امر بین الامرین

ویکی شیعہ سے
شیعہ عقائد
‌خداشناسی
توحیدتوحید ذاتیتوحید صفاتیتوحید افعالیتوحید عبادیصفات ذات و صفات فعل
فروعتوسلشفاعتتبرک
عدل (افعال الہی)
حُسن و قُبحبداءامر بین الامرین
نبوت
خاتمیتپیامبر اسلام اعجازعدم تحریف قرآن
امامت
اعتقاداتعصمت ولایت تكوینیعلم غیبخلیفۃ اللہ غیبتمہدویتانتظار فرجظہور رجعت
ائمہ معصومینؑ
معاد
برزخمعاد جسمانی حشرصراطتطایر کتبمیزان
اہم موضوعات
اہل بیت چودہ معصومینتقیہ مرجعیت


امر بین الاَمرَین علم کلام کی ایک اصطلاح ہے جو جبر اور اختیار کے مسئلے میں شیعہ مذہب کے مخصوص اعتقادات میں سے ہے۔ یہ عقیدہ اس مسئلے میں جبر اور تفویض کے نظریے مقابلے میں انسان کے اختیاری افعال میں خدا اور انسان دونوں کے ارادے کو دخیل سمجھتے ہیں اس بنا پر انسان نہ اس قدر مجبور ہے کہ اپنے ارادے سے کوئی کام انجام نہ دے سکتا ہو اور نہ مکمل آزاد ہے کہ اس کے افعال میں خدا کا ارادہ کوئی دخالت نہ رکھتا ہو۔ بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہی کہ امر بین الامرین کی اصطلاح کو سب سے پہلے امیرالمؤمنین علی(ع) نے مطرح فرمایا ہے۔

نکتہ آغاز

جبر اور اختیار کا مسئلہ انسانی تاریخ میں تمام ادیان و مذاہب میں مورد بحث و گفتگو قرار پایا ہے۔ [1] جبر و اختیار کا مسئلہ صرف نظریاتی پہلو ہی نہیں بلکہ عملی پہلو بھی رکھتا ہے [2] اور سماجی آزادی اور عدل الہی جیسے موضوعات کے ساتھ بھی ارتباط رکھتا ہے۔ [3]

الامر بین الامرین کی اصطلاح کو پہلی مرتبہ امیرالمؤمنین حضرت علیؑ نے مطرح فرمایا۔ کہا جاتا ہے کہ کسی شخص نے قضا و قدر کے بارے میں امام علیہ السلام سے سوال کیا تو امام علیہ السلام نے اسے اس بحث کو چھیڑنے سے منع کیا لیکن اس نے اصرار کیا تو امام علیہ السلام نے فرمایا: اب جبکہ تم اپنے بات پر مصر ہو تو سنو قضا و قدر کے حوالے سے نہ جبر در کار ہے اور نہ تفویض؛ بلکہ حقیقت میں ان دونوں کا درمیانی امر صحیح ہے۔[4].

اس مسئلے کے بارے میں بقیہ ائمہ بطور خاص امام صادق(ع) اور امام رضا(ع) سے بھی بہیت ساری احادیث نقل ہوئی ہیں۔ اسی طرح امام ہادیؑ سے اس مسئلے کی توضیح میں ایک مفصل کتابچہ بھی نقل ہوئی ہے۔[5].

توضیح

اس اصطلاح میں "امرین" سے مراد جبر اور تفویض ہے۔ جبر کے نظریے کے مطابق انسان کا اراده اپنے افعال میں کوئی دخالت نہیں رکھتا ہے اور اس کے افعال مہر شدہ اور اس کے اختیار سے باہر ہے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں تفویض کے نظریے کے مطابق انسان کا ارادہ اپنے افعال میں ہر حوالے سے مؤثر ہے اور خدا کا ارادہ اس میں کوئی دخالت نہیں رکھتا بلکہ خدا نے انسان اور اس کی قدرت کو خلق فرمایا ہے اس کے بعد انسان کے تمام کاموں کو خود انسان کے اوپر موکول فرمایا ہے اب اس حوالے سے خدا کا کوئی کردار نہیں ہے۔"امر بین الأمرین" کا نظریہ ان دونوں نظریوں کو باطل سمجھتا ہے اور انسان کے اختیاری افعال میں خدا اور انسان دونوں کے اردے کو ایک دوسرے کے طول میں مؤثر سمجھتا ہے جو حقیقت میں انسان کا اپنے کاموں میں مختار ہونا ہے۔

اس نظریے کے حامی

حکماء اور شیعہ متکلمین اس نظریے کے قائل ہیں۔ [6]. دوسرے مکاتب فکر میں سے ماتریدیہ اگرچہ انسان کے اختیاری افعال میں نظریہ کسب کے قائل ہیں لیکن وہ "کسب" کی ایسی تعریف کرتے ہیں جو مسئلہ امر بین الامرین میں اہل تشیع کے نظریے کے ساتھ سازگار ہے۔ [7].

