بداء

ویکی شیعہ سے
شیعہ عقائد
‌خداشناسی
توحیدتوحید ذاتیتوحید صفاتیتوحید افعالیتوحید عبادیصفات ذات و صفات فعل
فروعتوسلشفاعتتبرک
عدل (افعال الہی)
حُسن و قُبحبداءامر بین الامرین
نبوت
خاتمیتپیامبر اسلام اعجازعدم تحریف قرآن
امامت
اعتقاداتعصمت ولایت تكوینیعلم غیبخلیفۃ اللہ غیبتمہدویتانتظار فرجظہور رجعت
ائمہ معصومینؑ
معاد
برزخمعاد جسمانی حشرصراطتطایر کتبمیزان
اہم موضوعات
اہل بیت چودہ معصومینتقیہ مرجعیت


بَداء علم کلام کی ایک اصطلاح ہے جس کے معنی ظاہر اور آشکار ہونے کے ہیں۔ اصطلاح میں خداوندعالم کی جانب سے کسی ایسی چیز کے ظاہر اور آشکار کرنے کو بداء کہا جاتا ہے جسکی عام طور پر توقع نہیں رکھی جاتی تھی۔ یعنی خداوندعالم کسی متوقع چیز کی جگہ ایک غیر متوقع چیز کو ظاہر کرتا ہے گویا خداوندمتعال متوقع چیز کو محو اور ختم کرکے اس کی جگہ غیر متوقع چیز کو ظاہر کرتا ہے جو عام طور پر انسانی عقل کیلئے قابل قبول نہیں ہوا کرتی چونکہ وہ اس سے آگاہ نہیں ہوتا لیکن خداوندعالم دونوں چیزوں سے آگاہ ہے اور علم اور آگاہی سے کسی مصلحت اور مفسدہ کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے ایجاد کرتا ہے۔

عربی زبان میں ارادے میں تبدیلی آنے یا کسی نظریے کا دوسرے نظریے میں تبدیل ہونے کو بھی بداء کہا جاتا ہے لیکن یہ چیز جہل اور ضعف ارادے کی وجہ سے ہوتا ہے، اسلئے مسلمان متکلمین خداوندعالم کے افعال میں جب بداء سے بحث کرتے ہیں تو یہ معنی مراد نہیں لیتے ہیں۔

قرآن کریم میں بعض آیات ہیں جو بداء کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ اسی طرح روایات میں بھی بداء کے صحیح مفہوم پر عقیدہ رکھنے کو توحید اور خدا کی شناخت تک پہنچنے کیلئے ایک لازمی امر قرار دیا ہے۔ شیعہ روایات میں بداء سے متعلق تفصیل سے بحث ہوئی ہے من جملہ کتاب کافی میں ایک مستقل باب جو تقریبا 16 روایات پر مشتمل ہیں اسی بارے میں ہے۔

لغوی اور اصطلاحی معنی

"بَداء" کا لفظ "بدو" کے مادے سے مصدر کا صیغہ ہے۔ [1] اور لغت میں چار معنی میں استعمال ہوتا ہے: ظاہر اور آشکار ہونا۔ [2]، کسی چیز کا عدم سے ظاہر ہونا [3]، قصد اور ارادے میں تبدیلی [4] اور استصواب (کسی چیز کو صحیح درک کرنا جو پہلے صحیح درک نہیں ہوئی ہو)۔[5]

اصطلاح میں جب کسی شخص کا نظریہ بدل جائے اس معنی میں کہ اسے پتہ چلے کہ اس کا پہلا نظریہ ایک ایسے نتیجے تک پہنچ رہا ہے جو اس کا ہدف اور مقصد نہیں تھا تو اس صورت میں وہ اپنا نظریہ تبدیل کر دیتا ہے، اس وقت اس شخص کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے "بداء" حاصل ہوا ہے۔ پس حقیقت میں بداء حاصل ہوتے وقت اس شخص کو اپنے نظرے کی صحت و سقم کا پتہ چلتا ہے اس بنا پر وہ اپنا نظریہ تبدیل کر دیتا ہے۔

