زیارت قبور

فاقد خانہ معلومات
حوالہ جاتی اصول کی عدم رعایت
علاقائی تقاضوں سے غیر مماثل
غیر سلیس
غیر جامع
ویکی شیعہ سے

زیارت قبوراسلامی اور شیعہ کی ان رائج سنتوں میں سے ہے کہ جسے بعض قرآن کریم کی آیات ، پیامبر(ص) اور معصومین کی روایات کی بنا پر مستحب سمجھا جاتا ہے ۔ زیارت قبور مسلمانوں کے تاکیدی اعمال میں سے رہا ہے ۔ اہل سنت اور شیعوں کے درمیان اس کے بارے میں کوئی در رائے نہیں ہیں. پیغمبراکرم(ص) کی سیرت، صحابہ کا عمل ،مسلمانوں کی سیرت اور اسی طرح اہل سنت کے مذاہب اربعہ اور شیعہ مذہب کے علما کے فتاوا زیارت قبور کی فضیلت کے واضح ترین دلائل میں سے ہے ۔

ابن تیمیہ شد رحال کی روایت کی بنا پر زیارت شرعی کو سلام اور دعا میں محدود سمجھتا ہے اور دیگر افعال جیسے زیارت کیلئے سفر کرنے کو بدعت اور شرک قرار دیتا ہے ۔ بہت سے سنی اور شیعہ علماء نے اپنی تالیفات میں ابن تیمیہ کے ان نظریات کو رد کیا اور احادیث میں شدّ رحال کی روایت کو تین مذکورہ مساجد کی کثرت سے زیارت کرنے کے معنا میں سمجھتے ہیں ۔

آیات، روایات ، رسول اللہ اور معصومین کی سیرت

قرآن کریم کی آیات ، اہل سنت اور شیعہ علماء کی زیارت کے متعلق فتاوا اور اسی طرح رسول خدا(ص)، اہل بیت(ع)، بزرگ صحابہ، تابعین، علماء اور مسلمانوں کی عملی سیرت سے ظاہر ہوتا ہے کہ زیارت قبور خاص طور پر صالحین ، انبیا اور ان میں سے بھی پیغمبر اسلام کی قبروں کی زیارت فضیلت رکھتی ہے اور اسلام میں اسکی تاکید کی گئی ہے ۔ [1]

آیات قرآن کریم

اس فعل کی مشروعیت اور پیغمبر کی قبر کی زیارت کے اثبات کیلئے اور اسی طرح عام طور پر قبر کی زیارت کرنے کیلئے بہت سی قرآنی آیات سے استفادہ کیا گیا ہے :

  1. زیارت قبر پیغمبر: سوره نساء، آیت ۶۴: "وَ ما أَرْسَلْنا مِنْ رَسُولٍ إِلاَّ لِیطاعَ بِإِذْنِ اللَّهِ وَ لَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جاؤُكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّاباً رَحیماً" ترجمہ:اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس لئے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے کاش جب یہ لوگ (گناہ کرکے) اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے اگر آپ کے پاس آجاتے اور اللہ سے بخشش طلب کرتے اور رسول بھی ان کے لئے دعائے مغفرت کرتے تو یقینا اللہ کو بڑا توبہ قبول کرنے والا اور بڑا مہربان پاتے۔ (64)

آیات و روایات کی بنا پر مؤمنین مزار پیغمبر(ص) کے پاس استغفار کر سکتے ہیں اور مسلمان رسول اللہ(ص) کی حیات طیبہ میں اور ان کے مرنے کے بعد کسی قسم کے فرق کے قائل نہیں ہیں اور پیغمبر(ص) کی رحلت کو آیت کے عمل میں کوئی مانع نہیں سمجھتے تھے ۔ چنانچہ مسلمان رسول خدا(ص) کی زندگی میں اور ان کے مرنے کے بعد ارتباط کے آداب کی رعایت کو ضروری سمجھتے تھے ؛ جیسے انکی قبر کے پاس بلند آواز میں بات نہ کرنا۔"جاؤوک" کا فعل آیت جملہ شرطیہ کی صورت میں ذکر ہوا ہے جو معنا کی عمومیت کو بیان کرتا ہے لہذا اس بنا پر رسول خدا(ص) کی زندگی اور اور انکی رحلت کے بعد کے زمانے کو شامل ہے ۔ [2]

