قرآن میں عدم تحریف

ویکی شیعہ سے
(عدم تحریف قرآن سے رجوع مکرر)
قرآن کریم
شیعہ عقائد
‌خداشناسی
توحیدتوحید ذاتیتوحید صفاتیتوحید افعالیتوحید عبادیصفات ذات و صفات فعل
فروعتوسلشفاعتتبرک
عدل (افعال الہی)
حُسن و قُبحبداءامر بین الامرین
نبوت
خاتمیتپیامبر اسلام اعجازعدم تحریف قرآن
امامت
اعتقاداتعصمت ولایت تكوینیعلم غیبخلیفۃ اللہ غیبتمہدویتانتظار فرجظہور رجعت
ائمہ معصومینؑ
معاد
برزخمعاد جسمانی حشرصراطتطایر کتبمیزان
اہم موضوعات
اہل بیت چودہ معصومینتقیہ مرجعیت


عدمِ تحریفِ قرآن مسلمانوں کا متفقہ عقیدہ ہے۔ مفسرین اور متکلمین نے قرآن میں ہر قسم کی تحریف اور کمی یا بیشی کی نفی کرتے ہوئے آیات اور احادیث کی طرف اشارہ کیا ہے۔

اکثر شیعہ علماء منجملہ مفسرین، قرآنی محققین کا خیال ہے کہ قرآن موجودہ صورت میں اور اسی ترتیب سے رسول اللہؐ کے زمانے میں مرتب ہوا ہے۔ اہل سنت کے بعض علماء منجملہ خیاط معتزلی اور ابو علی جبائی نے شیعیان اہل بیتؑ پر الزام لگایا ہے کہ وہ "قرآن میں تحریف کے قائل ہیں"۔

اس الزام نے محدث نوری کی کتاب فصل الخطاب کی تالیف کے بعد نئی صورت اختیار کرلی اور شیعہ علماء نے اس کتاب پر تنقید کی اور اس سلسلے میں متعدد کتابیں لکھیں۔

حدیث ثقلین، سورتوں کی قرائت کی فضیلت پر مبنی روایات، تحدی (= للکار اور مقابلے کی دعوت) قرآن کی عدم تحریف کی اہم دلیلیں ہیں۔


تحریف کا لغوی معنی

لغت میں تحریف کے معنی تبدیلی اور دیگرگونی، مَیل، کسی چیز سے پلٹنا، ساحل اور کنارہ، کے ہیں۔[1] اور مفسرین نے اس کے لغوی مفہوم کی وضاحت کرتے ہوئے ان معانی کی طرف اشارہ کیا ہے۔[2]۔[3] اصطلاح میں تحریف کے معنی دیگرگوں کرنے اور الٹنے پلٹنے کے ہیں اور اس کے مختلف النوع مصادیق ہیں۔[4]۔[5] تحریف قرآن کے دو مصادیق ـ یعنی کم کرنا یا زیادہ کرنا ـ مد نظر ہیں۔ کوئی بھی اس بات کا قائل نہیں ہوا ہے کہ قرآن میں اضافہ کیا گیا ہے اور اجماع بیشی (اور زیادت) کی نفی پر قائم ہے،[6] تاہم تحریف ـ بمعنی [یا معنوی تحریف] ـ میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔

آیات سے استناد

سورہ حجر کی نویں آیت

مفسرین اور متکلمین نے تقلیل یا کم کرنے پر مبنی تحریف کی نفی اور تردید کرتے ہوئے قرآن کی آیات اور بیانات سے استناد کیا ہے منجملہ سورہ حجر کی آیت 9 میں خداوند متعال کے اس ارشاد کا حوالہ دیا ہے:

إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ۔
ترجمہ: بلاشبہ ہم نے اس قرآن کو اتارا ہے اور یقینا ہم اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔
اس آیت میں "ذکر" سے مراد قرآن اور "لَهُ" میں ضمیر کا مرجع لفظ "ذکر" (= قرآن) ہے۔

یوں خداوند متعال نے تصریح و تاکید کے ساتھ قرآن کے محفوظ رہنے کا وعدہ دیا ہے اور وہ اس میں کسی باطل کا اضافہ کرنے یا کسی چیز کو کم کرنے سے اس کی حفاظت کرتا ہے۔[7]۔[8] نیز زمخشری[9] اور طبرسی[10] نے قرآن کی عدم تحریف پر تاکید کرتے ہوئے اس آسمانی کتاب کو ہر قسم کی کمی اور بیشی سے محفوظ قرار دیا ہے۔ اس آیت کے معنی میں اکثر مفسرین کی رائے یکسان ہے۔[11]۔[12]۔[13]۔[14]۔[15]۔[16]

استدلال میں مناقشہ

اس استدلال پر اعتراض اور مناقشہ ہوا ہے کہ "عدم تحریف کے اثبات کے لئے اس آیت سے استناد "دور" کا موجب ہے کیونکہ استدلال کی صحت اس آیت کے عدم تحریف سے اطمینان ہونے پر موقوف ہے" لہذا پہلے اس بات کا اطمینان حاصل کیا جائے کہ اس آیت میں تحریف نہیں ہوئی ہے تا کہ قرآن میں تحریف کے نہ ہونے کا اطمینان حاصل ہو۔اس کا یہ جواب دیا گیا کہ تحریف قرآن کے تمام قائلین چند ایک مخصوص آیات کے علاوہ موجودہ تمام قرآن کی صحت کے قائل ہیں۔ انہوں نے سورہ حجر کی مذکورہ آیت کو تحریف شدہ اور نہ آیات محکمات سے شمار کیا ہے۔ لہذا ان کا اعتراض وارد نہیں ہے اور اس آیت سے استدلال کرنا درست اور صحیح ہے۔[17]۔[18]

سورہ فصلت کی آیات 41 اور 42

دوسرا استدلال سورہ فصلت کی آیت 41 اور 42 سے ہے:

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِالذِّكْرِ لَمَّا جَاءهُمْ وَإِنَّهُ لَكِتَابٌ عَزِيزٌ (41) لَا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ تَنزِيلٌ مِّنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ (42)۔
ترجمہ: یقینا وہ لوگ جو ہماری آیتوں کے بارے میں کج روی سے کام لیتے ہیں ہم پر چھپے ہوئے نہیں ہیں تو کیا جو آگ میں ڈال دیا جائے، وہ بہتر ہے جو قیامت کے دن امن واطمینان کے ساتھ آئے جو تمہیں منظور ہو، وہ کرو، یقینا اس کا دیکھنے والا ہے (40) یقینا جن لوگوں نے اس قرآن کا انکار کیا جبکہ وہ ان کے پاس آیا حالانکہ وہ یقینا ایک باعزت کتاب ہے (41)۔
ان آیات میں بنیادی طور پر قرآن کی شان سے باطل کی نفی کی گئی ہے۔ عبارت کے سیاق کے لحاظ سے نفی کو "باطل" کی طبیعت (=Nature) پر وارد کیا گیا ہے چنانچہ اس سے عموم کا استفادہ ہوتا ہے اور یہاں ہر قسم کا باطل لفظ "باطل" میں شامل ہے۔[19] اور چونکہ ختم ہوکر رہنا یا حذف و تقلیل کرنا، باطل کے مصادیق میں سے ہے۔[20] "تحریف" بمعنی متن قرآن سے "حذف و تقلیل"، کی نفی ہوتی ہے، حتی تحریف کے بعض قائلین نے بھی قبول کیا ہے کہ لفظ "باطل" سے مراد ہر قسم کی تغییر اور تبدیلی ہے۔[21] قرآن سے باطل کی نفی، درحقیقت نصّ قرآن میں ہر قسم کی تبدیلیوں اور تغییرات کی نفی ہے؛ اور "باطل" (اور تغیر و تبدل) کا واضح ترین مصداق، کمی پر مبنی تحریف ہے۔[22]۔[23] در مجموع، مفسران اس تفسیر پر اتفاق نظر رکھتے ہیں.[24]۔[25]۔[26] علامہ طباطبائی[27] کے بقول آیت کے آخر میں خداوند متعال کی "حکیم" اور "حمید" سے توصیف، ابتدائے آیت کی تعلیل کی ایک قسم ہے، بایں معنی کہ "خداوند حکیم و حمید کا کلام بھدا نہیں ہوسکتا اور اس میں نقص اور کمی کی آمیزش نہیں ہوسکتی"۔

