سنت

ویکی شیعہ سے

سنت ایک دینی اصطلاح ہے جس کا اطلاق معصوم کے گفتار، کردار اور تقریر (تأئید) پر ہوتا ہے۔ ادلہ اربعہ میں سے قرآن کے بعد دین اسلام کے عملی اور اعتقادی احکام کا دوسرا منبع سنت ہے۔ مسلمان علماء سنت کو بہت زیادہ اہمیت دیتے‌ ہیں اور اسلام کے بہت سارے احکام کو سنت کے ذریعے استخراج کرتے ہیں۔

پیغمبراکرمؐ کی سنت کو تمام مسلمان حجت سمجھتے ہیں۔ کیونکہ ان کے مطابق پیغمبر اکرمؐ معصوم اور ہر قسم کی خطا سے مبرا ہیں۔ لھذا آپ سیرت ہر حوالے سے معتبر اور لازم الاتباع ہے۔ اس کے علاوہ قرآن کی بعض آیات میں بھی پیغمبر اکرمؐ کی پیروی کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

شیعہ پیغمبر اکرمؐ کے علاوہ ان کے ائمہؑ کی بھی عصمت کے قائل ہیں اس بنا پر وہ ائمہ معصومینؑ کی سنت کو بھی حجت سمجھتے‌ ہیں۔ شیعہ‌ائمہ معصومینؑ کی سنت کی حجیت پر مذکورہ عقلی دلیل کے‌ علاوہ بعض آیات اور روایات سے بھی استناد کرتے‌ ہیں من جملہ‌ان میں سے ایک آیت تطہیر ہے جو اہل بیتؑ کی عصمت پر دلالت کرتی ہے۔ اسی طرح حدیث ثقلین جس میں اہل بیتؑ کی پیروی اور اتباع کا حکم دیا گیا ہے۔

تعریف

سنت، مسلمان علماء کے یہاں ادلہ اربعہ میں سے ہے۔[1] اہل‌ سنت پیغمبر اکرمؐ کے قول، فعل اور تقریر کو[2] جبکہ شیعہ معصوم کے قول فعل اور تقریر کو سنت سمجھتے ہیں۔[3] محمدرضا مظفر کے مطابق «سنت» کی اصطلاح کا سرچشمہ پیغمبر اکرمؐ سے نقل ہونے والی احادیث ہیں جس میں آپ نے اپنے ماننے والوں کو آپؐ کی سنت کی پیروی کا حکم دیا ہے۔[4] علمائے علم اصول کے مطابق شرعی احکام کے منبع کی حیثیت سے سنت کی حجیت کے بارے میں علم اصول فقہ میں بحث کی جاتی ہے۔[5]

فقہی منابع میں «سنت» کی اصطلاح کا معنا علم اصول میں رائج اصطلاح سے قدرے مختلف ہے۔[6] مثال کے طور پر کھبی واجب اعمال کے مقابلے میں مستحب اعمال کے لئے سنت کہا جاتا ہے جیسے روزانہ کی نفل نمازوں کو جو کہ مستحب ہیں سنت اور واجب نمازوں کو فریضہ‌ کہا جاتا ہے۔[7] اسی طرح چہ‌ بسا بدعت کے مقابلے میں بھی سنت استعمال ہوتی ہے؛ بدعت اس چیز کو کہا جاتا ہے جس کی نسبت شریعت کی طرف دی جاتی ہو حالانکہ حقیقت میں وہ شریعت میں سے نہ ہو۔[8]

سنت اور حدیث میں فرق

سنت پیغمبر اکرمؐ یا معصوم کے قول، فعل اور تقریر(تأئید) کو کہا جاتا ہے جبکہ حدیث اس کلام کو کہا جاتا ہے جس کے ذریعے سنت کی حکایت کی جاتی ہے؛ البتہ کبھی کبھار مجازا «سنت» اور «حدیث» کی اصطلاح ایک دوسرے کی جگہ استعمال ہوتی ہے۔[9]

