سورہ اخلاص

ویکی شیعہ سے
(112واں سورہ سے رجوع مکرر)
مسد سورۂ اخلاص فلق
ترتیب کتابت: 112
پارہ : 30
نزول
ترتیب نزول: 22
مکی/ مدنی: مکی
اعداد و شمار
آیات: 4
الفاظ: 15
حروف: 47

سورہ اخلاص یا توحید قرآن کریم کی 112ویں سورت ہے جو مکی سورتوں میں سے ہے اور 30ویں پارے میں واقع ہے۔ اس سورت کو اس لئے توحید یا اخلاص کا نام دیا گیا ہے کہ اس میں اللہ کی وحدانیت کا ذکر ہے اور انسان کو شرک سے نجات دیتی ہے۔

سورہ توحید کا مضمون توحید اور اللہ تعالی کی وحدانیت اور اللہ کا دوسروں سے بےنیازی اور مخلوقات کا اللہ کی طرف محتاج ہونا ہے۔ سورہ اخلاص کے لیے بہت ساری فضیلتیں بیان ہوئی ہے ان میں سے ایک یہ کہ سورہ اخلاص ایک تہائی قرآن کے حکم میں ہے اور تین مرتبہ تلاوت کرنا ختم قرآن کے برابر ہے۔ روایات میں اس سورہ کو یومیہ نمازوں میں پڑھنے کی بہت تاکید ہوئی ہے نیز ایک اور روایت کے مطابق پیغمبر اکرمؐ امام علیؑ کو سورہ اخلاص سے تشبیہ دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ جس طرح تین مرتبہ سورہ اخلاص کی تلاوت پورے قرآن کے مانند ہے اسی طرح امیرالمومنینؑ کے ساتھ دل، زبان اور ہاتھ سے (عمل) سے محبت کرنا پورا اسلام ہے۔

معرفی

حضرت معصومہؑ کے حرم میں ٹائل پر خط ثلث میں سورہ اخلاص کی معرق کاری
  • نام

یہ سورہ اخلاص اور توحید کے نام سے مشہور ہے۔[1]اس نام کی وجہ یوں بیان کی گئی ہے کہ چونکہ اس میں اللہ تعالی کو وحدانیت سے توصیف کی ہے تو اس لئے اسے توحید نام دیا گیا ہے[2] اور چونکہ اس میں انسان کے شرک سے خالص اور پاک کرتی ہے اور اس کے نتیجے میں انسان جہنم کی آگ سے بچ جاتا ہے، اسی وجہ سے اخلاص نام دیا گیا ہے۔[3]اسی طرح قدیمی منابع میں اس سورت کی پہلی آیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے سورہ «قل ہو اللہ احد» کا نام بھی دیا گیا ہے۔[4]سورہ اخلاص کے لیے بعض دوسرے نام بھی ذکر ہوئے ہیں؛ جیسے صمد، نجات، معرفت، اساس، تجرید، تفرید، برائت و مُشَقشَقہ.[5][یادداشت 1]

  • محل و ترتیب نزول

شیخ طبرسی سورہ اخلاص کو مکی سورتوں میں سے قرار دیتے ہوئے لکھتا ہے کہ اسی طرح اسے مدنی سورتوں میں سے شمار کیا ہے۔[6]اہل سنت کے عالم سیوطی بھی اس بات کا معتقد ہے کہ سورہ اخلاص دو مرتبہ نازل ہوئی ہے: ایک مرتبہ مکہ میں اور ایک مرتبہ مدینہ میں؛[7] لیکن علامہ طباطبایی لکھتا ہے کہ سورہ اخلاص کے شان نزول کے بارے میں بیان کئے جانے والے واقعات کے مطابق یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اس سورت کا مکی ہونا زیادہ صحیح ہے۔[8] ترتیب نزول کے مطابق سورہ اخلاص پیغمبر اکرمؐ پر نازل ہونے والی سورتوں میں 22ویں سورت ہے اور قرآن کے موجودہ مصحف میں 112ویں سورت کہلاتی ہے جو 30ویں پارے میں واقع ہے۔

  • آیات کی تعداد اور دیگر خصوصیات

سورہ اخلاص کی 4 آیات، 15 کلمات اور 47 حروف پر مشتمل ہے اور مفصلات سورتوں (چھوٹی آیات والی) میں شمار ہوتا ہے۔ سورہ اخلاص اور دیگر وہ سورتیں جو «قل» سے شروع ہوتی ہیں جیسے سورہ کافرون، ناس اور فلق ان کو چہار قل کہا جاتا ہے۔[9] سورہ اخلاص جو جمعی النزول سورتوں میں سے قرار دیا ہے یعنی وہ سورت جس کی تمام آیات ایک ہی دفعے میں نازل ہوئی ہیں۔[10]