روایات سے استناد

علاوہ ازیں، سنت میں بعض روایات قرآن کی تحریف ناپذیری سے استدلال کیا گیا ہے۔ منجملہ وہ احادیث جن میں تاکید ہوئی ہے کہ روایات کا قرآن سے موازنہ کرو تا کہ درست اور نادرست کی شناخت کی جاسکے اور جو کچھ بھی قرآن سے سازگار اور ہمآہنگ ہو اس کو قبول کرو اور جو کچھ قرآنی تعلیمات کے منافی ہو اس کو ترک کیا جائے۔[28] ادھر ان روایات کے معنوی تواتر پر تصریح اور تاکید ہوئی ہے۔[29] روایات کا قطعی طور پر، تمام مسلمانوں کے نزدیک، متواتر متن، کے ساتھ موازنہ ہونا چاہئے اور اس کا لازمہ یہ ہے کہ متن متواتر اور انکار پذیر ہو؛ جبکہ تحریف پر مبنی روایات متن قرآن کی عدم صحت اور نادرستی کی طرف اشارہ کرتی ہیں چنانچہ ان کا اس متن سے مقایسہ اور موازنہ نہیں کرایا جاسکتا۔ محقق کرکی (متوفی سنہ 940 ہجری قمری) نے اس نکتے پر تاکید اور تصریح کی ہے کہ بعض احادیث میں حکم ہوا ہے کہ روایات کا قرآن کے ساتھ موازنہ کرایا جائے۔ بےشک قرآن کے ساتھ موازنہ موجودہ متن کے ساتھ موازنہ ہی ہے ورنہ "تکلیف ما لا یطاق" لازم آتی ہے جو باطل ہے۔[30]

حدیث ثقلین

قرآن کی عدم تحریف کی اہم ترین دلیلوں میں سے ایک حدیث ثقلین ہے۔ اس حدیث متواتر سے دو روشوں سے استدلال ہوا ہے۔ پہلی بات یہ کہ اس حدیث میں، تمام زمانوں میں، قرآن اور عترت رسول(ص) سے تمسک کی ضرورت پر تصریح و تاکید ہوئی ہے اور اگر تحریف پر یقین کیا جائے تو اس تمسک کی عملی طور پر نفی ہوتی ہے؛ نتیجہ یہ کہ تحریف کا عقیدہ قرآن اور عترت سے تمسک کے منافی ہے اور حدیث ثقلین سے متصادم ہے۔

دوسری بات یہ کہ عقیدۂ تحریف قرآن، ظواہر قرآن کی حجیت اور قرآن سے تمسک کی نفی کرتا ہے؛ کیونکہ قرآن کے موجودہ متن کے ظواہر سے جو کچھ بھی سمجھا جاسکتا ہے، اگر فرض کریں کہ اس کا کچھ حصہ حذف ہوا ہے، اس لحاظ سے، کہ موجودہ حصوں کے فہم و ادراک کا قرینہ (اور نشانی) ہو!، موجودہ حصے ابہام کا شکار ہوجائیں گے اور نتیجے کے طور پر، ان متون اور ان کے ظواہر سے استناد و استدلال ناممکن ہوگا۔

فقہی احکام پر مشتمل احادیث

قرآن کی عدم تحریف کے اثبات کے لئے ان احادیث سے بھی استناد کیا گیا ہے جو فقہی احکام پر مشتمل ہیں۔ ان احکام میں سے ایک یہ ہے کہ "نماز" میں سورہ حمد کے بعد پوری سورت پڑھنا چاہئے"۔[31] ان روایات کی بنیاد پر فقہاء نے حمد کے بعد پوری سورت پڑھنا، واجب قرار دیا ہے اور اس حکم پر فقہائے اہل بیت کا اجماع ہے۔[32]۔[33] اب اگر ہم تحریف کے قائل ہوجائیں تو اس حکم کی تعمیل ناممکن ہوجائے۔ وضاحت یہ کہ اصولیون کی اصطلاح کے مطابق اشتغال یقینی کا لازمہ برائت یقینی ہے مکلَّف حکم کی تعمیل کے لئے ایک سورت پڑھے لیکن تحریف کے احتمال کے ہوتے ہوئے کسی بھی سورت کی قرائت سے تعمیل و امتثال کا یقین حاصل نہیں ہوسکے گا، کیونکہ تحریف کا نظریہ قبول کرکے تمام سورتوں میں تحریف کا احتمال لازم آئے گا۔ تقیہ کی رو سے بھی اس حکم کے صدور کا دعوی، قابل توجیہ نہیں ہے کیونکہ اکثر اسلامی مذاہب کے پیروکار پوری سورت پڑھنے کے قائل نہیں ہیں۔

قرائت سُوَر کی فضیلت پر مبنی روایات

سورتوں کے بارے میں وارد ہونے والی روایات بھی عدم اثبات کے اثبات کےلئے دستاویز ہوسکتی ہیں۔ بہت سی احادیث میں سورتوں کی قرائت یا ختم قرآن پر فضائل اور آثار مرتب ہوئے ہیں اور اس بات سے انکار ممکن نہیں ہے کہ یہ روایات رسول اللہ(ص) کے دور میں آپ(ص) ہی سے صادر ہوئی ہیں۔ دیگر معصومین(ع) سے مذکورہ مضمون پر مشتمل، کثیر حدیثیں وارد ہوئی ہیں۔ ابن بابویہ[34] نے نہ صرف عدم تحریف کے شیعہ عقیدے پر تکید و تصریح کی ہے بلکہ اس الزام کو محض جھوٹ قرار دیا ہے کہ "شیعہ تحریف قرآن کے قائل ہیں"، اور انھوں نے ان احادیث سے بھی استناد کیا ہے اور لکھا ہے: "جو کچھ قرآن کی سورتوں کی قرائت کے ثواب ننماز نافلہ کی ہر رکعت میں دو سورتوں کی قرائت کے جواز، ختم قرآن کے ثواب اور ایک رات میں ختم قرآن سے نہی، اور تین روز سے کم مدت میں ختم قرآن کے عدم جواز کے بارے میں نقل ہوا ہے ہمارے مدعا کی تصدیقی دلیل ہے"۔ بحیثیت مجموعی، اگر فرض کیا جائے کہ سورتوں اور آیات میں تحریف واقع ہوئی ہے تو ان احکام پر عمل دشوار ہی نہیں بلکہ محال ہوکر رہے گا اور امر مسلم ہے کہ رسول اللہ(ص) اور ائمہ(ع) ـ جنہوں نے ان احکام پر عمل کرنے کا فرمان دیا ہے ـ اس بات کی طرف بھی توجہ کاملہ رکھتے تھے کہ یہ عمل ممکن ہے۔

