مندرجات کا رخ کریں

بیعت عقبہ

ویکی شیعہ سے

بیعت عَقَبہ، ہجرت سے پہلے رسول خدا ساتھ یثرب والوں کی دو بیعتوں کی طرف اشارہ ہے۔ ان معاہدوں کے تحت یثرب کے کچھ لوگ نے پیغمبر اکرمؐ سے عہد کیا کہ وہ اللہ کی عبادت کریں گے، گناہوں سے دوری اختیار کریں گے اور ہر حالت میں رسول خداؐ کی حمایت کریں گے۔ اور پیغمبر اسلامؐ کی مدینہ ہجرت کے بعد، آپؐ کی جان اور خاندان کی حفاظت کریں گے۔ یہ دونوں بیعتیں اس مقام کی وجہ سے جہاں پر یہ منعقد ہوئیں، "بیعت عقبہ" کے نام سے مشہور ہیں۔

پہلی بیعت عقبہ میں، قبیلہ اوس و خزرج کے 12 افراد نے بعثت کے بارہویں سال پیغمبر اکرمؐ کی بیعت کی۔ اس بیعت کے بعد، پیغمبر اکرمؐ نے مصعب بن عمیر کو مدینہ بھیجا تاکہ وہ انہیں اسلام کی تعلیم دے سکے۔ تاریخی کتابوں کے مطابق دوسری بیعت عقبہ میں یثرب کے باشندوں میں سے تقریباً ستر مرد اور دو عورتیں پیغمبر اکرمؐ کی بیعت کرتے ہیں اور یہودیوں کے ساتھ منعقد پہلے معاہدوں کو توڑ کر پیغمبر اکرمؐ سے درخواست کرتے ہیں کہ فتح کے بعد انہیں اکیلا نہ چھوڑیں۔ دوسری بیعت میں، یثرب کے بارہ باشندوں (نو خزرج سے اور تین اوس سے) کو بطور نقیب منتخب کیے جاتے ہیں تاکہ مسلمانوں کے امور کو سنبھال سکیں۔

بعض مفسرین سورہ احزاب کی آیت نمبر 15 اور 23 نیز سورہ مائدہ آیت نمبر 7 کو ان معاہدوں کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں۔

بیعت کی نوعیت

[1] کو کہا جاتا ہے کہ جس کے ذریعے پہاڑ کی بلندی کی طرف جایا جاتا ہے۔[2] پیغمبر اور یثرب کے لوگوں کے درمیان ہونے والی دونوں بیعتیں منا اور مکہ کے درمیان منا کے نزدیک واقع ہوئی اسی لئے اسی وجہ سے بیعت عقبہ کے نام سے مشہور ہیں۔ یہ مقام مکہ سے تقریبا 25 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔[3]

بیعت عقبہ دو معاہدوں کو کہا جاتا ہے جو بعثت کے بارہویں اور تیرہویں سال یثرب کے کچھ لوگوں اور پیغمبر اسلامؑ کے درمیان منعقد ہوئے۔[4] یہ معاہدے اس مقام کی مناسبت سے جہاں پر یہ منعقد ہوئے"بیعت عقبہ" کے نام سے مشہور ہیں۔[5][یادداشت 1] ایک اور نقل کے مطابق یہ معاہدے سرزمین منا میں منعقد ہوے[6]، لیکن چونکہ دوسرا معاہدہ پہلے معاہدے کے بعد ہوا، اس لیے اسے "بیعت عقبہ" کہا گیا۔[7]

مورخین کے مطابق پیغمبر اسلامؐ نے بعثت کے گیارہویں سال حج کے موسم[8] میں قبیلہ خزرج کے چھ افراد سے ملاقات کی۔[9] ایک اور روایت کے مطابق ان میں سے پانچ خزرج کے اور ایک قبلیہ اوس سے تعلق رکھتا تھا۔[10] پیغمبر اکرمؐ نے اپنی نبوت اور رسالت ان کے سامنے پیش کی،[11] انہیں اسلام کی دعوت دی اور ان کے سامنے قرآن کی تلاوت کی۔[12] ان لوگوں نے پیغمبر اکرمؐ کی نبوت کو تسلیم کیا، مسلمان ہوئے،[13] اور اوس و خزرج قبائل کے درمیان اختلافات کو مدنظر رکھتے ہوئے پیغمبر کو مشورہ دیا کہ وہ مکہ میں قیام کرے اور اگلے سال حج کے موسم حج میں ان سے ملاقات کرے تاکہ وہ اپنی قوم کو اسلام کی دعوت دے سکے۔[14]