مضامین

علامہ طباطبایی تفسیر المیزان میں لکھتے ہیں کہ سورہ اخلاص میں اللہ تعالی کی یوں تعریف ہوئی ہے کہ وہ احد ہے اور تمام موجودات اپنی تمام ضروریات میں اس کے محتاج ہیں اور کوئی بھی اس کی ذات، صفات یا افعال میں شریک نہیں ہے۔ یہ توحید قرآن سے مختص ہے اور تمام (اصولی، فرعی اور اخلاقی) معارف کا بنا انہی پر رکھا گیا ہے۔[11]

سورہ اخلاص کے مضامین[12]
 
 
توحید اور اللہ کی یکتائی کے ارکان
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
دوسرا نکتہ؛ آیہ ۳-۴
ذات اور صفات میں اللہ کا کوئی شریک نہ ہونا
 
پہلا نکتہ؛ آیہ ۱ - ۲
ذات اور صفات میں یکتائی
 
 
 
 
 
 
 
 
 
پہلا کلام؛ آیہ ۳
اللہ کی اولاد اور باپ نہ ہونا
 
کلام اول؛ آیہ ۱
اللہ کی یکتائی اور احد ہونا
 
 
 
 
 
 
 
 
 
دوسرا کلام؛ آیہ ۴
صفات میں اللہ کا کفو نہ ہونا
 
دوسرا کلام؛ آیہ ۲
اللہ کا بےنیاز اور بےہمتا ہونا


شأن نزول

سورہ اخلاص کے شان نزول کے بارے میں امام صادقؑ سے منقول ہے کہ یہودیوں کے ایک گروہ نے پیغمبر اکرمؐ سے اللہ کی صفات بیان کرنے کی درخواست کی۔ پیغمبر اکرمؐ تین دن تک خاموش رہے یہاں تک کہ سورہ اخلاص نازل ہوئی اور ان کا جواب بیان ہوا۔[13] بعض نے کہا ہے کہ یہ درخواست بعض مکہ کے مشرکوں کی طرف سے تھی۔[14]یا مدینہ کے اہل کتاب کی درخواست تھی،[15]یا کوئی اور افراد تھے۔[16]

سورہ اخلاص اور امام علیؑ کی منزلت

پیغمبر اکرمؐ کی ایک روایت میں امام علیؑ کو سورہ اخلاص سے تشبیہ دی ہے اور اس روایت میں کہا گیا ہے کہ لوگوں میں علی ابن ابی طالب کی حیثیت قرآن میں سورہ «قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ» جیسی ہے جس طرح سے کسی نے تین مرتبہ سورہ اخلاص کی تلاوت کی تو گویا اس نے پورے قرآن کی تلاوت کی ہے اسی طرح جو بھی امام علیؑ کو دل، زبان اور ہاتھ (عمل) سے محبت کرے تو گویا اس نے پورے اسلام سے محبت کی ہے۔ پیغمبر اکرمؐ اس حدیث کے آخر میں فرماتے ہیں کہ قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے رسالت پر مبعوث کیا، اگر زمین والے، آسمان والوں کی طرح علی کو چاہیں تو اللہ تعالی ان میں سے کسی کو بھی جہنم کا عذاب نہیں دے گا۔[17]

اہل سنت کے عالم دین قُندوزی نے بھی اس روایت کو اپنی کتاب ینابیع المودۃ میں نقل کیا ہے۔[18]اسی طرح اہل سنت کی دوسری کتابوں میں بھی امام علیؑ کی منزلت میں اسی مضمون جیسی روایات نقل ہوئی ہیں جن میں امام علی کو سورہ اخلاص سے تشبیہ دی ہے۔[19]

