رجعت

نامکمل زمرہ
حوالہ جاتی اصول کی عدم رعایت
غیر جامع
تلخیص کے محتاج
ویکی شیعہ سے
شیعہ
اصول دین (عقائد)
بنیادی عقائدتوحیدعدلنبوتامامتمعاد یا قیامت
دیگر عقائدعصمتولایتمہدویت: غیبتانتظارظہوررجعتبداء • ......
فروع دین (عملی احکام)
عبادی احکامنمازروزہخمسزکاتحججہاد
غیر عبادی احکامامر بالمعروف اور نہی عن المنکرتولاتبرا
مآخذ اجتہادقرآن کریمسنت (پیغمبر اور ائمہ کی حدیثیں)عقلاجماع
اخلاق
فضائلعفوسخاوتمواسات • ...
رذائلكبرعُجبغرورحسد • ....
مآخذنہج البلاغہصحیفۂ سجادیہ • .....
اہم اعتقادات
امامتمہدویترجعتبداشفاعتتوسلتقیہعصمتمرجعیت، تقلیدولایت فقیہمتعہعزاداریمتعہعدالت صحابہ
شخصیات
شیعہ ائمہامام علیؑامام حسنؑامام حسینؑامام سجادؑامام باقرؑامام صادقؑامام کاظمؑامام رضاؑامام جوادؑامام ہادیؑامام عسکریؑامام مہدیؑ
صحابہسلمان فارسیمقداد بن اسودابوذر غفاریعمار یاسر
صحابیہخدیجہؑفاطمہؑزینبؑام کلثوم بنت علیاسماء بنت عمیسام ایمنام سلمہ
شیعہ علماادباعلمائے اصولشعراعلمائے رجالفقہافلاسفہمفسرین
مقدس مقامات
مسجد الحراممسجد النبیبقیعمسجدالاقصیحرم امام علیمسجد کوفہحرم امام حسینؑحرم کاظمینحرم عسکریینحرم امام رضاؑ
حرم حضرت زینبحرم فاطمہ معصومہ
اسلامی عیدیں
عید فطرعید الاضحیعید غدیر خمعید مبعث
شیعہ مناسبتیں
ایام فاطمیہمحرّم ، تاسوعا، عاشورا اور اربعین
اہم واقعات
واقعۂ مباہلہغدیر خمسقیفۂ بنی ساعدہواقعۂ فدکخانۂ زہرا کا واقعہجنگ جملجنگ صفینجنگ نہروانواقعۂ کربلااصحاب کساءافسانۂ ابن سبا
الکافیالاستبصارتہذیب الاحکاممن لایحضرہ الفقیہ
شیعہ مکاتب
امامیہاسماعیلیہزیدیہکیسانیہ


رجعت امام زمانہؑ کے ظہور کے وقت بعض فوت شدہ انسانوں کے زندہ ہونے کو کہا جاتا ہے۔ رجعت شیعہ عقائد میں سے ہے اور اس کے اثبات کے لئے مختلف آیات و روایات سے استناد کیا جاتا ہے۔ شیعہ علماء کے مطابق رجعت امام مہدی(عج) کے ظہور کے ساتھ رونما ہونگے لیکن اس کی کیفیت اور رجعت کرنے والوں کے بارے میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔

رجعت کے لغوی معنی

لفظ "رجعت" مصدر ہے جو مادہ "ر ـ ج ـ ع" سے مشتق ہے اور اس کے لغوی معنی بازگشت (= لوٹنے اور پلٹنے) کے ہیں۔[1] اس اعتقادی اصول کے لئے آیات قرآن اور احادیث میں مختلف الفاظ استعمال ہوئے ہیں جیسے: "رجعت"، "کرّۃ"، "ردّ" اور "حشر"؛ تاہم لفظ "رجعت" زیادہ مشہور ہے۔ لفظ "مصدر مَرَہ" ہے اور اس کے معنی ایک بار پلٹنے اور واپسی کے ہیں؛ جیسا کہ لسان عرب میں آیا ہے کہ رجعت مصدرِ مرہ ہے اور مادہ "رجوع" سے مشتق ہے۔[2] فیومی کہتا ہے: رجعت بفتح عین رجوع کرنے اور لوٹ آنے آنے کے ہیں اور جو رجعت پر یقین رکھتا ہے وہ دنیا میں پلٹ آنے پر ایمان رکھتا ہے۔[3]

