جہنم

نامکمل زمرہ
فاقد سانچہ
علاقائی تقاضوں سے غیر مماثل
ویکی شیعہ سے

جَہَنَّم یا دوزخ وہ مقام ہے جہاں تباہ کار انسان مرنے کے بعد اپنے اعمال کی سزا پائیں گے۔ قرآن پاک میں جہنم یا اس کے مختلف طبقات کو مد نظر رکھتے ہوئے جہنم کے علاوہ دیگر متعدد اسماء جیسے جَحیم، سَقَر اور سَعیر کا بھی استعمال ہوا ہے اور اکثر مقامات پر اسے صرف النار (آگ) سے تعبیر کیا گیا ہے۔ نہ صرف قرآن و حدیث میں وسیع بنیاد پر جہنم کا تذکرہ ہوا ہے بلکہ علم کلام، فلسفہ اور عرفان جیسے عقلی علوم میں بھی اس سے متعلق بحث کی گئی ہے۔

لغوی معنی

جہنم مؤنث ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ عمیق و گہرے کنویں کے ہیں ۔اصل میں وہ آگ ہے جس کے ذریعے خدا گنگاروں کو سزا دے گا ۔ قرآنی اصطلاح میں وہ عذاب اخروی کا مقام ہے جہاں بدکار اور کافر اپنے اعمال کی سزا پائیں گے ۔[1]

اکثر لغویین اسے ایسا غیر عربی کہتے لفظ ہیں جسے عربی میں ڈھالا گا ہے ۔[2] بعض اسے عربی کا لفظ کہتے ہیں۔[3] جوہری اور راغب اصفہانی نے اسے فارسی زبان کا لفظ کہا ہے ۔ راغب کے نزدیک اس کلمہ کی اصل جہنام ہے۔[4] ابن اثیر، ابن منظور اور سیوطی اسکے عبرانی کا ہونے کا احتمال دیتے ہیں اور انکے نزدیک اس کلمہ کو كِہِنّام سے سمجھتے ہیں۔[5]

موجودہ غربی محققین عبرانی لفظ گِه‌هینُّم یا جِہینَُم سے اخذ شدہ سمجھتے ہیں یا درہ کے معنا میں یا بنی ہینَُم سے قرار دیتے ہیں۔ [6]

بحث قیامت میں مقام و منزلت

آخرت شناسی میں بدترین مقام جہنم بہترین مقام بہشت کے مقابلے میں ہے۔ یوں کہنا چاہئے کہ تمام نیکیوں کا جامع مقام جنت اور تمام بدیوں کو جامع مقام جہنم ہے۔ جہنم کے تمام امور انجام دینے والے خدا کے تابع فرمان فرشتے ہیں۔[7] اسلامی تعلیمات میں ایسا کوئی عندیہ موجود نہیں کہ جس سے ظاہر ہو کہ جہنم کے امور شیاطین کے سپرد کئے گئے ہوں۔ جو کچھ بھی ہے وہ خدا کی حاکمیت سے ہے۔ امام صادق علیہ السلام کی حدیث میں تصریح ہے کہ جہنم گناگاروں کیلئے عذاب ہے اور اس کے انجام دینے والے امور اسی جہنم سے ہی ہیں اور وہ رحمت ہے ۔ [8] جہنم کے اصلی خازن اصلی کا نام مالک ہے ۔[9] روایات میں اسکی بدصورت اور بدبودار شخصیت سے اس کا تعارف ہوا ہے۔[10] یہانتک کہ رسول خدا سے ملاقات کے وقت استثنائی طور پر وہ خوبصورت شکل میں ظاہر ہوا۔[11] اسکی ہیبت اس قدر زیادہ تھی کہ اسے دیکھنے کے بعد رسول خدا کو مسکراتا ہوا نہیں دیکھا گیا۔[12] دوسرے انیس (19) محافظین جہنم کہ جنکا ذکر قرآن نے کیا ہے[13] وہ بھی اس قدر ہیبت ناک ہیں کہ اگر اس دنیا کا کوئی شخص انہیں ایک دفعہ دیکھے تو بلا فاصلہ مر جائے گا۔[14]

فلسفۂ جہنم

وجود جہنم کی اہم ترین حکمت یہ ہے کہ تباہکاروں کو شدت اور ابدیت کے لحاظ سے سخت اور طویل مدت کا ایسا عذاب ملنا چاہئے کہ جس کا دنیا میں مثل موجود نہ ہو۔ یہی وجہ تھی کہ انبیاء تمام لوگوں کو عمل کی طرف بلاتے رہے تا کہ وہ اس سے دردناک عذاب سے چھٹکارا حاصل کر سکیں۔[15]

خوف جہنم نیکی کی ضمانت

دینی تعلیمات میں خوف جہنم احکام دینی کے اجرا کے ضامن کے طور پر بیان ہوا ہے۔ یہاں تک کہ قرآن کریم نے واضح طور پر اس تقاضے کو بیان کیا ہے کہ وہ جہنم سے ڈریں [16] تا کہ وہ اور اسکے اہل خانہ اس سے محفوظ رہیں۔[17]

جزائے اعمال

قرآن کی متعدد آیات نے اعمال کی سزا عذاب قرار دی ہے [18] اس سلسلے میں عقاب اور نکال با معنائے عقوبت کی تعبیریں زیادہ استعمال ہوئی ہیں۔[19] نیز انتقام[20] بھی استعمال ہوا ہے یہانتک کہ خدا کو منتقم یعنی انتقام لینے والا کہا گیا ہے۔[21]

تجسم اعمال

تجسم اعمال کے نظرئے کے مطابق بدکاروں کا عذاب حقیقت میں انکے اپنے اعمال کی واقعی اور اصلی صورتیں ہیں جن کے صاحبان اعمال متحمل ہوتے ہیں اور وہ کوئی ایسی بیرونی چیز کہ جسے ان پر تحمیل کیا جائے بلکہ وہ عذاب انکے اپنے ہاتھوں کا ہی پیدا کردہ ہے۔ اس بات کو بعض آیات سے سمجھا جاتا ہے۔[22] سورۂ زلزال کی آٹھویں آیت میں واضھ طور پر یہ مضمون بیان ہوا ہے کہ جو کوئی ذرہ برابر بھی برا اعمال انجام دے گا وہ اسے دیکھے گا۔ ایک دوسری آیت میں یتیم کا مال کھانے کو آگ کھانا کہا گیا ہے۔[23]

برزخ

گناہ کار شخص مرنے کے بعد سے لے کر دوبارہ زندہ ہونے تک مختلف عذاب اٹھائے گا اور پھر محاکمے کیلئے میدان محشر میں پیش ہو گا ؛ اہل بہشت جہنم سے کوئی آسیب نہیں دیکھیں گے اور بدکار افراد کو محکامے کے بعد سزا کے مقام پر لایا جائے گا۔ لیکن نصوص اسلامی میں بعض تعبیروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسان موت کے فورا بعد جہنم کی طرف منتقل ہو گا گویا موت کے بعد جہنم کی آگ اس کی کمین میں ہے۔

دنیا میں کچھ ایسے پیشوا ہیں جو لوگوں کو آگ کی طرف دعوت دیتے ہیں۔[24] وہ انسانوں کی جنس سے ہیں جو جہنم کے دروازے پر کھڑے ہیں اور جو بھی کوئی انکی دعوت کو قبول کرتا ہے وہ جہنم میں چلا جاتا ہے۔[25] قوم نوح اور لوط کی ایسی تصویر کشی ہوئی ہے کہ جس کے مطابق عذاب الہی میں گرفتاری کے بعد جونہی موت نے انہیں پا لیا وہ بلا فاصلہ آتش جہنم میں داخل ہو گئے۔[26]

جہنم بدکاروں کے انتظار میں نہیں انہیں وہاں دھکیلا جائے بلکہ وہ خود کافروں کی کمین میں ہے [27] اور جہنمیوں کے ورود کے ساتھ ہی ان پر آتش جہنم روشن کر دی جائے گی ،[28] اور قیامت کے محاکمے کے وقت جہنم انکے سامنے لائی جائے گی ۔[29] روایات کے مطابق اس روز جہنم کی ۷۰ہزار لگامیں ۷۰ہزار فرشتوں کے ہاتھوں میں ہونگی، اگر خدا انہیں نہ روکے تو آسمان و زمین آگ برسائیں گے۔[30]

روز قیامت جہنم تباہکاروں کے سامنے پیش ہو گی۔[31] مجرمین اس آتش کو دیکھیں گے کہ جس میں وہ گریں گے [32] اور اس میں گرنے سے پہلے اس کی سختی کو محسوس کریں گے [33] انہی خصوصیات کی بنا پر قرآن نے قیامت کے دن جہنم کی نسبت یہ تعبیریں عذاب یوم عظیم[34] عذاب یوم عقیم،[35] عذاب یوم کبیر،[36] بیان کی ہیں۔

جہنم ایک شکاری کی مانند عمل کرے گی ،جہنم کی زبانیں باہر نکلے گیں تا کہ مخصوص گناہ کاروں کو اپنی جانب کھینچ لیں؛ دو زبانوں والی زبان اور دو آنکھیں ہونگیں اور وہ فصیح زبان میں کہے گیں کہ وہ تین گروہوں کیلئے مقرر ہیں: عناد رکھنے والے ،خدا اور اسکے رسول کو آذیتیں دینے والے ،بت بنانے والے۔[37] کبھی خاص تر صورت بیان ہوئی ہے اور کہا گیا کہ قاتلان امام حسین کو ایک دانہ چگنے والے پرندے کی مانند چگے گی اور آگ انہیں اپنے اندر کھینچ لے گی۔[38]

جہنم گناہ کاروں کو نگلنے کیلئے حریص ہے ،جس قدر بھی مجرم اسکی جانب جائیں گے وہ انہیں نگل لے گی اور وہ هل من مزید کی آواز کے ساتھ مزید افراد کی طلبگار ہو گی ۔[39] یہانتک کہ حکم پروردگار پر رک جائے گی ۔[40]

جہنم تمام لوگوں کی کمین میں ،کوئی ایسا نہیں کہ جو قیامت کے دن اس میں وارد نہ ہو [41] لیکن کوئی آسیب دیکھے بغیر نکلنا فلاح اور نجات کے ساتھ ہے دینی تعلیمات میں ایک خطرناک پل کے بارے میں بات کی گئی ہے کہ جو جہنم کے درمیان سے گذر رہا ہو گا، نیک و سالم لوگ اس سے گزر جائیں اور گناکار اس میں گر جائیں گے ۔[42] وہ پل تلوار کی دھار سے زیادہ باریک ہو گا [43] قرآنی آیات[44] میں اسے پل صراط کہا گیا ہے۔[45]

