مندرجات کا رخ کریں

"سورہ قریش" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی شیعہ سے
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
imported>Abbashashmi
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
{{سورہ||نام = قریش |ترتیب کتابت = 106 | پارہ = 30 |آیت = 4 |مکی/ مدنی = مکی | ترتیب نزول = 29 |اگلی = [[سورہ ماعون|ماعون]] |پچھلی = [[سورہ فیل|فیل]] |لفظ = 17 |حرف = 76|تصویر=سوره قریش.jpg}}
{{سورہ||نام = قریش |ترتیب کتابت = 106 | پارہ = 30 |آیت = 4 |مکی/ مدنی = مکی | ترتیب نزول = 29 |اگلی = [[سورہ ماعون|ماعون]] |پچھلی = [[سورہ فیل|فیل]] |لفظ = 17 |حرف = 76|تصویر=سوره قریش.jpg}}


'''سورہ قریش''' یا '''ایلاف''' [[قرآن کریم|قرآن]] کے تیسویں پارے میں واقع <small>106</small>ویں  اور نزول کے لحاظ سے  [[ مکی و مدنی سورتیں|مکی سورت]] ہے۔ اس ورت میں قریش متعلق بات ہوئی ہے اسی وجہ سے اسے  قریش یا ایلاف کا نام دیا گیا ہے۔ اس سورت میں [[خدا]] کی طرف سے [[اسباب نزول|نازل]] ہونے والی  قریش پر نعمتوں اور ان نعمتوں کے مقابلے میں ان کی ذمہ داریوں کا بیان مذکور ہے۔ [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیامبر(ص)]] سے منقول ہے کہ سورہ قریش کی [[تلاوت]] کرنے والے کو خداوند کریم  [[مسجد الحرام]] میں حالت اعتکاف کے ساتھ [[طواف]] کرنے والے شخص کی مانند دس نیکیوں سے نوازے گا۔
''' قُرَیش ''' ، [[ حجاز ]] کے عرب قبائل میں سے اہم ترین اور مشہور ترین قبیلہ تھا کہ [[ پیغمبر اکرمؐ ]] کا تعلق بھی اسی قبیلے سے ہے۔ زیادہ تر نسب شناسوں کی یہی رائے ہے کہ پیغمبرؐ کے بارہویں جد [[ نضر بن کنانہ ]] کا لقب قریش تھا؛ اس لیے جس بھی خاندان کا نسب پیغمبرؐ کے بارہویں جد ’’نضر بن کنانہ‘‘ تک پہنچتا تھا، وہ ''' قُرَشی ''' کہلاتا اور اس کا شمار قبیلہ قریش سے ہوتا تھا۔
بعض ماہر نسب شناسوں نے پیغمبرؐ کے دسویں جد [[ فھر بن مالک ]] کا لقب ’’قریش‘‘ قرار دیا ہے اور ان کی نسل کو قریشی قرار دیتے ہیں۔ [[ قرآن ]] میں ایک [[ سورت ]] کا نام [[ قریش ]] ذکر ہوا ہے۔
== نام رکھنے کی علت ==
قریش نام رکھنے کی علت کے بارے میں مختلف وجوہات ذکر ہوئی ہیں، جو یہ ہیں:
* اول: بعض نے کہا ہے کہ پیغمبرؐ کے جد ’’فھر‘‘ کا لقب تھا۔ لہٰذا ان کی اولاد کو ان سے نسبت دی گئی ہے۔ <ref> ابن جوزی، المنتظم، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۲۲۶.</ref>
* دوم: بعض نے کہا ہے کہ ’’قریش نضر بن کنانہ‘‘ کا لقب تھا۔ لہٰذا ان کی اولاد اور نسل پر اس کا اطلاق کیا گیا ہے۔ <ref> ابن جوزی، المنتظم، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۲۲۸.</ref> نضر کو اس اعتبار سے بھی قریش کہا جاتا تھا کہ وہ ضرورت مندوں کو تلاش میں رہتے تھے چونکہ تقریش کا معنی ’’تفتیش(تلاش)‘‘ ہے اس لیے ان کا لقب قریش ہو گیا۔ <ref> ابن جوزی، المنتظم، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۲۲۸-۲۲۹.</ref>
* سوم: کہا جاتا ہے کہ ’’قرش‘‘ کا معنی ’’کسب‘‘ ہے چونکہ قریش کا کام کھیتی باڑی نہیں تھا اور ان کا پیشہ تجارت تھا، اس لیے یہ لقب ان سے مخصوص ہو گیا۔ <ref> یاقوت حموی، معجم البلدان، ۱۹۹۵م، ج۴، ص۳۳۷؛ بلاذری،انساب الاشراف، ۱۹۹۶م، ج۱۱، ص۸۰.</ref>
* چہارم: بعض نے کہا ہے کہ قریش کا معنی ادھر اُدھر سے جمع ہونے والے ہیں۔ قریش کو قریش کہنے کی وجہ یہ ہے کہ جب قصی بن کلاب کا مکہ پر غلبہ ہوا تو انہوں نے مکہ کے اطراف میں بکھرے ہوئے مختلف خاندانوں کو اکٹھا کیا اور انہیں مکہ میں رہنے کیلئے جگہ فراہم کی۔ <ref> یاقوت حموی، معجم البلدان، ۱۹۹۵م، ج۴، ص۳۳۶.</ref>