اصطلاحی معنی

اصطلاح میں رجعت کے معنی یہ ہیں خداوند متعال ظہور امام مہدی(ع) کے وقت آپ(عج) کے بعض شیعوں یو زندہ کرے گا اور دنیا میں پلٹا دے گا تا کہ آپ(عج) کی مدد کریں اور آپ(عج) کی حکومت کا مشاہدہ کرنے کی سعادت پائیں۔ نیز آپ(عج) کے بعض دشمنوں کو پلٹا دے گا تا کہ دنیا کا عذاب چکھ لیں اور امام مہدی(عج) کی طاقت و شوکت کو دیکھ لیں اور جان لیں۔[4]

رجعت شیعہ عقائد میں

رجعت مسلمہ اور ناقابل شیعہ اعتقادات میں سے ہے۔ سید مرتضی اس سلسلے میں کہتے ہیں: "شیعہ امامیہ کا عقیدہ ہے کہ خداوند متعال امام مہدی(عج) کے ظہور کے زمانے میں مؤمنین کی ایک جماعت کو محشور کرے گا تا کہ حکومت حقہ کے ظہور سے بہرہ ور اور فیضیاب ہوں اور امام(عج) کی مدد کے عوض جزا اور ثواب پائیں اور دشمنوں کی ایک جماعت کو بھی پلٹا دے گا تا کہ ان سے انتقام لیا جائے"۔[5]

علامہ طباطبائی اپنی تفسیر المیزان میں لکھتے ہیں: غیر شیعہ فرقے ـ عامۃ المسلمین ـ اگرچہ ظہور مہدی(عج) پر یقین رکھتے ہیں اور اس کے سلسلے میں احادیث کو تواتر کے ساتھ نقل کرچکے ہیں لیکن وہ مسئلۂ رجعت کے منکر ہوئے ہیں اور اس کو شیعہ اعتقادی خصوصیات کا جزو سمجھے ہوئے ہوئے۔[6]

شیعہ فرقوں میں رجعت کا پس منظر

بعض تاریخی واقعات کے ضمن میں عراق کے بعض لوگوں کی طرف اشارہ ہوا ہے جو امام علی(ع) کی شہادت کے فورا بعد آپ(ع) کی دنیا میں رجعت اور آپس آنے پر یقین رکھتے تھے۔[7]

محمد بن حنفیہ کی وفات کے بعد[8]، امام موسی کاظم(ع) کی شہادت[9] اور امام عسکری(ع) کی شہادت[10] کے بعد بھی بعض شیعہ فرقے ان کی دنیا میں رجعت اور پلٹ آنے پر یقین رکھتے تھے۔

رجعت دیگر ادیان میں

عہد عتیق میں رجعت کے موضوع کی طرف اشارہ ہوا ہے منجملہ حزقیال نے بنی اسرائیل کے زندہ ہوجانے اور آخر الزمان میں داؤد(ع) کی حکومت کی طرف اشارہ کئے ہیں[11] امو دانیال نے بھی کہا ہے: آخر الزمان میں ـ وہ جو مٹی میں سو چکے ہیں ـ جاگ اٹھیں گے۔[12]

عہد جدید میں بھی قیامت ثانیہ سے پہلے، مسیح کی حکومت اور ان کے آباء و اجداد کے زندہ ہوجانے کی طرف اشارے ہوئے ہیں۔[13]

رجعت کی اسناد متواتر ہیں

رجعت کے بارے میں احادیث و اسناد اس قدر زیادہ ہیں کہ ہر قسم کے شک و شبہے کی نفی ہو جاتی ہے۔ علامہ مجلسی اپنی کتاب بحار الانوار میں 160 رجعت کے سلسلے می نازل اور وارد ہونے والی آیات و روایات کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور لکھتے ہیں: "ان لوگوں کے لئے ـ جو ائمہ(ع) کے کلام پر یقین رکھتے ہیں ـ شک و شبہے کی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ مسئلۂ رجعت حق ہے، اور اس باب میں ائمہ(ع) سے واردہ روایات متواتر ہیں اور تقریبا 200 روایات وارد ہوئی ہیں جو اس امر پر تصریح کرتی ہیں اور ان روایات کو 40 سے زائد اکابرین علماء اور محدثّین نے 50 سے زائد معتبر کتب میں ثبت و ضبط کیا ہے۔ :جن میں سے بعض کے نام درج ذیل ہیں:

مجلسی بعدازاں ان کتابوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو مسئلۂ رجعت پر تالیف ہوئی ہیں۔[14]

علاوہ ازیں بہت سی زیارات اور دعاؤں میں بھی رجعت کے عقیدے پر تاکید ہوئی ہے جیسے زیارت جامعہ، زیارت وارث، زیارت اربعین، زیارت آل یاسین، زیارت رجبیہ، دعائے وداع اور دعائے عہد[15]

