حسد

ویکی شیعہ سے
اخلاق
اخلاقی آیات
آیات افکآیہ اخوتآیہ اطعامآیہ نبأآیہ نجواآیہ مشیتآیہ برآیہ اصلاح ذات بینآیہ ایثار
اخلاقی احادیث
حدیث قرب نوافلحدیث مکارم اخلاقحدیث معراجحدیث جنود عقل و جہل
اخلاقی فضائل
تواضعقناعتسخاوتکظم غیظاخلاصخشیتحلمزہدشجاعتعفتانصافاصلاح ذات البینعیب‌پوشی
اخلاقی رذائل
تکبرحرصحسددروغغیبتسخن‌چینیتہمتبخلعاق والدینحدیث نفسعجبعیب‌جوییسمعہقطع رحماشاعہ فحشاءکفران نعمت
اخلاقی اصطلاحات
جہاد نفسنفس لوامہنفس امارہنفس مطمئنہمحاسبہمراقبہمشارطہگناہدرس اخلاقاستدراج
علمائے اخلاق
ملامہدی نراقیملا احمد نراقیمیرزا جواد ملکی تبریزیسید علی قاضیسید رضا بہاءالدینیسید عبدالحسین دستغیبعبدالکریم حق‌شناسعزیزاللہ خوشوقتمحمدتقی بہجتعلی‌اکبر مشکینیحسین مظاہریمحمدرضا مہدوی کنی
اخلاقی مآخذ
قرآننہج البلاغہمصباح الشریعۃمکارم الاخلاقالمحجۃ البیضاءرسالہ لقاءاللہ (کتاب)مجموعہ وَرّامجامع السعاداتمعراج السعادۃالمراقبات

حسد یعنی دوسروں کو دی گئی نعمتوں کے ختم ہونے کی آرزو کرنا یہ ایک بہت ہی بری صفت ہے۔ حسد کا لفظ اور اس کے مشتقات قرآن کریم میں چار بار استعمال ہوئے ہیں اور بہت سی حدیث بیان ہوئی ہیں جس میں حسد کی مذمت کی گئی ہے اور اسے گناہ کہا گیا ہے۔ حدیث رفع کے مطابق، اگر حسد کا ظاہری اثر نہ ہو تو گناہ نہیں اور اس کی سزا نہیں ملے گی۔

"بَيْنَما مُوسَى بْنُ عِمْرانَ يُناجِى رَبَّهُ وَ يُكَلِّمُهُ اذْ رَأى‏ رَجُلًا تَحْتَ ظِلِّ عَرْشِ اللَّهِ، فَقالَ: يا رَبِّ مَنْ هذا الَّذى قَدْ أظَلَّهُ عَرْشُكَ؟ فَقالَ: يا مُوسى، هذا مِمَّنْ لَمْ يَحْسُدِ النّاسَ عَلى ما آتاهُمُ اللَّهُ مُنْ فَضْلِهِ"
موسی بن عمران مناجات اور خدا سے گفتگو میں مشغول تھے کہ ایک مرد کوعرش خدا کے سائے میں دیکھا، عرض کی: الہی! یہ کون ہے جو تیرے عرش کے سائے میں ہے؟ خطاب ہوا: اے موسی! یہ وہ ہے کہ جب میں نے لوگوں کو نعمتیں عطا کیں تو اس نے حسد نہیں کیا۔