  1. "بزرگان دین کی قبروں کی زیارت": سوره حج، آیت ۳۲: "ذلِكَ وَ مَنْ یعَظِّمْ شَعائِرَ اللَّهِ فَإِنَّها مِنْ تَقْوَی الْقُلُوبِ"ترجمہ: اور جو کوئی شعائر اللہ کی تعظیم کرے تو یہ دلوں کے تقویٰ سے ہے۔ (32)

جنہوں نے اس آیت کے ذریعے قبروں کی زیارت کےجواز پر استدلال کیا ہے وہ بزرگان دین کی قبروں کی زیارت کو شعائر الہی کی تعظیم سمجھتے ہیں اور انہوں نے اس آیت کی بنا پر شعائر الہی کی تعظیم کو دلوں کے تقوے کی علامت کہا اور بزرگان دین کی قبور کی زیارت بھی دلوں کے تقوے کی علامت کہتے ہیں ہے ۔نتیجے کے طور پر جو چیز بھی دین الہی علامت اور شعار ہے اسے بارگاہ الہی میں تقرب کا مایہ کہتے ہیں ۔[3] فاضل مقداد وہ پہلے عالم دین ہیں جنہوں نے سب سے پہلے پیامبر اکرم اور ائمہ طاہری کی قبروں کی زیارت کو اسلامی شعائر کہا ہے ۔ [4]

  1. مؤمنین کی قبروں کی زیارت: سوره توبہ، آیت ۸۴: "وَ لاتُصَلِّ عَلی أَحَدٍ مِنْهُمْ ماتَ أَبَداً وَ لاتَقُمْ عَلی قَبْرِهِ إِنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَ رَسُولِهِ وَ ماتُوا وَ هُمْ فاسِقُونَ" ترجمہ:اور ان میں سے جو کوئی مر جائے تو اس کی نمازِ جنازہ نہ پڑھیں اور نہ ہی اس کی قبر پر کھڑے ہوں۔ بلاشبہ انہوں نے خدا و رسول کے ساتھ کفر کیا اور وہ فسق و نافرمانی کی حالت میں مرے ہیں۔ (84)

اس آیت کی رو سے رسول خدا کو حکم دیا گیا کہ وہ منافقین پر نماز نہ پڑھیں اور انہیں انکی قبور کے پاس کھڑے ہونے سے منع کیا گیا ۔ بسیاری از فقها از جمله فاضل مقداد، ابوالفتوح حسینی جرجانی اور جعفر سبحانی جیسے بہت سے فقہا نے اس آیت کے مفہوم کو دلیل بنایا ہے جس کے نتیجے میں منافقین کے علاوہ دوسروں کی نماز جنازہ پڑھنا اور انکی قبور کے پاس کھڑے ہونا ایک اچھا اور شائستہ عمل ہے ۔[5] بعض مفسرین کے نزدیک یہ آیت مسلمانوں اور رسول خدا کی سیرت کو بیان کرتی ہے ؛ چونکہ اگر رسول اکرم ان کاموں کو انجام نہ دیتے ہوتے تو منافقین کے بارے میں رسول خدا کو منع کرنے کا کوئی معنا نہیں تھا ۔[6]

قول، فعل اور تقریر معصوم

روایات اسلامی کی بنا پر پیامبر اکرم صرف اپنے اصحاب کو اس عمل (زیارت قبور) کی ترغیب ہی نہیں دیتے بلکہ قبور کی زیارت کیلئے تشریف لے جاتے تھے ۔ صحیح مسلم میں حضرت عائشہ سے منقول ہوا ہے کہ پیامبر خدا رات کے آخری حصے میں قبرستان بقیع میں قبور کی زیارت کی غرض سے گھر سے نکل جاتے اور صاحبان قبور سے ہمکلام ہوتے تھے ۔[7][8]

المزار یا الزیارات کے نام سے بہت سی کتابیں تالیف ہوئی ہیں جن میں قبور کی زیارت کے متعلق اقوال، اعمال اور سنت معصومین(ع) کو جمع کیا گیا ہے ۔ ابن قولویہ قمی، شیخ مفید، سید ابن طاووس اور شہید اول اس جیسے آثار کو جمع کرنے والے ہیں ۔ [9]