اہمیت اور اعتبار

تمام مسلمان فقہاء کے نزدیک شرعی احکام کے منابع میں قرآن کے بعد سب سے معتبر ذریعہ سنت ہے۔[10] اسلامی فقہ میں بہت سے احکام اور اسی طرح قرآن میں بیان ہونے‌ والے مجمل اور کلی احکام کی تفصیلات بھی سنت کے ذریعے مشخص ہوتی ہے۔[11]مسلمان علماء اسلام میں سنت کے معتبر ہونے کو دین کی ضروریات میں سے قرار دیتے ہیں[12]اور کہتے ہیں کہ سنت کی حجیت کا انکار دین کی ضروریات میں سے کسی ایک کے انکار کے برابر ہے جس کا نتیجہ دین سے خارج ہونا ہے۔[13] اسی طرح سنت کو قرآن فہمی کی کلید قرار دیتے ہوئے اس بات کے معتقد ہیں کہ قرآن کو سمجھنے کے لئے سنت کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے۔[14]

سنت کا محدودہ

سنت میں کونسی چیزیں شامل ہیں اس سلسلے میں اسلامی مذاہب کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے: شیعہ امامیہ کے مطابق ائمہ معصومینؑ خدا کی طرف سے منتخب اور پیغمبر اکرمؐ کے توسط سے معرفی ہوتے ہیں تاکہ پیغمبر اکرمؐ کے بعد یہ ہستیاں احکام الہی کو بیان کریں۔[15] اس بنا پر اس مذہب میں پیغمبر اکرمؑ کی سنت کے علاوہ ائمہ معصومینؑ کی سنت کو بھی حجت سمجھ کر اس پر عمل کی جاتی ہے۔[16]

اہل‌ سنت، سنت کو پیغمبر اکرمؐ کے قول، فعل اور تقریر میں منحصر کرتے ہیں۔[17] البتہ بعض اہل سنت علماء جیسے شاطبی صحابہ کی سنت کو بھی حجیت سمجھتے ہیں؛[18] کیونکہ ان کے نزدیک صحابہ کا عمل اس سنت کے مطابع تھا جو ہم تک نہیں پہنچی یا ان کا عمل خود ان کے اجتہاد کے مطابق تھا۔[19]

دوسرے اسلامی مذاہب میں

اَباضیہ و زیدیہ مذاہب کو فقہی اعتبار سے اہل‌ سنت کے قریب جانے جاتے ہیں جو سنت پیغمبر اکرمؑ کی طرف شرعی احکام کے منبع کی حیثیت سے رجوع کرتے ہیں۔[20] اباضیہ سنت نبوی کے علاوہ صحابہ کے قول اور سیرت کو بھی حجت سمجھتے ہیں۔[21] زیدیہ اہل‌ بیت کی سنت کے ساتھ ساتھ صحابہ کی سنت کو بھی شرعی احکام کے مصادر میں شمار کرتے ہوئے اس پر عمل کرتے ہیں۔[22]

اقسام

سنت کو تین قسموں فعلی، قولی اور تقریری سنت میں تقسیم کرتے ہیں:[23]

سنت فعلی

پیغمبر اکرمؑ یا معصوم کے اس عمل اور فعل کو کہا جاتا ہے جسے شرعی احکام کی تشریع کی خاطر انجام دیا گیا ہو، جیسے وضو کرنا، نماز پڑھنا اور حج کی ادائیگی وغیرہ‌ کو سنت فعلی کہا جاتا ہے.[24] اسی طرح پیغمبر اکرمؐ یا معصوم کے اشارہ، کتابت اور ترک فعل کو بھی سنت فعلی میں شمار کیئے جاتے ہیں۔[25]

پیغمبر اکرمؑ اور معصوم کے افعال کا شرعی احکام پر دلالت کی نوعیت دو حالتوں سے خالی نہیں ہے:

  • پیغمبر اکرم یا امام معصوم سے صادر ہونے والا عمل یا ایسے قرائن اور شواہد کے ساتھ ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ عمل شرعی احکام میں سے کسی حکم یا عبادات میں سے کسی عبادت جیسے نماز، وضو اور حج وغیرہ بنان کرنے کے لئے صادر ہوا ہے. اسی طرح مذکورہ قرائن اور شواہد کے ذریعے یہ بھی معلوم ہو گا کہ‌ فعل واجب ہے یا مستحب یا کوئی اور۔[26]
  • پیغمبر اکرمؐ یا امام معصوم سے صادر ہونے والا عمل کسی ایسے قرائن و شواہد کے ساتھ نہیں ہے جس سے یہ معلوم ہو کہ یہ‌ کام فلان نوعیت کے حکم کو بیان کرنے کے لئے صادر ہوا ہے۔[27]اس دوسری صورت کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے:[28] بعض کہتے ہیں کہ یہ فعل مذکورہ کام کے واجب ہونے پر دلالت کرتا ہے،[29] جبکہ بعض کہتے ہیں کہ اس سے اس کام کا مستحب ہونا ثابت ہوتا ہے[30] اور بعض کے مطابق اس صورت میں مذکورہ فعل کسی حکم پر دلالت نہیں کرتا بلکہ صرف یہ معلوم ہوتا ہے‌ کہ یہ کام ہمارے لئے مباح اور جائز ہے۔[31]

اسی طرح علمائے اصول کا کہنا ہے کہ اگر پیغمبر اکرمؑ یا امام معصوم سے کوئی فعل صادر ہو جو ایسے قرائن و شواہد کے ساتھ ہے جس سے معلوم ہو کہ یہ‌ کام پیغمبر اکرمؐ یا امام معصوم کے ساتھ مختص ہے، تو اس صورت میں یہ مذکورہ کام دوسرے مسلمانوں اوپر حجت نہیں ہو گا؛[32] لیکن اگر پیغمبر اکرمؐ یا امام معصومؑ سے کوئی ایسا فعل صادر ہو جائے جس کے بارے میں یہ معلوم نہ ہو کہ یہ کام ان ہستیوں کے ساتھ مختص ہے یا تمام مسلمانوں کو شامل کرتا ہے، اس صورت میں بھی دوسرے مسلمانوں پر اس کام کی حجیت کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔[33] بعض فقہاء اس بات کے معتقد ہیں کہ یہ کام ان ہستیوں کے ساتھ مختص ہیں جبکہ‌ بعض کہتے ہیں کہ یہ کام تمام مسلمانوں پر حجت ہے اور سب اس کام کو انجام دے سکتے ہیں۔[34]

سنت قرآن کی روشنی میں

سنت قرآن کے بعد فروع دین اور عبادی احکام کی استنباط کا دوسرا منبع ہے۔[35]

قرآن کریم میں کئی مقامات پر تصریحاً یا اشارۃ سنت کے بارے میں گفتگو ہوئی ہے۔[36] جیسا کہ درج ذیل آیات میں :

  1. وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهوَىٰ، إِنْ هوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ (ترجمہ: اور وہ ہوائے نفس کی پیروی میں کوئی بات نہیں کرتا (۳) یہ بات صرف وحی جو ان پر نازل کی جاتی ہے، کے سوا کجھ نہیں ہے)[37]
  2. وَمَا آتَاكُمُ الرَّ‌سُولُ فَخُذُوه وَمَا نَهاكُمْ عَنْه فَانتَهوا (ترجمہ: اور جو کچھ یہ رسول تمہیں دے اسے لے لو اور جس سے یہ تمہیں منع کرے اس سے باز آجاؤ) [38]
  3. وَأَطِيعُوا اللَّـه وَأَطِيعُوا الرَّ‌سُولَ (ترجمہ: خدا کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو)[39]

قرآن کے ساتھ موازنہ

جو احکام سنت کے ذریعے بیان ہوتی ہیں قرآن کے آیات احکام کی بنسبت ان کی تین حالت ہوتی ہے:

  • یا یہ احکام قرآن کے کلی احکام کی تأکید کرتی ہیں؛ جیسے وہ روایات جو نماز، روزہ، زکات اور حج، کو واجب اور شراب اور قمار وغیرہ کو حرام سمجھتے ہیں۔
  • یا قرآن کے کلی احکام کی تشریح اور تبیین کرتی ہیں: جیسے وہ روایات جو نماز، روزہ اور حج وغیرہ کے اجزاء، شرایط اور موانع کو بیان کرتی ہیں۔
  • یا بعض جدید احکام کو بیان کرتی ہیں جو قرآن کے ظواہر سے سمجھ نہیں سکتے، قاتل کا ارث سے محروم ہونا یا ایک ہی وقت میں کسی لڑکی اور اس کی پھوپھی یا خالہ سے شادی کا حرام ہونا۔ [40]

قرآن اور سنت کا ظاہری تعارض

بعض مواقع پر روایات اور قرآن کے ظواہر کے درمیان تعارض اور ناسازگاری دکھائی دیتی ہے اس کی دو صورتیں ہیں:

  • قرآن کو سنت کے ذریعے تخصیص دینا: یقینی اور قطعی روایات کے ذریعے قرآن کے عمومی احکام کو تخصیص دے کر اس سے اصلی مراد کو بیان کر سکتے ہیں۔ اور خبر واحد اگر اسکی حجیت ثابت ہو، تو اس کے ذریعے بھی قرآن کے عمومات کو تخصیص دے شکتے ہیں۔
  • قرآن کو سنت کے ذریعے منسوخ کرنا: سنت کے ذریعے قرآن کا نسخ بھی جائز ہے۔[41]

قرآن اور سنت میں فرق

قرآن اور سنت میں تین تفاوت پائے جاتے ہیں :

  1. سنت کے برخلاف، قرآن کلام وحی ہے اور ایک معجزہ کے طور پر نازل ہوا ہے۔
  2. قرآن کا منبع وحی سے صادر ہونا قطعی اور یقینی ہے، لیکن روایات جو سنت پر دلالت کرتی ہیں اکثر موارد میں قطعی اور یقینی نہیں ہے بلکہ ان کے جعلی ہونے کا امکان پایا جاتا ہے۔
  3. عام طور پر قرآن میں احکام کے کلی قوانین بیان ہوئے ہیں جبکہ سنت میں احکام کے جزئیات اور فروعات بیان ہوئے ہیں۔ [42]

مصادیق اور ان کی دلالت

سنت سے منعلق ایک اہم مسئلہ، سنت کو تشکیل دینے والے عناصر کی مقدار حجیت ہے۔ ذیل میں اس مسلئے کو مورد بررسی قرار دیتے ہیں۔

الف. قول

اس سے مراد پیغمبر اکرمؐ اور ائمہ معصومینؑ کے وہ فرامین اور ارشادات ہیں جو مختلف مناسبتوں میں مختلف اغراض و مقاصد کے پیش نظر ان حضرات سے منقول ہیں۔ مثلا پیغمبر اسلام نے فرمایا: انما الاعمال بالنیات[43]

ب. فعل

سنت فعلی اس عمل کو کہا جاتا ہے جسے معصوم نے تشریع کی قصد سے انجام دیا ہو جیسے وضو کرنا، نماز پڑھنا، حج بجالانا وغیرہ۔ پیغمبر اکرمؐ سے منقول ہے کہ اپنے اصحاب سے فرمایا کہ "جس طرح میں نماز پڑھتا ہوں اسی طرح نماز پڑھو"۔

اگر کسی معصوم سے کوئی عمل صادر ہوجائے تو یہ چیز کم از کم اس عمل کے جایز ہونے اور حرام نہ ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ جس طرح اگر کسی کام کو معصوم نے ترک کیا ہو تو اس سے کم از کم اس عمل کے واجب نہ ہونے پر یقین حاصل ہوتا ہے۔[44] صحابہ کے زمانے میں کوئی مواقع پر جس طرح پیغمبر اکرمؐ کا عمل مورد استناد واقع ہوتا تھا، آپ کا کسی کام کو ترک کرنا بھی مورد استناد واقع ہوتا تھا۔ [45]