طحاویہ جو ابو جعفر مصری طحاوی (۲۲۹ـ۳۲۱ھ) کے پیروکار ہیں اس مسئلے میں اہل تشیع کے موافق ہیں۔ [8].

اشاعره کے بعض متکلمین بھی امر بین الامرین کی اصطلاح کو استعمال کئے بغیر اس نظریے کو قبول کرتے ہیں۔ جیسے شمس‌الدین محمود اصفہانی [9]، عبدالوہاب شعرانی[10]، عبدالعظیم زرقانی[11]، شیخ محمد عبدہ[12] اور شیخ محمود شلتوت[13].

دلایل

شیعہ متکلمین کے مطابق قرآن، احادیث معصومین اور عقلی دلائل اس نظریے کو ثابت کرتی ہیں۔

قرآن

قرآن کی آیات میں سے آیہ مجیدہ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ [14] جبر کے نظریے کے ساتھ منافات رکھتی ہے کیونکہ اگر ہمارے افعال کو خدا خود ہی خلق کرتا ہے اور ہمارا ارادہ اس میں کوئی دخالت نہیں رکھتا تو عبادت کو اپنی طرف نسبت دیتے ہوئے "نعبد: ہم عبادت کرتے ہیں" کہنا کوئی معنا نہیں رکھتا۔ اسی طرح یہ آیت تفویض کے نظریے جو انسان کے افعال میں خدا کو دخیل نہیں سمجھتے، کے ساتھ بھی منافات رکھتی ہے کیونکہ استعانت (نستعین: ہم مدد طلب کرتے ہیں) طلب کرنا ایک ایسے شخص سے جو ہمارے کاموں میں کوئی دخالت نہیں رکھتا، کوئی معنا نہیں رکھتا ہے۔[15]. امام صادق(ع) اس مسئلے کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں مذکورہ آیت سے استدلال فرمایا ہے۔[16].

اس کے علاوہ سوره انفال کی آیت نمبر ۱۷ بھی اس مطلب پر دلالت کرتی ہے: فَلَمْ تَقْتُلُوهُمْ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ قَتَلَهُمْ وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ رَمَىٰ... ترجمہ:پس تم لوگوں نے ان کفاّر کو قتل نہیں کیا بلکہ خدا نے قتل کیا ہے اور پیغمبرآپ نے سنگریزے نہیں پھینکے ہیں بلکہ خدا نے پھینکے ہیں ...

اس آیہ مجیدہ میں قتل اور تیراندازی کو ابتدا میں "تقتلوہم" اور "رمیت" کی عبارت کے ذریعے مؤمنین اور پیغمبر(ص) کی طرف نسبت دی گئی ہے پھر ان سے ان افعال کی نسبت کو نفی کرکے ان کی نسبت خدا کی طرف دی گئی ہے۔ یہ نفی اور اثبات ایک ہی جہت سے نہیں ہے کیونکہ اس صورت میں تناقض گوئی ہوگی جو حکیم سے محال ہے، بلکہ یہ آیت مؤمنین اور پیغمبر اکرم(ص) کا اپنے افعال میں مکمل آزاد ہونے کی نفی کرتی ہے لیکن اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ وہ اپنے کاموں میں دخالت رکھتے ہیں یہ وہی چیز ہے جسے ہم امر بین الامرین کہتے ہیں۔ا[17].

