من لایحضرہ الفقیہ (کتاب)

ویکی شیعہ سے
من لا یحضرہ الفقیہ
مشخصات
مصنفشیخ صدوق
موضوعفقہی روایات
زبانعربی
تعداد جلد4
طباعت اور اشاعت
ناشرمؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات بیروت


کتاب من لا یحضرہ الفقیہ مکتب تشیع میں احادیث کی ایک بنیادی کتاب جانی جاتی ہے اور اسے کتب اربعہ میں سے شمار کیا جاتا ہے۔ کسی شخص کی فقیہ تک رسائی نہ ہونے کی صورت میں پیش آنے والے شرعی مسائل کی جواب دہی کیلئے شیخ صدوق نے صحیح اور موثق احادیث کی بنیاد پر اس کتاب کو تالیف کیا۔

من لا یحضر الفقیہ شیخ صدوق کی اہم ترین تالیفات میں سے شمار ہوتی ہے۔ کتاب کی تالیف میں ابتدائی صدیوں کے شیعہ فقہا کی روش کی مانند صرف آئمہ طاہرین کی روایات کے ذکر پر اکتفا کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں کافی کے برعکس صرف فقہی احکام سے متعلق 6000 ہزار احادیث اکٹھی کی گئی ہیں۔ یہ کتاب شروع سے ہی شیعہ فقہا کی نظر میں بہت اہمیت کی حامل رہی ہے اور اس پر کئی شروحات لکھی گئیں جن میں مجلسی اول کی روضۃ المتقین معروف ترین شرح سمجھی جاتی ہے۔

شیخ صدوق نے اس کتاب میں حریز بن عبداللہ سجستانی، شیخ اجل حلبی، علی بن مہزیار اہوازی، احمد بن محمد بن عیسی، ابن ابی عمیر، برقی و حسین بن سعید اہوازی کی کتابوں سے احادیث کا استخراج اور جمع آوری کی ہے۔

مؤلف

تفصیلی مضمون: شیخ صدوق

اس کتاب کے مؤلف شیخ صدوق کے لقب سے معروف محمد بن علی بن حسین بن موسی بن بابویہ قمی (305-381 ھ) ہیں جو چوتھی صدی کے بزرگ ترین شیعہ علما میں سے سمجھے جاتے ہیں اور حدیثی رجحان کے حامل سمجھے جاتے ہیں۔ آپکے متعلق کہا جاتا ہے کہ آپ نے 300 کتابیں تالیف کیں جن میں سے اکثر اس وقت ہماری دسترس میں نہیں ہیں۔ مذکورہ کتاب کے علاوہ معانی الاخبار، عیون الاخبار، خصال، علل الشرائع اور صفات الشیعہ آپ کی اہم ترین کتابوں میں شمار ہوتی ہیں۔

موضوع

اس کتاب میں شیخ صدوق نے فقہی اور شرعی احکام سے متعلق آئمہ طاہرین کی روایات اپنے اعتقاد کے مطابق صحیح اور معتبر کی صورت میں جمع کیں ہیں۔

اہمیت

شیخ صدوق کے اہم ترین آثار میں من لا یحضر الفقیہ کو گنا جاتا ہے اور علمائے تشیع کے نزدیک چار حدیثی مجموعوں میں سے ایک ہے نیز ہر عام و خاص کے نزدیک اس کتاب کو ایک مرجع اور ماخذ کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ بہت سے علما نے اس کتاب کی شرحیں اور حاشیے لکھیں۔ اس کتاب کا فارسی زبان میں ترجمہ موجود ہے۔ شیخ صدوق کے موجود آثار میں سے من لا یحضر الفقیہ شیعہ مذہب کے فقہی اور احکام کی ایک جامع کتاب ہے۔ شیخ صدوق کے دیگر آثار عام طور پر موضوعی اعتبار سے مرتب ہیں جن میں اس موضوع سے متعلق روایات کی جمع آوری کی گئی ہے۔