==معرفی==
==معرفی==

نسخہ بمطابق 22:47، 6 دسمبر 2018ء

فیل سورۂ قریش ماعون
ترتیب کتابت: 106
پارہ : 30
نزول
ترتیب نزول: 29
مکی/ مدنی: مکی
اعداد و شمار
آیات: 4
الفاظ: 17
حروف: 76

قُرَیش ، حجاز کے عرب قبائل میں سے اہم ترین اور مشہور ترین قبیلہ تھا کہ پیغمبر اکرمؐ کا تعلق بھی اسی قبیلے سے ہے۔ زیادہ تر نسب شناسوں کی یہی رائے ہے کہ پیغمبرؐ کے بارہویں جد نضر بن کنانہ کا لقب قریش تھا؛ اس لیے جس بھی خاندان کا نسب پیغمبرؐ کے بارہویں جد ’’نضر بن کنانہ‘‘ تک پہنچتا تھا، وہ قُرَشی کہلاتا اور اس کا شمار قبیلہ قریش سے ہوتا تھا۔ بعض ماہر نسب شناسوں نے پیغمبرؐ کے دسویں جد فھر بن مالک کا لقب ’’قریش‘‘ قرار دیا ہے اور ان کی نسل کو قریشی قرار دیتے ہیں۔ قرآن میں ایک سورت کا نام قریش ذکر ہوا ہے۔

نام رکھنے کی علت

قریش نام رکھنے کی علت کے بارے میں مختلف وجوہات ذکر ہوئی ہیں، جو یہ ہیں:

  • اول: بعض نے کہا ہے کہ پیغمبرؐ کے جد ’’فھر‘‘ کا لقب تھا۔ لہٰذا ان کی اولاد کو ان سے نسبت دی گئی ہے۔ [1]
  • دوم: بعض نے کہا ہے کہ ’’قریش نضر بن کنانہ‘‘ کا لقب تھا۔ لہٰذا ان کی اولاد اور نسل پر اس کا اطلاق کیا گیا ہے۔ [2] نضر کو اس اعتبار سے بھی قریش کہا جاتا تھا کہ وہ ضرورت مندوں کو تلاش میں رہتے تھے چونکہ تقریش کا معنی ’’تفتیش(تلاش)‘‘ ہے اس لیے ان کا لقب قریش ہو گیا۔ [3]
  • سوم: کہا جاتا ہے کہ ’’قرش‘‘ کا معنی ’’کسب‘‘ ہے چونکہ قریش کا کام کھیتی باڑی نہیں تھا اور ان کا پیشہ تجارت تھا، اس لیے یہ لقب ان سے مخصوص ہو گیا۔ [4]
  • چہارم: بعض نے کہا ہے کہ قریش کا معنی ادھر اُدھر سے جمع ہونے والے ہیں۔ قریش کو قریش کہنے کی وجہ یہ ہے کہ جب قصی بن کلاب کا مکہ پر غلبہ ہوا تو انہوں نے مکہ کے اطراف میں بکھرے ہوئے مختلف خاندانوں کو اکٹھا کیا اور انہیں مکہ میں رہنے کیلئے جگہ فراہم کی۔ [5]

