السلام تدمری، بیروت، دار الکتاب العربی، چاپ دوم، 1413ھ۔
  • ذہبی، شمس الدین، سیر اعلام النبلاء، بیروت، مؤسسۃ الرسالۃ، چاپ سوم، 1405ھ۔
  • ذہبی، محمدحسین، الاسرائیلیات فی التفسیر والحدیث، قاہرہ، مکتبۃ الوہبہ، بی‌تا.
  • زرکلی، خیر الدین، الاعلام، بیروت، دار العلم للملایین، چاپ ہشتم، 1989ء۔
  • سمرقندی، أبو اللیث نصر بن محمد، تنبیہ الغافلین بأحادیث سید الأنبیاء والمرسلین، تحقیق یوسف علی بدیوی، بیروت-دمشق، دار ابن کثیر، چاپ سوم، 1421ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، علل الشرائع، قم، کتابفروشی داوری، چاپ اول، 1385ھ۔
  • طبری، محمد بن جریر، جامع البیان عن تأویل آی القرآن (تفسیر طبری)، قاہرہ، دار ہجر، چاپ اول، 1422ھ۔
  • عاملی، جعفر مرتضی، الصحیح من سیرۃ النبی الاعظم، قم، دارالحدیث، 1426ھ۔
  • عبد الرزاق، أبو بکر، المصنف، تحقیق حبیب الرحمن الأعظمی، بیروت، مجلس العلمی، چاپ دوم، 1403ھ۔
  • فخر رازی، محمد بن عمر، مفاتیح الغیب، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ سوم، 1420ھ۔
  • قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، تحقیق و تصحیح سید طیب موسوی جزائری، قم، دار الکتاب، چاپ سوم، 1404ھ۔
  • مؤذن‌جامی، محمدہادی، «بررسی اسرائیلیات در تفسیر و حدیث»، در نشریہ کیہان اندیشہ، شمارۂ 47، فروردین و اردیبہشت 1372ہجری شمسی۔
  • مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ دوم، 1403ھ۔
  • مسعودی، ابوالحسن علی بن الحسین، مروج الذہب ومعادن الجوہر، تحقیق اسعد داغر، قم، دار الہجرۃ، چاپ دوم، 1409ھ۔
  • مسعودی، عبدالہادی، وضع و نقد حدیث، قم، دانشکدہ علوم حدیث، چاپ اول، 1388ہجری شمسی۔
  • «مشکل اسرائیلیات در حدیث بخاطر بدعت‌ہای صدر اسلام است»، خبرگزاری رسا، تاریخ درج مطلب: 27 تیر 1390ش، تاریخ اخذ: 5 خرداد 1404ہجری شمسی۔
  • معرفت، محمدہادی، ‏التفسیر والمفسرون فی ثوبۃ القشیب‏، مشہد، الجامعۃ الرضویۃ للعلوم الإسلامیۃ، چاپ اول، 1418ھ۔
  • مقدسی، مطہر بن طاہر، البدء والتاریخ، بور سعید، مکتبۃ الثقافۃ الدینیۃ، بی‌تا.
  • «نقد و بررسی اسرائیلیات»، کتابخانہ قائمیہ، تاریخ اخذ: 4 خرداد 1404ہجری شمسی۔
  • ہیثمی، علی بن أبی بکر، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، تحقیق حسام الدین القدسی، قاہرۃ، مکتبۃ القدسی، 1414ھ۔