شیعہ متکلمین مانند شیخ مفید، سید محسن امین، علامہ امینی، جعفر سبحانی اور سید حسن طاہری خرم‌آبادی نے اپنی تالیفات میں زیارت قبور کی مشروعیت کے اثبات اور اہل سنت کے شبہات کا جواب دیتے ہوئے آئمہ کی سیرت سے استناد کیا ہے اور صحیح مسلم سمیت اہل سنت کی کتب سے قبور کی زیارت کی فضیلت پر مشتمل روایات کو اپنے ادعا کیلئے شاہد کے طور پر ذکر کیا ہے ۔[10]

فقہائے اہل سنت کے فتاوا

شیعہ اور سنی علما نے زیارت قبور سے متعلق آیات اور بہت سی روایات سے استناد کیا ہے کہ ان میں سے بعض عمومی طور پر زیارت قبور کی طرف اور بعض خاص طور پر رسول اکرم(ص) کی قبر کی زیارت کی طرف ناظر ہیں ۔

  1. ابن ھُبیره (۴۹۹-۵۶۰ق)، حنبلی فقیہ نے اپنی کتاب اتفاق الأئمہ میں نقل کیا ہے کہ شافعی، ابوحنیفہ اور احمد بن حنبل رسول اللہ کی قبر کی زیارت کو مستحب سمجھتے ہیں ۔ [11]
  2. احمد بن حنبل سے منقول ہے کہ جب تم قبروں پر پہنچوں تو فاتحہ اور معوذتین پڑھو : اذا دخلتم المقابر فاقرؤوا الفاتحة والمعوذتین.[12]
  3. حنفی عالم شمس الدین بن عبدالواحد مقدسی(متوفا ۶۶۳ق) نے چند احادیث سے استناد کرتے ہوئے تصریح کی ہے کہ مسلمان ہر زمانے اور ہر جگہ قبور کی زیارت کیلئے جاتے اور اپنے مرحومین کیلئے قرآن پڑھتے تھے ۔وہ اسے ایک تمام مسلمانوں کی ایک سنت سمجھتا ہے اور کہتا ہے کوئی اس سنت کا انکار نہیں ہوا ہے۔ درج ذیل ان روایات میں سے ہیں جن سے اس نے استناد کیا ہے :من مرّ علی المقابر و قرأ قل هو الله احد احدی عشر مرّة ثم وهب اجره للأموات، اعطی من الأجر بعدد الأموات اورمن دخل المقابر ثم قرأ فاتحة الکتاب و قل هو الله و الهیکم التکاثر ثم قال: أنی جعلت ما قرءت من کلامک لأهل المقابر من المؤمنین و المؤمنات، کانو شفعاء له الی الله تعالی[13]
  4. محی الدین نووی (متوفا ۶۷۶ق)، شارح[14] اور شافعی فقیہ کہتا ہے : شافعی اور اس کے اصحاب کی تمام اس بات پر متفق ہیں کہ مردوں کیلئے قبور کی زیارت کرنا مستحب ہے ۔وہ اجماع مسلمین کے علاوہ مشہور صحیح احادیث کو اس فتوے کی دلیل قرار دیتا ہے ۔ [15]
  5. تیرھویں صدی ہجری کے سید محمد امین معورف بنام ابن عابدین (متوفا ۱۲۵۲ق)، حنفی عالم دین ہر ہفتے زیارت قبور کو مستحب سمجھتا ہے ۔

اسلامی تہذیب میں زیارت قبور

اسلامی تہذیب میں زیارت قبور کو موت کی یاد آوری اور انسانی زندگی کی کم عمری کی طرف توجہ کا ایک ذریعہ سمجھا جاتا ہے ۔ ابن سینا (۳۷۰-۴۲۸ق) کتاب معنی الزیارة میں زیارت قبور کو امور دنیا میں غرق ہونے سے پرہیز کا موجب سمجھتا ہے اور اسے خدا کی طرف پلٹنے کا ایک وسیلہ قرار دیتا ہے ۔ [16]

فخر رازی (۵۴۴-۶۰۶ق)اہل سنت کے فقیہ، متکلم اور مفسر نے زیارت قبور کے فوائد شمار کئے اور وہ معتقد ہے کہ عقلمند انسان اس عمل سے فوائد حاصل کرتے ہیں ۔[17]

