توکل

ویکی شیعہ سے
اخلاق
اخلاقی آیات
آیات افکآیہ اخوتآیہ اطعامآیہ نبأآیہ نجواآیہ مشیتآیہ برآیہ اصلاح ذات بینآیہ ایثار
اخلاقی احادیث
حدیث قرب نوافلحدیث مکارم اخلاقحدیث معراجحدیث جنود عقل و جہل
اخلاقی فضائل
تواضعقناعتسخاوتکظم غیظاخلاصخشیتحلمزہدشجاعتعفتانصافاصلاح ذات البینعیب‌پوشی
اخلاقی رذائل
تکبرحرصحسددروغغیبتسخن‌چینیتہمتبخلعاق والدینحدیث نفسعجبعیب‌جوییسمعہقطع رحماشاعہ فحشاءکفران نعمت
اخلاقی اصطلاحات
جہاد نفسنفس لوامہنفس امارہنفس مطمئنہمحاسبہمراقبہمشارطہگناہدرس اخلاقاستدراج
علمائے اخلاق
ملامہدی نراقیملا احمد نراقیمیرزا جواد ملکی تبریزیسید علی قاضیسید رضا بہاءالدینیسید عبدالحسین دستغیبعبدالکریم حق‌شناسعزیزاللہ خوشوقتمحمدتقی بہجتعلی‌اکبر مشکینیحسین مظاہریمحمدرضا مہدوی کنی
اخلاقی مآخذ
قرآننہج البلاغہمصباح الشریعۃمکارم الاخلاقالمحجۃ البیضاءرسالہ لقاءاللہ (کتاب)مجموعہ وَرّامجامع السعاداتمعراج السعادۃالمراقبات

تَوَکُّل اخلاقی فضائل اور سیر و سلوک کی منازل میں سے ہے۔ انسان کا وجود کی ہستی میں صرف خدا کو مؤثر جاننا، صرف اسی پر اعتماد کرنا اوراپنے امور خدا کے سپرد کرنے کے معنا میں ہے۔ قرآن توکُّل کو ایمان کے لوازم میں سے سمجھتا ہے۔ احادیث نے اسے ایمان کے ارکان میں سے شمار کیا ہے۔ چند علمائے اخلاق مال کے حصول سے پہلے اور بعد انسان میں یکساں حالت کے پائے جانے کو انسان میں توکُّل کے موجود ہونے کی علامت سمجھتے ہیں۔

توکُّل مراحل اور مراتب پر مشتمل ہے۔ اس کا اعلی ترین مرتبہ یہ ہے کہ انسان اپنے تمام امور خدا کے سپرد کر دے اور خدا کے مقابلے میں اپنے کسی ارادے کا قائل نہ ہو نیز ایسی چیز کو پسند کرے جو خدا نے اس کے لئے پسند کی ہے۔ انسان میں توکُّل کا درجہ اس کے ایمان اور اس کی توحید سے تعلق رکھتا ہے، جس قدر ایمان زیادہ ہو گا اسی قدر اس میں توکُّل زیادہ ہو گا۔

علمائے اخلاق کے مطابق دین اسلام میں توکُّل محنت ،کوشش اور توحید افعالی کے ساتھ کسی قسم کی منافات نہیں رکھتا ہے کیونکہ ظاہری علل و اسباب مستقل کسی قسم کی تاثیر نہیں رکھتے ہیں بلکہ ان کی تاثیر مشیت الہی کی وجہ سے ہے اور وہ قدرت خدا کے طول میں ہے۔

رزق میں کفایت، کاموں کا آسان ہونا اور غیر خدا کے مقابلے میں عزت کو توکُّل کے آثار میں سے بیان کیا گیا ہے۔

مفہوم

لغوی اعتبار سے کام میں ناتوانی کے اظہار اور کسی دوسرے پر اعتماد کرنے کے معنا میں ہے۔[1] محمد مہدی نراقی نے جامع السعادات میں کہا:

دینی ثقافت میں اس بات کا معتقد ہو کہ اس جہان میں مؤثر صرف اور صرف خدا ہے۔ اس لحاظ سے وہ خدا پر اعتماد کرے، غیر سے اپنی امید نہ رکھے اور اپنے تمام امور خدا کے سپرد کر دے۔[2]

علامہ طباطبائی کے نزدیک توکُّل کا معنا:

ہم امور میں صرف خدا کو مؤثر سمجھیں۔[3] شیخ صدوق معانی الاخبار میں درج ذیل حدیث پیامبر اسلام(ص) سے روایت کرتے ہیں جس کے مطابق انسان کو جان لینا چاہئے کہ مخلوقات میں سے کوئی بھی چیز انسان کے نفع و نقصان میں مؤثر نہیں ہے بلکہ چاہئے کہ انسان صرف خدا سے اپنی امید وابستہ رکھے، خدا کے علاوہ کسی سے نہ ڈرے اور صرف اسی کیلئے کام انجام دے۔ [4]

تفویض، رضا اور تسلیم کا توکُّل کے ساتھ رابطہ

توکُّل کا تفویض کے ساتھ قریبی تعلق ہے۔ کلینی نے اپنی کتاب کافی میں تفویض اور توکُّل سے مربوط احادیث کو ایک باب بَابُ التَّفْوِيضِ إِلَى اللَّہِ وَ التَّوَكُّلِ عَلَيْہ‏ میں ذکر کیا ہے۔[5] عبدالرزاق کاشانی توکُّل کو تفویض کی ایک شاخ قرار دیتے ہیں۔[6] امام خمینی چہل حدیث میں توکُّل اور تفویض کے درمیان یوں تفاوت بیان کرتے ہیں: تفویضْ میں انسان اپنے آپ کو قدرت کے بغیر دیکھتا ہےاور تمام امور میں صرف خدا کو مؤثر سمجھتا ہے لیکن توکُّلْ میں انسان خیر و نفع کے حصول میں خدا کو اپنا وکیل قرار دیتا ہے۔[7]

توکُّل دوسرے اخلاقی اوصاف جیسے رضا، تسلیم وغیرہ کے ساتھ بھی ارتباط رکھتا ہے۔ عرفا کی نظر میں رضا و تسلیم کا مقام توکُّل کے مقام سے بالا تر ہے۔[8] توکُّل کے مقام میں انسان خدا کو اپنا وکیل بناتا ہے لیکن دنیاوی امور کو اسکے ساتھ نہں ملاتا ہے جبکہ رضا[9] اور تسلیم[10] کے مرحلے میں جو کچھ خدا نے اس کیلئے مقرر کیا ہوتا ہے اسی پر رضامند ہوتا ہے اگرچہ وہ اس کے مخالف ہی کیوں نہ ہو۔

اہمیت، مقام و مرتبہ

توکُّل اور اس سے مشتق الفاظ 70 مرتبہ قرآن میں آئے ہیں۔[11] قرآن متعدد مقام پر ایمان اور توکُّل کا اکٹھا تذکرہ کرتا ہے۔[12] بعض جگہوں پر توکُّل کو ایمان کے لوازم میں سے قرار دیتا ہے۔[13] مثلا سورہ انفال کی دوسری آیت میں انہیں مؤمن کہا گیا ہے جو صرف اللہ پر توکُّل کرتے ہیں۔ قرآن میں کئی مقام پر و عَلی اللّہِ فَلْیتَوَکَلِ المُؤمنون [14] کی تعبیر استعمال ہوئی ہے۔[15] آیات قرآن کے مطابق خدا پر توکُّل کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔[16] جو خدا پر توکُّل کرتا ہے خدا اس کے لئے کافی ہے۔[17]