بیعت اول عقبہ

تاریخی مصادر کے مطابق بعثت کے بارہویں سال حج کے موسم میں اوس اور خزرج کے بارہ افراد نے عقبہ کے مقام پر پیغمبر اسلامؐ سے ملاقات اور آپ کی بیعت کی۔[15] کتاب وقایع السنین کے مطابق بعض منابع میں اس بیعت میں شرکت کرنے والے افراد کی تعداد سولہ(16) تک بھی بیان کی گئی ہے۔[16]

کہا جاتا ہے کہ قبیلہ خزرج سے اسعد بن زرارہ، عوف بن حارث اور ان کے بھائی معاوض، ذکوان بن عبدقیس، رافع بن مالک، عبادہ بن صامت، ابو عبدالرحمن یزید بن ثعلبہ، عباس بن عبادہ بن نضلہ، عقبہ بن عامر بن نابی، قطبہ بن عامر بن حدیدہ، اور قبیلہ اوس سے ابو ہیثم بن تہیان اور عویم بن ساعدۃ اس بیعت میں شامل تھے۔[17]

بیعت اول عقبہ کے مفادات میں اللہ کی عبادت کرنا اور کسی کو ان کا شریک نہ ٹہرانا، چوری، زنا اور بچوں کو قتل کرنے سے دوری اختیار کرنا، جھوٹ اور بے بنیاد الزام سے پرہیز کرنا اور نیک کاموں میں پیغمبر اکرمؐ کی اطاعت کرنا شامل تھا۔ منابع میں آیا ہے کہ اس بیعت پر ثابت قدم رہنے کی صورت میں انہیں بہشت کا وعدہ دیا جاتا ہے، اور اس کی مخالفت کرنے کی صورت میں ان کو بخش دینا یا انہیں سزا دینا کا اختیار صرف خدا کے ہاتھ میں ہے۔[18] تاریخی کتابوں میں اس بیعت کو بیعت اول عقبہ[19] اور بیعت النساء بھی کہا جاتا ہے۔[20]

مورخین کے مطابھ، یثرب کے لوگوں کے واپس جانے کے بعد، پیغمبر اسلام نے مصعب بن عمیر کو قرآن کی تعلیم، نماز کا قیام اور دین کی تعلیم کے لیے یثرب بھیجا۔[21] کہا جاتا ہے کہ مصعب بن عمیر کا یثرب بھیجنا بیعت دوم عقبہ کے بعد ہوا تھا۔[22]

بیعت دوم عقبہ اور یہودیوں سے معاہدے کا خاتمہ

بعثت کے تیرہویں سال حج موسم میں یثرب کے تقریباً ستر مرد اور دو عورتیں[23] مصعب بن عمیر کے ساتھ مکہ گئے اور ایام تشریق کے درمیان عقبہ کے مقام پر پیغمبر اسلامؐ کی بیعت کی۔[24] اس بیعت کو "بیعت دوم عقبہ" یا "بیعۃ الحرب" کہا جاتا ہے۔[25] کہا جاتا ہے کہ امام علیؑ اور حمزہ عقبہ کے مقام پر حضورؐ کی حفاظت پر مأمور تھے،[26] اور عباس بن عبدالمطلب بھی پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ موجود تھے۔[27]

بیعت عقبہ دوم میں یثرب کے مسلمانوں نے عہد کیا کہ وہ مشکل اور آسان دونوں حالات میں پیغمبر کی اطاعت کریں گے، غربت اور امیری ہر صورت میں انفاق کریں گے، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیں گے، حق بات کہنے میں دوسروں کی ملامت کی پروا نہیں کریں گے۔[28] اسی طرح انہوں نے یہ عہد بھی کیا کہ پیغمبر اکرمؐ کی مدینہ ہجرت کے وقت، وہ اپنی جان اور اولاد کی طرح ان کی حفاظت کریں گے، جس کا اجر اور ثواب جنت اور بہشت کو قرار دیا گیا۔ دوسری طرف، یثرب والوں نے یہودیوں کے ساتھ اپنے پچھلے معاہدوں کو ختم کرتے ہوئے پیغمبر اکرمؐ سے درخواست کی کہ فتح کے بعد انہیں تنہا نہ چھوڑا جائے۔ پیغمبر اکرمؐ نے جواب دیا: "میرا خون تمہارا خون ہے، اور میری عزت تمہاری عزت ہے۔ میں تم سے ہوں اور تم میرے ہو۔ جس سے تم جنگ کرو گے، اس سے میری بھی جنگ ہو گی، اور جس سے تم صلح کرو گے، میں بھی اس سے صلح کروں گا۔"[29]