اسلامی تہذیب میں زیارت قبور اگرچہ صحابہ اور تابعین کے زمانے میں زیادہ مورد توجہ نہیں تھی ، لیکن تابعین کے زمانے آہستہ آہستہ اس عمل کی بجاآوری میں وسعت پیدا ہوئی ۔ محمد بن ابراہیم تیمی و عبدالله بن بریده ان تابعین میں سے ہیں کہ جنہوں نے رسول خدا کی زیارت قبور سے متعلق احادیث کے ذریعے اس تہذیب و تمدن کو پھیلانے میں بہت بڑا کردار ادا کیا ہے ۔ [18]

جبکہ عامر بن شراحیل شعبی اور ابراہیم نخعی ان افراد میں سے ہیں جو زیارت قبور کو صرف ناپسندیدہ ہی نہیں سمجھتے تھے بلکہ اسے منفور بهی سمجھتے تھے۔بعض روایات کے مطابق امام حسن مجتبی کے بیٹے زیارت قبور کے مخالف تھے ۔[19]

شیعہ روایات کے مطابق مرحومین اپنے رشتے داروں کی قبور پر آنے سے انس پیدا کرتے ہیں اور انکے اس عمل کی دوری سے تنگ دل ہو جاتے ہیں ۔ نیز دیگر روایات میں آیا ہے کہ مرحومین اپنے عزیزوں کی زیارت کیلئے آتے ہیں اور اگر عزیز اچھا سلوک اپنائیں تو خوشحال اور اگر برا سلوک اپنائیں تو غمناک ہوتے ہیں ۔[20]چوتھی صدی ہجری کے موجودہ آثار سے واضح ہوجاتا ہے کہ زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ نہ صرف زیارت قبور کا عمل ترک نہیں ہوا بلکہ اس میں اضافہ ہی ہوا ہے اور یہ ایک رائج سنت میں تبدیل ہو گئی ہے ۔[21]

عارف اور صوفی

عرفا اور اہل تصوف اہل سنت میں سے ہوں یا شیعہ ہوں،وہ زیارت قبور کو سلوک الی الله کا ایک حصہ سمجھتے ہیں اور انہوں نے اس عمل کے جواز کے مبانی اور دلائل کی اپنے آثار میں وضاحت کی ہے ۔ [22] شیخ کے مقبرے کی زیارت کرنا اور اس میں رات بسر کرنا مریدوں کے آداب اور ان کے اعتقادات میں سے ہے ۔[23] عبدالرحمان جامی کتاب نفحات الانس میں اہل سنت صوفیوں کی ان قبور کو شمار کرتا ہے کہ جن کی قبریں لوگوں کیلئے زیارتگاہیں ہیں اور لوگ ان سے تبرک حاصل کرنے کیلئے وہاں جاتے ہیں ۔؛ ان میں سے معروف کرخی (متوفا ۲۰۰ق) بغداد، ابراہیم ستنبہ ہروی ( قرن دوم ہجری میں با حیات) قزوین اور شیخ بہاءالدین عمر (متوفا ۸۵۷ق) عیدگاه دارالسلطنہ ہرات ہیں۔[24]

لاہور میں داتا گنج بخش ہجویری ،دہلی میں نظام الدین اولیا اور حیدرآباد دکن کے گلبرگہ میں مزار گیسودراز ان مزارات میں سے ہیں جہاں صرف مسلمان ہی نہیں جاتے بلکہ ہندو بھی وہان زیارت کیلئے جاتے ہیں ۔ [25] افریقا میں ایسے بقعہ ہیں جو مشایخ صوفیہ کے مدفن تھے اور وہاں عبادت کیلئے محراب،قرآن کی تلاوت اور زائرین کے اعتکاف کیلئے جگہیں ہیں جنہیں زاویہ کہتے ہیں ۔ [26] برخی از این مزارها در آفریقا میں موجود مزاروں میں سے بعض خواتین کے بھی مزار ہیں جنہوں نے ان زاویوں میں تعلیم حاصل کر کے اعلا مراتب حاصل کئے [27] اہل بیت کے بعض عزیزوں اور بعض شیعہ بزرگوں کے مزار مصر میں موجود ہیں اہل تصوف کی رسومات ادا کرنے کے مقام رہے ۔ ۱۳ویں صدی ہجری کا آخر اور مکمل ۱۴ویں صدی قمری میں مصر کے اہل تصوف کی اہم ترین علامت اہل بیت ، اولیا کے مزاروں اور مساجد میں جشن میلاد پیامبر کا برپا کرنا رہی ۔[28]

