توسل

فاقد تصویر
غیر سلیس
غیر جامع
تلخیص کے محتاج
ویکی شیعہ سے
شیعہ عقائد
‌خداشناسی
توحیدتوحید ذاتیتوحید صفاتیتوحید افعالیتوحید عبادیصفات ذات و صفات فعل
فروعتوسلشفاعتتبرک
عدل (افعال الہی)
حُسن و قُبحبداءامر بین الامرین
نبوت
خاتمیتپیامبر اسلام اعجازعدم تحریف قرآن
امامت
اعتقاداتعصمت ولایت تكوینیعلم غیبخلیفۃ اللہ غیبتمہدویتانتظار فرجظہور رجعت
ائمہ معصومینؑ
معاد
برزخمعاد جسمانی حشرصراطتطایر کتبمیزان
اہم موضوعات
اہل بیت چودہ معصومینتقیہ مرجعیت


قرب خداوندی اور اپنی حاجات کی تکمیل کے لئے خدا کے نزدیک اعلی قدر و منزلت کے حامل شخص یا مقام کو وسیلہ بنانے اور اس کا سہارا لینے کو توسّل کہتے ہیں۔ شیعہ اور مسلمانوں کی اکثریت توسل کے معتقد ہیں۔ توسل اور شفاعت کے درمیان قریبی تعلق ہونے کی وجہ سے انہیں عام طور پر ایک ساتھ ذکر کیا جاتا ہے۔

پیغمبر اکرمؐ اور آئمۂ اہل بیتؑ سے توسل کرنا شیعیان اہل بیتؑ کے نمایاں عقائد میں سے ہے اور قرآن کریم میں خداوند متعال کے فرامین اور رسول خداؐ اور اہل بیتؑ سے منقولہ متعدد احادیث کی بنا پر توسل ان کے نزدیک بہت اہمیت رکھتا ہے۔ ماثورہ دعاؤں اور ائمہ کی زیارتوں سے توسل کے متعلق شیعہ تعلیمات میں بہت سے مضامین پائے جاتے ہیں جن میں سے جامع ترین "دعائے توسل" ہے نیز دعائے کمیل اور قبور ائمہؑ کی زیارت توسل کے مصادیق میں سے ہیں جو اہل تشیّع کے درمیان رائج ہیں۔

چونکہ بڑے اہداف کے حصول کے لئے اسباب سے توسل ـ خواہ انسان کی مادی زندگی میں یا معنوی حیات میں- قدرتی اور منطقی اور عقلی نقطہ نظر سے بھی ایک پسندیدہ اور ضروری امر ہے اور مسلمانوں کی روش و سیرت بھی قدیم سے یہی رہی ہے۔ آٹھویں صدی ہجری سے قبل کوئی بھی مسلمان توسل کی شرعی حیثیت میں شک و شبہہ روا نہیں رکھتا تھا۔ دور معاصر میں وہابیوں نے ابن تیمیہ کی پیروی کرتے ہوئے توسل کے بارے میں بعض شبہات و اعتراض پیدا کئے ہیں جنہیں اہل تشیع اور اہل سنت کی غالب اکثریت نے ناقابل قبول قرار دیا ہے۔

مفہوم شناسی

توسل کسی چيز یا شخص کی قربت حاصل کرنے کیلئے کوئی کام انجام دینے کے ہیں۔[1] اور اصطلاح میں "توسل" سے مراد ـ حاجت برآری اور دعاء کی اجابت کے لئے بارگاہ رب العزت میں ـ امور خیر اور صالح افراد، کو واسطہ قرار دینا ہے۔ فعل توسل میں انسان ـ دعا اور استغاّثے کے وقت ـ ایسی چیز کو اللہ کی بارگاہ میں پیش کرتا ہے جو اس کی توبہ اور دعاء کی قبولیت اور حاجات کی برآوردگی کا واسطہ بنے۔ جس شخص یا چیز سے توسل کیا جاتا ہے ہر وہ شخص یا شیئے ہے جو اللہ کے نزدیک قابل احترام ہے؛ جیسے: اللہ کی صفات و اسماء یا رسول اللہؐ کا نام گرامی، یا آپؐ کی دعا، یا اولیائے عظیم الشان اور فرشتوں کے کے اسمائے گرامی؛ اور مطلوبہ درخواست دینی و معنوی اور دنیاوی اور مادی حاجات کی برآوردگی کے لئے ہوسکتی ہے۔

"وسیلہ" بھی اس چیز کو کہتے ہیں جس کے واسطے سے انسان دوسرے کی قربت حاصل کرے۔[2]

چنانچہ، جیسا کہ شیعہ روایات میں بیان ہوا ہے "وسیلہ" کا مفہوم وسیع ہے اور شرعی واجبات، مستحبات تک کا احاطہ کرسکتا ہے۔

توسل اور شفاعت کے درمیان قریبی تعلق ہے کیونکہ کیونکہ ان دونوں کے وسیلے سے ایک مابعد الطبیعی دوسرے فرد پر مرتب کیا جاتا ہے۔ ان دو کے درمیان فرق یہ ہے کہ "توسل اس فرد کا کام ہے جو معصوم (علیہ السلام) سے کی پناہ حاصل کرتا ہے اور اس سے شفاعت طلب کرتا ہے کہ وہ اللہ سے درخواست کرے کہ اس شخص کو بخش دے یا اس کی حاجت کو برآوردہ کرے۔

عنوان: در توسل به حضرت رسول اكرم و اولاد طاهرينش
ای دل ار خواهی گذر بر گلشن دارالبقا
جهد کن کز پای خود بیرون کنی خار هوا
اے دل اگر چاہو گلشنِ دارالبقاء سے تیرا گذر ہو
ہوائے نفس کا کانٹا پاؤں سے نکالنے کی کوشش کرو
ور نمی‌خواهی که پای از راه حق یک سو نهی
دست زن در عروه وثقای شرع مصطفی
اور اگر راہ حق سے قدم باہر نہیں نکالنا چاہتے ہو
شرع مصطفیؐ کے عروۃ الوثقی کو تھامے رکھو
راه شرع مصطفی از مرتضی جو، زانکه نیست
شهر علم مصطفی را در بغیر از مرتضی
شرع مصطفیؐ کی راہ مرتضی سے پوچھو کیونکہ نہیں ہے
علم مصطفیؐ کے شہر کا دروازہ سوائے مرتضی کے
مرتضی را دان ولی اهل ایمان تا ابد
چون ز دیوان ابد دارد مثال انّما
مرتضی کو جان لے اہل ایمان کا ولی تا ابد
کیونکہ ابدیت کے دفتر و دیوان سے ان کو مثال انّما کی ملی ہے
غیر او کس را نزیبد از سلونی دم زدن
زانکه او داناست مافوق السموات العلا
ان کے سوا کسی کو بھی زیب نہیں دیتا سلونی[3] کا دعوی کرنا
کیونکہ انہیں علم ہے ان اشیاء کا جو بلند آسمانوں کے ما فوق ہیں
خلعت با زیب و زین انت منّی کس نیافت
از نبی الا علی کو داشت فرّ انبیا
زیب و زینت کے ساتھ انت منی کی خلعت کسی کو نہیں ملی
نبی سے سوائے علی کے، جو شوکت انبیاء کے مالک تھے
در سخا بود از دل و دستش خجل دریا و کوه
این سخن دارد مصدق هر که خواند هل اتی
جود و سخا میں ان کے دل و دست سے خجل تھے یَم و جبل
اس بات کی تصدیق کرے گا ہر وہ شخص جو پڑھے سورہ ہل اتی
بعد از او در راه دین گر پیشوا خواهی گرفت
بهتر از اولاد معصومش نیابی پیشوا
اگر ان کے بعد راہ دین میں کوئی پیشوا اختیار کرنا چاہو
ان کے معصوم فرزندوں کے سوا کسی کو بھی پیشوا نہیں پاسکو گے
کیستند اولاد او اول حسن وانگه حسین
آنکه ایشان را نبی فرمود امام و مقتدا
کون ہیں ان کے فرزند، پہلے حسن، دوسرے حسین
وہی جن کو نبی نے امام و مقتدا قرار دیا
بنده این هر دو مخدومیم در دیوان شرع
میکنم ثابت بحکم مصطفی این مدعا
دیوان شریعت میں ہم ان دونوں مخدوموں کے غلام ہیں
ثابت کرتا ہوں حکم مصطفی سے اس مدّعا کو
از نبی من کنت مولاه چو تشریف علیست
از طریق ارثشان بس بندگان باشیم ما
نبی نے چونکہ من کنت مولاہ کہہ کر علی کو شرف مولائی بخشا
چنانچہ ان کے ارث کے طور پر، ہم سب ان کے غلام ہیں
بعد از ایشان مقتدی سجاد وانگه باقر است
چون گذشتی جعفر و موسی و سبط او رضا
ان کے بعد مقتدا سجاد اور پھر باقر ہیں
ان کے بعد پھر جعفر، و موسی اور ان کے سبط رضا ہیں
پس تقی آنگه نقی آنگه امام عسکری
بعد از آن مهدی کزو گیرد جهان نور و صفا
ان کے بعد تقی پھر نقی اور پھر امام عسکری ہیں
ان کے بعد مہدی ہیں جن سے حاصل کرے گی دنیا روشنی بھی خلوص و طراوت بھی
کردگارا جان پاک هر یکی زین جمع را
از کرم در صدر فردوس برین ده متکا
اے رب کردگار اس گروہ کی پاک جانوں کو
اپنے کرم سے، انہیں، فردوس بریں کے اعلی مقام پر، تکیہ گاہ عطا فرما
بخشش اي دل زين بزرگان جو كه هر يك بوده اند
در درياي فتوت گوهركان سخا
بخشش اے دل ان بزرگوں سے مانگو کیونکہ ان میں سے ہر ایک
جوانمردی کے بحر میں معدنِ سخا کا گوہر ہے
پیروی کن گر نجات مخلصانت آرزوست
هر که را با خاندان عصمت آمد اِنتِما[4]
پیروی کرو اگر تمہاری آرزو اپنے مخلصوں کی نجات ہے تو،
ہر اس کی جس کی نسبت (تعلق) ہے خاندان عصمت سے
در طریق دین بهر کس اقتدا فرهنگ نیست
گر کنی یاری به معصومان کن ایدل اقتدا
دین کی راہ میں ہر شخص کی پیروی، مہذبانہ نہیں ہے
اگر تو معصومین کی مدد کرنا چاہتا ہے اے دل، ان کی اقتدا کرو
گر چه من کابن یمینم کرده‌ام عصیان بسی
لیک می‌دارم توقع زان که هستم بی‌ریا
اگر چہ میں نے ـ جو ابن یمین ہوں ـ بہت نافرمانیاں کی ہیں
لیکن چونکہ اہل ریا نہیں ہوں، اور مجھے توقع ہے کہ
دوستدار خاندان مصطفی و مرتضی
کایزد از لطف و کرم بخشد بدان پاکان مرا
حبدار ہوں خاندانِ مصطفی و مرتضی کا
کہ ایزد متعال مجھے، اپنے لطف و کرم سے، ان پاک ہستیوں کو بخش دے۔