مؤمنین کیلئے آتش جہنم حضرت ابراہیم کی آتش کی مانند ٹھنڈی اور سلامتی رکھتی ہو گی۔[46]

اہل جہنم کے گروہ

اجمالی تعبیروں کے مطابق جہنم میں اکثر جن و انس اس میں داخل ہونگے؛[47] لیکن بعض مقامات پر واضح طور پر اس کے مصادیق بیان ہوئے ہیں ۔

  • شرک و کفر: سب سے بڑے گناہ کے مصداق کے عنوان سے شرک گناه[48] پہلا مصداق ہے۔[49] جس مخلوق نے ذات خدا کا شریک بنایا ہو گا وہ اور جس کی انہوں نے پرستش کی ہو گی وہ جہنم کا ایندھن بنے گی۔[50] یہانتک کہ بعض روایات میں خورشید و ماه کے جہنم میں گرنے کا ذکر موجود ہے کہ جنکی وجہ سے وہ گمراہ ہوئے تھے۔ [51] بعض جگہ ان سے اعم تر تعبیریں جیسے کفر اور عنادی کفار کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے ۔ [52] کبھی تکذیب آیات خدا[53] اور کبھی آیات خدا سے استہزا کرنے کی تعبیریں آئی ہیں۔[54]
  • تکبر: تکبر اور دوسروں پر اپنے آپ کو برتر سمجھنا گناہ ہے کہ اہل جہنم کے بیان میں دوسروں گناہوں کی نسبت اس گناہ کی زیادہ تاکید ہوئی۔[55] روائی منابع میں اسکے مختلف پہلو بیان ہوئے ہیں۔[56] روایات کے مطابق تعداد کے لحاظ سے اہل جہنم میں متکبرین اور جبارین کی تعداد سب سے زیادہ ہو گی۔[57]
  • ظالم حکمران: احادیث میں مختلف عبارتوں کے ساتھ اس نکتہ کی تکرار ہوئی ہے کہجہنم میں داخل ہونے والوں میں سب سے پہلے قابض حکمران ہونگے؛ اس مضمون کی روایات شیعہ[58] اور اہل سنت[59] میں مذکور ہیں ۔ امام علی کی حدیث میں امام جائر کا ٹھکانہ قعر جہنم ذکر ہوا ہے نیز اسکے لئے شدید ترین عذاب بیان ہوا ہے۔[60]
  • ستمگروں کے مددگار: وہ لوگ ہیں جو ستمگروں کی جانب رجحان رکھتے ہیں[61] اور ستمگروں راہنمائی کرنے والے بھی[62] ستمگروں کی مانند جہنمیوں کی نمایاں ترین قسموں میں سے ہیں اور تازیانہ بردار بھی ستمگر حاکموں کی طرح پہلے جہنم میں داخل ہونے والوں میں سے ہیں۔[63] اہل جہنم کی مختلف تعبیروں مثلا طاغین[64] مترفین،[65] و اسراف کرنے والے[66] کی بھی پہلے مفہوم اور ان سے ملتے جلتے افراد کی طرف بازگشت ہے۔
  • عاصی: کلی طور پر خدا و رسول کے مخالفین کا عنوان اہل جہنم کے مشخص افراد پر اطلاق ہوا ہے۔[67] گناہوں میں سے کوئی خطا اسکا احاطہ کر لے [68]، قرآن کریم لوگوں کے حقوق ضائع کرنے پر زیادہ تاکید کرتا ہے قاتلین[69] عیب جوئی کرنے والے، سخن چین[70] اور ثروتمند جو انفاق میں کنجوسی کرتے ہیں [71] اہل جہنم مین گنے گئے ہیں ۔قرآن میں مذکور اہل جہنمین کی اقسام کے علاوہ روایات میں دیگر اقسام بھی مذکور ہیں۔[72] شہوات انسان اسے جہنم کی ہولناکی سے غافل کر دیتی ہیں ۔[73]

گناہ کاروں کی ہم نشینی روایات کے مطابق اشتباہی گناہ کرنے والے بھی عذاب سے دوچار ہونگے۔ افراد کے ساتھ ساتھ گروہی صورت میں بھی اہل جہنم ہونگے ۔قرآن میں کئی مرتب امتوں [74] اور گروہوں[75] کے جہنم کانے کا تذکرہ کیا ہے اور بار بار حشر کی تعبیر جہنم کیلئے استعمال کی ہے ۔[76] ان امتوں سے مخاصمانہ گفتگو اور ان سے بیزاری ایسے موضوع ہیں جس کے ذریعے اکثر انکی طرف اشارہ ہوا ہے۔ [77]

خلود جہنم

تفصیلی مضمون: خلود

اسلامی منابع کی ابتدائی تصویر کے مطابق جہنم سے باہر نکلنا ممکن نہیں اور ہمیشگی کے عذاب کا تذکرہ ہے۔ موت کا نہ ہونا اس تصویر کی تقویت کرتی ہے کہ وہ موت کا ذائقہ نہیں چکھیں گے۔[78] جبکہ مرگ کی شرائط نے انکا احاطہ کیا ہو گا لیکن وہ اسکے باوجود نہیں مریں گے۔[79] صرف موت کے نہ ہونے کی وجہ سے ان کا جہنم سے خروج ممکن نہیں ہو گا۔[80] بلکہ روایات کی تصویر کشی کے مطابق میدان حشر میں موت کو ذبح کریں گے جبکہ سب اسے جانتے ہونگے [81] اور اس طرح موت کے ساتھ جہنمیوں کی امید بھی ختم ہو جائے گی۔ [82]

قرآن کریم کی بہت سی آیات میں آتش کی جاودانی [83] اور کبھی خلود ابدی کی تعبیر بیان ہوئی ہے۔[84] جہنمیوں کیلئے دارالخلد،[85] و عذاب الخلد،[86] استعمال ہوا ہے۔ ۔

کچھ اہل کتاب یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ جہنم جانے کی صورت میں صرف چند روز عذاب دیکھیں گے اور پھر اس سے نجات حاصل کر لیں ،[87] لیکن انکے اس عقیدے کی سختی سے نفی کی گئی ہے۔ اسکے باوجود قران کریم میں مختلف زاویوں سے مسلمانوں کیلئے کچھ مدت کیلئے عذاب کی جانب اشارہ ہوا ہے۔ سورہ انعام کی آیت ۱۲۸ میں جہنم کی ہمیشگی کے بعد استثنا کی صورت میں الا ما شاء الله آیا ہے ۔اس آیت کی موجودگی نے بعض مفسروں کیلئے جہنم کی ہمیشگی سے نجات کے نظریے کو بنیاد فراہم کی ہے۔[88]

بہت زیادہ طویل مدت کیلئے جہنم میں اقامت کی تعبیر احقاب»[89] نیز جہنمیوں خاص طور پر کچھ گروہوں کیلئے کے ہمیشہ جہنم سے رہائی کی راہ فراہم کرتی ہے۔ ہول جہنم کو باقی رکھنے کیلئے راویات میں تاکید ہوئی ہے کہ خدا کی قسم!احقاب (حقب کی جمع ہے جو 80 سال سے زیادہ پر مشتمل ہے) کی مدت تک جہنم میں رہے بغیر کوئی جہنم سے رہائی حاصل نہیں کر سکے گا۔[90] اگر اہل جہنم سے یہ کہا جائے کہ تم دنیا میں موجود تعداد ذرات ریت تک یہاں رہو گے تو بھی وہ خوشحال ہونگے۔[91]

برے اعمال کے مقابلے میں عذاب جھیل کر رہائی پانے والے روایات کی روشنی میں گناہ کار مسلمان ہیں۔[92]بعض روایات، کی بنا پر جس دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہوگا وہ جہنم سے رہائی پائے گا [93] اور کبھی سفاعت کی وجہ سے مجرمین کی جہنم سے رہائی ہو گی لیکن وہ شدت عذاب سے خاکستر ہو چکے ہونگے۔[94]

اوصاف

اقسام عذاب

آتش

جہنمم کا اہم ترین عذاب وہ جلانے والی آگ ہے کہ جس کا تذکرہ قرآن میں کئی مقامات پر جہنم کی آگ میں گرنے کی جگہ کے طور پر کیا گیا ہے ۔قرآن پاک میں اس آگ کی مختلف صفات جیسے جلا دینے والی آگ[95] یا «ڈھانپ لینے والی آگ[96] جلد اکیھڑنے والی آگ ،[97] ایسی آگ جس سے کچھ نہیں بچے گا،[98] اس آگ کی خصوصیات ہیں۔ نار اللہ [99] اور ستونوں والی آگ [100] زمینی آگ کے بر عکسدل سے شروع ہو گی اور باہر کی جانب پھیلے گی ۔[101] جہنم کی آگ کا ایندھن خود انسان ہیں [102] بعض آیات میں اس آگ کا ایندھن انسان اور پتھر بیان ہوئے ہیں ۔[103]

آگ سے مربوط عذاب

جہنم میں اس آگ سے مربوط عذاب بھی بیان ہوئے ہیں جیسے سَموم یعنی جہنم کی جلادینے والی ہوا [104] اور حَمیم یعنی کھولتا ہوا پانی [105] ہے جو دوزخیوں کو پلایا جائے گا[106] نیز اس طرح مختلف بیان مذکور ہیں ۔[107]

کھانا اور پینا

قرآن اور روایات میں جہنمیوں کے کھانے اور مائعات (پینے کی چیزیں) کے مضامین بھی وارد ہوئے ہیں ۔ جہنمیوں کی ٖغذا میں غیر معلوم اشیا کے نام آئے ہیں مثلا کھانے کی چیزوں میں زقوم[108] غسلین،[109]، طعام ضریع[110]اور مائع جات میں غساق[111] صدید.[112] و شرب الہیم[113] کی ماہیت بیان کرنا مفسروں کیلئے مشکل ہے ۔ کلی طور پر ان چیزوں کی خصوصیت یہ ہے کہ انکے کھانے اور پینے سے پیاس و بھوک ختم نہیں ہوگی،[114] گلے میں اٹک جائیں گی،[115] ان غذاؤں کے کھانے والوں کے پیٹ میں ابال اٹھیں گے[116] انہیں ٹکڑے ٹکڑے کر دیں گیں[117] انکے لباس آگ کے ہونگے؛[118]یا قطران کی مانند جلانے والے مادے سے بنے ہوئے ہونگے[119] اور حمیم[120].