نکتہ: شیعہ رجعت پر یقین و اعتقاد راسخ رکھنے کے باوجود رجعت کے منکرین کو کافر نہیں سمجھتے؛ کیونکہ رجعت مذہب شیعہ کی ضروریات و مسلمات میں سے ہے ۔۔۔ اور جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے رجعت پر ایمان، ایمان کامل اور حقیقی اسلام کی شروط میں سے ہے۔[16]

رجعت کرنے والے

بعض روایات میں واضح طور پر ان افراد کا تذکرہ آیا ہے جو رجعت کریں گے جیسے:

انبیاء میں سے:

اصحاب میں سے:

رجعت کے قرآنی دلائل

قرآن ـ جو مسلمانوں کے لئے قطعی ترین دلیل اور منبع و ماخذ ہے ـ نہ صرف رجعت کو ایک امر محال نہیں سمجھتا بلکہ اس کو ممکن قرار دیتا ہے اور سابقہ امتوں میں رجعت کے متعدد نمونوں کی طرف کئی آیتوں میں اشارہ کرتا ہے۔ یہ آیات دلالت کے لحاظ سے دو قسموں میں تقسیم ہوتی ہیں:

1۔ وہ آیات جو صراحت کے ساتھ رجعت پر دلالت کرتی ہیں جیسے:

الف۔ سورہ نمل آیت 83: اس آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

"وَيَوْمَ نَحْشُرُ مِن كُلِّ أُمَّةٍ فَوْجاً مِّمَّن يُكَذِّبُ بِآيَاتِنَا فَهُمْ يُوزَعُونَ (ترجمہ: اور جس دن ہم اٹھائیں گے ہر قوم میں سے ایک دستے کو ان میں سے جو ہماری آیتوں کو جھٹلاتے ہیں تو انہیں تنبیہہ کی جائے گی)[؟–83]
معصومین(ع) کی روایات میں رجعت کے اثبات کے لئے اس آیت سے استناد ہوا ہے: علامہ طباطبائی اس آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "آیت کے ظواہر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ "حشر" قیامت والے حشر سے مختلف ہے کیونکہ قیامت والا حشر امت کے ایک گروہ یا جماعت کے لئے مختص نہیں ہے بلکہ تمام امتیں اس دن محشور ہونگی حتی کہ ارشاد ہوا ہے کہ "وَحَشَرْنَاهُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْهُمْ أَحَداً (ترجمہ: اور ان سب کو اکٹھا کرکے لائیں گے تو ان میں سے کسی کو چھوڑا نہیں ہو گا۔)[؟–47]" اور کوئی بھی باقی نہیں رہے گا۔ جبکہ اس آیت کریمہ میں ہے کہ "ہم امت سے ایک جماعت یا ایک فوج اور گروہ کو اٹھائیں گے۔۔۔"۔ وہ اپنے مدعا کے اثبات کے لئے مزید لکھتے ہیں: "ہمارے اس مدعا کی دلیل ـ کہ یہ حشر قیامت والے حشر سے مختلف ہے ـ یہ ہے کہ یہ آیت اور بعد کی دو آیتیں "دابۃ الارض" کے برآمد ہونے والی آیت کے بعد آئی ہیں؛ جو خود اس بات کا ثبوت ہے یہ حشر قیامت سے قبل واقع ہوگا۔ قیامت کی داستان بعض کی آیات کریمہ میں بیان ہوئی جہاں فرمایا جاتا ہے: "وَيَوْمَ يُنفَخُ فِي الصُّورِ (ترجمہ: اور جس دن صور پھونکا جائے گا۔)[؟–73]"۔ اور پھر اس دن کے واقعات کے اوصاف بیان ہوتے ہیں چنانچہ یہ نہیں ہوسکتا کہ قیامت کے اصل موضوع کے بیان سے قبل متعلقہ واقعات میں سے ایک کو پیشگی بیان کیا جائے۔ کیونکہ واقعات کے وقوع کی ترتیب تقاضا کرتی ہے کہ اگر ہر امت میں سے ایک گروہ کا حشر قیامت کے واقعات میں سے ہو تو اس کو نفخ صور کے بعد کی آیات میں بیان کیا جائے۔ لیکن خداوند متعال نے ایسا نہیں کیا بلکہ نفخ صورت سے قبل ہر امت کی ایک فوج کے حشر کا تذکرہ کیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حشر قیامت کے واقعات میں سے نہیں ہے۔[18] اسی آیت کریمہ کی تفسیر میں بھی ائمۂ معصومین علیہم السلام سے متعدد روایات نقل ہوئی ہیں جن میں اس آیت کو امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کے زمانے میں رجعت کے وقوع کی محکم دلیل قرار دیا گیا ہے۔[19][20][21]