البتہ ارادے میں ایسی تبدیلی جہلی اور نادانی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے کیونکہ وہ اس سے پہلے اس چیز کے حوالے سے جاہل تھا۔ اسی بنا پر اس کا استعمال انسانوں کیلئے تو صحیح ہے لیکن خدا کے بارے میں اس کا استعمال جائز نہیں ہے۔[6]

علم کلام میں شیعہ عقیدے کے مطابق خداوند عالم کے بارے میں بداء سے مراد اردے میں تبدیلی اور خدا کی عجز و ناتوانی نہیں ہے بلکہ خدا کے بارے میں جب بداء کا استعمال کیا جاتا ہے تو اس کے معنی یہ ہے کہ خدا اپنے پیامبروں یا اولیاء کے اوپر کسی مصلحت کی خاطر کسی چیز کو ایک خاص نوعیت کے ساتھ آشکار کرتا ہے لیکن بعد میں کسی اور مصلحت کی خاطر کسی اس چیز سے مختلف کسی اور چیز کو اس کے جگہے پر ظاہر کرتا ہے اور خدا خود ان دونوں چیزوں سے پہلے ہی آگاہ تھا لیکن مصلحت یا مفسدہ کی خاطر پہلے ایک چیز کو اور بعد میں اس کی جگہ کسی اور چیز کو ظاہر کرتا ہے۔[7]

تاریخ کے آئینے میں

فخر رازی اور سلیمان بن جریر زیدی جیسی شخصیات بداء کو شیعوں کی ایجادات قرار دیتے ہیں۔[8][9]؛ شہرستانی بھی اپنی کتاب "الملل و النحل" میں بَداء کے عقیدے کی ابتداء کو کیسانیہ مذہب کا مختار ثقفی کی مصعب بن زبیر کے ہاتھوں شکست کھانے کے بعد جس میں انکی کامیابی کا وعدہ دیا تھا، قرآن کی آیت یمْحُوا اللَّہ ما یشاءُ وَ یثْبِتُ، ترجمہ: خدا ہر چیز کو جو وہ جاہے ختم کردیتا ہے اور ہر اس چیز کو جو وہ چاہے ثابت کرتا ہے۔ [10] سے استناد کرنا قرار دیتا ہے۔ [11]

شیعوں کی تاریخ میں بداء کے حوالے سے جو اہم تاریخی بات ذکر ہوتی ہے وہ امام صادق(ع) کے بڑے بیٹے اسماعیل جو امام کی زندگی ہی میں فوت ہو چکے تھے کا امام کا جانشین ہونے کے حوالے سے ہے۔ اس حوالے سے امام صادق(ع) سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: ما بدا لله بداء کما بدا له فی إسماعیل ابنی، یقول : ما ظهر لله أمر کما ظهر له فی إسماعیل ابنی إذ اخترمه قبلی لیعلم بذلک أنه لیس بإمام بعدی [12] ، ترجمہ: خدا کیلئے میرے بیٹے اسماعیل کے بارے میں حاصل ہونے والے بداء کی طرح کوئی بداء حاصل نہیں ہوا ہے یعنی خدا کیلئے میرے بیٹے اسماعیل کے بارے میں ظاہر ہونے والی چیز کی طرح کوئی چیز ظاہر نہیں ہوا چونکہ اسے مجھ سے پہلے موت دی گئی تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ وہ میرے بعد امام نہیں ہے۔

بہر حال قرآن کریم کا بداء کے بارے میں بیان اور اہل سنت کے احادیث میں اس موضوع پر احادیث کا پایا جانا جیسے صحیح بخاری میں پیغمبر اکرم سے احادیث نقل کی گئی ہے،[13] اس عقیدے کو شیعوں کی ایجادات میں سے قرار دینے کے دعوے کو باطل کردیتا ہے۔

قرآن میں

قرآن کریم میں مختلف آیات سے بداء کا مفہوم استفادہ ہوتا ہے جنہیں یوں تقسیم کر سکتے ہیں:

  • وہ آیات جو قضا و قدر کی دو، حتمی اور غیرحتمی نوعیت بیان کرتی ہیں اور اس طرح بعض مقدرات میں تبدیلی کو جائز قرار دیتی ہیں۔جیسے سورہ رعد کی آیت نمبر ۳۹ ۔ یا وہ آیات جو انسان‌ کی موت کو حتمی اور غیرحتمی میں تقسیم کرتی ہیں۔[14] [15]
  • وہ آیات جو انسانوں کی تقدیر میں تبدیلی کو ان کے اختیاری افعال کا نتیجہ قرار دیتی ہیں:
  1. لَه مُعَقِّباتٌ مِنْ بَینِ یدَیه وَ مِنْ خَلْفِه یحْفَظُونَه مِنْ أَمْرِ الله إِنَّ اللَّه لا یغَیرُ ما بِقَوْمٍ حَتَّی یغَیرُوا ما بِأَنْفُسِهمْ وَ إِذا أَرادَ اللَّه بِقَوْمٍ سُوْءاً فَلا مَرَدَّ لَه وَ ما لَهمْ مِنْ دُونِه مِنْ والٍ۔ ترجمہ: اس کے لئے سامنے اور پیچھے سے محافظ طاقتیں ہیں جو حکم هخدا سے اس کی حفاظت کرتی ہیں اور خدا کسی قوم کے حالات کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے کو تبدیل نہ کرلے اور جب خدا کسی قوم پر عذاب کا ارادہ کرلیتا ہے تو کوئی ٹال نہیں سکتا ہے اور نہ اس کے علاوہ کوئی کسی کا والی و سرپرست ہے [16]
  2. ذلِکَ بِأَنَّ اللَّه لَمْ یکُ مُغَیراً نِعْمَة أَنْعَمَها عَلی قَوْمٍ حَتَّی یغَیرُوا ما بِأَنْفُسِهمْ وَ أَنَّ اللَّه سَمیعٌ عَلیمٌ۔ ترجمہ:یہ اس لئے کہ خدا کسی قوم کو دی ہوئی نعمت کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے تئیں تغیر نہ پیدا کردیں کہ خدا سننے والا بھی ہے اور جاننے والا بھی ہے [17]
  • وہ آیات جو بداء کے عینی مصادیق کی طرف بطور خاص اشارہ کرتی ہیں:
  1. حضرت یونس کی قوم سے عذاب کا ٹل جانا انکی دعا اور مناجات کی وجہ سے، فَلَوْ لا کانَتْ قَرْیة آمَنَتْ فَنَفَعَها إیمانُها إِلاَّ قَوْمَ یونُسَ لَمَّا آمَنُوا کَشَفْنا عَنْهمْ عَذابَ الْخِزْی فِی الْحَیاة الدُّنْیا وَ مَتَّعْناهمْ إِلی حینٍ ترجمہ: پس کوئی بستی ایسی کیوں نہیں ہے جو ایمان لے آئے اور اس کا ایمان اسے فائدہ پہنچائے علاوہ قوم یونس کے کہ جب وہ ایمان لے آئے تو ہم نے ان سے زندگانی دنیا میں رسوائی کا عذاب دفع کردیا اور انہیں ایک مّدت تک چین سے رہنے دیا[18]
  2. حضرت اسماعیل کے ذبح سے متعلق حضرت ابراہیم کو دی گئی حکم میں تبدیلی، فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہ السَّعْی قالَ یا بُنَی إِنِّی أَری فِی الْمَنامِ أَنِّی أَذْبَحُکَ فَانْظُرْ ما ذا تَری قالَ یا أَبَتِ افْعَلْ ما تُؤْمَرُ سَتَجِدُنی إِنْ شاءَ اللَّہ مِنَ الصَّابِرینَ *... *وَ فَدَیناہ بِذِبْحٍ عَظیمٍ۔ ترجمہ: پھر جب وہ فرزند ان کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کے قابل ہوگیا تو انہوں نے کہا کہ بیٹا میں خواب میں دیکھ رہا ہوں کہ میں تمہیں ذبح کررہا ہوں اب تم بتاؤ کہ تمہارا کیا خیال ہے فرزند نے جواب دیا کہ بابا جو آپ کو حکم دیا جارہا ہے اس پر عمل کریں انشائ اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔ اور ہم نے اس کا بدلہ ایک عظیم قربانی کو قرار دے دیا ہے۔ [19]
  3. بنی اسرائیل پر خدا کی نافرمانی کی وجہ سے 40 سال سرزمین مقدس میں داخل ہونا حرام قرار دینا : یا قَومِ ادخُلوا الاَرضَ المُقَدَّسَة... قالَ فَاِنَّہا مُحَرَّمَةٌ عَلَیہم اَربَعینَ سَنَةً ترجمہ: اور اے قوم اس ارعَ مقدس میں داخل ہوجاؤ ...ارشاد ہوا کہ اب ان پر چالیس سال حرام کردئیے گئے ۔ [20]
  4. حضرت موسی کا 30 رات کی مقررہ مدت میں 10 رات کا اضافہ اور 40 رات کا ہونا: و واعَدنا موسی ثَلاثینَ لَیلَةً واَتمَمناہا بِعَشر... ترجمہ: اور ہم نے موسٰی علیھ السّلام سے تیس راتوں کا وعدہ لیا اور اسے دس مزید راتوں سے مکمل کردیا کہ اس طرح ان کے رب کا وعدہ چالیس راتوں کا وعدہ ہوگیا۔ [21]