دیوان اشعار ابن یمین۔

قرآن کی نگاہ میں توسل

وسیلے سے توسل اور تمسک کا مفہوم قرآن کریم سے ماخوذ ہے۔ توسل کی طرف روشن ترین اور واضح ترین اشارہ سورہ مائدہ میں آیا ہے جہاں خداوند متعال نے تقرب الہی کے حصول کیلئے مؤمنین کو وسیلے کی تلاش کا واضح طور پر حکم دیا ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ وَابْتَغُواْ إِلَيهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُواْ فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ[؟؟]
ترجمہ: اے ایمان والو اللہ سے ڈرو! اور اس تک پہنچنے کے لیے وسیلہ تلاش کرو۔ اور اس کی راہ میں جہاد کرو۔ تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔ [5]

سورہ نساء کی آیت 64 میں بھی گنہگاروں کو ہدایت کی گئی ہے کہ رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپؐ سے درخواست کریں کہ وہ ؐ ان کے لئے استغفار کریں تا کہ خداوند متعال انھیں بخش دیں۔

نیز حضرت یوسف کے بھائی جب اپنے کئے پر پشیمان ہوئے تو خداوند متعال سے براہ راست عفو و درگذر کی درخواست کے بجائے اپنے والد حضرت یعقوب سے اللہ کی بارگاہ میں ان کے لئے مغفرت کی دعا کی درخواست کرتے ہیں۔[6]

نیز ایک آیت کریمہ میں بندوں کو حکم دیا گیا ہے کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھیں:

وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِیعاً وَلا تَفَرَّقُوا[؟؟]۔
ترجمہ: اور اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے تھامو اور تتر بتر نہ ہو۔[7]

اور شیعہ روایات کے مطابق اللہ کی رسی سے مراد اہل بیت رسولؐ ہیں۔[8]۔[9]

روایات کی روشنی میں توسل

توسل کے متعلق اہل بیتؑ کی تعلیمات میں روایات کی کثیر تعداد پائی جاتی ہے کہ جن میں توسل کے معانی، "وسیلے" کے مصادیق نیز توسل کے آثار اور نتائج بیان کئے گئے ہیں۔

حضرت زہراءؑ سے روایت میں منقول ہے:[10]

جو کچھ بھی آسمان اور زمین میں ہے وہ اللہ کے تقرب کے لئے وسیلے کی تلاش میں ہے۔اللہ اور اس کی مخلوقات کے درمیان ہم (اہل بیت نبی وسیلہ اور واسطہ ہیں۔۔

امام صادقؑ نے فرمایا: ہم (اہل بیت) وہی اللہ تبارک و تعالی کی مضبوط رسی ہیں کہ جس کے پکڑنے کا اللہ نے حکم دیا ہے: وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِیعاً وَلا تَفَرَّقُوا۔ ترجمہ: اور اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے تھامو اور تتر بتر نہ ہو۔[11]

نیز احادیث کے مطابق، حضرت آدمؑ نے جنت سے نکالے جانے کے بعد پیغمبر اسلامؐ اور اہل بیتؑ سے توسل کیا تو وہ عفو پروردگار سے فیض یاب ہوئے۔ سابقہ انبیاء بھی پیغمبر اسلامؐ کے مقام مرتبت سے توسل کیا کرتے تھے۔

امیرالمومنینؑ نے بھی ایک حدیث کے ضمن میں وسیلے کے برترین و والاترین مصادیق ذکر کئے ہیں۔[12] جن میں سے بعض کچھ یوں ہیں:

احادیث کے علاوہ رسول خداؐ اور اہل بیتؑ سے واردہ زیارتنامے اور دعائیں بھی ہیں جو توسل سے متعلق مضامین سے بھرپور ہیں اور ان میں خدا کو پیغمبرؐ اور اہل بیتؑ کا واسطہ دیا گیا ہے جو بجائے خود ایک قسم کا توسل ہے۔ [نمونے کے طور پیغمبر اکرمؐ کے زیارتنامے نیز زیارت جامعۂ کبیرہ اور صحیفۂ سجادیہ میں منقولہ دعاؤں کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے]۔