احادیث میں بھی توکُّل کو نہایت امیت دی گئی ہے اور اس کی سفارش کی گئی ہے۔[18] امام علی(ع) سے مروی روایت کی بنا پر تفویض کے ساتھ توکُّل، الہی فیصلوں پر راضی ہونے اور اسکے اوامر کے سامنے سر تسلیم کرنے کو ایمان کے چار ارکان میں سے شمار کیا ہے۔[19] ہمچنین بنابر حدیثی از امام رضا(ع) توکُّل بر خدا از اجزای یقین است.[20] امام صادق(ع) سے مروی حدیث جنود عقل و جہل میں توکُّل عقل کا سپاہی اور حرص کی ضد بیان ہوا ہے۔[21]

علمائے اخلاق توکُّل کو منازل سیر و سلوک[22] اور فضائل اخلاقی[23] سے سمجھتے ہیں۔

مراتب اور درجات

اخلاقی و عرفانی مصادر میں توکُّل کے مراتب اور مراحل ذکر ہوئے ہیں۔ ان کتابوں کے مطابق قوّت اور ضعف کے لحاظ سے توکُّل کے تین درجے ہیں:[24]

  • پہلا درجہ: اس مرحلے میں انسان اس طرح خدا پر اعتماد کرتا ہے جس طرح اپنے وکیل پر اعتماد کیا جاتا ہے۔[25] ملا محمدمہدی نراقی کے نزدیک یہ سب سے نچلے درجے کا توکُّل ہے۔[26]
  • دوسرا درجہ: اس درجے میں توکُّل کرنے والے کا حال خدا کی نسبت اس بچے کی مانند ہوتا ہے جو ماں کے بغیر کسی دوسرے کو نہیں پہچانتا اور ماں کو ہی اپنی پناہگاہ سمجھتا ہے اور وہ کسی دوسرے پر اعتماد نہیں کرتا ہے۔ اس مرحلے کا پہلے مرحلے سے یہ تفاوت ہے کہ یہاں توکُّل کرنے والے نے جس پر توکُّل کیا ہوتا ہے صرف اسی کی طرف توجہ کرتا ہے یہانتک کہ وہ اپنی طرف بھی توجہ نہیں کرتا۔[27] علمائے اخلاق اس درکے کے توکل کو خواص سے مخصوص سمجھتے ہیں۔[28]
  • تیسرا درجہ :علمائے اخلاق کے مطابق اس درجے میں توکُّل کرنے والا اپنے آپ کو اس طرح سمجھتا ہے جیسے وہ میت کو غسل دینے والے کے پاس ہے اور توکُّل کرنے والے کا اختیار مکمل طور پر اس دوسرے شخص کے پاس ہوتا ہے اور وہ اس دوسرے شخص کے اختیار سے ہی حرکت کرتا ہے۔[29] اس مرحلے کا دوسرے مرحلے سے یہ تفاوت ہے ک دوسرے مرحلے میں توکُّل کرنے والا دعا اور تضرع کو ترک نہیں کرتا لیکن یہاں ممکن ہے کہ وہ توکُّل کرنے والا عنایت پروردگار کے بھروسے پر خدا کے حضور دعا و تضرع کو ترک کر دے۔[30] نراقی اس درجے کے توکُّل کا اعلی ترین مرحلہ سمجھتے ہیں اس مرحلے کے حصول کو نہایت نادر سمجھتے ہیں۔ اس کے عقیدے کے مطابق توکُّل کا یہ مرحلہ حضرت ابراہیم کے واقعے میں انہیں آگ کی طرف پھنکنے کے موقع پر نظر آتا ہے۔[31][یادداشت 1]
نراقی کے جامع السعادات میں بیان کے مطابق انسانوں کا توکُّل مختلف ہوتا ہےاور وہ انکے یقین اور توحید کے مرتبے سے وابستہ ہوتا ہے جس قدر ان کا ایمان قوی ہو گا اسی قدر ان کے توکُّل کا درجہ قوی تر ہو گا۔[32]

حصول توکُّل کی راہ

محمدمہدی نراقی توکُّل حاصل کرنے کی راہ عقیدہ توحید میں اس طرح کی پختگی کو سمجھتے ہیں کہ انسان اپنے تمام امور کو خدا کی طرف سے سمجھے اور یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ خدا کے علاوہ کوئی اور اس میں کسی قسم کی مداخلت نہیں رکھتا۔[33] وہ اپنی خلقت میں سوچ و بچار، توکُّل سے متعلق آیات قرآن میں تامل اور ان افراد کی تاریخ کے مطالعے کی سفارش کرتے ہیں جنہوں نے خدا پر توکُّل کیا تھا۔[34]