ج. تقریر

تقریر معصوم سے مراد یہ ہے کہ کسی شخص نے معصوم کے سامنے کوئی کام انجام دے یا کوئی بات کہے یا کسی عقیدے کا اظہار کرے اور معصوم کسی مانع جیسے تقیہ وغیرہ، کے بغیر اس عمل سے منع نہ فقط منع نہ کرے بلکہ خاموش رہ ہے۔ معصوم کا یہ خاموش رہنا گویا اس عمل یا بات یا عقیدے کے صحیح ہونے کی تصدیق سمجھی جاتی ہے۔[46] تقریر بھی فعل کی طرح حکم کی نوعیت کو بیان نہیں کرتی مگر یہ کہ کوئی خاص قرینہ موجود ہو جو کسی خاص نوع پر دلالت کرے۔ [47]

موارد سنت کی چھان بین

سنت پیامبر

سنت نبوی یعنی پیامبر اسلامؐ کا قول، فعل اور تقریر اسلام کے تمام مذاہب کے علماء کے ہاں حجت اور معتبر ہے اور اسے قرآن کے بعد اجتہاد کا دوسرا منبع شمار ہوتی ہے۔[48]

اہل بیت کی سنت

اہل بیتؑ کی سنت میں ائمہ معصومین کے فرامین، کردار اور تقریر شامل ہیں۔ اہل بیت میں ائمہ معصومین، امام علیؑ سے لے کر امام زمان(عج) تک اور حضرت فاطمہ زہرا شامل ہیں۔ اہل تسنن صرف اور صرف سنت نبوی کو لازم الاتباع اور حجت سمجھتے ہیں جبکہ شیعہ علماء کے نزدیک اہل بیت کی سنت کو بھی سنت نبوی کا مقام حاصل ہے اور اسے بھی سنت نبوی کی طرح حجت سمجھتے ہیں۔ اہل تشیع کے مطابق ائمہ معصومین میں سے کوئی ایک جب بھی کسی حکم کو بیان کرے تو ان کی حیثیت صرف ایک راوی یا مجتہد کی طرح نہیں ہے بلکہ یہ حضرات پیغمبر اکرمؐ یا پہلے والے امام یا الہام کے ذریعے واقعی حکم شرعی کو بیان کرتے ہیں۔ اس بنا پر ان کے اقوال افعال اور تقریر بھی خود سنت ہے نہ سنت سے حکایت۔ [49]

صحابہ کی سنت

اہل سنت کے بعض علماء پیغمبر اکرم ؐ کے اصحاب کی سنت کو بھی حجت سمجھتے ہیں۔ لیکن اہل تشیع صحابہ کو غیر معصوم اور ان کی سنت کو غیر معتبر سمجھتے ہیں۔[50]