اس کتاب کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ شیخ صدوق کی دیگر تالیفات کی نسبت اس کتاب میں مذکور مطالب کے متعلق زیادہ اعتماد اور اطمینان پایا جاتا ہے۔

شیخ صدوق نے اس کتاب کے مقدمے میں یوں تحریر کیا ہے:

یہ بات میرے پیش نظر تھی کہ جن روایات کی بنا پر میں فتوا دیتا ہوں اور حکم شرعی بیان کرتا ہوں انہیں اکٹھا کروں

اور ان روایات کے بارے میں میرا یہ اعتقاد ہے کہ یہ میرے اور خدا کے درمیان حجت ہیں نیز میں نے ان روایات کو مشہور اور مورد اعتماد کتابوں سے نقل کیا ہے۔[1]

اس لحاظ سے یہ کتاب اگرچہ روائی سمجھی جاتی ہے لیکن شیخ صدوق نے اسے ایک فقہی کتاب کہا ہے تا کہ مسائل شرعی میں ان کی روایات پر عمل کر سکیں۔ شیخ صدوق کے دیگر آثار میں ایسی کوئی ضمانت نہیں دی گئی ہے کہ جسکی تمام روایات کی صحت کو شیخ صدوق نے اپنے ذمہ لیا ہو۔ البتہ مقنعہ نامی کتاب میں موجود مطالب صحت اور اعتبار کے لحاظ سے کسی حد تک من لا یحضر الفقیہ کی مانند ہے جیسا کہ اس کے متعلق شیخ صدوق نے کہا:

اس کتاب میں میں نے موثق اور مورد اعتماد مشائخ علما اور فقہا کی بنیادی کتابوں سے احادیث نقل کی ہیں۔[2]

روش

شیخ صدوق نے اسے فقہی کتاب کے عنوان سے تحریر کیا تا کہ مسائل شرعیہ میں ان پر عمل کیا جا سکے لیکن اس کی روش ابتدائی صدیوں کے شیعہ علما کی روش کے مطابق ہے کہ جس میں علما صرف آئمہ طاہرین سے حدیث کے نقل کرنے پر اکتفا کرتے تھے اور حدیث کے ہمراہ کسی قسم کی کوئی بات اپنی جانب سے تحریر نہیں کرتے تھے چونکہ وہ کلام آئمہ کو مرکز وحی سے متصل اور معدن حکمت سمجھتے تھے۔

وسعت بحث

فقہ کے مختلف ابواب کا بیان اور ابحاث کی وسعت اس کتاب کی ایک اور خصوصیت ہے جو اسے دیگر تالیفات سے ممتاز کرتی ہے۔ فقہی ابحاث میں سے چند ایک عناوین درض ذیل ہیں:

تعداد ابواب اور احادیث

من لا یحضر الفقیہ چار جلدوں پر مشتمل ہے۔ اس کے ابواب اور احادیث کی تعداد میں اختلاف ہے۔ محدث نوری اس کے متعلق لکھتے ہیں:

اس کتاب میں احادیث کی تعداد 5963 ہے جن میں سے 2050 حدیثیں مرسل ہیں۔[3]

محدث بحرانی کہتے ہیں:

من لا یحضر الفقیہ 4 جلدوں پر مشتمل ہے جس کے ابواب کی تعداد 636 یا 666 ہے اور احادیث کی تعداد 5668 ہے۔[4]

شیخ صدوق کے فتاوا اور کتاب میں مذکور ہونے والی روایات میں مشابہت کی کثرت اور احادیث مرسل کی وجہ سے تعداد احادیث میں اختلاف پایا جاتا ہے۔