فضیلت اور خصوصیات

پیغمبر اکرمؐ اور امام باقرؑ سے منقول ہے کہ سورہ توحید ایک تہائی قرآن کے برابر ہے۔[20] [یادداشت 2] امام رضاؑ سے روایت ہے کہ جو بھی سورہ توحید پڑھے اور اس پر یقین بھی ہو تو گویا اس نے توحید (اللہ کی وحدانیت) کو پہچان لیا ہے۔[21]پیغمبر اکرمؐ سے بھی منقول ہے کہ اس سورت کو زیادہ پڑھیں کیونکہ یہ سورہ قرآن کا نور ہے۔[22]امام علیؑ سے منقول ہے کہ جس نے دن یا رات میں سورہ توحید اور سورہ قدر کی سو مرتبہ تلاوت کی، اس کے مرنے کے بعد اللہ اس کی قبر میں اس کے آگے اور پیچھے ایک نور قرار دے گا جو بہشت تک اس کے ساتھ ہوگا۔[23] امام صادقؑ کا بھی فرمان ہے کہ جو شخص پنجگانہ نمازیں پڑھے لیکن کسی ایک میں بھی سورہ توحید نہ پڑھے تو اسے کہا جائے گا کہ تم نمازیوں میں سے نہیں ہو۔[24]

روایی منابع میں اس سورہ کی قرائت کی بعض خصوصیات جیسے؛ آنکھ کے درد ختم ہونا[25]، سفر کے دوران انسان کی حفاظت (اگر گیارہ مرتبہ پڑھے)[26] اور اسی طرح سوتے ہوئے 50 فرشتے اس کی حفاظت پر مامور ہونا[27]، فقر اور تنگ دستی کو دور کرنا[28]اور گناہوں کی بخشش (اگر200 مرتبہ جمعہ کے دن یا رات میں دو رکعتی نماز میں پڑھے)[29]، اور اسی طرح استجابت دعا(اگر پہلی رکعت میں سورہ حمد کے بعد پڑھے)[30]ذکر ہوئی ہیں۔

سورہ توحید کی تلاوت

واجب نمازوں میں سورہ اخلاص کی تلاوت پر بہت تاکید ہوئی ہے۔ کہا گیا ہے کہ سوائے سورہ توحید کے دو رکعت نماز میں ایک ہی سورہ پڑھنا مکروہ ہے۔[31]اگر کوئی اور سورت نماز میں شروع کیا ہو اور ابھی نصف تک نہیں پڑھا ہو تو اسے چھوڑ کر کوئی اور سورت پڑھ سکتے ہیں سوائے سورہ اخلاص اور سورہ کافرون کے جن میں یہ اجازت نہیں بلکہ جب شروع کیا تو انہیں آخر تک پڑھنا ہوگا۔[32]

سورہ اخلاص کی تلاوت بہت ساری مستحب نمازوں جیسے؛ نماز شب کی پہلی دو رکعتیں،[33] نماز وتر،[34] صبح کی نافلہ نماز، ظہر اور مغرب کی نفل نماز کی پہلی رکعت، نماز احرام اوز نماز طواف[35] نیز اہل قبور کی زیارت کے وقت[36] اور عرفات میں وقوف کے دوران مستحب ہے۔[37]تاکید ہوئی ہے کہ قبرستان سے گزرتے ہوئے گیارہ مرتبہ سورہ اخلاص کی تلاوت کر کے مرحومین کو ہدیہ کیا جائے۔[38]

تالیفات

اس سورت کی تفسیر قرآن مجید کی مختلف تفاسیر میں ذکر ہونے کے علاوہ بعض مستقل تفسیر بھی اسی سورت پر لکھی گئی ہیں جیسے:

  1. تفسیر سورہ اخلاص[نسخہ خطی]، بقلم محمد‌ بن‌ اسعد صدیقی دوانی.[39]
  2. تفسیر سورہ اخلاص، بقلم امام موسی صدر، ترجمہ: مہدی فرخیان، ناشر: موسسہ فرہنگی تحقیقاتی امام موسی صدر، ۱۳۸۸ش.[40]

متن سورہ

سوره اخلاص
ترجمہ
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّ‌حْمَـٰنِ الرَّ‌حِيمِ

قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ ﴿1﴾ اللَّهُ الصَّمَدُ ﴿2﴾ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ ﴿3﴾ وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ ﴿4﴾

(شروع کرتا ہوں) اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

(اے رسول(ص)) آپ(ص) کہہ دیجئے! کہ وہ (اللہ) ایک ہے۔ (1) اللہ (ساری کائنات سے) بےنیاز ہے۔ (2) نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے۔ (3) اور اس کا کوئی ہمسر نہیں ہے۔ (4)