بحار الانوار، ج٧٠، ص٢٤٥۔

لفظی اور اصطلاحی معنی

حسد کا معنی یعنی دوسروں کو عطا کردہ نعمتوں کے ختم ہونے کی آرزو کرنا۔ بعض مفسرین نے حسد کا یوں معنی کیا ہے کہ جیسے کہ ایک چیز کو دوسری چیز کے اوپر رکھ کر اتنا رگڑا جائے کی خراش آ جائے۔[1] بعض علماء لغت نے حسد کے اصلی لفظ کو حسدل سے لیا ہے جس کا معنی کھٹمل بنتا ہے۔ جس طرح کھٹمل انسان کو بدن کو زخمی کرکے اس کا خون چوستا ہے اسی طرح حسد بھی حسد کرنے والے شخص سے یہی کام کرتا ہے۔ [2] فی الواقع حسد ایسے شخص کا انتہائی عمل سمجھا جاتا ہے جو دوسروں کی خوشبختی نہیں دیکھ سکتا۔ [3] حسد کی تعریف، حسود شخص چاہتا ہے کہ نعمتیں صرف اپنے لئے ہوں اور دوسرے ان نعمتوں سے محروم ہوں۔[4]لیکن اسی کی جامع تعریف یہ ہو گی کہ، حسود شخص دوسروں کی نعمتوں کو ختم کرنے کی آرزو کرتا ہے اگرچہ اس کام میں اس کو جتنی ہی کوشش کیوں نہ کرنی پڑھے۔[5] اگرچہ اہل علم نے حسد کے لئے مراتب ذکر کیے ہیں۔ [6] لیکن یہی تعریف حسد کے مراتب کی طرف اشارہ کرنے کے لئے کافی ہے۔ معنی کے لحاظ سے رشک اور حسد ایک دوسرے کے قریب ہیں، لیکن فرق یہ ہے کہ رشک میں انسان دوسروں کی نعمتوں کے ختم ہونے کی آرزو نہیں کرتا، بلکہ صرف یہ چاہتا ہے کہ کاش یہ نعمتیں اس کے پاس بھی ہوتیں، اس لئے رشک کو ایک پسندیدہ صفت کہا گیا ہے۔

قرآن میں

حسد اور اس کے مشتقات قرآن میں چار آیت میں استعمال ہوئے ہیں۔ [7] سورہ بقرہ کی آیت ١٠٩ میں آیا ہے اہل کتاب [8] کے دل میں جو حسد ہے، وہ چاہتے ہیں کہ مومنین بھی اس کفر کو اختیار کریں۔ اور سورہ نساء کی آیت ٥٤ میں حسادت کے بارے میں بحث کی گئی ہے۔ آیات کی سیاق اور مفسرین کی تفسیر سےپتہ چلتا ہے کہ یہ آیت، [9]حضرت پیغمبرؐ کے زمانے کے بعض یہودیوں کے بارے میں ہے کہ جو اسلام کی شوکت اور اس کے زیادہ چاہنے والوں سے حسد کرتے تھے۔ بعض آیات میں حسد کا لفظ یا اس کے مشتقات استعمال نہیں ہوئے لیکن اس کے معنی سے پتہ چلتا ہے کہ یہ حسد کے بارے میں ہیں۔[10] مثال کے طور پر، سورہ نساء کی آیت ٣٢ میں مومنوں کو حکم دیا گیا ہے کہ جو کچھ خدا نے انکو دیا ہے اس پر راضی رہیں اور جو دوسروں کو دیا ہے اس کی حسرت نہ کھائیں۔ اس کا نتیجہ یہی ہے کہ اگر کوئی ایسا نہ کرے، تو اس کا مطلب ہے اس میں حسد پیدا ہو رہا ہے۔ [11] کسی کی خوشی سے غمگین ہونا اور کسی کی بدبختی پر خوش ہونا، کہ جیسا سورہ آل عمران کی آیت ١٢٠ بھی اسی بارے میں ہے، اس کا معنی بھی حسد کا ہی ہے۔ [12] سورہ یوسف کی آیت ٨ میں حضرت یعقوب کی حضرت یوسف کے ساتھ بے انتہا محبت کی وجہ سے یوسفؑ کے بھائیوں کی آپ سے شدید نفرت کو بیان کیا گیا ہے اورقرآن کی اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک شیطانی رفتار ہے۔[13] قرآن میں بعض وقت بغی کا لفظ بھی حسد کے معنی میں آیا ہے۔ [14] سیوطی کے بقول [15] بغی تمیمی کے لحجہ کے مطابق حسد کے معنی میں ہے۔ فخر رازی[16] نے بعض قرآنی آیات کو ذکر کیا ہے کہ جس سے ظاہر ہوتا ہے ان میں حسد کے بارے میں بحث ہوئی ہے۔