ابن تیمیہ اور زیارت قبور

ابن‎ تیمیہ (۶۶۱-۷۲۸ق)، ان پہلے افراد میں سے ہے جس نے زیارت قبر پیغمبر کیلئے سفر، قبر رسول خدا کے پاس دعا اور توسل کے حرام ہونے کے مسئلے کو بیان کیا ۔ اس کی رائے کے مطابق جس نے زیارت قبر رسول اکرم کے قصد سے سفر کیا اس نے اجماع مسلمین کی مخالفت کی اور ایسا شخص شریعت محمدی سے خارج ہو گیا ہے ۔ اسی طرح قبور کو چھونے ،چومنےاور ان پر اپنا چہرہ رکھنے کے بارے میں بھی ادعا کرتا ہے کہ تمام مسلمانوں نے اس سے منع کیا ہے اور سلف و بزرگان میں سے کسی نے ایسا کام نہیں کیا ہے ۔وہ ایسا کرنے کو شرک قرار دیتا ہے ۔[29]

ابن تیمیہ کے مطابق زیارت قبر پیغمبر(ص) کے قصد سے سفر کرنا سفر معصیت ہے اور ایسے سفر میں نماز قصر ہے [30]

سعودی عرب میں فتوا دینے والی کمیٹی اس ملک کا اعلا ترین دینی ادارہ ہے جو ابن ‎تیمیہ اور محمد بن عبدالوہاب کی پیروی کرتا ہے ۔اس نے زیارت قبور کے متعلق اعلان کیا ہے: زیارت قبر پیامبر کے قصد سے مدینہ کا سفر جائز نہیں ہے ،اگر کوئی کسی اور کام مثلا تجارت یا طلب علم یا اس جیسے کسی اور کام کیلئے یہاں آتا ہے تو مخصوص شرائط کے ساتھ قبر پیغمبر کی زیارت کر سکتا ہے ۔ اس کمیٹی نے اس فتوے کے اجرا کیلئے حدیث شدّ رحال سے استناد کیا ہے ۔اسی طرح اس فتوے میں پیغمبر کی وفات کے بعد دعا اور رسول اللہ(ص) سے استغاثے کو دوسرے مردوں کی مانند قرار دیا ہے اور اسے شرک اکبر سے ملحق کیا ہے ۔ [31]

روایات شدّ رحال

اکثر مسلمانوں کے برخلاف ایک مختصر سا گروہ روایات شدّ رحال سے تمسک کی بنا پر قبور پیامبروں، اماموں اور اولیائے کرام کی قبور کی زیارت کیلئے سفر کے قصد کو حرام، مکروه یا شرعی دلیل کے بغیر سمجھتے ہیں ۔ اس روایت کا متن اہل سنت منابع جیسے صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ابن ماجہ اور بعض دیگر منابع میں اس طرح آیا ہے : لاتُشَدُّ الرِّحَالُ إِلاَّ إِلَی ثَلاثَةِ مَسَاجِد: المَسْجِدِ الحَرَام وَمَسْجِدِی هَذَا وَالمَسْجِدِ الأَقْصَی صرف تین مساجد: مسجدالحرام، میری مسجد اور مسجدالاقصی کیلئے رخت سفر باندھنا جائز ہے .»[32]

زیارت کے جائز نہ ہونے کا اہم ترین مخالف ابن تیمیہ اپنی کتاب الزیارة میں لکھتا ہے :

صحیحین میں آنے والی روایت :صرف تین مساجد: مسجدالحرام، میری مسجد اور مسجدالاقصی کیلئے رخت سفر باندھنا جائز ہے، کی وجہ سے پیغمبروں اور صالح افراد کی قبور کی زیارت کیلئے سفر کرنا جائز نہیں ہے۔اس حدیث کے صحیح اور اس پر عمل کرنے میں تمام علماء متفق ہیں ۔

ایک اور جگہ لکھتا ہے : رسول اکرم سے انکی قبر کی زیارت کے متعلق ایک بھی معتبر روایت ہم تک نہیں پہنچی اور جو کچھ بھی اس سلسلے میں ہم تک پہنچا ہے وہ ضعیف ہے یا جعلی ہے ۔[33]

مختلف مذاہب اسلامی کے بہت سے علما نے ابن تیمیہ کے جواب اور اسکے اس ادعا کے رد میں تالیفات لکھی ہیں ۔ [34]