پچھلی سورت: سورہ مسد سورہ اخلاص اگلی سورت:سورہ فلق

1.فاتحہ 2.بقرہ 3.آل‌عمران 4.نساء 5.مائدہ 6.انعام 7.اعراف 8.انفال 9.توبہ 10.یونس 11.ہود 12.یوسف 13.رعد 14.ابراہیم 15.حجر 16.نحل 17.اسراء 18.کہف 19.مریم 20.طہ 21.انبیاء 22.حج 23.مؤمنون 24.نور 25.فرقان 26.شعراء 27.نمل 28.قصص 29.عنکبوت 30.روم 31.لقمان 32.سجدہ 33.احزاب 34.سبأ 35.فاطر 36.یس 37.صافات 38.ص 39.زمر 40.غافر 41.فصلت 42.شوری 43.زخرف 44.دخان 45.جاثیہ 46.احقاف 47.محمد 48.فتح 49.حجرات 50.ق 51.ذاریات 52.طور 53.نجم 54.قمر 55.رحمن 56.واقعہ 57.حدید 58.مجادلہ 59.حشر 60.ممتحنہ 61.صف 62.جمعہ 63.منافقون 64.تغابن 65.طلاق 66.تحریم 67.ملک 68.قلم 69.حاقہ 70.معارج 71.نوح 72.جن 73.مزمل 74.مدثر 75.قیامہ 76.انسان 77.مرسلات 78.نبأ 79.نازعات 80.عبس 81.تکویر 82.انفطار 83.مطففین 84.انشقاق 85.بروج 86.طارق 87.اعلی 88.غاشیہ 89.فجر 90.بلد 91.شمس 92.لیل 93.ضحی 94.شرح 95.تین 96.علق 97.قدر 98.بینہ 99.زلزلہ 100.عادیات 101.قارعہ 102.تکاثر 103.عصر 104.ہمزہ 105.فیل 106.قریش 107.ماعون 108.کوثر 109.کافرون 110.نصر 111.مسد 112.اخلاص 113.فلق 114.ناس


حوالہ جات

  1. دائرۃ المعارف قرآن کریم، ج۲، ص۳۵۵ـ۳۵۶.
  2. طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، ۱۳۷۴ش، ج۲۰، ص۳۸۷.
  3. طبرسی، تفسیر مجمع البیان، ج۱۰، ص۴۷۹.
  4. دائرۃ المعارف قرآن کریم، ج۲، ص۳۵۵ـ۳۵۶.
  5. دانش نامہ قرآن و قرآن پژوہی، ج۲، ص۱۲۷۰و۱۲۷۱
  6. طبرسی، تفسیر مجمع البیان، جلد۱۰، ص۴۷۹.
  7. سیوطی، الإتقان فی علوم القرآن، ۱۳۷۶ش، ج۱، ص۱۴۰.
  8. طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، ۱۳۷۴ش،‌‌ ج۲۰، ص۳۸۷.
  9. دانش نامہ قرآن و قرآن پژوہی، ج۲، ص۱۲۷۰و۱۲۷۱.
  10. سیوطی، الإتقان فی علوم القرآن، ۱۳۷۶ش، ج۱، ص۱۴۵.
  11. طباطبایی، المیزان، ترجمہ، ۱۳۷۴ش، ج۲۰، ص۶۶۹.
  12. خامہ‌گر، محمد، ساختار سورہ‌ہای قرآن کریم، تہیہ مؤسسہ فرہنگی قرآن و عترت نورالثقلین، قم، نشر نشرا، چ۱، ۱۳۹۲ش.
  13. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ج ۲۷، ص۴۲۸.
  14. ابو‌الفتوح رازی، روض الجنان و روح الجنان فی تفسیر القرآن، ج ۲۰، ص۴۶۵.
  15. سیوطی، الإتقان فی علوم القرآن، ۱۳۷۶ش، ج۱، ص۱۴۰.
  16. سیوطی، الدر المنثور فی التفسیر بالماثور، ج ۶، ص۴۱۱-۴۱۰.
  17. علامہ حلی، کشف الیقین، ۱۴۱۱ق، ص۲۹۸.
  18. قندوزی، ینابیع المودۃ، ۱۴۱۶ق، ج۱، ص۳۷۶.
  19. مراجعہ کریں: ابن‌شاہین بغدادی، جزء من حدیث ابن شاہین، ص۳۴۰-۳۴۱؛ ابن‌مغازلی، مناقب أمیرالمؤمنین علی بن ابی‌طالب، ۱۴۲۴ق، ص۱۰۸.
  20. سیوطی، الدرالمنثور، ج‌۸، ص‌۶۷۸تا۶۸۰؛ قطب راوندی، الدعوات، مدرسہ امام مہدی، ص۲۱۷.
  21. شیخ صدوق، عیون اخبارالرضا، ۱۴۰۴ق، ج۲، ص۱۲۲.
  22. قطب راوندی، الدعوات، مدرسہ امام مہدی، ص۸۴.
  23. قطب راوندی، الدعوات، مدرسہ امام مہدی، ص۲۱۹.
  24. کلینی، اصول کافی، ج۲، ص۴۵۵.
  25. بحرانی، تفسیرالبرہان، ۱۴۱۶ق، ج۵، ص۷۹۸.
  26. قطب راوندی، الدعوات، مدرسہ امام مہدی، ص۲۹۵.
  27. طبرسی، مکارم الاخلاق، ۱۳۷۷ش، ص۲۸۹.
  28. شیخ صدوق، خصال، ۱۴۰۳ق، ص۶۲۶.
  29. طوسی، مصباح المتہجد، ۱۴۱۱ق، ص۲۶۱.
  30. شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۳۱۵.
  31. حکیم، مستمسک العروہ، دار التفسیر، ج‌۶، ص‌۲۸۵.
  32. کلینی، اصول كافى، ج‌۳، ص‌۳۱۷.
  33. نجفی، جواهرالکلام، ۱۴۱۷ق، ج۹، ص۴۱۴.
  34. طوسی، الخلاف، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۵۳۸.
  35. نجفی، جواهرالکلام، ۱۴۱۷ق، ج۹، ص۴۱۲.
  36. کاشف الغطاء، کشف الغطاء، ۱۴۲۲ق، ج۲، ص۳۰۰.
  37. نجفی، جواهر الکلام، ۱۴۱۷ق، ج۱۹، ص۵۲.
  38. حویزی، تفسیر نور الثقلین، ۱۳۸۳ق، ج۵، ص۷۰۲.
  39. سازمان اسناد و کتابخانہ ملی ایران
  40. موسسہ فرہنگی تحقیقاتی امام موسی صدر