ب۔ سوره مؤمن‎ آیت 11: اس آیت میں خداوند متعال کا ارشاد ہے:

"قَالُوا رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَأَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوبِنَا فَهَلْ إِلَى خُرُوجٍ مِّن سَبِيلٍ (ترجمہ: انہوں نے کہا اے ہمارے مالک! تو نے ہمیں دو دفعہ موت دی اور دو دفعہ زندہ کیا تو ہم اپنے گناہوں کا اقرار کرتے ہیں اب کیا نکلنے کی کوئی صورت ہے؟۔)[؟–11][22]

2۔ وہ آیات جو امکان رجعت پر دلالت کرتی ہیں:

قرآن کریم کی بعض آیات ان افراد کی طرف اشارہ کرتی ہیں جو مرنے کے بعد زندہ ہوئے ہیں اور ان سے نہ صرف رجعت کا اثبات ہوتا ہے بلکہ قیامت کے امکان کی گواہی بھی ملتی ہے۔[23]:

* سورہ بقرہ آیت 259: اس آیت میں ایک شخص کے 100 سال بعد زندہ ہوجانے کا تذکرہ ہوا ہے:

"أَوْ كَالَّذِي مَرَّ عَلَى قَرْيَةٍ وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَى عُرُوشِهَا قَالَ أَنَّىَ يُحْيِـي هَـَذِهِ اللّهُ بَعْدَ مَوْتِهَا فَأَمَاتَهُ اللّهُ مِئَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ قَالَ لَبِثْتُ يَوْماً أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ قَالَ بَل لَّبِثْتَ مِئَةَ عَامٍ فَانظُرْ إِلَى طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمْ يَتَسَنَّهْ وَانظُرْ إِلَى حِمَارِكَ وَلِنَجْعَلَكَ آيَةً لِّلنَّاسِ وَانظُرْ إِلَى العِظَامِ كَيْفَ نُنشِزُهَا ثُمَّ نَكْسُوهَا لَحْماً فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ قَالَ أَعْلَمُ أَنَّ اللّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ[؟–259]

* سورہ بقرہ آیت 260: اس آیت میں ذبح شدہ پرندوں کے زندہ ہوجانے کی طرف اشارہ ہوا ہے:

"وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِـي الْمَوْتَى قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِن قَالَ بَلَى وَلَـكِن لِّيَطْمَئِنَّ قَلْبِي قَالَ فَخُذْ أَرْبَعَةً مِّنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَّ إِلَيْكَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلَى كُلِّ جَبَلٍ مِّنْهُنَّ جُزْءاً ثُمَّ ادْعُهُنَّ يَأْتِينَكَ سَعْياً وَاعْلَمْ أَنَّ اللّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (ترجمہ: اور جب کہا ابراہیم نے اے پروردگار مجھے دکھلا کہ کیوں کر تو مردوں کو زندہ کرتا ہے؟اس نے کہاکیا تمہیں ایمان نہیں ہے؟کہا کیوں نہیں مگر اس لیے کہ میرے دل کو قرار آئے، کہاتو لے لو چار پرندے اور انہیں اکٹھا کر لو اپنے پاس پھر رکھ دو ہر پہاڑ پر اس کا ایک ٹکڑا۔ پھر پکارو انہیں، تو وہ آئیں گے تمہاری طرف دوڑتے ہوئے اورجانے رہو کہ اللہ زبردست ہے حکمت والا۔)[؟–56]

*سورہ کہف آیت 25: اس آیت میں خداوند متعال اصحاب کہف کی داستان اور 309 سال بعد ان کے زندہ ہوجانے کی داستان بیان فرماتا ہے:

"وَلَبِثُوا فِي كَهْفِهِمْ ثَلَاثَ مِائَةٍ سِنِينَ وَازْدَادُوا تِسْعاً (ترجمہ: اور وہ لوگ اپنے غار میں رہے تین سو برس اور بڑھ گئے اس پر نو۔)[؟–25]"

* سورہ بقرہ آیت 56:

"ثُمَّ بَعَثْنَاكُم مِّن بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (ترجمہ: پھر تمہارے مرنے کے بعد تمہیں ہم نے دوبارہ جلا دیا (= زندہ کیا) کہ شاید اب تم شکر گزار ثابت ہو۔)[؟–56]"