احادیث کی روشنی میں

ائمہ اہل بیت علیہم السلام سے منقول احادیث میں خدا کیلئے بداء حاصل ہونے کی طرف اشارہ ملتا ہے۔ اور ان احادیث میں شیعوں کے ہاں اس کے صحیح عقیدے کے بارے میں بھی وضاحت دی گئی ہے۔

امام صادق(ع) سے منقول ہے: ما تنبأ نبی قط حتی یقر للہ عزوجل بخمس : بالبداء والمشیة والسجود والعبودیة والطاعة؛ [22] انبیاء علیہم السلام میں سے کوئی ایک بھی نبوت پر فائز نہیں ہوئے مگر یہ کہ خدا کیلئے 5 خصلتوں کا اعتراف کریں جو یہ ہیں: بداء ، مشیت ، سجود ، عبودیت اور اطاعت۔

ایک اور حدیث میں چھٹے امام سے منقول ہے: ما بدا للہ فی شئ إلا کان فی علمہ قبل أن یبدو لہ۔[23] خداوند عالم کیلئے بداء حاصل نہیں ہوتا مگر یہ کہ پہلے سے اس نئے موضوع کا خدا کو علم ہوتا ہے۔

اسی طرح بداء سے مربوط احادیث میں ائمہ کے نزدیک اس عقیدے کی اہمیت بھی بیان ہوئی ہے یہاں تک کہ یہ عقیدہ حقیقی توحید کی نشانیوں میں سے قرار دیا گیا ہے۔

حدیث میں آیا ہے: ما عبد اللہ بشئ مثل البداء۔ [24] جس قدر بداء کے ذریعے خدا کی عبادت کی گئی ہے کسی اور چیز کے ذریعے خدا اطاعت نہیں ہوئی ہے۔ امام صادق(ع) نے فرمایا: لَوْ عَلِمَ النَّاسُ مَا فِی الْقَوْلِ بِالْبَدَاءِ مِنَ الْأَجْرِ مَا فَتَرُوا عَنِ الْکلَامِ فِیہ۔ [25]؛ اگر لوگوں کو معلوم ہوتا کہ بداء میں کیا جزاء رکھی گئی ہے تو کبھی بھی اس سے متعلق گفتگو سے نہیں تھکتے۔