ابن تیمیہ کے نظریے کی رد میں مسلم تالیفات

  • الجوهر المنظم فی زیاره القبر الشریف النبوی المکرم تالیف ابن حجر هیثمی شافعی
  • اتحاف الزائر و اطراف المقیم للسائر فی زیاره النبی صلی الله علیه و سلم تالیف ابن عساکر شافعی
  • آراء اهل السنه فی ابن تیمیه تالیف حسن بن علی سقاف شافعی
  • محق التقول فی مساله التوسل تالیف محمد زاهد کوثری حنفی
  • تعریف الانام فی التوسل بالنبی و زیارته علیه الصلاه و السلام تالیف محمد بن محمد فاسی مالکی
  • شفاء الفؤاد بزیاره خیر العباد تالیف محمد حسنی مالکی
  • کتاب الدره الثمینه فیما لزائر النبی صلی الله علیه و سلم الی المدینه المنوره تالیف احمد بن محمد قشاشی مالکی

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. محمدی‌ نژاد، زیارت قبور و سفرہای زیارتی از نگاه اہل سنت، زمستان ۱۳۹۳، ص۱۴۷-۱۴۸
  2. فرمانیان و صداقت، زیارت قبور و دلائل عالمان شیعہ بر مشروعیت آن، بہار ۱۳۹۲، ص۱۴۲-۱۴۴
  3. فرمانیان و صداقت، زیارت قبور و دلایل عالمان شیعہ بر مشروعیت آن، بہار ۱۳۹۲، ص۱۴۶-۱۴۷
  4. فرمانیان و صداقت، زیارت قبور و دلایل عالمان شیعہ بر مشروعیت آن، بہار ۱۳۹۲، ص۱۴۸
  5. فرمانیان و صداقت، زیارت قبور و دلایل عالمان شیعہ بر مشروعیت آن، بہار ۱۳۹۲، ص۱۴۸-۱۴۹
  6. فرمانیان و صداقت، زیارت قبور و دلایل عالمان شیعہ بر مشروعیت آن، بہار ۱۳۹۲، ص۱۴۹
  7. حدثنا يحيى بن يحيى التيمي ويحيى بن أيوب وقتيبة بن سعيد (قال يحيى بن يحيى: أخبرنا. وقال الآخران: حدثنا اسماعيل بن جعفر) عن شريك (وهو ابن أبي نمر) عن عطاء بن يسار، عن عائشة؛ أنها قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم (كلما كان ليلتها من رسول الله صلى الله عليه وسلم) يخرج من آخر الليل إلى البقيع. فيقول: السلام عليكم دار قوم مؤمنين. وأتاكم ما توعدون غدا. مؤجلون. وإنا، إن شاء الله، بكم لاحقون. اللهم اغفر لأهل بقيع الغرقد. صحیح مسلم، دارالفکر بیروت، ج۳، ص۶۳
  8. فرمانیان و صداقت، زیارت قبور و دلایل عالمان شیعہ بر مشروعیت آن، بہار ۱۳۹۲، ص۱۵۱
  9. فرمانیان و صداقت، زیارت قبور و دلایل عالمان شیعہ بر مشروعیت آن، بہار ۱۳۹۲، ص۱۵۲
  10. فرمانیان و صداقت، زیارت قبور و دلایل عالمان شیعہ بر مشروعیت آن، بہار ۱۳۹۲، ص۱۵۳
  11. محمدی‌ نژاد، زیارت قبور و سفرہای زیارتی از نگاه اہل سنت، زمستان ۱۳۹۳، ص۱۳۵
  12. محمدی‌ نژاد، زیارت قبور و سفرہای زیارتی از نگاه اہل سنت، زمستان ۱۳۹۳، ص۱۳۶
  13. محمدی‌ نژاد، زیارت قبور و سفرہای زیارتی از نگاه اہل سنت، زمستان ۱۳۹۳، ص۱۳۶
  14. صحیح مسلم
  15. محمدی‌ نژاد، زیارت قبور و سفرهای زیارتی از نگاه اہل سنت، زمستان ۱۳۹۳، ص۱۳۶
  16. آبراہامف، توجیہ فلسفی فخر الدین رازی از زیارت قبور، اسفند ۱۳۸۰، ص۸۷
  17. آبراہامف، توجیہ فلسفی فخر الدین رازی از زیارت قبور، اسفند ۱۳۸۰، ص۸۷
  18. خانی، مفہوم زیارت و جایگاه آن در فرہنگ اسلامی، ۱۳۹۲ش
  19. خانی، مفہوم زیارت و جایگاه آن در فرہنگ اسلامی، ۱۳۹۲ش
  20. خانی، مفہوم زیارت و جایگاه آن در فرہنگ اسلامی، ۱۳۹۲ش
  21. خانی، مفہوم زیارت و جایگاه آن در فرہنگ اسلامی، ۱۳۹۲ش
  22. صداقت، شائستگی زیارت اہل قبور، عقیده مشترک عارفان و صوفیان تشیع و تسنن، تابستان ۱۳۹۱، ص۹۴
  23. صداقت، شایستگی زیارت اہل قبور، عقیده مشترک عارفان و صوفیان تشیع و تسنن، تابستان ۱۳۹۱، ص۹۴
  24. صداقت، شایستگی زیارت اہل قبور، عقیده مشترک عارفان و صوفیان تشیع و تسنن، تابستان ۱۳۹۱، ص۹۴
  25. صداقت، شایستگی زیارت اہل قبور، عقیده مشترک عارفان و صوفیان تشیع و تسنن، تابستان ۱۳۹۱، ص۹۷
  26. صداقت، شایستگی زیارت اہل قبور، عقیده مشترک عارفان و صوفیان تشیع و تسنن، تابستان ۱۳۹۱، ص۹۷
  27. صداقت، شایستگی زیارت اہل قبور، عقیده مشترک عارفان و صوفیان تشیع و تسنن، تابستان ۱۳۹۱، ص۹۸
  28. صداقت، شایستگی زیارت اہل قبور، عقیده مشترک عارفان و صوفیان تشیع و تسنن، تابستان ۱۳۹۱، ص۹۷
  29. عباسی، رد نظر وہابیت از سوی اہل سنت در حرمت زیارت قبور، پاییز و زمستان ۱۳۹۱، ص۱۰۰ و ۱۰۱
  30. عباسی، رد نظر وہابیت از سوی اہل سنت در حرمت زیارت قبور، پاییز و زمستان ۱۳۹۱، ص۱۰۱
  31. عباسی، رد نظر وہابیت از سوی اہل سنت در حرمت زیارت قبور، پاییز و زمستان ۱۳۹۱، ص۱۰۱
  32. عباسی قدم، بررسی متنی و سندی روایت شد رحال، ۱۳۹۱، ص۱۹۲-۱۹۳
  33. عباسی مقدم، بررسی متنی و سندی روایت شد رحال، ۱۳۹۱، ص۱۹۳
  34. عباسی مقدم، بررسی متنی و سندی روایت شد رحال، ۱۳۹۱، ص۱۹۳

