واجب

نامکمل زمرہ
غیر جامع
تلخیص کے محتاج
ویکی شیعہ سے

واجب اسلامی فقہ کی ایک اصطلاح ہے ۔ اسلام میں ایسے عمل کو واجب کہا جاتا ہے جس کا انجام دینا مسلمان کیلئے ضروری ہوتا ہے اور اس کے انجام نہ دینے پر وہ عذاب الہی کا مستحق ہوتا ہے ۔اس کی بہت سی اقسام ہیں اور اس کی مختلف طرح سے تقسیم بندی کی جاتی ہے۔اہم ترین واجبات شرعی کو فروع دین کے نام سے پہچانا جاتا ہے ۔

تعریف

لغوی معنی کے لحاظ سے ضروری اور حتمی کو کہا جاتا ہے ۔اسلامی اصطلاح میں ایسا عمل واجب ہے جس کا انجام دینا ضروری اور حتمی ہوتا ہے اور اس کا ترک کرنا گناہ اور عذاب الہی کا موجب بنتا ہے ۔[1] وجوب اور واجب کے درمیان فرق یہ ہے کہ وجوب خود حکم کو کہتے ہیں جبکہ واجب وہ فعل ہے جس کے ساتھ یہ وجوب تعلق رکھتا ہے ۔

اقسام

واجب نام تقسیم کا معیار تعریف
مطلق اور مقید مقدمات تکلیف مطلق: کسی قید اور شرط کے بغیر واجب مطلق ہے۔

مقید:واجب کا وجوب کسی شرط کے ہونے یا نہ ہونے سے مشروط ہو تو واجب مقید ہے۔

منجز اور معلق شارع کے حکم کی کیفیت کے لحاظ سے منجز: کسی واجب کا وجوب کسی چیز سے وابستہ نہ ہو تو واجب منجز ہے۔

معلق:ایسا واجب عمل جس کا انجام دینا واجب ہے لیکن اس کا انجام کسی دوسری چیز سے وابستہ ہو جیسے زمان کا پہنچنا ۔

اصلی اور تبعی تکلیف کے تعلق کے لحاظ سے ایسا عمل ہے جس کا انجام دینا کسی دوسرے واجب عمل کی وجسے واجب نہیں ہوتا ہے بلکہ خود شارع کے نزدیک یہی عمل واجب ہوتا ہے۔

تبعی:ایسا واجب عمل ہے جس کا وجوب کسی دوسری واجب چیز کی وجہ سے ہوتا ہے۔

تعیینی اور تخییری متعلقِ تکلیف کی جہت سے تعیینی: ایسا عمل جو خود واجب ہوا ہے اور کوئی دوسرا عمل اس کی جگہ نہیں لے سکتا ہے ۔

تخییری:ایسا عمل جس کی جگہ کوئی دوسرا عمل لے سکتا ہے اور انسان اپنے اختیار کسی ایک کو انجام دے سکتا ہے۔[2]

عینی اور کفائی مکلف یا موضوع کے لحاظ سے عینی :جس کا انجام دینا ہر شخص پر واجب ہے ۔کسی دوسرے کا اس کی جگہ انجام دینا اس شخص سے وجوب کے ساقط ہونے کا موجب نہیں بنتا ہے ۔

کفائی:بعض اشخاص کے انجام دینے سے دوسروں سے اس کا وجوب ساقط ہو جاتا ہے ۔

موقت اور غیر موقت زمانِ انجام کے لحاظ سے موقت: جس عمل کے انجام دینے کا مخصوص زمان کا لحاظ ہو ۔

غیر موقت:جس کے انجام دینے کا کوئی مخصوص زمان نہ ہو جیسے سچ بولنا۔

موسع اور مضیق فرصت کے لحاظ سے موسع: واجب کے انجام دینے کی مقدار سے زیادہ وقت کا لحاظ ہو۔ جیسے روزانہ کی نمازیں۔

مضیق:واجب کے انجام دینے سے زیادہ زمان کا لحاظ نہ کیا ہو۔ جیسے روزہ ۔

تعبدی اور توصلی انجامِ تکلیف کی شرط کے لحاظ سے تعبدی:ایسا عمل جس کے انجام دینے قصدِ قربت کا لحاظ ضروری ہے۔

توصلی:ایسا عمل جس کے انجام دیتے وقت قصدِ قربت ضروری نہیں ہے ۔[3]

نفسی اور غیر نفسی متعلقِ تکلیف کے مطلوب ہونے کی کیفیفت کے لحاظ سے نفسی: ایسا واجب ہے جس کا وجوب خود اس عمل کی وجہ سے ہے اور کسی دوسرے واجب کا مقدمہ ہونے کی وجہ سے واجب نہیں ہے ۔

غیر نفسی:کسی دوسرے واجب عمل کا مقدمہ ہونے کی وجہ سے واجب ہے ۔جیسے نماز کیلئے وضو۔[4]

مشہور واجبات

اسلام کے اہم ترین واجبات میں فروع دین کو شمار کیا جاتا ہے ۔ فروع دین دس مشہور ہیں: اصلی مضمون: فروع دین

