آیت جلباب
آیت کی خصوصیات | |
---|---|
آیت کا نام | آیت جلباب |
سورہ | احزاب |
آیت نمبر | 59 |
پارہ | 22 |
محل نزول | مدینہ |
موضوع | فقہی |
مضمون | حجاب |
مربوط آیات | آیہ حجاب |
آیہ جِلباب سورہ احزاب کی آیت نمبر 59 کو کہا جاتا ہے جس میں خواتین کو باہر نکلتے وقت چادر پہننے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ وہ مردوں کی آزار و اذیت سے محفوظ رہ سکیں۔ اس آیت میں لفظ "جَلابیب" استمعال ہوا ہے جو "جِلباب" کا جمع ہے۔ جلباب ایک قسم کی لباس کو کہا جاتا ہے جو دوپٹے سے کچھ بڑی ہوتی ہے۔
شیعہ مفسر قرآن فضل بن حسن طبرسی کے مطابق یہ آیت آزاد عورتوں سے مختص ہے تاکہ وہ حجاب کی پابندی کرنے کے ذریعے کنیزوں سے مشخص ہوں اور کوئی ان کو اذیت نہ پہنچائیں، جبکہ مفسرین کا ایک اور گروہ اس آیت کو آزاد خواتین سے مختص قرار دئے بغیر کہتے ہیں کہ مذکورہ آیت میں تمام خواتین کو با وقار زندگی گزارنے کی ترغیب دیتی ہے تاکہ ان کے بارے میں کوئی بری نیت نہ رکھ سکے۔
شیعہ مرجع تقلید آیت الله بروجردی اور شیعہ مفسرین قرآن علامہ طباطبائی اس بات کے معتقد ہیں کہ آیت جلباب کے تحت خواتین کو اپنا چہرہ چھپانا واجب ہے۔ ان کے مقابلے میں آیت اللہ جعفر سبحانی اور شہید مطہری اس نظریے کے مخالف ہیں اور صرف بالوں کو چھپانا کافی سمجھتے ہیں۔
آیت کا متن اور ترجمہ
سورہ احزاب کی آیت نمبر 59 جس میں ایک طرح کی حجاب کا حکم دیا گیا ہے، آیت جلباب کہا جاتا ہے:[1]
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ وَكَانَ اللَّـهُ غَفُورًا رَّحِيمًا
اے نبی(ص)! آپ اپنی بیویوں، بیٹیوں اور (عام) اہلِ ایمان کی عورتوں سے کہہ دیجئے کہ وہ (باہر نکلتے وقت) اپنے اوپر چادر (بطور گھونگھٹ) لٹکا لیا کریں یہ طریقہ قریب تر ہے کہ وہ پہچان لی جائیں اور ستائی نہ جائیں اور اللہ بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔
سورہ احزاب: آیت 59
شأن نزول
تفسیر قمی کے مطابق پیغمبر اکرمؐ کے زمانے میں جب خواتین نماز جماعت کے لئے مسجد جایا کرتی تھیں تو بعض جوان راستے میں ان کو تنگ کیا کرتے تھے اسی مناسبت سے یہ آیت نازل ہوئی ہے۔[2]
جلباب کے لغوی اور اصطلاحی معنی
"جَلابیب" لفظ "جِلباب" کا جمع ہے۔ راغب اصفہانی لکھتے ہیں کہ جلباب پیراہن اور دوپٹے کو کہا جاتا ہے؛[3] لیکن مجمعالبحرین میں آیا ہے کہ جلباب دوپٹے سے بڑے اور چادر سے چھوٹے لباس ک کہا جاتا ہے جو خواتین اپنے سروں پر رکھتیں ہیں اور سینے تک پہنچتی ہیں۔[4]
شناخت سے مراد
چھٹی صدی ہجری کے شیعہ مفسر فضل بن حسن طبرسی تفسیر مجمع البیان میں ذلِكَ أَدْنى أَنْ يُعْرَفْنَ فَلا يُؤْذَيْنَ[؟–؟] کی دو تفسیر کرتے ہیں اور دوسرے مفسرین نے ان دونوں میں سے کسی ایک کو اپنائے ہیں:
- پہلی تفسیر کے مطابق جو خود طبرسی کا نظریہ ہے، درج بالا عبارت میں شناخت سے مراد یہ ہے کہ لوگوں کو پتہ چلے کہ یہ آزاد عورت ہے یا کنیز تاکہ ان کو تنگ کرنے سے باز رہیں؛ کیونکہ اس وقت بعض لوگ کنیزوں سے چھیڑ چھاڑ کیا کرتے تھے۔ اسی طرح بعض منافقین بعض آزاد خواتین کو بھی تنگ کرتے تھے جب ان کو اس کام سے منع کرتے تو کہتے تھے کہ ہم نے کنیز سمجھ کر ایسا کیا تھا۔ مذکورہ آیت میں اس حکم کے ذریعے منافقین کے اس طرح کے بہانہ بازیوں کی فرصت بھی ختم ہو گئی۔[5]
- دوسری تفسیر جسے طبرسی نے جَبایی کی طرف نسبت دی ہے، کہتے ہیں کہ اس آیت میں شناخت سے مراد ان خواتین کا اہل حجاب اور پاکدامن ہونے اور نہ ہونے کی شناخت ہے تاکہ فاسق مرد انہیں تنگ نہ کر سکیں؛ کیونکہ فاسق لوگ جب کسی خاتون کو مناسب پردے میں دیکھے گا تو اسے تنگ کرنے سے باز آیئں گے۔[6] علامہ طباطبائی اور شہید مطہری نے بھی ان دونوں تفسیروں کو قبول کئے ہیں۔[7]