احادیث میں

"إنَّ الْحَسَدَ يَأْكُلُ الإْيمانَ كَما تَأْكُلُ النّارُ الْحَطَبَ"
حسد ایمان کوایسے کھاتا ہے، جیسے آگ لکڑی کو۔

کافی،ج٢،ص٣٠٦

حسد سے دور رہنے اور اس کی نشانیوں کے بارے میں بہت حدیث نقل ہوئی ہیں۔ مشہور حدیث میں، حسد کو آگ سے تشبیح دی گئی ہے کہ جیسے لکڑی آگ کو کھا جاتی ہے اسی طرح سے حسد آدمی کی نیکیوں کو تباہ کر دیتا ہے۔[17] حدیث نبوی میں آیا ہے کہ حسد ایک ایسی صفت ہے کہ کوئی بھی اس سے محفوظ نہیں ہے۔ [18] امام صادقؑ کی حدیث کے مطابق [19] حسد ایک ایسی صفت ہے کہ حتی پیغمبر یا ان سے نیچے درجہ رکھنے والے افراد بھی اس سے محفوظ نہیں ہیں، مگر وہ افراد جو مومن ہیں وہ حسد کو اپنے عمل میں داخل نہیں دیتے۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے، حسد وہ پہلا گناہ ہے کہ آسمانوں پر ابلیس اور زمین پر قابیل اس کا مرتکب ہوا ہے۔ [20]

مومنوں سے حسد کا حکم اٹھایا گیا ہے

حدیث رفع میں ذکر ہوا ہے کہ خدا نے مومنوں کے حق میں لطف کیا ہے اور وہ یہ کہ ان کے اس گناہ سے درگذر فرمایا ہے۔ اس حدیث کی شرح میں، کہا گیا ہے کہ یہاں حسد سے مراد ایسا حسد جو کہ دل میں موجود ہے جو اعمال میں ظاہر نہ ہوا ہو اس کی سزا نہیں ہے۔

رشک اور حسد کے درمیان فرق

"إنَّ الْمُؤْمِنَ يَغْبِطُ وَ لا يَحْسُدُ، وَ الْمُنافِقُ يَحْسُدُ وَ لا يَغْبِطُ"
مومن رشک کھاتا ہے، حسد نہیں کرتا، لیکن منافق رشک نہیں کرتا بلکہ حسد کرتا ہے۔

کافی،ج٢ص:٣٠٧

رشک اور حسد کے معنی میں یہ فرق ہے کہ۔ [21]انسان رشک میں دوسروں کی نعمتوں کے زائل ہونے کی آرزو نہیں کرتا، بلکہ صرف یہ چاہتا ہے کہ کاش وہ بھی ان نعمات سے بہرہ مند ہوتا۔ [22] رشک حسد کے مقابلے میں ایک اچھی صفت ہے، [23] جیسے کہ روایت میں رشک کو صراحت کے ساتھ مومنین کی صفت کہا گیا ہے جب کہ حسد کو منافق کی خصلت کہا ہے۔ [24] غزالی کہتا ہے کہ بعض جگہ پر یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ استعمال ہوتے ہیں [25] اور نمونے کے طور پر اس نے ایک حدیث ذکر کی ہے۔ [26]

بری نظر کا حسد سے رابطہ

بری نظر کا حسد کے ساتھ بہت گہرا رابطہ ہے۔ بعض روایات میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ [27] مفسران کے نزدیک سورہ فلق کی آیت٥ اسی بارے میں ہے کہ جس میں حسود کی حسادت کو ذکر کیا گیا ہے۔[28]