ایک استدلال اور

قرآنی بیانات اور احادیث کے علاوہ، مسلمانوں کے اعتقادات میں قرآن کریم کی منزلت ـ جو ابتدائے بعثت سے ہی نمایاں ہوئی تھی اور قرآن کی پاسداری اور اس کے متن کی ہر قسم کی تحریف سے حفاظت کے سلسلے میں مسلمین کی تمام تر کوششوں ـ کو مد نظر رکھ کر بھی، قرآن میں تحریف کا امکان معدوم ہے۔ آیات قرآن کے نزول کے بعد رسول اللہ(ص) لوگوں کے لئے ان کی تلاوت کرتے تھے اور کاتبین وحی، بالخصوص امام علی علیہ السلام کو بلوا کر انہیں ان کی کتابت کا حکم دیتے تھے۔ تاریخی حوالوں کے مطابق، مسلمان قرآنی آیات کی نسبت گہری شناخت رکھتے تھے اور سب کو یقین تھا کہ جو کچھ پیغمبر اکرم(ص) تلاوت کررہے ہیں، وحی ہے۔

تاریخی حوالے

متعدد تاریخی حوالے بھی اس حقیقت کی عکاسی کرتے ہیں کہ مسلمان قرآن اور کلام الہی کی نصّ کی صحت کی نسبت حساسیت رکھتے ہیں اور اس پر گہری نظر رکھتے ہیں۔

مثال کے طور پر، عثمان بن عفان کی کوشش تھی کہ آیت کریمہ "... وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلاَ يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللّهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ"۔[35] میں "والذین" کی ابتداء سے حرف "و" کو حذف کردیں، لیکن اُبَی بن کعب نے خلیفہ کو خبردار کیا کہ اگر انھوں نے حرف "و" کو اپنے مقام پر درج نہ کیا تو وہ تلوار سونت نیام سے نکال لیں گے۔[36] مروی ہے کہ عمر بن خطاب نے سورہ توبہ ہی کی آیت 100: وَالسَّابِقُونَ الأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللّهُ عَنْهُمْ وَرَضُواْ عَنْهُ۔ [37] کی قرائت میں لفظ "الأَنصَارِ" کو [جو مکسور ہے] مرفوع کرکے "َالأَنصَارُ" پڑھنے کا فیصلہ کیا تا کہ یہ جتایا جاسکے کہ "انصار کی عظمت اور ان کا اعلی رتبہ، مہاجرین کی متابعت اور پیروی سے مشروط ہے"۔ خلیفہ کا یہ اقدام مہاجرین اور انصار کے درمیان مفاخرات میں ـ رسول اللہ(ص) کے بعد ـ بہت مؤثر تھا اور مہاجرین کے مفاد میں تھا۔ اس دفعہ بھی ابی بن کعب ان افراد میں سے تھا جنہوں نے عمر بن خطاب پر اعتراض کیا اور تاکید کی کہ "آیت اس طرح نہیں ہے جس طرح کہ وہ اس کی قرائت کرتے ہیں۔[38]۔[39] علاوہ ازیں عمر بن خطاب کا خیال تھا کہ قرآن میں ایسی آیت موجود ہے جس میں "حدّ رجم (= سنگسار کی حد) کو بیان کیا گیا ہے لیکن وہ اپنے اس خیال کے اظہار سے خائف تھے کیونکہ اس صورت میں وہ قرآن میں بیشی کرنے کے الزام کا سامنا کرسکتے تھے۔[40]

ابن زبیر سے منقول ہے کہ عثمان سے پوچھا گیا کہ "وہ سورہ بقرہ کی آیت 240 کو قرآن سے حذف کیوں نہیں کرتے جبکہ اس کا حکم نسخ (=منسوخ) ہوچکا ہے؟" تو انھوں نے کہا: "میں ہرگز قرآن میں کوئی تبدیلی نہیں کروں گا اور کسی چیز کو اس کے مقام سے حذف نہیں کروں گا"۔[41] چنانچہ، بہت سے صحابہ اور مؤمنین قرآن کی تمام آیات سے گہری آگہی رکھتے تھے اور کسی صورت میں ان میں کسی ديگرگونی کو برداشت نہیں کرتے تھے اور اگر کوئی مسئلہ پیش آتا تو وہ شدید موقف اپناتے تھے۔

قرآن کا فصل الخطاب ہونا

اس حقیقت کے پیش نظر کہ معصومین علیہم السلام تنازعات کے حل اور جھگڑوں کے خاتمے کے لئے قرآن کو فصل الخطاب سمجھتے تھے اور لوگوں کو قرآن کی طرف رجوع کرنے کی تلقین کرتے تھے، ان بزرگواروں سے منقولہ احادیث میں ـ کبھی صراحت کے ساتھ اور کبھی ضمنی طور پر ـ ایسے اقوال پائے جاسکتے ہیں جو "قرآن کے محفوظ اور صحیح ہونے اور اس میں عدم تحریف کے عقیدے پر دلالت کرتے ہیں۔

مروی ہے کہ معاویہ بن ابی سفیان نے امام حسن مجتبی علیہ السلام سے کہا کہ "قرآن کا بڑا حصہ تباہ اور نیست و نابود ہوچکا ہے!" تو امام(ع) نے جواب دیا: "خدا کی قسم! یہ بات محض جھوٹ ہے"، اور یوں اس کے دعوے کو ردّ کردیا۔[42]۔[43]۔[44] امام باقر علیه السلام سے منقول ہے کہ آپ(ع) نے قرآن کے حوالے سے مکارانہ نقطہ ہائے نظر پر طعن و تنقید کرتے ہوئے اس حقیقت پر زور دیا کہ "قرآن کے حروف اور الفاظ برقرار اور استوار ہیں اور ان میں کوئی کمی نہیں ہوئی اور حکومت نے صرف قرآن کے حقائق اور معارف و تعلیمات کو دیگرگوں کردیا ہے۔[45]


تحدی (للکار)

قرآن کی تحدی اور لوگوں کو اپنی تمام عددی قوتیں اور تمام تر تیاریاں بروئے کار لا کر جمع کرکے قرآن کی مانند کوئی کتاب یا امی (= کسی سے پڑھے لکھے بغیر فرد) کی زبان سے، اس کی سورتوں میں سے کوئی سورت[46]۔[47]۔[48] لاکر پیش کرنے کی للکار (اور مبارزت طلبی)، عدم تحریف کے سلسلے میں علامہ طباطبائی سمیت بہت سے مفسرین کے استدلال کی بنیاد ہے۔ علامہ کا کہنا ہے کہ بہت سی آیات کریمہ میں قرآن کریم کی تعریف و تمجید خاص اوصاف کے ساتھ کی گئی ہے اور اگر آیات میں ذرہ برابر خلل واقع ہوتا تو ان اوصاف میں بھی خلل پڑتا۔ حالانکہ ہم ان خاص اوصاف کو اسی قرآن میں بہترین اور استوار ترین انداز سے دیکھ سکتے ہیں؛ پس بےشک اس میں کسی قسم کی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔[49]۔[50]۔[51]۔[52]