توسل کے شرعی جواز سے متعلق روایات اور احادیث شیعہ تک منحصر و محدود نہیں ہے اور اہل سنت کے منابع میں بھی اس سلسلے میں روایات نقل ہوئی ہیں۔ ان روایات میں سے ایک کا تعلق ایک نابینا شخص سے ہے جس نے رسول اللہؐ سے متوسل ہوکر اپنی بصارت دوبارہ حاصل کی:[13]۔ :حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَارَةَ بْنَ خُزَيمَةَ، يحَدِّثُ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ حُنَيفٍ، أَنَّ رَجُلاً ضَرِيرَ الْبَصَرِ أَتَی النَّبِي صَلَّی اللَّهُ عَلَيهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: ادْعُ اللَّهَ أَنْ يعَافِينِي، قَالَ: إِنْ شِئْتَ دَعَوْتُ لَكَ، وَإِنْ شِئْتَ أَخَّرْتُ ذَاكَ، فَهُوَ خَيرٌ . فَقَالَ: ادْعُهُ، فَأَمَرَهُ أَنْ يتَوَضَّأَ، فَيحْسِنَ وُضُوءَهُ، وَيصَلِّي رَكعَتَينِ، وَيدْعُوَ بِهَذَا الدُّعَاءِ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ، وَأَتَوَجَّهُ إِلَيكَ بِنَبِيكَ مُحَمَّدٍ نَبِي الرَّحْمَةِ، يا مُحَمَّدُ، إِنِّي تَوَجَّهْتُ بِكَ إِلَي رَبِّي فِي حَاجَتِي هَذِهِ، فَتَقْضِي لِي، اللَّهُمَّ شَفِّعْهُ فِي۔
ترجمہ: مروی ہے کہ ایک نابینا شچص پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اے رسول خداؐ! خداوند متعال سے التجا کریں کہ مجھے شفا دے اور میری بصارت مجھ کو لوٹا دے۔
آپؐ نے فرمایا: اگر چاہو تو میں دعا کرتا ہوں اور اگر چاہو تو صبر کرو کیونکہ یہ صبر تمہارے لئے بہتر ہے۔ (یعنی تمہاری مصلحت نابینائی میں ہے) لیکن نابینا شخص نے اصرار کیا چنانچہ رسول اکرمؐ نے اس کو ہدایت کی کہ "جاکر مکمل وضو کرے اور دو رکعت نماز بجا لائے اور نماز کے بعد یہ دعا پڑھے: اللّهم إنّي اسئَلُکَ وأتوجّه إليكَ بنبيكَ محمّد نبي الرحمة يا محمّد إنّي أتوجّه بك إلی ربّي في حاجتي لتُقضي، اللهم شَفِّعه فِيَّ؛
بار الٰہا! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور اپنی حاجت میں تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں کہ تو میری حاجت برآوردہ فرمائے؛ خداوندا! تو ان (رسول اللہ) کو میرا شفعی قرار دے۔
نابینا مرد نکل گیا کہ وضو کرے، اور رسول خداؐ کی تعلیم کردہ روش سے نماز اور دعا پڑھے ۔۔۔ (الی آخرِ حدیث)۔[14] یا وہ حدیث جو ‏عائشہ نے پیغمبرؐ سے نقل کی ہے، کہ آپؐ نے فرمایا: "امیرالمؤمنین علیؑ اللہ کا قریب ترین وسیلہ ہیں۔[15]۔[16]

وسیلے کی اقسام

اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لئے ہر وسیلے سے استفادہ نہیں کیا جاسکتا؛ مثال کے طور پر آگ یا بت کو وسیلے کے طور پر بروئے کار لانا باطل اور حرام ہے کیونکہ آگ سے استفادہ کرنے کی شرعی اجازت ثابت نہیں ہے اور بت سے فائدہ اٹھانے کی حرمت شرع مقدس سے ثابت ہے؛ چنانچہ یہ جاننے کے لئے ـ کہ کونسی چیزیں شرع کے نزدیک وسیلہ ہیں ـ آیات قرآن اور روایات سے رجوع کرنا چاہئے۔[17] لہذا توسل کو مشروع (جائز) اور نامشروع (ناجائز) کے زمروں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ کیونکہ اگر کوئی اللہ کا تقرب پانے کے لئے کسی وسیلے کا سہارا لے اور اس وسیلے کو خدا کی رضا اور تائید حاصل نہ ہو، تو وہ شخص باطل توسل سے دوچار ہوا ہے اگرچہ بت کے بغیر دیگر اشیاء سے توسل کو شرک قرار نہیں دیا جاسکتا۔

بعض امور جو اہل بیت علیہم السلام کی روایات میں قرب الی اللہ کے وسائل کے طور پر متعارف ہوئے ہیں حسب ذیل ہیں:

توسل پر وہابی اعتراضات اور مسلمانوں کا رد عمل

مسئلۂ توسل مسلمانوں ـ خواہ شیعہ خواہ سنی ـ کی اکثریت کے نزدیک رائج و مقبول تھا۔ لیکن آٹھویں صدی ہجری میں ابن تیمیہ نامی شخص اٹھا اور دعوی کیا کہ توسل شرک ہے اور اس کا قائل ہونا بدعت ہے۔ دور معاصر میں بھی وہابی قرآن کی ظاہر پرستانہ تفسیر کرکے دعوی کرتے آئے ہیں کہ توسل کا عقیدہ اصول توحید کے منافی ہے۔

ابن تیمیہ نے دعوی کیا[25] کہ صرف اعمال صالح نیز پیغمبر اور صالحین کی دعا ـ وہ بھی صرف ان کی حیات کے زمانے میں ـ اللہ کے تقرب کا وسیلہ بننے کی صلاحیت رکھتی ہے؛ چنانچہ خدا سے طلب حاجت کرتے وقت خدا کو پیغمبرؐ کی قسم دلانا یا پیغمبرؐ اور صالحین کے مقام و منزلت کا واسطہ دینا بدعت اور ناجائز ہے۔

چنانچہ پیغمبرؐ اور دوسروں کی ذات سے توسل کسی حال میں بھی جائز نہیں ہے اور بدعت کے زمرے میں آتا ہے اور ان سے براہ راست اور روبرو دعائے خیر کی درخواست کرنا بھی صرف ان کی حیات کے زمانے میں جائز اور صحابہ کی سنت شمار ہوتا تھا اور اس کے سوا جو کچھ بھی ہے بدعت کے زمرے میں شمار ہوتا ہے۔[26]

اس نے ان اعتراضات میں سے بعض کو توسل کے باب میں بھی اٹھایا ہے جو وہ شفاعت کے باب میں اٹھا چکا ہے۔

توسل کے اوپر ابن تیمیہ کے ان اعتراضات کو شیعہ اور سنی مسلمانوں کی اکثریت کے رد عمل کا سامنا کرنا پڑا اور بعض نے ان کے رد میں کتابیں تالیف کی ہیں۔[27]۔سمهودی، وفاء الوفاء، ج1، ص1371۔[28]

مسلمانوں کا رد عمل

شیعہ اور سنی مسلمانوں نے ان نظریات کے مقابلے میں رد عمل ظاہر کیا اور اس سلسلے میں تحقیقات و تالیفات کا اہتمام کیا یہاں صرف اہل سنت کے علماء کا رد عمل مقصود ہے چنانچہ بعض سنی علماء کے اقوال کے حوالے جات فہرست کی صورت میں پیش کئے جاتے ہیں:

  1. امام محمد غزالی، جن کی علمی مرتبت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے اور انہیں تاریخ اسلام کے نمایاں ترین علماء کے زمرے میں شمار کیا گیا ہے، ایک حقیقی صوفی کی حیثیت سے اپنی تمام تر تالیفات میں توسل کے قائل ہیں۔ انھوں نے اپنے ایک رسالے میں ایک مستقل باب توسل کے بارے میں مرتب کیا ہے اور شرعی دلائل و براہین سے توسل کو جائز قرار دیا ہے۔
  2. حافظ ابوبکر بیہقی اپنی کتاب "دلائل النبوۃ" میں آدمؑ اور دوسروں کے توسل کی داستان دقل کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ ابوبکر بیہقی نے عہد کیا ہے کہ کبھی کوئی موضوعہ حدیث اپنی کتب میں نقل نہیں کریں گے۔
  3. امام جلال الدین سیوطی تاریخ اسلام کے اکابرین میں سے ہیں؛ وہ اپنی کتاب "الخصائص الکبری" اور کئی دوسری کتابوں میں حضرت آدمؑ کے توسل کی داستان نقل کرچکے ہیں۔
  4. ۔ امام حافظ ابو عبداللہ الحاکم النیشابوری نے اپنی کتاب "المستدرک علی الصحیحین" میں نقل کیا ہے کہ آدمؑ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سے توسل کیا۔
  5. امام حافظ قاضی عیاض نے اپنی کتاب "الشفاء فی التعریب بحقوق المطفی" میں "باب زیارت" اور "باب فضل النبیؐ" میں بہت سی متعلقہ احادیث اور وقائع کو نقل کیا ہے۔
  6. مفسر قرآن امام ابو عبداللہ قرطبی نے آیت(وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُواْ أَنفُسَهُمْ جَآؤُوكَ فَاسْتَغْفَرُواْ اللّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُواْ اللّهَ تَوَّاباً رَّحِيماً۔ ترجمہ: اور اگر جب انہوں نے اپنے اوپر زیادتی کی تھی تو آپ کے پاس آتے اور پھر اللہ سے بخشش کے طلبگار ہوتے اور پیغمبر ان کے لیے دعائے مغفرت کرتے تو اللہ کو پاتے بڑا توبہ قبول کرنے والا بڑا مہربان۔[29]) کی تفسیر میں لکھا ہے کہ توسل جائز ہے اور اس عمل کی تائید کی ہے۔[30]
  7. علامہ احمد شہاب الدین الخفاجی نے شرح شفا کے موضوع پر اپنی کتاب "نسیم الریاض" میں توسل کے جواز پر سیر حاصل بحث کی ہے۔
  8. امام حافظ قسطلانی نے اپنی کتاب "مواہب اللدنیہ" کے مقصد اول میں جواز توسل کو موضوع سخن بنایا ہے۔
  9. علامہ شیخ محمد عبدالباقی الزرقانی نے شرح مواہب میں جواز توسل پر بحث کی ہے۔۔[31]
  10. امام شیخ الاسلام ابو زکریا یحیی النووی نے اپنی کتاب الایضاح میں جواز توسل پر روشنی ڈالی ہے۔[32]
  11. علامہ ابن حجر الہیتمی مکی نے کتاب "حاشیۃ الایضاح" میں[33] توسل کو جائز قرار دیا ہے اور علاوہ ازیں اس موضوع پر مستقل کتاب بعنوان "الجوہر المنظم" تالیف کی ہے۔
  12. حافظ شہاب الدین محمد بن محمد بن جزری دمشقی نے اپنی کتاب "عدۃ الحصن الحصین" کے باب "فضیلت دعا" میں توسل کے جواز پر بحث کی ہے۔
  13. علامہ امام محمد بن علی شوکانی۔[34]
  14. علامہ امام محدث علی بن عبدالکافی السبکی۔[35]
  15. شیخ احمد سرہندی الملقب بہ "امام ربانی" و "مجدد الف ثانی" ـ ایک عالم کبیر اور صوفیہ کے مرشد کے عنوان سے مشہور تھے اور شریعت کا بہر صورت لحاظ رکھنا، ان کی خصوصیت سمجھا جاتا تھا، اور صوفیا کے درمیان شریعت کی پابندی کے حوالے سے شہرۂ عام و خاص تھے ـ نے اپنی کتاب "المکتوبات" میں توسل پر مہر تائید ثبت کی ہے۔
  16. حافظ ابن حجر عسقلانی، نے اس اعرابی مرد کی داستان نقل کی ہے جس نے قبر نبیؐ سے توسل کیا اور اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔[36]
  17. نامور مفسر، امام ابوالقاسم قشیری۔[37]
  18. امام فخر الدین رازی ـ جو بڑے مفسرین میں سے ایک ہیں ـ نے اپنی کتب کے کئی حصوں میں جواز توسل کی طرف اشارہ کیا ہے۔[38]
  19. حافظ ابوالفرج ابن جوزی نے اپن کتاب میں احادیث توسل نقل کی ہیں۔[39]
  20. حافظ عماد الدین بن کثیر آیت کریمہ "وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُواْ أَنفُسَهُمْ ..." کی تفسیر میں ایک عرب شخص کی عتبی کے ساتھ منقولہ گفتگو نقل کی ہے جس نے قبر رسولؐ پر حاضری دی اور آپؐ سے شفاعت کی درخواست کی، اور عتبی نے ان پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔[40] نیز حضرت آدمؑ کے توسل کی داستان بھی اپنی کتاب میں نقل کی ہے۔[41] ابن کثیر لکھتے ہیں کہ رسول اللہؐ کی قبر شریف سے عربی شخص کے توسل کی داستان سند کے لحاظ سے صحیح ہے۔[42] انھوں نے مسلمانوں کے مشہور شعار "یا محمداہ" کو بھی نقل کیا ہے۔[43]
  21. شہاب الدین رملی، نے اپنی بہت سی تالیفات میں جواز توسل کی تائید و تصدیق کی ہے۔ وہ اپنی تالیفات کے مختلف حصوں میں توسل کے قائل ہوئے ہیں۔
  22. امام شیخ نور الدین قاری، المعروف بہ ملا علی قاری "الشفاء" پر اپنی شرح کے ضمن میں جواز توسل کے بہت سے نمونے پیش کرچکے ہیں۔
  23. صاحب کتاب "شرح عقائد اہل سنت" میں توسل کے قائل ہوئے ہیں۔ ان کی کتاب اہل سنت کے دینی مدارس میں معتبرترین اعتقادی کتاب سمجھی جاتی ہے۔

مسلمانوں کا متفقہ موقف

ہم یہاں حقائق کو آشکار کرنے کے لئے بعض سنی علماء کی آراء نقل کرتے ہیں جو توسل کے حوالے سے شیعہ علماء کے ہم فکر ہیں:

  • شافعی عالم دین، تقی الدین سبکی، (متوفٰی سنہ 756 ہجری قمری) اپنی کتاب "شفاء السقام" میں لکھتے ہیں:
    "إعلم: أنه يجوز ويحسن التوسل، والاستغاثة، والتشفع بالنبي "صلی الله عليه وآله وسلم"، إلی ربه سبحانه وتعالی وجواز ذلكَ وحسنه من الأمور المعلومة لكُل ذي دين، المعروفة من فعل الأنبياء والمرسلين، وسير السلف الصالحين، والعلماء والعوام من المسلمين . ولم ينكِر أحد ذلكَ من أهل الأديان، ولا سمع به في زمن من الأزمان، حتی جاء ابن تيمية، فتكَلم في ذلكَ بكَلام يلبس فيه علی الضعفاء الأغمار، وابتدع ما لم يسبق إليه في سائر الأعصار"۔
    ترجمہ: جان لو کہ بےشک نبی صلی اللہ علیہ و آلہ اور آپؐ کی جاہ و عظمت اور برکت سے اللہ تعالی کی بارگاہ میں توسل اور استغاثہ اور تشفع (التجائے شفاعت) جائز اور حسن (خوب) ہے یہاں تک کہ اس امر کا جواز اور حسن تمام دیندار انسانوں کے نزدیک مسلّمات میں سے ہے۔ یہ وہ امر ہے جو انبیاء اور سلف صالح اور علماء اور عوام کے درمیان رائج اور معمول و معروف تھا اور ادیان کے پیروکاروں میں سے کسی نے اس امر کا انکار نہيں کیا ہے اور کسی بھی زمانے میں کسی نے نہیں سنا ہے؛ یہاں تک کہ ابن تیمیہ آیا اور اس نے بعض باتیں بیان ہیں اور نادان لوگوں کے اشتباہ میں پڑنے کا سبب ہوئی اور اس نے ایسی بدعت کی بنیاد رکھی جس کی مثال سابقہ قرون و اعصار میں نہیں ملتی۔[44]
  • نورالدین سمہودی لکھتے ہیں:
    "إعلم أن الاستغاثة والتشفع بالنبي صلی الله تعالی عليه وسلم وبجاهه وبركته عند ربه تعالی من فعل الأنبياء وسير السلف الصالح، واقع في كل حال، قبل خلقه صلی الله تعالی عليه و سلم وبعد خلقه في حياته الدنيوية ومدة البرزخ وعرصات القيامة"
    ترجمہ: اللہ کی بارگاہ میں پیغمبرؐ کی ذات اور آپ کی جاہ و عظمت اور برکت سے استغاثہ، طلب شفاعت اور توسل، انبیاء اور سلف صالح کا کردار اور سیرت و روش ہے اور تمام زمانوں میں اس پر عمل ہوتا رہا ہے خواہ قبل از اسلام خواہ بعد از اسلام، حتی دنیاوی حیات میں بھی اور برزخ میں بھی اور قیامت کے مختلف مراحل میں بھی۔[45]
  • اپنے زمانے کے امامِ مسجد الحرام "زینی دحلان" اس بارے میں لکھتے ہیں:
    "اذا جاز التوسل بالأعمال الصالحة - كما في صحيح البخاري في حديث الثلاثة الذين أووا إلی غار فأطبق عليهم ذلك الغار فتوسل كل واحد منهم إلی الله تعالی بأرجی عمل له فانفرجت الصخرة التي سدت الغار عنهم - فالتوسل به «صلی الله عليه وسلم» أحق وأولی لما فيه من النبوة والفضائل سواء كان ذلك في حياته أو بعد وفاته فالمؤمن إذا توسل به إنما يريد بنبوته التي جمعت الكمالات وهؤلاء المانعون للتوسل يقولون يجوز التوسل بالأعمال الصالحة مع كونها أعراضا فالذوات الفاضلة أولی فإن عمر رضي الله عنه توسل بالعباس رضي الله عنه وأيضا لو سلمنا ذلك نقول لهم إذا جاز التوسل بالأعمال الصالحة فما المانع من جوازها بالنبي صلی الله عليه وسلم باعتبار ما قام به من النبوة والرسالة والكمالات ..."
    ترجمہ: ہرگاہ اعمال سے توسل صحیح ہے ـ جیسا کہ صحیح بخاری میں تین افراد سے متعلق حدیث میں منقول ہے جنہوں نے ایک غار میں پناہ لی تو غار ان پر بند ہوئی پس ان میں سے تینوں نے بہترین اور امید آفرین عمل کے ذریعے خداوند متعال سے توسل کیا پس وہ چٹان ہٹ گئی جس نے غار کو بند کردیا تھا؛ چنانچہ رسول اللہؐ سے توسل زمانۂ حیات میں بھی اور بعد از وصال بھی، زیادہ صحیح اور حق اور برتر و بالاتر ہے کیونکہ آپؐ صاحب نبوت اور صاحب کمالات و فضائل ہیں؛ پس مؤمن جب آپؐ سے توسل کرتا ہے تو وہ بےشک آپؐ کی نبوت سے توسل کرتا ہے جس نے تمام تر کمالات کو آپؐ کی ذات میں مجتمع کررکھا ہے، اور یہ توسل کی راہ میں رکاوٹ بننے والے لوگ، کہتے ہیں کہ اعمال صالحہ سے توسل جائز ہے خواہ وہ علامتی کیوں نہ ہوں؛ پس صاحب فضیلت شخصیات اس حوالے سے زيادہ صاحب حق ہیں کہ ان سے توسل کیا جائے۔ جیسا کہ عمر نے رسول اللہؐ کے چچا عباس سے توسل کیا اور پھر جب ہم اس کو تسلیم کریں تو ان لوگوں سے کہیں گے کہ "اگر اعمال صالحہ سے توسل جائز ہے پس کونسی چیز مانع ہے اس میں کہ رسول اللہؐ کی ذات سے توسل کیا جائے؟ اس اعتبار سے کہ آپؐ صاحب منصب نبوت و رسالت ہیں اور صاحب کمالات ہیں۔[46]
  • علمائے دیوبند کی رائے:
    بر صغیر پاک و ہند کے حنفی مسلمانوں میں کے دو فرقے مشہور ہیں: 1) دیوبندی اور 2) بریلوی۔
    یہ دو جماعتیں ابتداء میں ایک دوسرے سے قریب تھی لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ان کے درمیان بکثرت اعتقادی اختلافات رونما ہوئے؛ یہاں تک کہ آج دیوبندیوں کو مشرک گردانتے ہیں اور بریلوی دیوبندیوں کو وہابی سمجھتے ہیں اور ہر جماعت اپنے موقف کا دفاع کرتی ہے۔
    بریلویوں کے اعتقادات کے اہم نکات حسب ذیل ہیں
    وہ پیغمبرؐ کے لئے علم غیب کے قائل ہیں؛ پیغمبرؐ کو مفتاح الغیب سمجھتے ہیں؛ پیغمبرؐ کو حاضر و ناظر جانتے ہیں؛ پیغمبرؐ کو نور سمجھتے ہیں؛ پیغمبرؐ اور اولیاء اللہ سے مدد مانگنے کے قائل ہیں، قبور کے طواف کے قائل ہیں وغیرہ وغیرہ۔
    سرزمین حجاز میں وہابیت کے فروغ کے بعد، انھوں نے بر صغیر سمیت دوسرے علاقوں کے مسلمانوں سے رابطے بنانا شروع کئے۔ بزرگ بریلوی عالم دین احمد رضا خان بریلوی نے علمائے حرمین کو خط لکھا اور اس خط میں دیوبندیوں کو وہابی ثابت کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے اس خط میں دیوبندیوں پر ستر اعتراضات مرتب کئے اور ان کے کفر کا فتوی دیا۔
    بعد ازاں دیوبندیوں نے بھی خط لکھا اور ان کی باتوں کو افتراء اور بہتان قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ وہ امام اعظم ابو حنیفہ کے مقلد اور پیروکار ہیں اور وہابی نہیں ہیں اور ان کے 26 اعتقادی سوالات کے جوابات بھی دیئے۔ انھوں نے بھی اپنا خط علمائے حرمین کے لئے بھجوایا اور علمائے حرمین نے ان کے مدعا کی تائید کی۔ یہ خط سوالات اور جوابات کی تفصیل کے ساتھ "المہند والمفند" کے عنوان سے شائع ہوا ہے۔ یہ بہترین کتاب ہے جس میں اہل سنت کے عقائد اور اعتقادی نظریات بیان ہوئے ہیں۔ کیونکہ دیوبندی ـ بریلوی اعتقادی تنازعہ اس بات کا سبب بنا کہ دونوں جماعتوں نے اپنے عقائد اور اعتقادی موقف کو واضح و آشکار کردیا اور دونوں نے اپنے آپ کو وہابیت سے مبرّا قرار دیا۔

توسل اور توحید

وہابیوں کا سب سے پہلا اعتراض یہ ہے کہ توسل توحید کے منافی ہے کیونکہ بندے کو صرف خدا سے مدد مانگنا چاہئے اور غیر اللہ سے مدد مانگنا شرک ہے۔ ابن تیمیہ نے توسل کی ممنوعیت ثابت کرنے کے لئے قرآن کریم کی آیات ـ بالخصوص سورہ اسراء کی آیات "قُلِ ادْعُواْ الَّذِينَ زَعَمْتُم مِّن دُونِهِ فَلاَ يَمْلِكُونَ كَشْفَ الضُّرِّ عَنكُمْ وَلاَ تَحْوِيلاً (56) أُولَـئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَى رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخَافُونَ عَذَابَهُ إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُوراً (57)؛ ترجمہ: کہیے کہ بلاؤ انہیں جن کو اللہ کے سوا تم سمجھتے ہو تو (دیکھنا کہ) کہ وہ نہیں قدرت رکھتے سختی کے دور کرنے پر تم سے اور نہ کسی تبدیلی پر (56) جنہیں وہ پکارتے ہیں خود ہی اپنے پروردگار کی طرف ذریعہ ڈھونڈتے ہیں کہ کون زیادہ تقرب رکھنے والا ہے اور وہ اس کی رحمت کے امید وار ہیں اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں، یقینا تمہارے پروردگار کا عذاب ڈرنے کی چیز ہی ہے (57)"۔[47] اور سورہ فاتحہ کی آیت إِيَّاكَ نَعْبُدُ وإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ؛ ترجمہ: تیری ہی ہم عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے بس مدد مانگتے ہیں" ـ سے استناد کیا ہے۔ اس نے گمان کیا ہے کہ جس چیز کو ان آیات میں منع کیا گیا ہے وہ درحقیقت توسل ہی ہے۔[48]

لیکن جب ہم آیات میں غور کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں ان آیات کا توسل سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ اول الذکر دو آیتیں مشرکین کے معبودوں سے الوہیت کی نفی کے بارے میں ہیں اور انہیں عبودیت و بندگی لئے نااہل سمجھا گیا ہے اور ان آیات کا اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لئے اس کی بارگاہ میں ذوات مقدسہ سے توسل، سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اور سورہ فاتحہ کی پانچویں آیت کا تعلق اللہ کے سوا کسی اور سے مدد نہ مانگنے پر تاکید کرتی ہے ایسے حال میں کہ اس کی بارگاہ میں وسیلہ قرار دیئے جانے والے امور اور ذوات کو خدا کے برابر میں مستقل قرار دیا جائے اور اس میں وسائط اور وسائل کے ذریعے خدا سے استمداد و استعانت شامل نہیں ہے کیونکہ قرآن کریم نے نماز اور دوسرے وسائل سے مدد لینے کا حکم دیا ہے۔[49]

عقلی لحاظ سے بھی توسل سے کسی صورت میں بھی شرک لازم نہیں آتا؛ کیونکہ:

پہلی بات یہ ہے کہ کسی شخص یا چیز سے مدد لینا اس شخص یا چیز کی پرستش اور بندگی کے مترادف نہیں ہے؛ اس عالم کا نظام اس حقیقت پر استوار ہے کہ اشیاء ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتی ہیں [اور ایک دوسرے سے اثر لیتی ہیں]۔ اور البتہ تمام اشیاء کی تاثیر (اثر گذاری) خداوند متعال سے وابستہ ہے اور کوئی بھی چیز اثر مرتب کرنے میں خدا سے مستقل نہیں ہے۔ جیسا کہ مادی وسائل و اسباب اور اوزاروں سے فائدہ لینا اور انسانوں سے مدد لینا شرک کے زمرے میں نہیں آتا کیونکہ ہمارا عقیدہ نہیں ہے کہ یہ اشیاء اور انسان فائدہ پہنچانے یا فائدہ دینے میں مستقل اور خودمختار ہیں؛ چنانچہ غیر مادی اشیاء سے استفادہ کرنا اور ان سے مدد لینا ـ اگر ان کو خدا سے مستقل حیثیت دینے کے معنی میں نہ ہو تو ـ شرک کا لازمہ نہیں ہے۔ توحیدی تفکر کا لازمہ یہ ہے کہ انسان اسباب اور وسائل سے استفادہ کرتے ہوئے ان کے مبداء اور منشاء پر یقین رکھے اور اس کو یقین ہو کہ وہ سب اپنی تاثیر میں پروردگار سے وابستہ ہیں، اور یہ وہی توحید ہے۔[50]

علاوہ ازیں توسل کی حرمت ثابت کرنے کے لئے دوسری آیات قرآنی سے بھی استناد کیا گیا ہے، جیسے:[51]

سورہ زمر آیت 3:

أَلَا لِلَّهِ الدِّينُ الْخَالِصُ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاء مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَى إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فِي مَا هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ كَاذِبٌ كَفَّارٌ؛ ترجمہ: معلوم رہے کہ خالص دین کا مرکز صرف اللہ ہے اور جنہوں نے اس کے علاوہ سر پرست بنا لیے ہیں (کہتے ہیں کہ) ہم ان کی عبادت نہیں کرتے ہیں مگر اس لیے کہ ہم کو اللہ کی بارگاہ میں قریب کریں، بلاشبہ اللہ فیصلہ کرے گا ان کے درمیان اس میں کہ جس کے بارے میں وہ اختلاف رکھتے ہیں۔ یقینااللہ منزل مقصود تک نہیں پہنچاتا ایسے کو جو جھوٹا بڑا نا شکرا ہو۔

سورہ سباء آیت 37:

أوَمَا أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُم بِالَّتِي تُقَرِّبُكُمْ عِندَنَا زُلْفَى إِلَّا مَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحاً فَأُوْلَئِكَ لَهُمْ جَزَاء الضِّعْفِ بِمَا عَمِلُوا وَهُمْ فِي الْغُرُفَاتِ آمِنُونَ؛ ترجمہ: اور تمہارے مال اور اولاد تمہیں ہماری بارگاہ میں نزدیک کرنے والے نہیں ہیں مگر وہ جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرے تو ان کے لیے بیش از بیش جزا ہے ان کے اعمال کے عوض میں اور وہ بہشت کے اونچے درجوں میں اطمینان کے عالم میں ہوں گے۔

حالانکہ اول الذکر آیت نے صرف اور صرف غیر اللہ کی عبادت اور بت پرستی کی نفی کی ہے اور اس نے صالحین سے توسل کرکے اللہ کی قربت حاصل کرنے کے عمل کی نفی نہیں کی ہے؛ بالخصوص کہ صالحین اس توسل میں معبود نہیں ہیں اور ان کی پرستش نہیں کی جاتی۔

مؤخر الذکر آیت کے بارے میں بھی کہا جاسکتا ہے کہ انبیاء اور اولیاء سے توسل بھی اعمال صالح کے زمرے میں آتا ہے اور آیت کا مفہوم کسی صورت میں بھی توسل سے متصادم نہیں ہے۔[52]

وصال کے بعد پیغمبرؐ سے توسل

نیز ابن تیمیہ کہتے ہیں پیغمبرؐ اور صالحین سے کی دعا سے توسل بھی صرف ان کے ایام حیات میں صحیح ہے اور موت کے بعد وہ کچھ کرنے کی قوت نہیں رکھتے اور موت کے بعد ان سے توسل کرنا صحیح نہیں ہے۔

لیکن ابن تیمیہ کی یہ بات اسلام اسلامی تصور کائنات سے متصادم ہے جو حیات بعد از موت پر یقین رکھتا ہے۔ انبیاء اور اولیاء کی زندگی ان کی موت اور برزخ میں منتقلی کے بعد بھی جاری رہتی ہے:

"وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ أَمْوَاتاً بَلْ أَحْيَاء عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ (169) فَرِحِينَ بِمَا آتَاهُمُ اللّهُ مِن فَضْلِهِ وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُواْ بِهِم مِّنْ خَلْفِهِمْ أَلاَّ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ (170) يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللّهِ وَفَضْلٍ وَأَنَّ اللّهَ لاَ يُضِيعُ أَجْرَ الْمُؤْمِنِينَ (171)؛
ترجمہ: اور انہیں جو اللہ کی راہ میں مارے گئے ہیں، ہر گز مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں ، اپنے پروردگار کے یہاں رزق پاتے ہیں (169) خوش خوش اس پر جو اللہ نے اپنے فضل وکرم سے انہیں دیا ہے اور اپنے پسماند گان کے حال سے جو ان کے پاس نہیں پہنچے ہیں، وہ خوش ہوتے ہیں کہ انہیں کوئی خوف نہیں ہے اور نہ کوئی انہیں افسوس ہونے والا ہے (170) اللہ کی بڑی عنایت اور کرم سے خوش ہوتے ہیں اور اس سے کہ اللہ ایمان والوں کے ثواب کو برباد نہیں کرتا (171)"۔[53]

ظاہر ہے کہ انبیاء کا رتبہ شہداء سے کہیں برتر و بالاتر ہے چنانچہ وہ ظاہری موت کے بعد بھی زندہ ہونگے۔ علاوہ ازیں اسلام کے نظریئے کے مطابق موت انسان کی فنا اور نیست و نابود ہونا نہیں ہے بلکہ منتقلی ہے ایک دنیا سے دوسری دنیا کی جانب۔ یہ بات مسلمانوں کے اعتقادی مسلّمات میں سے ہے؛ بطور مثال ارشاد خداوندی ہے:

"وَقَالُوا أَئِذَا ضَلَلْنَا فِي الْأَرْضِ أَئِنَّا لَفِي خَلْقٍ جَدِيدٍ بَلْ هُم بِلِقَاء رَبِّهِمْ كَافِرُونَ (10) قُلْ يَتَوَفَّاكُم مَّلَكُ الْمَوْتِ الَّذِي وُكِّلَ بِكُمْ ثُمَّ إِلَى رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ (11)؛
ترجمہ: اور انھوں نے کہا کہ کیا جب ہم زمین میں کھو جائیں گے تو کیا ہم از سر نو پیدا ہوں گے؟ بلکہ وہ اپنے پروردگار کی بارگاہ میں حاضری کے منکر ہیں (10) کہئے کہ تمہاری مدت زندگی کو پورا کرتا ہے، موت کا فرشتہ جو تم پر مقرر ہے، پھر تم اپنے پروردگار کی طرف پلٹ کر جاؤ گے (11)"۔[54]

نیز ارشاد فرماتا ہے:

"اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَى إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ؛
ترجمہ: اللہ لیتا ہے جانوں کو ان کے مرنے کے وقت اور جنہیں موت نہیں آئی، ان کے سونے کے عالم میں تو روک لیتا ہے اسے جس پر موت کا فیصلہ کر دیا ہے اور چھوڑ دیتا ہے دوسری کو ایک مقررہ مدت تک، یقینا اس میں نشانیاں ہیں ان کے لیے جو غور و فکر سے کام لیں"۔</ref>سورہ زمر آیت 42۔</ref>