اسی طرح بعض آیات میں انسان کے مختار ہونے کو بیان کرتے ہوئے اس کے افعال کو خود اسی کی طرف نسبت دی گئی ہے۔ جیسے: وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ ترجمہ: اور انسان کے لئے صرف اتنا ہی ہے جتنی اس نے کوشش کی ہے۔[18] جبکہ بعض دوسری آیات میں خدا کی مشیت اور حکم خدا کو انسان کے افعال میں موثر جانا گیا ہے۔ جیسے: وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّـهِ...ترجمہ: اور ہم نے کسی رسول کو بھی نہیں بھیجا ہے مگر صرف اس لئے کہ حکِم خدا سے اس کی اطاعت کی جائے۔[19] آیات کا پہلا گروہ جبر کے عقیدے کے مقابلے میں جبکہ دوسرا گروہ تفویض کے عقیدے کے مقابلے میں ہے. آیات کے ان دو گروہوں کو جب ایک دوسرے کے ساتھ رکھ کر نتیجہ اخذ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ خدا نے خود انسان کو اپنے افعال میں دخل و تصرف کی اجازت دی ہے لیکن یہ انسان کا یہ اختیار خدا کے حکم اور مشیت کے سائے میں ہے۔

احادیث

احادیث کی کتابوں میں مختلف عناوین جیسے، جبر، قدر اور امر بین الأمرین [20]، المشیۃ والارادۃ، [21] اور الإستطاعۃ۔[22] کے تحت اس حوالے سے کئی روایات موجود ہیں جنہیں پانچ گروہ میں تقسیم کر سکتے ہیں:

  1. وہ رویات جو جبر کو تکلیف، وعد و وعید، ثواب و عقاب اور آخر کار خدا کی حکمت کے منافی جانتی ہیں۔ [23]
  2. وہ روایات جو جبر اور قضاو قدر کو خدا کی قدرت مطلقہ کے منافی جانتی ہیں اور جبر کے عقیدے کو خدا کی خالقیت اور اور تدبیر کے ساتھ غیر ہماہنگ قرار دیتی ہیں۔[24]
  3. وہ روایات جو حق اور صحیح عقیدے کو جبر اور تفویض کے درمیانی منزل کو قرار دیتی ہیں۔[25]
  4. وہ روایات جو امر بین الامرین کی حقیقت کو کشف کرنے کو ایک مشکل کام جانتی ہیں جس کیلئے ایک مستحکم اور پختہ قدم اٹھانے کی ضرورت ہے اور مؤمن کیلئے جبر اور تفویض کے عقیدے کی بطلان کو ضروری سمجھتے ہیں۔ [26]
  5. وہ رویات جو عام آدمی کو امر بین الامرین کی حقیقت سے روشناس کرانے کیلئے اسے عرفی مثالوں کے ضمن میں بیان کی ہیں۔[27]

بعض احادیث کی وضاحت

امام صادقؑ نے انسان کا اپنے افعال میں کے مختار ہونے کو ایک معصیت‌کار انسان سے تشبیہ دی ہے جس کو آپ گناہ سے منع کرتے ہو لیکن وہ آپ کی بات نہیں مانتا اور گناہ اور معصیت کو جاری رکھتا ہے۔ امام علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: اس گناہگار شخص کا آپ کی بات نہ ماننے کی وجہ سے جب آپ اس کو اپنی حالت پر چھوڑ دیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ نے اسے گناہ کرنے کی ترغیب دی ہو۔[28]

ملاّصدرا اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اس جہت سے کہ آپ نے اسے گناہ سے منع کیا گویا اسے اپنی حاحلت پر نہیں چھوڑا اور اور آپ کی بات قبول نہ کرنے کی وجہ سے جب اسے گناہ سے نہیں روکا تو گویا آپ نے اسے مجبور نہیں کیا۔ [29]

امام رضاؑ فرماتے ہیں: "خداوند عزوجل نے فرمایا ہے:‌اے بنی آدم! تم میری مشیت اور اجازت سے وہ شخص ہو جو طلب کرتے ہو اور میری دی ہوئی توانائی سے میرے فرامین پر عمل پیرا ہوتے ہو اور میری نعمتوں کے ذریعے میری نافرمانی پر اتر آئے ہو۔ میں نے تمہیں سننے اور دیکھنے کی طاقت دی۔ کار خیر میں سے جو کچھ تجھ تک پہنچتی ہے وہ خدا کی طرف سے ہے اور جو کچھ برائی تم تک پہنچتی ہے وہ تمہاری اپنی طرف سے اور یہ اس لئے ہے کہ تمہارے نیک اعمال میں میں تم سے زیادہ سزاوار ہوں اور تمہارے برے اعمال میں تم مجھ سے زیادہ سزاوار ہو اور یہ اس وجہ سے ہے کہ میں جو کچھ انجام دیتا ہوں اس پر مجھ سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوگی جبکہ لوگ اپنے کئے پر مسئول ہیں اور ان سے اس بارے میں ضرور سوال جواب ہوگا[30]