دیگر عذاب

قرآن کریم نے دیگر عذابوں میں غل و زنجیر[121] مقامع آتشین،[122] عذاب کے تازیانے ،[123] جہنم کی ناہنجار آوازیں [124] جگہ کی تنگی اور دباؤ کا احساس،[125] آتش کے اوڑھنے .[126] اور بیان نہ ہو سکنے والے عذابوں کی طرف اشاہ ہوا ہے ۔ [127]

روایات میں جہنم کی بیشتر صورتیں بیان ہوئی ہیں: جہنمی زندان میں آیا ہے کہ وہ مخصوص عذاب کے زندان ہولس ہونگے[128] یا زندانِ فلق[129] خاص طور پر ذکر ہوا ہے ۔جہنم کے سانپوں اور بچھؤں کے اوصاف بیان ہوئے ہیں [130] کہ جو ناقدین کیلئے مورد سوال بھی رہے ،[131] یہانتک کہ سانپوں کے نام بھی بیان ہوئے ہیں [132] پینے والی چیوں میں طینۃ الخیال (سرشت تباہی) بیان ہوا ہے کہ جو اہل آتش کا نچوڑ ہے .[133]

اسی طرح روایات میں بد عمل علما کو قطع قطع کرنے والے آسیبوں کا بھی تذکرہ ہوا ہے ۔[134] زمہریر قرآن میں ایک مختلف معنا میں استعمال ہوا ہے [135] جبکہ روایات میں ایسی سخت اور ترسناک سردی کے معنا میں استعمال ہوا ہے جو خود جہنم کا ایک حصہ ہے اور وہ مجرمین کو کے بدنوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے گی ۔[136] روایات میں آیا ہے : جہنمی آگ کی گرمی سے بچنے کیلئے زمہریر کی پناه میں جائیں گے لیکن اس کا عذاب آگ سے بھی زیادہ سخت تر ہے[137] پھر وہ اسی آگ میں واپسی کی درخواست کریں گے [138]

خفیف عذاب

دینی منابع میں ایسی روایات بھی پائی جاتی ہیں جن میں تخفیف عذاب کے اشارے ملتے ہیں ۔ خفیف ترین عذاب کی روایت میں جہنمی کے غذا کھانے کا امکان مذکور ہوا ہے [139]دیگر حدیث میں کم ترین عذاب ایسے شخص کیلئے ہے جس کے پاؤں کے سامنے آگ رکھی جائے گی تا کہ وہ آگ اس کے مغز کو جوش(اُبال) دے سکے ۔[140]

جہنم کے عذابوں کی بیشتر تفصیلات اور گناہکار افراد کے گناہوں کی نسبت اسکی تفصیل واقعۂ معراج پیامبر اور رسول خدا کے جہنم کے دیدار واقعہ میں بیان ہوئی ہے ۔ [141]

ابواب اور درکات

قرآن کریم نے کئی مرتبہ جہنم کے دروازوں کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ [142] ایک جگہ آیا ہے کہ جہنم کے سات (۷) دروازے ہیں کہ ان میں سے ہر ایک لئے ایک حصہ تقسیم ہوا ہے ۔[143] اسی طرح جہنم کے مراتب کی طرف اشارے موجود ہیں جیسے آگ کے سب سے نچلے مرتبے کا ذکر آیا ہے ۔[144] بعض مفسرین اسفل السافلین»[145] کو سب سے نچلا مرتبہ شمار کرتے ہیں ۔[146]

بعض لغویوں نے کہا ہے درجات بہشت کے مفہوم کے مقابلے میں درکات جہنم ہیں ۔[147] البتہ جہنم کے معاملے میں درجات کی تعبیر بہت کم استعمال ہوئی ہے ۔[148] عام لوگوں میں درک اسفل السافلین ایک جانا پہچانا مفہوم ہے ۔ [149] بعض مفسرین جیسے ابن جریج، ۷ ابواب کو جہنم کے ۷ درکات سمجھتے ہیں [150] کہ جس ایک مرسل روایت تائید بھی کرتی ہے ۔ [151] بعض مفسرین قرآن کریم میں آنے والے سات ناموں : جہنم، لظی، حطمہ، سعیر، سقر، جحیم ، ہاویہ کو ہی جہنم کے درجات سمجھتے ہیں اگرچہ انکی ترتیب میں اتفاق نظر نہیں پایا جاتا ہے ۔[152]

درکات جہنم کا تفاوت

متقدم مفسر ضحاک ابن مزاحم نے جہنم کے درکات میں سے پہلا اہل توحید کے گناہکاروں ،دوسرا نصارا،تیسرا یہود، چوتھا صائبین ،پانچواں مجوس ، چھٹا مشرکین اور ساتواں منافقین کیلئے شمار کیا ہے ۔[153] بعض روایات میں ان درجات کی منفرد خصوصیات بھی بیان ہوئی ہیں جیسا کہ سقر متکبروں کا مقام سقر [154] قاتلوں کا مقام سعیر [155]

جہنم کے دیگر مقامات

قرآن میں درکات جہنم کے علاوہ بعض الفاظ جہنم کے اوصاف میں آئے ہیں اور ظاہری طور پر ان کا جہنم سے کوئی ربط نہیں ہے لیکن روائی اور تفسیری عبارتوں کے مطابق انہیں بھی جہنم کے مقامات سمجھا جاتا ہے مثلا: آیت ۱۷ مدثر میں صعود با عنوان جہنم کے پہاڑ، [156] عقبہ[157] با عنوان جہنم کے پہاڑ[158] حفرة من النار( آگ کا گڑھا)[159]با عنوان جہنم کے کنویں [160] فلق،[161] با عنوان جہنم میں موجود کنویں کے طور پر بیان ہوئے ہیں ۔[162] نیز ویل[163] جہنم کی ہولناک وادی[164] یا ایسا گڑھا جس میں ۴۰ سال گزار کر قعرش تک پہنچ جائیں [165] غی[166] جہنم کی وادی [167] غساق[168] بچھؤں سے بھری ہوئی نہر یا وادی ،[169] اثام [170] به جہنم کی وادی [171] موبق با عنوان پیپ اور خون سے بھری نہری [172]

کچھ اور مکان مستقل طور پر احادیث میں بیان ہوئے ہیں جیسے جہنم میں حزن کا کنواں جس سے جہنم خود سو مرتبہ اس سے پناہ مانگتی ہے [173] وادی سقر میں چاه ہبہب کہ جو جباروں کا مقام ہے ، [174]آتشی تابوتوں پر مشتمل سکران نامی پہاڑ اور اسکی وادی غضبان، [175] قعر جہنم میں آگ کا تابوت جس میں ۶ افراد پچھلی امتوں سے اور ۶ افراد اس امت کے با عنوان شقی ترین افراد کے عذاب میں ہیں ۔ [176]

امامیہ اور اہل سنت کے بعض محدثین نے جہنم کے اوصاف میں مستقل تالیفات لکھیں ہیں ۔[177] ان آثار میں سے جنت اور نار کی صفات کے بیان میں سعید بن جناح کا اثر قدیمی ترین اثر ہے ۔ [178]

خواری و حرمان

قرآنی تعلیمات کے مطابق غافلانہ خوشحالی[179] اورلذائذ دنیا میں غرق ہونے[180] کی جس قدر سزا جہنم ہے اسی قدر دنیا میں برتری کی طلب اور استکبار کی جزا آخرت میں خواری ہے ۔ آغاز سے ہی مجرموں کے آگ میں گرنے کے ہمراہ خواری ہے [181] کہ جسے گاہی آگ میں سرنگوں [182] سخت مردود ہونے،[183] سر اور پاؤں سے پکڑے جانے [184] کی تعبیریں بیان ہوئی ہیں ۔عذاب کے وقت اسی خواری کو ذلت[185] خزی،[186] سے یاد کیا ہے اور عذاب هون واضح طور پر دنیا میں برتری کے خواہاں اور متکبرین کیلئے آیا ہے [187]

اس خواری کی تصویر تحقیر اور سرزنش میں دیکھی جائے گی کہ جو خزنۂ جہنم کی طرف سے وجود حاصل کرے گی ۔[188] نیز جہنمیوں اور بہشتیوں کے درمیان گفتگو کی صورت میں بیان ہوئی ہے ۔ [189]

دوزخیوں کی اہم‌ ترین حرمان و مایوسی میدان حشر سے ہی خدا کی ان کے ساتھ گفتگو نہ کرنے سے شروع ہو جائے گی [190] اور جہنم میں انکی پناہ گاہ نہ ہونے کا مقدمہ بنے گی ۔اس سلسلے میں آنے والی آیات میں توجہ کریں کہ ان میں دوزخیوں کی داروغہ جہنم سے درخواست ہے کہ وہ انکے لئے خدا کے پاس دعا کرے ۔[191] اس وقت نگہبانان جہنم انہیں نا امید کریں گے ،پھر وہ جہنمی خود بلا واسطہ دعا کیلئے ہاتھ بلند کریں گے ۔[192] قرآن کریم نے انکی عذر خواہی کیلئے تضرع،[193] رہائی کیلئے فدیے کی آرزو[194] دنیا میں واپسی کیلئے درخواست اور اپنے اعمال کے جبران کی درخواست [195] انکی طرف اشارہ کیا ہے کہ ان میں کسی بات کو نہیں سنا جائے گا اور کسی چیز کا امکان نہیں ہوگا ۔اس نکتے کی کئی مرتبہ تاکید ہوئی ہے کہ اہل دوزخ کیلئے کوئی مددگار[196] مهلت[197]و امانی[198] نہیں ہو گا ۔

جہنم کی توصیف میں امام علی منسوب خطبے میں آیا ہے : ایسا گھر کہ جس میں کوئی رحمت نہیں اور اس گھر کے اہلیوں کی کوئی دعا نہیں سنی جائے گی ۔[199]

احادیث سے بعض استثنائی موارد استجابت دعا کے تائید ہوئے ہیں ۔ایک حدیث میں آیا ہے کہ شخص جہنم میں ہزار سال خدا کو یا حنان یا منان سے پکارتا رہا تو خدا نے جبرئیل کو بھیجا تا کہ اسے جواب دے اور آخر کار اللہ اسے بخش دیتا ہے ۔[200]