بداء کے مسئلے میں کشمکش

بداء پر عقیدہ رکھنا اور اسے خدا کی طرف نسبت دینا علم کلام اور تفسیر میں وسیع پیمانے پر مورد بحث و تحقیق قرار پایا ہے اور اہل تشیع کا دیگر مذاہب کے ساتھ اس حوالے سے بہت زیادہ کشمکش اور نزاع پایا جاتا ہے اور دوسرے مذاہب اہل تشیع کو متہم کرتے ہوئے اسے بدعت قرار دیتے ہیں۔

بداء اور علم خداوند

علم خدا کا تغییر ناپذیر ہونا، اہل تشیع اور اہل سنت کے درمیان بداء کے مسئلے میں کشمکش ایجاد ہونے کا سبب بنا ہے۔ کیونکہ ظاہری طور پر یہ دونوں ایک دوسرے سے سازگار نہیں ہیں۔ بعض شیعہ علماء علم خداوندی کو علم ذاتی جو کہ ازلی، ابدی اور تغیر ناپذیر ہے، اور علم افعالی جو کہ عین فعل ہے نہ ذات اور حادث اور قابل تغییر ہے، میں تقسیم کرتے ہوئے [26]؛ تاکید کرتے ہیں کہ: بَداء خدا کے ذاتی علم میں نہیں ہوتا بلکہ یہ خدا کے افعالی علم میں ہوتا ہے۔ حقیقت میں نہ فقط خدا کے ذاتی علم میں بداء نہیں ہوتا بلکہ خدا کو بداء کے بارے میں بھی علم ہوتا ہے یعنی بداء خود علم الہی کا متعلق ہے۔ اس بنا پر بداء خدا کی ذات میں تغییر کا سبب نہیں ہوتا چونکہ تغییر کا علم ہونا اور ہوتا ہے اور علم میں تغییر آنا اور۔ [27]

اس کے علاوہ امام صادق(ع) فرماتے ہیں: "... خدا کیلئے کوئی بداء حاصل نہیں ہوتا مگر یہ کہ یہ خدا کے علم میں ہوتا ہے۔ خدا کیلئے جہالت کی وجہ سے کوئی بداء نہیں ہوتا"۔ [28]

بداء اور قضا و قدر

خدا کے بارے میں بداء کے اثبات میں ایک اور اختلافی نکتہ قضا اور قدر کا مسئلہ ہے۔ چونکہ بعض ان دو مسئلوں کو ایک دوسرے کا ضد اور مخالف قرار دیتے ہیں ۔ [29] جبکہ شیعہ علماء ان دو مسئلوں کا آپس میں توافق اور سازگاری کے قائل ہیں۔ اس حوالے سے قضا و قدر کو تین قسموں میں تقسیم کرسکتے ہیں:

  1. حتمی اور یقینی قضا و قدر جس سے فقط خدا آگاہ ہیں یہاں بَداء کا امکان نہیں ہے کیونکہ اس میں بداء کا ہونا علم خداوندی میں تغیر اور تبدیلی کا سبب بنتا ہے جو کہ محال ہے۔
  2. ایسا حتمی اور یقینی قضا و قدر جس سے خدا کے علاوہ ملائکہ، انبیا اور اولیا الہی بھی آگاہ ہیں اور چونکہ خدا خود، ملائکہ اور اپنے انبیائ اور اولیائ کو نہیں جٹلاتا، اس قسم میں بداء کا ظاہر ہونا انہیں جتلانے کا سبب بنتا ہے اسلئے اس قسم میں بھی بدائ قابل تصور نہیں ہے۔
  3. غیر حتمی اور غیر یقینی قضا و قدر جس میں خداوند عالم کسی چیز کے واقع ہونے یا نہ ہونے کو مقدر فرماتا ہے لیکن اس کے محقق ہونے کو اپنی مشیت کے ساتھ معلق کرتے ہیں اور یہ وہی قسم ہے جس میں بداء قابل تصور ہے۔ [30]