نوٹ

  1. ان ناموں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ: صمد: جو کہ دوسری آیت میں آیا ہے اور اس کا بہت اہم معنی ہے جن میں سے: جس کی طرف سب محتاج ہیں اور اس سے بالاتر کوئی نہیں ہے نجات: کا نام اس لئے دیا گیا ہے کہ اس سورت کے مضامین انسان کو جہنم کی آگ سے نجات دیتے ہیں۔ معرفت: اس لئے کہا گیا ہے کہ یہ سورت اللہ کی معرفت، پہچان اور اس کی صفات کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ اساس: اس لئے کہا گیا ہے کہ اس میں اسلام کی اساس اور بنیاد یعنی توحید اور اللہ کی صفات کے بارے میں بات کی ہے۔ تجرید: کا معنی مجرد اور خالی بنانا ہے اور اس سورت میں اللہ تعالی کو عیوب، ترکیب اور مادی آثار سے تجرید اور تبرئہ اور دور کیا ہے۔ تفرید: کا معنی اس کو ایک ماننا ہے۔ برائت: اس لئے کہا گیا ہے کہ خداشناسی میں انسانی عقائد کو تمام وہم و گمان، انحرافات اور اشتباہات سے پاک کرتا ہے۔ مُشَقشَقہ: یہ سورہ کافرون، ناس اور فلق کا نام بھی ہے اس کا معنی وہ کلام ہے جو حساس موقعے پر انسان کی زبان سے نکلتی ہے۔ (دانش نامہ قرآن و قرآن پژوہی، ج۲، ص۱۲۷۰و۱۲۷۱)
  2. سورہ اخلاص کا ایک تہائی قرآن کے برابر ہونے کو روایات میں کئی صورتوں میں بیان کیا ہے: 1۔اگر کسی نے تلاوت کی تو گویا اس نے ایک تہائی قرآن کی تلاوت کی۔ 2۔ سورہ قل ہو اللہ قرآن کا ایک تہائی حصہ ہے۔ 3۔ سورہ قل ہو اللہ قرآن کے ایک تہائی حصے کی طرح ہے۔ (مراجعہ کریں: بحرانی، البرہان، ۱۴۱۵ق، ج۵، ص۷۹۳ـ۸۰۰)