کلام اسلامی اور جہنم

سزا و جزا کا موضوع عمومی لحاظ سے اور خاص طور سے دوزخ سے مربوط ابحاث کلامی اور اعتقادی ابحاث کا ایک اہم حصہ ہے ۔علم کلام میں کبھی جہنم و جنت کی اکٹھی اور کبھی جدا جدا مخصوص بحثیں مذکور ہوئی ہیں۔

وجود جہنم و بہشت

یہ کلامی سوال کہ جنت و جہنم اس وقت خلق ہو چکی ہیں یا نہیں؟ یہ سوال پہلی مرتبہ ہشام فوطی نے بیان کیا اور اس کا سبب یہ تھا کہ قیامت سے پہلے جنت و جہنم کے وجود پر کوئی فائدہ مترتب نہیں ہے۔[201] اس سوال میں معتزلہ، نجاریہ کے بعض گروہ اور زیدیہ مکتب سے معتزلہ کی طرف رجحان رکھنے والے اور خوارج نے سنجیدگی سے فوطی کے سوال کو لیا اور اس بات کے قائل ہوئے کہ اس سوال کا جواب مثبت نہیں ہے اور جنت و جہنم کے خلق ہونے یا نہ ہونے کے دوںوں احتمال موجود ہیں۔ ابو ہاشم جبائی جیسوں نے قاطعیت کے ساتھ فوطی کی موافقت کی لیکن دوسرے بعض معتزلہ جیسے ابو علی جبائی اور ابوالحسن بصری نے انکے اس وقت مخلوق ہونے میں امامیہ اور اشاعره کا ساتھ دیتے ہوئے اسکی تائید کی۔[202]

ہمیشگی اور عدم ہمیشگی

جنت اور دوزخ کے متعلق ایک مشترکہ سوال ان کی ہمیشگی اور غیر ہمیشگی کا ہے۔ اس سوال کو جہم بن صفوان نے اس نظریے کے تحت پیش کیا کہ غیر متناہی حادث کا متحقق ہونا ممکن نہیں ہے۔[203] جہنم میں ہمیشہ عذاب کی حالت میں رہنے کی نفی جاحظ سے اس اعتقاد کی بنا پر منقول ہے کہ اہل جہنم طبیعت آتش میں ڈھل جائیں گے [204]

اسکے مقابلے میں ہمیشگی کے قائلین نے مخالفین کے اعتراضات کے تفصیلی جوابات دیئے ہیں۔ انہوں نے کلامی و فسلفی تحلیلوں [205] سے اور کبھی جدلی استدلالات کا سہارا لیا ہے۔[206]

دوزخیوں کا قبیح افعال کا مرتکب ہونا

متکلمین نے بہشت میں خطا کے نہ ہونے اور اردے کی بحث کے ساتھ اہل جہنم کے قبیح چیزوں کے مرتکب ہونے کے متعلق بحث کی ہے۔ اس سلسلے میں اہم نظریہ الجاء ہے۔ اس معنا میں کہ اللہ اہل جہنم کو قبائح کے ترک پر مجبور کرے گا جبکہ وہ ان قبیح اشیاء کے ترک پر موجب مدح و ثواب نہیں ہونگے۔[207] جبکہ بعض متکلمین فعل قبیح کے داعی نہ ہونے کی وجہ سے قبیح کے مرتکب نہ ہونے کے قائل ہیں ۔[208] صرف عناد کے بغیر ارتکاب قبیح کو اہل آخرت کیلئے جائز شمار کرتے ہیں۔[209]

فساق جہنم

این مسئلہ قدیم ایام سے فاسق کی منزلت کے رد کی ایک فرع ہے۔ خوارج فاسق کو توبہ نہ کرنے کی صورت میں کافر سمجھتے ہیں لہذا انکے نزدیک جہنم میں ایسے فاسق کا مقام کافر سے کوئی تفاوت نہیں رکھتا ہے ۔خوارج میں سے معتدل خارجی نجدة بن عامر معتقد تھا کہ ممکن ہے کہ فساق جہنم سے باہر اپنے گناہوں کے لحاظ سے عذاب جھیلیں گے اور اسکے بعد جنت میں داخل ہو جائیں گے۔ اسکے نزدیک جہنم صرف کفار کا مقام ہے اور فساق جہنم میں داخل نہیں ہونگے۔[210] اسکے بعد بعض مرجئہ نے اس نظریے پر نظر ثانی کی۔ مقاتل بن سلیمان معتقد تھا کہ اس امت کے فساق پل صراط پر جہنم کا عذاب جھیل کر جہنم میں داخل ہوئے بغیر بہشت میں چلے جائیں گے۔[211]

فساق کے متعلق معتزلہ کا نظریہ انکے نظریے: منزلت بین المنزلین کی بنا پر ہے ؛اکثر معتزلہ اعتقاد رکھتے تھے کہ اہل آخرت صرف دو گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں: اہل بہشت اور اہل دوزخ ؛ پس فاسقین کافروں کی مانند جہنم میں داخل ہونگے اور وہاں ہمیشہ رہیں گے لیکن انکا عذاب کافروں کی نسبت خفیف تر ہو گا۔[212]

امامیہ اور اشاعره کا نظریہ یہ ہے کہ فاسقان اگر عفو خدا حاصل نہ کر سکے تو جہنم میں جائیں گے اور اپنے گناہوں کے اندازے کے مطابق سزا جھیلنے کے بعد بہشت میں داخل ہونگے یہانتک کہ جہنم میں کوئی موحد باقی نہیں رہے گا۔ [213] جہنم سے متعلق خلود (ہمیشگی) کی قرآنی آیات کو وہاں ہمیشہ رہنے کے معنا کی بجائے طویل مدت تک وہاں ٹھہرنے کے معنا میں لیتے ہیں۔ [214] بعض معتزلہ بھی اسی سے ملتی جلتی رائے اس تتمہ کے ساتھ رکھتے ہیں کہ جہنم میں فاسق موحدین کو عدل الہی سے دور سمجھتے ہیں ۔ [215]امامیہ متکلمین میں سے ابن نونوبخت جیسے علما جہنم سے فاسقین کے خروج کی تائید کے ساتھ معتقد ہیں کہ وہ بہشت میں نہیں جائیں گے ۔[216] یہ وہی نظریات ہیں کہ جنہیں فرہنگ اسلامی میں اعراف یا برزخ کہا جاتا ہے۔

جہنم کا خیر ہونا

متکلمین کے نزدیک جہنم کے خیر ہونے کا سوال ہے خاص طور پر متاخر معتزلہ نزدیک یہ سوال ہے؛ مکتب بصر کی طرف ابو علی جبائی جیسے علما قائل تھے کہ جہنم کا عذاب حقیقت میں خیر و شر سے خالی ہے اور اس پر خیر یا شر کا اطلاق اعتباری ہے۔[217] مکتب بغداد کی طرف ابو جعفر اسکافی جیسے علما معتقد تھے کہ عذاب جہنم یہانتک کہ اس عذاب کو جھیلنے والے کفار کیلئے نظر و رحمت ہے۔[218]

تصوف اور عرفان اسلامی میں جہنم کا تصور

اہل شریعت جیسے عرفا مسلمان جہنم کو حیات اخروی میں گناہ کاروں کے عذاب کی جگہ سمجھتے ہیں ؛ لیکن اس مفہوم کی مختلف توصیف اور تاویلیں بیان کرتے ہیں۔ طول تاریخ میں تصوف کے نظریات خوف خدا سے شروع ہو کر محبت خدا پر مشتمل ذوقی اور عاشقانہ تصوف پر منتہی ہوتے ہیں اور وہ باطنی شریعت کے ساتھ ظاہری شریعت کی بھی تاکید کرتے ہیں۔ یہ سفر بالآخر عرفان نظری تک پہنچتا ہے کہ جس کا اوج ابن عربی اور اسکے پیروکاروں کے نظریات میں دیکھا جاتا ہے۔