موارد وقوع بداء شیعہ نکتہ نگاہ سے

خداوند متعال کا علم اور حتمی مقدرات جنہیں لوح محفوظ، علم مخزون اور ام الکتاب کا نام دیا جاتا ہے، تغییر پذیر نہیں ہے اس لئے یہاں بداء وقوع پذیر نہیں ہے۔ خدا ازل سے ہی تمام اشیاء اور امور اور ان کے درمیان موجود روابط سے آگاہ ہے اور اس کے علم کے دائرے سے ایک ذرہ بھی باہر نہیں ہے۔ ائمہ معصومین علیہم السلام کے فرامین سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے اور آیہ مجیدہ: یمْحُو اللَّہ ما یشاء و وَ یثْبتُ وَ وَ عِنْدَہ‌ام الْکِتابِ سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ کائنات کے امور کے حوالے سے خدا کے دو کتاب ہیں: ایک وہ کتاب جس کے مطالب خدا کے اذن سے تغییر پذیر ہیں جسے کتاب "محو اور اثبات" سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ دعا، صدقہ اور دوسرے نیک اعمال کے ذریعے قضا کا برطرف ہونا اور قسمت میں تغیر اور تبدیلی کا آنا اسی کتاب سے متعلق ہے۔ جبکہ دوسری کتاب کا نام لوح محفوظ یا ام الکتاب ہے جو ثابت اور تغییر ناپذیر ہے اور اس کے متعلق دعا، مناجات، صدقات اور دوسرے نیک اعمال کوئی اثر نہیں دکھا سکتے یعنی جب تقدیر اور مقدرات پہلی کتاب سے عبور کرکے دوسری کتاب تک پہنچ کر مستحکم اور مضبوط ہوجاتا ہے تو پھر یہ تغییر پذیر نہیں رہتا۔ اسی وجہ سے ہمارے ائمہ سے منقول ہے کہ فرماتے تھے کہ آیہ مجیدہ "محو" کے ہوتے ہوئے ہم آئندہ کے بارے میں کیسے حتمی اور یقینی طور پر خبر دے سکتے ہیں؟[31]

اہل سنت مآخذ میں

اہل سنت کی بعض علماء جیسے فخر رازی، خیاط معتزلی، علی بن اسماعیل اشعری بداء کے عقیدے کے مخالف ہیں یہاں تک کہ اسے شیعوں کی بدعت شمار کرتے ہیں یا شیعوں کو بداء کے قائل ہونے کی وجہ سے مورد انتقاد قرار دیتے ہیں۔ در حالیکہ خود اہل سنت کے حدیثی مآخذ میں بھی بداء کے بارے میں احادیث موجود ہیں۔

  • بخاری اپنی کتاب صحیح بخاری میں ابوہریرہ کے توسط سے پیغمبر اکرم(ص) سے روایت کرتا ہے کہ آنحضرت فرماتے ہیں: بنی اسرائیل میں تین شخص مشخص بیماری یعنی پیسی و بہراپنی اور اندھاپنی میں مبتلاء ہوئے۔ خداوندعالم کیلئے ان سے آزمائش اور امتحان لینے کے حوالے سے بداء حاصل ہوا۔

إِنَّ ثَلاَثَہ فِی بَنِی إِسْرَائِیلَ أَبْرَصَ وَ أَقْرَعَ وَ أَعْمَی بَدَا لِلَّہ أَنْ یبْتَلِیہم [32]ابن حجر اس روایت کس تفسیر میں کہتے ہیں: "یہ جو روایت میں آیا ہے "بَدَا لِلَّہ" اس کے معنی یہ ہے کہ خداوندعالم پہلے سے جانتا تھا پھر اسے اظہار کیا ہے نہ یہ کہ خدا پر کوئی چیز مخفی تھی پھر وہ ظاہر اور آشکار ہو گئی ہو۔ یہ چیز خدا کے حوالے سے محال ہے۔قولہ: (بدا للہ) بتخفیف الدال المہملہ بغیر ہمز،‌ای سبق فی علم اللہ فأراد إظہارہ، و لیس المراد أنہ ظہر لہ بعد أن کان خافیاً؛ لأن ذلک محال فی حق اللہ تعالی.[33]