جس طرح کہ زمانۂ حیات میں پیغمبرؐ سے دعا اور استغفار کی درخواست کی جاسکتی ہے، وصال کے بعد بھی یہی درخواست آپؐ سے کی جاسکتی ہے؛ کیونکہ کتاب اللہ اور سنت کے مطابق دنیا میں موجود زندہ انسان عالم برزخ میں موجود انسانوں کی ارواح سے متصل ہوسکتے ہیں؛ جیسا کہ |صالحؑ نیز شعیبؑ نے اپنی ہلاک شدہ امت کے ساتھ گفتگو کی:

"فَأَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَأَصْبَحُواْ فِي دَارِهِمْ جَاثِمِينَ (78) فَتَوَلَّى عَنْهُمْ وَقَالَ يَا قَوْمِ لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَةَ رَبِّي وَنَصَحْتُ لَكُمْ وَلَكِن لاَّ تُحِبُّونَ النَّاصِحِينَ (79)؛
ترجمہ: نتیجہ میں ان کو زلزلہ نے اپنی گرفت میں لے لیا تو وہ اپنے گھروں میں بے حس و حرکت ہو کر رہ گئے (78) تو انہوں نے ان لوگوں سے رو گردانی اختیار کی اور کہا اے میری قوم والو ! میں نے تمہیں اپنے پروردگار کا پیغام پہنچا دیا اور تمہارے لیے خیر خواہی سے کام لیا مگر تم خیر خواہوں کو پسند ہی نہیں کرتے (79)"۔[55]
"فَأَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَأَصْبَحُواْ فِي دَارِهِمْ جَاثِمِينَ (91) الَّذِينَ كَذَّبُواْ شُعَيْباً كَأَن لَّمْ يَغْنَوْاْ فِيهَا الَّذِينَ كَذَّبُواْ شُعَيْباً كَانُواْ هُمُ الْخَاسِرِينَ (92) فَتَوَلَّى عَنْهُمْ وَقَالَ يَا قَوْمِ لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسَالاَتِ رَبِّي وَنَصَحْتُ لَكُمْ فَكَيْفَ آسَى عَلَى قَوْمٍ كَافِرِينَ (93)؛
ترجمہ: تو انہیں زلزلہ نے لے لیا جس کے بعد وہ اپنے گھروں میں مردہ ہو کر اپنے گھٹنوں کے بل گرے ہوئے پڑے تھے (91) جنہوں نے شعیب کو جھٹلایا وہ گویا کبھی ان مکانات میں رہتے ہی نہ تھے۔ جنہوں نے شعیب کو جھٹلایا وہی گھاٹا اٹھانے والے ثابت ہوئے (92) تو انہوں نے ان لوگوں کی طرف سے منہ پھیر لیا اور کہا اے میری قوم والو ! میں نے تو تمہیں اپنے پروردگار کے پیغام پہنچا دیئے اور تمہاری خیر خواہی کا حق ادا کر دیا لیکن ایک ایسی جماعت پر جو انکار پر قائم رہی افسوس بھی کیوں کر کروں (93)"۔[56]

نیز یہ کہ خداوند متعال قرآن کریم میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کو حکم دیتا ہے کہ سابقہ انبیاء کے ساتھ گفتگو کریں:

"وَاسْأَلْ مَنْ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رُّسُلِنَا أَجَعَلْنَا مِن دُونِ الرَّحْمَنِ آلِهَةً يُعْبَدُونَ؛
ترجمہ: اور آپ پوچھیے ان پیغمبروں سے جنہیں ہم نے آپ کے پہلے بھیجا تھا کیا ہم نے خدائے رحمن کے علاوہ کوئی خدا مقرر کیے ہیں جن کی عبادت کی جائے؟"۔[57]

پیغمبر اکرمؐ کی غزوہ بدر کے مقتولین سے اور امیرالمؤمنینؑ کی جنگ جمل کے مقتولین سے گفتگوخطا در حوالہ: Closing </ref> missing for <ref> tag۔[58]۔[59] اس امر کے دلائل و شواہد میں سے ہے۔

توسل اور بدعت

توسل کا بدعت ہونا بھی ابن تیمیہ اور وہابیوں کے دعؤوں میں سے ایک ہے۔

مکتب اہل بیتؑ کے مطابق اور معصومین کے توسط سے ـ مقام معصومین سے توسل کے بارے میں ـ منقولہ متعدد صحیح احادیث، زیارتناموں اور دعاؤں کو مد نظر رکھتے ہوئے یقین کامل سے کہا جاسکتا ہے کہ یہ دعوی بےبنیاد اور ناقابل قبول ہے۔ علاوہ ازیں مسلمانوں ـ حتی غیر شیعہ مسلمانوں ـ کی سیرت و روش کا جائزہ بھی ثابت کرتا ہے کہ وہ رسول اللہؐ کے وصال کے بعد بھی آپؐ کے ایام حیات کی مانند، آپؐ کی دعا سے توسل کرتے تھے۔ منجملہ اس بارے میں حضرت علی علیہ السلام اور ابوبکر سے مختلف واقعات نقل ہوئے ہیں۔[60]۔[61]۔[62]

اس سلسلے میں ذیل کے چند نمونے پیش کئے جاتے ہیں:

زینی بن دحلان[70] میں لکھتے ہیں: اسلاف کے اذکار اور دعاؤں میں غور و تحقیق سے ان کی طرف سے توسل کے بہت سارے واقعات سے پردہ اٹھاتی ہے۔ ابن حَجَر ہَیتمی[71] نے شافعی کے بعض اشعار نقل کئے ہیں جن میں آل نبیؐ کو براہ راست قرب خداوندی کے وسیلے کے طور سے متعارف کرایا گیا ہے۔

ایک روایت کے مطابق، مالکیوں کے امام مالک نے منصور عباسی سے بات چیت کے دوران اس کو قبر نبیؐ کی زیارت کی کیفیت اور اس مقام مقدس سے توسل کا طریقہ سکھایا۔[72]

حتی اگر مان لیا جائے کہ اہل سنت کی منقولہ روایات سند کے لحاظ سے ناقابل قبول ہیں تاہم ان روایات کی تعداد اس قدر زیادہ ہے جن سے واضح ہوتا ہے کہ یہ توسل صحابہ کے زمانے سے بعد کے زمانوں تک رائج اور مقبول تھا اور ایک مسلمہ اصول کے طور پر مسلمانوں کے درمیان تسلیم کیا جا چکا تھا۔ سمہودی[73] نے ایسے متعدد واقعات نقل کئے ہیں جن میں بہت سے افراد پیغمبرؐ قبر رسولؐ حاضری دے کر آپؐ سے توسل کیا اور اپنے مقصد کے حصول میں کامیاب ہوئے۔[74]۔[75]

زیارات اور دعاؤں میں توسل کی کیفیت

ائمہ علیہم السلام سے منقولہ ماثورہ دعاؤں اور زیارات میں توسل کی کیفیت اور الفاظ و اور ادبیات سے جائز توسل کے صحیح تصور میں مدد ملتی ہے۔ تقریبا تمام شیعہ دعاؤں]] اور پیغمبرؐ اور ائمہؑ کے زیارتناموں میں ائمہ طاہرین اور اولیاء الہی سے توسل پایا جاتا ہے؛ نیز دعاؤں کی کتب میں رسول اللہؐ اور ہر امام سے توسل کے لئے نمازیں بھی منقول ہیں۔[76] ان میں مشہور ترین دعائے توسل ہے۔ دعائے توسل کے بعض حصے کچھ یوں ہیں:[77]

  • اَللّهُمَّ إنّي اَسئَلُكَ وَاَتَوَجَّهُ إلَيكَ بِنَبِيكَ نَبِي الرَّحمَةِ
    بار خدایا!ا! میں تجھ سے سوال (اور التجا) کرتا ہوں اور تیری طرف آتا ہوں تیرے نبیؐ کے واسطے سے، جو نبی رحمت ہیں...
  • یا رَسوُلَ اللّهِ ...إِنا تَوَجَّهنا وَاستَشفَعنا وَتَوَسَّلنا بِكَ اِلی اللّهِ وَقَدَّمناكََ بَينَ يدَي حاجاتِنا يا وَجيهاً عِندَ اللّهِ إِشفَع لَنا عِندَ اللّه
    اے رسول خدا! ہم آپ کے وسیلے سے خدا کی طرف متوجہ ہوئے ہیں اور آپ کو وسیلہ قرار دیتے ہیں اس کی بارگاہ میں اور آپ کو اپنا شفیع قرار دیتے ہیں اور آپ کو اپنی حاجتوں کے آگے آگے قرار دیتے ہیں، اے وہ جو آبرومند ہے خدا کے پاس ہماری شفاعت فرما!
  • خدا کو رسول اللہ، ائمۂ معصومین اور صالحین کی قسم دلانا، بھی جائز اور مشروع توسل کی ایک روش ہے مثلا کہا جائے کہ:
اَللّهُمَّ اللهم إنّي اَسئَلُكَ بِجاهِ مُحُمُّدٍ" یا "اَللّهُمَّ إنّي اَسئَلُكَ بِحَقِّ كُلِّ مُؤمِنٍ مَدَحتَهُ فِیهِ"۔