نراقی کی نظر میں توکُّل کی علامت یہ ہے کہ منفعت اور اموال کے حصول سے پہلے اور بعد میں انسان کے اندر کسی قسم کی تبدیلی رونما نہ ہو۔[35]

آثار توکُّل

آیات قرآن اور روایات میں توکُّل کیلئے آثار ذکر ہوئے ہیں۔مثال کے طور پر سورہ طلاق کی تیسری آیت میں ہے کہ جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے اللہ اس کے لئے کافی ہے۔ بعض احادیث میں اسی آیت سے استناد کرتے ہوئے توکُّل کے آثار بیان ہوئے ہیں۔ [36] امام علی(ع) سے منقول حدیث میں آیا ہے:جو کوئی بھی خدا پرتوکُّل کرے گا اس کیلئے سختیاں آسانیوں میں تبدیل ہو جائیں گی اور ان کیلئے اسباب مہیا ہو جائیں گے۔[37]

علمائے اخلاق اس آیت: وَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّـهِ فَإِنَّ اللَّـهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ،[38] کے استناد کی بنا پر معتقد ہیں بھروسہ کرنے والا شخص دوسروں کے سامنے احساس ذلت نہیں کرتا ہے۔[39] اسی طرح امام رضا(ع) سے مروی روایت کی بنا پر قائل ہیں جو قوی ترین شخس بننا چاہتا ہے اسے چاہئے وہ خدا پر توکُّل کرے۔[40]

محنت و کوشش کا باہمی رابطہ

غزالی اور محمدمہدی نراقی نے کہا ہے کہ بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ توکُّل کا معنا ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جانا ہے۔[41] فیض کاشانی اس اعتراض کے جواب میں کہتے ہیں: اسلام کی نگاہ میں توکُّل محنت اور کوشش کے درمیان کوئی منافات نہیں ہے۔[42]

تفسیر نمونہ میں آیا ہے کہ ظاہری علل و اسباب پر بھروسہ کرنا توحید افعالی کے ساتھ کسی قسم کی ناسازگاری نہیں رکھتا ہے کیونکہ ظاہری علل و اسباب کوئی مستقل قدرت نہیں رکھتے ہیں بلکہ ان کی تاثیر مشیت خداوند اور دائرۂ قدرت الہی کے تابع ہے۔[43] نیز احادیث میں بھی اسباب طبیعی کی طرف رجوع کرنے کو توکُّل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر پیغمبر(ص) سے منقول ہے کہ پہلے شتر کو مہار کرو اور پھر توکُّل کرو۔[44]


نوٹ

  1. جب حضرت ابراہیم کو آگ میں پھینکنے لگے تو جبرائیل نے ان کی خدمت میں آ کر عرض کی: مجھ سے کوئی حاجت ہے؟ ابراہیم نے کہا: تجھ سے کوئی حاجت نہیں رکھتا ہوں۔(نراقی، جامع السعادات، ۱۳۸۳ق، ج۳، ص۲۲۳-۲۲۴).