واجب نمازیں

تفصیلی مضمون: نماز
  1. یومیہ نمازیں:روزانہ کی واجب نمازوں کی تعداد پانچ ہے۔ جن میں کل سترہ رکعتیں پڑھی جاتی ہیں ان کی تفصیل یہ ہے :نماز فجر:دو رکعت،نماز ظہر:چار رکعت،نماز عصر:چار رکعت،نماز مغرب:تین رکعت،نماز عشا:چار رکعت ہے ۔قصر نماز:سفر میں مخصوص شرائط کے ساتھ چار رکعتی نمازوں کو دو رکعت کی صورت میں بجالایا جاتا ہے ۔
  2. نماز آیات:زمینی یا آسمانی غیر معمولی واقعات رونما ہونے سے واجب ہوتی ہیں۔جیسے سورج یا چاند گرہن،زلزلہ وغیرہ۔
  3. والدین کی بڑے بیٹے پر قضا نمازیں:مشہور فقہائے امامیہ کے مطابق باپ کے مرنے کے بعد بڑے بیٹے پر اپنے باپ کی قضا نمازوں کی ادائیگی واجب ہے جبکہ بعض فقہا کے نزدیک والدہ کی قضا نمازیں بھی واجب ہیں۔
  4. نماز میت:مسلمان کے مرنے اور اس کے دفنانے سے پہلے اس پر نماز میت یا جنازہ پڑھنا واجب ہے ۔
  5. نذر ،قسم یا نماز اجارہ (اجرت پر لینے کی وجہ سے واجب ہونے والی نماز) ۔
  6. نماز جمعہ
  7. نماز طواف:امام خمینی کے نزدیک۔[5]
  8. قضا نماز:کسی عذر کی وجہ سے وقت میں واجب نماز رہ جائے تو اس نماز کو وقت گزرنے کے بعد پڑھی جانے والی نماز قضا کہلاتی ہے ۔
  9. حج کی قربانی کی بجائے روزہ رکھنا۔[6]

مذکورہ دس فروع دین کے ذکر کرنے کا سبب انکی وہ اہمیت ہے جو آیات اور روایات میں بیان ہوئی ہے ۔ یہ بھی جان لینا چاہئے کہ فروع دین صرف دس کی تعداد میں منحصر نہیں ہے کیونکہ اس کے علاوہ بھی اہم واجبات ہیں جیسے ازدواج،قصاص،دیات ..... بھی فروع دین میں سے ہیں ۔اسلام کے کے فروع دین کا اگر اجمالی طور پر جائزہ لیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ ان میں سے کچھ انسان اور خدا کے فرمیان رابطہ بحال رکھنے کیلئے بنائے گئے ہیں جبکہ احکام انسانی زندگی کو منظم اور بہترین معاشرہ سازی کی بنیاد پر بنائے گئے ہیں ۔جیسے جہاد نماز جماعت و خمس وغیرہ ہیں ۔[7]

واجب روزے

تفصیلی مضمون: روزہ
  1. رمضان کے مہینے کے روزے
  2. قضا روزے:رمضان میں رہ جانے والے روزے کو کسی دوسرے وقت میں رکھنا۔
  3. والدین کے قضا روزے
  4. اعتکاف کے تیسرے دن کا روزہ
  5. حج میں قربانی کے بدلے رکھا جانے والا روزہ
  6. جان بوجھ کر روزہ توڑنے کی وجہ سے کفارے کا روزہ
  7. کسی سبب کی وجہ سے واجب ہونے والا روزہ مثلانذر ،قسم توڑنے یا منت کا روزہ

حوالہ جات

  1. ر.ک: ملكى اصفہانى، ص335؛ عبدالرحمن، ج‌3، ص 461
  2. مشكينى، ص277
  3. مشكينى، ص277
  4. فرہنگ نامہ اصول فقہ؛ ص865
  5. خمینی، ج1، ص135
  6. بقره: ۱۹۶:.... فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَی الْحَجِّ فَمَا اسْتَیسَرَ مِنَ الْهَدْی فَمَنْ لَمْ یجِدْ فَصِیامُ ثَلاثَةِ أَیامٍ فِی الْحَجِّ وَ سَبْعَةٍ إِذا رَجَعْتُمْ تِلْک عَشَرَةٌ کامِلَةٌ ذلِک لِمَنْ لَمْ یکنْ أَهْلُهُ حاضِرِی الْمَسْجِدِ الْحَرام... وہ ممکنہ قربانی دے دے اور قربانی نہ مل سکے تو تین روزے حج کے دوران اور سات واپس آنے کے بعد رکھے کہ اس طرح دس پورے ہوجائیں. یہ حج تمتع اور قربانی ان لوگوں کے لئے ہے جن کے اہلِ مسجدالحرام کے حاضر شمار نہیں ہوتے..... (196)--
  7. دائرة المعارف تشیّع، ج۲، ص۱۵۲.

مآخذ

  • خمینی، سید روح الله، تحریر الوسیلہ، قم: موسسہ مطبوعات دارالعلم، [بی‌تا].
  • عبدالرحمن، محمود، معجم المصطلحات و الالفاظ الفقہیہ.
  • مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی، فرہنگنامہ اصول فقہ، قم: پژوہشگاه علوم و فرہنگ اسلامی، ۱۳۸۹ش.
  • مشکینی، میرزا علی، اصطلاحات الأصول و معظم أبحاثها، در یک جلد، چ۶، قم: نشر الہادی، ۱۴۱۶ق.
  • ملکی اصفہانی، مجتبی، فرہنگ اصطلاحات اصول، چ۱، قم، ۱۳۷۹ش.