بیعت عقبہ دوم کے بعد، یثرب کے بارہ افراد (نو خزرج اور تین اوس) نقیب کے طور پر منتخب کیے گئے تاکہ مسلمانوں کے امور کو سنبھالیں، اور پیغمبر اکرمؐ نے انہیں حضرت عیسیٰ کے حواریوں کی مانند اپنی قوم کا ذمہ دار قرار دیا۔[30] بعثت کے بعد یثرب کے تین افراد پیغمبر کے ساتھ مکہ میں رہے اور ہجرت کے وقت ان کے ساتھ مدینہ ہجرت کی، جنہیں تاریخی مصادر میں "مہاجر انصار" کہا جاتا ہے۔[31]

تفسیر مقاتل بن سلیمان کے مطابق سورہ احزاب آیت نمبر 23 میں مذکور "رجال" بیعت عقبہ دوم کے شرکاء کی طرف اشارہ ہے۔[32] اسی طرح، سورہ مائدہ آیت نمبر 7 میں "میثاق" بھی بیعت عقبہ کے شرکاء کی طرف اشارہ ہے۔[33] اور سورہ توبہ آیت نمبر 100 میں لفظ "انصار" بیعت عقبہ اول اور دوم کے شرکاء کی طرف اشارہ ہے۔[34] مذہب شافعی کے مفسر آلوسی نے کتاب روح المعانی میں سورہ احزاب آیت نمبر 15 کو اس عہد کی طرف اشارہ قرار دیا ہے جو جنگ بدر یا ہجرت سے پہلے عقبہ میں پیغمبر کے ساتھ منعقد ہوا تھا۔[35]

متعلقہ صفحات

حوالہ جات

  1. لسان العرب، ج1، ص621
  2. لسان العرب، ج1، ص621
  3. یاقوت حموی، ج 3، ص 692ـ693۔
  4. ابن‌ہشام، السیرۃ النبویۃ، دار المعرفۃ، ج1، ص438-431۔
  5. بلاذری، أنساب الأشراف، 1417ھ، ج1، ص275۔
  6. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج1، ص218۔
  7. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج1، ص170۔
  8. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج1، ص170؛ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج19، ص23۔
  9. مقریزی، امتاع الأسماع، 1420ھ، ج1، ص50۔
  10. ابن‌شہرآشوب، مناقب آل‌أبی‌طالب، 1379ھ، ج1، ص174۔
  11. ابن‌أثیر، الکامل فی التاریخ، 1385ھ، ص96-95۔
  12. مقریزی، امتاع الأسماع، 1420ھ، ج1، ص50۔
  13. مقریزی، امتاع الأسماع، 1420ھ، ج1، ص50۔
  14. ابن‌أثیر، الکامل فی التاریخ، 1385ھ، ص96-95۔
  15. ابن‌ہشام، السیرۃ النبویۃ، دار المعرفۃ، ج1، ص431؛ ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج1، ص170۔
  16. حسینی‌ خاتون‌آبادی، وقایع السنین والاعوام، 1352ش، ج1، ص53۔
  17. ابن‌حیان، الثقات، 1393ھ، ج1، ص94؛ ابن‌عبدالبر، الدرر فی اختصار المغازی والسیر، 1415ھ، ص67؛ ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج1، ص170۔
  18. ابن‌ہشام، السیرۃ النبویۃ، دار المعرفۃ، ج1، ص433۔
  19. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج1، ص170۔
  20. طبری، تاریخ الطبری، 1387ھ، ج2، ص355؛ ابن‌شہرآشوب، مناقب آل‌أبی‌طالب، 1379ھ، ج1، ص174۔
  21. ذہبی، تاریخ الاسلام، 1409ھ، ج1، ص293۔
  22. بلاذری، أنساب الأشراف، 1417ھ، ج1، ص239۔
  23. ابن‌ہشام، السیرۃ النبویۃ، دار المعرفۃ، ج1، ص466۔
  24. ابن‌ہشام، السیرۃ النبویۃ، دار المعرفۃ، ج1، ص459-458؛ ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج1، ص172-171۔
  25. ابن‌ہشام، السیرۃ النبویۃ، دار المعرفۃ، ج1، ص454۔
  26. قمی، تفسیر القمی، 1404ھ، ج1، ص273۔
  27. ابن‌ہشام، السیرۃ النبویۃ، دار المعرفۃ، ج1، ص441۔
  28. ابن‌ہشام، السیرۃ النبویۃ، دار المعرفۃ، ج1، ص447؛ ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج1، ص173۔
  29. بیہقی، دلائل النبوۃ و معرفۃ أحوال صاحب الشریعۃ، 1405ھ، ج2، ص442۔
  30. بلاذری، أنساب الأشراف، 1417ھ، ج1، ص252۔
  31. ابن‌ہشام، السیرۃ النبویۃ، دار المعرفۃ، ج1، ص465-460۔
  32. مقاتل بن سلیمان، تفسیر مقاتل بن سلیمان، 1423ھ، ج3، ص484۔
  33. زمخشری، الکشاف، 1418ھ، ج2، ص212۔
  34. شاہ‌عبدالعظیمی، تفسیر اثنی عشری، 1363ش، ج5، ص185۔
  35. آلوسی، روح المعانی، 1415ھ، ج11، ص159۔