"وَإِذْ قَتَلْتُمْ نَفْساً فَادَّارَأْتُمْ فِيهَا وَاللّهُ مُخْرِجٌ مَّا كُنتُمْ تَكْتُمُونَ (72) فَقُلْنَا اضْرِبُوهُ بِبَعْضِهَا كَذَلِكَ يُحْيِي اللّهُ الْمَوْتَى وَيُرِيكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُون (73) (ترجمہ: اور جب کہ تم نے ایک شخص کو قتل کر ڈالا تھا پھر تم اس کے بارے میں جھگڑ رہے تھے اور اللہ ظاہر کرنے والا تھا اس کا جسے تم چھپا رہے تھے ٭ تو ہم نے کہا اسی گائے کا ٹکڑا اس پر مارو۔ اس طرح اللہ مردوں کو جلاتا ہے۔ اور تمہیں اپنی قدرت کی نشانیاں دکھاتا ہے شاید اب بھی تم میں عقل آ جائے۔)[؟–72-73]َ}}

* سورہ بقرہ آیت 243:

"أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ خَرَجُواْ مِن دِيَارِهِمْ وَهُمْ أُلُوفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ فَقَالَ لَهُمُ اللّهُ مُوتُواْ ثُمَّ أَحْيَاهُمْ... (ترجمہ: کیا نہیں دیکھا تم نے ان کو جو مرنے کے ڈر سے اپنے گھروں سے نکلے ہزاروں کی تعداد میں تو کہا انہیں اللہ نے مر جاؤ پھر انہیں زندہ کیا...)[؟–243]"

* سورہ آل عمران آیت 49: اس آیت میں خداوند متعال حضرت عیسی(ع) کے زبانی ارشاد فرماتا ہے:

"...قَدْ جِئْتُكُم بِآيَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ أَنِّي أَخْلُقُ لَكُم مِّنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ فَأَنفُخُ فِيهِ فَيَكُونُ طَيْراً بِإِذْنِ اللّهِ وَأُبْرِىءُ الأكْمَهَ والأَبْرَصَ وَأُحْيِـي الْمَوْتَى بِإِذْنِ اللّهِ۔۔۔ (ترجمہ: ...میں تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے خاص معجزہ لے کر آیا ہوں کہ میں تمہارے لیے مٹی سے پرند کی سی صورت بناتا ہوں پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ بحکم خدا پرند بن جاتا ہے اور پیدائشی اندھے اور کوڑھے کو شفا دیتا ہوں اور اللہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کرتا ہوں...)[؟–49]

* سورہ مائدہ آیت 110:

"إِذْ قَالَ اللّهُ يَا عِيسى ابْنَ مَرْيَمَ اذْكُرْ نِعْمَتِي عَلَيْكَ وَعَلَى وَالِدَتِكَ إِذْ أَيَّدتُّكَ بِرُوحِ الْقُدُسِ تُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلاً وَإِذْ عَلَّمْتُكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالإِنجِيلَ وَإِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ بِإِذْنِي فَتَنفُخُ فِيهَا فَتَكُونُ طَيْراً بِإِذْنِي وَتُبْرِىءُ الأَكْمَهَ وَالأَبْرَصَ بِإِذْنِي وَإِذْ تُخْرِجُ الْمَوتَى بِإِذْنِي (ترجمہ: جب کہے گا اللہ اے عیسیٰ فرزند مریم ! یاد کرو میری نعمت کو جو تم پر تھی اور تمہاری ماں پر، جب میں نے تمہیں تقویت پہنچائی روح القدس کے ساتھ کہ تم، لوگوں سے باتیں کرتے تھے گہوارہ میں اور ادھیڑ عمر میں اور جب میں نے تمہیں قانون شریعت اور حکمت اور توریت اور انجیل کا علم دیا اور جب تم مٹی سے پرندے کی سی شکل بناتے تھے۔ اس کے بعد اس میں پھونک مارتے تھے تو وہ میرے حکم سے پرندہ بن جاتی تھی اور تم پیدائشی اندھے اور کوڑھی کو اچھا کرتے تھے میرے حکم سے اور جب تم مردوں کو جلا دیتے تھے میرے حکم سے...)[؟–110]...