فقہی استعمال
آیت جلباب فقہی مباحث میں بھی مورد استناد قرار پاتی ہے۔[8] کہا جاتا ہے کہ اکثر مفسرین جیسے زَمَخشری اور فخر رازی وغیرہ اس آیت سے یہ مفہوم لیتے ہیں کہ خواتین پر اپنے چہروں کو بھی چھپانا واجب ہے۔[9] علامہ طباطبائی بھی اس آیت سے یہی مفہوم لیتے ہیں۔[10] آیت اللہ جعفر سبحانی کے مطابق آیت اللہ بروجردی بھی یہی نظریہ رکھتے تھے اور یہ استدلال کرتے تھے کہ آیت میں جلباب کو نزدیک کرنے کا حکم دیا گیا ہے جس کا لازمی امر مکمل چہرے کو چھپانا ہے۔[11]
شہید مطہری اور آیت اللہ جعفر سبحانی اس استدلال کو قبول نہیں کرتے؛ شہید مطہری کے مطابق یہ آیت پردے کے حدود کو بیان کرنے کے مقام پر نہیں ہے، بلکہ یہ آیت صرف اتنا بیان کرتی ہے کہ مسلمان خواتین کو باوقار اور با عفت ہونا چاہئے اور پردے کو صرف ایک رسم قرار نہ دیں۔ آپ لکھتے ہیں کہ مذکورہ آیت میں "فَلَا يُؤْذَيْنَ"[؟–؟] (تاکہ مورد اذیت قرار نہ پائیں) کی عبارت اس نظریے کی تائید کرتی ہے۔[12] آیت اللہ جعفر سبحانی بھی اسی تعبیر سے استناد کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جلباب کو قریب کرنے کا مقصد یہ تھا آزاد اور کنیز عورتوں میں فرق ہو تاکہ وہ لوگوں کے اذیت و آزار سے محفوظ رہ سکیں اور جب بالوں کو چھپا لیتی ہیں تو یہ مقصد حاصل ہو جاتا ہے لہذا چہرہ بھی چھپانا واجب نہیں ہے۔[13]
متعلقہ صفحات
حوالہ جات
- ↑ جمعی از محققان، فرہنگنامہ علوم قرآنی، ۱۳۹۴ش، ص۱۲۶۔
- ↑ قمی، تفسیر قمی، ۱۳۶۷ش، ج۲، ص۱۹۶۔
- ↑ راغب اصفہانی، مفردات، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۱۹۹، ذیل واژہ «جلابیب»۔
- ↑ طریحی، مجمع البحرین، ۱۳۷۵ش، ج۲، ص۲۴، ذیل واژہ «جلب»۔
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۸، ص۵۸۱۔
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۸، ص۵۸۱۔
- ↑ طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۶، ص۳۳۹-۳۴۰؛ مطہری، مجموعہ آثار، ۱۳۹۰ش، ج۱۹، ص۵۰۴-۵۰۵۔
- ↑ نمونے کے لئے ملاحظہ کریں: شبیری، کتابالنکاح، ۱۴۱۹ق، ج۲، ص۴۶۲-۴۷۰؛ سبحانی، نظام النکاح فی الشریعۃ الاسلامیۃ الغراء، ۱۳۷۵ش، ج۱، ص۵۲؛ مکارم شیرازی، کتابالنکاح، ۱۴۲۴ق، ج۱، ص۳۲۔
- ↑ مطہری، مجموعہ آثار، ۱۳۹۰ش، ج۱۹، ص۵۰۵۔
- ↑ طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۶، ص۳۳۹۔
- ↑ سبحانی، نظام النکاح فی الشریعۃ الاسلامیۃ الغراء، ۱۳۷۵ش، ج۱، ص۵۲۔
- ↑ مطہری، مجموعہ آثار، ۱۳۹۰ش، ج۱۹، ص۵۰۳-۵۰۴۔
- ↑ سبحانی، نظام النکاح فی الشریعۃ الاسلامیۃ الغراء، ۱۳۷۵ش، ج۱، ص۵۲۔
مآخذ
- جمعی از محققان، فرہنگنامہ علوم قرآنی، قم، پژوہشگاہ علوم و فرہنگ اسلامی، چاپ اول، ۱۳۹۴ش۔
- راغب اصفہانی، حسین بن محمد، المفردات فی غریب القرآن، تحقیق صفوان عدنان داودى، دمشق/بیروت، چاپ اول، ۱۴۱۲ھ۔
- سبحانی، جعفر، نظام النکاح فی الشریعۃ الاسلامیۃ الغراء، قم، مؤسسہ امام صادق، ۱۳۷۵ش۔
- شبیری زنجانی، سیدموسی، کتابالنکاح، قم، مؤسسہ پژوہشی رایپرداز، چاپ اول، ۱۴۱۹ھ۔
- طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ پنجم، ۱۴۱۷ھ۔
- طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن،، تہران، ناصرخسرو، چاپ سوم، ۱۳۷۲ش۔
- طریحى، فخرالدین، مجمعالبحرین، تحقیق: سیداحمد حسینی، تہران، کتابفروشى مرتضوی، چاپ سوم، ۱۳۷۵ش۔
- قمى، على بن ابراہیم، تفسیرالقمی، تحقیق و تصحیح طیّب موسوى جزایرى، قم، دارالکتاب، چاپ سوم، ۱۴۰۴ھ۔
- مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار، تہران، انتشارات صدرا، ۱۳۹۰ش۔
- مکارم شیرازی، ناصر، کتابالنکاح، تحقیق محمدرضا حامدی و مسعود مکارم، قم، مدرسہ امام علی بن ابیطالب، چاپ اول، ۱۴۲۴ھ۔