اس روایت کی رو سے انسان کے افعال میں مشیت اور توانائی ضروری ہے اور ان دونوں کو خدا نے ہی انسان کو عطا کی ہے۔ اور چونکہ خدا نیک اعمال (حسنات) کا حکم دیتا ہے اور گناهوں سے منع کرتا ہے، پس سزاوار ہے کہ حسنات کی نسبت خدا کی طرف دی جائے اور گناہوں کی نسبت خود انسان کی طرف [31]

عقلی دلایل

متکلمین کہتے ہیں کہ خدا اور انسان کے ارادے کے درمیان موجود رابطہ تین صورتوں کے علاوہ قابل تصور نہیں ہے، کیونکہ جب کسی کام کی تحقق کو دو ارادوں (خدا اور انسان کا ارادہ) کی طرف نسبت دیتے ہیں تو یا اس کام کی تحقق میں دونوں ارادے دخیل ہیں یا صرف ایک، اگر صرف ایک ارادہ دخیل ہو اور وہ خدا کا ارادہ ہو تو اس کا نتیجہ جبر ہے اور اگر صرف انسان کا ارادہ دخیل ہو تو اس کا نتیجہ تفویض ہے لیکن اگر دونوں ارادے دخیل ہوں تو اس کا نتیجہ امر بین الامرین ہے۔ چوتھا نظریہ قابل تصور نہیں ہے یعنی یہ کہ اس کام کی تحقق میں ان دونوں میں سے کوئی ایک بھی دخیل نہ ہو کیونکہ یہ خلاف فرض اور محال ہے۔ [32]

حکماء کا استدلال کچھ یوں ہے: خدا ہر چیز پر قادر ہے لیکن اشیاء وجود کو قبول کرنے(یعنی موجود ہونے اور نہ ہونے) کے حوالے سے مختلف ہیں۔ خدا بعض اشیاء کو بغیر کسی واسطے کے خلق فرماتا ہے اور بعض کو واسطوں کے ذریعے خلق فرماتا ہے۔ یہ واسطہ کبھی ایک ہوتا ہے اور کبھی ایک سے زیادہ۔ اب جب بعض اشیاء کی خلقت میں واسطہ لازم ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خدا اس واسطے کا محتاج ہو بلکہ یہ چیز اس مخلوق اور قابل میں موجود نقص کی وجہ سے ہے کیونکہ خدا مسبب الاسباب ہے اور تمام اسباب کو خدا نے ہی ایجاد کیا ہے اس لئے خدا کسی چیز کا محتاج نہیں ہے۔ انسان کے اختیاری افعال بھی انہی اشیاء میں سے ہیں جو بغیر واسطہ خدا سے خلق نہیں ہو سکتے اور انسان کا ارادہ ان واسطوں میں سے ایک ہے جس کے توسط سے یہ افعال وجود میں آتے ہیں پس جبر باطل ہے۔ اور دوسری طرف سے چونکہ تمام اسباب علل کو بھی خدا ہی خلق کرتا ہے اور اس کے ارادے سے خلق ہوتے ہیں پس تفویض بھی باطل ہے۔[33]

اس نظریے کے فوائد

مسئولیت‌پذیری

امر بین الامرین کے نظریے کے فوائد میں سے ایک یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو مکلف جانتا ہے اور اپنے کاموں کی مسئولیت کو خود قبول کرتے ہیں۔ کیونکہ اس نظریے کے مطابق انسان اپنے کاموں میں مختار ہے۔ جبکہ جبر کے نظریے کا لازمہ انسان کا مکلف نہ ہونا اور اپنے کاموں کی مسئولیت کو قبول نہ کرنا ہے جس کا لازمی نتیجہ بے قید و بند ہونا اور سستی اور تیبلی ہے۔ عام طور پر ایسے افراد جبر کے نظریے کا سہارا لیتے ہیں جو اس کے ذریعے کسیی مسئولیت کو قبول کرنے یا کسی قانون یا خلاقی اقدار کے پابند ہونے سے اپنے آپ کو آزاد سمجھتے ہیں اور اپنے آپ سے سرزد ہونے والے کاموں کیلئے کسی بہانے کی تلاش میں ہوتے ہیں۔[34] چنانچہ بنی امیہ کے حکمران اپنے ڈھائے جانے والے مظالم پر پردہ ڈالنے کی خاطر جبرگرایی کا شکار ہوتے اور مرجئہ مذہب کے قائل ہوتے تھے۔[35]