غزالی کی نگاہ میں حسد

غزالی [29] کی نگاہ میں حسد ٧ چیزوں میں ہے: دشمنی اور کینہ رکھنا، اپنے اوپراترانا، غروراور تکبر، دوسروں کے مال پر متعجب ہونا، اپنے مال کے ضائع ہونے کا ڈر، حکمیت اور شہرت کا شوق، نفس کی خباثت۔[30] اس میں ایک نکتے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے: کہ حسد کا ریشہ در اصل دل کے اندر ہے اس لئے اسے قلب کی صفت کہا گیا ہے۔ یہ دلی صفت بعض اوقات جب انسان کی زبان یا رفتار میں ظاہر ہوتی ہے تب انسان ایک برے گناہ میں مرتکب ہوتا ہے اس وقت اسے چاہیے کہ اپنے گناہ کی معافی مانگے (یجب الاستحلال منھا) لیکن بعض اوقات حسد صرف دل کے اندر ہی رہتا ہے، اس صورت میں انسان فقط اپنے اور خدا کے درمیان گناہ کا مرتکب ہوتا ہے۔

حسد سے محفوظ رہنے کا طریقہ

علم اخلاق کے دانشوروں نے غزالی کی پیروی کرتے ہوئے،[31] حسد کی بیماری کے علاج کے لئے دو علمی طریقے ذکر کئے ہیں۔ [32] ابن عربی[33] نے حسد کو ایک ذاتی اور دلی صفت کہا ہے اور اس کے ختم ہونے کو ممکن کہا ہے۔ [34] امام صادقؑ کی روایت، کہ جس میں حسد کو انسان کے خون اور گوشت میں رچا ہوا کہا گیا ہے،[35] اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک ذاتی اور فطری صفت ہے۔ عرفانی نکتہ نگاہ نگاہ سے قیامت کے دن انسان سے دس مرحلوں میں سے آٹھویں مرحلے پر حسد کے بارے میں سوال کیا جائے گا اور اگر حسد نہ کیا ہو گا تو نویں مرحلے کی طرف جا سکے گا اور عرش الہی کے نزدیک ہو جائے گا۔ [36]

حوالہ جات

  1. ملاحظہ کریں: ثعلبى؛ ابوالفتوح رازى، ذیل بقره: ۱۰۹
  2. ملاحظہ کریں: ازهرى؛ ابن‌منظور؛ زبیدى، ذیل واژه
  3. ارسطو، ص ۷۱
  4. جرجانى، ص ۹۲
  5. یحیی‌بن عدى، ص ۱۹؛ راغب اصفہانى، ذیل واژه
  6. رجوع کریں غزالى، ۱۴۱۷، ج ۳، ص ۲۰۴؛ فیض کاشانى، ج ۵، ص ۳۳۴؛ نراقى، ج ۲، ص ۲۰۴ـ۲۰۵
  7. رجوع کریں بقره: ۱۰۹؛ نساء: ۵۴؛ فتح: ۱۵؛ فلق: ۵
  8. که مفسران منظور از آنان را یہودیان می‌دانند، رجوع کریں، ابوالفتوح رازى؛ فخررازى، ذیل آیہ
  9. رجوع کریں طبرى؛ طوسى؛ ابوالفتوح رازى؛ فخر رازى، ذیل آیہ
  10. براى اطلاع از پاره‌اى از این آیات رجوع کریں غزالى، ۱۴۱۷، ج ۳، ص ۲۰۲؛ فخررازى، ذیل بقره: ۱۰۹
  11. فخررازى، ذیل آیہ؛ نیز رجوع کریں زحیلى، ذیل آیہ
  12. فخر رازى، ذیل بقره: ۱۰۹
  13. ہمانجا
  14. جوع کریں دامغانى، ص ۱۶۶؛ تفلیسى، ص ۴۸
  15. سیوطی، ج ۲، ص ۱۲۱
  16. همانجا
  17. ابن‌ماجہ، ج ۲، ص ۱۴۰۸؛ ابوداوود، ج ۴، ص ۲۷۶
  18. ماوردى، ص ۲۶۶
  19. کلینى، ج ۸، ص ۱۰۸
  20. ماوردى، ص ۲۶۱
  21. غزالى، ۱۴۱۷، ج ۳، ص ۲۰۲ـ۲۰۳
  22. نراقى، ج ۲، ص ۲۰۲ـ ۲۰۳
  23. رجوع کریں ماوردى، ص ۲۶۲
  24. راغب اصفہانى، ہمانجا؛ مجلسى، ج ۷۰، ص ۲۵۰
  25. غزالی، ۱۴۱۷، ج ۳، ص ۲۰۲
  26. رجوع کریں ۱۳۶۴ش، ج ۱، ص ۱۲۷؛ نیز رجوع کریں فخررازى، ہمانجا
  27. براى نمونه رجوع کنید به مجلسى، همانجا
  28. براى نمونه رجوع کنید به طبرى؛ طوسى؛ فخررازى، ذیل آیه
  29. غزالی، ۱۴۱۷، ج ۳، ص ۲۰۴ـ۲۰۶
  30. رجوع کریں مجلسى، ج ۷۰، ص ۲۴۰؛ نراقى، ج ۲، ص ۲۰۵ـ۲۰۸؛ امام‌خمینى، ص ۱۰۷
  31. غزالی، ۱۴۱۷، ج ۳، ص ۲۰۸ـ ۲۱۲
  32. رجوع کنید به فیض کاشانى، ج ۵، ص ۳۴۲ـ ۳۴۸؛ نراقى، ج ۲، ص ۲۱۲ـ۲۱۵
  33. ابن عربی، سفر ۲، ص ۳۴۴
  34. نیز رجوع کنید به گوهرین، ج ۴، ص ۲۱۳
  35. رجوع کنید به مجلسى، ج ۷۰، ص ۲۵۳
  36. رجوع کنید به ابن‌عربى، سفر۴، ص ۴۳۹ـ۴۴۰