رجعت کے دلائل منابع حدیث میں

رجعت ان موضوعات میں سے جس پر ائمۂ شیعہ(ع) نے ایک اعتقادی اصول کے عنوان سے تاکید کی ہے۔ رسول اکرم(ص) نے فرمایا: اس خدا کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے کہ تم ان ساری سنتوں کا سامنا کرو گے جو سابقہ امتوں میں رائج تھیں، اور جو کچھ ان امتوں میں جاری ہوا ہوا من و عن اس امت میں جاری ہوگا یہاں تک کہ نہ تم ان سنتوں سے انحراف کرو گے اور نہ ہی وہ سنتیں جو بنی اسرائیل میں رائج تھیں تمہیں نظر انداز نہیں کریں گی۔[24]۔[25]

اس حدیث کے مطابق جو کچھ سابقہ امتوں میں وقوع پذیر ہوا ہے اس امت میں بھی وقوع پذیر ہوگا اور ان سنتوں میں سے ایک "مسئلۂ رجعت" اور "مردوں کا زندہ ہوجانا" ہے جو مذکورہ آیات کے مطابق واقع ہوا ہے اور اس سنت کو اس امت میں بھی واقع ہونا ہے۔

امام صادق(ع) نے ایک حدیث کے ضمن میں رجعت کو ایمان کی شرطوں میں قرار دیا ہے۔[26] نیز امام باقر(ع) اور امام صادق(ع) نے ایام اللہ[27] کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: "ایام اللہ میں مہدی موعود کے ظہور، یوم رجعت اور روز قیامت شامل ہیں۔[28]۔[29]

امام رضا(ع) ایمان میں اہم اور مؤثر عقائد کا ذکر کرتے ہوئے رجعت کو ان عقائد کے زمرے میں شمار کرتے ہیں اور اس کو توحید، نبوت، امامت، معراج اور قبر میں سوال و جواب پر شیعہ عقائد کا تسلسل قرار دیتے ہیں۔یکی از عقاید مهم و موثر در ایمان را اعتقاد به رجعت ذکر نموده و آن را در راستای اعتقاد به توحید و نبوت و امامت و معراج و سوال قبر قرار داده است۔[30]

نیز مروی ہے کہ مامون عباسی نے امام رضا(ع) کی خدمت میں عرض کیا: "یا اباالحسن! آپ رجعت کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ امام(ع) نے فرمایا: رجعت حق ہے، اور سابقہ امتوں کو اس کا سامنا پڑا ہے۔ قرآن بھی رجعت پر مہر تصدیق ثبت فرماتا ہے اور رسول اللہ(ص) نے فرمایا ہے: پس جو پیش آتا ہے اس امت کو وہ پیش آئے گا بغیر کسی کمی اور بیشی کے، وہ سب کچھ جو سابقہ امتوں پر گذرا ہے، اور فرمایا ہے: جب میرے فرزندوں میں سے مہدی(عج) ظہور کرے گا عیسی(ع) آسمان سے آتر آئیں گے اور آن جناب(عج) کی اقتدا میں نماز ادا کریں گے۔ مامون نے عرض کیا: آخر کار ہوگا کیا؟ فرمایا: حق اہل حق کی طرف پلٹے گا۔[31]

رجعت کے موضوع پر لکھی گئی کتب

شیعہ تعلیمات میں رجعت کا رتبہ بہت نمایاں ہے اور اسی بنا پر شیعہ علماء اور محدثین نے قدیم الایام سے اس موضوع کو خاص توجہ دی ہے اور متعدد کتب اور رسائل کی تالیف کا اہتمام کیا ہے گوکہ یہ افسوسناک امر ہے کہ ان میں سے بہت سی کتب وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ضائع ہو چکی ہیں اور ان کا صرف نام کتب رجال اور فہرست میں مذکور ہے۔[32]

آقا بزرگ طہرانی نے اپنی کتاب الذریعہ الی تصانیف الشیعہ میں 30 کتابوں کا تذکرہ کیا ہے جو مختلف ادوار میں اس موضوع پر لکھی گئی ہیں۔[33]۔[34]۔[35]۔[36]

رجعت کے بارے میں شائع ہونے والی کتابوں میں بعض اہم ترین کتب کے نام بمع تعارف:

  1. الرجعہ، تالیف: میرزا محمد مؤمن بن دوست محمد حسینی استرآبادی (شہید مکہ بسال 1088ہجری قمری)۔ تحقیق: فارس حسّون کریم، طبع دوئم: قم، انوارالهدی، 1417ہجری قمری۔ اس کتاب میں تمام امور میں ائمہ(ع) کی طرف رجوع کرنے اور ان کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کی ضرورت کے بارے میں مختصر دیباچے کے بعد رجعت کے بارے میں 100 سے زائد احادیث نقل ہوئی ہیں۔
  2. الایقاظ من الہجعۃ بالبرہان علی الرجعہ، تالیف: شیخ محمد بن حسن حرّ عاملی (متوفی سنہ 1104ہجری قمری)۔ شیخ حر عاملی نے دسوں آیات کریمہ اور 170 سے زائد احادیث کے حوالے دیئے ہیں اور رجعت کے سلسلے میں دیگر دلائل پیش کئے ہیں۔
  3. رجعت، تالیف: محمد باقر مجلسی (متوفی سنہ 1111 ہجری)۔ علامہ مجلسی نے یہ کتاب فارسی میں تالیف کی ہے اور اس میں ظہور امام مہدی(عج) اور موضوع رجعت کے بارے میں 14 احادیث نقل ہوئی ہیں۔ یاد رہے کہ علامہ مجلسی نے بحار الانوار میں بھی رجعت پر مفصل بحث کی ہے اور اس سلسلے میں 200 سے زائد حدیثوں کا حوالہ دیا ہے۔[37]
  4. الشیعـۃ والرجعۃ: یہ ایک علمی، تاریخی اور ادبی کتاب ہے جس میں مسئلۂ رجعت پر مفصل بحث و تحقیق ہوئی ہے۔ یہ محمد رضا طبسی نجفی (متوفی سنہ 1405ہجری قمری) کی تالیف ہے جو نجف اشرف کے الطبعۃ الحیدریہ نے سنہ 1375ہجری قمری میں شائع کی ہے۔ اس کتاب میں تمہیدی مباحث کے بعد چند فصلوں کے ضمن میں رجعت قرآن، دعاؤں اور زیارات نیز اجماع فقہاء اور مشاہیر کے کلام کی روشنی میں زیر بحث لائی گئی ہے۔ اس کتاب کی پہلی فصل میں قرآن کریم کی 174 آیات کریمہ کا حوالہ دیا گیا ہے جنہیں احادیث میں رجعت سے تاویل کیا گیا ہے اور متعلقہ روایات بھی نقل کی گئی ہیں۔

الشيعة والرجعة حالیہ برسوں میں بھی اس سلسلے میں کتب تالیف ہوئی ہیں جن میں سے ذیل کی چند کتب کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے:

  1. رجعت یا دولت کریمۂ خاندان وحی(ع)، محمد خادمی شیرازی, تصحیح علی‌اکبر مہدی پور، ط دوئم، قم، مؤلف، 1411ہجری قمری۔
  2. رجعت از دیدگاه عقل، قرآن، حدیث، حسن طارمی، زیر نگرانی آیت اللہ جعفر سبحانی تبریزی، طبع نہم: قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1383ہجری شمسی۔
  3. رجعت یا بازگشت بہ جہان، محمدرضا ضمیری، طبع اول: تہران، موعود، 1378ہجری شمسی۔
  4. بازگشت بہ دنیا در پایان تاریخ، خدامراد سلیمیان، چاپ اوّل: قم، بوستان کتاب، 1384ہجری شمسی۔
  5. الرجعـۃ أوالعودة إلی الحیاة الدنیا بعد الموت، ط اوّل: قم، مرکز الرسالـہ، 1418ہجری قمری۔[38]

متعلقہ مآخذ

حوالہ جات

  1. مطر، المعجم الوسیط، ذیل ماده رجع۔
  2. ابن منظور، لسان العرب ج8، ص114۔
  3. فیومی، مصباح المنیر، ص84۔
  4. طبرسی، مجمع البیان، ج7، ص406۔
  5. سید مرتضی، رسائل الشریف المرتضی، ج1 ص125۔
  6. الطباطبائي، المیزان، ج2، ص106۔
  7. طبری، جامع البیان عن تاویل آی القرآن، ج14، ص140۔
  8. نوبختی، فرق الشیعه، ص25
  9. نوبختی، وہی ماخذ، ص67۔
  10. نوبختی، وہی ماخذ، ص79-80۔
  11. عهد عتیق 37: 21-27
  12. عهد عتیق 12: 1-3۔
  13. مکاشفه یوحنا 20: 4-6
  14. مجلسی، بحارالانوار، ج53، ص96 و 122۔
  15. قمی، شیخ عباس، مفاتیح الجنان، زیارت جامعہ کبیره، آل یس و دعای عهد۔
  16. مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، ج15، ص593۔
  17. بحارالانوار، ج53، ص61 و 105و108۔
  18. الطباطبائي، المیزان، ج15، ص570۔
  19. قمی، تفسیر القمی، ج2 ص36۔
  20. بحارالانوار، ج53، ص51۔
  21. البحرانی، تفسیر البرهان، ج6، ص36۔
  22. بحار الانوار، ج53، ص56 و 116 و 144۔
  23. مجلسی، بحار الانوار، ج53، ص142۔
  24. عياشى، تفسیر العیاشی، ج1، ص303 ذیل آیت 19 سورہ انشقاق: لَتَرْكَبُنَّ طَبَقاً عَن طَبَقٍ۔
  25. قمى، تفسیر القمی، ج، 2، ص413۔ ذیل آیت مذکورہ۔
  26. مجلسی، بحارالانوار، ج53، ص122۔
  27. ایام اللہ کا تذکرہ سورہ ابراہیم کی آیت 5 اور سورہ جاثیہ کی آیت 14 میں ہوا ہے۔
  28. مجلسی، بحار الانوار، ج53، ص63۔
  29. مجلسی، وہی ماخذ، ج51، ص50و45۔
  30. صدوق، عیون اخبار الرضا(ع)، ج1، ص218۔
  31. صدوق، وہی ماخذ۔
  32. [ www.ShiaOnlineLibrary.comالرجعـة أو العود إلی الحیاة الدنیا بعد الموت، ص46-47]۔
  33. آقا بزرگ طهرانی، الذریعـة إلی تصانیف الشیعـة، ج1، صص91-95۔
  34. وہی مؤلف، وہی ماخذ، ج7، ص116۔
  35. وہی مؤلف، وہی ماخذ، ج10، صص161-163۔
  36. وہی مؤلف، وہی ماخذ، ج11، ص187۔
  37. مجلسی، بحارالأنوار، ج 53، باب الرجعـة، صص 39-144۔
  38. مجله موعود، شهریور 1387، شماره 91، رجعت در آثار اسلامی۔