شیعیان اہل بیت پر تحریف کا الزام

شاید ابوالحسین عبدالرحیم بن محمد، المعروف بہ خیاط معتزلی (متوفی [تقریبا] سنہ 300ہجری قمری)، نے سب سے پہلے اپنی کتاب کے مختلف حصوں میں یہ الزام شیعیان اہل بیت پر لگایا ہے۔[53] اس کے دعوے میں قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ "شیعہ قرآن میں زیادت کے قائل ہیں"، اور یہ وہ بات ہے جس پر کوئی بھی یقین نہیں رکھتا اور حتی کہ تحریف کے قائلین بھی زیادت کے قائل نہیں ہیں۔ دوسرا معتزلی متکلم، ابوعلی جُبائی (متوفی سنہ 303ہجری قمری)، ہے جس نے ابن طاؤس،[54] کی روایت کو دستاویز بنا کر الزام لگایا ہے کہ "روافض تحریف بمعنی مطلق ـ یعنی کمی، بیشی اور دیگرگونی اور تبدیلی کے قائل ہیں!"۔

ابوالحسن اشعری (متوفی 334ہجری قمری) نے اپنی کتاب مقالات الاسلامیین میں اہل تشیّع سے اس نظریئے کے انتساب کے حوالے سے لکھا ہے کہ "شیعہ دو گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں؛ ان میں سے ایک گروہ تحریف پر یقین نہیں رکھتا[55] قاضی عبدالجبار[56] نے بھی اس الزام کے بارے میں اظہار خیال کیا ہے اور لکھا ہے کہ روافض میں سے امامیہ کا خیال ہے کہ سورہ احزاب ایک اونٹ پر لدے بوجھ کے برابر تھی؛ حالانکہ دلچسپ امر یہ ہے کہ سورہ احزاب کی کمی پر مبنی روایات مطلقا شیعہ ذرائع سے نقل نہیں ہوئی ہیں بلکہ اس کی رسمی روایات تماما سنی ذرائع سے منقول ہیں۔[57]۔[58]

قاضی عبد الجبار کی "روافض میں سے امامیہ" پر تاکید، باقلانی (متوفی سنہ 403ہجری قمری) کے کلام میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ وہ اپنی کتاب نکت الانتصار[59] میں، ایک طرف سے کہا ہے کہ "روافض سے تحریف کی نسبت یقینی ہے اور وہ اس قرآن میں کمی کے قائل ہیں"، لیکن دوسری طرف سے [اپنے ہی کلام کی نفی کرتے ہوئے] لکھتا ہے کہ "اہل تشیّع کی اکثریت "کلام معصوم سے استناد کرتے ہوئے قرآن میں کمی بیشی نہ ہونے پر یقین رکھتے ہیں"۔ اسی قسم کے الزامات کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے ابن حزم (متوفی سنہ 456ہجری قمری) نے اپنی کتاب الفِصَل[60] میں لکھا ہے کہ "امامیہ قدیم ترین زمانے سے اب تک اس عقیدے پر رہے ہیں کہ قرآن میں تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں، اس میں اضافہ کیا گیا ہے اور اس میں بہت زیادہ کمی کی گئی ہے"۔

شیعہ علماء کیا کہتے ہیں؟

اکثر علمائے اسلام ـ منجملہ مفسرین، فقہاء اور قرآنی محققین ـ اس حقیقت پر یقین واثق رکھتے ہیں کہ قرآن موجودہ صورت میں اور اسی ترتیب سے اور اسی ڈھانچے میں، پیغمبر اکرم(ص) کے زمانے میں مرتب ہوچکا تھا۔ اس نظریئے کے بعض قائلین کے نام حسب ذیل ہیں:


علمائے اسلام کا استدلال

علمائے اسلام اس نکتے پر تاکید کرچکے ہیں کہ عقلی لحاظ سے قابل قبول نہیں ہے کہ رسول اللہ(ص) اس کتاب کو اپنے حال پر چھوڑ دیں جو دین کا معجزہ ہے اور انفرادی اور معاشرتی سلوک اور رویوں کا ضابطہ ہے اور آپ(ص) کے دین کا مستند، بنیاد اور سرمایہ ہے اور اس کی تدوین و تجمیع اور اس کے تحفظ سے غفلت برتیں۔[72]۔[73]

ان میں سے بعض ـ منجملہ آیت اللہ خوئی ـ نے ان روایات کو ناکافی قرار دیا ہے جن کے ذریعے اس دعوے کے اثبات کی کوشش کی گئی ہے کہ "قرآن کو رسول اللہ(ص) کے بعد، خلفاء کے دور میں جمع کیا گیا ہے"۔ ان کی رائے ہے کہ قرآن کو رسول اللہ(ص) کے زمانے میں ہی جمع کیا گیا تھا کیونکہ اس کے سوا دوسرا کوئی امکان موجود نہیں ہے۔ بعض دیگر، منجملہ آیت اللہ بروجردی اور میرزا مہدی پویا نے رسول اللہ(ص) کے بعد کے زمانے میں جمع قرآن پر مبنی روایات کو جعلی قرار دیا ہے اور انہیں یقین ہے کہ اس قسم کی روایات کو بعض افراد نے مختلف قسم کے مقاصد کی بنیاد پر وضع کیا ہے۔ ان علماء کی رائے کے مطابق، "جمع قرآن کا کام قطعی طور پر موجودہ شکل و صورت اور ترتیب سے رسول اللہ(ص) کے دور میں ہی انجام پاچکا ہے"۔

بہر صورت، خواہ اس نظریئے کو قبول کیا جائے یا قبول نہ کیا جائے، دلائل اور قرائن، بحیثیت مجموعی، بطور اتمّ اس حقیقت کی عکاسی کرتے ہیں کہ جمع قرآن کا کام رسول اللہ(ص) کے عہد میں ہی انجام پایا ہے، اور ثابت ہوتا ہے کہ یہ نظریہ سست اور بےبنیاد ہے کہ "قرآن منتشر تھا [اور اس کو جمع کیا گیا]"۔ چنانچہ منتشر ہونے کے دعوے کی بنیاد پر تحریف قرآن کا نظریہ بھی باطل ہے۔

محدث نوری کا نظریہ

حالیہ دور میں قرآن کی تحریف یا تحریف ناپذیری کی بحث اور اس سلسلے میں علمائے شیعہ کے نظریات کو محدث نوری کی کتاب فصل الخطاب کے تناظر میں سامنے لایا جاتا رہا ہے اور شیعہ علماء نے محدث نوری کے نظریئے کی تردید میں متعدد کتب تالیف کی ہیں۔[74]۔[75]

اہل سنت کے بعض علماء نے بھی صدق نیت اور علمائے شیعہ کے نزدیک مقبول نظریات کی رو سے، مکتب شیعہ کو تحریف قرآن کے بہتان سے بری الذمہ قرار دیا ہے۔[76]

آیت اللہ بروجردی کا نظریہ

اس حوالے سے آیت اللہ بروجردی نے تاکید کی ہے کہ "اگر کوئی صدر اول کے اسلامی معاشرے کے حالات سے باخبر ہو اور تاریخ اسلام سے پوری آگہی رکھتا ہو اور قرآن کے حروف و الفاظ اور آیات و سور کے تحفظ کے سلسلے میں مسلمانوں کے اہتمام سے واقفیت حاصل کرے تو محال اور ناممکن ہے کہ وہ نظریہ تحریف کو قبول کرے"۔[77]

امام خمینی کا نظریہ

امام خمینی عدم تحریف پر تاکید و تصریح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ حضرت علی اور فاطمہ زہرا اور ائمہ علیہم السلام، نیز ان کے حق گو اور حق جو اصحاب ـ منجملہ سلمان، مقداد اور ابوذر نے کبھی بھی اپنے استدلالات اور مناظرات وغیرہ میں ان فرضی آیات سے استناد نہیں کیا ہے جو بالفرض قرآن سے ساقط اور محذوف ہیں" اور یوں انھوں نے نظریہ تحریف کو رد کردیا ہے۔[78]