حوالہ جات

  1. راغب، مفردات، دارالمعرفہ، ص۱۰۲؛ ابن اثیر، النہايہ، ۱۳۸۳ق، ج۱، ص۳۲۳؛ بیضاوی، انوارالتنزیل، ۱۳۸۴ق، ج۱، ص۱۱۱.
  2. ازہری، تہذیب اللغۃ، ۱۳۸۴ق، ج ۶، ص۵۱۵؛ جوالیقی، المعرب، ۱۳۶۱ق، ص۱۰۷؛ خفاجی، شفاء الغلیل، ۱۳۲۵ق، ص۵۹.
  3. ازہری، تہذیب اللغہ، ۱۳۸۴ق، ج۶، ص۵۱‌۵.
  4. راغب، مفردات، دار المعرفہ، ص۱۰۲؛جوہری، صحاح، ذیل واژه ی جہنم.
  5. جوالیقی، المعرب، ۱۳۶۱ق، ص۱۰۷؛ ابن اثیر، النہایہ، ۱۳۸۳ق، ج۱، ص۳۲۳؛ سیوطی، الاتقان، ۱۳۶۳ش، ج۲، ص۱۳۲.
  6. Sacy, Lettre de M. le baron Silvestre de Sacy a M. Gracin de Tassy, p.175; Gieger,Was hat Mohammed aus dem Judenthume augenommen?, p.47-48
  7. سورہ مدثر، آیت ۳۱۱؛ زمر، آیہ ۷۱؛ تحریم، آیت ۶.
  8. شیخ صدوق، علل الشرائع، ۱۳۸۶ق، ج۱، ص۲۹۸.
  9. بخاری، صحیح بخاری، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۴۶۶ و ج۳، ص۱۱۸۲؛ احمد بن حنبل، مسند، ۱۳۱۳ق، ج۵، ص۱۴.
  10. بخاری، صحیح، ۱۴۰۷ق، ج۶، ص۲۵۸۵؛ صفار، بصائر الدرجات، ۱۴۰۴ق، ص۴۳۷.
  11. ابن هشام، السیرة النبویة، ۱۹۷۵م، ج۲، ص۲۵۰-۲۵۱.
  12. اهوازی، الزهد، ۱۳۹۹ق، ص۱۰۰.
  13. مدثر، آیت ۳۰
  14. ابن طاووس، الدروع الواقیۃ، ۱۴۱۴ق،ص۲۷۳.
  15. سورہ صف، آیت ۱۰.
  16. سورہ بقره، آیت ۲۴.
  17. سورہ بقره، آیت ۲۰۱؛ تحریم، آیت ۶؛ برای احادیث: نک: قنوجی، یقظہ اولی الاعتبار، ۱۲۹۴ق، ص۵۵.
  18. مثلاً سورہ یونس، آیت ۵۳\۲؛ مزمل، آیت ۱۲.
  19. سورہ نازعات، آیت ۲۵؛ مزمل، آیت ۱۲.
  20. سورہ دخان، آیت ۱۶.
  21. سورہ آل عمران، آیت ۴.
  22. سورہ توبہ، آیت ۳۵؛ سورہ زمر، آیت ۲۴.
  23. سورہ نساء،آیت ۱۴.
  24. قصص، آیت ۴۱؛ بقره، آیت ۲۲۱.
  25. بخاری، صحیح بخاری، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۱۳۱۹؛ نعیم بن حماد، الفتن، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۵-۳۶ .
  26. نوح، آیت ۲۵؛ تحریم،آیت ۱۰.
  27. نبأ، آیت ۲۱.
  28. شعرا، آیت ۹۱، تکویر، آیت ۱۲.
  29. فجر، آیت ۲۳.
  30. طوسی، الامالی، ۱۴۱۳ق، ص۲۳۷؛ مسلم، صحیح مسلم، ۱۹۵۵م، ج۴، ص۲۱۸۴؛ ترمذی، سنن، ۱۳۵۷ق، ج۴، ص۷۰۱ .
  31. کہف، آیت ۱۰۰؛ احقاف، آیت ۲۰، ۳۴.
  32. کہف، آیت ۵۳.
  33. مؤمنون، آیت ۱۰۴؛ مریم، آیت ۶۸؛ سجده، آیت ۲۰؛ تکاثر، آیت ۵-۶.
  34. انعام، آیت ۱۵.
  35. حج، آیت ۵۵.
  36. ہود، آیت ۳.
  37. ترمذی، سنن، ۱۳۵۷ق، ج۴، ص۷۰۱؛ ابن مبارک، الزہد، دارالکتب العلمیہ، ص۱۰۲؛ نیز نک: ابن عدی، الکامل، ۱۴۰۹ق، ج۳، ص۲۱۴
  38. مفید، الامالی، ۱۴۰۳ق، ص۱۳۰ .
  39. ق، آیت ۳۰.
  40. نک:بخاری، صحیح بخاری، ۱۴۰۷ق، ج۶، ص۲۶۸۹؛ مسلم، صحیح مسلم، ۱۹۵۵م، ج۴، ص۲۱۸۸.
  41. مریم، آیت ۷۱.
  42. مثلاً: بخاری، صحیح بخاری، ۱۴۰۷ق، ج۵، ص۲۴۰۳؛ مسلم، صحیح مسلم، ۱۹۵۵م، ج۱، ص۱۷۷.
  43. طبری، تفسیر، ۱۴۰۵ق، ج۱۱، ص۴۷؛ ابوالشیخ اصفہانی، العظمۃ، ۱۴۰۸ق، ج۳، ص۸۳۴.
  44. مؤمنون، آیت ۷۴.
  45. شیخ صدوق، الاعتقادات، ۱۴۱۳ق، ص۷۰؛ طوسی، الامالی، ۱۴۱۳ق، ص۲۹۰.
  46. احمد بن حنبل، مسند، ۱۳۱۳ق، ج۲، ص۳۲۸؛ حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ۱۴۱۱ق، ج۴، ص۶۳۰ .
  47. انعام، آیت ۶، ۱۲۸؛ اعراف، آیت ۳۸ و ۱۷۹.
  48. نساء، آیت ۴۸.
  49. مائده، آیت ۷۲؛ اسراء، آیت ۳۹.
  50. انبیاء، آیت ۲۹و۹۸.
  51. نک: علاء بن رزین،ضمن الاصول الستۃ عشر، ۱۴۰۵ق، ص۱۵۶؛ نابلسی، اہل الجنہ و اہل النار، مکتبہ التراث الاسلامی، ص۷۴؛ قنوجی، یقظہ اولی الاعتبار، ۱۲۹۴ق، ص۷۰.
  52. ق، آیت ۲۴؛ آل عمران، آیت ۱۰۶؛ انعام، آیت ۳۰.
  53. بقره، آیت ۳۹؛ مائده، آیت ۱۰۵، ۸۶.
  54. کہف، آیت ۱۰۶.
  55. انفال، آیت ۳۳؛ زمر، آیت ۶۰، ۷۲؛ غافر، آیت ۷۶
  56. بخاری، صحیح بخاری، ۱۴۰۷ق، ج۴، ص۱۸۷۰و ج۵، ص۲۲۵؛ مسلم، صحیح مسلم، ۱۹۵۵م، ج۴، ص۲۱۹۰؛ کلینی، الکافی، ۱۳۷۷ق، ج۲، ص۳۰۹ .
  57. ابن حبان، صحیح، ۱۴۱۴ق، ج۱۶، ص۵۱۸ .
  58. قاضی نعمان، دعائم الاسلام، ۱۳۸۳ق، ج۱، ص۱۴۷؛ شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۳۱ .
  59. احمد بن حنبل، مسند، ۱۳۱۳ق، ج۲، ۴۲۵و ۴۷۹؛ حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ۱۴۱۱ق، ج۱، ص۵۴۴؛ دیلمی، الفردوس بمأثور الخطاب، ۱۹۸۶م، ج۱، ص۲۴.
  60. نہج البلاغہ، خطبہ ۱۶۴
  61. ہود، آیت ۱۱۳.
  62. شیخ صدوق، الامالی، ۱۴۱۷ق، ۵۱۳-۵۱۴ .
  63. ابن ابی شیبہ، المصنف، ۱۴۰۹ق، ج۷، ص۱۶۳؛ ابن ابی عاصم، الاوائل، ۱۴۰۸ق، ص۵۴؛ طبرانی، الاوائل، ۱۴۰۳ق، ص۶۴.
  64. نازعات، آیت ۳۹؛ نبأ، آیت ۲۲.
  65. واقعہ، آیت ۴۵.
  66. غافر، آیت ۴۳.
  67. جن، آیت ۲۳: انعام، آیت ۱۵.
  68. بقره، آیت ۸۱ .
  69. نساء، آیت ۹۳.
  70. همزه، آیت ۱.
  71. توبہ، آیت ۳۴-۳۵؛ ہمزه، آیت ۲.
  72. نک: شیخ صدوق، الخصال، ۱۳۶۲ش، ص۱۵۹ و ۲۹۶؛ مصباح الشریعہ، امام صادق (ع) سے منسوب، ۱۴۰۰ق، ص۲۰۵.
  73. نک: بخاری، صحیح بخاری، ۱۴۰۷ق، ج۵، ص۲۳۷۹؛ مسلم، صحیح مسلم، ۱۹۵۵م، ج۴، ص۲۱۷۴.
  74. اعراف، آیت ۳۸؛ حجر، آیت ۴۳؛ واقعہ، آیت ۴۹-۵۰.
  75. مریم، آیت ۶۹.
  76. آل عمران، آیت ۱۲؛ انعام، آیت ۱۲۸؛ انفال، آیت ۳۶؛ فصلت، آیت ۱۹.
  77. اعراف، آیت ۳۸؛ عنکبوت،آیت ۲۵؛ ص، آیت ۵۹-۶۴؛ غافر، آیت ۷۴؛ جاثیہ، آیت ۱۰.
  78. فاطر، آیت ۳۶؛ دخان، آیت ۵۶.