نوٹ

  1. عَقَبہ لغت میں پہاڑی گھاٹی کو کہا جاتا ہے (قرشی، قاموس، 1412ھ، ج5، ص23.) کہا جاتا ہے کہ مکہ سے عقبہ کا فاصلہ تقریبا 5 کیلو میٹر ہے(یاقوت حموی، معجم البلدان، 1965م، ج3، ص692-693.)

مآخذ

  • آلوسی، محمود بن عبداللہ، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم والسبع المثانی، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، 1415ھ۔
  • ابن‌أثیر جزری، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، بیروت، دار صادر، 1385ھ۔
  • ابن‌حیان، محمد بن حیان، کتاب الثقات، تحقیق محمد عبد المعید خان، حیدر آباد، نشر وزارۃ المعارف للحکومۃ العالیۃ الہندیۃ، 1393ھ۔
  • ابن‌سعد، محمد بن سعد، الطبقات الکبری، تحقیق محمد عبدالقادر عطا، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، 1410ھ۔
  • ابن‌شہر‌آشوب، محمد بن علی، مناقب آل‌أبی‌طالب(ع)، قم، انتشارات علامہ، چاپ اول، 1379ھ۔
  • ابن‌عبدالبر، یوسف بن عبداللہ، الدرر فی إختصار المغازی والسیر، تحقیق شوقی ضیف، قاہرہ، وزارۃ الاوقاف المجلس الاعلی للشئون الاسلامیہ، 1415ھ۔
  • ابن‌ہشام، عبدالملک بن ہشام، السیرۃ النبویۃ، تصحیح مصطفی سقا، بیروت، دار المعرفۃ، بی‌تا۔
  • بلاذری، احمد بن یحیی، کتاب جمل من انساب الاشراف، تحقیق سہیل زکار و ریاض الزرکلی، بیروت، دار الفکر، 1417ھ۔
  • بیہقی، احمد بن حسین، دلائل النبوۃ ومعرفۃ أحوال صاحب الشریعۃ، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، 1405ھ۔
  • حسینی خاتون‌آبادی، عبدالحسین، وقایع السنین والأعوام، گزارش‌ہای سالیانہ از تاریخ خلقت حضرت آدم(ع) تا سال 1195 ہجری، تہران، کتابفروشی اسلامیہ، 1352ہجری شمسی۔
  • ذہبی، محمد بن احمد، تاریخ الاسلام ووفیات المشاہیر والأعلام، تحقیق عمر عبدالسلام تدمری، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، 1409ھ۔
  • زمخشری، محمود بن عمر، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل وعیون الأقاویل فی وجوہ التأویل، ریاض، مکتبۃ العبیکان، 1418ھ۔
  • شاہ‌عبدالعظیمی، حسین، تفسیر إثنی عشری، تہران، نشر میقات، 1363ہجری شمسی۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری: تاریخ الامم والملوک، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم، بیروت، 1387ھ۔
  • قرشی، سید علی‌اکبر، قاموس قرآن، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، 1412ھ۔
  • قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، تصحیح و مقدمہ سید طیب موسوی جزایری، قم، مؤسسۃ دار الکتاب للطباعۃ و النشر، چاپ سوم، 1404ھ۔
  • مجلسی، محمدباقر، بحار الأنوار الجامعۃ لدرر الأخبار الأئمۃ الأطہار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ دوم، 1403ھ۔
  • مقاتل بن سلیمان، تفسیر مقاتل بن سلیمان، تحقیق محمود عبداللہ شحاتہ، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ اول، 1423ھ۔
  • مقریزی، احمد بن علی، إمتاع الأسماع بما للنبي صلى اللہ عليہ وسلم من الأحوال والأموال والحفدۃ والمتاع، تحقیق محمد عبدالحمید نمیسی، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، چاپ اول، ص1420ھ۔
  • یاقوت حموی، یاقوت بن عبداللہ، معجم البلدان، تصحیح فردیناند وویتنفلد، فرانکفورت، معہد تاریخ العلوم العربیۃ والإسلامیۃ، 1994ء۔

بیرونی ربط

مقالے کا مآخذ: دانشنامہ جہان اسلام، بیعت عقبہ، سید جعفر شہیدی