قرآن میں ائمہ کے نام

تحریف کے قائل افراد کے نظریئے کے مطابق، زیادہ تر تحریفات، ائمہ(ع) سے متعلق آیات میں انجام پائی ہیں۔ مثال کے طور پر کہا گیا ہے کہ بہت سی آیات میں ان بزرگواروں کے اسماء گرامی واضح طور پر ذکر ہوئے تھے جنہیں حذف کیا گیا ہے۔ تاہم امام صادق(ع) سے منقولہ صحیح السند روایت میں ـ قرآن کی کئی آیات کا حوالہ دیا گیا ہے جن میں اللہ کے احکام اجمالی طور پر بیان کیا گیا ہے اور ـ تفصیل کے لئے سنت کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا گیا ہے، تحریف کا عقیدہ رکھنے والوں کے اس نظریئے کو ردّ کیا گیا ہے۔[79]

غیر ارادی تحریفات

تحریف کے قائلین غیر ارادی تحریفات کو زیادہ تر جمع قرآن کے موضوع سے مربوط سمجھتے ہیں۔ ان کے عقیدے کے مطابق قرآن رسول اللہ(ص) کے زمانے میں منتشر تھا اور اس میں کوئی جمع و ترتیب نہ تھی، چنانچہ یہ احتمال موجود ہے کہ کسی بھی محرک سے قطع نظر، جمع کرنے والوں کی لاعلمی کی وجہ سے، بعض آیات نظر انداز کی گئی ہوں۔[80] علاوہ ازیں اگر ہم اس بات کے قائل ہو بھی جائیں کہ "قرآن کو رسول اللہ(ص) کے زمانے میں جمع نہیں کیا گیا تھا" تو بھی اس کا مفہوم ضرورتا یہ نہیں ہے کہ "قرآن میں تحریف بھی ہوئی ہے"۔ محققین نئی اور دلائل، قرائن اور تاریخی نکات پر استوار اور مدلل تحقیقات کی بنا پر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ "رسول اللہ(ص) کے زمانے میں ہی "جمع قرآن" کا عمل، ناقابل انکار ہے"۔ رسول اللہ(ص) کی تاکید اور ترغیب کی وجہ سے تمام آیات اور سورتوں کو مکتوب اور جمع کیا جاتا تھا اور آیات اور سورتیں مکمل طور پر جانی پہچانی اور متعین تھیں۔[81]۔[82]

تحریف کے قائلین کی روایات کا تنقیدی جائزہ

ادھر تحریف کے قائل افراد بھی بعض روایات کا سہارا لے کر اپنی رائے کے اثبات کے لئے کوشاں ہیں حالانکہ ان "بظاہر متعدد روایات" کا سند اور مضمون کے لحاظ سے تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔ آیت اللہ بروجردی کی رائے کے مطابق ان روایات میں سے زیادہ تر احمد بن محمد سیاری سے منقول[83] ہیں جس کی روایات ناقابل قبول ہیں اور متقدم علمائے رجال اور محدثین نے اس کو فاسد العقیدہ اور ضعیف المذہب قرار دیا ہے۔

بعض دیگر روایات بھی ـ جو رسول اللہ(ص) کے بعد جمع قرآن کی عکاسی کرتی ہیں ـ اگر سند و مضمون کے لحاظ سے تنقید کی کسوٹی پر پرکھی جائیں تو ظاہر ہوتا ہے کہ جعلی اور موضوعہ ہیں اور سیاسی و کلامی (=اعتقادی) تنازعات نے ان کو جعل اور وضع کرنے کا امکان فراہم کیا ہے۔[84]۔[85] مہدی بروجردی[86] نے لکھا ہے کہ محدث نوری کی کتاب فصل الخطاب میں منقولہ احادیث کی کتاب میں منقولہ تمام روایات کو 12 مقولات میں تقسیم کیا جاسکتا ہے اور ان میں غور و خوض سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے بہت سوں کا تحریف سے کوئی براہ راست تعلق نہیں ہے اور ان میں سے بیشتر روایات قرائت، تبیین و تشریح، تطبیق اور تاویل میں موجودہ اختلافات کے تناظر میں نقل ہوئی ہیں، لیکن اسی حال میں [اسناد میں] غالی، کذاب، جعال اور وضاع راویوں کی موجودگی، کی وجہ سے ان میں وضع و جعل اور جھوٹ بھی مسلم ہے۔[87]۔[88]

صریح روایات کا تنقیدی جائزہ

قرآن میں کمی پر دلالت کرنے والی روایات جو شیعہ اور سنی منابع و مآخذ میں منقول ہیں، غالبا سند کے لحاظ سے قابل قبول نہیں ہیں اور ان میں سے بہت سی روایات میں تفسیر اور تاویل پر مشتمل جملوں اور الفاظ پر مشتمل ہیں اور ان میں متنِ قرآن کا ذکر نہیں ہے۔[89] اس سلسلے میں ایک روایت الکافی میں[90] نقل ہوئی ہے جس کے مطابق "قرآن کی آیتوں کی تعداد 17000 تھی"، اس روایت کی ایک طرف سے توجیہ ہوئی اور دوسری طرف سے اس کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے اور اس کی تردید کی گئی ہے:

  1. الکافی کا ایک نسخہ فیض کاشانی کے پاس تھا جس پر انھوں نے شرح لکھی ہے؛ اس نسخے میں یہ عدد 7000 لکھی گئی ہے،[91] اس صورت میں یہ روایت آیات قرآنی کی تعداد کے تعین کی دلیل نہیں ہے بلکہ ان کی کثرت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
  2. ابن بابویہ[92] کہتے ہیں کہ احتمالا اس عدد سے مراد "غیر قرآنی وحی کی حد و حدود" ہیں۔
  3. اس قدر اہم مسئلے میں، "خبر واحد" سے استناد نہیں کیا جاسکتا، بالخصوص یہ کہ یہ روایت قرآن کے ناقابل تحریف ہونے کے مضبوط دلائل سے مغایرت رکھتی ہے اور ان متواتر روایات سے متصادم ہے جن میں تلاوت قرآن اور اس کے احکام پر عمل کرنے، پر زور دیا گیا ہے۔[93]

مصحف امام علی اور مسئلۂ تحریف

آج اہل سنت کے بعض مؤلفین کوشش کرتے ہیں کہ "مصحف امام علی" کے عنوان سے فائدہ اٹھا کر "تحریف قرآن کریم" کے تصور کو ایک "مسلّمہ اصول" کے عنوان سے شیعہ مکتب سے منسوب کر دیں،[94]۔[95] تاہم شیعہ علماء نے قدیم زمانوں سے بہت زيادہ باریک بینی اور گہری توجہ مرکوز کئے رکھی ہے اور واضح کرتے رہے ہیں کہ مصحف امام علی علیہ السلام کے اضافات تفسیر، تاویل، توضیح، شرح، محکم و متشابہ اور اور ان کے مصادیق کی نوعیت کے ہیں؛ اور بالفاظ دیگر، وہ وحی بیانی کے زمرے میں آتے ہیں نہ کہ وحی قرآنی کے زمرے میں۔ شیخ مفید کا کہنا ہے[96] کہ جو کچھ مصحف علی علیہ السلام میں ثبت و ضبط ہوا ہے، اس قرآن میں موجود نہیں ہے، اور آیات کی تاویل اور ان کی تفاسیر باطنِ تنزیل کی بنیاد پر ہیں نہ کہ اللہ کے کلام کی بنیاد پر کیونکہ "قرآن معجز کہلاتا ہے"۔ آیت اللہ خوئی[97] کہتے ہیں کہ قرآن میں اضافات اور بیشیاں (= Surplusages) اگرچہ صحیح ہیں لیکن یہ قرآن [کا حصہ] نہ تھیں۔