  • ابن ابی حاتم سورہ زمر کی آیت نمبر ۴۲ اللَّہ یتَوَفَّی الْأَنْفُسَ حینَ مَوْتِہا وَ الَّتی لَمْ تَمُتْ فی مَنامِہا فَیمْسِکُ الَّتی قَضی عَلَیہا الْمَوْتَ وَ یرْسِلُ الْأُخْری إِلی أَجَلٍ مُسَمًّی إِنَّ فی ذلِکَ لَآیاتٍ لِقَوْمٍ یتَفَکَّرُونَ ابن عباس سے ایک روایت اس مضمون کے ساتھ نقل کیا ہے: "خداوند عالم لوگوں کو موت دیتا ہے: اگر خدا روح قبض کرنے کے حوالے بداء حاصل ہوجائے تو ان کی روح قبض کرتا ہے اور وہ مرجاتے ہیں یا انہیں ایک معین مدت تک مہلت دی جاتی ہے اس وقت ان کی روح کو دوبارہ لوٹا دی جاتی ہے۔فإن بدا للہ أن یقبضہ قبض الروح، فمات، أو اُخر أجلہ رد النفس إلی مکانہا من جوفہ.[34]
  • ہیثمی نے بھی مجمع الزوائد کے"طلوع الشمس من مغربہا" کے باب میں ایک روایت بداء کے حوالے سے لایا ہے۔ [35]

بداء پر اعتقاد کے فوائد

شیعہ علماء بداء پر اعتقاد رکھنے کے کچھ اعتقادی اور عملی فوائد ذکر کئے ہیں. ان میں سے اہم ترین فائدہ یا اثر خدا کی قدرت مطلقہ کا اثبات ہے. اسی طرح بداء کے ذریعے خدا اور مخلوقات حتی انبیاء اور اولیاء کے علم میں موجود تفاوت کو سمجھ سکتے ہیں کیونکہ جس چیز کو انبیاء اور ائمہ جانتے ہیں اس میں بھی بداء حاصل ہو سکتے ہیں۔

انسان شناسی کے حوالے سے بھی بداء جبر گرائی کو نفی کرتی ہے اور تلاش و جدوجہد کی روح انسان میں بیدار ہوتی ہے۔ انسان کو خدا سے متعارف کراتی ہے اور اسے دعا اور مناجات پر امیدوار اور گناہ کے ارتکاب سے روکتا ہے۔ [36]