معرفی

  • وجہ تسمیہ

اس سورہ میں خدا کے قریش سے ارتباط کے بیان ہونے کی وجہ سے قریش یا ایلاف نام دیا گیا ہے۔[6]

  • مقام اور ترتیب نزول

سورہ قریش قرآن کی مکی سورتوں کا حصہ ہے اور ترتیب نزول کے لحاظ سے انتیسویں سورہ ہے جو رسول اللہ پر نازل ہوئی ہے۔ یہ سورت مُصحَف کی موجودہ ترتیب کے مطابق تیسویں سیپارے میں 106ویں نمبر پر ہے۔[7]

  • تعدداد آیات و کلمات

سورہ قریش کی 4آیتیں، 17 کلمات اور 76 حروف ہیں۔ حجم کے لحاظ سے یہ چھوٹے سورتوں کا حصہ ہے۔[8]

مضامین

سورہ قریش کے ابتدا سے آخر تک قبیلہ قریش کے بارے میں گفتگو کر رہی ہے۔ قریش پر نازل ہونے والی الہی نعمتوں اور اس اس کے مقابلے میں ان کے فرائض بیان کرتی ہے کہ خداوند کی اس وابستگی کا محور اور بنیاد خدا کی عبادت اور کعبہ کا صاحب ہونا ہے۔ خدا نے انہیں گرسنگی میں پیٹ بھرنے کیلئے کھانا اور نا امنی کو امن و سلامتی میں تبدیل کیا۔[9]


سورہ فیل اور قریش کا ایک سورہ ہونا

مفسرین معتقد ہیں کہ سورہ فیل اور قریش ایک سورہ ہیں۔ اسکی وجہ ان دونوں سورتوں میں مذکور مطالب کا ایک جیسا ہونا ہے۔ نماز کی ایک رکعت میں مکمل ایک سورت پڑھے جانے کی شرط کی بنا پر اگر کوئی نمازی سورت قریش کو پڑھتا ہے تو اس کیلئے ضروری ہے کہ سورت فیل کو بھی اس کے ساتھ پڑھے۔[10]

فضائل اور خواص

  • پیامبر(ص) سے مروی ہے جو کوئی سورت قریش کی تلاوت کرے گا خدا اسے مسجد الحرام میں حالت اعتکاف کے ساتھ کعبہ کے ہر طواف کے بدلے میں دس نیکیاں نوازے گا۔[11]
  • امام صادق(ع) سے مروی روایت کے مطابق اس سورت کی تلاوت کی وجہ سے اس کے قاری کو خداوند روز قیامت اس حال میں محشور کرے گا کہ وہ بہشتی سواری پر سوار ہو گا یہانتکہ وہ نور کے دسترخوان پر بیٹھ جائے گا۔[12]

بعض روایات میں اص کے خواص میں آیا ہے کہ یہ قلبی بیماریوں اور غذا کے زہریلے اثرات ختم کرتی ہے۔[13]




متن اور ترجمہ

سورہ قریش
ترجمہ
بِسْمِ اللَّـہِ الرَّ‌حْمَـٰنِ الرَّ‌حِيمِ

لِإِيلَافِ قُرَيْشٍ ﴿1﴾ إِيلَافِہِمْ رِحْلَةَ الشِّتَاء وَالصَّيْفِ ﴿2﴾ فَلْيَعْبُدُوا رَبَّ ہَذَا الْبَيْتِ ﴿3﴾ الَّذِي أَطْعَمَہُم مِّن جُوعٍ وَآمَنَہُم مِّنْ خَوْفٍ ﴿4﴾

(شروع کرتا ہوں) اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

چونکہ (اللہ نے) قریش کو مانوس کر دیا۔ (1) یعنی جاڑے اور گرمی کے تجارتی سفر سے مانوس کر دیا ہے۔ (2) تو ان کو چاہیے کہ اس گھر (خانۂ کعبہ) کے پروردگار کی عبادت کریں۔ (3) جس نے ان کو بھوک میں کھانے کو دیا اور خوف میں امن عطا کیا۔ (4)