مآخذ

  • قرآن کریم؛ ترجمہ قرآن سید علی نقی لکھنوی (نقن)۔
  • ابن منظور، محمد بن مکرم، لسان العرب، تحقیق: احمد فارس صاحب الجوائب، بیروت، دار صادر و دار بیروت۔ 1388ہجری قمری۔
  • البحراني، السيد ہاشم، البرہان في تفسير القران ۔ حققہ وعلق عليہ: لجنۃ من العلماء ۔ منشورات مؤسسۃ الاعلمي للمطبوعات، الطبعۃ الثانيۃ 2006عیسوی۔
  • سید مرتضی، علم‌الہدی، علی بن حسین، رسائل الشریف المرتضی، تحقیق سیدمہدی رجائی، ناشر: دارالقرآن، مطبعۃ السید الشہداء(ع)۔ 1405ہجری قمری۔
  • صدوق، محمد بن على بن الحسين بن بابويہ القمى، تصحیح و المقدمۃ: حسين الاعلمي ۔ مؤسسۃ الاعلمي للمطبوعات بيروت - لبنان 1404ہجری قمری / 1984عیسوی۔
  • الطباطبائی، محمد حسین، المیزان فی التفسیر القرآن، منشورات جماعۃ المدرسین فی الحوزۃ العلمیۃ فی قم المقدسہ۔
  • الطبری، محمد بن جریر، جامع البيان عن تأويل آي القرآن (تفسیر الطبری) ۔ قدم لہ الشيخ خليل الميس ۔ دار الفكر للطباعۃ والنشر والتوزيع ۔ 1415ہجری قمری / 1995 عیسوی۔
  • عياشى، محمد بن مسعود، تفسیر عیاشی، تہران، المكتبۃ العلميۃ الاسلاميۃ، 1380ہجری قمری۔
  • قمى، على بن ابراہيم بن ہاشم، تفسیر قمی، تصحیح و مقدمہ: الموسوي الجزائري، السيد طيب، مطبعۃ النجف ـ نجف۔ 1387ہجری قمری۔
  • الفيومي المقرئ، أحمد بن محمد بن علي، المصباح المنير في غريب الشرح الكبير، الناشر: مكتبۃ لبنان۔ 1987عیسوی۔
  • قمی، شیخ عباس، مفاتیح الجنان۔
  • کتاب مقدس، عہد عتیق۔
  • المجلسي، محمد باقر، بحار الانوار الجامعۃ لدرر أخبار الائمۃ الاطہار ۔ مؤسسۃ الوفاء بيروت - لبنان ۔ 1403ہجری قمری / 1983عیسوی۔
  • مرکز الرسالۃ، الرجعـۃ أو العود إلی الحیاۃ الدنیا بعد الموت، موسسہ تحقیقات و نشر معارف اہل البیت(ع)۔ مرکز الرسالـۃ، چاپ اول، قم، 1418ہجری قمری۔
  • مطر، عبدالعزیز، المعجم الوسیط، قاہرہ ۔ 1960عیسوی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر و ہمکاران، تفسیر نمونہ، دارالکتب الاسلامیہ ۔ تہران . چاپ سی و ششم 1387ہجری شمسی۔
  • النوبختی، ابو محمد الحسن بن موسی، فرق الشیعۃ، مطبعہ الدولۃ ۔ استانبول ۔ لجمعیۃ المستشرقین ۔ 1931عیسوی۔