  79. ابراہیم، آیت ۱۷.
  80. بقره، آیت ۱۶۷؛ مائده، آیت ۳۷ .
  81. بخاری، صحیح بخاری، ۱۴۰۷ق، ج۴، ص۱۷۶۰؛ مسلم، صحیح مسلم، ۱۹۵۵م، ج۴، ص۲۱۸۸؛ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۸، ص۱۲ .
  82. ابو یعلی موصلی، مسند، ج۵، ص۱۸؛ ضیاء مقدسی، الاحادیث المختاره، ۱۴۱۰ق، ج۷، ص۴۹-۵۰.
  83. اعراف، آیت ۳۶؛ توبہ آیت ۶۳و۶۸.
  84. نساء، آیت ۱۶۹.
  85. فصلت، آیت ۲۸.
  86. یونس، آیت ۵۲؛ سجده، آیت ۱۴.
  87. بقره، آیت ۸۰؛ آل عمران، آیت ۲۴.
  88. طوسی، التبیان، ۱۳۸۳ق، ج۴، ص۲۷۴؛ فخرالدین رازی، التفسیر الکبیر، ۱۳۲۱ق، ج۱۳، ص۱۹۲.
  89. نبأ، آیت ۲۳.
  90. ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، ۱۴۰۱ق، ج۴، ص۴۶۴؛ ہیثمی، مجمع الزوائد، ۱۳۵۶ق، ج۱۰، ص۳۹۸
  91. طبرانی، المعجم الکبیر، ۱۴۰۴ق، ج۱۰، ص۱۷۹؛ ابونعیم اصفہانی، حلیۃ الاولیاء، ۱۳۵۱ق، ج۴، ص۱۶۸.
  92. مسلم، صحیح مسلم، ۱۹۵۵م، ج۱، ص۱۷۸؛ ترمذی، سنن، ۱۳۵۷ق، ج۴، ص۷۱۳؛ احمد بن حنبل، مسند، ۱۳۱۳ق، ج۳، ص۳۵۵ .
  93. بخاری، صحیح بخاری، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۱۶و ج۵، ص۲۴۰۰؛ مسلم، صحیح مسلم، ۱۹۵۵م، ج۱، ص۱۷۲و ۱۸۳ .
  94. مسلم، صحیح مسلم، ۱۹۵۵م، ج۱، ص۱۷۲؛ دارمی، سنن، ۱۴۰۷ق، ج۲،ص ۴۲۷.
  95. حامیہ: غاشیہ، آیت ۴؛ قارعہ، آیت ۸
  96. مؤصده:بلد، آیت ۲۰
  97. مدثر، آیت ۲۹؛ معارج آیت ۱۵-۱۶
  98. مدثر، آیت ۲۸،
  99. ہمزه، آیت ۶
  100. ہمزه، آیت ۹؛ مرسلات، آیت ۳۲-۳۳
  101. ہمزه، آیت ۷
  102. آل عمران، آیت ۱۰: انبیاء، آیت ۹۸
  103. بقره، آیت ۲۴؛ تحریم، آیت ۶
  104. طور، آیت ۲۷؛ واقعہ آیت ۴۲؛ نیز ابن رجب، التخویف من النار، ۱۳۹۹ق، ص۸۲
  105. دخان، آیت ۴۳
  106. انعام، آیت ۷۰
  107. حج،آیت ۱۹، ۲۰؛ دخان، آیت ۴۸
  108. صافات، آیت ۶۲؛ دخان، آیت ۴۳؛ واقعہ، ص۵۲
  109. حاقہ، آیت ۳۶
  110. غاشیہ، آیت ۷
  111. ص، آیت ۵۷؛ نبأ، آیت ۲۵
  112. ابراہیم، آیت ۱۶
  113. واقعہ آیت ۵۵
  114. غاشیہ، آیت ۷؛ صافات، آیت ۶۶-۶۷؛ نبأ، آیت ۲۴
  115. مزمل، آیت ۱۳
  116. دخان، آیت ۴۵
  117. محمد، آیت ۱۵؛ بقره، آیت ۱۷۴
  118. حج، آیت ۱۹
  119. ابراہیم، آیت ۵۰
  120. صافات، آیت ۶۷
  121. حاقہ، آیت ۳۰؛ غافر، آیت ۷۱
  122. حج، آیت ۲۱
  123. فجر، آیت ۱۳
  124. ہود، آیت ۱۰۶؛ انبیاء، آیت ۱۰۰
  125. فرقان، آیت ۱۲؛ مطففین آیت ۷-۸ نیز ابن مبارک، الزہد، آیت ۸۶
  126. زمر، آیت ۱۶؛ واقعہ، آیت ۴۳؛ مرسلات، آیت ۳۰-۳۱
  127. ص، آیت ۵۸
  128. ابن ابی شیبہ، المصنف، ۱۴۰۹ق، ج۵، ص۳۲۹؛ بخاری، ادب المفرد، ۱۴۰۹ق، ص۱۹۶.
  129. طبری، تفسیر، ۱۴۰۵ق، ج۳۰، ص۳۴۹؛ دیلمی، الفردوس بمأثور الخطاب، ۱۹۸۶م، ج۳، ص۲۱۷؛ متقی ہندی، کنزالعمال، ۱۴۰۹ق، ج۲، آیت ۱۵.
  130. حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ۱۴۱۱ق، ج۴، ص۶۳۵؛ ابن مبارک، الزہد، دارالکتب العلمیہ، ص۱۷۸.
  131. طبرسی، احمد، الاحتجاج، ج۲، ص۹۹
  132. . طبرانی، المعجم الاوسط، ۱۴۱۵ق، ج۵، ص۳۷۲؛ خطیب بغدادی، موضّح اوهام الجمع و التفریق، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۲۲۲.
  133. مسلم، صحیح مسلم، ۱۹۵۵م، ج۳، ص۱۵۸۷؛ ترمذی، سنن، ۱۳۵۷ق، ج۴، ص۶۵۵؛ سیوطی، الاتقان، ۱۳۶۳ش، ج۵، ص۳۳۳.
  134. شیخ صدوق، عقاب الاعمال، ‌۱۳۶۴ش، ص۲۵۴؛ ابن عدی، ‌الکامل، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۴۲۷.
  135. انسان، آیت ۱۳.
  136. سہمی، تاریخ جرجان، ۱۴۰۷ق، ص۴۸۶؛ ابن رجب، التخویف من النار، ۱۳۹۹ق، ص۷۱.
  137. سمعانی،منصور، تفسیر، ۱۴۱۸ق، ج۳، ص۱۹۵؛ ابن رجب، التخویف من النار، ۱۳۹۹ق، ص۷۱ .
  138. ثعلبی، تفسیر الکشف و البیان، ‌۱۴۲۲ق، ج۶، ص۳۶؛ ابن رجب، التخویف من النار، ۱۳۹۹ق، ص۷۱.
  139. برقی، المحاسن، ۱۳۳۱ش، ص۳۸۹؛ قاضی نعمان، دعائم الاسلام، ۱۳۸۳ق، ج۲، ص۱۰۴ ؛ نیز نک:طبرانی، المعجم الاوسط، ۱۴۱۵ق، ج۶، ص۳۵۴ .
  140. بخاری، صحیح بخاری، ۱۴۰۷ق، ج۵، ص۲۴۰۰؛ مسلم، صحیح مسلم، ۱۹۵۵م، ج۱، ص۱۹۶؛ حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ۱۴۱۱ق، ج۴، ص۶۲۵؛ نیز نک: نہج البلاغہ، خطبہ ۱۲۰، ۱۸۳، ۱۹۳؛ مفید، الامالی، ۱۴۰۳ق، ص ۲۶۶.
  141. مثلاً نک: ابن ہشام، السیرة النبویہ، ۱۹۷۵م، ج ۲، ص۲۵۱-۲۵۳؛ شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۱۳-۱۴.
  142. نحل، آیت ۲۹؛ زمر، آیت ۷۱؛ غافر، آیت ۷۶.
  143. حجر، آیت ۴۴.
  144. نساء، آیت ۱۴۵.
  145. تین، آیت ۵
  146. صنعانی، تفسیر القرآن، ۱۴۱۰ق، ج۳، ص۳۸۲؛ ابن عطیہ، المحرر الوجیز، ۱۴۱۳ق، ج۵، ص۵۰۰.
  147. ابن فارس، معجم مقاییس اللغة، ۱۴۰۴ق، ج۲، ص۲۶۹؛ جوهری، صحاح، ۱۳۷۶ق، ج۴، ص۱۵۸۳؛ سمعانی، تفسیر، ۱۴۱۸ق، ج۱، ص۴۹۵ .
  148. ابن رجب، التخویف من النار، ۱۳۹۹ق، ص۵۰.
  149. مثلاً نک: لغت نامہ دہخدا،ذیل «درک»
  150. طبری، تفسیر، ۱۴۰۵ق، ج۱۴، ص۳۵؛ ابن رجب، التخویف من النار، ۱۳۹۹ق، ص۵۰.
  151. بیہقی، شعب الایمان، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۳۴۹ .
  152. نک: طبری، تفسیر، ۱۴۰۵ق، ج۱۴، ص۳۵؛ قمی، تفسیر، ۱۳۸۶-۱۳۸۷ق، ج۱، ص۳۷۶-۳۷۷؛ ثعلبی، تفسیر الکشف و البیان، ‌۱۴۲۲ق، ج۵، ص۳۴۲؛ طبرسی، مجمع البیان، ۱۴۱۵ق، ج۶، ص۱۱۸ .