پچھلی سورت: سورہ فیل سورہ قریش اگلی سورت:سورہ ماعون

1.فاتحہ 2.بقرہ 3.آل‌عمران 4.نساء 5.مائدہ 6.انعام 7.اعراف 8.انفال 9.توبہ 10.یونس 11.ہود 12.یوسف 13.رعد 14.ابراہیم 15.حجر 16.نحل 17.اسراء 18.کہف 19.مریم 20.طہ 21.انبیاء 22.حج 23.مؤمنون 24.نور 25.فرقان 26.شعراء 27.نمل 28.قصص 29.عنکبوت 30.روم 31.لقمان 32.سجدہ 33.احزاب 34.سبأ 35.فاطر 36.یس 37.صافات 38.ص 39.زمر 40.غافر 41.فصلت 42.شوری 43.زخرف 44.دخان 45.جاثیہ 46.احقاف 47.محمد 48.فتح 49.حجرات 50.ق 51.ذاریات 52.طور 53.نجم 54.قمر 55.رحمن 56.واقعہ 57.حدید 58.مجادلہ 59.حشر 60.ممتحنہ 61.صف 62.جمعہ 63.منافقون 64.تغابن 65.طلاق 66.تحریم 67.ملک 68.قلم 69.حاقہ 70.معارج 71.نوح 72.جن 73.مزمل 74.مدثر 75.قیامہ 76.انسان 77.مرسلات 78.نبأ 79.نازعات 80.عبس 81.تکویر 82.انفطار 83.مطففین 84.انشقاق 85.بروج 86.طارق 87.اعلی 88.غاشیہ 89.فجر 90.بلد 91.شمس 92.لیل 93.ضحی 94.شرح 95.تین 96.علق 97.قدر 98.بینہ 99.زلزلہ 100.عادیات 101.قارعہ 102.تکاثر 103.عصر 104.ہمزہ 105.فیل 106.قریش 107.ماعون 108.کوثر 109.کافرون 110.نصر 111.مسد 112.اخلاص 113.فلق 114.ناس


متعلقہ مآخذ

حوالہ جات

  1. ابن جوزی، المنتظم، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۲۲۶.
  2. ابن جوزی، المنتظم، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۲۲۸.
  3. ابن جوزی، المنتظم، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۲۲۸-۲۲۹.
  4. یاقوت حموی، معجم البلدان، ۱۹۹۵م، ج۴، ص۳۳۷؛ بلاذری،انساب الاشراف، ۱۹۹۶م، ج۱۱، ص۸۰.
  5. یاقوت حموی، معجم البلدان، ۱۹۹۵م، ج۴، ص۳۳۶.
  6. دانشنامہ قرآن و قرآن‌پژوہی، ۱۳۷۷ش، ج۲، ص۱۲۶۸.
  7. معرفت، آموزش علوم قرآن، ۱۳۷۱ش، ج۱، ص۱۶۶.
  8. دانشنامہ قرآن و قرآن‌پژوہی، ۱۳۷۷ش، ج۲، ص۱۲۶۸.
  9. نک: دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، ج۲، ص۱۲۹۶-۱۲۶۸
  10. علی‌بابایی، برگزیدہ تفسیر نمونہ، ۱۳۸۲ش،ج۵، ص۵۹۹.
  11. طبرسی، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، ترجمہ: بیستونی، آستان قدس رضوی، ج۱۰، ص۴۴۱
  12. شیخ صدوق، ثواب الاعمال و عقاب الاعمال، ۱۳۸۲ش، ص۱۲۶
  13. بحرانی، البرہان فی تفسیر القرآن، ۱۴۱۶ق، ج۵، ص۷۵۹

مآخذ

  • قرآن کریم، ترجمہ محمد حسین نجفی (سرگودھا)۔
  • دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، ج2، بہ کوشش بہاء الدین خرمشاہی، تہران: دوستان-ناہید، 1377ہجری شمسی۔