حوالہ جات

  1. ابن منظور، لسان العرب، ج۱۴، ص۶۵.
  2. راغب اصفہانی، المفردات فی غریب القرآن،ص ۱۱۳.
  3. عبد الہادی فضلی،خلاصہ علم الکلام، ص۱۰۵.
  4. احمد بن فارس، معجم مقاییس اللغہ، ص۲۱۲.
  5. ابن اثیر، النہایہ فی غریب الحدیث والاثر، ج۱، ص۱۰۹.
  6. طریحی، ج۱، ص۴۱؛ شیخ مفید، تصحیح، ص۶۷
  7. طباطبایی، المیزان، ج۱۱، ص۳۸۱. شیخ مفید، تصحیح الاعتقاد، ص۶۵.
  8. رازی، محصل افکار المتقدمین و المتأخرین، ص۶۰۲.
  9. رازی، تفسیر الرازی، ج ۱۹، ص۶۶.
  10. سورہ رعد، آیہ ۳۹.
  11. شہرستانی، ملل و نحل، ج ۱، ص۱۷۱.
  12. صدوق، کتاب التوحید، ص۳۳۶.
  13. بخاری، صحیح، حدیث ۳۴۶۴، ج ۴، ص۱۷۶۱.
  14. انعام، آیہ ۲.
  15. کلینی، الکافی، ج ۱، ص۱۹۷.
  16. رعد،آیت نمبر ۱۱۔
  17. انفال، آیت نمبر ۵۳۔
  18. یونس، آیت نمبر ۹۸۔
  19. صافّات، آیات ۱۰۲ اور ۱۰۷۔
  20. مائدہ، آیات ۲۱ اور ۲۶۔
  21. اعراف، آیت نمبر ۱۴۲۔
  22. صدوق، التوحید، ص۳۳۳.
  23. کلینی، الکافی، ج ۱، ص۱۹۸.
  24. کلینی، الکافی، ج ۱، ص۱۹۷.
  25. صدوق، التوحید، ص۳۳۴.
  26. جوادی آملی،تفسیر تسنیم، ج ۷، ص۳۵۸- ۳۶۱.
  27. طباطبایی، المیزان، ج۱۱، ص۳۸۱.
  28. عیاشی، التفسیر، ج ۲، ص۲۱۸.
  29. اشعری، ص۱۱، ۵۵ و ۱۲۰؛ ایجی، ص۳۸۸ و ۴۱۲
  30. خویی، البیان، ص۳۸۸-۳۸۷.
  31. طباطبایی، المیزان، ج۱۱، ص۳۷۹-۳۸۲.
  32. بخاری، صحیح، حدیث ۳۴۶۴، ج ۴، ص۱۷۶۱.
  33. ابن حجر، فتح الباری، ج ۶، ص۵۰۲.
  34. ابن ابی حاتم، تفسیر، ج ۱۰، ص۳۲۵۲.
  35. ہیثمی، مجمع الزوائد، ج ۸، ص۸.
  36. خویی، البیان، ص۳۹۲-۳۹۱.

مآخذ

  • قرآن کریم.
  • اشعری، علی، مقالات الاسلامیین ، بہ کوشش محمد محیی الدین عبدالحمید، بیروت، ۱۴۰۵ق.
  • إیجی، عضدالدین، المواقف، بیروت، دار الجیل، ۱۹۹۷م.
  • بخاری، صحیح البخاری فی نظم الجدید، موسی شاہین لاشین، دارالمدار الاسلامی، بیروت، لبنان، ۲۰۰۶ م.
  • حسینی شیراز، سیدمحمد، تبیین القرآن، مؤسسة المجتبی للتحقیق والنشر.
  • رازی، فخر الدین محمّد، تفسیر الکبیر، داراحیاء التراث العربی، بیروت.
  • رازی، فخر الدین محمّد، محصل افکار المتقدمین و المتأخرین، مکتبہ‌دار التراث‌، قاہرہ‌،۱۴۱۱ ق.‌
  • شہرستانی‌، محمد بن عبد الکریم،تحقیق محمد بدران‌، الشریف الرضی‌، قم‌، ۱۳۶۴ ش.‌
  • طوسی، خواجہ نصیرالدین، تلخیص المحصل ، بہ کوشش عبداللہ نورانی، تہران، ۱۳۵۹ش.
  • شیرازی، صدرالدین، شرح الاصول الکافی ، تہران، ۱۳۹۱ق.
  • طوسی، الغیبہ، بہ کوشش عباداللہ تہرانی و علی احمد ناصح، قم، ۱۴۱۱ق.
  • کلینی، الکافی ، بہ کوشش علی اکبر غفاری، بیروت، ۱۴۰۱ق.
  • مفید، اوائل المقالات ، بہ کوشش ابراہیم انصاری، قم، ۱۴۱۳ق.
  • مفید، تصحیح الاعتقاد و الامامیہ، بہ کوشش حسین درگاہی، قم، ۱۴۱۳ق.
  • طریحی، فخرالدین، مجمع البحرین، تہران، کتابفروشی مرتضوی، ۱۳۷۵ش.
  • عسگری، سیدمرتضی، البداء.
  • عصار، محمدکاظم، مجموعہ آثار، بہ کوشش جلال الدین آشتیانی، تہران، ۱۳۷۶ش.
  • کراجکی، محمد، کنزالفواید، نجف، ۱۳۲۲ق.
  • مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، ۱۴۰۳ق.