مآخذ

  • آبراہامف، بنیامین، عروج‌ نیا، پروانہ، «توجیہ فلسفی فخرالدین رازی از زیارت قبور»، در فصلنامہ معارف، اسفند ۱۳۸۰ش، شماره ۵۴.
  • خانی، حامد، «مفہوم زیارت و جایگاه آن در فرہنگ اسلامی»، در جستاری در ادعیہ رضویہ با تأکید بر الصحیفہ الرضویہ الجامعہ، تہران، دانشگاه امام صادق، چاپ اول، ۱۳۹۲ش.
  • صداقت، مجتبی، «شایستگی زیارت اہل قبور، عقیده مشترک عارفان و صوفیان تشیع و تسنن»، در مجلہ ہفت آسمان، تابستان ۱۳۹۱ش، شماره ۵۴.
  • عباسی، حبیب، «رد نظر وہابیت از سوی اہل سنت در حرمت زیارت قبور»، در مجلہ سراج منیر، پاییز و زمستان ۱۳۹۱ش، شماره ۷ و ۸.
  • عباسی مقدم، مصطفی، «بررسی متنی و سندی روایت شد رحال»، در مجلہ حدیث‌ پژوہی، پاییز و زمستان ۱۳۹۱ش، شماره ۸.
  • فرمانیان، مہدی، صداقت، مجتبی، «زیارت قبور و دلایل عالمان شیعہ بر مشروعیت آن»، در مجلہ شیعہ شناسی، بہار ۱۳۹۲ش، شماره ۴۱.