روایاتِ فُسطاط اور مسئلۂ تحریف

فُسطاط کے نام سے مشہور روایات سے بھی، تحریف کی بحث میں، استناد کیا گیا ہے۔ بعض روایات میں منقول ہے کہ جب امام زمانہ(عج) ظہور کریں گے، تعلیم قرآن کے لئے خیام نصب کئے جائیں گے اور قرآن کی تعلیم اسی طرح دیں گے جس طرح کہ اس کو اللہ تعالی نے نازل فرمایا ہے اور یہ ان قرآن سے موانست رکھنے والے افراد کے لئے دشوار ہوگا کیونکہ یہ تعلیم (موجودہ قرآن) کی "تالیف" کے خلاف ہوگی۔[98] اسی مضمون پر مشتمل دوسری روایات بھی ہیں اور بعض افراد نے کوشش کی ہے کہ ان روایات کے لب و لہجے سے موجودہ قرآن میں ایک قسم کی تحریف کا اثبات کردیں، بعض علماء نے ان لوگوں کا جواب دیا ہے۔[99] ان روایات میں لفظ "ترتیب" نہیں بلکہ لفظ "تالیف" استعمال کیا گیا ہے اور "علی ما انزل اللہ" کی عبارت آئی ہے نہ کہ دوسری کوئی عبارت۔

متعلقہ موضوعات

حوالہ جات

  1. فراہیدی، کتاب العین؛ ابن دُرَید، جمہرة اللغۃ، جوہری، تاج اللغۃ و صحاح العربیۃ، ذیل "حرف"۔
  2. رجوع کریں: طوسی، التبیان، ج3، ص213، ج7، ص296۔
  3. زمخشری، تفسیر کشاف، ج1، ص516۔
  4. رجوع کریں: خوئی، البیان فی تفسیر القرآن، ص197 ـ 198۔
  5. معرفت، صیانۃ القرآن من التحریف، ص13ـ16۔
  6. خوئی، البیان فی تفسیر القرآن، ص200۔
  7. زجاج، ج3، ص174۔
  8. ابن ابی حاتم، ج7، ص2258۔
  9. تفسیر کشاف، ذیل آیہ۔
  10. طبرسی، مجمع البیان، ذیل آیه۔
  11. صنعانی، تفسیرالقرآن العزیز، ج1، ص299۔
  12. فخر رازی، التفسیرالکبیر، ج19، ص160۔
  13. قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، ج1، ص84۔
  14. ابن کثیر، تفسیرالقرآن العظیم، ج2، ص547۔
  15. فیض کاشانی، الصافی فی تفسیر القرآن، ج3، ص102۔
  16. طباطبائی، تفسیر المیزان، ج12، ص101۔
  17. خوئی، البیان فی تفسیر القرآن، ص207۔
  18. معرفت، صیانۃ القرآن من التحریف، ص47۔
  19. خوئی، البیان فی تفسیر القرآن، ص210۔
  20. رجوع کریں: ابن منظور، لسان العرب، ذیل لفظ۔
  21. رجوع کریں: نوری، فصل الخطاب...، ص361۔
  22. خوئی، البیان فی تفسیر القرآن، ص210۔
  23. معرفت، صیانۃ القرآن من التحریف، ص49ـ50۔
  24. ر.ک:طوسی، التبیان، ج9، ص131ـ132۔
  25. فخر رازی، التفسیرالکبیر، ج9، ص568۔
  26. مراغی، تفسیرالمراغی، ج24، ص138۔
  27. طباطبائی، تفسیر المیزان، ذیل آیہ 42۔
  28. کلینی، الکافی، ج1، ص69۔
  29. شیخ انصاری، فرائد الاصول، ص110ـ111۔
  30. ر.ک:بروجردی، برہان روشن البرہان علی عدم تحریف القرآن، ص116ـ 118۔
  31. کلینی، الکافی، ج3، ص313۔
  32. طوسی، الخلاف، ج1، ص336۔
  33. علامہ حلّی، ج1، ص142۔
  34. ابن بابویه، الاعتقادات الامامیة، ص84۔
  35. سوره توبه، آیه 34؛ پوری آیت: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِنَّ كَثِيراً مِّنَ الأَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَيَأْكُلُونَ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللّهِ وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلاَ يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللّهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ۔
    ترجمہ: اے ایمان لانے والو ! یقینا بہت سے پادری اور راہب، لوگوں کے اموال ناحق کھاتے ہیں اور اللہ کی راہ سے انحراف کرتے ہیں اور وہ جو سونے اور چاندی کے ذخیرے اکٹھا کرتے ہیں اور انہیں اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے تو انہیں درد ناک عذاب کی خوش خبری سناؤ۔
  36. سیوطی، در المنثور، ج3، ص232۔
  37. ترجمہ: اور شروع شروع ہی میں پہلے اسلام لانے والے مہاجر اور انصار اور جو حسن عمل کے ساتھ ان کی پیروی کریں، اللہ ان سے خوش ہے اور وہ اللہ سے خوش ہیں۔
  38. طبری، ج11، ص7۔
  39. سیوطی، سیوطی، در المنثور، ج3، ص269۔
  40. مالک بن انس، ج2، ص824۔
  41. بخاری جعفی، ج4، ص160ـ161۔
  42. سلیم بن قیس ہلالی، ج2، ص847۔
  43. احمد طبرسی، الاحتجاج، ج2، ص7۔
  44. مجلسی، بحارالانوار، ج33، ص271۔
  45. کلینی، الکافی، ج8، ص53۔
  46. سوره بقره آیه 23۔
  47. سوره یونس آیہ 38۔
  48. سوره ہود آیہ 13۔
  49. طباطبائی، المیزان، ج2، ص105ـ 107۔
  50. بروجردی، برہان روشن البرہان علی عدم تحریف القرآن، ص107ـ162۔
  51. حسینی میلانی، التحقیق فی نفی التحریف، ص15ـ34۔
  52. معرفت، صیانۃ القرآن من التحریف، ص60ـ 78۔
  53. معتزلی، الانتصار، ص37ـ 38، 166، 231۔
  54. ابن طاؤس، سعد السعود للنفوس، ص255۔
  55. ، ابوالحسن اشعری، مقالات الاسلامیین، ص47۔
  56. قاضی عبدالجبار، شرح الاصول الخمسۃ، ص601۔
  57. سیوطی، در المنثور، ج5، ص179ـ180۔
  58. عسکری، ج2، ص106ـ107۔
  59. قاضی عبدالجبار، شرح الاصول الخمسۃ، ص240ـ241۔
  60. ابن حزم، الفصل، ج5، ص40۔
  61. ابن طاؤس، سعد السعود للنفوس، ص315۔
  62. زرکشی، البرهان فی علوم القرآن، ج1، ص260۔
  63. علم الهدی، الذخیرة فی علم الکلام، ص363۔
  64. فضل طبرسی، ج1، ص84۔
  65. زرزور، الحاکم الجشمی و منہجه فی التفسیر، ص415ـ416۔
  66. زرکشی، البرہان فی علوم القرآن، ج1، ص259ـ 26۔
  67. فضل طبرسی، مجمع البیان، ج1، ص84۔
  68. ابن طاؤس، سعد السعود للنفوس، ص315۔
  69. شرف الدین، اجوبۃ مسائل جاراللّه، ص28۔
  70. منتظری، نہایة الاصول، تقریرات درس آیۃ اللّه بروجردی، ص428۔
  71. خوئی، البیان فی تفسیرالقرآن، ص239ـ247۔
  72. ابن طاؤس، سعد السعود للنفوس، ص315۔
  73. شرف الدین، اجوبة مسائل جاراللّه، ص28۔
  74. معرفت، صیانۃ القرآن من التحریف، ص59 ـ 78۔
  75. حسینی میلانی، التحقیق فی نفی التحریف، ص15ـ34۔
  76. دہلوی، اظہارالحق، ص354۔
  77. منتظری، نہایۃ الاصول، تقریرات درس آیۃ اللّه بروجردی، ص482ـ483۔
  78. امام خمینی، انوار الہدایۃ فی التعلیقۃ علی الکفایۃ، ج1، ص245ـ 247۔
  79. کلینی، کافی، ج1، ص286ـ 288۔
  80. نوری، فصل الخطاب...، ص97ـ 98۔
  81. عاملی، حقایق هامّة حول القرآن الکریم، ص64ـ99۔
  82. رامیار، تاریخ قرآن، ص280ـ295۔
  83. خوئی، معجم رجال الحدیث، ج2، ص282ـ284۔
  84. منتظری، نہایۃ الاصول، تقریرات درس آیۃ اللّه بروجردی، ص483ـ 484۔
  85. سیستانی، اجوبۃ المسائل الدینیۃ، ص89۔
  86. بروجردی، برہان روشن البرہان علی عدم تحریف القرآن، ص69ـ106۔
  87. مازندرانی، شرح اصول الکافی، ج1، ص198۔
  88. بلاغی، آلاء الرحمن فی تفسیر القرآن، ج1، ص65ـ66۔
  89. محمدی، سلامۃ القرآن من التحریف، ص144۔
  90. کلینی، الکافی، ج2، ص634۔
  91. فیض کاشانی، الوافی، ج9، ص1780ـ 1781۔
  92. الاعتقادات الامامیۃ، ص84ـ85۔
  93. مجلسی، بحارالانوار، ج12، ص525۔
  94. قفاری، اصول مذهب الشیعۃ الامامیۃ الاثنی عشریۃ، ج1، ص202۔
  95. مال اللّه، الشیعۃ الاثناعشریۃ وتحریف القرآن، ص57 ـ 115۔
  96. شیخ مفید، اوائل المقالات، ص81۔
  97. البیان فی تفسیر القرآن، ص225۔
  98. مفید، الارشاد، ج2، ص386۔
  99. رجوع کریں: معرفت، صیانۃ القرآن من التحریف، ص269ـ271۔