مآخذ

  • ابن‌عربى، الفتوحات المکیۃ، چاپ عثمان یحیى، قاہره، سفر۲، ۱۴۰۵/ ۱۹۸۵، سفر۴، ۱۳۹۵/ ۱۹۷۵۔
  • ابن‌ماجہ، سنن ابن‌ماجۃ، چاپ محمدفؤاد عبدالباقى، قاہره ۱۳۷۳/ ۱۹۵۴، چاپ افست، بیروت، بی‌تا۔
  • ابن‌منظور، لسان‌العرب، چاپ على شيرى، بيروت ۱۴۱۲/۱۹۹۲۔
  • ابوالفتوح رازى، روض‌الجنان و روح‌الجنان فى تفسیر القرآن، چاپ محمدجعفر یاحقى و محمدمہدى ناصح، مشہد ۱۳۶۵ ـ ۱۳۷۶ش۔
  • احمدبن محمد ثعلبى، الکشف و البیان، المعروف تفسیر الثعلبى، چاپ على عاشور، بیروت ۱۴۲۲/ ۲۰۰۲۔
  • احمدبن محمد میدانى، مجمع الامثال، مشہد ۱۳۶۶ش۔
  • ارسطو، اخلاق نیکوماخوس، ترجمہ محمدحسن لطفى، تہران ۱۳۷۸ش۔
  • امام خمینى، شرح چہل حدیث (اربعین حدیث)، تہران، ۱۳۷۳ش۔
  • حبیش‌ بن ابراہیم تفلیسى، وجوه قرآن، چاپ مہدى محقق، تہران ۱۳۵۹ش۔
  • حسین‌ بن محمد دامغانى، الوجوه و النظائر فی‌القرآن، چاپ اکبر بہروز، تبریز ۱۳۶۶ش۔
  • حسین‌ بن محمد راغب‌اصفہانى، المفردات فى غریب القرآن، چاپ محمد سیدکیلانى، بیروت، بی‌تا۔
  • نجفی، محمد حسن، جواہرالکلام‌ فی‌ شرح‌ شرائع‌ الاسلام‌، قم، ‌۱۴۱۷ق۔
  • سلیمان‌بن اشعث ابوداوود، سنن ابی‌داود، چاپ محمدمحیی‌الدین عبدالحمید، قاہره، بی‌تا۔ چاپ افست، بیروت، بی‌تا۔
  • صادق گوہرین، شرح اصطلاحات تصوف، تہران ۱۳۶۷ـ ۱۳۷۸ ش۔
  • طبرى، محمدبن‌جرير، جامع‌البيان‌عن‌تأويل آى‌القرآن، مصر۱۳۷۳/۱۹۵۴۔
  • طوسى، محمدبن‌حسن، التبيان‌فى‌تفسيرالقرآن، چاپ احمد حبيب قصيرعاملى،بيروت [بى‌تا۔]۔
  • عبدالرحمان‌بن ابی‌بکر سیوطى، الاتقان فى علوم القرآن، چاپ محمدابوالفضل ابراہیم، قاہره ۱۹۶۷، چاپ افست قم ۱۳۶۳ش۔
  • علی‌اکبر دہخدا، امثال و حکم، تہران ۱۳۶۳ش۔