اخلاق‌پذیری

امر بین الامرین کے نظریے کا ایک اور فائدہ جب انسان اس بات کا معتقد ہوتا ہے کہ خود مختار ہے اور اپنی طبیعت میں کچھ نہ کچھ تبدیلی لا سکتا ہے، تو اپنے اندر اخلاقی فضائل ایجاد کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جبکہ اس کے برخلاف نظریے کے حامی حضرات کا خیال ہے کہ انسان کی طبعت تغییر پذیر نہیں ہے اور یہ حضرات کہتے ہیں کہ: انسان کی تربیت گویا ایساہی ہے کہ گندم، گندم سے حاصل ہوتا ہے اور جو، جو سے ہی حاصل ہوتا ہے۔[36]

جبر اور تفویض کے چنگل سے رہائی

جبر اور تفویض میں سے ہر ایک نظریہ مختلف مشکلات سے دچار ہیں ان مشکلات سے دوری اختیار کرنا صرف اور صرف امر بین الامرین کے نظریے کے ذریعے ہی ممکن ہے ۔

جبر کے نظریے سے پیش آنے والی مشکلات : ۱. انسان کی اخلاقی اور دینی مسئولیت کا بے معنی ہونا؛ ۲. برائیوں اور گناہوں کا خدا کی طرف سے خلق ہونا۔

تفویض کے نظریے سے خدا کی قدرت محدود اور توحید افعالی کا کا نظریہ باطل ہو جاتا ہے۔ [37]

متعلقہ موضوعات

حوالہ جات

  1. جعفری، جبر و اختیار، ص ۱۳.
  2. طباطبایی، اصول فلسفہ و روش رئالیسم، ج۳، ص۱۵۱، پاورقی.
  3. مطہری، عدل الہی، ص۱۱.
  4. مجلسی، بحارالانوار، ج ۵، ص ۵۷.
  5. طبرسی، الاحتجاج، احتجاجات الإمام علی الہادیؑ، ص ۴۵۰ـ۴۵۳.
  6. ملاصدرا، الحکمۃ المتعالیہ، ج ۶، ص ۳۷۱؛ فیاض لاہیجی، گوہر مراد، ص۳۲۷؛ طباطبایی، المیزان، ج ۱، ص ۲۴.
  7. ر.ک: ماتریدی، کتاب التوحید، ص ۲۲۵ـ۲۲۶؛ ربانی، الکلام المقارن ، ص ۲۱۷ـ۲۲۰.
  8. طحاوی، العقیدۃ الطحاویہ، ص ۶۷؛ ربانی، الکلام المقار، ص ۲۲۰ـ۲۲۱.
  9. اصفہانی، تسدید القواعد فی شرح تجرید العقائد
  10. شعرانی، الیواقیت والجواہر، ج ۱، ص ۱۴۰.
  11. سبحانی، فرہنگ عقاید و مذاہب اسلامی، ص ۱۱۱ـ۱۱۲، بہ نقل از: مناہل العرفان، ج ۱، ص ۵۰۶
  12. عبدہ، رسالۃ التوحید، ص ۱۱۹
  13. سبحانی، فرہنگ عقاید و مذاہب اسلامی، ص ۱۱۲، بہ نقل از: تفسیر القرآن الکریم، ص ۲۴۰ـ۲۴۲.
  14. سوره حمد، آیت :۵
  15. طباطبایی، المیزان، ج ۱، ص ۲۴.
  16. مجلسی، بحارالانوار، ج ۵، ص ۵۶.
  17. زنوزی، لمعات الہیہ، ص ۲۰۷.
  18. سوره نجم آیت تمبر۳۹
  19. سوره نساءآیت نمبر،۶۴
  20. کلینی، اصول کافی، ج۱، ص۱۵۵.
  21. کلینی، اصول کافی، ج۱، ص۱۶۰؛ صدوق، التوحید، ص۳۳۶.
  22. صدوق، التوحید، ص۳۴۴، باب۵۶
  23. مجلسی، بحارالانوار، ج۵، ص۹۶، ح۱۹.
  24. مجلسی، بحارالانوار، ج۵، ص۱۲۷.
  25. مجلسی، بحارالانوار، ج۵، ص۵۱.
  26. مجلسی، بحارالانوار، ج۵، ص۹۷.
  27. کلینی، اصول کافی، ج۱، ص۱۶۰.
  28. صدوق، التوحید، باب ۵۹، ص۳۶۲، ح۸
  29. ملاصدرا، شرح اصول کافی، ص۴۱۶.
  30. کلینی، اصول کافی، ج۱، ص۱۶۰؛ صدوق، التوحید، ص۳۳۸، باب۵۵، ح۶.
  31. کلینی، اصول کافی، ج۱، ص۱۶۰، تعلیقه علامه طباطبایی.
  32. فیاض لاہیجی، گوہر مراد، ص۳۲۷
  33. ملاصدرا، الحکمة المتعالیه، ج۶، ص۳۷۱ـ ۳۷۲.
  34. طباطبایی، اصول فلسفه و روش رئالیسم، ج۳، ص۱۷۱.
  35. دائرة المعارف بزرگ اسلامی، ج۱۷، ص۵۲۲ـ۵۲۴.
  36. طباطبایی، اصول فلسفه و روش رئالیسم، ج۳، ص۱۷۲.
  37. دائرة المعارف بزرگ اسلامی، ج۱۷، ۴۹۹.