حوالہ جات

  1. شوکانی، ارشاد الفحول، ۱۴۱۹ق، ج۱، ص۹۶؛ بحرانی، المعجم الاصولی، ۱۴۲۶ق، ج۲، ص۱۷۸؛ زرقا، المدخل الفقہی العام، ۱۴۱۸ق، ج۱، ص۷۶۔
  2. شوکانی، ارشاد الفحول، ۱۴۱۹ق، ج۱، ص۹۵۔
  3. حکیم، االاصول العامہ للفقہ المقارن، ۱۹۷۹م، ص۱۲۲؛ بحرانی، المعجم الاصولی، ۱۴۲۶ق، ج۲، ص۱۷۸۔
  4. برای نمونہ نگاہ کنید بہ مالک بن انس، الموطأ، ۱۴۰۶ق، ج۲، ص۸۹۹۔
  5. آخوند خراسانی، کفایۃ الاصول، ۱۴۳۷ق، ج۱، ص۲۲-۲۴۔
  6. بحرانی، المعجم الاصولی، ۱۴۲۶ق، ج۲، ص۱۷۹۔
  7. بحرانی، المعجم الاصولی، ۱۴۲۶ق، ج۲، ص۱۷۹۔
  8. بحرانی، المعجم الاصولی، ۱۴۲۶ق، ج۲، ص۱۸۰۔
  9. مظفر، اصول الفقہ، ۱۴۰۵ق، ج۲، ص۵۸۔
  10. بحرانی، المعجم الاصولی، ۱۴۲۶ق، ج۲، ص۱۷۸.
  11. زرقا، المدخل الفقهی العام، ۱۴۱۸ق، ج۱، ص۷۶؛ بحرانی، المعجم الاصولی، ۱۴۲۶ق، ج۲، ص۱۷۸.
  12. شوکانی، ارشاد الفحول، ۱۴۱۹ق، ج۱، ص۹۷؛ خضری بک، اصول الفقه، ۱۳۸۹ق، ص۲۳۹.
  13. حکیم، الاصول العامه للفقه المقارن، ۱۹۷۹م، ص۱۲۶.
  14. زرقا، المدخل الفقهی العام، ۱۴۱۸ق، ج۱، ص۷۵-۷۶.
  15. مظفر، اصول الفقہ، ۱۴۰۵ق، ج۲، ص۵۷۔
  16. ہاشمی گلپایگانی، مباحث الالفاظ: تقریرات درس اصول آیت‌اللہ سیستانی، ۱۴۴۱ق، ج۱، ص۴۷۔
  17. زرقا، المدخل الفقہی العام، ۱۴۱۸ق، ج۱، ص۷۵۔
  18. شاطبی، الموافقات، ۱۴۱۷ق، ج۴، ص۲۹۰-۲۹۳؛ حکیم، الاصول العامہ للفقہ المقارن، ص۱۲۲۔
  19. شاطبی، الموافقات، ۱۴۱۷ق، ج۴، ص۲۹۰۔
  20. زرقا، المدخل الفقہی العام، ۱۴۲۵ق، ج۱، ص۱۹۱۔
  21. حارثی، العقود الفضیہ فی اصول الاباضیۃ، عمان، ص۲؛ ضیائی، فقہ اباضی، انتشارات بین المللی امین، ص۲۶۔
  22. ابوزہرہ، الامام زید، دار الکتب العربی، ص۲۳۳۔
  23. برای نمونه نگاه کنید به جیزانی، معالم اصول الفقه عند اهل السنة و الجماعة، ۱۴۲۹ق، ص۱۱۹؛ زحیلی، اصول الفقه الاسلامی، ۱۴۰۶ق، ج۱، ص۴۵۰.
  24. زحیلی، اصول الفقه الاسلامی، ۱۴۰۶ق، ج۱، ص۴۵۰.
  25. ابن‌نجار، مختصر التحریر شرح الکواکب المنیر، ۱۴۱۸ق، ج۲، ص۱۶۰-۱۶۶.
  26. مظفر، اصول الفقه، ۱۴۰۵ق، ج۲، ص۵۹.
  27. مظفر، اصول الفقه، ۱۴۰۵ق، ج۲، ص۵۹.
  28. میرزای قمی، القوانین، ج۲، ص۵۵۳.
  29. مظفر، اصول الفقه، ۱۴۰۵ق، ج۲، ص۵۹.
  30. میرزای قمی، القوانین، ج۲، ص۵۵۳.
  31. مظفر، اصول الفقه، ۱۴۰۵ق، ج۲، ص۵۹.
  32. مظفر، اصول الفقه، ۱۴۰۵ق، ج۲، ص۶۱.
  33. مظفر، اصول الفقه، ۱۴۰۵ق، ج۲، ص۶۱.
  34. مظفر، اصول الفقه، ۱۴۰۵ق، ج۲، ص۶۱.
  35. شہابی، ادوار فقہ، ج1، ص403.
  36. شہابی، ادوار فقہ، ج1، ص404.
  37. سورہ نجم، آیہ3-4
  38. سورہ حشر، آیہ7
  39. سورہ تغابن، آیہ12
  40. طباطبایی حکیم، محمد تقی، الاصول العامة للفقہ المقارن، ص۲۴۱-۲۴۷
  41. طباطبایی حکیم، الاصول العامة للفقہ المقارن، ص۲۴۱-۲۴۷
  42. جرجانی، محمد بن علی، کتاب التعریفات، ص ۵۳. مظفر، محمد رضا، اصول الفقہ، ج ۲، ص ۶۳. طباطبایی حکیم، محمد تقی، الاصول العامة للفقہ المقارن، ص۱۲۳- ۱۲۱. فرہنگ نامہ اصول فقہ، ص:۴۹۱
  43. مظفر، محمد رضا، اصول الفقہ، ج ۲، ص ۶۳. فرہنگ نامہ اصول فقہ، ص۴۹۲
  44. زحیلی، وہبہ، الوجیز فی اصول الفقہ، ص ۳۵. ولایی، عیسی، فرہنگ تشریحی اصطلاحات اصول، ص ۲۱۶. محمدی، علی، شرح اصول فقہ، ج ۳، ص۱۲۰- ۱۱۹. ابو زہرہ، محمد، اصول الفقہ، ص ۹۷. فرہنگ نامہ اصول فقہ، ۴۹۲
  45. شہابی، ادوار فقہ، ج1، ص403.
  46. محمدی، علی، شرح اصول فقہ، ج۳، ص۱۳۰؛ مظفر، محمد رضا، اصول الفقہ، ج۲، ص۶۸- ۶۷
  47. الأصول العامة، ص۲۳۶ ۲۳۷
  48. بحر العلوم، محمد، الاجتہاد اصولہ و احکامہ، ص ۶۸. جناتی، محمد ابراہیم، منابع اجتہاد (از دیدگاہ مذاہب اسلامی)، ص ۷۷. موسوی بجنوردی، محمد، مقالات اصولی، ص ۲۵. ابو زہرہ، محمد، اصول الفقہ، ص ۹۷. مظفر، محمد رضا، اصول الفقہ، ج ۲، ص ۶۳.
  49. مظفر، محمد رضا، اصول الفقہ، ج ۲، ص ۶۳. محمدی، علی، شرح اصول فقہ، ج ۳، ص ۱۱۷- ۱۱۵. طباطبایی حکیم، محمد تقی، الاصول العامة للفقہ المقارن، ص ۱۴۷.
  50. فاضل لنکرانی، محمد، سیری کامل در اصول فقہ، ج ۶، ص۴۵۲- ۴۳۳. نیز ر. ک: مذہب صحابہ. جناتی، محمد ابراہیم، منابع اجتہاد (از دیدگاہ مذاہب اسلامی)، ص ۷۵. موسوی بجنوردی، محمد، مقالات اصولی، ص ۲۵. بحر العلوم، محمد، الاجتہاد اصولہ و احکامہ، ص ۷۰