  153. بغوی، معالم التنزیل، ۱۴۰۷ق، ج۳، ص۵۱؛ برای تفاوت باب‌ ہای جہنم: نک: شیخ صدوق، الخصال، ص۳۶۱
  154. برقی، المحاسن، ۱۳۳۱ش، ص۱۲۳؛ کلینی، الکافی، ۱۳۷۷ق، ج۲، ص۳۱۰.
  155. قاضی نعمان، دعائم الاسلام، ۱۳۸۳ق، ج۲، ص۴۲۰؛ ابن براج، المہذب، ۱۴۰۶ق، ج۲، ص۴۵۴.
  156. برقی، المحاسن، ۱۳۳۱ش، ص۱۲۳؛ ہناد کوفی، الزہد، ۱۴۰۶ق، ص۱۸۴؛ ابن رجب، التخویف من النار، ۱۳۹۹ق، ص۱۳۷.
  157. بلد، آیت ۱۱.
  158. طبری، تفسیر، ۱۴۰۵ق، ج۳۰، ص۲۰۱.
  159. آل عمران، آیت ۱۰۳ .
  160. برقی، المحاسن، ۱۳۳۱ش، ص۹۱.
  161. فلق، آیت ۱.
  162. قمی، تفسیر، ۱۳۸۶-۱۳۸۷ق، ج۲، ص۴۴۹؛ شیخ صدوق، معانی الاخبار، ۱۳۶۱ش، ص۲۲۷؛ شیخ صدوق، التوحید، ۱۳۶۲ش، ص۳۹۱.
  163. ہمزه، آیت ۱.
  164. مقاتل بن سلیمان، التفسیر، ۱۴۲۴ق، ج۳، ص۴۶۰؛ طبری، تفسیر، ۱۴۰۵ق، ج۱، ص۳۷۸.
  165. ترمذی، سنن، ۱۳۵۷ق، ج۵، ص۳۲۰؛ حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ۱۴۱۱ق، ج۲، ص۵۵۱.
  166. مریم، آیت ۵۹.
  167. طبری، تفسیر، ۱۴۰۵ق، ج۱۶، ص۱۰۰؛ طبرانی، المعجم الکبیر، ۱۴۰۴ق، ج۹، ص ۲۲۷؛ ہنادکوفی، الزہد، ۱۴۰۶ق، ص۱۸۳.
  168. نبأ، آیت ۲۵
  169. اہوازی، الزہدی، ۱۳۹۹ق، ص ۱۰۰.
  170. فرقان،آیت ۶۸.
  171. طبری، تفسیر، ۱۴۰۵ق، ج۱۹، ص۴۴؛ شیخ مفید، الاختصاص، جماعۃ المدرسین، ص۳۴۴
  172. طبری، تفسیر، ۱۴۰۵ق، ج۱۵، ص۲۶۵؛ ابن ابی عاصم، الزہد، ۱۴۰۸ق، ص۳۱۱.
  173. ترمذی ، سنن، ۱۳۵۷ق، ج۴، ص۵۹۳؛ ابن ماجہ، سنن، ۱۹۵۲-۱۹۵۳م، ج۱، ص۹۴.
  174. شیخ صدوق، عقاب الاعمال، ‌۱۳۶۴ش، ص۲۷۴؛ ابن ابی الدنیا، التواضع و الخمول، ۱۴۰۹ق، ص۲۷۱؛ وادی ہبہب کے متعلق ، نک:عقیلی، کتاب الضعفاء الکبیر، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۱۳۴.
  175. شیخ صدوق، الامالی، ۱۴۱۷ق، ص۸۲
  176. کتاب سلیم بن قیس، ۱۴۱۵ق، ص ۱۶۱؛ مفید، الکافئہ، ۱۴۱۳ق، ص۲۵؛ دریاؤں کیلئے نک: ابن ابی عاصم، الزہد، ۱۴۰۸ق، ص۲۷؛ ابن عدی، الکامل، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۲۰۸؛ ابوالشیخ اصفہانی، العظمۃ، ۱۴۰۸ق، ج۴، ص۱۴۰۹؛ دیواروں کیلئے نک: احمد بن حنبل، مسند، ۱۳۱۳ق، ج۳، ص۲۹؛ ترمذی، سنن، ۱۳۵۷ق، ج۴، ص۷۰۶؛ ابن رجب، التخویف من النار، ۱۳۹۹ق، ص۸۳؛ وادیوں اور خندقوں کی تفصیل کیلئے نک: قنوجی، یقظۃ اولی الاعتبار، ۱۲۹۴ق، ص۷۸.
  177. نک: ابن ندیم، الفہرست، ۱۳۵۰ش، ص۲۴۵؛ نجاشی، رجال، ۱۴۰۷ق، ص۱۴۶، ۱۹۱؛ طوسی، الفہرست، ص۱۵۷، ۲۱۳؛ کتانی، الرسالۃ المستطرفۃ، ۱۴۰۶ق، ص۵۰
  178. برای متن نک: شیخ مفید، الاختصاص، جماعۃ المدرسین، ص۳۴۵
  179. غافر، آیت ۷۵.
  180. نک:طور، آیت ۱۲.
  181. مریم، آیت ۸۶؛ زمر، آیت ۷۱.
  182. نمل،آیت ۹۰؛ قمر، آیت ۴۸.
  183. طور، آیت ۱۳.
  184. الرحمن، آیت ۴۱؛ دخان، آیت ۴۷؛ حاقہ، آیت ۳۰-۳۱.
  185. شوری، آیت ۴۵.
  186. آل عمران، آیت ۱۹۲؛ یونس، آیت ۹۸.
  187. احقاف، آیت ۲۰.
  188. زمر، آیت ۷۱؛ دخان، آیت ۴۹؛ ملک، آیت ۸.
  189. اعراف، آیت ۴۴؛ اسراء آیت ۳۹، ۱۸.
  190. بقره، آیت ۱۷۴.
  191. غافر، آیت ۴۹.
  192. غافر، آیت ۵۰؛ فاطر، آیت ۳۷.
  193. تحریم، آیت ۷.
  194. معارج، آیت ۱۱.
  195. انعام، آیت ۲۷؛ صافات، آیت ۵۵-۵۶.
  196. بقره،آیت ۸۶؛ آل عمران، آیت ۹۱.
  197. بقره، آیت ۱۶۲؛ آل عمران، آیت ۸۸ .
  198. معارج، آیت ۲۸.
  199. مفید، الامالی، ۱۴۰۳ق ص۲۶۶؛ طوسی، الامالی، آیت ۲۹
  200. احمد بن حنبل، مسند، ۱۳۱۳ق، ج۳، ص۲۳۰؛ طبری، تفسیر، ۱۴۰۵ق، ج۳۰، ص۲۹۴؛ ابن ابی الدنیا، حسن الظن بالله، ۱۴۰۸ق، ص۱۰۴.
  201. شہرستانی، الملل و النحل، ۱۴۱۹ق، ج۱، ص۷۰.
  202. نک: اشعری، مقالات الاسلامیین، ۱۹۸۰م، ص۲۹۶؛ مقدسی، البدء و التاریخ، ۱۹۱۶م، ج۱، ص۱۸۸-۱۹۰؛ مفید، اوائل المقالات،۱۳۷۱ق، ص۱۴۱-۱۴۲؛ عضدالدین ایجی، المواقف،۱۹۹۷م، ج۳، ص۴۸۵، ۴۸۷.
  203. اشعری، مقالات الاسلامیین، ۱۹۸۰م، ص۱۴۸-۱۴۹ و۱۶۴ و ۴۷۴؛ بغدادی، الفرق بین الفرق، ۱۴۱۵ق، ص۱۱۹ و ۱۹۹؛ اسفرائنی، التبصیر فی الدین، ۱۴۰۳ق، ص۱۰۸؛ شہرستانی،الملل و النحل،۱۴۱۹ق، ج۱، ص۸۰.
  204. شہرستانی، الملل و النحل،۱۴۱۹ق، ج۱، ص۷۲.
  205. مثلاً تفتازانی، شرح المقاصد، ۱۴۰۱ق، ج۲، ص۲۲۸-۲۳۸.
  206. علامہ حلی، کشف المراد، ۱۳۷۴ش، ص۳۶۴؛ تفتازانی، شرح المقاصد، ۱۴۰۱ق، ج۲، ص۱۶۷.
  207. نک: بغدادی، الفرق بین الفرق، ۱۴۱۵ق، ص۱۲۱؛ علامہ حلی، کشف المراد، ۱۳۷۴ش، ص۴۳۷-۴۳۸.
  208. مفید، اوائل المقالات،۱۳۷۱ق، ص۱۰۶
  209. مفید، اوائل المقالات،۱۳۷۱ق، ص۱۰۷.
  210. بغدادی،الفرق بین الفرق، ۱۴۱۵ق، ص۹۲.
  211. شہرستانی ، الملل و النحل،۱۴۱۹ق، ج۱، ص۱۲۸؛اسی نظریے سے مشابہ ثوبان مرجی کا نظریہ ہے: فخرالدین، اعتقادات فرق المسلمین و المشرکین، ۱۴۰۲ق، ص۷۱.
  212. شہرستانی، الملل و النحل،۱۴۱۹ق، ج۱، ص۵۰و ۵۲
  213. شہرستانی، الملل و النحل،۱۴۱۹ق، ج۱، ص۹۲؛ ابن عساکر، تبیین کذب المفتری، ۱۳۴۷ق، ص۳۰۶؛ ابن میثم بحرانی، قواعد المرام، ۱۳۹۸ق، ص۱۶۵.
  214. نک: سید مرتضی، رسائل، ۱۴۰۵ق، ص۲۷۰؛ فخرالدین رازی، التفسیرالکبیر، ۱۳۲۱ق، ج۴، ص۱۸۹؛ عضدالدین ایجی، المواقف، ۱۹۹۷م، ج۳، ص۴۹۱.
  215. شہرستانی، الملل و النحل، ۱۴۱۹ق، ج۱، ص۸۲، ۱۲۸ .
  216. علامہ حلی، کشف المراد، ۱۳۷۴ش، ص۴۲۴.
  217. اشعری، مقالات الاسلامیین، ۱۹۸۰م، ص۵۳۷
  218. اشعری، مقالات الاسلامیین، ۱۹۸۰م، ص۲۴۹