مآخذ

  • اصفہانی، محمود، تسدید القواعد فی شرح تجرید العقائد، کتابخانہ آستان قدس رضوی، کتب حکمت خطی، ش۱۶۶.
  • بغدادی، عبدالقاہر، اصول الدین، بیروت، دارالفکر.
  • بیاضی حنفی، کمال الدین احمد، اشارات المرام من عبارات الامام، بہ تحقیق و تعلیق یوسف عبدالرزاق، مصر، شرکت المصطفی البانی، ۱۳۶۸ق.
  • جعفری، محمدتقی، جبر و اختیار، تہران، مؤسسہ تدوین ونشر آثار علاّمہ جعفری.
  • ربانی، علی، الکلام المقارن، انتشارات دفتر نمایندہ مقام معظم رہبری در امور اہل سنت بلوچستان.
  • ربانی، علی، فرق و مذاہب کلامی، مرکز جہانی علوم اسلامی.
  • زنوزی، ملاعبداللّہ، لمعات الہیہ، با مقدمہ و تصحیح سیدجلال الدین آشتیانی، مؤسسہ مطالعات و تحقیقات فرہنگی.
  • دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی، زیر نظر کاظم موسوی بجنوردی، تہران، مرکز دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی، ۱۳۸۸ش.
  • سبحانی، جعفر، فرہنگ عقاید و مذاہب اسلامی، انتشارات توحید.
  • شعرانی، عبدالوہاب، الیواقیت والجواہر فی بیان عقائد الأکابر، شرکۃ مکتبۃ و مطبعۃ مصطفی الیابوالحلبی و أولادہ بمصر.
  • صدوق، محمد بن علی بن بابویہ، التوحید، مؤسسۃ النشر الإسلامی.
  • طباطبایی، سیدمحمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، مؤسسہ مطبوعاتی اسماعیلیان.
  • طباطبایی، محمدحسین، اصول فلسفہ و روش رئالیسم، انتشارات صدرا.
  • طبرسی، احمد بن علی، احتجاج، نجف اشرف، دارالنعمان للطباعۃ والنشر.
  • طحاوی، احمد بن محمد، العقیدۃ الطحاویہ، بیروت، المکتب الاسلامی.
  • عبدہ، محمد، رسالۃ التوحید، بیروت، بعنایۃ بسّام عبدالوہاب الحابی، دار ابن حزم.
  • فیاض لاہیجی، عبدالرزاق، گوہر مراد، سازمان چاپ و انتشارات وزرات فرہنگ و ارشاد اسلامی.
  • کلینی، محمد، الاصول من الکافی، تہران، دار الکتب الاسلامیۃ.
  • ماتریدی، ابوجعفر، کتاب التوحید، بیروت، دارالمشرق.
  • ملاصدرا، محمد، الحکمۃ المتعالیۃ فی الاسفار العقلیۃ الأربعۃ، بیروت، دار إحیاء التراث العربی.
  • ملاصدرا، محمد، شرح اصول الکافی، مؤسسہ مطالعات و تحقیقات فرہنگی، ۱۳۷۰.
  • مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، مؤسسۃ الوفاء.
  • محمد بن عبدالرحمن، شرح الفقہ الاکبر، امارات عربی، مکتبۃ الفرقان.
  • مطہری، مرتضی، عدل الہی، قم، انتشارات اسلامی، ۱۳۶۱ش.