توسل شیعہ ثقافت میں

ویسے تو اہل سنت کے اکثریتی پیروکار بھی توسل کے قائل اور اس پر کاربند ہیں اور اکثر سنی جماعتوں اور فرقوں کے درمیان مقبول ہے لیکن چونکہ شیعہ ثقافت میں توسل کو خاص مقام حاصل ہے چنانچہ اس کے خاص آداب بھی شیعیان اہل بیتؑ کے درمیان رائج ہوئے ہیں۔ ان آداب و اعمال کے بعض نمونے درج ذیل ہیں:

  • ائمہؑ اور صالحین کی قبور پر حاضری دینا؛
  • ائمہؑ کے نام پر دسترخوان بچھانا؛ مثال کے طور پر "امام زین العابدین علیہ السلام اور حضرت عباس علیہ السلام کا دسترخوان، بچھانا شیعہ آداب میں سے ہے اور اس کی تفصیل یہ ہے کہ ایک مجلس کا انعقاد کیا جاتا ہے؛ حاضرین مجلس دعا اور قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اور تلاوت کا ثواب صاحب دسترخوان کو بعنوان تحفہ پیش کیا جاتا ہے اور ان ہی سے توسل کیا جاتا ہے؛
  • اجتماعی طور پر دعائے توسل کی مجالس کی برپائی بھی عام شیعہ مراسمات و آداب میں سے ہے جو عام طور پر بدھ کی رات کو انجام پاتی ہے اور مساجد، حرم، امام بارگاہوں اور حتی کہ لوگوں کے گھروں میں ان مجالس کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

متعلقہ صفحات

حوالہ جات

  1. ابن منظور، لسان العرب، ج 11، ص724، مادہ "وسل"۔
  2. جوهری، ص560۔
  3. خطبه231، ص751 نهج البلاغة، ط فيض الاسلام۔
  4. إنتماء: مصدر باب افتعال بمعنی: تعلق اور نسبت۔
  5. سورہ مائدہ آیت 35۔
  6. سورہ یوسف آیت 97۔
  7. سورہ آل عمران، آیت 103۔
  8. تفسیر المیزان، ذیل آیت۔
  9. بحارالانوار، ج 24، ص84۔
  10. بلاغات النساء، ص14، شرح نهج البلاغه، ج2، ص267۔
  11. بحارالانوار، ج 24، ص84۔
  12. نہج البلاغہ، خطبہ 110۔
  13. ابن ماجه، سنن ابن ماجه، ج1، ص441۔۔
  14. رجوع کریں: مسند احمد بن حنبل ج4ص138۔
  15. شرح نهج البلاغه، ج2، ص267 بحوالہ مسند احمد بن حنبل۔
  16. المناقب، ابن المغازلی، ص56، ح 79۔
  17. سبحانی، جعفر، توسل از دیدگاه قرآن و حدیث۔
  18. نہج البلاغہ، خطبه 110۔
  19. صحیفۂ سجادیہ، دعاء نمبر 42۔
  20. اعراف: 180.۔
  21. حشر:آیہ10.۔
  22. نساء:64۔
  23. بحارالانوار، ج 24، ص84۔
  24. نہج البلاغہ، خطبہ 110۔
  25. قاعدة جلیلة فی التوسل و الوسیلة، ج1، ص48-51۔
  26. رشید رضا، تفسیر المنار، ج6، ص371-377 و ص11-7۔
  27. السبکی، شفاء السقام، ج1، ص245-320۔
  28. ۔نبهانی، شواهد الحق فی الاستغاثة بسید الخلق، ج1، ص386۔
  29. سورہ نساء آیت 64۔
  30. قرطبی، تفسیر، ج5 ص265۔
  31. الزرقانی، شرح مواهب، ج1 ص44۔
  32. النووی، الایــــضاح، باب 6 ص498۔
  33. حاشیۂ ایضاح ص499۔
  34. الشوکانی، تحفۃ الذاکرین، ص161۔
  35. شفاء السقام فی زیارۃ خیر الانام۔
  36. العسقلانی، فتح الباری فی شرح البخاری، ج2 ص495۔
  37. القشیری، رسالۂ قشیریہ۔
  38. اس موضوع کا ادراک کرنے کے لئے ان کی تفسیر "تفسیر الکبیر یا مفاتیح الغیب" کا بغور مطالعہ کیا جائے۔
  39. ابن جوزی، کتاب "الوفاء"۔
  40. ابن کثیر، تفسیر القران العظیم، ذیلِ آیت۔
  41. ابن کثیر، البدایة والنهایة، ج1 ص80۔
  42. ابن کثیر، وہی ماخذص90۔
  43. ابن کثیر، وہی ماخذ، ج6 ص324۔
  44. تقی الدین سبکی، شفاءالسقام فی زیارۃ خیر الانام، « »ص160۔
  45. وفاء الوفاء باخبار دار المصطفی.نور الدین سمهودی، ج4، ص1372۔
  46. الدر السنیة فی الرد علی الوهابیة،زینی دحلان،ص27۔
  47. سورہ اسراء آیات56 و 57۔
  48. ابن تیمیه، التوصل الی حقیقة التوسل المشروع و الممنوع، صص12-14، 54۔
  49. سورہ بقرہ آیت45: وَاسْتَعِينُواْ بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَةِ؛ ترجمہ: اور سہارا لو صبر اور نماز کا"۔
  50. تفصیل کے لئے دیکھیں: مطهری مرتضی، جهان بینی توحیدی،ج 2 ص72۔
  51. ابن تیمیہ، التوصل الی حقیقة التوسل المشروع والممنوع، ص179۔
  52. التوسل، ص77ـ85۔
  53. سورہ آل عمران۔
  54. سورہ سجدہ، آیات 10 اور 11۔
  55. سورہ اعراف، آیات 78، 79۔
  56. وہی سورت، آیات 91 تا 93۔
  57. سورہ زخرف، آیت 45۔
  58. بخاری، محمد بن اسماعیل، الصحیح، ج5، ص76. 112۔
  59. مفید، الجمل و النصرة لسید العترة فی حرب البصره، ص391ـ392۔
  60. نهج البلاغه، خطبه235۔
  61. البخاری، الصحیح، ج2، ص17۔
  62. حلبی، السیرة الحلبیه، ج3، ص474۔
  63. صحیح البخاری، ج2، ص16۔
  64. اسدالغابة فی معرفة الصحابه، ج3، ص166۔
  65. ابن حجر عسقلانی، ج2، ص411ـ412۔
  66. ابن حجر عسقلانی، ج2، ص411ـ412. 41۔
  67. عسقلانی، ذخائر العقبی فی مناقب ذوی القربی، ص252۔
  68. طبرانی، المعجم الکبیر، ج9، ص31۔
  69. دحلان، الدرر السنیة فی الرد علی الوهابیه، ص18۔
  70. دحلان، الدرر السنیة فی الرد علی الوهابیه، ص31۔
  71. ہیتمی، مجمع الزوائد و منبع الفوائد، ج9، ص180۔
  72. سمہودی، وفاء الوفا باخبار دار المصطفی، ج4، ص1376۔
  73. وفاء الوفا باخبار دار المصطفی، ج4، ص1380ـ1387۔
  74. فقی، محمد، التوسل و الزیارة فی الشریعة الاسلامیة، ص153ـ156 و 119۔
  75. سبحانی، جعفر، التوسل، ص59 ـ66۔
  76. مفاتیح الجنان، بخش ادعیه۔
  77. وہی ماخذ، دعائے توسل۔

بیرونی روابط

مآخذ