حوالہ جات

  1. ابن فارس، معجم مقائیس اللغہ، ۱۴۰۴ق، ج۶، ص۱۳۶.
  2. نراقی، جامع السعادات، ۱۳۸۳ق، ج۳، ص۲۱۸-۲۱۹ و۲۲۶.
  3. طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۹، ص۷۸.
  4. شیخ صدوق، معانی الاخبار، ۱۴۰۳ق، ص۲۶۱.
  5. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۶۳.
  6. کاشانی، شرح منازل السائرین، ۱۳۷۹ش، ص۹۸.
  7. امام خمینی، چہل حدیث، ۱۳۸۸ش، ص۲۱۷.
  8. ر ک: کاشانی، شرح منازل السائرین، ۱۳۷۹ش، ص۹۴-۹۸.
  9. امام خمینی، چہل حدیث، ۱۳۸۸ش، ص۲۱۷.
  10. طوسی، اخلاق ناصری، علمیہ اسلامیہ، ص۸۰.
  11. ماہروزادہ، رابطہ توکُّل و توسل بہ اسباب، ص۶۴.
  12. برای نمونہ نگاہ کنید بہ سورہ ملک، آیہ۲۹؛ سورہ یونس، آیہ۸۴؛ سورہ مائدہ، آیہ۲۳؛ سورہ شوری، آیہ۳۶؛ سورہ نحل، آیہ۹۹؛ سورہ انفال، آیہ۲.
  13. ر ک: سورہ آل عمران، آیہ۱۲۲؛ سورہ مائدہ، آیہ۲۳؛ طباطبائی، المیزان، ج۱۹، ص۱۸۸.
  14. مؤمنین کو اللہ پر توکُّل کرنا چاہئے۔
  15. رجوع کریں: سورہ آل عمران، آیات ۱۲۲،۱۶۰؛ سورہ مائدہ، آیہ ۱۱؛ سورہ توبہ، آیہ ۵۱؛ سورہ ابراہیم، آیہ ۱۱؛ سورہ تغابن، آیہ۱۳؛ سورہ مجادلہ ،آيہ۱۰.
  16. رجوع کریں: سورہ آل عمران، آیہ۱۵۹.
  17. نگاہ کنید بہ سورہ طلاق، آیہ۳.
  18. دیکھیں: کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۶۳-۶۵؛ مجلسی، ج ۶۸، ص۱۳۵، ۱۳۸، ۱۴۳، ۱۴۷، ۱۵۳.
  19. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۴۷.
  20. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۵۲.
  21. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۲۱.
  22. کاشانی، شرح منازل السائرین، ۱۳۷۹ش، ص۹۴.
  23. نراقی، جامع السعادات، ۱۳۸۳ق، ج۳، ص۲۲۰.
  24. رجوع کریں: غزالی، احیاء علوم الدین، ۱۴۰۶ق، ج۴، ص۲۷۸-۲۸۸؛ فیض کاشانی، المحجۃ البیضاء، دفتر نشر اسلامی، ج۷، ص۴۰۸؛ نراقی، جامع السعادات، ۱۳۸۳ق، ج۳، ص۲۲۳.
  25. فیض کاشانی، المحجۃ البیضاء، دفتر نشر اسلامی، ج۷، ص۴۰۸؛ نراقی، جامع السعادات، ۱۳۸۳ق، ج۳، ص۲۲۳.
  26. نراقی، جامع السعادات، ۱۳۸۳ق، ج۳، ص۲۲۳.
  27. فیض کاشانی، المحجۃ البیضاء، دفتر نشر اسلامی، ج۷، ص۴۰۸؛ نراقی، جامع السعادات، ۱۳۸۳ق، ج۳، ص۲۲۳.
  28. رجوع کریں: فیض کاشانی، المحجۃ البیضاء، دفتر نشر اسلامی، ج۷، ص۴۰۸؛ نراقی، جامع السعادات، ۱۳۸۳ق، ج۳، ص۲۲۳.
  29. فیض کاشانی، المحجۃ البیضاء، دفتر نشر اسلامی، ج۷، ص۴۰۹؛ نراقی، جامع السعادات، ۱۳۸۳ق، ج۳، ص۲۲۳.
  30. فیض کاشانی، المحجۃ البیضاء، دفتر نشر اسلامی، ج۷، ص۴۰۹؛ نراقی، جامع السعادات، ۱۳۸۳ق، ج۳، ص۲۲۳.
  31. نراقی، جامع السعادات، ۱۳۸۳ق، ج۳، ص۲۲۳و۲۲۴.
  32. نراقی، جامع السعادات، ۱۳۸۳ق، ج۳، ص۲۲۹-۲۳۰.
  33. نراقی، جامع‌السعادات، ۱۳۸۳ق، ج۳، ص۲۳۱و۲۳۲.
  34. نراقی، جامع السعادات، ۱۳۸۳ق، ج۳، ص۲۳۱و۲۳۲.
  35. نراقی، جامع‌السعادات، ۱۳۸۳ق، ج۳، ص۲۳۲.
  36. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۶۳-۶۵.
  37. تمیمی آمدی، غرر الحکم و درر الکلم، ۱۳۶۶ش، ص۱۹۷.
  38. سورہ انفال، آیت49.
  39. غزالی، احیاء علوم الدین، ۱۴۰۶ق، ج۴، ص۲۶۰.
  40. فقہ الرضا، ۱۴۰۶ق، ج۱، ۳۵۸.
  41. غزالی، احیاء علوم الدین، ۱۴۰۶ق، ج۴، ص۲۸۲؛ نراقی، جامع السعادات، ۱۳۸۳ق، ج۳، ص۲۲۶.
  42. فیض کاشانی، المحجۃ البیضاء، دفتر نشر اسلامی، ج۷، ص۴۱۳.
  43. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۱۰، ص۲۹۷.
  44. طبرسی، مشکاۃ الانوار، ۱۳۸۵ق، ص۳۱۹-۳۲۰.