مآخذ

  • قرآن
  • ابن ابی حاتم، تفسیر القرآن العظیم، چاپ اسعد محمدطیب، صیدا 1419ہجری قمری/ 1999عیسوی۔
  • ابن بابویہ، الاعتقادات الامامیۃ، قم 1413 عیسوی۔
  • ابن بابویہ، التوحید، چاپ ہاشم حسینی طہرانی، قم، 1357ہجری شمسی۔
  • ابن حزم، الفصل فی الملل و الاهواء و النحل، چاپ محمدابراہیم نصر و عبدالرحمن عمیره، بیروت 1405ہجری قمری/ 1985 عیسوی۔
  • ابن درید، کتاب جمہرة اللغۃ، چاپ رمزی منیر بعلبکی، بیروت 1987ـ1988عیسوی۔
  • ابن سعد، طبقات الکبری۔
  • ابن شاذان، الایضاح، چاپ جلال الدین محدث ارموی، تہران 1363ہجری شمسی۔
  • ابن طاؤس، سعد السعود للنفوس، قم 1422ہجری ہجری۔
  • ابن عاشور، تفسیر التحریر و التنویر، تونس 1984عیسوی۔
  • ابن کثیر، تفسیرالقرآن العظیم، چاپ محمدابراہیم بناء، بیروت 1419ہجری قمری
  • ابن منظور، لسان العرب۔
  • ابن ندیم، الفہرست.
  • ابن ہشام، سیرة ابن ہشام، چاپ محمد محیی الدین عبدالحمید، قاہره 1383ہجری قمری/ 1963عیسوی۔
  • علی بن اسماعیل اشعری، کتاب مقالات الاسلامیّین و اختلاف المصلّین، چاپ ہلموت ریتر، ویسبادن 1400ہجری قمری/ 1980عیسوی۔
  • شیخ مرتضی بن محمد امین انصاری، فرائد الاصول، چاپ عبداللّه نورانی، قم 1365ہجری شمسی۔
  • علی بن حسین ایروانی، الاصول فی علم الاصول، چاپ محمدکاظم رحمان ستایش، قم 1422ہجری قمری۔
  • القرآن، چاپ محمد زغلول سلام، اسکندریہ، بی تا
  • محمدبن اسماعیل بخاری جعفی، صحیح البخاری، دمشق 1410ہجری قمری۔
  • مہدی بروجردی، برہان روشن البرہان علی عدم تحریف القرآن، چاپ بوذرجمہری مصطفوی، تہران 1374ہجری شمسی۔
  • محمدجواد بلاغی، آلاء الرحمن فی تفسیر القرآن، قم 1420ہجری قمری
  • علی بن محمد بیاضی، الصراط المستقیم الی مستحقی التقدیم، چاپ محمدباقر بہبودی، تہران 1384ہجری شمسی۔
  • اسماعیل بن حماد جوہری، الصحاح: تاج اللغۃ و صحاح العربیۃ، چاپ احمد عبدالغفور عطار، قاہره 1376ہجری قمری، چاپ افست بیروت 1407ہجری قمری۔
  • عبیداللّه بن عبداللّه حسکانی، شواہدالتنزیل لقواعد التفضیل، چاپ محمدباقر محمودی، تہران 1411ہجری قمری/ 1990عیسوی۔
  • علی حسینی میلانی، التحقیق فی نفی التحریف عن القرآن الشریف، قم 1417ہجری شمسی۔
  • محمودبن علی حمصی رازی، المنقذ من التقلید، قم 1412ـ1414ہجری قمری۔
  • خطیب بغدادی، طبقات الکبری۔
  • روح اللّه خمینی، رہبر انقلاب و بنیانگذار جمہوری اسلامی ایران، انوار الهدایۃ فی التعلیقۃ علی الکفایۃ، قم 1415ہجری قمری۔
  • ابوالقاسم خوئی، البیان فی تفسیر القرآن، قم 1418ہجری قمری۔
  • ابوالقاسم خوئی، معجم رجال الحدیث، بیروت 1403ہجری قمری/ 1983عیسوی، چاپ افست قم، بی تا
  • عبدالرحیم بن محمد خیّاط، الانتصار و الرد علی ابن الراوندی الملحد، چاپ محمد حجازی، بیروت 1988عیسوی۔
  • عبداللّه بن عبدالرحمان دارمی، سنن الدارمی، چاپ محمداحمد دہمان، دمشق، بی تا
  • رحمۃ اللّه بن خلیل الرحمن دہلوی، اظہارالحق، بیروت 1993عیسوی۔
  • محمود رامیار، تاریخ قرآن، تہران 1362ہجری شمسی۔
  • ابراہیم بن سری زجاج، معانی القرآن و اعرابہ، چاپ عبدالجلیل عبده شلبی، بیروت 1408ہجری قمری/ 1988عیسوی۔
  • عدنان محمد زرزور، الحاکم الجشمی و منہجه فی التفسیر، بیروت 1398ہجری قمری۔
  • محمدبن بہادر زرکشی، البرہان فی علوم القرآن، چاپ یوسف عبدالرحمان مرعشلی، جمال حمدی ذهبی، و ابراہیم عبداللّه کردی، بیروت 1410ہجری قمری/ 1990عیسوی۔
  • زمخشری، تفسیر کشاف۔
  • زیدبن علی، مسندالامام زید، بیروت 1401ہجری قمری۔
  • عبداللّه بن سلیمان سجستانی، کتاب المصاحف، بیروت 1405ہجری قمری/ 1985عیسوی۔
  • سلیم بن قیس ہلالی، کتاب سلیم بن قیس، چاپ محمدباقر انصاری زنجانی، قم 1373ش
  • علی سیستانی، اجوبۃ المسائل الدینیۃ، دمشق، بی تا
  • سیوطی، الدر المنثور۔
  • عبدالحسین شرف الدین، اجوبۃ مسائل جاراللّه، چاپ عبدالزہراء یاسری، قم 1416ہجری قمری/ 1995عیسوی۔
  • نوراللّه بن شریف الدین شوشتری، احقاق الحق و ازہاق الباطل، با تعلیقات شہاب الدین مرعشی، چاپ محمود مرعشی، قم، بی تا