کتب حدیث سے موازنہ

اہم حدیثی کتب مصنف متوفی تعداد احادیث توضیحات
المحاسن احمد بن محمد برقی 274 ھ تقریباً 2604 مختف عناوین کا مجموعۂ احادیث
کافی محمد بن یعقوب کلینی 329 ھ تقریباً 16000 اعتقادی، اخلاقی آداب اور فقہی احادیث
من لا یحضر الفقیہ شیخ صدوق 381 ھ تقریباً 6000 فقہی
تہذیب الاحکام شیخ طوسی 460 ھ تقریباً 13600 فقہی احادیث
الاستبصار فیما اختلف من الاخبار شیخ طوسی 460 ھ تقریباً 5500 احادیث فقہی
الوافی فیض کاشانی 1091 ھ تقریباً 50000 حذف مکررات کے ساتھ کتب اربعہ کی احادیث کا مجموعہ اور بعض احادیث کی شرح
وسائل الشیعہ شیخ حر عاملی 1104 ھ 35850 کتب اربعہ اور اس کے علاوہ ستر دیگر حدیثی کتب سے احادیث جمع کی گئی ہیں
بحار الانوار علامہ مجلسی 1110 ھ تقریباً 85000 مختلف موضوعات سے متعلق اکثر معصومین کی روایات
مستدرک الوسائل مرزا حسین نوری 1320 ھ 23514 وسائل الشیعہ کی فقہی احادیث کی تکمیل
سفینہ البحار شیخ عباس قمی 1359ھ 10 جلد بحار الانوار کی احادیث کی الف ب کے مطابق موضوعی اعتبار سے احادیث مذکور ہیں
مستدرک سفینہ البحار شیخ علی نمازی 1405 ھ 10 جلد سفینۃ البحار کی تکمیل
جامع احادیث الشیعہ آیت اللہ بروجردی 1380 ھ 48342 شیعہ فقہ کی تمام روایات
میزان الحکمت محمدی ری شہری معاصر 23030 غیر فقہی 564 عناوین
الحیات محمد رضا حکیمی معاصر 12 جلد فکری اور عملی موضوعات کی 40 فصل

تالیف کا سبب

شیخ صدوق کا من لا یحضر الفقیہ تالیف کرنے کا سبب صحیح اور مورد اعتماد احادیث کو اکٹھا کرنا تھا۔[5]

شیخ صدوق نے بلخ نامی شہر کے ایک سید بنام شریف ابو عبد اللہ محمد بن حسین معروف نعمت کی درخواست اس کتاب کو تالیف کیا۔

اس شخص نے محمد بن زکریا رازی کی علم طب کے عنوان پر کتاب من لا یحضر الطبیب کی طرز پر کتاب تالیف کرنے کی درخواست کی کہ وہ علم فقہ میں ان افراد کیلئے ایک کتاب تحریر کریں کہ جو علما اور فقہا تک رسائی نہ رکھتے ہوں تا کہ ایسے اشخاص اس کتاب کی طرف رجوع کر کے اپنے احکام شرعی کو انجام دے سکیں پس اسی لئے شیخ صدوق نے اس کتاب کا نام کتاب من لا یحضر الفقیہ جس کا معنی ہے: ایسے شخص کیلئے کتاب جس کے پاس فقیہ موجود نہ ہو یا اس شخص کی کتاب جس کے پاس فقیہ نہ ہو۔[6]

کتاب کے مصادر

شیخ صدوق نے اپنی کتاب من لا یحضره الفقیہ میں حریز بن عبداللہ سجستانی، شیخ اجل حلبی، علی بن مہزیار اہوازی، احمد بن محمد بن عیسی، ابن ابی عمیر، شیخ برقی اور حسین بن سعید اہوازی جیسے متقدمین علما کی کتابوں سے احادیث کو نقل کیا ہے۔

کافی سے موازنہ

کتب اربعہ میں سے مطالب اور روایات کی جامعیت کے لحاظ سے غیبت صغرا کے زمانے میں محمد بن یعقوب کلینی کی لکھی ہوئی کتاب کافی ہے۔

من لا یحضرہ الفقیہ میں صرف فقہی اور شرعی احکام بیان ہوئے ہیں جیسا کہ مصنف نے خود اس کی تالیف کا سبب بیان کرتے ہوئے کہا:

میں نے اسے صرف فقہ کیلئے تالیف کیا ہے۔[7]

جبکہ کافی میں فقہی احکام کے علاوہ دیگر موضوعات کے متعلق بھی احادیث کی جمع آوری کی گئی ہے۔ من لا یحضر الفقیہ میں احادیث کی سند کو اختصار کی بنا پر ذکر نہیں کیا گیا جبکہ کلینی نے شیخ صدوق اور شیخ طوسی بر خلاف احادیث کی تمام اسناد کو ذکر کیا ہے۔

شروحات اور تعلیقے

فائل:روضۃ المتقین.jpg
روضۃ المتقین

ابھی تک 23 کے قریب من لا یحضر الفقیہ پر شرحیں لکھی گئی ہیں لیکن ان میں سے اکثر اس وقت مفقود اور ہماری دسترسی میں نہیں ہیں یا وہ صرف ابھی تک خطی نسخے کے طور پر محفوظ ہیں اور چاپ نہیں ہوئی ہیں ان میں سے چند ایک کے نام ذکر کئے جاتے ہیں:

ترجمے:

  • اللوامع القدسیہ یا لوامع صاحبقرانی: مجلسی اول نے شاه عباس صفوی ملقب بہ صاحب قران کیلئے لکھا اور سنہ 1322- 1324 قمری میں چھپا۔
  • متن و ترجمہ کتاب من لا یحضره الفقیہ: یہ کتاب 6 جلدوں میں علی اکبر غفاری، صدر بلاغی و محمد جواد غفاری کے ذریعے ترجمے اور شرح کی صورت میں لکھی گئی۔
  • گزیده کتاب من لا یحضره الفقیہ: محمد باقر بہبودی نے اسے ترجمے کی صورت میں خلاصہ کیا ہے۔

چاپ

  • چاپ سنگی، لکهنو ہندوستان ، سنہ 1306 ھ، 6 جلد رحلی
  • چاپ سنگی، تبریز سنہ 1324 ھ، 1 جلد رحلی
  • چاپ سنگی، تہران سنہ 1345 ھ، 1 جلد رحلی
  • چاپ حروفی، نجف سنہ 1371 ھ، 4 جلد وزیری
  • چاپ حروفی، تہران، سنہ 1376 ھ، 1 جلد رحلی
  • چاپ حروفی، تہران، سنہ 1392 ھ، 4 جلد وزیری
  • چاپ حروفی، قم، سنہ 1413 ھ، 4 جلد وزیری

حوالہ جات

  1. شیخ صدوق، کتاب من لا یحضره الفقیہ، ج۱، ص۳
  2. شیخ صدوق، المقنعہ ص5
  3. شیخ صدوق، کتاب من لا یحضره الفقیہ، ج۴، صص۵۳۸-۵۳۹، تعلیقہ
  4. بحرانی، ص۳۹۵
  5. نظری
  6. امین، ج۱، ص۱۲۲
  7. شیخ صدوق، کتاب من لا یحضره الفقیہ، ج۴، ص۱۸۰

مآخذ

  • امین، سید محسن، أعیان الشیعہ،‌ دار التعارف للمطبوعات، بیروت، ۱۴۰۶ق.
  • بحرانی، یوسف، لولوة‌ البحرین، نجف، دار النعمان، ۱۳۸۶ق.
  • شیخ صدوق، المقنع، مؤسسہ امام ہادی، قم، ۱۴۱۵ق.
  • شیخ صدوق، کتاب من لا یحضره الفقیہ، تصحیح: علی اکبر غفاری، دفتر انتشارات اسلامی، قم، چ: دوم، ۱۴۱۳ق.
  • نظری، محمود، پژوہشی درباره کتاب من لا یحضره الفقیہ، مجلہ مسجد، شماره ۳۴، سال ۱۳۷۶.