مآخذ

  • ابن فارس، احمد بن فارس، معجم مقائیس اللغہ، تصحیح: عبدالسلام محمد ہارون، قم، انتشارات دفتر تبلیغات اسلامی حوزہ علمیہ قم، ۱۴۰۴ق.
  • الفقہ المنسوب الی الامام الرضا علیہ‌السلام، مشہد، مؤسسہ آل‌البیت علیہم‌السلام، ۱۴۰۶ق.
  • امام خمینی، سید روح اللہ، شرح چہل حدیث، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، ۱۳۸۸ش.
  • تمیمی آمدی، تصنیف غرر الحکم و درر الکلم، تصحیح: مصطفی درایتی، قم، دفتر تبلیغات، ۱۳۶۶ش.
  • خواجہ نصیر الدین طوسی، محمد بن محمد، تہران، علمیہ اسلامیہ، بی‌تا.
  • شعیری، محمد بن محمد، جامع الاخبار، نجف، مطبعۃ حیدریہ، بیتا.
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، معانی الاخبار، تصحیح: علی اکبر غفاری، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ۱۴۰۳ق.
  • طبرسی، علی بن حسن، مشکاۃ الانوار فی غرر الاخبار، نجف، المکتبۃ الحیدریہ، ۱۳۸۵ق/۱۹۶۵م/۱۳۴۴ش.
  • غزالی، محمد بن محمد، احیاء علوم الدین، بیروت، دار الکتب العلمیہ، ۱۴۰۶ق/۱۹۸۶م.
  • فیض کاشانی، محمد بن مرتضی، المحجۃ البیضاء فی تہذیب الاحیاء، تصحیح: علی‌اکبر غفاری، قم، دفتر نشر اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، بی‌تا.
  • کاشانی، ملاعبدالرزاق، شرح منازل السائرین خواجہ عبداللہ انصاری، تصحیح:‌علی شیروانی، تہران، الزہراء، ۱۳۷۹ش.
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح: علی‌اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، ۱۴۰۷ق.
  • ماہروزادہ، طاہرہ، رابطہ توکُّل و توسل بہ اسباب، نامہ جامعہ، سال سیزدہم، ش ۱۱۵، پاییز ۱۳۹۴ش.
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، ۱۳۷۴ش.
  • مولوی، جلال الدین محمد بن محمد، مثنوی معنوی، تصحیح: رینولد نیکلسون، اہتمام: نصراللہ پورجوادی، تہران، انتشارات علمی و فرہنگی، ۱۳۶۳ش.
  • نراقی، محمدمہدی، جامع السعادات، تصحیح: سید محمد کلانتر، نجف، مطبعۃ النجف، ۱۳۸۳ق/۱۹۶۳م.