  • محمدبن عبدالکریم شہرستانی، مفاتیح الاسرار و مصابیح الابرار، چاپ محمدعلی آذرشب، تہران 1417ہجری قمری/ 1997عیسوی۔
  • محمدبن حسن صفار قمی، بصائرالدرجات فی فضائل آل محمد(ص)، چاپ محسن کوچہ باغی تبریزی، قم 1404ہجری قمری۔
  • عبدالرزاق بن ہمام صنعانی، تفسیرالقرآن العزیز، چاپ عبدالمعطی قلعہ جی، بیروت 1411ہجری قمری۔
  • طباطبائی، سید محمد حسین، تفسیر المیزان۔
  • احمدبن علی طبرسی، الاحتجاج، چاپ محمدباقر موسوی خرسان، بیروت، بی تا
  • فضل بن حسن طبرسی، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، چاپ ہاشم رسولی محلاتی و فضل اللّه یزدی طباطبائی، بیروت 1408ہجری قمری/ 1988 عیسوی۔
  • طبری، جامع۔
  • محمدبن حسن طوسی، التبیان فی تفسیرالقرآن، چاپ احمد حبیب قصیر عاملی، بیروت، بی تا
  • محمدبن حسن طوسی، الخلاف، قم 1407ہجری قمری۔
  • جعفر مرتضی عاملی، حقایق هامّۃ حول القرآن الکریم، قم 1410ہجری قمری۔
  • مرتضی عسکری، القرآن الکریم و روایات المدرستین، تہران 1373ـ1376ہجری شمسی۔
  • حسن بن یوسف علامہ حلّی، مختلف الشیعۃ فی احکام الشریعۃ، ج1، قم 1371ہجری شمسی۔
  • علی بن حسین علم الہدی، الذخیرة فی علم الکلام، چاپ احمد حسینی، قم 1400ہجری قمری۔
  • ثامر ہاشم حبیب عمیدی، دفاع عن الکافی، قم 1416ہجری قمری۔
  • محمدفاضل موحدی لنکرانی، مدخل التفسیر، بی جا، 1413ہجری قمری۔
  • محمدبن عمر فخر رازی، التفسیرالکبیر، بیروت 1417ہجری قمری/ 1997عیسوی۔
  • خلیل بن احمد فراہیدی، کتاب العین، چاپ مہدی مخزومی و ابراہیم سامرائی، قم 1405ہجری قمری۔
  • محمدبن شاه مرتضی فیض کاشانی، کتاب الصافی فی تفسیر القرآن، چاپ محسن حسینی امینی، تہران 1419ہجری قمری۔
  • محمدبن شاه مرتضی فیض کاشانی، کتاب الوافی، اصفہان 1365ـ1374ہجری شمسی۔
  • قاضی عبدالجباربن احمد، شرح الاصول الخمسۃ، چاپ عبدالکریم عثمان، قاہره 1408ہجری قمری۔
  • محمدبن احمد قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، چاپ ہشام سمیر بخاری، بیروت 1416ہجری قمری۔
  • سیدقطب، فی ظلال القرآن، بیروت 1400ہجری قمری۔
  • ناصربن عبداللّه قفاری، اصول مذہب الشیعۃ الامامیۃ الاثنی عشریۃ، بی جا، 1994عیسوی۔
  • علی بن ابراہیم قمی، تفسیرالقمی، چاپ طیب موسوی جزایری، قم 1404ہجری قمری۔
  • کلینی، الکافی۔
  • محمدصالح بن احمد مازندرانی، شرح اصول الکافی، با تعلیقات ابوالحسن شعرانی، چاپ علی عاشور، بیروت 1421ہجری قمری/ 2000عیسوی۔
  • محمد مال اللّه، الشیعۃ الاثناعشریۃ و تحریف القرآن، بی جا، بی تا
  • مالک بن انس، المُوَطّأ، چاپ محمدفؤاد عبدالباقی، بیروت 1406ہجری قمری۔
  • محمدباقربن محمدتقی مجلسی، بحارالانوار، ج33، چاپ محمدباقر محمودی، تہران 1368ہجری شمسی۔
  • محمدباقربن محمدتقی مجلسی، مرآة العقول فی شرح اخبار آل الرسول، ج5، چاپ ہاشم رسولی، ج12، چاپ جعفر حسینی، تہران 1363ہجری شمسی۔
  • فتح اللّه محمدی، سلامۃ القرآن من التحریف، تہران 1378ہجری شمسی۔
  • حسین مدرسی طباطبائی و محمدکاظم رحمتی، «بررسی ستیزه ہای دیرین در باره تحریف قرآن »، هفت آسمان، سال 3، ش 11، پاییز 1380ہجری شمسی۔
  • احمد مصطفی مراغی، تفسیرالمراغی، بیروت 1985عیسوی۔
  • محمدہادی معرفت، صیانۃ القرآن من التحریف، قم 1413ہجری قمری۔
  • محمدبن محمد مفید، الارشاد فی معرفۃ حجج اللّه علی العباد، قم 1413ہجری قمری الف
  • محمد بن محمد مفید، اوائل المقالات، چاپ ابراہیم انصاری، قم 1413ہجری قمری ب
  • محمدبن محمد مفید، المسائل السرویّۃ، چاپ صائب عبدالحمید، قم 1413ہجری قمری ج
  • احمدبن محمد مقدس اردبیلی، مجمع الفائده و البرہان فی شرح ارشاد الاذہان، چاپ مجتبی عراقی، علی پناه اشتہاردی، و حسین یزدی اصفہانی، ج2، قم 1362ہجری شمسی۔
  • حسین علی منتظری، نہایۃ الاصول، تقریرات درس آیۃ اللّه بروجردی، قم 1415ہجری قمری۔
  • محمدعلی مہدوی راد، «علی و قرآن »، آینۃ پژوهش، سال 11، ش 6 (بهمن و اسفند 1379ہجری شمسی)
  • حسین بن محمدتقی نوری، فصل الخطاب فی تحریف الکتاب ربّ الارباب، چاپ سنگی، تہران، 1298 ہجری قمری۔

بیرونی ربط