  • علی‌بن محمد جرجانى، کتاب التعریفات، چاپ گوستاو فلوگل، لایپزیگ ۱۸۴۵، چاپ افست بیروت ۱۹۷۸۔
  • علی‌بن محمد ماوردى، ادب الدنیا والدین، چاپ مصطفى سقا، قاهره ۱۴۰۷/ ۱۹۸۶، چاپ افست بیروت، بی‌تا۔
  • فیض کاشانی، محمد بن شاه مرتضی، الحقایق، تصحیح و تحقیق: عبدالله غفرانی، ناشر، مدرسہ عالی شہید مطہری، تہران، ۱۳۸۷ش۔
  • قرآن۔
  • کلینى، محمدبن يعقوب، الكافى، چاپ على‌اكبر غفارى، بيروت ۱۴۰۱۔
  • مجلسى، محمدباقربن محمدتقى، بحارالانوار، بيروت ۱۴۰۳/۱۹۸۳۔
  • محمدبن احمد ازہرى، تہذیب‌اللغۃ، ج ۴، چاپ عبدالکریم عزباوى، قاہره، بی‌تا۔
  • محمدبن شاه مرتضى فیض‌کاشانى، المحجۃ البیضاء فى تہذیب الاحیاء، چاپ علی‌اکبر غفارى، بیروت ۱۴۰۳/۱۹۸۳۔
  • محمدبن عمرفخررازى، التفسیر الکبیر، بیروت ۱۴۲۱/۲۰۰۰۔
  • محمدبن محمد زبیدى، تاج‌العروس من جواہرالقاموس، چاپ على شیرى، بیروت ۱۴۱۴/۱۹۹۴۔
  • محمدبن محمد غزالى، احیاء علوم‌الدین، بیروت ۱۴۱۷/۱۹۹۶۔
  • محمدمہدی ‌بن ابی‌ذر نراقى، جامع السعادات، چاپ محمد کلان‌تر، نجف ۱۳۸۷/۱۹۶۷، چاپ افست بیروت، بی‌تا۔
  • وہبه مصطفى زحیلى، التفسیر المنیر فى العقیدة و الشریعۃ و المنہج، بیروت ۱۴۱۸/ ۱۹۹۸۔
  • ہمو، کیمیاى سعادت، چاپ حسین خدیوجم، تہران ۱۳۶۴ش۔
  • یحیی‌بن عدى، تہذیب‌الاخلاق، با مقدمہ و تصحیح و ترجمہ و تعلیق محمد دامادى، تہران ۱۳۶۵ش۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، الخصال، تصحیح علی اکبر غفاری، جامعہ مدرسین، ۱۴۰۳ ق۔
  • فیض کاشانی، ملا محمد محسن، المحجۃ البیضاء فی تہذیب الاحیاء، تصحیح و تعلیق: علی اکبر غفاری، دفتر انتشارات اسلامی، قم، الطبعۃ الثانیة، ۱۳۸۳ش۔
  • نراقی، احمد، معراج السعادة، قم، ہجرت، ۱۳۷۷ ش۔