مآخذ

  • ابن ابی عاصم، احمد، الاوائل، کوشش عبدالعلی عبدالحمید حامد، قاہره، ۱۴۰۸ق
  • ابن ابی الدنیا، عبدالله، التواضع و الخمول، کوشش محمد عبدالقادر عطا، بیروت، ۱۴۰۹ق
  • ابن ابی الدنیا، عبدالله، حسن الظن بالله، کوشش مخلص محمد، بیروت، ۱۴۰۸ق
  • ابن ابی شیبه، عبدالله، المصنف، کوشش کمال یوسف حوت، ریاض، ۱۴۰۹ق
  • ابن ابی عاصم، احمد، الاوائل، کوشش عبدالعلی عبدالحمید حامد، قاہره، ۱۴۰۸ق
  • ابن اثیر، النهاية في غريب الحديث والأثر، کوشش طاهر احمد زاوی و محمود محمد طناحی، قاہره، ۱۳۸۲ق/۱۹۶۳م
  • ابن براج، عبدالعزیز، المهذب، کوشش جعفر سبحانی، قم ۱۴۰۶ق
  • ابن حبان، محمد، صحیح، کوشش شعیب ارنووط، بیروت، ۱۴۱۴ق
  • ابن رجب، عبدالرحمان، التخویف من النار، دمشق، ۱۳۹۹ق
  • ابن طاووس، علی، الدروع الواقیة، کوشش مؤسسه آل البیت، قم ۱۴۱۴ق
  • ابن عدی، عبدالله،‌الکامل، کوشش یحیی مختار غزاوی، بیروت، ۱۴۰۹ق
  • ابن عربی، محیی الدین، التجلیات الالهیه، کوشش عثمان اسماعیل یحیی، تہران، ۱۴۰۸ق/ ۱۹۸۸م.
  • ابن عساکر، علی، تبیین کذب المفتری، دمشق، ۱۳۴۷ث
  • ابن عطیه، عبدالحق، المحرر الوجیز، کوشش عبدالسلام عبدالشافی محمد، بیروت، ۱۴۱۳ق
  • ابن فارس، احمد، معجم مقاییس اللغة، کوشش عبدالسلام محمد هارون، قم، ۱۴۰۴ق
  • ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، بیروت، ۱۴۰۱ق
  • ابن ماجه، محمد، سنن، کوشش محمد فؤاد عبدالباقی، قاہره، ۱۹۵۲-۱۹۵۳م
  • ابن مبارک، عبدالله، الزهد، کوشش حبیب الرحمان اعظمی، بیروت، دارالکتب العلمیہ
  • ابن میثم بحرانی، میثم، قواعد المرام فی علم الکلام، قم، ۱۳۹۸ق.
  • ابن ندیم، محمد، الفهرست، کوشش رضا تجدد، تہران، ۱۳۵۰ش.
  • ابن هشام، عبدالملک، السیرة النبویة، کوشش طه عبدالرئوف سعد، بیروت، ۱۹۷۵م
  • ابوالشیخ اصفهانی، عبدالله، العظمة، کوشش رضاء الله مبارکفوری، ریاض، ۱۴۰۸ق
  • ابوطالب مکی، محمد، قوت القلوب، قاہره، ۱۳۱۰ق.
  • ابونعیم اصفهانی، احمد، حلیة الاولیاء، قاہره، ۱۳۵۱
  • ابویعلی موصلی، احمد، مسند، کوشش حسین سلیم اسد، دمشق، ۱۴۰۴ق
  • احمد بن حنبل، مسند، قاہره، ۱۳۱۳ق
  • ازهری، محمد، تهذیب الللغة، کوشش محمد عبدالمنعم خفاجی و دیگران، قاہره، ۱۳۸۴ق
  • اسفراینی، شاهفور، التبصیر فی الدین، کوشش کمال یوسف حوت، بیروت، ۱۴۰۳ق
  • اشعری، علی، مقالات الاسلامیین، کوشش هلموت ریتر، ویسبادن، ۱۹۸۰م
  • الاختصاص، منسوب به مفید، کوشش علی اکبر غفاری، قم، جماعة المدرسین،
  • اهوازی، حسین، الزهدی، کوشش غلامرضا عرفانیان، قم، ۱۳۹۹ق
  • بخاری، محمد، الادب المفرد، کوشش محمد فؤاد عبدالباقی، بیروت، ۱۴۰۹ق
  • بخاری، محمد، صحیح، کوشش مصطفی دیب البغا، بیروت، ۱۴۰۷ق
  • برقی، احمد، المحاسن، کوشش جلال الدین محدث ارموی، تہران، ۱۳۳۱ش
  • بغدادی، عبدالقاهر، الفرق بین الفرق، کوشش ابراهیم رمضان، بیروت، ۱۴۱۵ق
  • بغوی، حسین، معالم التنزیل، کوشش خالد عک و مروان سوار، بیروت، ۱۴۰۷ق
  • بیضاوی، عبدالله، انوار التنزیل، قاہره، ۱۳۸۸ق
  • بیهقی، احمد، شعب الایمان، کوشش محمد سعید بن بسیونی زغلول، بیروت، ۱۴۱۰ق
  • ترمذی، محمد، سنن، کوشش احمد محمد شاکر و دیگران، قاہره۷ ۱۳۵۷ق
  • تفتازانی، مسعود، شرح المقاصد، پاکستان، ۱۴۰۱ق
  • ثعلبی، احمد، تفسیر الکشف و البیان، کوشش ابومحمد بن عاشور، بیروت،‌۱۴۲۲ق
  • جوالیقی، موهوب، المعرب، کوشش احمد محمد شاکر، قاہره، ۱۳۶۱ق
  • جوهری، اسماعیل، صحاح، کوشش احمد عبدالغفور عطار، قاہره، ۱۳۷۶ق
  • حاکم نیشابوری، محمد، المستدرک علی الصحیحین، کوشش مصطفی عبدالقادر عطا، بیروت، ۱۴۱۱ق
  • خطیب بغدادی، احمد، موضح اوهام الجمع و التفریق، کوشش عبدالمعطی امین قلعجی، بیروت، ۱۴۰۷ق
  • خفاجی، احمد، شفاء الغلیل، کوشش محمد بدرالدین نعسانی، قاہره، ۱۳۲۵ق.
  • خوارزمی، حسین، شرح فصوص الحکم، کوشش نجیب مایل هروی، تہران، ۱۳۶۴ش.
  • دارمی، عبدالله، سنن، کوشش فواز احمد زمرلی و خالد سبع علمی، بیروت، ۱۴۹۷.
  • دیلمی، شیرویه، الفردوس بمأثور الخطاب، کوشش محمد سعید بن بسیونی زغلول، بیروت، ۱۹۸۶م.
  • راغب اصفهانی، حسین، المفردات، کوشش محمد سید کیلانی، بیروت، دارالمعرفه.
  • روزبهان بقلی، شرح شطحیات، کوشش هانری کربن، تہران، ۱۳۶۴ش.
  • زمخشری، محمود، الکشاف، قاہره، ۱۳۶۶ق.
  • زیلعی، عبدالله، نصب الرایة، کوشش محمد یوسف بنوری، قاہره، ۱۳۵۷ق.
  • سراج، عبدالله، اللمع فی التصوف، کوشش ر. نیکلسن، لیدن، ۱۹۱۴م.
  • سمعانی، منصور، تفسیر، کوشش یاسر ابراهیم و غنیم عباس غنیم، ریاض، ۱۴۱۸ق.
  • سنایی، دیوان، کوشش مدرس رضوی، تہران، ۱۳۶۲ش.
  • سهمی، حمزه، تاریخ جرجان، کوشش محمد عبدالمعید خان، بیروت، ۱۴۰۷ق.
  • سید مرتضی، علی، «الحدود و الحقائق»، رسائل الشریف المرتضی، کوشش احمد حسینی، قم، ۱۴۰۵ق.
  • سیوطی، الاتقان، کوشش محمد ابوالفضل ابراهیم، قم، ۱۳۶۳ش.
  • شهرستانی، محمد، الملل و النحل، کوشش جمال ابراهیم، قاہره، ۱۴۱۹ق.
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، الاعتقادات، کوشش عصام عبدالسید، قم، *شیخ صدوق، الامالی، قم، ۱۴۱۷ق
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، التوحید، کوشش علی اکبر غفاری، قم، ۱۳۶۲ش
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، الخصال، کوشش علی اکبر غفاری، قم، ۱۳۶۲ش
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، امالی، قم، ۱۴۱۷ق.
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، عقاب الاعمال، همراه ثواب الاعمال، قم،‌۱۳۶۴ش
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، علل الشرائع، نجف، ۱۳۸۶ق
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا، بیروت، ۱۴۰۴ق
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، معانی الاخبار، کوشش علی اکبر غفاری، قم، ۱۳۶۱ش
  • شیخ مفید، محمد، الامالی، کوشش حسین استادولی و علی اکبر غفاری، قم، ۱۴۰۳ق.
  • شیخ مفید، محمد، الکافئه فی ابطال توبة الخاطئه، کوشش علی اکبر زمانی نژاد، قم، ۱۴۱۳ق.
  • شیخ مفید، محمد، اوائل المقالات، کوشش زنجانی و واعظ چرندابی، تبریز، ۱۳۷۱ق.
  • صفار، محمد، بصائر الدرجات، تہران، ۱۴۰۴ق.
  • صنعانی، عبدالرزاق، تفسیر القرآن، کوشش مسلم محمد، ریاض، ۱۴۱۰ق.
  • ضیاء مقدسی، محمد، الاحادیث المختاره، کوشش عبدالملک عبدالله ابن دهیش، مکه، ۱۴۱۰ق.
  • طبرانی، سلیمان، الاوائل، کوشش محمد شکور امریر، بیروت،۱۴۰۳ ق.
  • طبرانی، سلیمان، المعجم الاوسط، کوشش طارق بن عوض الله و عبدالمحسن بن ابراهیم حسینی، قاہره، ۱۴۱۵ق.
  • طبرانی، سلیمان، المعجم الکبیر،‌ کوشش حمدی عبدالحمید سلفی، موصل، ۱۴۰۴ق.
  • طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاح، کوشش محمدباقر موسوی خرسان، نجف، ۱۳۸۶ق.
  • طبری، تفسیر، بیروت، ۱۴۰۵ق.
  • طوسی، محمد، الامالی، قم، ۱۴۱۳ق.
  • طوسی، محمد، التبیان، کوشش احمد حبیب قصیر عاملی، نجف، ۱۳۸۳ق.
  • طوسی، محمد، الفهرست، کوشش جواد قیومی، قم، ۱۴۱۷ق.
  • عضدالدین ایجی، عبدالرحمان، المواقف، کوشش عبدالرحمان عمیره، بیروت، ۱۹۹۷م.
  • عطار نیشابوری، فرید الدین، تذکرة الاولیاء، کوشش محمد استعلامی، تہران، ۱۳۶۶ش.
  • عقیلی، محمد، کتاب الضعفاء الکبیر، کوشش عبدالمعطی امین قلعجی، بیروت، ۱۴۰۴ق.
  • علاء بن رزین، «اصل» ضمن الاصول الستة عشر، قم، ۱۴۰۵ق.
  • علامہ حلی، حسن، کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد، کوشش ابراهیم موسوی زنجانی، قم، ۱۳۷۴ش.
  • عهد عتیق
  • غزنوی، محمد، مقامات ژنده پیل، کوشش حشمت الله مؤید سنندجی، تہران، ۱۳۴۰ش.
  • فخرالدین رازی، اعتقادات فرق المسلمین و المشرکین، کوشش علی سامی نشار، بیروت، ۱۴۰۲ق.
  • فخرالدین رازی، التفسیر الکبیر، قاہره، ۱۳۲۱ق.
  • قاضی نعمان، دعائم الاسلام، کوشش آصف فیضی، قاہره، ۱۳۸۳ق.
  • قشیری، عبدالکریم، لطائف الاشارات، کوشش ابراهیم بسیونی، قاہره، ۱۹۸۱-۱۹۸۳م.
  • قمی، علی، تفسیر، کوشش طیب موسوی جزائری، نجف، ۱۳۸۶-۱۳۸۷ق.
  • قنوجی، محمدصدیق، یقظة اولی الاعتبار عما ورد فی ذکر النار، چ سنگی، بهوپال، ۱۲۹۴ق.
  • قیصری، داوود، شرح فصوص الحکم، تہران، ۱۲۹۹ق.
  • کتاب سلیم بن قیس، کوشش محمدباقر انصاری، قم، ۱۴۱۵ق.
  • کتانی، محمد، الرسالة المستطرفة، کوشش محمدمنتصر زمزمی، بیروت، ۱۴۰۶ق.
  • کلینی، محمد، الکافی، کوشش علی اکبر غفاری، تہران، ۱۳۷۷ق.
  • متقی هندی، علی، کنزالعمال، کوشش بکری حیانی و صفوت سقا، بیروت، ۱۴۰۹ق.
  • مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، ۱۴۰۳ق.
  • مسلم بن حجاج، صحیح، کوشش محمدفؤاد عبدالباقی، قاہره، ۱۹۵۵م.
  • مصباح الشریعة، منسوب به امام جعفر صادق، بیروت، ۱۴۰۰ق.
  • مقاتل بن سلیمان، التفسیر، کوشش احمد فرید، بیروت، ۱۴۲۴ق.
  • مقدسی، مطهر، البدء و التاریخ، کوشش کلمان هوار، پاریس، ۱۹۱۶م.
  • نابلسی، عبدالغنی، اهل الجنة و اهل النار، قاہره، مکتبة التراث الاسلامی.
  • نجاشی، احمد، رجال، کوشش موسی شبیری زنجانی، قم، ۱۴۰۷ق.
  • نعیم بن حماد، الفتن، کوشش سمیر امین زهیری، قاہره، ۱۴۱۲ق.
  • هجویری، علی، کشف المحجوب، کوشش ژوکوفسکی، تہران، ۱۳۵۸ش.
  • هناد کوفی، الزهد، کوشش عبدالرحمان عبدالجبار فریوایی، کویت، ۱۴۰۶ق.
  • ہیثمی، علی، مجمع الزوائد، قاہره، ۱۳۵۶ق.
  • Sacy, S. de, Lettre de M. le baron Silvestre de Sacy a M. Gracin de Tassy, JA, 1982, vol. IV.
  • Gieger, A., Was hat Mohammed aus dem Judenthume augenommen?, Leipzig, 1902
  • Smith, M. , Rabia, the Mystic, Lahor, 1983
  • Smith, M. The Way of the Mystics, London, 1976
  • Schimmel, a., Mystical Dimensions of Islam, Chapel Hill, 1975.