مآخذ

  • ابو زہرہ، محمد، اصول الفقہ، دار الفکر العربی، ۱۹۵۷م؛
  • بحر العلوم، محمد، الاجتہاد اصولہ و احکامہ، بیروت، دار الزہرا؛
  • جرجانی، علی‌ بن محمد، کتاب التعریفات، تہران، ناصر خسرو، ۱۳۷۰؛
  • جناتی، محمد ابراہیم، منابع اجتہاد (از دیدگاہ مذاہب اسلامی)، تہران، کیہان، ۱۳۷۰؛
  • زحیلی، وہبہ، الوجیز فی اصول الفقہ، تہران، نشر احسان؛
  • شہابی، محمود، ادوار فقہ، تہران: وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، 1366ش.
  • شیخ بہایی، محمد بن حسین، مشرق الشمسین و اکسیر السعادتین، بی‌نا، بی‌تا؛
  • طباطبایی حکیم، محمد تقی، الاصول العامہ للفقہ المقارن، قم، مجمع جہانی اہل بیت؛
  • فاضل لنکرانی، محمد، سیری کامل در اصول فقہ، قم، نشر فیضیہ؛
  • فرہنگ نامہ اصول فقہ، قم، پژوہشگاہ علوم و فرہنگ اسلامی؛
  • محمدی، علی، شرح اصول فقہ، قم، دار الکفر، ۱۳۸۷؛
  • مظفر، محمد رضا، أصول الفقہ، قم، نشر مولف (شارح)، ۱۳۸۷؛
  • موسوی بجنوردی، محمد، مقالات اصولی، بی‌نا، تہران؛
  • ولایی، عیسی، فرہنگ تشریحی اصطلاحات اصول، تہران، نشر نی، ۱۳۷۴.