مآخذ

  • قرآن کریم، ترجمہ محمد حسین نجفی (سرگودھا)۔
  • دانش نامہ قرآن و قرآن پژوہی، ج2، بہ کوشش بہاء الدین خرم شاہی، تہران: دوستان-ناہید، 1377ہجری شمسی۔
  • ابن مغازلی، علی بن محمد، فضائل الامام علی بن ابی‌طالب، بیروت، دار الاضواء، ۱۴۲۴ھ.
  • بحرانی، سید ہاشم، البرہان، تہران، بنیاد بعثت، ۱۴۱۶ھ.
  • حکیم، سیدمحسن، مستمسک العروۃ الوثقی، قم، دار التفسیر.
  • حویزی، عبدعلی بن جمعہ، تفسیر نور الثقلین، بہ تصحیح ہاشم رسولی، قم، نشر اسماعیلیان، چاپ چہارم، ۱۴۱۵ھ.
  • دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، ج2، بہ کوشش بہاء الدین خرمشاہی، تہران: دوستان-ناہید، ۱۳۷۷شمسی.
  • دائرۃ المعارف قرآن کریم، تہیہ و تدوین: پژوہشگاہ علوم و فرہنگ اسلامی، مرکز فرہنگ و معارف قرآن، قم، مؤسسہ بوستان کتاب، ۱۳۸۲شمسی.
  • رازی، حسین بن علی، روض الجنان و روح الجنان فی تفسیر القران، مشہد، بنیاد پژوہشہای اسلامی آستان قدس رضوی.
  • سیوطی، جلال الدین عبدالرحمن، الاتقان فی علوم القرآن، تصحیح: محمد ابوالفضل ابراہیم، تہران، نشر امیرکبیر، ۱۳۷۶شمسی.
  • سیوطی، جلال الدین عبدالرحمن، الدر المنثور فی التفسیر بالمأثور، قم، کتابخانہ آیت‌اللہ مرعشی نجفی، چاپ اول، ۱۴۰۴ھ.
  • شیخ صدوق، کتاب من لایحضرہ الفقیہ، تصحیح: علی اکبر غفاری، دفتر انتشارات اسلامی، قم، چ: دوم، ۱۴۱۳ھ.
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، الخصال، تصحیح علی اکبر غفاری، جامعہ مدرسین، ۱۴۰۳ھ.
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، عیون أخبار الرضا(ع)، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، ۱۴۰۴ھ.
  • طباطبایی، سیدمحمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ترجمہ سیدمحمدباقر موسوى ہمدانی، قم، دفتر انتشارات اسلامى جامعہ‌ مدرسين حوزہ علميہ قم‏، چ۵، ۱۳۷۴شمسی.
  • طبرسی، حسن بن فضل، مکارم الاخلاق، قم، شریف رضی، ۱۳۷۷شمسی.
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، ترجمہ بیستونی، مشہد، آستان قدس رضوی، ۱۳۹۰شمسی.
  • طوسی، محمد بن حسن، الخلاف فی الاحکام، قم، جامعہ مدرسین، ۱۴۰۷ھ.
  • طوسی، محمد بن حسن، مصباح المتہجد، بیروت، مؤسسہ فقہ الشیعۃ، ۱۴۱۱ھ.
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، کشف الیقین فی فضائل امیرالمؤمنین، بہ تحقیق حسین درگاہی، تہران، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، ۱۴۱۱ھ.
  • قطب راوندی، سعید بن ہبۃ اللہ، الدعوات، بہ تحقیق مدرسہ امام مہدی، قم، نشر مدرسہ امام مہدی.
  • قندوزی، سلیمان بن ابراہیم، ینابیع المودۃ لذوی القربی، بہ تحقیق علی حسینی، قم، دار الاسوہ، ۱۴۱۶ھ.
  • کاشف الغطاء، جعفر، کشف الغطاء عن مبہمات الشریعۃ الغراء، قم، انتشارات دفتر تبلیغات اسلامی حوزہ علمیہ قم، ۱۴۲۲ھ.
  • معرفت، محمدہادی، آموزش علوم قرآن، [بی‌جا]، مرکز چاپ و نشر سازمان تبلیغات اسلامی، چ۱، ۱۳۷۱شمسی.
  • مكارم شيرازی، ناصر، تفسیر نمونہ،‌ تہران، دارالکتاب الاسلامیہ،‌ ۱۳۷۴شمسی.
  • نجفی، محمدحسن، جواہرالکلام‌ فی‌ شرح‌ شرائع‌ الاسلام‌، قم، ‌۱۴۱۷ھ.

بیرونی روابط